از طرف۔ حنا خراسانی رضوی
السلام و علیکم و آداب عرض ہے!
”ورثہ“ کی جانب سے اپنی میزبان حنا خراسانی رضوی کا سلام و آداب قبول کیجئے۔
قارئین گرامی! مصرسے ملنے والی بارہویں صدی قبل مسیح کی ایک تحریر کے ایک حصے میں یوں بیان کیا گیاہے کہ ”وہ اہلِ قلم۔۔۔۔ اُن کے نام آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ گو انہوں نے اپنے لئے اہرام نہیں بنائے اور نہ اس قابل ہوئے کہ اپنی اولاد کے لئے دولت چھوڑ جاتے لیکن ان کی وارث ان کی تحریریں تھیں جن میں دانائی کی باتیں لکھی تھیں۔۔۔پس یاد رکھو تمہیں بھی تحریر کا علم حاصل کرنا ہوگا کیونکہ کتاب عالی شان مقبرے سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔“(ماضی کے مزار، سبطِ حسن، دوسرا ایڈیشن)
میری اس تمہید کا مقصد تاریخ مصر پر گفتگو نہیں بلکہ بیان مقصودیہ ہے کہ اس شمارے میں ہم آپ کی ملاقات جس باکمال شخصیت سے کروا رہے ہیں وہ آج کی سرزمین مصر کے ایک صاحب قلم فرزند ہیں جو اپنے نام نامی ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب زمانِ حال میں مصر کی مشہورعالم یونیورسٹی جامعہ الازہر کے فیکلٹی آف ہیومنیٹیز کے شعبہ اُردو کے لڑکیوں کے کیمپس کے صدر شعبہ اُردوکے عہدے پر فائز ہیں۔آپ جہاں تصنیف و تالیف سے شغفِ خاص رکھتے ہیں وہیں تراجم کے میدان میں بھی گرانقدر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔آپ اُردو اور عربی زبانوں کی کئی کتابوں کے ترجمے نہ صرف خود پیش کرچکے ہیں بلکہ اپنی نگرانی میں اپنے شاگردوں سے بھی بخوبی اس کام کی انجام دہی کرواتے ہیں۔ اُردو زبان کی خاطر کی گئی آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے آپ کو ”تمغہ امتیاز“ سے سرفراز کیا ہے۔ ہم اپنے معزّز مہمان کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔السلام علیکم ڈاکٹر ابراہیم صاحب۔ کیسے مزاج ہیں آپ کے؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم۔۔۔ علیکم السلام رحمۃاللہ و برکاتہ۔ الحمد للہ خیریت سے ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ ڈاکٹر صاحب یوں تو دنیائے ادب اُردو میں آپ کی شخصیت اور آپ کے ادبی کارہائے نمایاں سے سب ہی واقف ہیں اور یقیناً یہ ہماری آج کی گفتگو کا سیر حاصل حصہ بھی رہے گا لیکن ابتداً ہم آپ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں گے؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔ میں مصر کے گورنریٹ(دقہلیہ) کے شہر(السنبلاوین) میں ۲۶۹۱ء میں ایک زمیندار فیملی میں پیدا ہوا۔ چار سال کی عمر میں حفظ قرآن کی غرض سے مکتب میں داخل کیا گیا پھر چھ سال کی عمر میں ا سکول میں داخلہ ہوا۔ دس سال کی عمر میں پورا قرآن حفظ کرنے اور الا ازہر کے سالانہ مقابلے میں جیتنے پر منصورہ الاازہر انسٹیٹیوٹ میں داخلہ ملا۔ اسی انسٹیٹیوٹ سے میں نے ۹۷۹۱ء میں میٹرک پاس کیااورپھر اسی سال میں نے الازہر یونیورسٹی، فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ ٹرانسلیشن کے شعبہ اُردو میں داخلہ لیا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ اور کیا یہی وہ زمانہ تھا جب اُردو زبان سے آپ کا تعلق پیدا ہوا؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔اُردو زبان سے میرا تعلق پہلی دفعہ ۹۷۹۱ء میں ہوا جب میں نے الازہر یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ شروع میں مجھے فرنچ ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ ملا جبکہ میں انگلش پڑھنا چاہتا تھا۔ میں کسی وجہ سے فرنچ ڈیپارٹمنٹ میں پڑھنا نہیں چاہتا تھا۔ بہرحال میں نے بہت کوشش کی کہ انگلش یا جرمن ڈیپارٹمنٹ میں مجھے داخلہ مل جائے لیکن ایساہو نہ سکا۔ اس سال یعنیٰ ۹۷۹۱ء میں فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ ٹرانسلیشن میں ایک نئے شعبے کا افتتاح ہوا۔ یہ شعبہ اُردو تھا جس کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔ نہ مجھے معلوم تھا کہ اُردو کیا چیز ہے اور نا یہ کہ یہ کس ملک کی زبان ہے۔ میں تو اس چکر میں تھا کہ انگلش یا جرمن پڑھوں۔تو میں نے ڈائریکٹر آف فیکلٹی سے پوچھا کہ پڑھوں کیا؟ تو انہوں نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہا ”ایسے دروازے کو کھٹکھٹائیں جہاں آپ سے پہلے کسی نے نہ کھٹکھٹایا ہو۔‘‘ مطلب پوچھنے پر انہوں نے کہا ” انگلش یا جرمن آپ سے پہلے بہت سارے لوگوں نے پڑھی ہے۔ جس کی بنا ء پر ڈیمانڈ بھی کم ہوگی اور اس میں آپ کی کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہوگی لیکن اگر آپ کوئی نئی زبان پڑھیں، جسے آپ سے پہلے یہاں کسی نے نہ پڑھی ہو تو یہ آپ کے حق میں ایک بڑی خوبی ہوگی۔“ میں نے پوچھا، وہ کون سی زبان ہے جسے مجھ سے پہلے الازہر یونیورسٹی میں کسی نے نہیں پڑھا؟ تو انہوں نے کہا ”اُردو زبان، اس سال پہلی دفعہ الازہر یونیورسٹی نے اُردو زبان کا شعبہ کھولا ہے۔ اگر آپ اس میں داخلہ لیں اور پڑھائی میں محنت کریں تو اس شعبے میں آپ کا بحیثیت اسسٹنٹ لیکچرار تقرر ہوجائے گا اور آگے چل کر آپ کا مستقبل بھی سنور جائے گا۔“ چنانچہ یہی ہوا اور میں نے شعبہ اُردو میں داخلہ لے لیا اورپھر پڑھائی سے فارغ ہونے کے فوراً بعد مجھے یونیورسٹی میں بحیثیت اسسٹنٹ لیکچرار رکھ لیا گیا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔آپ نے پی ایچ ڈی پنجاب یونیورسٹی لاہورسے کیا، وہ تجربہ کیسا رہا آپ کا؟ وہاں گزرے وقت کو کیسا پایا آپ نے؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔میں نے پی ایچ ڈی سے پہلے،ایم اے اُردو پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ شروع شروع میں تو بہت مشکل لگا کیونکہ پہلی دفعہ اپنے ملک سے نکلا تھا۔زبان، کلچر سب کچھ الگ اور مختلف تھا لیکن چونکہ مجھے اُردو سے عشق ہوگیا تھا تو اس سے متعلق ہر چیز سے عشق ہوگیا۔ اور میرے اس عشق کو مزید بڑھانے میں میرے اساتذہ کا بڑا دخل رہا ہے۔ اگر مجھے اتنے جیّداورپاک و ہند کے نامی گرامی اساتذہ نہ ملتے تو شاید میں آج اس طرح اُردو کی خدمت نہ کررہا ہوتا۔ میرے دل کے انتہائی قریب میرے مایہ ناز قابلِ فخر اساتذہ جناب ڈاکٹر تحسین فراقی (جو ایم اے اور پی ایچ ڈی میں میرے نگران رہے)، جناب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، جناب ڈاکٹر فخر الحق نوری، مرحوم ڈاکٹر عبید اللہ خان اور مرحوم ڈاکٹر سہیل احمد خان ہیں۔میں دل کی گہرائیوں سے ان کی عزت کرتا ہوں اور تمام عمر ان کا ممنون بھی رہوں گا کیونکہ انہوں نے ہی میرے اندر تحقیق، شاعری اور ادب کا بیچ بویا۔گویا کہ مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ میں ہر جگہ اپنے اساتذہ کا ذکر انتہائی فخر سے کرتا ہوں۔ یہاں تک کہ میرے طلباء کو بھی ان سے ملنے کا شوق ہوچلا ہے۔
پی ایچ ڈی کے دوران نہ صرف میرے اساتذہ بلکہ ہوسٹل میں موجود میرے ساتھیوں نے بھی بہت مدد کی۔ پاکستان میں گزرا وقت ایک کسک بن کر میرے دل میں آج بھی پیوست ہے۔ پاکستان کا ماحول بالکل مختلف ہے۔دوستوں کے ساتھ باہر جانا، لکشمی چوک میں کڑاہی کھانا اور ان کے ساتھ گھومنا، کون بھول سکتا ہے۔ شاید میری زندگی کا یہ سنہرا دور تھا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ ڈاکٹر صاحب آپ کے تحقیقی مقالے کا موضوع ہے ”اُردو اور عربی شاعری میں لیلیٰ مجنوں کی داستان کا تقابلی مطالعہ“ اس حوالے سے کچھ بتائیے اور یہ کہ کیا بحیثیت محقق آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ہی داستان مختلف معاشروں میں اپنی اپنی علاقائی شناخت بھی رکھتی ہے؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔”لیلیٰ مجنوں“ کا شمار دنیا کے ان قصوں میں ہے جنھیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ یہ صرف عربی ادب میں ہی نہیں،جو کہ اس کا اصل ماخذ ہے بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں، خصوصاً مشرقی ملکوں کی ادبیات میں بھی اسے بڑی مقبولیت ملی۔ فی الحقیقت اس مقبولیت کا سبب اس قصے کے واقعات کی کشش ہے۔ یہ شدید محبت پر مبنی ایک ایسا قصہ ہے جس کے ہیرو، ہیروئن قیس اور لیلیٰ کو طرح طرح کے دکھوں اور غموں کا سامنا کرنا پڑا۔جن کے سامنے بڑے بڑے طاقتور اور مضبوط اعصاب والے انسان بھی عاجز نظر آتے ہیں۔ اس قصے کے ہیرو اور ہیروئین کے لئے سوائے ہجر و فراق کے دکھوں سے بھرے ہوئے راستے کے، کوئی اور راستہ ہی نہ تھا۔ ان کی زندگی میں وصل کے تھوڑے سے پھول بھی نہیں اُگ سکے جو کم از کم دونوں کے دلوں کے لئے باعثِ راحت ہوسکتے۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ قصہ لیلیٰ مجنوں کا منبع عربی ماحول ہے۔ وہ ماحول جس میں بڑے لق و دق اور دور دراز پھیلے ہوئے صحرا ہیں جہاں نہایت صاف و شفاف کناروں والے آسمان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ بڑے بلند و بالا اور خوفناک پہاڑ نظر آتے ہیں، چراگاہیں اور وادیاں ہیں۔ اس قصے کو فارسی شعراء نے منظوم کرکے تصوف کے اسرار و رموز اور نظریات و عقائد کو آسان کرکے عوام کے سامنے پیش کیا۔ اُردو شعراء نے بھی ایسے ہی کیا۔چنانچہ جب سے اُردو شاعری اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی تب سے ”لیلیٰ مجنوں“ اور اس قسم کے دیگر قصوں کو اپنے اندر سمیٹتی آرہی ہے۔ فارسی شعراء کے ہاتھوں یہ قصہ ادبِ فارسی میں منتقل ہوگیا۔ انہوں نے اس میں اضافے کیے اور کچھ واقعات حذف بھی کردیئے۔ بعض واقعات میں طوالت اختیار کی اور بعض واقعات کو مختصر کردیا۔ اس پر اپنے ماحول کا رنگ چڑھا دیاجو عربی ماحول سے بہت حد تک مختلف ہے۔چنانچہ ” لیلٰی مجنوں“ کی فارسی مثنویوں میں آپ کو خوبصورت گھنے باغات، سفید برفانی پہاڑ اور طرح طرح کے بے مثل پرندے نظر آئیں گے جبکہ یہ سب کچھ عربی صحرائی ماحول میں نہیں پایا جاتا۔یہ قدرتی امر ہے کہ قصہ جس ماحول میں منتقل ہوگا اس پر اس ماحول کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑے گا۔چنانچہ جب یہ قصہ عربی ماحول سے فارسی ماحول میں منتقل ہوا، پھر برصغیر کے ماحول میں آیا تو اس پر ہر ماحول کا رنگ چڑھتا رہا۔ بہرحال فارسی ادب میں قصہ لیلیٰ مجنوں کے بنیادی واقعات ہی اُردو ادب میں لیلیٰ مجنوں کے بنیادی واقعات بنے۔
فارسی کے تبع میں یہ قصہ ان شعراء کے ہاتھوں اُردو ادب میں منتقل ہوا جو تصوف اور عشقِ الہیٰ میں ممتاز تھے۔ ان شعراء نے بھی اسی غرض (یعنیٰ تصوف اور اس کے اسرار و رموز کی تشریح کی غرض) کے تحت اسے منظوم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔اس کے باوجود ہم وثوق سے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اگرچہ اُردو شعراء نے
”لیلیٰ مجنوں“ کے قصے کے ضمن میں فارسی شعراء کی تقلید کی ہے مگر انہوں نے اپنی طرف سے اسے بڑی عمدگی سے نبھایا اور جدّت پسندی سے کام لیتے ہوئے اس میں کچھ ایسے واقعات کا اضافہ کیا جو قاری کو ان کے افکار و خیالات سے بہرہ ور کرتے ہیں۔ لہذا اس قصے کے سلسلے میں جو مثنویات اُردو شعراء نے قلم بند کی ہیں وہ نہ تو تصوف کے اعتبار سے فارسی شعراء کی مثنویات سے کم ہیں اور نہ ہی ادبی پہلو سے۔اور یہ مثنویات اُردو ادب کے ورثے میں ایک نہایت عمدہ اضافہ شمار کی جاتی ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ڈاکٹر صاحب مصر میں اُردو زبان کی درس و تدریس کب سے اور کہاں کہاں کی جارہی تھی؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔اس وقت اُردو زبان مصر کی سات بڑی سرکاری یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ الازہر یونیورسٹی، قاہرہ یونیورسٹی، عین شمس یونیورسٹی، اسکندریہ یونیورسٹی، منصورہ یونیورسٹی، طنطا یونیورسٹی اور منوفیہ یونیورسٹی میں۔مصر میں اُردو کی نشرواشاعت کا آغاز بیسویں صدی کے ربع اول میں ہوا جب ابو سعید عربی نے ”جہانِ اسلامی“ کے نام سے قاہرہ سے ایک مجلہ جاری کیا جو تین زبانوں عربی، ترکی اور اُردو میں نکلتا تھا۔ اس کے بعد ۰۳۹۱ء میں قاہرہ ہی سے محمود احمد عرفانی نے
”اسلامی دنیا“ کے نام سے ایک مجلہ جاری کیا جو ۳۱ فروری ۱۳۹۱ء تک نکلتا رہا۔ ۸۵۹۱ء میں قاہرہ ریڈیو سے اُردو سروس کا آغاز ہوا اور آج بھی قاہرہ ریڈیو اُردو سروس میں غا لباً روزآنہ چار گھنٹے کا پروگرام نشر کرتا ہے۔
اس پس منظر میں مصر میں اُردو زبان و ادب کی تدریس کا آغاز ہوا ہے۔ ۹۳۹۱ء میں جامعہ فواد الاوّل
(جو بعد میں قاہرہ یونیورسٹی کہلائی) میں مشرقی زبانوں کی تعلیم و تدریس کے لئے ایک انسٹیٹیوٹ ”معہد الاسنۃ الشرقیہ“ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے نصاب میں شاہی فرمان کے ذریعے اُردو زبان کو بھی شامل کیا گیا۔ اس وقت قاہرہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس کے ڈیپارٹمنٹ آف اورینٹل لینگویجز میں اُردو زبان اختیاری زبان کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ اسی طرح اسکندریہ یونیورسٹی کے ”معہد الغات الشرقیہ انسٹیٹیوٹ آف اورینٹل لینگویجز“ کے نصاب میں اُردو زبان بھی شامل کی گئی۔ اس کے علاوہ اسکندریہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف آرٹس کے ڈیپارٹمنٹ آف اورینٹل لینگویجز میں بھی اُردو زبان اختیاری زبان کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ اسی طرح منصورہ یونیورسٹی، طنطا یونیورسٹی اور منوفیہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف آرٹس کے ڈیپارٹمنٹ آف اورینٹل لینگویجز کے نصاب میں اُردو زبان کو ایک اختیاری زبان کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ عین شمس یونیورسٹی کے فیکلٹی آف آرٹس کے ڈیپارٹمنٹ آف اورینٹیل لینگویجز میں اُردو سیکشن ہے جہاں اُردو سال اوّل میں فارسی اور ترکی کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے۔