حنا خراسانی رضوی
میں نے اپنے گھر کے باہر
یہ اعلان لگا رکھا ہے
”میں اک سیلانی شاعر ہوں
پورب پچھم اُتّر دکّن
نگر نگر اور بستی بستی
رکتا چلتا، چلتا رکتا
گھوم رہا ہوں
لیکن مجھ کو ڈھونڈنے والو
میں تو تمہیں ہر لمحہ ہر دم
اپنے گھر میں
جیتے جاگتے، ہنستے بولتے، لڑتے مرتے، پڑھتے لکھتے
بچوں ہی میں مل سکتا ہوں“
حنا خراسانی رضوی۔۔ آداب عرض ہے! قارئین ”گوشہ انٹرویو“ میں آج ہم جس ہستی سے آپ کی ملاقات کروانے جارہے ہیں ابتداء میں لکھی نظم بعنون ”اعلان“ پڑھ کے تو آپ یقیناًجان گئے ہونگے کہ اس طرزِانفرادیت کے حامل کوئی اور نہیں اس عہد کے مایہ ناز اور مقبول و ہردلعزیزشاعر جناب ڈاکٹر سیدپیرزادہ قاسم رضا صدیقی صاحب ہیں۔پیرزادہ قاسم رضاصاحب منصبی اعتبار سے جہاں ایک سائنسدان، محقق اور استادکی حیثیت رکھتے ہیں وہیں آپ جامعہ کراچی سمیت دوسری کئی جامعات میں وائس چانسلر کے عہدوں پرفائز رہ کر بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے رہے ہیں۔آئیے ہم ڈاکٹر صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں اور گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔آداب! کیسے مزاج ہیں آپ کے؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔آداب، ہاں بی بی بہت اچھے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ سب سے پہلے تو بہت نوازش کہ آپ نے مجھے ورثہ کے تحت گفتگو کی سعادت دی۔ بات کو یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے اپنے پہلے مجموعے”تند ہوا کے جشن میں“ ”بالمشافہ“ میں تذکرہ کیا کہ آپ کا تعلق ادبی گھرانے سے ہے اور آپ کے خاندان میں کئی بزرگ اس میدان کے شہسوار رہے۔ خود آپ کے والدہ شعر کہتی تھیں اور والد صحافت سے وابستہ تھے۔ تو آپ میں ادبی رجحان پیدا کرنے میں اس بات کاکس قدراثر تھا؟
پیرزادہ قاسم رضا صاحب۔۔ میں آپ کے سوال کا جواب دیتا ہوں یا دینے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے مجھے آپ کی تحسین کرنی چاہئیے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔شکریہ جناب،آپ کی عنایت ہے اور میری خوش نصیبی ہے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ اب دیکھئے! آپ سویڈن میں بیٹھی ہیں اور ایک ذریعہ بنی ہوئی ہیں کہ ہم پورے عالم میں اُردو زبان و ادب اور اس کی ترویج کا نام کریں اور اس کے لئے ایک بہت ہی زبردست تحریک ”ورثہ“ میں تو اسے تحریک کہوں گا، سے آپ جڑی ہوئی ہیں اور یہاں سویڈن سے نمائندگی کررہی ہیں۔ورثہ نے ایک بہت بڑی ذمہ داری اپنے سر لی ہے اور یہ جو وراثت ہے اس کی بہت نزاکتیں اور بہت ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ اس کو سمجھ لیجئے گا کہ امانت کے طور پر جو کچھ ان تک پہنچا ہے وہ اسے آگے ان لوگوں تک پہنچائیں کہ جو اُردو زبان اور اُردو ادب سے جڑے ہوئے ہیں اور اس کی ترقی کا سوچتے ہیں۔ خواہ وہ شاعری کے ذریعے ہو، نثر نگاری ہو یا اور کوئی دوسرے ذرائع ہوں۔ اس میں ہمارے وارثی جو ہیں بڑی جانفشانی سے بہت بڑا کام کررہے ہیں۔میں ان کی بھی تحسین کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ فکری طور پر اور عملی طور پر بہت بڑے کام کرنے والے آدمی ہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ سلسلہ(ورثہ) بہت آگے بڑھ جائے گا اور بہت ترقی کرے گا۔ ہم اس کے لئے دعاگو ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔
اچھا اب وہ جو سوال کیا آپ نے کہ جو خاندانی پس منظر ہے،وہ پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ سلسلہ یہ ہے کچھ لوگ خالصتاً جیسے میں یا میرا گھرانہ یا میرا خاندان،ہم اگر پیچھے مڑ کر اپنی تاریخ میں، خاندان کی تاریخ میں غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نہ تو ہمارے پاس جائیدادیں ہیں نہ توہمارے پاس پلازے ہیں، نہ ہی بڑے بڑے سرمائے کہ یہ ساری چیزیں ہم نے نہیں دیکھیں لیکن یہ دیکھا کہ برسہا برس سے خاندان کے جو لوگ تھے وہ تعلیم سے آراستہ تھے،فکری طور پر بہتر سے بہتر زندگی گزارنے کے لئے اور عملی طور پر معاشرے کا حصّہ بننے کے لئے۔ معاشرے میں فعال شخص کا حصّہ ہونا چاہیئے نا تاکہ وہ فعالیت کے ساتھ جو اچھے صائب، درست، مناسب، سچ پر مبنی اور حق پر مبنی کام ہوں اس کے لئے تگ و دُو اور جدوجہد کریں۔تو یہ تو ہمارا سرمایہ پرانا چلا آرہا ہے۔ اب یہ کہ اس میں زندگی کے اُتار چڑھاؤ تو ہوتے ہیں،میں یا میرے بھائیوں میں سے یا میرے خاندان کے لوگوں میں سے کوئی اس سے رُوگردانی کر کے کسی اور طرف نکل سکتا تھا مگر ہم نے پاسداری کی اور سوچا کہ اپنی دولت جو ہے وہ علم کی دولت رکھنی چاہیئے اور اسی میں تگ ودُو کرنے چاہیئے اور زبان سے، ادب سے اور فکری سوجھ بوجھ سے اپنا رشتہ قائم رکھنا چاہیئے۔
تو یہ ہوا۔اب اس میں، میں یہ بتاؤں کہ پڑھنے لکھنے کا ماحول آگیا اور وہ اس لحاظ سے آگیا کہ ایک تو میرے والد صاحب کو دلچسپی تھی پھر یہ کہ وہ سنہ ۹۱۹۱ء میں صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ پیشہ ہی کہہ لیجئے، اُس وقت تو پیشہ نہیں تھا تو والد صاحب صحافت سے جڑے اور جڑنے کے بعد انہوں نے بہت سارے اخبارات اور بہت سارے رسائل کو دیکھا تو ان کی دلچسپی ان کے انتظامی امور کے لئے ہوگئی کہ وہ کیسے چھپتا ہے، کیسے بنتا ہے اور کیسے ترتیب پاتا ہے۔ یہ سارے کام وہ دیکھتے رہے اور ساری زندگی انہوں نے یہ سلسلے جاری رکھے۔ ہمارے گھر میں، جب میں چھوٹا تھا تو کھیل کود کے لئے کھلونے یا کچھ اور ایسی چیزیں چاہیئے ہوتی تھیں تو ہمیں ملتے تھے کتابوں کے ڈھیر۔ کتابیں ہی کتابیں، جس طرف دیکھئے کتابیں ہیں رسالے ہیں اخبار ہیں۔میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر میں اخبار آتا تھا اور ایک نہیں کئی آتے تھے انگریزی کے بھی اور اُردو کے بھی۔
تو یہ ماحول میں نے دیکھا۔ گھر میں کتابیں دیکھیں اوراس کے علاوہ جو چھاپے خانے سے متعلق پرانی چیزیں تھیں، آپ کی جو عمر ہے آپ نے تو نہیں دیکھی ہونگی کہ پہلے جو یہ چھاپے خانے ہوتے تھے جن میں اخبار چھپتا تھا۔اچھا ایک تو کتابت ہوکر وہ چھپا کرتے تھے اور ایک بلاک بنتے تھے۔ وہ چھاپہ خانے کے بلاک مشینوں پر چلتے تھے تو جب وہ ایک دفعہ چھپ گیا تو اب بلاک کسی کام کے نہیں۔تو ان بلاکوں کے انبار کے انبار تھے گھر میں اوراس سے ہم کھیلتے تھے۔ تو کتابیں، رسالے، اخبار اور بلاک یہی اطراف میں تھے ہمارے اور انہی کے ساتھ بچپن گزرا۔میرے والد صاحب اپنی ان انتظامی امور کی مصروفیات اور دیر تک کام کرنے کے سبب بہت زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے ہم بچوں کو۔ صحافت میں تو مسئلہ یہی ہوتاہے تو جو بھی تھوڑا بہت وقت ان سے ملتا یا انٹریکشن کہہ لیجئے ہوا تو اس میں ہمیں بڑے کام کی باتیں سیکھنے کو ملیں۔ یعنیٰ ہمیں یہ سب باتیں سکھائی گئیں کہ بڑوں اور چھوٹوں سے گفتگو کیسے کی جاتی ہے؟بڑوں کے سامنے کیسے بیٹھا جاتا ہے؟ اس وقت تو میں دیکھ رہا ہوں کہ گھر میں بچے اوربڑے آپس میں گھل مل گئے ہیں، بہت فری ہیں۔ گھر میں آئیے تو بچے پاؤں پھیلائے بیٹھے ہیں، کچھ نیم دراز ہیں،ہمارے وقت میں کوئی سوال ہی نہیں تھا کہ گھر میں آپ کا بڑا آجائے اور آپ اپنے آپ کو سمیٹ کے سنبھال کے صحیح طریقے سے نہ بیٹھیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ جی، کچھ گھرانوں میں تواب بھی بڑی پاسداری کی جاتی ہے اس کی۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ جی جی بالکل! تو ہمیں ہر چیز سکھائی جاتی تھی۔فرش پہ بیٹھنے کا طریقہ، چوکی پہ بیٹھنے کا طریقہ، دو زانو بیٹھنے کا طریقہ، دسترخوان پہ بیٹھنے کا طریقہ سویہ ساری باتیں سکھائی گئیں اور یہ کہ اس کے سیکھنے پراصرار کرتے تھے بڑے کیونکہ یہ تربیت کا لازمی حصّہ ہوتا تھا۔میرا خیال ہے کہ اس سے اچھا اثر مرتب ہوا اور جو کچھ ادب یا زبان یا ثقافت سے جوڑ یا ملاپ ہوا تو یہ چیزیں وہیں سے آرہی تھیں۔ میں اس وقت جو کتابیں کھول کے دیکھتا تھا میں تو اسے پڑھ بھی نہیں سکتا تھا اور جو پڑھتا تھا اس کے مجھے مفاہیم اور معنیٰ سمجھ میں بھی نہیں آتے تھے لیکن اس سے یہ ہوا کہ پڑھنے کی ایک لو لگ گئی۔ اب یہ دیکھئے کہ میں بارہ سال کا ہوں گا جب میں نے کشف المحجوب پڑھ لی۔اب وہ میری کتنی سمجھ میں آسکتی تھی لیکن پڑھنا تھا سو پڑھ لی۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ ؒ کی کتابیں پڑھیں جو گھر میں سامنے تھیں تو یہ سارا ایک ماحول ہوتا ہے پھر جب آپ اسے سمجھنے لگتے ہیں تو پھر آپ کی پسند و ناپسند شروع ہوجاتی ہے۔ یہ موضوعات آگے جاکے میرے پسندیدہ رہے یا نہ رہے یہ بعد کی بات ہے کہ پھر مجھے اورجو چیزیں پسند آتی گئیں انہی میں ایک تصویریں تھیں۔ سمجھئے وہ اس قدر پسند تھیں کہ اگر میں کسی شرارت کے موڈ میں بھی ہوں تو کوئی مجھے تصویریں، پینٹنگ، رنگ یا ایسی کوئی کتاب کہ جس میں تصاویر ہوں، تھما دے تو میں سب بھول کراس میں مبتلا ہوجاتا تھا۔ پھر موسیقی، میں کیسی بھی ضد یاشرارت کررہا ہوں کوئی موسیقی لگا دے تو بس چین ہی چین ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ اچھا! توجو آپ لحن سے اپنی غزلیں پڑھتے ہیں تو موسیقی سے لگا ؤ تو اس کا سبب نہیں بنا؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ شاید اس سے شوق ہوا ہو، اس کا تو مجھے نہیں معلوم۔عام طور پرہمارے گھر میں یہ جو فلمی گانے ہیں یہ اتنی کثرت سے نہیں بجتے تھے۔ لوگ سنتے تھے فلمی گانے اس زمانے میں مگر ہمارے یہاں کلاسیکی موسیقی اور انسٹرومینٹل موسیقی سنی جاتی تھی۔گھر میں ساز بھی موجودتھے۔ میں تو اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹاپانچویں نمبر پر تھا لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے سب سے بڑے بھائی کے لئے باقاعدہ استاد آتا تھاجو انہیں ستار اور دلربا بجاناسکھاتا تھا۔تو اس وقت سے یہ چیزیں، سُر اور سازکان میں پڑ گئے تھے اور یہ بہت اچھا ہے ساز کا سیکھنا۔ آپ کو ویسے سیکھنے کی ضرورت نہ بھی ہوتو بھی اچھا ہے۔ذرا سی فرصت ہو تو آپ کوئی اچھا سُر،کوئی اچھا نغمہ یاکوئی اچھا راگ لگا لیجئے، بہت اچھا محسوس ہوتا ہے۔ ایک جگہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ جس طرح سے آپ کی قسمت کے ستارے ہوتے ہیں اسی طرح سے ہر شخص کا ایک راگ بھی ہے اور ایک سُر بھی ہے مگر اسے پتہ نہیں کہ وہ کون سا ہے۔ آپ یہ دیکھئے کہ ایک آدمی موسیقی سے کچھ دلچسپی نہیں رکھتا مگر جب موسیقی بجتی ہے تو اس کے پاؤں ہلنا شروع ہوجاتے ہیں تو یہ کیا چیز ہے؟اندر سے کس نے کنکشن ملایا؟تو موسیقی بہت اچھا کردار اداکرتی ہے اب یہ کوئی ضروری نہیں کہ آپ کو موسیقی پسند ہے تو آپ گانا شروع کردیں۔ کوئی ضروری نہیں کہ آپ لحن سے پڑھنے لگیں۔ وہ لحن تو ایک الگ بات ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ میرے یہاں تو یہ لحنِ مادر ہے۔ میری والدہ کی آواز بہت اچھی تھی اور وہ ہمیں لُوریاں اور مختلف اسلامی نظمیں ترنم سے گاکر سناتی تھیں۔ وہ تو خیر کمال کا پڑھتی تھیں میں تو پہنچا ہی نہیں وہاں تک لیکن ہاں تھوڑی بہت سوجھ بوجھ کہہ لیجئے یا اس کے اثرات تو آئے ہونگے یقیناً۔
حنا خراسانی رضوی۔۔آپ کا لحن توبہت اچھااور متاثر کن ہے۔ سننے میں تو بہت اچھا لگتا ہے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ بہت بہت شکریہ
حنا خراسانی رضوی۔۔ ڈاکٹر صاحب ابتداء میں آپ نے کہانیاں اور افسانے بھی لکھے مگر پھراسے آگے جاری نہیں رکھا؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ یہ بات صحیح ہے۔ میری عمر جب دس بارہ سال کی تھی تو ہم یہاں کراچی میں رہتے تھے اور گھر میں کئی ادبی رسالے آتے تھے۔ جب رسالہ بڑوں نے دیکھ لیا اور فرصت ہوتی تب ہم نظر ڈالتے تھے۔ہماری جتنی سوجھ بوجھ تھی اس حساب سے اس میں افسانے یا کہانیاں پڑھنے کو مل جاتی تھیں تو وہ کہانیاں بہت دلچسپ لگنے لگیں اور آدمی خود بھی سوچنے لگا ان کہانیوں کے بارے میں کہ کیا لکھا اور کیسے لکھا؟۔پھر یہ ہوا کہ میں نے کچھ کہانیاں لکھ لیں یا افسانہ کہہ لیجئے۔ اس وقت کئی اچھے رسائل نکلتے تھے اور ان میں سے ایک بہت اچھا رسالہ خیری خاندان کا نکلتا تھا ”جام نوع“ کے نام سے۔ اس میں شاعری کم تھی اور کہانیاں اور تراجم وغیرہ زیادہ تھے۔تو اب ظاہر ہے کہ وہ گھر میں پڑھنے کو ملتا تھا تو وہاں ہم نے اپنی کہانیاں بھیج دیں۔یہ میرا اسکول کا زمانہ تھا۔ مظہر خیری صاحب اس رسالے کے ایڈیٹر تھے۔ لائنز ایریا میں دفتر تھا ان کااور وہیں گھر بھی تھا۔ ان کے بچوں میں سے ایک دو میرے ساتھ اسکول میں بھی تھے۔اب کیونکہ قربت تھی ان سے تو ان کو کہانیاں بھیج دیں۔ اچھا! انہیں یہ یقین ہی نہیں آیا کہ آٹھویں کا طالبعلم یہ کہانی لکھ سکتا ہے تو انہوں نے مجھے بلوایا۔ میں ان کے گھر گیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ” یہ تم نے لکھی ہیں؟“ میں نے کہا”جی لکھی تو میں نے ہی ہے۔“ میرا خیال ہے کہ مجھے آزمائش میں ڈالنا چاہتے تھے۔ پھر کہنے لگے کہ” اگر اسکرپٹ اس طریقے سے ہوتا تو بہتر ہوسکتا تھا، اور آپ اس میں جو کردار لیکر چلیں ہیں اس میں آپ نے چند باتوں کا خیال نہیں رکھا۔“ تو میں نے ان سے کہا کہ”بھئی آپ تو بڑے ایڈیٹر ہیں،آپ تو سب جانتے ہونگے اورجو آپ نے بتایا میں سمجھ گیا ہوں میں اسے دیکھتا ہوں۔“ اچھا واپس آکر میں نے جو کہانیاں تھیں انہیں rewrite کردیابالکل ان کے بتائے طریقے سے اور پھرلے جاکر دے دیں۔اب انہوں نے سوال کیا کہ”یہ کیا ہے؟“ میں نے کہا کہ ”یہ میں نے درست کرلی ہیں اسے اب آپ دیکھ لیجئے گا اور پھرجو آپ کی رائے ہو۔“ تو وہ خاموش ہوگئے۔کوئی تعریف انہوں نے نہیں کی لیکن یہ کہ اس کا جو اگلا شمارہ آیا اس میں ایک کہانی چھپ گئی اور اس کے بعدپھر دوسری بھی چھپی۔
ممکن تھا کہ وہ سلسلہ آگے چلایا جاسکتا تھا۔اب میں ا گر کوشش بھی کروں تو میں اس طریقے سے نہیں لکھ سکتا جیسے اُس وقت ایک تازہ کاری تھی اورسوچ تھی۔ آپ جیسے سوچتے تھے اس حساب سے آپ لکھ بھی سکتے تھے مگر اب ذرا سا مشکل ہوتا ہے۔ شاعری میں تو مصرعے موزوں کرلینا وہ الگ بات ہے مگر یہ کہ نثر میں تو بھئی،اوہو! میں تو کہتا ہوں کہ اس کی قدروقیمت ہوتی ہے کہ ایک بہت بڑا افسانہ نگار ہے آپ اس کی لائن دیکھئے؟ایک لائن وہ لکھتا ہے اوروہی آپ کو ظاہر کردے گی۔ تو اس طریقے سے یہ سفر تھا پھر یہ کہ فی البدیہہ جسے آپ کہتے ہیں وہ بھی اس زمانے میں تربیت کا ذریعہ تھا۔ اسکولوں میں جس طریقے سے ایگزامینیشن کے سوال کا پرچا آتا ہے اس طریقے سے بٹھا دیتے تھے آپ کے بڑے وہاں ان کو جو شرکت کرتاتھا پھر وہاں اناؤنس ہوتا تھا کہ یہ ٹاپک ہے،اب لکھئے آپ اس پر۔
مضامین میں لکھنے کے لئے، مختلف موضوعات لکھنے کے لئے پرانے دور میں تربیت تھی تو اس تربیت کا کچھ نہ کچھ فائدہ ہوا۔ اس وقت تو بڑاگراں گزرتا تھا کہ اساتذہ نے کیا لکھوانے کے لئے بٹھا دیا ہے مگریہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت اچھے اور بڑے لوگ تھے۔دیکھئے! وہ اساتذہ کیسے تھے؟ آپ کا تو مجھے معلوم نہیں لیکن آج کل تو لوگ بڑے بڑے اور مہنگے اسکولوں میں پڑھ کر نکلتے ہیں۔ہمارے زمانے میں تو تعلیم کے اتنے بڑے اور مہنگے ادارے تھے نہیں۔ہم تو لائنز ایریا کے بیریکس میں بنے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے۔ وہیں سے پڑھے،ساری دنیا میں گئے، کام کیا،دنیا کا مقابلہ کیا، کسی قسم کی کوئی کمی،کبھی کوئی مسئلہ ہمیں نہیں ہوا۔اس لئے کہ ہمیں جواستاد ملے وہ ایسے تھے کہ وہ مٹی کو ہاتھ لگا تے تھے تو سونا بنادیتے تھے۔
حناخراسانی رضوی۔۔ جی، بالکل درست کہا آپ نے۔ یہ تو ایک غلط فہمی ہے کہ مہنگے اور مشہور درسگاہوں میں نہیں پڑھا تو آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ آپ جیسے لوگوں کو دیکھ کر یہ حوصلہ اور بڑھ جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور اس کی نفی ہوتی ہے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ہاں! ایک بات اور میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں ہم لوگ جو تھے اور جن حالوں سے ہماری شروعات ہوئیں تو ہمارے یہاں کے لوگوں میں ایک قسم کی خوبی تھی کہ کم وسائل میں بہترین کام سرانجام دیتے تھے۔ کوشش کرتے تھے اور کرتے تھے۔ وسائل کم تھے اور اس کم وسائل میں ہم نے پڑھا۔ اسی کم وسائل میں ہماری تربیت ہوئی اور اسی کم وسائل میں ہم نے ساری دنیا میں اپنے ہونے کا احساس دلایا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بالکل اورآپ نے تو ایسا اچھا احساس دلایا کہ نہ صرف آپ کی شاعری بلکہ آپ کی درس وتدریس و انتظامی امور میں خدمات سے ایک دنیا واقف ہے اوراس کی معترف ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک سوال میں شاعری کے حوالے سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شاعری بہت قدیم تاریخ رکھتی ہے یعنیٰ چارہزار سال پرانا ”قصّہ گلگامش“ تاریخ میں ملتاہے۔اس کے علاوہ قدیم ادب میں مناجات ہیں،المیہ ہے،رزمیہ ہے، طربیہ ہے تو کیا اس تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاعری نثر کے مقابلے میں زیادہ اثر ڈالتی ہے معاشرے پر؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ میرا خیال ہے کہ اس میں دو چیزیں ہیں۔ بنیادی طور پر تو یہ جذبات کے اظہار کا نام ہے خواہ آپ اسے شاعری کہیں یا نثریا جو بھی آدمی لکھ رہا ہے۔ وہ جو اس کی فکر ہے، سوچ ہے اور اسی فکر و سوچ کے ساتھ اندر جو جذبہ ہے، اس جذبے کو کس طریقے سے آپ باہرلائیں گے کہ جو اصل ہے اس کے قریب تر رہتے ہوئے وہ دوسرے تک پہنچ جائے۔ ہم نے دیکھا یہ ہے کہ جیسے ایک سائنسی اصطلاح ہے،وہ کہلاتی ہے entropy یعنی ناکارکردگی۔ ناکارکردگی سے مراد یہ ہے کہ اگر آپ نے سوچا ہے تو سوچ میں تو ہے یہ،جب آپ اسے اظہار میں لائے تو وہ کتنا اظہار میں گیا۔ کیا سو فیصد اظہار کے سانچے میں ڈھل گیا۔ جتنے فیصد وہ ڈھل جائے گا وہ کار کردگی ہوگی اور جتنا نہیں ڈھل سکا وہ ناکارکردگی۔تو اس میں یہ ہے کہ جو اچھے لکھنے والے ہیں وہ اپنی سوچ کو اپنی فکر کو دوسروں تک بھرپور طریقے سے پہنچادیتے ہیں۔ ہم کیسے کہتے ہیں کہ بہت بڑا افسانہ نگار ہے اس طریقے سے اس نے لکھا ہے کہ اس میں بھرپور اس کا اظہار سامنے آرہا ہے۔ تو یہ سب کے اندر الگ الگ ہے،سب کے اندر مختلف ہے لیکن اپنی بات کو پہنچانااظہار کے ذریعے وہ سب کے پاس ہے۔
