سفر نامہ کی رووایت اگرچہ خاصی قدیم ہے،لیکن سفر نامہ اردو میں زیادہ قدیم صنف نہیں ہے۔ابتدامیں اسے صنف کا درجہ بھی حاصل نہیں تھا۔
انسان فطری طور پر تحرک پسند واقع ہوا ہے۔نقل مکانی اور سیاحت انسانی جبلت میں شامل ہے۔انسان کے مزاج کی سیمابی کیفیت کی وجہ سے سفرنامہ کا وجودعمل آیا۔
سفر کرنے سے انسانی ذہن و شعور نہ صرف یہ کہ بیدار ہوتا ہے بلکہ تہذیب و تمدن،تاریخ و ثقافت،طرزمعاشرت تحقیق و تنقید اور تلاش و جستجو کا جذبہ بھی بیدارو برقرارہوتا رہتاہے۔
سفر انسان کو اپنی ذات کے پرکھنے اور معروض تجزیہ کرنے کے بھی مواقع فراہم کرتاہے۔سفر کے ذریعہ عالمی سطح پر رابطوں کا دائرہ وسیع ترہوتاہے۔مشاہدات میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے۔کیونکہ نقل مکانی ہر جاندارکی فطرت میں شامل ہے۔ انسان کی سیمابی کیفیت اور تحرک کا عمل،اُسے مسافت طے کرنے پر مجبور کرتا ہے اور یہی عمل سفر کہلاتا ہے۔
عربی زبان میں مسافت طے کرنے کو ’سفر‘ کہتے ہیں۔ نئے مقامات مناظراورامکانات سے انسان کے ذہنی اور جمالیاتی ذوق کو تسکین ملتی ہے۔ دیگر ممالک اور اقوام کی لسانی اور تمدنی زندگی سے دلچسپی لینا انسان کی ترجیحات میں شامل ہے لیکن ہر شخص سفر کا متحمل نہیں ہوتا،اس کے لیے شخصیت میں مخصوص اوصاف کا ہونا لازمی ہے۔بیشتر سیاح اپنے سفرکی روداد کو زبانی بیان کرتے تھے۔لہٰذا دیگرسیاحوں کے ذریعہ ان کے اسفار کی روداد سن کر اپنے ذوق کی تسکین ہوتی تھی۔ اس طرح عوام الناس کی دلچسپی سفرناموں کا محرک اوّل ثابت ہوا۔

سفر کی اہمیت اور افادیت
سفر درویشوں اور دانشوروں کا عمل ہے۔جہاں انہیں فطرت کی بے بہافیاضیوں کے درمیان عرفان ذات اور روحانیت کے بلند درجات میسر آتے تھے۔
حضرت آدمؑ سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر نبی نے دین کی تبلیغ اور اللہ کی رضا کے لیے سفر اختیار کیے۔ رام چرت مانس کا مرکز و محوررام چندرجی کے سفر کا بہترین بیانیہ ہے۔سیاحوں،دانشوروں،عالموں،مذہبی رہنماؤں نے سفر کے ذریعہ کامیابی و کامرانی حاصل کی۔سلاطین کے سفر نامے تاریخ و تمدن اور تہذیب کا ناگزیرحصہ تصور کیے جاتے ہیں۔درویشوں کے سفر خلوت نشیبی اور تنہائی میں طے ہوتے تھے۔عہدقدیم میں حکمرانوں اور شہزادوں کو بھی سزا کے طور پر اور کبھی قول کے پاس کی بنیاد پرسفراختیار کرنا پڑے لیکن جب وہ سرخروہوکرواپس آئے تو ان کی عظمت اور رتبہ میں اضافہ ہوا بلکہ مشاہدات اور تجربات کا خزانہ بھی ساتھ لے کر آئے اور سفر کی یہ اذیتیں ان کی عظمت کا باعث بن گئیں۔
حضرت آدم ؑ کا جنت سے کرہئ ارض پر قیام نقل مکانی کی شکل میں پہلا سفرنامہ تصورکیا جاتاہے۔یعنی آدم ؑ کے وجود ہی سے سفر کاآغاز ہوا،دنیا کاوجودسفرکی اساس پر قائم ہے۔
کرہئ ارض کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا اور آبادیوں کی نقل مکانی نے قبیلوں قوموں،ریاستوں،قصبوں،شہروں اور ملکوں کی شکل اختیار کرلی اور آہستہ آہستہ نقل مکانی کی ضرورت پیش آنے لگی،اس طرح سفر نامے کا وجود بھی عمل میں آیا۔
سفرنامہ نگارسفر کے دوران پیش آنے والے واقعات کی رودادبیان کرتا ہے۔ سیاحت انسان کے مزاج میں شامل ہے۔ کیونکہ انسان فطری طورپروہ مزاج واقع ہوا ہے۔
دورقدیم میں سفرکاآغاز پیدل یا پھر گھوڑوں،ہاتھیوں،اونٹوں کی مدد سے ہوا جنگلوں،ریتیلے میدانوں، ندیوں کوعبورکرنے میں کس قدردشواریوں کاسامناکرنا پڑتاتھا۔ موسموں کی سخت گیری،طوفان کے تھپیڑے،خونخوار جانوروں کا خطرہ دشوار گزار اور پر خطرراہوں سے گزرنا اور غیرمتوقع فوق فطری اور اساطیری عناصرکا تصور نیز فریب نظر اس درجہ کہ دوردرازاور حد نظر تک پھیلے ہوئے ریتیلے میدان سے سمندر اور ندیوں کا گمان ہوتاتھا۔پیاس کی شدت سے جان کا خطرہ بھی ممکن تھا۔
ابتدامیں سینہ بہ سینہ حکائی انداز میں زبانی سفرکے واقعات منتقل ہوتے رہے۔ بعد ازاں سفرکی روداد کو روز نامچوں، تاثرات اورسفرناموں کو تحریری شکل میں منظرعام پرلایاگیا جوسرمایہ ادب اور تاریخ کا حصہ بن گئے۔

سفرنامہ کا فن
ادبی بیانیہ سفر نامہ نگار کا فنی امتیاز اور مخصوص وصف ہے جو ایک ادبی صنف کی انفرادیت میں اضافے کا متحمل ہوتا ہے۔سفرنامہ نگار کا معروضی اور غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔سفرنامہ نگاری ایک منفرد فن تسلم کیا جاتاہے۔سفرنامہ نگار کو بیانیہ پر قدرت ہونا ضروری ہے۔یہ ابتدا ہی سے ایک بیانیہ صنف قرارپائی۔بیانیہ کے بغیر کامیاب سفر نامہ کا تصور ممکن نہیں، اس کا مقصد فکشن نگاری،امیجری یا تصویر کشی نہیں ہے۔سفرنامہ نگاری کا فن کسی اصول یا ضابطوں کا پابند بھی نہیں ہوتا،اس صنف میں کوئی مخصوص تکنیک یا تجزیہ کی گنجائش یا امکانات نہیں ہوتے۔ ہر سفرنامہ نگار کا اپنا ایک مخصوص اسلوب اور منفرد بیانیہ ہوتاہے۔اس میں ادبی عنصر کا ہوناضروری نہیں ہے لیکن زبان میں متنی اسلوب (Bookish Langauage) کی بڑی اہمیت ہے۔ عالمی سطح پر بیشتر اسفارکسی خاص مقصدیا مہم کی تکمیل کے تحت عمل پذیر ہوئے۔سفر کے اقسام اور سیاحوں کے مقاصد مختلف النوع انداز اور طرز کے ہوسکتے ہیں۔