سالِ دوئم سے طالبعلم اگر چاہے تو اُردو تخصیص کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم موجودہ دور میں مصر میں اُردو کی ترویج اور خدمت کی فعال سرگرمیوں کی بات کریں تو پھر الازہر یونیورسٹی کا نام سب سے پہلے آئے گا۔ الازہر یونیورسٹی میں اُردو کے تین مستقل اور الگ الگ شعبے ہیں۔ دو شعبوں میں اُردو زبان و ادب پڑھایا جاتا ہے، ایک بوائز کے لئے اور ایک گرلز کے لئے جبکہ تیسرا شعبہ اُردو میں اسلامیات کے لئے مخصوص ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ۹۷۹۱ء میں الازہر یونیورسٹی نے کلیہ لغات و ترجمہ Faculty of Languages and Translation میں اُردو کا ایک مستقل شعبہ قائم کیا جہاں اُردو زبان و ادب کو بنیادی مضمون کی حیثیت حاصل ہے۔ چونکہ الازہر کے مختلف تعلیمی مراحل میں تعلیم مخلوط نہیں ہے چنانچہ ۶۹۹۱ء میں الازہر یونیورسٹی نے گرلز برانچ میں طالبات کے لئے شعبہ اُردو کا افتتاح کیا۔ مصر میں اُردو کے میدان میں یہ سب سے زیادہ سرگرم اور کامیاب شعبہ ہے۔ اسی شعبے سے مصر کا واحد اُردو رسالہ ”اُردویات“ کے نام سے ۸۹۹۱ء سے نکلتا ہے اور یہاں طالبات کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔بہت خوب! ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے کہ کیا آپ کے شعبہ اُردو کے زیر نگرانی
تحقیق کرنے والے طالبعلموں کو اُردو کی کتابوں کی دستیابی کے سلسلے میں جامعہ الازہر کی انتظامیہ کی طرف سے کوئی لائحمہ عمل دیا گیاہے؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔مصر میں اُردو کو سب سے بڑا درپیش مسئلہ کتابوں کا ہی ہے۔ خریدنے والوں، اُردو بولنے والوں اور جاننے والوں کی کمی کی وجہ سے مصر میں اُردو کی کتابوں کی خریدوفروخت کا کاروبار نہیں چل سکتا۔ یہاں پاکستانی کمیونٹی بذات خود بہت کم ہے، چار پانچ سو سے زیادہ نہیں ہیں۔ نتیجتاً طالبعلموں کو اس معاملے میں بہت دقت ہوتی ہے۔ پاکستان سے کتابیں امپورٹ کرنا بھی بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ایک طرف اُردو ڈیپارٹمنٹ کے لئے کتابیں خریدنے کی مد میں مخصوص فنڈ کافی نہیں ہوتا۔ کتابوں کی قیمت اور ہوائی جہاز کے ذریعے ان کی نقل و حمل کا خرچہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جب یہ کتابیں ایئرپورٹ پہنچتی ہیں تو ایئرپورٹ کی انتظامیہ کی طرف سے بڑی تحقیق و تفتیش کے بعد چھوڑی جاتی ہیں، پھر ٹیکس وغیرہ الگ دینا پڑتا ہے۔ ان کاروائیوں میں بڑا وقت ضائع ہوتا ہے۔ کبھی کبھی حکومتِ پاکستان کی طرف سے کتابوں کا عطیہ ملتا ہے یا کبھی اگر کوئی پاکستان جائے تو چند کتابیں اپنی جیب سے خرید کر لے آتا ہے اور بس! ان وجوہات سے پڑھائی کے عمل اور تحقیقی کاموں پر یقیناً منفی اثر پڑتا ہے لیکن یہ کہ انٹرنیٹ کی بدولت یہ مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں رہا۔ اب برقی کتابیں انٹرنیٹ کے ذریعے مل جاتی ہیں، پھر بھی ورقی کتابوں کا ابھی تک نعم البدل نہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ڈاکٹر صاحب! آپ خود بھی مترجم ہیں اور اپنی نگرانی میں اپنے شاگردوں سے بھی ترجمے کا کام کرواتے ہیں، اس حوالے سے بتائیے کہ آپ کن موضوعات کو ترجمے کے لئے فوقیت دیتے ہیں اور یہ کہ اب تک آپ نے کتنی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔شروع میں، میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آج تک اُردو سے عربی میں جتنے تراجم ہوئے ان کے کم از کم ۰۹ فیصد مصریوں نے کیے، اور اس کا بڑا حصہ انفرادی کوششوں کے نتیجے میں ہوا۔مترجمین کے پیچھے ایسا کوئی خاص سرکاری یا نجی ادارہ نہیں جو چاہتا ہے کہ فلاں ادب پارے کا اُردو سے عربی میں ترجمہ ہوجائے۔ البتہ الازہر کا ایک ادارہ ہے ”الازہر سنٹر برائے ترجمہ“ جو عربی سے مختلف چودہ (۴۱) زبانوں میں، بشمول اُردو، ترجمہ کراتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور سرکاری ادارہ ہے ”قومی سنٹر برائے ترجمہ“ جہاں ترجمے کا کوئی پراجیکٹ آپ خود اس سنٹر کی انتظامیہ کو پیش کریں، پھروہ آپ کے پراجیکٹ پر غور کرنے کے بعد منظوری دیتی ہے یا نہیں بھی دیتی۔شعبہ اُردو الازہر یونیورسٹی کے زیر نگرانی کافی کتابوں کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر ترجیح اس کتاب کو دی جاتی ہے جو ادب یا فکر کے حوالے سے قیمتی ہو اور اس کا ترجمہ عربی ادب و ثقافت میں ایک اچھا اضافہ ہو۔ مگر انفرادی طور پر ترجمہ کرنے کے سلسلے میں ہم اس طرح کی کتابیں منتخب کرتے ہیں کہ جو دونوں ملکوں میں چل سکتی ہیں۔ میں خود زیادہ تر افسانوں، ناولوں یا پھر ادبی قسم کے موضوعات پر لکھی گئی کتابوں کا ترجمہ کرتا ہوں۔