پھر میرا خیال ہے کہ اس میں یہ ہوا کہ یہ جو اظہار ہے، یہ شاعری خالصتاً شاعری یا یہ کہ نثر، آپ یہ دیکھئے کہ اپیکسs epicجو سارے لکھے ہوئے ہیں وہ تو آپ بتائیے کہ صرف شاعری شاعری ہے یا اسے اگر آپ دوسرے طریقے سے دیکھیں تو بھی آپ اسے سامنے لاسکتے ہیں۔تو میرا خیال یہ ہے اس میں کہ شاید کم سے کم الفاظ میں ایک ردھم کے ساتھ، جس میں ایک لَے ضروری ہے ایک ردھم ضروری ہے، اس کے ساتھ اگرآپ اپنی آواز، اپنی سوچ کو اس میں ڈھال کے آگے بڑھائیں تووہ ایک شاعری کا چھوٹا سا نمونہ بن جائے گا۔ اچھا اب یہ کہ اس کے موضوعات کہ موضوعات کیا ہونگے؟ موضوعات تو شروع سے بالکل ابتدا سے ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسان۔ انسان کے آنے سے پہلے یہ زمین تھی تو اس میں تو ظاہر ہے کہ پوری تاریخ اس طریقے سے ہے کہ پہلے تو یہ ہمارے سبزہ اور پلانٹس تھے۔ اس سے پہلے organism حیاتیات، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا مگریہ کہ ساری کی ساری اس میں ہے۔ آپ نے یہ ذکر چھیڑا تو مجھے ایک نظم یاد آگئی کہ میں نے بہت زمانہ ہوا لکھا کہ:
سائنس دان بیان کرتے ہیں
اب سے پہلے
پانچ سو ملین سال پرے اس روئے زمین پر
پہلے بیج کو نمو ملا تھا
میں کہتا ہوں
وہ مٹی تو میرے دل کی نرم زمین تھی
جس میں محبت جاگ اٹھی تھی
حنا خراسانی رضوی۔۔واہ ”سر زمین دل“ کیا بات ہے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ دیکھئے اسے ہم نے اس سے مربوط کردیا کہ کہاں سے اس کی ابتدا ہوئی اور اس کا چرچا ہے وہی محبت ہے جس کے تحت ہم اور آپ گفتگو کررہے ہیں، وہی محبت ہے کہ شاعری پہ اور افسانوں پہ گفتگو ہورہی ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بالکل! آپ کے یہاں تو یوں بھی انسان، انسانیت سے محبت اور رواداری کا واضح خیال پایا جاتا ہے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ میرا یہ خیال ہے کہ شاعری میں بھی اور ادب میں بھی مجموعی طور پر آپ دیکھئے، جو بڑے بڑے موضوعات رہے ہیں زندگی کے اس میں وقت اور زمانہ time and space بڑے موضوعات ہیں۔لیکن اس میں جو سب سے بڑا موضوع ہے وہ ہے انسان۔ اس لئے کہ اس کی تخمین کرنا کہ یہ وقت کیا ہے اور زمانہ کون سا ہے؟یہ انسان کررہا ہے، یہ انسان سوچ رہا ہے تو انسان جو ہے ارفع و اعلیٰ ہے اور اس سے بڑی جو چیزاوپر نکل کر آئی کہ انسان اور اس کی پوری نفس اور اس کی تربیت اور وہ ساری چیزیں جو نیچر نے کیں اور جو مختلف ذرائع سے پھر بعد میں ہوتی رہیں جس میں مذاہب بھی آگئے،اس میں نکل کر یہ آیا کہ انسان کو فوقیت اس وقت حاصل ہوگی جب اس میں انسانیت کی ساری اقدار موجود ہونگی یعنی انسان کو کیسا ہونا چاہیئے، کس طریقے سے زندگی گزارنی چاہیئے، کس طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کے رابطے میں، پورے عالم میں کیسے ایک رشتہ استوار کرنا چاہیئے اورکیسے ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیئے۔ اور یہ مدد جب ہم کرتے ہیں تو یہ سوچنا چاہیئے کہ دراصل یہ ہماری اپنی مدد ہے جیسے ہم اپنی مدد کررہے ہیں اسی طریقے سے دوسروں کی کررہے ہیں تو یہ reciprocal،باہمی ہے تو Reciprocate جب کرتا ہے ایک انسان تو یہ پھیل جاتی ہے اور پھر پھیلتے پھیلتے پوری انسانیت تک پہنچ جاتی ہے تو ہم یہ کہتے ہیں اور اس میں کافی حد تک سبھی کی یہی رائے ہے کہ ادب جو ہے اگر وہ انسانیت کے گرد نہیں گھوم رہا اور انسانیت کے فروغ پر کام نہیں کررہا تو وہ صحیح معنوں میں ادب نہیں ہے۔
انسانیت کی فضیلت کے لئے کام کرنا۔اپنی خوشیاں،اپنے دکھ اپنے غم، پورے زمانے کی خوشیاں، دکھ غم آپس میں بانٹناتواہم ہے۔یوں سمجھ لیجئے گا کہ جب ہم طربیہ کوئی چیز لکھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے نا کہ ذاتی طور پر آپ کو نغمہ پسند ہے تو لکھ رہے ہیں بلکہ اس لئے لکھتے ہیں کہ دوسروں تک پہنچے گا تو وہ بھی اس سے خط اٹھائیں گے۔ اچھا محسوس کریں گے۔انسانیت سے جڑے رہنے میں جو اچھااور اہم ادب، بڑا ادب تو میں کیا کہوں،وہ تو ایک بہت ہی مختلف تعریف ہے، اہم جو ادب ہے تمام زبانوں کا اس میں یہ انسان اور انسانیت اور انسان سے جڑی چیزیں ہی اس کے پیچھے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بالکل جیسا کہ آپ نے کہا کہ شاعر یا ادیب جو کیفیت بیان کررہا ہے المیہ یا طربیہ خوشی یا غمی کی توصرف اپنے لئے نہیں سننے والے اورپڑھنے والے بھی اس سے جڑے ہوئے ہیں۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ جی جی، اس میں ہمہ گیریت ہوتی ہے یعنیٰ بات یہ ہے کہ اگر میرا ایک دکھ ہے اور میں اپنی ذات اور اس کے حوالے سے اس کو بیان کرتا رہوں تو میں دفتر کے دفتر بھر دوں لیکن جب اس میں پرتو آتا ہے میرے وقت کا، میرے زمانے کا میرے لوگوں کا تو وہ دکھ ایک اجتماعی دکھ بن جاتا ہے اور وہ کیفیت ایک ہمہ گیر کیفیت ہوجاتی ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بات انسانیت اور انسانوں کے باہمی تعاون کی نکلی ہے تو اس حوالے سے یہ پوچھناچاہوں گی کہ دنیائے ادب میں باہمی تعاون،حوصلہ افزائی اورکسی کو آگے بڑھنے کے لئے سہارا دینا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ دیکھئے! سہارا دینا، وہ بھی ضروری ہوتا ہے لیکن سہارا تو ایک فرد کا دوسرے فرد کے لئے ہے۔جو اس سے زیادہ فضیلت کی بات ہے وہ یہ کہ آپ راستہ بنائیے۔اگر آپ ہیں تو یہ نہیں کہ بس آپ ہی آپ ہیں۔ اس لئے کہ اور بھی ہیں اور آپ جب نہیں ہوں گے تو اورہوں گے تو ایک فرد کی اور خاص طور پر وہ شاعر ہو یا ادیب اس کی ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے کہ وہ ان لوگوں کے لئے راستہ بنائے جو شاعری کے ہوں یا ادب کی کسی بھی اصناف کے جس میں ان کے جوہر کھل سکتے ہیں۔ جو انسانیت اور اس کی فلاح کے لئے آنے والے وقتوں میں بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔اس کے لئے راستہ بناؤ، اسے آگے بڑھنے دو، اس کی تعریف کرو،اس کی ہمت افزائی کرو۔ اب ہمارے یہاں تو یہ ہے کہ بس اپنی تعریف سنے جاتے ہیں۔ بھئی واقعی جو ٹیلنٹ ہے، ٹیلنٹ، جسے آپ کہہ رہے ہیں توآپ اسے آگے بڑھانے کے لئے اس کی ہمت افزائی کیجئے۔ اس ہمت افزائی سے بہت کچھ بنتا ہے اور میں نے تو خود یہ دیکھا کہ شاعری ہے یا اور کچھ چیزیں ہیں اس میں ہمارے بزرگ اورہمارے پیش رُو کا بہت بڑا کردار ہے ہمت افزائی کا۔ اگر ٹیلنٹ ہے تو وہ کہتے تھے ”میاں شاباش، بہت اچھا۔“ یہ دو جملے کہنا اس سے اندر ایک قسم کی امنگ اور ولولہ دوچند ہوجاتا ہے آگے سفر کرنے میں۔ اب اس وقت یہ پیش رفت اس طریقے سے نہیں ہورہی جو آدمی ہے نا وہ جگہ گھیر کے بیٹھ گیا ہے۔ میں اسے اچھا نہیں سمجھتا۔ میں کہتا ہوں کہ جو اور آنے والے ہمارے ساتھ کے ہیں، میں نے پہلے بھی کہا ہے آپ کے سامنے بھی دہرائے دیتا ہوں کہ اس میں کوئی بات نہیں کہ سنیارٹی کے حساب سے اب پاکستان میں جو سینئر لوگ ہیں اس میں، میں ہوں۔ وہ تو میں آگیا اپنے وقت اور زمانے کی وجہ سے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ بھئی دیکھو بات یہ ہے کہ مجھے بہت خوشی ہوگی، بہت خوشی ہوگی کہ میں عباس تابش کی صدارت میں بیٹھ کے پڑھوں۔ بھئی کیوں نہ پڑھوں؟حرج کیا ہے اس میں؟ یہ تو اچھا ہے۔ اب دیکھئے کہ امجد تو ہمارے ساتھ کے ہی ہیں۔افتخار عارف، امجد اور میں، ہم تقریباً ایک ساتھ کے ہیں توہمارے سر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ جو پیچھے اچھے لوگ ہیں خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر کہیں ہوں ان سے کہیں بھئی بہت اچھا، سبحان اللہ۔