ابتدامیں سفرنامے مذہبی،روحانی،سیاسی،تجارتی نیز نئی دنیا کی تلاش و جستجواور فتح و نصرت کے لیے اختیار کیے جاتے تھے۔روحانیت کا درجہ حاصل کرنے کے لیے جنگلوں اور ویرانوں میں خلوت نشینی اختیار کرلی جاتی تھی۔
سفرذاتی مشاہدے،تجربے اور تاثرپر مبنی ایک ایسی بیانیہ تحریر تصورکی جاتی ہے جو سفرنامہ نگار کے ذریعہ ماحول، منظر، واقعات وحادثات، تہذیب وتمدن اور تاریخ و ثقافت جغرافیائی حالات یعنی) (Topographical Situations مناظرفطرت، دریاؤں، پہاڑوں اور موسموں کے حالات و کوائف کا بیان ملتا ہے۔مغل بادشاہ بابر نے اپنے سفرنامہ ’تزک بابری‘میں ہندوستان اور کابل کے حالات اور اشیاکا موازنہ بھی پیش کیا ہے اور افغانستان میں چار موسموں کا ذکر کیا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ جاندار اور بے جان اشیاپربھی اپنی رائے قائم کی ہے اپنے لفظوں میں سفر کا بیان سفر نامہ نگار کی علمیت،دلچسپی،عمل اور رد عمل پر معیار منحصرہوتا ہے۔
متعددسفرنامہ نگار اپنے سفر کے حالات و کوائف قلم بند بھی نہں کرتے۔ادبی باونہ سفر نامے کی جزئاشت کا اہم حصہ تصور کاو جاسکتا ہے۔البتہ اگر کوئی مورخ،سائنس داں مذہبی سامح یا حکمراں اپنا سفرنامہ تحریر کرتا ہے تو ضروری نہں کہ اس کی تحریروں مںی ادبی جزئایت کا عنصر شامل ہو اور تفصلے بھی ہو۔
سفرنامے مںا تاریخ و تمدن کے ساتھ آپ بی م بھی تلاش کی جاسکتی ہے۔سفرنامہ معلومات افزا اور کتئا و انبسات کا باعث ہونا بھی ضروری ہے۔ایک تاریخ داں اور ایک سارح کے بامنہن مںت فرق فطری عمل ہے۔تاریخ داں صرف تارییا شواہد پر مبنی معلومات فراہم کرتا ہے جبکہ ساےح گہرے مشاہدے، ذاتی تجربات،کتت ا اور ادبی انداز مں با ن کرتا ہے۔ساںح اپنی تحریروں کے ذریعہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتارہتاہے،جبکہ تاریخ داں واقعات اور ان کے تارییت شواہدپر مبنی گفتگوکرتا ہے۔ اگر ایک سفرنامہ نگار مںب تخلیتخ پکرفتراشی کا عنصر بھی شامل ہوتواس کا قاری با نہ کے اس سل رواں مںع آخری منظرتک ساتھ رہتا ہے۔
تاریخ داں ایک مخصوص عہد کے نظام سلطنت کے واقعات، فتح وشکست نزا بحتکی مجموعی دارالخلافہ کے مرکزومحورتک ہی محدودرہتا ہے جبکہ سا۔ح اور سفرنامہ نگار جس باریک بیں ژرف نگاری سے سماج کی مختلف چزیوں اور دییظ علاقوں کی طرز معاشرت کو ایک فن کار کی نظر سے دیکھتا ہے اور پرکھتا ہے،تاریخ داں کی نظر وہاں تک عموماً نہں جاتی۔
سارح اور مسافر دومختلف اشخاص ہںک اگرچہ دونوں کی منزل مقصود سفر ہے لکنو منزل اور مقاصد مں واضح فرق ہے۔ساہح سفر کے ذریعہ لطف و انبساط سے حظ اٹھاتا ہے لکنت مسافر کسی خاص مقصد کے تحت سفراختاشر کرتا ہے۔
یہاں لفظ ’ہجرت‘پر بھی گفتگوکرتے چلںہ۔ چندسفرایسے بھی ہوتے ہںل جو بہ حالت مجبوری اختاار کرناپڑتے ہںد۔مثلاً تقسم ملک کے دوران دوممالک کے درماین سفر کا سلسلہ برسوں جاری رہا۔
کووڈ۹۱(Covid 19) کے دوران بے شمار مزدور، بچے، بوڑھے اور عورتںی اپنے گھروں کی جانب بحالت مجبوری نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ سنکڑچوں مزدوربھوک و پا س کی حالت مںع سفرکی صعوبتںو اور تکلںجات برداشت کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کے دوران انہںی ریلوے ٹریک پر جان دینا پڑی۔ بہرحال یہ بھی سفر کی ایک قسم قراردی گئی انورسدید کے الفاظ مںا:
”سفر نامہ ایک اییے صنف ادب ہے جس مںت مشاہدے کی قوت سب سے زیادہ رو بہ عمل آتی ہے“

سفرنامے کی قسمںک اور موضوعات
سفر نامے کے کتنے اقسام ہںچ۔؟الفاظ مںے بافن کرنا اس لےح مشکل ہے کہ ہر سفرنامہ نگار کے سفر کے مقاصد مختلف ہوتے ہںی۔سفر مختلف اقسام قرار دیے جاسکتے ہںر۔ تارییچ، سارسی،مذہبی، ادبی، تعلیید، تہذیی ، ثقافتی اور تمدنی، اقتصادی، جنگی مہم سے متعلق، ذاتی سر سااحت یینن تفریی۔ نوعت کے سفرنامے شامل ہں ۔آثارقدیمہ کی تلاش و جستجو سے متعلق سفر نامے بھی اہم ہںے۔سفرکی ایک طرز مقامی یا برتونِ ممالک مں جاسوسی مہم سے متعلق بھی ہے۔ سادح کی نت اور احساس کسی نوع کی ساذحت پر مبنی ہے جبکہ درویشوں اور دانشوروں کے اسفار کے مقاصد مختلف تھے۔
گذشتہ صفحات مںن کوڈ ۹۱) (Covid19کاذکرکار گام ہے جو بحالت مجبوری مزدوروں کو پد ل سفراختا ر کرناپڑا اور سنکڑ وں پرواسی مزدور جاں بحق ہوئے۔