الازہر یونیورسٹی سمیت مصری یونیورسٹیوں میں جہاں جہاں اُردو پڑھائی جاتی ہے وہاں ایم۔اے کے مقالے لکھنے والا اسکالر جس کتاب پر تحقیق کا کام کرے گا اس کے لئے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کرنا لازمی ہوتا ہے۔ چاہے یہ شعری مجموعہ ہو یا افسانوں کا مجموعہ، داستان ہو یا ناول، ڈرامہ ہو یا ناولٹ، برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ہو یا اس کی تہذیب و ثقافت۔ یہ ترجمہ تحقیقی مقالے کا بنیادی حصہ ہوتا ہے اور اس کے بغیر ڈگری تفویض نہیں کی جاسکتی۔ اس بہانے سے مصری جامعات میں اُردو سے عربی میں بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے۔ چند کتابیں ملاحظہ کیجئے جو شعبہ اُردو الازہر کی زیر نگرانی ترجمہ ہوئیں۔
۱۔ آنندی (غلام عباس)۔ مترجم، اخلاص عبد الفتاح
۲۔ آوارہ گرد کی ڈائری (ابن انشاء)۔مترجم، ھیام خلیفہ حامد
۳۔ انار کلی (امتیاز علی تاج)۔مترجم، عبیر عبد الکریم
۴۔ ابن الوقت(نذیر احمد دہلوی)۔ مترجم، زینب السید عبد الحکیم
۵۔ التوحید کی پہلی جلد(طاہر القادری)۔ مترجم، امل ممدوح
۶۔ امراؤ جان ادا(مرزا محمد ہادی رسوا)۔ مترجم، ھناء عبد الفتح
۷۔ باقیات فانی (فانی بدایونی)۔مترجم، سعد عبدالرحیم
۸۔ برگ نے (ناصر کاظمی)۔ مترجم، سلوی محمود امین
۹۔ پاکستان ناگزیر تھا (حسن ریاض)۔مترجم، صباح علی عبدالمعز
۰۱۔ پاک بھارت تعلقات (طارق اسماعیل ساگر)۔مترجم، فاطمۃ عبدالتواب عبد الحمید
۱۱۔ پاکستان، تاریخ و سیاست(صفدر محمود)۔ مترجم، اسامہ شبلی
۲۱۔ پرندے (جوگندر پال)۔ مترجم، دعاء حمودہ
۳۱۔ پھول گرتے ہیں (اے حمید)۔ مترجم، حجازی ربیع توفیق
۴۱۔ تاریخ ارض القران (سید سلیمان ندوی)۔ مترجم، فاطمۃ بدرالدین
۵۱۔ تحریک جماعت اسلامی(ڈاکٹر اسرار احمد)۔ مترجم، ولاء احمد
۶۱۔ تنہا (سلمیٰ اعوان)۔ مترجم، احمد السید رضوان
۷۱۔ جامع الامثال (وارث ہندی)۔ مترجم، می جلال
۸۱۔ چور بخار، ننگے پاؤں اور متاع غرور (اشفاق احمد)۔ مترجم، فاطمۃ راغب
۹۱۔ چاندنی بیگم (قرۃ العین حیدر)۔ مترجم، دعاء محمد حسن
۰۲۔ خاک اور خون(نسیم حجازی)۔ مترجم، عبد الرحیم عبد الغنی
۱۲۔ دو ہاتھ (عصمت چغتائی)۔ مترجم، غادۃ مصطفی کامل
۲۲۔ دیوان حمد و نعت(ع س مسلم)۔ مترجم، حبیبۃ محمد حسن
۳۲۔ رباعیات محروم(تلوک چند محروم)۔ مترجم، بدریۃ محمد احمد عبدالقادر
۴۲۔ سیرت الرسول ﷺ کی نویں جلد (طاہر القادری)۔ مترجم، نادیۃ محمود جمعۃ امین
۵۲۔ سن فلاور، انہونیاں، رنگ پچکاری (ابدال بیلا)۔ مترجم، امیرۃ ابراہیم الدعدع
۶۲۔ سب ٹھیک ہے(اقبال نیازی)۔ مترجم، اسماء شعبان
۷۲۔ شگوفے(شفیق الرحمٰن)۔ مترجم، یاسمین محمد عبد الرحمٰن
۸۲۔ صید ہوس، یہودی کی لڑکی (آغا حشر کاشمیری)۔ مترجم، یاسر عبد ربہ
۹۲۔ صدر محترم (اشرف شاد)۔ مترجم، اسامہ امین ابو طالب
۰۳۔ ضبط کی دیوار(ڈاکٹر سلیم اختر)۔ مترجم، نیفین عمرو
۱۳۔ عام آدمی کے خواب (رشید امجد)۔ مترجم، بسمہ محمد احمد عبدالقادر
۲۳۔ گدھے ہمارے بھائی ہیں (مستنصر حسین تارڑ)۔مترجم، صفیۃ عبد الناصر محمد
۳۳۔ گردش رنگ و چمن(قرۃ العین حیدر)۔ مترجم، شحات الازرق منصور
۴۳۔ مکاتیب ضیاء الامت(پیر محمد کرم شاہ)۔مترجم، رھام عبد اللہ سلامۃ
۵۳۔ مدینۃ الیہود (محمد سعید)۔ مترجم، اسماء الامیر عبدالحمید
۶۳۔ محبت ایسا دریا ہے(امجد اسلام امجد)۔ مترجم، یاسمین جابر محمد
۷۳۔ وجہی سے عبد الحق تک(سید عبداللہ)۔ مترجم، ایہاب مختار
یہ وہ کتابیں ہیں جن کا ترجمہ تحقیقی مقالوں میں ہوا۔،جن مقالات میں کسی کتاب کا صرف ایک حصہ یا اس سے انتخاب کا ترجمہ ہوا، وہ ان کے علاوہ ہیں۔اور یہ یاد رہے کہ مذکورہ قاعدہ پی ایچ ڈی کے سلسلے میں لاگو نہیں ہے۔ اسکالر چاہے تو ترجمہ کرسکتا ہے ورنہ وہ اپنی محنت صرف تحقیق پر مرکوز کرسکتا ہے۔