اور اب تو یہ تکلف ختم ہوگیا اس لئے کہ پہلے بڑے مسائل تھے کہ آپ کی ادبی تقریبات،مشاعرے اور تنقیدی نشستیں یہ اپنی اپنی جگہ پہ ہوتی تھیں اور بہت چھوٹی چھوٹی ہوتی تھیں۔ مشاعرہ کبھی ہوگیا اگربہت ذمہ دار لوگوں نے جمع ہوکر کروادیا۔ اب تو خیر ہر ہفتے، ہر سنیچر، ہر اتوار مشاعرہ ہورہا ہے اور ہر ایک کو موقع مل رہا ہے۔ اس میں بعض بہت اچھے نظر آجاتے ہیں تو ان کی تحسین کرنی چاہیئے کہ لوگ ہیں، دور بیٹھے ہوئے ہیں لیکن اچھا کام کررہے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ لیکن ڈاکٹر صاحب یہ بھی تو ایک بات ہے کہ اس میں کئی ایسے لوگ بھی آجاتے ہیں جو ادب کے یاشاعری کے اسرار و رموز سے ڈھنگ سے واقف ہی نہیں مگروہ سامنے آجاتے ہیں اور جو اہل ہیں وہ کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ہاں! اس وقت زیادہ لوگ ویسے ہی ہیں کہ وہ مصرعے وصرے موزوں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کر لیتے ہیں لیکن انہیں ان چیزوں کا پتہ نہیں ہے جو شاعری کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اس کو دیکھنا چاہیئے اور جانچنا چاہیئے۔ یہ مقفیٰ اور مُسَجع عبارتیں اور ردیف و قافیہ۔میں تو کہتا ہوں کہ اگر آپ نثر بھی لکھ رہے ہیں تو اس کے بھی کچھ ضوابط ہیں۔الفاظ، الفاظ کا چناؤ، اس کا اظہار،اب یہاں ایک بات یہ آتی ہے اور میرا خیال ہے بہت اہم ہوگی کہ آپ کبھی سوچئے گا اور اس پر الگ سے لکھئے گا کبھی کہ یہ جو الفاظ کا چناؤ اور اس کا انتخاب ہے یہ بڑے خاصے کی چیز ہے۔ دیکھئے میں یا آپ اورجوہمیں پڑھ رہے ہیں یاہماری بات سن رہے ہیں،اس میں بہت بڑی تعداد ایسی ہے کہ جن کی اردو زبان کی لفظیات، vocabulary کم و بیش وہی ہے جو ہماری اور آپ کی ہے۔ اچھا توہم کہیں استعمال کے لئے اگر ایک لفظ تلاش کرتے ہیں اور ڈھونڈتے ہیں اور ہم اپنے اظہار میں اُسے استعمال کررہے ہیں تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اس استعمال میں جہاں وہ لفظ استعمال ہوا ہے کیا وہ بہت ہی بہترین رہا یا بہت ہی بیکار رہا؟ یہ بڑی مشکل سوچ ہے اور بڑی مشکل جگہ ہے کیونکہ شاعری ہو یا نثر جہاں بھی آپ الفاظ اور اس کا چناؤ کرکے آپ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لئے اسے استعمال کررہے ہیں وہاں اچھے اور برے کی صورتحال نہیں ہے کہ یہ بہت اچھا ہے، یہ کم اچھا ہے یا یہ تو بالکل خراب ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ چاہیئے کہ مناسب ترین کون سا ہے۔
مناسب ترین! مناسب ترین کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھیں گے، مفاہیم تو وہ ادا کرے گا مگر وہ اس طریقے سے نہیں کررہا کہ جس خوبی سے، جس کمال سے، جس وضع کے ساتھ اور جس تفصیل کے ساتھ وہ پہلالفظ بیان کررہا ہے تواس کا مطلب کہ مناسب ترین استعمال اُس کا ہے۔تو یہ لکھنے والے کا کمال ہوتا ہے۔ کسی نے کوڈ کیا تھا فلابر Flabber کوکہ اس نے کیا اچھی بات کی کہ ”لکھنے والے کا جو قلم ہے وہ لفظ کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔کہاں لکھ دے اور کیا کردے، اسے اجاڑ دے، بیکار کردے یا چار چاند لگا دے۔“
حنا خراسانی رضوی۔۔ بہت خوب! ڈاکٹر صاحب روایتی شاعری کی جانب آتے ہیں جو ایک تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے لیکن آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے پیچھے ہٹا جارہا ہے؟ آپ اسے کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔روایتی شاعری سے پیچھے ہٹے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وقت اور زمانہ کہ جس کا ہم نے شروع میں ذکر کیا، یہ بہت بڑی اور بہت اہم سرگرمی ہے یہ وقت اور زمانہ۔ جب زمانہ آگے کا سفر کرتا ہے تو وقت اس کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے۔ وقت اور زمانہ جب اپنے سفر کو آگے جاری رکھتے ہیں تو اس میں جو لوگ سمجھ لیجئے گا کہ تخلیقی طور پر یعنیٰ شعر کہنے میں یا نثر لکھنے میں اس کے ساتھ ساتھ اس کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں تو ان کو کم سے کم اس رفتار سے چلنا پڑے گا کہ جس رفتار سے زمانہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر اس سے ہلکے ہونگے تو وہ آگے نکل جائے گا اور آپ پیچھے رہ جائیں گے اور اگر آپ اس سے تیز چلیں گے تب اپنے وقت اور زمانے سے آپ ہٹ جائیں گے تو یہ جسے کہتے ہیں most appropriate یعنیٰ”مناسب ترین“ وہ نہیں ہے۔ آپ اِس وقت اور اِس زمانے کے شخص نہیں تھے آپ تو آگے والے وقت کے تھے مگر آپ یہاں کی بات کررہے ہیں۔ سو، اس میں یہ ہے کہ جب یہ سارے منظر نامے ہمارے سامنے، ہمارے اطراف پوری دنیا میں جو ہورہا ہے خواہ وہ سماجی عمل ہو، سیاسی عمل ہو، اقتصادی عمل ہو، کوئی بھی عمل ہو جو ہمارے اطراف ہورہا ہے اسے ہم دیکھتے ہیں اور غور کرتے ہیں تو وہاں سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ہم وقت اور زمانے کے ساتھ ہیں؟ یہ جو بدلتے ہوئے منظر ہیں تو اس کو سمجھنے کے لئے اور اسے لینے کے لئے اور اسے اظہار میں ڈھالنے کے لئے آپ کا جو سمجھ لیجئے گا سوچ کا جو انداز ہے اور جو طرزِ اظہار ہے یا بیان کا جو انداز ہے وہ اگر پرانا ہے تو نئے زمانے کا ساتھ نہیں دے سکے گا۔
تو ایک تو تبدیلی لازمی ہے اوروہ ہونی چاہیئے کہ جو پرانا وقت اور پرانا زمانہ آگے چلتا چلا جارہا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ہمارے فکر اور اظہار دونوں کو نئے زمانوں کے ساتھ چلنے کے لئے اپنے آپ کو کچھ نہ کچھ بدلتے رہنا پڑے گا۔ جہاں وہ نہیں بدلتے، بدلنے سے انکار کردیتے ہیں ان پر لیبل لگ جاتا ہے کہ یہ تو روایت پرست ہیں۔ روایت پرست ہونا مجھے بھی اچھا نہیں لگتا مگر روایت پسند ہونا چاہیئے۔ اس لئے کہ ہماری بنیاد روایت کے ساتھ ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ واہ! روایت پسند ہونا چاہیئے۔ خوب ہے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ ہاں!روایت پسند ہو۔ مطلب یہ نہیں کہ آپ روایت پر ہی وہیں جیتے مرتے ختم ہوجائیں۔ توہمیں روایت پسند ہونا چاہیئے کہ ہمارے بزرگوں نے جو کیا، ہمارے اساتذہ نے جو کیا جس سے ہمیں تحریک حاصل ہوئی اور وہ تھوڑا نہیں ہے، وہ بہت ہے۔ اب تو آج کل جو شاعری کا دور چل رہا ہے اس میں جو نئے ہیں وہ کسی اور نئے آدمی سے جو ان سے سینئیر ہوتا ہے اس کے شاگرد ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنی کتابیں انہیں دے دیتا ہے اور ایک آدھ کتاب اس کی کہہ دیتا ہے پڑھنے کو جس سے اس کا جھگڑا نہیں ہے۔ہمارے وقت میں تو ہمیں کہتے تھے اساتذہ کو پڑھو۔ جس نے اساتذہ کو نہیں پڑھا وہ کیسے شاعری کے سفر کا مسافر ہو سکتا ہے۔ تو ہم نے تو اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے پڑھا۔لیکن یہ کہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیلی میں بھی ڈھالیں۔ جس طرز میں وہ تھے آپ اسی میں رہ جائیں گے تو یہ نہیں ہونا چاہیئے۔ظاہر ہے آپ اس سے انحراف کریں گے اورآپ کیونکہ اس وقت اور اس زمانے سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو ایک مختلف سوچ کے ساتھ اور مختلف طرزِ اظہار کے ساتھ تھوڑا اس سے لیکر آگے جانا چاہیئے۔ اگر ایسا ہوگا تو ہم وقت کے ساتھ ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ نئے لکھنے والوں میں آج آزاد نظم اور نثری نظم کا بہت چرچا ہے اور لوگ رجحان رکھتے ہیں اس طرف لیکن کیا آزاد نظم اور نثری نظم اُردو ادب میں صنف کی حیثیت سے مستحکم پہچان بنا چکی ہیں؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ آزاد نظم تو میرا خیال ہے اپنے خدوخال کے ساتھ بہت واضح ہے اور اپنا مقام اور جگہ بنا چکی ہے۔ اس میں کوئی بات نہیں لیکن یہ کہ نثری نظم جو ہے وہ بھی نئی تو نہیں رہی اس لئے کہ یہ بھی کوئی پچاس برس کا سلسلہ ہے جو اس سے جڑا ہوا ہے۔ بہت اچھی نثری نظمیں کہی گئی ہیں لیکن یہ کہ میں نے عام لوگوں سے پوچھا اوران لوگوں سے جنھوں نے نثری نظم تجربے کے طور پر کہی، پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نثری نظم ہم نے تجربے کے طور پہ کہی لیکن ہم جو مرصع یا دوسری نظم کہتے ہیں یا آزاد نظم بھی کہتے ہیں تو اس کے مقابلے میں نثری جو کہتے ہیں تو اس میں ذرا سا فرق ہے یعنیٰ وہ نظمیں جب ہم مکمل کرلیتے ہیں تو اندر سے ایک طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ آپ اندر سے محسوس کرتے ہیں کہ ایک بات ہے وہ مکمل ہوگئی۔ اچھا!لوگوں نے کہا کہ جب ہم نثری نظم کہتے ہیں تو نظم میں موضوع کے حساب سے جو فورس ہے،پاور ہے وہ اس میں آجاتی ہے اور بیان بھی ہوجاتا ہے لیکن اندر سے جو ایک تسلی کا جوعنصر ہے وہ ذرا سا مشکل ہے۔اچھا!یہ وہ لوگ ہیں جو نثری نظمیں تجربے کے طور پر کہہ رہے تھے لیکن یہ کہ نثری نظم میں ایک پاور تو ہے، فورس تو ہے اور میرا یہ خیال ہے کہ اس کو دیکھنا چاہیئے۔اس لئے کہ سارا وقت اور سارا زمانہ جو ہے وہ مختلف تجربات سے گزرتا ہے تو یہ بھی ہمارے ادب،ہماری زبان اور شاعری کے تجربوں میں سے ایک ہے۔ویسے تو راست ہمارا originate کیا ہوا نہیں ہے۔آیا تو باہر ہی سے ہے لیکن یہ کہ وہ ہے تو اس کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
میرے استاد محترم ابو الخیر کشفی صاحب، میں تو ظاہر ہے کہ زبان و ادب کا طالبعلم اس طریقے سے نہیں رہاکہ میں تو سائنس پڑھا ہوا ہوں لیکن جو کچھ اُردو انہوں نے پڑھائی،راست تو انہوں نے ایک بڑا اچھا اور بہت ہی بلیغ جملہ کہا، اوہو!کیا خوب جملہ کہا انہوں نے کہ” نثری نظم ابھی اپنے ن۔م راشد کے انتظار میں ہے۔“
حنا خراسانی رضوی۔۔واقعی بہت عمدہ، کیا بات ہے!