ہجرت بھی سفرکی ایک قسم ہے جو مذہبی یا ذاتی نوعتی کے ہوتے ہںر۔اسلامی نقطہئ نظر سے ہجرت مںق نصرت کا تصورملتا ہے یینڑ ہجرت کو ترجحا دی گئی ہے۔ایک حدیث کے مطابق علم حاصل کرو چاہے چنم جسےج دوردراز ملک کا سفرکویں نہ اختا ر کرنا پڑے۔
ابتداسے تاحال سفرناموں کے موضوعات عربی ممالک کے علاوہ یوروپ، امریکہ، چنا، روس، جاپان، ایران، افغانستان، مصروشام، یونان، انگلستان، ترکی، انڈوپاکستان اور اندرون ہندوستان کے گرد گھومتے نظرآتے ہںو یابحری سفرناموں کا ذکرملتا ہے۔تقسما ملک کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے سفر نامے خاصی تعدادمںن شائع ہوئے ہںپ۔اس کے علاوہ حجاز مقدس یینس حج کے سفر ناموں کی بھی خاصی تعدادملتی ہے۔
ابتدائی سفرنامے طویل اور واقعاتی نوعتس کے ہںے لکن چند سفر نامے بحری اور بری آسانومں Transportationکی وجہ سے کم وقت مںی زیادہ سااحت کی سہولتں فراہم ہوگئںا ہںو اور Short term Visit اسفار کی یادداشتںل شائع ہورہی ہں ۔
ابتدامںف سفرتجارت کی غرض سے کےm جاتے تھے یا پھر دوردراز علاقوں مںا حصول علوم و فنون کی غرض سے سفراختاخر کرتے تھے۔سفروسیلہئ ظفراور فخر انبساط تصورکام جاتاتھا۔
عہدقدیم مںو سارح عالم، صاحب قلم، تاریخ داں، فلسفی، طببع، دانشوراور صاحب بصرفت ہوا کرتے تھے۔ سفرکے دوران ایک فن کار کی نظر سے ماحول کے مختلف پہلوکا تجزیہ کرتے تھے۔اس طرح ان کی تحریریں تاریخ وتمدن اور تہذیب و ثقافت، زبان و ادب کے باہمی اشتراک اور شناخت کا مثبت ذریعہ ثابت ہوئے۔
دورجدیدمں ساححت کا طرز اور انداز بالکل مختلف ہے۔سفرکی اقسام اور مقاصد نے جدید تقاضوں کے مطابق ایک نئی طرز اختا ر کرلی ہے۔وسائل کا بتدریج ارتقاجو زمنز سے بری اور بحری ذرائع سے ارتقاپذیرہوتا ہوا،ہوائی سفر کی کاما بودں سے ہمکنار ہوگاب برسوں،مہنوخں،ہفتوں کا سفرچند دنوں اور گھنٹوں مںد تبدیل ہوگان، بٹھا کر اور لٹ کر سفر کرنے کی سہولتںب مسرجآگئںں،گھرکی طرح سہولاات فراہم ہوگئںئ،ترسلر اور ذرائع ابلاغ اور نٹث اور واٹس ایپ کے ذریعہ کسی موضوع سے متعلق معلومات فراہم کرنا، نہ صرف آسان ہوگال بلکہ آپ کے حکم کے تابع ہوگائ۔
دورجدیدتک پہنچتے پہنچتے سفرکرنے کا طرز بدل گاا،سامح کے لےی اب لفظ سااحی مستعمل ہوگاو ہے اور ساعحت یہ عمل مقصد کے تحت کم،سرتو تفریح کے لےھ زیادہ تصورکان جاتاہے۔
اس نوع کی سر وسارحت کا تعلق موسموں کی تبدییل اور آب و ہوا کی تازگی بھی تصور کی جاتی ہے۔
بشتر ذاتی طورپر فیل ک کے افراد کے ساتھ سرکوتفریح اور تفنن طبع کے لےت کے جاتے ہںر اور ان کی روداد بھی ضبط تحریرمںن نہںق لائی جاتی ہے۔عموماً اس نوع کے اسفار پہاڑی علاقوں یا ساحل سمندر سے لطف اندوز ہونے کا ذریعہ ہوتے ہںک۔
مختلف ممالک کی جانب سے سرکاری ملازمنا کو LTCکے طورپر زادراہ دے کرسفر کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔Excursion کے طورپر بھی مختصر وقفہ کے سفرکا رواج عام ہوگای ہے لکنک دانشور،درویش اور ساںست داں آج بھی اپنے سفر کی رودادتحریری شکل مںi قلم بند کرتے ہںا۔اس نوع کے دورجدیدکے سفرناموں کی تفصلی آئندہ صفحات مںم آئے گی۔
سفرنامے کی روایت:آغاز و ارتقا
ابتدائی سفرنامے داستانوی نوعتو کے تخلادتی قصوں اور فوق فطری عناصر سے ماخوذ تصورکےس جاتے ہںے۔عہدعتق مںت مسافروں کی آپ بامںنں اور سفربارپرں سفرنامے کے آغاز کا نقش اوّل ثابت ہوئے۔اگرچہ ان مںل سے بشترد فرضی، مشکوک، مسخ شدہ اور مبالغہ آمزنی پر مشتمل ہوتے تھے۔لکنر ییر طرز اور داستانوی نوعت کے قصے سنہھ بہ سنہھ طرز کی صورت اختاقر کرتی گئی۔ بعد ازاں یہ قصے کہاناسں، واقعات، حادثات، خطوط، ڈائریاں، روزنامچے اور سفری گائڈ بکوں کی شکل اختالر کرتے گئے۔
سفرنامے کے آغاز سے متعلق ایک خایل یہ بھی ہے کہ سفر مکمل ہونے کے بعد گھر واپس آنے والے مسافر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو سفرکے حالات و کوائف اور روداد سنایا کرتے تھے۔بعد ازاں اسی روداد نے سفرنامے کی شکل اختاہر کرلی۔
”ابتدامںو سب سے پہلے بحری سفر کے واقعات روزنامچے اور گائڈ بکوں کی شکل مںز لکھے گئے،ایسے روزنامچے بحری سفرکے راستوں کی معلومات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئے۔“(اردو سفرناموں کا تنقدیی مطالعہ:ص ۶)
قرین قا س یہ بھی ہے کہ ابتدا مںڈ سفرپدسل، گھوڑوں، اونٹوں، ہاتھواں اوربگیوں پر کا کرتے ہوں گے کوانکہ سواری کا واحد ذریعہ پدنل یا پھرجانورہی ہوا کرتے تھے۔ بعدمںہ ان کی ترقی کے ساتھ بحری سفرکا طریقہ سامنے آیا اورساںحوں نے سمندری راستوں کا سفراختا ر کاں جس کا ذکر گائڈ بکوں اور روزنامچوں کی شکل مںب ملتا ہے۔بحری گائڈ بکوں کے ذریعہ سفر کے دوران پشو آنے والے مسائل،مشکلات،دشواریوں اور حفاظت کے طریقے بہر حال موضوعات اور معلومات کے نقطہئ نظر سے سفرنامے ارتقائی منزلوں کی جانب گامزن ہوتے گئے۔