الازہر یونیورسٹی، شعبہ اُردو کا سالانہ ادبی و ثقافتی رسالہ ”اُردویات“ میں ترجمے کے لئے ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔ اس گوشے میں اساتذہ کے اپنے انتخاب شدہ کسی ادبی پارے کا ترجمہ شائع ہوتا ہے۔ رسالے میں شائع ہونے والے کچھ ترجمہ شدہ مواد ملاحظہ فرمائیے۔
۱۔ امجد اسلام امجد کی نظم ”میں نے دیکھا اسے“ کا عربی ترجمہ، یاسمین جابر، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی۳۱۰۲ء۔
۲۔ امجد اسلام امجد کی نظم ”تو چل اے موسمِ گریہ“ کا عربی ترجمہ، یاسمین جابر، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۴۱۰۲ء۔
۳۔ امجد اسلام امجد کی نظم ”جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے“ کا عربی ترجمہ، یاسمین جابر، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۵۱۰۲ء۔
۴۔ امجد اسلام امجد کی نظم ”محبت ایسا نغمہ ہے“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، الازہر یونیورسٹی، شمارہ ۵۱۰۲ء۔
۵۔ امجد اسلام امجد کی نظم ”ہم کو ہے تیری نظر میں رہنا“ کا عربی ترجمہ، یاسمین جابر، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۶۱۰۲ء۔
۶۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانے ”اندمال“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ایمن عبد الحلیم، عین شمس یونیورسٹی، شمارہ مئی ۴۰۰۲ء۔
۷۔ احمد فراز کی نظم ”ترانہ“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۵۱۰۲ء۔
۸۔ احمد فراز کی نظم ”وہ تو سب درد کے لمحے تھے“ کا عربی، یاسمین جابر، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۷۱۰۲ء۔
۹۔ ادا جعفری کی نظم ”پکارے اپنا پاکستان“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر نہا مصطفی محمود، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۷۱۰۲ء۔
۰۱۔ اسماعیل میرٹھی کی ایک نظم ”غرور و تکبر“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر تغرید بیومی، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۶۱۰۲ء۔
۱۱۔ تلوک چند محروم کی چند رباعیات، بدریۃ محمد احمد، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۴۱۰۲ء۔
۲۱۔ جوگندر پال کے ایک افسانچہ ”عظمتِ آدم“ کا عربی ترجمہ، دعاء حمودہ، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۶۱۰۲ء۔
۳۱۔ حسن کوزہ گر (۱) ن م راشد کی نظم کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، شمارہ ۰۰۰۲ء۔
۴۱۔ حسن کوزہ گر (۲) کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، شمارہ ۱۰۰۲ء۔
۵۱۔ حسن کوزہ گر (۳) کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، شمارہ ۴۰۰۲ء۔
۶۱۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کی نظم ”انتظار“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، شمارہ مئی ۹۹۹۱ء۔
۷۱۔ راجا مہدی علی خان کی ”ایک چہلم پر“ اور ”اُس سے اور اُسی سے“ کا عربی ترجمہ، صباح علی عبد المعز، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۳۱۰۲ء۔
۸۱۔ رشید امجد کے افسانے ”بے پانی کی بارش“ کا عربی ترجمہ، بسمہ عبدالقادر، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۷۱۰۲ء۔
۹۱۔ سعادت حسن منٹو کے افسانہ ”خود کشی“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، شمارہ مئی ۹۹۹۱ء۔
۰۲۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے ”شہید ساز“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۲۱۰۲ء۔
۱۲۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے ”جیلی کا حلویٰ“ کا عربی ترجمہ، دعاء حمودہ، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۷۱۰۲ء۔
۲۲۔ سلیم انور کے افسانے ”انکسار“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ھند عبدالحلیم، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۷۱۰۲ء۔
۳۲۔ عطاء الحق قاسمی کی ”عطائیات“ کے انتخاب کا ترجمہ، تسنیم شریف، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۶۱۰۲ء۔
۴۲۔ ع س مسلم کی نعت ”مسجد حرام میں ایک دعا“ اور حمد ”سرور کائنات ﷺکے حضور“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، شمارہ مئی ۰۰۰۲ء۔
۵۲۔ غلام عباس کے افسانہ ”جواری“ کا عربی ترجمہ، اخلاص عبدالفتح، الازہر یونیورسٹی، شمارہ ۵۰۰۲ء۔
۶۲۔ فیض احمد فیض کی نظم ”ہم دیکھیں گے“ کا منظوم عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، الازہر یونیورسٹی، شمارہ ۱۰۰۲ء۔