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ تو وہ ہو جائے گا کہیں نہ کہیں ہو جائے گا اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ میں نثری نظم کو پسند کرتا ہوں۔ متاثر کتنا ہوتا ہوں پڑھ کے اگر اس سے مقابلہ کروں کہ یہ ویسی نظم ہے اور یہ نثری نظم ہے تو اس میں مختلف چیزیں ہوتی ہیں اوراگر ہم اسے تکنیکی، تجربے کے طور پر کریں تو موضوعات یکساں رکھ لیں کہ مثال کے طور پہ انسان۔ نثری نظم میں انسان،معریٰ نظم میں انسان، جوش ملیح آبادی صاحب کی ایک نظم ہے تو آپ اسے کیسے محسوس کریں گے؟ تو اگر کوئی ایک تقابلی جائزہ لینا چاہے تو اس طرح سے کرکے دیکھے مگر امکانات کے طور پر نثری نظم میں جان ہے اوریہ آگے جائے گی۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ ڈاکٹر صاحب ادب کی کچھ اصناف ایسی بھی ہیں جو فراموش ہوتی جارہی ہیں جیسے سہہ حرفی جوایک زمانے میں مقبول تھی لیکن اب سہہ حرفی کہنے والے خال خا ل نظر آتے ہیں؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ دراصل اس وقت تو عام طور پر جس سے دلچسپی ہے وہ غزل اورنظم ہے۔غزل کے فورم ہیں وہ مختلف ہوتی چلی جاتی ہیں اس لئے کہ ہمارے وقت اور زمانے نے جو ہمیں دیا اور جس طریقے سے اس میں بہت سی نئی چیزیں آتی گئیں فکشن بدلا، لہجہ بدلا اس کا وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ اظہار بدلا تو یہ ساری چیزیں غزل کے ساتھ ہوتی چلی گئیں مگر اس دوران اور کئی چیزیں تھیں مثال کے طور پہ ہم مشاعروں میں دیکھتے تھے جوایک عام رواج تھا کہ جو بھی شاعر آتا تھا چاہے وہ کہیں کا بھی ہو پہلے قطعات پڑھتا تھا،رباعی پڑھتا تھا اور یہ سب پڑھ کے پھر غزل پہ آتا تھا اور غزل پیش کرتا تھا۔ قطعات اور رباعی ذرا سی مشکل صنفِ سخن ہے۔ قطعات تو عام طور پر لوگ کہتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جو acceptability ہے وہ اب بھی ہے یعنیٰ اچھے قطعات کوئی لکھ رہا ہے تو وہ چھپے گا، پڑھا جائے گا اور لوگ اس کو محسوس کریں گے کہ بھئی یہ اچھا ہے لیکن عام طور پر قطعات شاید جو لوگ کہتے تھے انہوں نے بھی کہنا بند کردیااور رباعی والے تو ہیں ہی بہت کم۔
پاکستان میں راغب صاحب کہتے تھے رباعی۔ اس کے بعد نئے لوگوں میں آئے فراست رضوی۔ بہت جینئس زبردست شعر کہنے والا آدمی ہے فراست رضوی۔ اس نے جو رباعیات کہی ہیں وہ بہت اچھی ہیں۔ سو یہ عام نہیں ہے یعنیٰ عام سے میری مراد یہ ہے جو تعلیمی اداروں میں، کالجوں میں مشاعرے ہورہے ہیں اور اس میں جو نوجوان آرہے ہیں وہ قطعات پڑھ رہے ہوں، رباعیاں پڑھ رہے ہوں، نہیں! وہ نظم پڑھتے ہیں اور غزل پر آجاتے ہیں۔ تو اس لحاظ سے قطعات اور رباعی اور جو ابھی آپ نے نام لیا سہہ حرفی اور اس طریقے سے سلاسی، حمایت بھائی نے حمایت علی شاعر صاحب نے تین مصرعوں پہ سلاسی کہی اور ان کی بہت اچھی سلاسی ہیں۔ لیکن اب تو نہ کوئی سلاسی کہہ رہا ہے نہ قطعات کو قطعات کے طریقے سے کوئی کہہ رہا ہے۔ رباعی تھوڑی بہت لکھی جارہی ہے مگر وہ بھی کوئی خاص نہیں۔اگر مجموعے کے طور پر آپ رباعی یا قطعات کے مجموعے چھاپ دیں تو اس کی پزیرائی وہ نہیں ہوتی کہ جو غزلیات کی یا جو نظموں کے مجموعوں کی ہوتی ہے تو اس سے لوگ پھر کہنا کم کررہے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ ایک زمانے میں جنگ میں رئیس امروہوی صاحب کے قطعات روز چھپتے تھے اور نوجوان سمیت ہر طبقہ بے حد شوق سے پڑھتا تھااور گفتگو میں اس کا ذکر رہتا تھا۔ اس پائے کے قطعات لکھنے والوں کی کمی اس سے دوری کی خاص وجہ تو نہیں؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی کیا خاص وجہ ہے لیکن قطعات جو ہے موضوعاتی لکھے جانے لگے تھے اور اخباروں میں قطعات،کیونکہ اس میں رئیس امروہوی صاحب کا بہت بڑا کام ہے۔ ان کے لئے تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا تھا قطعہ لکھنا۔ کوئی مسئلہ تھوڑی ہے ابھی بیٹھ کے وہ لکھوا دیں گے دس آدمیوں کو ایک ساتھ۔قطعات میں تو حالاتِ حاضرہ پہ جو عالمگیر سطح پر قومی اور ملکی سطح پہ جو چیزیں ہورہی ہوں اس کوپنچ کرتے ہیں۔کوئی طنز ہو کوئی اظہار ہو جو کھٹاک سے لگے اور محسوس کرلیا جائے تو اب رئیس صاحب کی جگہ انور شعور لکھ رہے ہیں ان کا قطعہ روز جنگ میں چھپتا ہے۔اور بات ہوئی رئیس صاحب کی تو اوہو! کس کمال کے شاعر تھے رئیس امروہوی صاحب۔ قطعات کی جانب وہ چلے گئے اور قطعہ نویسی ان کی ایک پہچان بن گئی مگر فکری طور پر وہ بہت زبردست شاعر تھے۔ ان کا شعر ہے:
میرے قریب نہ آ اے بہشتِ بے خبری
کہ آگہی کے جہنم میں جل رہا ہوں میں
حنا خراسانی رضوی۔۔ کیا کہنے!
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ اب دیکھئے!یہ فکری سطح پر ہے سو اب وہ قطعات لکھ رہے تھے تو لوگ قطعہ نویس ہی سمجھنے لگے انہیں۔وہ تو بہت بڑے شاعر تھے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ ڈاکٹر صاحب آپ سائنس کے طالبعلم رہے اور استاد اور محقق بھی اسی شعبے کے اور پھر شاعری کی طرف ادب کی طرف آئے تو اپنی زندگی کے ان دونوں رخوں کو نبھانے میں کتنافرق پاتے ہیں؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ فرق تو بہت ہے۔فرق تو ہے مگر میں عرض کروں کہ یہ جو سائنس ہے یہ اپنے مطالبات الگ رکھتی ہے۔ سائنس تو جز وقتی کام نہیں ہے کہ اسے کیا اور پھر چھوڑ دیا کہ چلو اگلے ہفتے دیکھیں گے۔ یہ اگلے ہفتے کا کام نہیں ہے۔ اگر آپ نے ایک تجربہ شروع کیا ہوا ہے تو وہ اگر چل رہا ہے چوبیس گھنٹے تو آپ کو چوبیس گھنٹے لیب میں رہنا پڑے گا۔ آج کل کے زمانے میں کیونکہ آٹومیشن بہت زیادہ ہے تو وہ سارے gadgeties ہیں تو وہ سب اس میں چلتا رہتا ہے مگر پھر بھی ایک جو سائنٹسٹ ہے اسے جو نتائج آرہے ہیں اس کو دیکھنا پڑتا ہے اور اسی وقت فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے یا اسے دہرا لیا جائے۔ تو وہ ایک ایسا کام نہیں ہے جسے tidbitsکہتے ہیں کہ ادھر ادھر تھوڑاکرلیا
پھر چھوڑ دیا۔ تووہ نہیں ہے۔اس کے مطالبات الگ ہوتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ شاعری یا ادب کے حوالے سے کہیں گے تو وہ لوگ جو اُردو زبان و ادب کے شعبے سے متعلق ہیں اگر وہ تدریس میں ہیں اور وہ تحقیق میں بھی وقت دے رہے ہیں تو ان کا تو شعبہ ہی وہ ہے اور ظاہر ہے کسی نہ کسی موضوع یا اس سے لگے موضوع پر لائبریری بھی جائیں گے، اپنے سیمیناروں میں بھی جائیں گے، کانفرنس اٹینڈ کریں گے اور وہیں کے وہیں ہونگے۔لیکن میرے لئے یہ تھا کہ سائنس میں مجھے ایک خاصہ زمانہ گزرا سائنسی پیش رفت کے لئے ریسرچ اور دوسری چیزیں کرتے رہنا پڑتی تھیں تو وہ کرتے رہے جو علیحدہ جرائد میں سائنٹیفک جرنلز میں چھپتی ہیں اور اس میں چھپ کے وہ دنیا میں جاتی ہیں۔ آج کل توآن لائن بھی چلتی ہیں یہ سب پبلی کیشنز۔مگر یہ کہ اب بھی جو لوگ سائنس کی تدریس کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ریسرچ بھی کررہے ہیں تو وہ اس میں کچھ نہ کچھ وقت ضرور دینگے۔ اب اگر انہیں شاعری یا ادب سے لگاؤ ہے تو وہ اس کے لئے بھی وقت نکالیں گے۔ تو مجھے اس بات کا تو احساس ضرور ہے کہ جتنا وقت مجھے دینا چاہیئے تھا شاعری اور ادب کو اتنا میں دے نہیں سکا کیونکہ اُس وقت میں بٹ گیا سائنسی اور تحقیقی کام بھی تھے اور یہ ادبی کام بھی تھے۔ گو کہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے اور اس سے کوئی خاص دشواری نہیں ہوئی کہ بھئی آپ تو سائنس کے ہیں ادب میں کیسے کرلیتے ہیں؟ تو دیکھئے ادب نے تو راستہ دیا۔ وقت نے زمانے نے، ہمارے بزرگوں نے، ہمارے پیش رُو نے، انہوں نے حوصلہ افزائی کی اور راستہ دیا تو ہم آگے آگئے۔ اب یہ جو ہے سب اس پہ ٰ منحصر ہے کہ آپ کو جو سننے والے ہیں یا آپ کو جو پڑھنے والے ہیں یا جو بھی آپ کا کام ہے اس سے لوگ کس حد تک اور کس کس طریقے سے متاثر ہورہے ہیں۔