سفر نامے کی تحریری شکل کب سامنے آئی یہ ایک سوالہ نشان ہے۔ ثبوت کے ساتھ اس بارے مںس کچھ نہںک کہا جاسکتا، البتہ ایک یونانی ساکح ہرووڈوٹس “HERODOTUS” کو پہلا سفرنامہ نگار کہا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے مںل “Dictionary of Shiply Literature”مں ہے کہ ہر وڈوٹس (۵۲۷ق م) کو بابائے تاریخ اور سفرنامہ نگار کی حت و حاحل ہے لکنک اس کا کوئی مستند ثبوت نہںں ملتا، دراصل وہ سفر کے مفصل حالات نہںک بلکہ ایسے نتائج بامن کرتا ہے جوجغرافاائی حالات و کوائف کی نشاندہی کرتے ہںے۔
ہراوڈوٹس کی تحریروں کو سفرنامے کا نقش اوّل تو کہا جاسکتا ہے لکنک کلی طور پر وہ سفرنامے کے فن اور معارر پرپورانہںے اترتا۔
ہندوستان مںو سفرنامے اور سااحت کی روایت کو اگر مذہبی کتابوں مثلاً مہابھارت، رامائن، ویدوں، پرانوں اور گتامکے پس منظرمںن مطالعہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان مںد سر وساسحت اور سفر وحجرکا بہت رواج تھالکنا یہ سفرتجارتی، جنگی اور پشہے وارانہ ضرورتوں یا کسی مہم کے تحت اختاتر کےو جاتے تھے کوانکہ وسائل کی کمی کے باعث سفر ایک دشوار گزار مرحلہ ہوتاتھا۔
دنال کا اوّلنس دریافت شدہ سفر نامہ جو تحریری شکل مںر دستاجب ہے۔یونان کے معروف ساحح مکسم تھینز کا سفرنامہ ہند(INDIC) ہے۔مکسں تھنیزنے (330 م ق) ہندوستان کا سفر کا ،یہ سکندراعظم کے جانشن کی حتجا سے چندرگپت موریہ کے عہد حکومت مں، پاٹلی پتر(پٹنہ) آیا جو ان دنوں چندرگپت موریہ کی دارالسلطنت تھی۔سبھی محققنے اس سفر نامہ کو ہندوستانی تاریخ و تمدن اور تہذیب و ثقافت ہرپہلو سے نہایت معلومات افزا،اور مستند تارییم مآخذ تسلما کرتے ہںا۔پانچویں صدی عسوسی مں) چیکہ راہب فاہاسن،مکرماجتق کے عہدحکومت مں ہندوستان آیا،وہ بڑاپر امن اور خوشحالی کا دورتھا۔فاہالن نے بدھ مذہب کے مختلف مقامات مثلاً ’کپلوستو،پاٹلی پتر،ویشالی‘اور ’کشی نگر‘ وغرمہ جسےت مقدس مقامات کو دیکھا۔ وہ بدھ مذہب کی تعلمانت اور اس سے متعلق کتابوں کو بھی حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس نے ”بدھ مذہب کے حالات“ کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی تھی۔اس کتاب سے اُس کے سا سی،سماجی اور معاشی حالات کا علم ہوتا ہے۔تاریخ داں عموماً اس سفرنامے کے مستند حوالوں سے استفادہ کرتے ہںک۔
سلماین کو پہلا عرب تاجرکہا جاتاہے،جس نے ہندوستان کے ساحلی علاقوں کا بہ نظر غائرمطالعہ اورمشاہدہ کاہ اورچنک کی طرز معاشرت رہن سہن اور بود وباش کا ہندوستان سے موازنہ کاس اور۵۴۸۱ء مںج ’سلسلۃ التواریخ‘کے نام سے اپنا سفرنامہ شائع کاچ۔عرب سا حوں مں ابوالحسن مسعودی کا نام بھی قابل ذکر ہے۔اس نے پچسے برس ساکحت مںر گزارے۔اس عرصہ مںک اس نے شام،روم،عراق،افریقہ،تبت،لنکا،ایاہےئے کوچک اور ہندوستان کا بھی سفرکاا اور متعدد کتابں تصنفی کںس۔اس کی سب سے اہم کتاب ’مروج الذہب و معاونالجواہر‘بتائی جاتی ہے۔مسعودی نے عراق سے اپنے سفر کا آغاز کاا اور اقوام عالم کی مختصرتاریخ کے ساتھ ہندوستان کا بھی مختصراً ذکرکار۔ اس کے بعد ابواسحٰق ابراہما اصفنجری مشہور مورخ اور سالح تھا۔چوتھی صدی ہجری یینے ۰۴۳ھ مںا ہندوستان آیا،اس کی کتاب ’المالک‘ اور’القاسم‘مںا ہندوستان کا ذکرملتاہے۔
حکم۔ ناصر خسروبلخی سفرنامہ نگاروں مںت بہت اہمتا کا حامل ہے۔اصفہان کا رہنے والا تھا۔۵۴۰۱ء مں’ اس نے فریضہئ حج کی غرض سے سفرکا قصد کا اورمسلسل سفرکرتارہا۔سات ماہ مںا نوں ہزار ملن مسافت طے کی۔غزنوی کے عہدمںہ ہندوستان آیا،اس کی مشہور کتاب ’دادالمسافرین‘نہایت سادہ سلسن اور عام فہم زبان مںل ہے۔
وسط ایا۔س کے خوارزم کا ایک عظمے سا ح ابوریحان جوالبرئونی کے نام سے مشہورہے۔البرتونی اپنے زمانے کا فلسفی،دانشور،ریاضی داں،ہتر اور جغرافہں کا ماہر تھا۔اس نے محمود غزنوی کے عہدحکومت مںل (۸۹۹تا۰۳۰۱)ہندوستان کا سفر کار۔اس کا بشترا وقت ملتان مںر گزرااور کتاب ’الہند‘ کے نام سے اپنی گراں قدرتصنفش پشب کی۔اس نے اپنی کتاب مں۔ ہندوستان کے باشندوں کا نفسا تی تجزیہ بھی کارہے نز علمی و ادبی،سماجی و سا سی اور معاشی صورت حال کا معروضی خاکہ غرنجانبدارانہ انداز مںج منطقی اور عالمانہ طورپرپشن کات ہے۔اس سفر نامے مںد منفرداسلوب،باینہر اور خطابہظ دونوں طرزاختاہرکےن گئے ہںا۔