۷۲۔ فیض احمد فیض کی نظم ”بول“ کا عربی میں منظوم ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، الازہر یونیورسٹی، شمارہ ۴۱۰۲ء۔
۸۲۔ فیض احمد فیض کی نظم ”فلسطینی بچے کے لئے لوری“ کا عربی ترجمہ دعاء حمودہ، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۷۱۰۲ء۔
۹۲۔ کرشن چندر کے افسانے ”سزا“ کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، الازہر یونیورسٹی، شمارہ ۵۱۰۲ء۔
۰۳۔ معروف مصری ادیب یوسف سباعی کا افسانہ ”رجل عاقل“ کا اردو ترجمہ، ڈاکٹر تبسم منہاس، شمارہ مئی ۰۰۰۲ء۔
۱۳۔ معروف مصری ادیب یوسف سباعی کے افسانہ ”رجل املاک“ کا اُردو ترجمہ، ڈاکٹر تبسم منہاس، شمارہ مئی ۱۰۰۲ء۔
۲۳۔ مصری شاعر فاروق جویدہ کی ایک نظم ”ھذا عتاب الحب للاحباب“ کا اردو میں ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۴۱۰۲ء۔
۳۳۔ مومن خان مومن کی ایک منقبت کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر نیوین عمرو، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۷۱۰۲ء۔
۴۳۔ ن م راشد کے انتخاب کا عربی ترجمہ، مروہ لطفی، عین شمس یونیورسٹی، شمارہ مئی ۲۰۰۲ء۔
۵۳۔ نیلم بشیر کے افسانے ”پشپا اور ثریا“ کا عربی ترجمہ فاطمہ راغب، الازہر یونیورسٹی، شمارہ مئی ۷۱۰۲ء۔
۶۳۔ ۰۱ اپریل ۶۳۹۱ء میں ترقی پسند تحریک کے اجلاس میں پریم چند کے خطبے کا عربی ترجمہ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، شمارہ مئی ۰۰۰۲ء۔
ترجمے کے سلسلے میں، میں نے کبھی اکیلے،کبھی اپنے پاکستانی استاد ڈاکٹر امجد حسن سید احمد کے ساتھ اور کبھی ڈاکٹر تبسم منہاس(میری بیگم) کے ساتھ مل کے اس میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ اس کی کچھ تفصیل پیش ہے:
۱۔ البحث عن الانسانیۃ۔ پروفیسر عبد الحمید صدیقی کی کتاب” انسانیت کی تلاش“ کا عربی ترجمہ، قاہرہ ۹۹۹۱ء، ڈاکٹر تبسم منہاس کے اشتراک سے۔
۲۔ قصص من الھند و باکستان (پاک و ہند کے منتخب افسانوں کا عربی ترجمہ) قاہرہ ۹۹۹۱ء، ڈاکٹڑتبسم منہاس کے اشتراک سے اس مجموعے میں درج ذیل افسانے شامل ہیں:
۱۔ ماں جی (امي) قدرت اللہ شہاب
۲۔ عاجز بندہ (العبد الضعیف) احمد ندیم قاسمی
۳۔ سودا (المشتریات) خدیجہ مستور
۴۔ بڑے گھر کی بیٹی(بنت الاصول) پریم چند
۵۔ کفن (الکفن) پریم چند
۶۔ ایک تھی فاختہ (کانت ھناک یمامۃ) محمد منشا یاد
۷۔ حکایت لیلیٰ مجنوں (حکایۃ لیلی والمجنون) سجاد حیدر یلدرم
۸۔ درزی (الترزي) حجاب امتیاز علی
۹۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ (تبادل المجانین) سعادت حسن منٹو
۰۱۔ کھول دو (ابنیتي علی قید الحیات) سعادت حسن منٹو
۱۱۔ چور (اللص) محمود احمد قاضی
۲۱۔ لاش کی کہانی (قصۃ الجثۃ) مہدی ٹونکی
۳۱۔ راز کی بات (السّر) رابندر ناتھ ٹیگور
۳۔ رحلۃ من البحث (ممتاز مفتی کی کتاب تلاش کا عربی ترجمہ) قاہرہ ۶۰۰۲ء ڈاکٹر تبسم منہاس کے اشتراک سے
۴۔ من القصص الاردی فی باکستان) پاکستانی اُردو افسانوں کے انتخاب کا عربی ترجمہ) قاہرہ ۶۰۰۲ء، ڈاکٹر تبسم منہاس کے اشتراک سے۔ اس مجموعے میں مندرجہ ذیل افسانے شامل ہیں:
۱۔ خود کشی (انتحار) سعادت حسن منٹو
۲۔ چوہا (الفأر) ممتاز مفتی
۳۔ اللہ کا شکر ہے (الحمد للہ) سعادت حسن منٹو
۴۔ عالمی بازار (السوق العالمی) مسعود مفتی
۵۔ کانا دجال (الدجال الأعور) انتظار حسین
۶۔ ایرانی پلاؤ (الأرز الأیرانی) کرشن چندر
۷۔پانچواں گروپ (المجموعتہ الخامسۃ) مسعود مفتی
۸۔شیر آیا (جاء الأسد) سعادت حسن منٹو
۹۔شہید ساز (صائع الشھداء) سعادت حسن منٹو
۵۔ من وحي المجتمع الباکستاني (پاکستان کے منتخب اُردو افسانوں کا عربی ترجمہ، قاہرہ ۷۹۹۱ء، ڈاکٹر امجد حسن سید احمد کے اشتراک سے۔ اس مجموعے میں درج ذیل افسانے شامل ہیں:
۱۔ نیا قانون (القانون الجدید) سعادت حسن منٹو
۲۔ پھر عائشہ آگئی (ثم عادت عائشۃ) قدرت اللہ شہاب
۳۔ آنندی (مدینۃ الطرب) غلام عباس
۴۔ نواب صاحب کا بنگلہ (فیللا سعادۃ الباشا) غلام عباس
۵۔ لکیریں (قسمۃ ضیزی) ڈاکٹر امجد حسن
۶۔ درد کے رشتے (وشائج الألم) شیخ محمد سعید
۷۔ باہر کفن سے پاؤں (قدم خارج الکفن) عرش صدیقی
۸۔ زنجیر (السلسلۃ) محمد شفیق شیخ
۶۔ ہدایات و نھایات (ابتدا اور انتہا) ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی اُردو شاعری کے انتخاب کا عربی ترجمہ، قاہرہ ۰۱۰۲ء
۷۔ مقالات پطرس بخاری (مضامین پطرس) کا عربی ترجمہ، قاہرہ ۲۱۰۲ء۔
۸۔ امداد الکرم في تفسیر خیر الکلم، سات جلدوں میں (مولانا محمد حسین پیرزادہ کی اُردو تفسیر امداد الکرم کا عربی ترجمہ، اردن ۷۱۰۲۔