اب یہاں ایک بات یہ دیکھئے کہ اگر آپ ادبی کام کررہے ہیں شاعری ہو یا نثر ہو، اور وہ ادبی جریدوں میں چھپ رہا ہے اور اس کے بعد پھر مجموعہ کلام بھی چھپ رہے ہیں، کتابیں آرہی ہیں مگر ادبی جریدوں میں چھپنا اور شائع ہونا وہ خاصہ اہم اور ضروری بات ہے۔ پہلے اس میں کیا تھا، پرانے زمانے کی بات بتا رہا ہوں کہ آپ نے ایک غزل کسی جریدے کو بھیجی اور وہ وہاں چھپی۔ دو غزلیں چھپ گئیں اچھا اب وہ جب سرکولیشن میں جائے گا تو اس کو پڑھنے والے پڑھیں گے جوبہت سے بہت پانچ سو ہونگے۔ان تک پہنچے گا وہ اور پھرپڑھنے کے بعد کچھ پسند آئے گا تو لیٹر ٹو دی ایڈیٹر لکھیں گے اور بھیجیں گے تو وہ اگلی اشاعت میں چھپے گا اور اس سے پتہ چلے گا کہ یہ غزل فلاں کی پسند آئی یا یہ افسانے فلاں کے بہت اچھے لگے۔ اس کے مقابلے میں، اس میں جو ایک سلسلہ بنا ہے وہ میں بتا رہا ہوں، آپ جب مشاعرے میں جاتے ہیں تو فوری ریسپانس ملتا ہے۔یہ تو ضرور ہے کہ اہلِ ذوق، جو شعر کا، شعر کی گہرائی کا، شعر کے فلسفے کا ادراک رکھنے والے ہوتے ہیں وہ مشاعروں میں نہیں ہوتے۔ مشاعروں میں عام سننے والے ہوتے ہیں کہ آپ نے کوئی چیز پیش کی تو کھٹ سے جو لگتا ہے ان کے دل کو پھر اس پہ وہ بے ساختہ آپ کے سامنے کہہ اٹھتے ہیں واہ! فوری پتہ چل جاتا ہے کہ پسند کیا گیا کہ نہیں،اس سے بڑی تشفی ہوتی ہے۔ کراچی میں تو یہ ہوتا تھا کہ یہاں تو بیس بیس پچیس پچیس ہزار لوگ مشاعروں میں بیٹھے ہوتے تھے اور ہندوستان میں تو اس سے بھی زیادہ۔ وہاں تو مشاعرہ کلچر کا حصّہ بن چکا ہے مگر ہمارے یہاں ابھی نہیں بنا ہے۔ لیکن یہ کہ مشاعروں میں اندر کی تشفی توہے مگر جرائد اور رسالوں کو دیکھتے رہنا چاہیئے اورغور کرتے رہنا چاہیئے کیونکہ وہ اہم ہے۔
میرے ساتھ یہ رہا کہ مصروفیت اِدھر کی بھی اوراُدھر کی بھی، دونوں تو اس میں جو چھپنے کا ہے بہت زیادہ نہیں ہوسکا کیونکہ وقت پر بھیجتے رہو، یہ کرو،وہ کروتو یہ نہیں ہوسکا۔ اس کے مقابلے میں مشاعرے میں ایک ہی وقت میں،ذرا کی ذرا میں سب بیٹھ کے اسے سن لیتے اور داد مل جاتی تو اس سے ایک تسلی اور تشفی ہوجاتی تھی کہ بھئی آدمی کو ہوتا ہے کہ اگر آپ نے ایک حرفِ ستائش کہا تو شعرکہنے والے کو ایک تسلی اندر سے ہوجاتی ہے۔ تو یہ تھا لیکن ہمیں ایک چیز جو میسر آئی،ایسے مواقع ہر ایک کونہیں ملتے کہ میری نسل جو ہے اور میرے ساتھ کے جو لوگ ہیں، کچھ مجھ سے آگے ہیں یعنیٰ میرے پیش رُو۔ ایک تو پیش رُووہ تھے احمد ندیم قاسمی اور فیض احمد فیض،جون ایلیاہمارے اور منیر بھائی،منیر نیازی مجھ سے بڑی قربت ان کی۔ یہ سارے کے سارے ہم سے آگے کے ہیں۔ اسی میں ہم سے آگے بالکل اوپر آپ کہہ لیں وہ بھی بہت سے ہیں مثال کے طور پر جو بے مثال شاعر اور بہترین محقق اور عالمانہ، انٹیلیکچوئیل جسے آپ کہتے ہیں، وہ ہیں سحر انصاری،بہت کمال کے شاعر ہیں سحر بھائی۔تو اب یہ سب ہمیں ملے اور ان سب کے ساتھ مشاعرہ کہہ لیجئے یا کلچر اس میں انٹریکشن کا بہت دروازہ کھلتا ہے اور اس سے تعارف ایک بہت بڑا لوگوں تک ہوجاتا ہے۔ تو میری جو نسل ہے اس کو بہترین مواقع ملے۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جب ہم نے شعر کہنا شروع کیا یا شعر کی سمجھ آئی اور ہم نے بھی شاعری میں حصّہ لینا شروع کیا عالمگیر سطح پہ، اپنے یہاں کی سطح پہ تو اس وقت ایسا اتفاق رہاجو صدیوں میں نہیں ہوتا کہ اُردو زبان کے بڑے لکھنے والے، نثر لکھنے والے، شعر لکھنے والے سب کے سب اُس وقت میں موجود تھے۔ہم نے دیکھا فیض احمد فیض کو، ہم نے دیکھا احمد ندیم قاسمی کو، علی سردار جعفری کو، کیفی اعظمی کو، مجروح سلطان پوری کو، اختر الایمان کو اور صرف دیکھا ہی نہیں ہم ساتھ رہے اورہم بیٹھے ان کی صحبت میں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔واہ! واقعی کیا بہترین صحبتیں۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ جی! اوریہ سب اتفاق سے مل گئیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ گویاکہا جائے کہ بہترین زمانہ مل گیا آپ کو؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ جی زمانہ،وہ ہمیں ملا اور ہمارے وقت کے بہت بڑے لوگ ہمارے ساتھ تھے۔ اب یہاں جو آپ نے ایک بات چھیڑی تھی وہ وہاں اس طریقے سے آگے نہیں گئی اگر میں یہ کہوں یہ جو قبولیت ہے یہ جو دلچسپی ہے شعر سے اور ادب سے اس میں دو عوامل بہت زبردست حیثیت رکھتے ہیں شاید اب بھی، ایک تو ضرور ہے وہ یہ کہ لوگ پسند کرنے والے دو چیزوں میں بہت زیادہ دلچسپی کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے ایک تو romanticism رومانیت، دیکھئے! یہ میں نے بتایا ہے کہیں کہ یہ عجیب بات تو نہیں ہے ایسا ہی شاید ہونا ہوتا ہے۔ ہم، ہماری نسل، ہم سے پہلی نسل، اُس سے پہلی، ہمارے بعد آنے والی اور اس کے بعد آنے والی، نسل بعد از نسل یہ جتنا بھی چلتا رہے گا اس میں جو رومانیت کی اپیل جو ہے اسے پسند کرنے والے اور اس سے جڑنے والے ہمیشہ سے تھے اب بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ ایک نسل ہوتی ہے جو اس کے حصار میں ہوتی ہے اس سے جڑی ہوتی ہے۔
دوسری چیز وہ ہمارے وقت اور اس کے زمانے کی تھی وہ تھا احتجاج۔ جو چیزیں ہمارے اس میں نفی کی چیزیں ہیں جو انسان اور انسانیت کے خلاف کام کررہی ہیں جو انسان کی بنیادی ضرورتوں کے خلاف کام کررہی ہیں جو انسان کو انسان سے اس کے حقوق دینے کے لئے اس میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہیں ان کے خلاف کہنے والا کون ہے، احتجاج۔ اور احتجاج کی ایک شکل یہ ہوجاتی ہے کہ جہاں resistance یعنیٰ مزاحمت شروع ہوجائے تو شاعری میں تو میں نہیں سمجھتا کہ مزاحمت کی تحریک مگر احتجاج کی تحریک ضرور رہے۔اور دیکھئے یہ احتجاج ہندوستان میں ہندوپاک غیر منقسم میں تو شروع ہوگیا تھا اس وقت جب انگریز قابض تھے۔ یہ تو پوری تحریک تھی کہ انہیں یہاں سے جانا چاہیئے اورآپ کیوں ہیں یہاں؟ وہاں سے پھر ترقی پسند تحریک ہوتی رہی اور اسی طرح اور دوسری تحریکیں چلتی رہیں۔ یہ سارے وقت اور زمانے میں جو عوامل تھے ان کو دیکھ کے اور ان سے متاثر ہوکے یہ تحریکیں سامنے آئیں۔ تو ایک تو رومانیت ہے وہ تو تھا، ہے اور آگے بھی رہے گا اور ایک ہے احتجاج۔ کہیں کہیں اس میں کمبی نیشن ہوگیا مثال کے طور پہ فراز بھائی، احمد فراز رومانیت بلا کا اور احتجاج بھی موجود۔دونوں یکجا۔ تواب ظاہر ہے کہ ان کا چرچا، ان سے محبت اور ان کو پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ رہی۔
حنا خراسانی رضوی۔۔اب بات اس طرف آئی تو جون صاحب کے بارے میں بتائیے ان کے یہاں بھی احتجاج ہے؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ جون صاحب کی دوسری بات ہے وہ انسانی نفسیات کے ساتھ اپنی جو بالکل ذاتی اور اصل کیفیتیں ہیں ان کو نفسیاتی ضابطوں کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان کا شعر ہے:
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں
اب دیکھئے!کوئی بھی نہیں کہتا، اپنی زبان پر لاتا ہی نہیں حالانکہ اندر سب کے یہاں ایک گرہ پڑی ہوئی ہے لیکن یہ صرف جون کہہ سکتے ہیں۔کوئی نہیں کہے گا۔ اندر جو لاوے پھوٹ رہے ہیں، اندر جو ہم نفسیاتی طور پر چیزوں سے جڑ جاتے ہیں وہ انہوں نے بیان کیا۔ یہ کمال ہے اور دوسرا جو جون کا کمال رہا، کمال کیا وہ تو ان کی اپنی ایک پوری فطری صورتحال تھی اس کے تقاضے میں وہ گھومتے رہے وہ تھا انکار۔ ان کے یہاں انکار ہی انکار ہے اقرار تو ہے ہی نہیں۔
آپ یہ دیکھئے ہم نے فراز کی بات کی تو فراز میں یہ دونوں خوبیاں موجود تھیں۔ اس کے بعد جو دوسرا شخص ہے اس کا کیا جواب، کیا میں کہوں بھئی! وہ ہیں حبیب جالب۔ ان سے بڑی میری قربت۔حبیب جالب کے یہاں سارا احتجاج ہی احتجاج۔ کس کس طریقے سے انہوں نے کہا ہے۔تو دونوں نے اپنے اپنے کام کیے اور میرا یہ خیال ہے کہ اگر اس طریقے کے کہنے والے اب آجائیں تو وہ بھی اپنے کام کریں گے اس لئے کہ ہماری نفسیات میں شامل ہے کہ ہم اپنے وقت اور زمانے سے غیر مطمئن ہیں تو اس میں اختلاف اور احتجاج میں ہم جاتے ہیں اور رومانیت پر بھی کہ وہ ہمارے اندر جاگا ہوا رہتا ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ واہ خوب سلاست سے آپ نے بیان کیا۔ابھی مشاعروں کا ذکر ہوا تو یہ سوال ذہن میں آیا کہ ہمارے یہاں مشاعرے عوام کو ادبی سرگرمیوں سے اور ادبی دنیا سے جوڑے رکھنے کا سبب بھی ہوتے ہیں لیکن پچھلے کئی برسوں سے نہ صرف ان کے انعقاد میں کمی نظر آتی ہے بلکہ ادبی سرگرمیاں بھی محدود حلقوں میں سمٹی نظر آتی ہیں تو یہ صورتحال اور اس طرف توجہ نہ دیناعام لوگوں اور خاص کر ہمارے نوجوان طبقے کے لئے اُردوادب سے دوری اور فاصلے کا باعث تو نہیں بن رہی؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ میرا خیال ہے کہ صورتحال بالکل ایسی نہیں ہے۔ نوجوان اور جو آج کے لوگ ہیں ان میں سے خاص تعداد تو ہے جوشاعری کو پسند کرنے والے اور رومانیت کے حصار والے لوگ ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ جو ایک عام دلچسپی تھی شاعری میں وہ بہت کم ہوئی ہے وقت کے ساتھ ساتھ اور ابھی مجھے اس کا گراف نیچے جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔لیکن مجھے اس پہ حیرت نہیں ہے۔ یہ تو ضرور ہے کہ اگر ہم اور زیادہ تگ و دُو کے ساتھ زبان اور ادب اور اس میں جو ایک سوچ ہوتی ہے نا کہ آدمی سوچے یعنیٰ شعر سن کر واہ کہہ دینا کافی نہیں اگر آپ سوچ بھی رہے ہیں کہ یہ اس نے کہا کیا ہے؟ یہ اس نے جو چیزیں بیان کی ہیں انسان، دکھ، خوشی یہ کیا ہے دکھ کیسا ہوتا ہے، یہ خوشی کیسی ہوتی ہے تو پھر دیئے سے دیا جلتا رہتا ہے اور نئی نئی سوچ اس میں آتی رہتی ہے اور دلچسپی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ میں نے جو آپ سے تھوڑا سا اختلاف کیا کہ صورتحال بالکل ایسی نہیں ہے تو وہ اس لئے کہ ہمارے یہاں ایک دوسرا معاملہ پیش آیا ہے۔ ہندوستان میں تو مشاعرہ اس لئے ہے کہ وہ ان کے کلچر کا حصّہ بن چکا۔ہمارے یہاں جو مشاعرہ تھا وہ اس طریقے سے کلچر کا حصّہ نہیں۔ اگر ساٹھ فیصد اہل شوق بیٹھے ہوئے ہیں تو اس میں چالیس فیصد اہلِ ذوق بھی ہیں تو وہ سب مل جل کے اسے سنتے تھے اور پھر کوشش کرتے تھے کہ اور کہاں ہورہا ہے اور پھر اگلا کب ہوگا؟ تو وہ ایک سلسلہ جاری رہتا تھا مگر ہوا یہ کہ جو میں سمجھ سکا ہوں، آپ سب سوچنے والے ہیں اور بھی جو ہمیں پڑھیں گے یا سنیں گے وہ سوچیں گے کہ اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو دلچسپی ہے شاعری سے یا موسیقی سے یا مصوری سے مثال کے طور پر یہ جو حال شاعری کا آپ دیکھتی ہیں کہ کیا ہوتا چلا جارہا ہے وہی حال ہماری کلاسیکی موسیقی کا بھی ہوا، وہی انسٹرومینٹل موسیقی کا ہوا، اس لئے کہ اس کے بعد تو موسیقی ہمارے یہاں بدل گئی۔ وہ جو نئے زمانے اور نئے وقت اور نئی ردھم اور اس کی مکسنگ کر کے جو چلتا ہے عام دلچسپی کا سامان اس میں ہے اور جو خالصتاً کلاسیکی پسند کرنے والے ہیں وہ تو تھوڑے سے ہیں اور اس کے سننے والوں کا حلقہ جو ہے وہ سکڑتا چلا جارہا ہے۔ ادب میں یہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ کیا ہر معاشرہ، آپ کے یہاں یا یورپ میں کہیں اوریا امریکہ یا آسٹریلیا یا عرب ممالک کوئی بھی جگہ ہو ُان میں ایک بات کامن ہوتی ہے اور وہ یہ کہ معاشرہ اپنی ترجیحات مرتب کرتا ہے۔ان ترجیحات میں کون سی چیز کس جگہ پر ہے، کس نمبرپر ہے مثال کے طور پہ بہت سے معاشرے علم اور تعلیم کو اول نمبر پر رکھیں گے یا بہت سے بہت دوسرے نمبر پر رکھیں گے اوروہ اپنے GDP کا اتنا ہی خرچ کریں گے تعلیم پہ تربیت پہ۔کیوں؟ اس لئے کہ ان کے معاشرے نے جواپنی ترجیحات مرتب کرنے کو کہا تھا تو انہوں نے مرتب کیں تو ان کے یہاں تعلیم اوپر ہے۔ پرانے زمانوں میں، جس سے میں گزر آیا، میرے ساتھ کے اور لوگ یا مجھ سے پہلے کے لوگ گزر آئے، وہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہمارے معاشرے کی ترجیحات کی فہرست میں زبان و ادب اور ثقافت اوپر تھی لیکن اب وہ وہاں نہیں ہے۔ توجب وہ نیچے ہے تو آپ یہ کیسے توقع رکھیں گی کہ اس کے لئے چرچا ہوگا، بہت زیادہ مشاعرے اور ادبی محفلیں ہوں گی۔ اب تو یہ ہے کہ سال میں ایک آدھ ادبی کانفرنس ہوجاتی ہے اوراس میں ادب کے موضوعات بھی آجاتے ہیں۔ اوراب تو کووڈکے بعد اس میں بھی گو کہ پہلے جیسی بات نہیں رہی مگر آن لائن نے پھر بھی کافی سہارا دیا ہے۔اس پہ آن لائن لیکچرز اب بھی چل رہے ہیں۔یہ تو سمجھنا ہوگاکہ زندگی کے لئے اگر کوئی اچھا لائحمہ عمل بنانا ہے تو اس میں ادب کو شامل ہونا چاہیئے۔ اس کے بغیر ہو نہیں پائے گا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بالکل! یہ آپ اہلِ ادب سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ڈاکٹر صاحب جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وبا ئی دنوں میں آن لائن ادبی محفلوں اور مشاعروں کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے جو کہ اس وقت کی ضرورت بھی ہے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں یہ آن لائن محفلیں آمنے سامنے بیٹھنے والی بالمشافہ محفلوں کی جگہ لے لیں گی؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ لگتا تو ایسا ہے کیونکہ اس میں آسانیاں بھی ہیں۔ آسانیوں سے بڑھ کے جو بات میں نے پہلے کہی تھی کہ اس میں لوگوں کی شمولیت بہت آسان ہوگئی ہے۔ پہلے تو آپ ڈھونڈیں کہ مشاعرہ کہاں اور کون کرائے گا؟ اس میں میں پڑھ پاؤں گا نہیں؟ فہرست کون سی ہے اور کیا ہوگی وغیرہ وغیرہ لیکن اب اس ہفتے مشاعرے میں نہیں آئے تو اگلے ہفتے آجائیں گے۔ یہ اس طرح سے تو بڑھ گیا اوراس لحاظ سے تو میں اسے پسند کررہا ہوں، اس کی تحسین کررہا ہوں، تائید کررہا ہوں کہ اس سے عمومی ادب کا جو ایک ذوق و شوق ہے وہ بڑھا ہے۔ اب وہ شعر کس نوعیت کا کہہ رہے ہیں وہ تو ایک الگ بات ہے لیکن یہ ہے کہ کم سے کم شعر و ادب سے جڑے ہوئے تو ہیں۔ اس طرح سے میں کہتا ہوں کہ چلو یہ اچھا ہے کہ لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ اس میں میں نے اپنے طور پر کچھ لوگوں سے معلومات کیں۔ ان کی رائے اور میری اپنی جو اندر کی کیفیت ہے تقریباً ایک جیسی رہی کہ ہم نے بہت ہی اچھے اور بڑے آن لائن مشاعرے اٹینڈ کیے اور سارے لوگوں کے ساتھ کہ جن کو سننے کا شوق بھی ہورہا تھا وہ سب شریک ہوگئے۔ دور دور سے لوگ شریک ہوئے۔ کوئی آسٹریلیا میں ہے تو کوئی یورپ میں تو کوئی کہیں۔ ان سے ملنے کا موقع ہی نہیں تھا مگر آن لائن ہم مل گئے لیکن میں دوسری بات یہ کہہ رہا ہوں کہ جس طریقے سے ہم آمنے سامنے بیٹھ کے ایک مشاعرے کے ماحول میں یا ایک ادبی نشست میں شعرپڑھتے ہیں تو وہیں داد آرہی ہے، وہیں اس پر جملہ بھی آرہا ہے، کچھ بیچ میں گفتگو بھی ہورہی ہے آپس میں اور جو ناظم ہے جو نظامت کررہا ہے وہ بھی اس میں جملے کہہ رہا ہے پھر جو اس کے تعارف وغیرہ ہیں تو اس میں اندر سے ایک انبساط سا اور ایک خوشی سی پیدا ہوتی تھی۔ آن لائن مشاعرے، جیسا کہ میں نے کہا ہوتے تو ہیں اچھے مگر وہ سکون، خوشی اور تشفی زیادہ محسوس نہیں ہوتی۔اچھا ایک تو نشست بھی اس قسم کی ہے پھر بیچ میں interruption ، رکاوٹ ہوتی ہے۔ہماری اور آپ کی گفتگو میں تو اتنا نہیں ہوا ماشاء اللہ، آپ کا انتظام شاید اچھا ہے، میں زیادہ جانتا نہیں اسے مگر ان میں تو بہت ہوتا ہے،بیچ میں آواز رک گئی پھر آپ رکے ہوئے ہیں، کوئی پڑھنے کو کہہ رہا ہے تو کوئی رکنے کو تو اس میں وہ بات پیدا نہیں ہوتی جو آمنے سامنے میں ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔جی تسلسل نہیں رہتا اور یہ بھی کہ ان مشاعروں اور محفلوں کے مقابلے میں سامعین کی تعداد میں بھی فرق ہے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ سامعین تو کم ہیں لیکن اس لحاظ سے بہت ہوجاتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ دیکھ رہے ہیں تو میرا خیال ہے کہ آن لائن کوئی پروگرام ایسا نہیں ہے کہ اسے دو ڈھائی سو لوگ اِدھر اُدھربہ یک وقت نہ دیکھ رہے ہوں۔ الگ الگ جگہ ٹائم کا فرق ہوتا ہے تو لوگ اپنے وقت کے حساب سے بعد میں بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن جو اہلِ ذوق اور اہل شوق ہیں وہ کتنا ہی فرق کیوں نہ ہو ان کو دیکھنا ہے تو وہ وقت نکالیں گے۔ پھر یہ بھی کہ جو آن لائن مشاعرہ ہوا تو وہ محفوظ ہوگیا آپ بار بار دیکھ سکتے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ جی یہ بات تو ہے۔ آپ سے اتنی اچھی گفتگو ہورہی ہے ڈاکٹر صاحب کہ وقت گزرنے کابالکل احساس نہیں ہوا۔حالانکہ ابھی کتنے ہی پہلو ہیں جن پر اس مختصر وقت میں بات نہیں ہوسکی لیکن ایک سوال جو میرے ذہن میں تھا کہ آپ سے جاننا چاہوں گی کہ آپ نے ماشاء اللہ اتنا کچھ کیا زندگی میں شاعری میں آپ کا بلند مقام، علمی حوالوں کے ساتھ آپ ایک معتبر شخصیت، سائنسدان و محقق، معلّم اور منتظم اعلیٰ کہ جامعہ کراچی سمیت مختلف یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے عہدوں پر فائز رہے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ تقریباً انیس برس میں وائس چانسلر کے عہدے پر رہا مختلف اداروں میں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ جامعہ کراچی میں بھی آٹھ یا نو برس رہے آپ؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ جی، نو برس رہا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ واہ! کیاقابلِ ناز اور قابلِ ستائش شخصیت ہے آپ کی لیکن میں یہ جاننا چاہوں گی کہ اس پورے سفر میں آپ کو کسی چیز کی کمی لگتی ہے کہ ایسا کوئی کام جو آپ کرنا چاہتے تھے مگر کر نہیں سکے؟