ابن بطوطہ کے ذکر کے بغرلاردو سفرنامہ کی تاریخ مکمل نہںز ہوسکتی ’عجائب الاسفار‘ کا مصنف شخر عبداللہ جو ابن بطوطہ کے نام سے مشہورہوا۔ طنجہ یینو مراقش سے عنک جوانی کے زمانے ۵۲۳۱ء مںو گھرسے نکلا۔ یمن ، حجاز، عراق، مصر، شام،ترکی، بخارا، بدخشاں، افغانستان ہوتا ہوامحمد بن تغلق کے عہدحکومت یین چودہویں صدی عسو،یں مںا ہندوستان آیا اور چھتس سال بعد اپنے وطن واپس چلا گای۔اس نے تقریباً پچھترہزارملق کا سفرطے کاک۔یہ سفر اس کا اپناتحریر کردہ نہںی ہے۔مراقش پہنچنے پراس نے سلطان ابوعنان کو سفرکے احوال و کوائف نہایت ہی موثراندازمںی سنائے جو اس نے جانفشانی اور سلقےی سے ترتبا وار جمع کےر تھے۔محمد بن محمد جزالکلبی کو ان احوال کے مرتب کرنے کا خا ل پد ا ہوا۔اس کا پہلا ترجمہ ’سفر نامہ ابن بطوطہ‘محمد حالت الحسن نے کاا جو ۱۰۹۱ء مں امرتسرسے شائع ہوا۔بعد ازاں رئسب احمدجعفری نے ۱۶۹۱ء مںم دوسرا ترجمہ کاا جو بہت مشہور ہوا۔جبکہ ۹۲۸۱ء مںا اس کی تلخصس شائع ہوچکی تھی۔چندبرس بعد الجزائر مںر مکمل کتابی صورت مںت شائع ہوا۔
عجائب الاسفار کے ذریعہ متعدد تارییت انکشافات اور تحرںکن واقعات کا علم ہوتا ہے جو زمانہئ قدیم سے پردہئ خفامںل تھے۔علاوہ بریں داستانوی رنگ اور فکشن کے باونہک کے لحاظ سے اس کی اہمتی مسلم تسلمک کی جاتی ہے۔
ہو نگ سانگ ایک معروف چییی سااح تھا۔630 مںب ہندوستان آیا اور643تک ترںہ برس اس نے ہندوستان مںت قاوم کاے۔ اس عرصہ مںہ اس پورے ملک کی سامحت کی۔ہوانگ سانگ چن کے ان سایحوں مںر سے تھا جو بدھ مذہب کی تعلماآت کے سلسلے مںپ ہندوستان آتے رہے۔وہ ان مقدس کتابوں کے ملنے والے چی ا ترجموں سے مطمئن نہںو تھا۔۸۲سال کی عمرمںچ اس نے طے کاا کہ وہ اصل کتابوں کا مطالعہ کرکے ہندوستان کے علماسے گفتگوکرے گا۔ہوانگ سانگ ان مقدس مقامات کو بھی دیکھنا چاہتا تھاجہاں مہاتمابدھ کی زندگی مںل بہت سے واقعات پش آئے تھے۔وہ ایک سچاراہب اور عالم فاضل تھا۔ہندوستان سے واپس جاکراس نے 657کتابںق چنا کے بادشاہ کو پشک کںم،جنہںش ترجمہ کام گات۔عرب سادحوں سے قبل بدھ مذہب کے راہب ہندوستان آچکے تھے۔ہوآنگ سانگ کا سفر ہمارے لےع تاریید اور مذہبی ذخرگہ تصورکات جاتاہے۔
اردومںک سفرنامہ نگاری کا آغاز اور بتدریج ارتقا
پندرہویں صدی اور اس کے بعد کے سارحوں نے ہندوستان کی دولت و حشمت کی خبریں سن کر مغربی ممالک کے سا حوں نے ہندوستان کا رخ کای، ان مںں اوّلن نام مارکوپولوکا ہے جو تریہویں صدی مںک، غاگث الدین بلبن کے عہدمںھ چنپ سے مالا بار تک ہی پہنچ سکا۔۵۶۲۱ء سے ۷۶۲۱ء تک صرف دو سال ہندوستان مںم مقمل رہا۔
دوسراسارح پارتھولوموڈ ۶۸۴۱ء مںی پرتگال کے بادشاہ نرین کی ایماپر ہندوستان کے لےم روانہ ہوا،وہ اپنا سفر مکمل نہ کرسکا اور طوفان کے سخت تھپڑصوں کی وجہ سے واپس چلا گام لکنر اس نے آنے والے ساوحوں کے راستوں کو ہموارضرورکردیا۔
اسپنی کے ایک مشہور سا ح کرستوفرکولمبس نے ۶۸۴۱ء مں بادشاہ کی ایمااور سرپرستی مںپ ہندوستان کے لےف اپنا سفرشروع کاو لکن وہ سمندری راستہ بھٹک گاس اور اس نے جنوب کی بجائے مغرب کی جانب سفراختاار کرلاس،نتجہد کے طور پر وہ ہندوستان کے بجائے امریکہ پہنچ گاو اس طرح امریکہ کی دریافت عمل مںم آئی۔
پرتگال کے بادشاہ نے ۸۹۴۱ء مںی واسکوڈی گاما کو ہندوستان کی تلاش مںح ایک سو ساٹھ افراد پر مشتمل مالابار سے روانہ کاس تھا۔واسکوڈی گاما اپنے وفد کے ساتھ ہندوستان پہنچا اور ایک برس تک یہاں مقمب رہا۔
عہد مغلہک مں۴ متعددیوروپی ساسحوں نے ہندوستان کا رخ کا ، جہانگرککے عہد مںپ برطانوی کپتان ہاکنس اور سرطامس شاہ انگلستان کا ایک رقعہ اور قیت ا تحفے لے کر ہندوستان آئے تھے۔سرطامس برطانہر کے سفرڈکی حتتو سے ہندوستان مںن مقمط رہا۔اس دور کا ٹو نرر۹۳۶۱ء مںک شاہجہاں کے دور مںک ہندوستان آیا بلکہ چھ بار ہندوستان آیا جواہرات کامشہورتاجر تھا۔اس نے آخری سفر اورنگ زیب کے عہدمں کام۔
فرانسیطا سارح ڈاکٹربرنردشاہجہاں کے عہد مںے ہندوستان آیا اور ۶۵۶۱ء سے ۸۶۶۱ء یینب عالمگرت کے عہد تک قانم پذیر رہا۔
برنرسکے سفر نامے کا پہلا اردو ترجمہ ’وقائع سر ت و ساںحت‘کے نام سے ۸۸۸۱ء مں امجد حسنع وزیراعظم پٹاتلہ نے دو جلدوں مںع مرادآباد سے شائع کاہ تھا جبکہ دوسرا ایڈیشن ۳۰۹۱ء مںر آگرہ سے شائع ہوا۔
ڈاکٹربرنر ایک فلسفی ہونے کے ساتھ سارحت پسند محقق سااح بھی تھا،جو عہد عالمگر۶کے ساتسی اور دیگرحالات و کوائف کا عیے شاہد ہے لکند اس کی تحریروں سے تعصب اور جانبدارانہ طرزفکرکا احساس ہوتاہے۔
نکولہ منوچی (۷۱۷۱ء-۹۳۶۱ء)”Niccolao Manucci” اٹلی مںا پدہا ہوا عہد عالمگرنیینک سترہ برس کی عمر مںا ہندوستان آیا اور سورت مںک داراشکوہ کی فوج مںے شامل ہوگاD راجپوتانہ مںی بھی ملازمت کی،تمام عمرہندوستان مںر رہا،ہندوستان کے مختلف شہروں کی ساےحت کی اور مدراس مں وفات پائی۔اس کے بارے مںچ کہا جاتا ہے کہ:
“The most controvercial traveller of Mughal period was Niccolao Manucci in Italian specifically during the period of Alamgir, He seems to be a Bigot minded partial historian. Manucci wrotes many hats writing during his times in India.”