۹۔ اِمداد الاَمۃ في سیرۃ نبي الرحمۃ (مولانا محمد حسین پیرزادہ کی سیرت نبویﷺ کی کتاب کا عربی ترجمہ، ۱۲۰۲۔
۰۱۔ البینات في شرح مکتوبات الأمام الربانی، چار جلدوں کا عربی ترجمہ۔ شارح ابوالبیان محمد سعید احمد مجددی، ۱۲۰۲ء۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ماشاء اللہ! بہت خوب کام ہے آپ کا۔ ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے کہ جامعہ الازہر کے شعبہ اُردو کے زیر نگرانی طالبعلموں کے لئے کسی قسم کی ادبی نشست کا انعقاد کیا جاتا ہے؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔شعبے کے زیر نگرانی ہم سیمینار کرواتے ہیں۔ سالانہ کانفرنس ہوتی ہے جس میں مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ شرکت کرتے ہیں۔ کبھی کبھی پاکستان اور ہندوستان سے بھی اساتذہ اور ادباء و شعراء ہماری کانفرنسوں میں شرکت کرنے کا شرف بخشتے ہیں۔ اس کے علاوہ الازہر یونیورسٹی میں پڑھنے والے پاکستانی اور ہندوستانی طلباء بھی کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ مصر میں موجود تمام اُردو طلباء ضرور آتے ہیں، اس طرح وہ نہ صرف اُردو زبان سنتے ہیں بلکہ اُردو زبان کے بارے میں مزید معلومات سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ڈاکٹر صاحب آپ کواُردو کی خاطر کی گئی آپ کی تعلیمی خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز دیا گیا، اس بارے میں آپ کے جذبات کیا ہیں؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔مجھے بے حد خوشی ہے کہ مجھے تمغہ امتیاز کی سعادت نصیب ہوئی۔ پاکستانی حکومت نے میری خدمات کی قدر کی۔ ویسے بھی پاکستان میرے لئے خوابوں کی جگہ ہے۔ پاکستانی بہت عزت اور قدر کرنے والی قوم ہے۔ اس لئے میں نے ان سے ہمیشہ عزت اور قدر پائی ہے۔ اُردو میری دوسری پسندیدہ زبان ہے، عربی زبان کے بعد۔ اور پاکستان میرا دوسرا وطن ہے۔ مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے پاکستان میں گزرے ماہ و سال۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔بحیثیتِ معلم کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف مسلم معاشروں کو ایک دوسرے سے تعلیمی تعاون کو مزید فروغ دینا چاہیئے؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ مسلم معاشروں کا آپس میں تعلیمی تعاون کے بغیر صحیح مسلم معاشرہ نہ اپنے پیروں پر صحیح طور پر کھڑا ہوسکتا ہے، نہ ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی اسلام کو کماحقہ پھیلایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے تمام اسلامی ممالک کو آپس میں تعاون کرنا ہوگا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ڈاکٹر صاحب! آپ ورثہ کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔اولاً! سہہ ماہی رسالہ ”ورثہ“ کی میرے دل میں بڑی قدر اس لئے ہے کہ یہ دنیائے اُردو کا پہلا بین الاقوامی ادبی جریدہ ہے۔ یہ سات سمندر پار سے اُردو زبان و ادب کی خدمت کررہا ہے۔ رسالے کے منتظمین کی کوششیں سراہے جانے کی اس لئے مستحق ہیں کہ رسالے کا معیار قابلِ رشک ہے۔ حالانکہ وہ یہ اہم کام رضاکارانہ طور پر کررہے ہیں جو بہت مشکل اور محنت طلب ہے۔ ایسے کام کے لئے وقت، محنت اور سرمایہ بھی درکار ہوتا ہے۔ثانیاً! میں سہہ ماہی رسالے ”ورثہ“ کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ خدارا! اُردو زبان کی حفاظت میں مزید موثر کردار ادا کریں۔ لگتا ہے اُردو آخری سانس لے رہی ہے۔ ٹی وی کے کیپشن اورفیس بک پر اتنی غلط اُردو دیکھ کر لگتا ہے کہ اہلِ اُردو کو اپنی زبان سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ میرے دل میں اُردو کی تنزلی کا خوف ہے اور ضرورت سے زیادہ انگریزی کی ملاوٹ بھی اسے مرنے میں مدد دے رہی ہے۔ اس لئے ”ورثہ“ اور اس جیسے سنجیدہ رسالوں کو چاہیئے کہ اُردو کی ترقی کی طرف قدم بڑھائیں۔ لوگوں میں یہ شعور پیدا کریں کہ اُردو بہت خالص اور میٹھی زبان ہے، اس میں ملاوٹ نہ کریں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔آپ کابے حد شکریہ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب، اپنا وقت ہمیں دینے کے لئے،ہم سے تفصیلاً گفتگو کرنے کے لئے۔اجازت دیجئے، فی امان اللہ۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم صاحب۔۔۔بہت شکریہ حنا خراسانی صاحبہ۔ سلام قبول فرمائیں۔