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔دیکھئے!میرے جیسا شخص اور میرے ساتھ کے بہت ہیں پاکستان میں تو میں نے آپ سے شروع میں کہا تھا کہ ہم نے بہت ہی کم وسائل میں اچھا کام کرنا سیکھا اور اسے ہم لے کے چلے لیکن اب جب ہم اسے sum up کررہے ہیں اتنے عرصے یعنیٰ پچاس برس کا تو یہ درس و تدریس کا معاملہ ہے پھر انتظامی امور وہ الگ اوریہ سب ملا کے نصف صدی سے زیادہ ہے لیکن میرے جیسے لوگ کہ جسے آپ کہتے ہیں نا جو بائی چوائس اس پروفیشن میں آئے یعنیٰ مجھے اس سے بہتر جاب بھی، مالیت اور تنخواہ کے حوالے سے مل گئی تھی لیکن مجھے تو شوق ہی دوسرا تھاتو میں درس و تدریس میں آیا اور ساری زندگی میں نے بہت ہی خوشی کے ساتھ گزاری لیکن out come جب ہم یہ دیکھتے ہیں نا اورsum up کرتے ہیں کہ پورے پاکستان میں جو ہمارے تعلیمی ادارے اور ان کا تشخص ہے وہ کیا اس سطح پر آپایا؟ کیا ہم اسے اس جگہ لے جاسکے؟ کچھ ادارے تو ہر جگہ کے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے بھی بعض ادارے سائنٹیفک ریسرچ کے ہوں یا اور دوسرے ان کا ایک اچھا مقام ہے اور وہ اچھا کام کررہے ہیں لیکن یہ کہ عام جو ہمارے گریجویٹس نکلتے ہیں وہ، ہماراذریعہ تعلیم اور طریقہ تعلیم جسے ہمیں آگے لے جانا تھاکہ وہ زمانے اور وقت کے شانہ بشانہ چلنے کی تگ و دُو کریں تو اس میں کوئی بہت بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اب پیش رفت نہیں ہوئی تو سوال آئے گا کہ پچاس برس سے آپ کیا کررہے تھے؟ تو مجھے اس پہ افسوس اور شرمندگی ہوتی ہے لیکن پھر یہ تسلی ضرور ہوجاتی ہے کہ اخلاص کے ساتھ، دیانت داری کے ساتھ جو کام کیا جاسکتا تھا وہ ہم نے کیا۔ ہم نے اور ہمارے ساتھ اور لوگوں نے مل کر کیا تو اب یہ ہے کہ آگے بڑھنے کے مواقع تو کبھی بند نہیں ہوتے۔ یہ ادارے اور یہ درس گاہیں جواچھا کام کررہی ہیں یہ ذرا سا آپ کے سیاسی اور سماجی سطح پر سکون اور تھوڑی سی عافیت ہو تو اسے بہت آگے جانا چاہیئے اور میرا خیال ہے کہ جائیں گے اس کے بغیر نہیں ہے کچھ۔ میں ایک اور بات سب جگہ کہتا ہوں، یہاں بھی دہرا دوں کہ جو ملّت کا تشخص جو ہے نا وہ زبردستی نہیں ملے گا کہ یہ جودنیا کے نقشے پر ہرے رنگ سے بنا ہوا ہے یہ ہے اور یوں ہے۔ ہے تو ہے بس ٹھیک ہے سو واٹ۔ تشخص آپ کا بنتا ہے جب آپ اسی پہ کام کرتے ہیں جو دنیا کی ایک سطح ہے جودنیا میں جو رائج ہے۔ جو ترقی اور کامرانی کی طرف جاتی ہیں وہ ساری knowledge based society ہیں اور جو نہیں ہیں وہ آگے نہیں جاتی۔ یہ ترقی اسمگلنگ کرنے سے نہیں ہوتی یا آپ باہر جاکے مزدوری کرکے گھر پیسہ بھیج دیں اس سے نہیں ہوگی۔ نالج،ساری بنیاد آپ اس پر بنائیے پھر آپ کے بڑے بڑے ادارے کھلیں گے، آپ کی انڈسٹریز چلیں گی اور اسی طرح کے سلسلے آگے بڑھیں گے تو وہ جو راہ ہے صحیح ترقی کی طرف آپ کو لے جائے گی۔
تو نالج بیس سوسائٹی تو ہیں نہیں ہم۔ یہ جو میں کہہ رہا تھا کہ افسوس ہوتا ہے کہ اس کے وہ نتائج نہیں ہوسکے جو ہونا چاہیئے تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ جس درمندی اور اخلاص سے میں کہنے کی کوشش کررہا ہوں اگر ہمارے تعلیمی اداروں سے متعلق چالیس پچاس فیصدلوگ بھی اس سوچ کے ہوتے تو شاید صورتحال بہتر ہوسکتی تھی۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ یقیناً! خدا کرے کہ ہمارے ارباب اختیاراس طرف توجہ دیں۔اس سے پہلے کہ ہم آپ سے رخصت لیں ڈاکٹر صاحب کیا ہی اچھا ہوجائے کہ ہم آپ کی زبانی آپ ہی کی کوئی پسندیدہ غزل یا نظم سن سکیں۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ اچھاضرور! ایک زمانے میں تو سب ازبر تھا ادھر سے اُدھر تک تمام مگر اب مجھے دیکھنا پڑے گا۔ سب سے پسندیدہ تو نہیں معلوم، بس یہ میں نے کتاب کھولی ہے اس میں ایک غزل کھل گئی ہے وہ میں پڑھتا ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ جی نوازش
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ میں نے عرض کیا ہے
ہے جبر وقت کا قصہ عجب سنائے کون
میں یاد اس کو کروں اور یاد آئے کون
یہ بات بجھتے دیوں نے کسی سے پوچھی تھی
جلے تو ہم تھے مگر خیر جگمگائے کون
اسے تلاش تو کرنا ہے پھر یہ سوچتا ہوں
زمانہ اور ہے اب زحمتیں اٹھائے کون
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ اب تو زمانہ اور وقت بدل گیا ہے اب تو وہ پرانے سلسلے اس طریقے کے رہے نہیں۔اسی سے شاید میں نے بدلتے زمانے سے کہا۔ میں نے عرض کیا:
یہاں تو اپنے چراغوں کی فکر ہے سب کو
دیا جلایا ہے سب نے دیئے جلائے کون
یہاں تو لوگ انہی حیرتوں میں جیتے ہیں
کہ تیر کس پہ چلے اور زخم کھائے کون
یہاں تو جاگتی آنکھوں میں خواب جاگتے ہیں
جو جاگتے ہوں انہیں خواب سے جگائے کون
یہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں ملتی
مگر یہ بے خبری کی خبر سنائے کون
یہاں تو صبح سے پہلے ہی بزم برہم ہے
دیئے بجھا دے کوئی پر دیا بجھائے کون
حنا خراسانی رضوی۔۔ کیا کہنے! کیا بات ہے! آپ کی زبانی سن کر کس قدر اچھا لگا میں اس کیفیت کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ چلئے بہت اچھا ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ آپ کی کتاب یہ سامنے رکھی ہے میرے ”تند ہوا کے جشن میں“۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ اچھا، بہت خوب ماشاء اللہ۔ اس ” تند ہوا کے جشن میں“کے تین چار ایڈیشن چھپے تھے اور اب یہ ناپید ہے اور اگر تلاش کریں تو بھی نہیں مل پاتی۔ بہت اچھا ہے کہ آپ کے پاس ہے یہ کتاب۔ اس کے بعد جو دوسری تھی وہ تھی ” شعلے پہ زباں“ اس کے بھی کئی ایڈیشن چھپے لیکن وہ بھی ناپید ہے، کہیں نہیں ملتی۔ پھر اس کے بعد بیچ میں یہ ہوا کہ میرے جو شاگرد تھے اور ان کے ساتھ جو دوسرے لوگ تھے انہوں نے ایک انتخاب شائع کیا۔ اس میں آپ کے پاس جو کتاب ہے ”تند ہوا کے جشن میں“ اور ”شعلے پہ زباں“ کے علاوہ بہت سی نظمیں اور غزلیں جو شائع نہیں ہوئی تھیں ان سب کو انہوں نے جمع کیا اور اس کی ایک چھوٹی سی کتاب،جو پاکٹ سائز کہلاتی ہے وہ چھاپی انہوں نے اوراس کا عنوان رکھا ”مجھے دعاؤں میں یاد رکھیئے۔“
حنا خراسانی رضوی۔۔دو سال قبل جب میں کراچی گئی تو میں نے یہ ”مجھے دعاؤں میں یاد رکھئے“ تلاش کی مگر مجھے مل نہ سکی۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ یہ تو کوئی آتا جاتا ہوا تو میں شاید بھجوادوں۔ یہ تو میرے پاس بھی ہوگی لیکن یہ جو آپ کے پاس اس وقت ہے اس کی صرف ایک کاپی ہے میرے پاس۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ اچھا! یہ جنوری نوےّ(۰۹۹۱)کی ہے اور پہلی اشاعت ہے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ ہاں پہلی اشاعت تھی۔ یہ تو بہت ہی خاص طور پر چھپی تھی۔اچھا یہ جو میں نے بتایا ”مجھے دعاؤں میں یاد رکھیئے“ ایک بہت ہی زبردست خاتون تھیں شاہدہ احمد،وہ عملاً بہت ادب کا کام کرنے والی خاتون تھیں حالانکہ آخر میں وہیل چیئر پر رہتی تھیں تو انہوں نے ایک آڈیو بک چھاپی میری۔
وہ بہت جگہ موجود ہے۔
حناخراسانی رضوی۔۔ جی!اس سے توواقف ہوں۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ اس کے بعد جو آخری کتاب ہے وہ ”بے مسافت سفر“ ہے۔ یہ بھی چھپ چکی ہے اور یہ شاید کہیں مل بھی جائے مارکیٹ میں۔ اسے بھی دوسرا سال چل رہا ہے تویہ تیسری کتاب ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بہت بہت شکریہ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صاحب۔ آپ سے اجازت لینے سے قبل میں چاہوں گی کہ آپ ”ورثہ“ کے لئے کچھ ارشاد فرمائیے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ ورثہ کے لئے تو میں نے ابتداء میں بھی کہا تھا کہ ورثہ تو ایک بہت بڑا اوریہ تو ادب، زبان اور ثقافت کا ورثہ ہے۔یہ کوئی عام چیز نہیں ہے اور جس طریقے سے تیاری کرکے اپنا پورا دل اور جان لگا کے جو ہمارے وارثی ہیں اسے سامنے لائے ہیں اور اسے عالمگیر سطح پر پھیلایاہے کہ ہر جگہ اس کے نمائندے موجود ہیں تو یہ ایک بہت اچھی بات ہے اور میرا یہ خیال ہے کہ یہ اپنی وضع کا ایک الگ ہی منفرد درجہ رکھتا ہے۔ انشاء اللہ جب اس کی اشاعتیں آتی رہیں گی تو لوگوں کو اندازہ ہو گا کہ واقعی بہت اچھا جریدہ ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب۔ آپ سے گفتگو کر کے گو کہ دل بھرا نہیں مگر خوش بہت ہواہے۔
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ انشاء اللہ رابطہ رہے گا میں دعاؤں میں آپ کو یاد رکھوں گا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ عنایت آپ کی
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ باقی سب کے لئے بھی دعاگو ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے، شاد و آباد رکھے اور جب آپ آئیں گی کراچی تب ملاقات ہوگی۔
حنا خراسانی رضوی۔۔جی ضرور، انشاء اللہ
پیرزادہ قاسم صاحب۔۔ اللہ حافظ۔