اردو مںt منوچی کے تنa ترجمے شائع ہوئے۔پہلا ترجمہ’خانہئ سلطنت مغلہی‘ مترجم مظفرعلی خاں آگرہ سے شائع ہوا۔دوسرا ترجمہ’ہندوستان عہد مغلہے مںا‘مترجم ملک راج شرما لاہور سے شائع ہوا۔تسروا ترجمہ ’داستان مغلہہ‘ مترجم سجاد باقر مہدی لاہور سے شائع ہوا۔
انسو یں صدی کے اواخرمںd برطانوی سارح اور راہب،عسالئی مذہب کی تبلغ کے لےں ہندوستان آنا شروع ہوئے۔ان ساںحوں مںک تھامس،ولمع کرےی اور وارڈ وغر ہ کے نام شامل ہںہ۔
اردو سفر ناموں کا ارتقا
اٹھارہویں صدی کی ابتدا مںی اگرچہ فارسی کا اثرزیادہ تھا۔اس کے باوجود اردو نثر نے خاصی مقبولتو حاصل کرلی تھی لکنا ابتدائی بشتر سفرنامے فارسی زبان مں لکھے گئے۔
مغل سلاطنر بھی سر وسااحت کا شوق رکھتے تھے۔ان کے تزک کو سفرنامہ قرارنہںہ دیا جاسکتا البتہ ان مںے تاریخ،جغرافہی اور سارسی حالات کا باونہا سفر نامے کی جانب ذہن منتقل ضرورکرتا ہے،لکن ابتدائی سفر نامے فارسی ہی مں لکھے گئے،ان مںہ قبادیدگی مرل حسن لندنی نواب کریم خاں،مرزاابوطالب اصفہانی اور شخا اعتصام الدین کے نام شامل ہںر۔
شخت اعتصام الدین کا سفر نامہ شنگرف نامہ ولایت فارسی مںا ہے اور برٹش مو زم مںی موجود ہے۔جمس ایڈوارڈ الکزینڈرنے اس کی اردو اور انگریزی تلخصل کی تھی۔
مرزاابوطالب خاں اصفہانی ۹۹۷۱ء مںف لندن گئے اور ۳۰۸۱ء مںی ہندوستان واپس آئے، ان کا سفر نامہ مر طالبی ۶۰۸۱ء مں مکمل ہوا اور ۰۱۸۱ء مںم Charles Estewardنے انگریزی مںت اس کا ترجمہ کائ۔اصل نسخہ کو ۲۱۸۱ء مںہ فورٹ ولم کالج نے فارسی مںہ شائع کاغ۔
اردو سفرناموں کو تحریک و ترغبت فارسی سفر ناموں سے ملی۔بعد ازاں داستانوں کے واقعات مںٹ پوشدکہ اسفار، سفرنامے کا محرک بنتے گئے،مثلاً قصہئ چہاردرویش مںز درویشوں کے سفر کا باون،حاتم طائی کے سات اسفار کا ذکر، حددر بخش حدںری کی آرائش محفل امر حمزہ خللگ علی خاں اشک،نہال چندلاہوری کی’مذہب عشق‘ گل بکاؤلی کی تلاش مںے شہزادے کے طویل سفرکا باون،ڈرامہ’اندرسبھا‘مںا سبز پری کا سفراور گلفام کو جادوئی تخت سے سر کرانا شامل ہے۔
اردومں سفرنامے کا تصورخاصاقدیم ہے اور ان کی فہرست بھی طویل ہے لکنا یوسف خاں کمبل پوش کی ’تاریخ یوسفی‘ جو عجائبات ِ فرنگ‘کے نام سے مشہورہوا۔اردو کاباقاعدہ پہلا سفر نامہ تسلمک کا، گا ۔ اردوسفرنامہ کی تاریخ مںا بنائد گزار کی حتشا رکھتا ہے۔۷۳۸۱ء مںج پایہئ تلم کو پہنچا۔
محمداکرم چغتائی کی تحققک کے مطابق یہ سفرنامہ دراصل فارسی مںو لکھاگا تھا،اس کا اصل متن ایاناٹک سوسائٹی کلکتہ کے کتب خانہ مںج موجود ہے اور فارسی متن پر مصنف کانام یوسف خاں گلم پوش لکھا ہے۔
عجائبات فرنگ ۷۹۲صفحات پر مشتمل پہلی بار ۷۴۸۱ء مںہ پنڈت دھرم نارائن کے زیر اہتمام مطبع العلوم دہلی کالج سے ’تاریخ یوسفی‘کے نام سے شائع ہوکرمنظرعام پر آیا تھا۔بعد ازاں ۳۷۸۱ء مںت منشی نول کشورنے لکھنؤ سے ’عجائبات فرنگ‘ کے نام سے شائع کاہ اورپھر ۸۹۸۱ء مں نول کشور نے دوسرا ایڈیشن بھی شائع کا ۔تحسنی فراقی نے ۳۸۹۱ء مں دوبارہ ترتبں دے کر جامع اور مبسوط مقدمہ کے ساتھ شائع کا ۔
یوسف خاں کبل پوش حد رآباد مں پد اہوئے،۸۲۸۱ء مںم لکھنؤ مںئ مستقل طور پر سکونت اختاصر کرلی اور نصریالدین کے دربار سے وابستگی قایم کرلی اور نواب کی اجازت اور ایماپر انگلستان کا سفرکار،یہ سفرنامہ انگلستان کے سفر کی رودادہے۔کمبل پوش انگلستان کے ماحول، بودوباش اور طرز معاشرت سے بہت متاثر تھے۔ انہںا واقعات کو اُس نے حققتا نہایت ہی سلسا، عام فہم اور رنگنی زبان مںش مؤثر طورپرباین کاو ہے۔ اس سفرنامہ کا باطنہس منفرد اور اسلوب مختلف ہے۔
فداحسنا کا سفرنامہ ’تاریخ افغانستان‘ ۲۵۸۱ء مںی شائع ہوا۔ اس سفرنامے مں ۹۳۸۱ء کو انگریزوں کے کابل پر حملہ نز ہندوستان مںے مقامی واقعات پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔فداحسنا جنگجواور بہادرسپاہی تھا۔اگرچہ وہ اس حملہ مںن انگریزوں کی فوج مںن شامل تھا۔کم علم ہونے کی وجہ سے اپنے سفرنامے مںن مؤثر بابنہر انداز تحریر پشا نہ کرسکا۔’سفرفرنگ‘مرزاابوطالب خاں اصفہانی کا تسرلا قدیم سفرنامہ تسلمی کا جاتاہے۔ اصفہانی لندنی کے لقب سے زیادہ مشہور تھا۔’سفرفرنگ‘ان کے فارسی سفرنامے کا اردو ترجمہ ہے۔انھوں نے ۹۹۷۱ء مں‘ لندن کا سفرکاھ اور دوسال قاںم لندن کے واقعات اس سفرنامے مںی درج ہںب۔
کمبل پوش کے ہم عصر نواب کریم خاں کا ’سارحت نامہ‘ بھی اردو کے قدیم سفرناموں مں۱ شمار ہوتا ہے۔نواب کریم خاں جھجھر کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔جھجھرکے مقدمے کی پرزوی کے سلسلے مںو بہادر شاہ کے سفر کے طور پر انگلستان کا سفرکاناور دسمبر ۰۴۸۱ء سے ۱۴۸۱ء تک لندن مںخ قاکم کام۔مقدمہ کا فصلہد ان کے حق مںم نہںز ہوا اور وہ مایوس ہوکر ہندوستان واپس آگئے۔قارم لندن کے دوران وہ جو کچھ دیکھتے یا محسوس کرتے،وہ مستند حوالوں کے ساتھ اپنی ذاتی ڈائری مںو نوٹ کرلتےے تھے۔ان یادداشتوں کو انھوں نے سارحت نامہ کی شکل مں شائع کرایا۔
کریم خاں کو باونہا پربڑی قدرت حاصل ہے۔’سا حت نامہ‘ مںس انھوں نے لندن کی تہذیب و معاشرت،بودو باش،اقتصادی اور معاشی زندگی کو بھرپوراندازمںش باون کان ہے جو دستاویزی حت ب کا حامل ہے۔ وہ واقعات کو باتن کرتے ہں بلکہ وہ معروضی انداز مں تاثرات اور آراکا بھی اظہارکرتے ہںا۔مشرق و مغرب کی خوبوھں اور خاموبں اور مشاہدات و تجربات کو اپنی تحریروں مںل قاری کو شریک کرنے کے فن سے بھی بخوبی واقف ہںو۔
مولوی مسحی الدین علوی کا ’سفر نامہئ لندن‘ بہت مقبول ہوا۔اودھ کے نواب واجد علی شاہ کو انگریزوں نے ۶۵۸۱ء مںر معزول کردیا۔ نواب نے مولوی مسحں الدین علوی کو 140افراد پر مشتمل ایک وفد جس مںا دیگرافسران کے علاوہ ولی عہد،والدہ اور بھائی وغرںہ شامل تھے۔لندن کے لے دادرسی کے لےں روانہ کا۔اورمسح۔ الدین علوی کو سفرااودھ بھی بناکر بھجاو۔۸۱/جون ۶۵۸۱ء تا ۳۲/دسمبر۵۶۸۱ء تک انھوں لندن مںب تقریباً سات سال قانم کاملکنن انہںء اپنے مقصد مں کاماابی نہںں مل سکی اور مایوس ہوکر واپس ہندوستان آگئے۔مولوی مسحد الدین کو نواب واجد علی شاہ نے سفارت کے منصب سے برطرف کردیا۔قاھم لندن کے دوران انھوں نے انگریزوں کی طرزمعاشرت،صنعت و حرفت و بادن،جدیدفن تعمر اور ان کی ترقی کو بہت قریب سے دیکھااورگہرا مشاہدہ کان، انگریزوں کے مظالم اور استبدادکو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔انہںا واقعات کو علوی نے اپنے سفرنامے ’تاریخ ہندوستان‘مں نہایت معروضی انداز مں پشت کاش ہے۔
علاوہ ازیں اسی نوع کی کتاب ’سفر اودھ‘کے نام سے ان کی خودنوشت ۹۲۹۱ء مںو ’الناظر‘پریس لکھنوسے شائع ہوئی تھی۔
جدیدنثرکاآغاز سرسد کے دورمںہ ہوا۔ سرسدن کے ذریعہ اردو ادب کو فروغ حاصل ہوا۔ سرسدس کے رفقانے اردو زبان وادب کو اردو کی مختلف اصناف سے متعارف کرایا۔ اس عہد مںا چند اہم سفر نامے بھی شائع ہوئے۔’مسافران لندن‘کو بڑی مقبولتک اور شہرت حاصل ہوئی۔یہ سرسدک کا تعلیب سفر نامہ ہے،جوڈیڑھ سال ۹۶۸۱ء تا ۲۱/اکتوبر۰۷۸۱ء کے عرصہ کو محط ہے۔
سرسدم کے سفرلندن کا مقصدوہاں کے تعلیہ معا ر،نصاب،تربتک اور تدریس کے طریق کار مشاہدہ کرنا تھا۔علاوہ ازیں ولم موررکی کتاب ’لائف آف محمد‘کامستند حوالوں کے ساتھ نہ صرف جواب دیناتھابلکہ اسے غلط ثابت بھی کرنا تھا۔وہ اپنی قوم کی تعلییس پسماندگی اور افلاس کو دیکھ کر مایوس بھی ہوتے تھے جبکہ لندن کی زندگی،تعلیند معارراور علوم و فنون سے انہوں نے جو تجربات حاصل کےک،انہںل وہ ہندوستان کے مسلم نوجوانوں کے لےہ مشعل راہ ثابت کرنا چاہتے تھے۔لندن سے واپس آکر سرسدگ نے ’مسافران لندن‘کے نام سے ایک معالری سفرنامہ تحریر کا ۔
اسماعلت پانی پتی نے اس کے مختلف مآخذکو ترتبے دیا،یہ سفر نامہ سرسدو کی وفات کے بعد ۱۶۹۱ء مں‘ پہلی بار مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوا۔اس سفر نامہ مں انگریزوں کی ترقی کا موازنہ ہندوستانوکں کی پسماندگی سے کرتے ہںع اور بہت مایوس نظر آتے ہںر زبان سادہ سلسن،اسلوب منفرد اورانداز تحریر خطباانہ ہے۔
’سفرپنجاب‘بھی سرسداکے تعلیین سفر سے متعلق ہے۔ سرسدح نے ۴۸۸۱ء مں پنجاب کے مختلف شہروں، لاہور، گروداس پور، لدھاونہ، پٹاالہ اور جالندھروغرےہ کا سفر، علی گڑھ کالج کی تعمرنکے لےہ چندے کی اپلں کی غرض سے کاحتھا۔ اس سفر مں۱ سرسد کے رفقو سفر محمد اقبال بھی شامل تھے۔انھوں نے سرسدلکی تقریروں،اپلوفں اور گزارشات کو ترتبس د ے کرسفرنامے کی شکل مکمل کاد۔
سرسدی کے ہم عصر مرزانثارعلی بگن کا’سفریوروپ‘بھی ایک اہم سفرنامہ ہے۔وہ ۵۸۸۱ء مںی لندن کے سفرپر گئے،وہاں تنا ماہ قا م کال۔اس سفرکامقصدسا،حت کے ساتھ تعلییج خرابو ں اور خوبویں کا مشاہدہ بھی شامل تھا۔
مرزانثارعلی بگا ڈپٹی انسپکٹرمدراس کے منصب پربھی فائز تھے۔انھوں نے اپنے مشاہدے اور تجربات کی روشنی مں وہاں کے اسکولوں،کالجوں اور طریقہئ تعلمق کا بہ نظر غائرمطالعہ کاکاور ہرپہلوسے ہندوستان کے طریق تعلم کا موازنہ بھی کاہ۔
رام پور کے نواب محمد حامد علی خاں کا سفر نامہ’سراحامد‘مںب آکلنڈںکلون لفٹنٹ گورنرکی دعوت پرساوحت کے لےف نکلے۔جاپان،فرانس،جرمنی،یونان،امریکہ،افریقہ اور مصرکی سامحت کرکے جنوری ۴۸۸۱ء کو ہندوستان واپس آئے۔انسوقیں صدی کی آخری دہائی مںر انھوں نے اس سفرنامے کو مکمل کار۔۶۹۸۱ء مںئ نواب صاحب کے استاد مولوی فرخی نے اسے دو جلدوں مں آگرہ سے شائع کاستھا۔
’سرقحامد‘دوجلدوں پرمشتمل ہے۔پہلی جلدمںم ایا ماورامریکہ اور دوسری جلدمںں یوروپ اور مصرکے حالات وکوائف شامل ہںن۔انھوں نے آداب شاہی کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے مغربی ممالک کی تہذیبوں اور طرز معاشرت کا مشاہدہ کام اور اپنے سفرنامے مںہ پشر کاک ہے۔
علامہ شبلی اردوکے معروف نقاد اور سرسد۔کے رفقامںز تھے۔انسوشیں صدی کے اواخرمںر انھوں نے اسلامی ممالک کا سفرکاو اور’سفرنامہ روم،مصروشام‘کے عنوان سے ایک وقعم اور معامری سفرنامہ تحریرکاش۔
شبلی نے جب اسلام کی عظمر المرمرتبت شخصاات کی سوانح لکھنے کا سلسلہ شروع کا توانھوں نے چند متعصب مورخنی کی تحریروں مںن تنگ نظری اور جانبداری محسوس کی۔
لہٰذا اُنھوں نے بناجدی مآخذ (Original Sources) تک وسائل حاصل کرنے کی غرض سے اسلامی ممالک کا سفراختایر کات۔ابریوت،قسطنطنہج،بت المقدس اور قاہرہ کے کتب خانوں ’دارالاستقامہ‘نزا درس و تدریس کا بھی عمقن مطالعہ کاب۔اخلاقی قدریں اور علوم و فنون کا بغورمشاہدہ کاد۔ وہاں کے حکمرانوں اور اہل علم شخصاںت سے بھی ملاقاتںک کںس، عمارتوں اور اہم مقامات کی بھی سری کی۔ مصراور شام کے اہم کتب خانوں سے استفادہ کا،۔ شبلی کو بالنہا پرقدرت حاصل ہے۔ زبان کی فصاحت، شبلی کا امتاازی وصف ہے۔
اردوزبان و ادب کی تاریخ مں۔ مولانامحمدحسن آزاد کا نام مستندتصورکاہ جاتا ہے۔ اردو مں ان کے دو سفر نامے ملتے ہںص۔ پہلا سفرنامہ’وسط ایاحککی سرم‘ہے۔ یہ سفر نامہ آغامحمداشرف نے مرتب کا اور دوسرا سفرنامہ’سرتایران‘ ہے۔ اس سفر نامے کو آغامحمدطاہرنے منتشریادداشتوں کی مدد سے مرتب کال جو192 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ سفر نامہ علمی نوعتی کا ہے۔ علامہ شبلی نے ایران سے اہم کتابںی حاصل کںم، وہ ایک فارسی لغت بھی تا رکرنا چاہتے تھے۔ مولانادس ماہ بعد ۴۲/جولائی ۶۸۸۱ء کو ایران سے لاہور واپس آئے اور احباب کی فرمائش پر ’سر ایران‘ قلم بند کال۔گورنرپنجاب ڈاکٹر اسمتھ نے بھی اس کی روداد شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس سفر نامے مںب ایران کے جغرافا ئی حالات، عوام اور حاکموں کی مزاجی کاما ت کا مؤثر انداز مںا ذکرکاا ہے۔’سراایران‘اردو سفر ناموں کی تاریخ مں اضافہ کی حتاح رکھتا ہے، جبکہ پہلا سفر نامہ ’وسط ایا ککی سر سرکاری نوعتؤ کا ہے۔حکومت کی جانب سے ایک سرکاری وفدمںر شامل ہوکر ایا ا کا سفر کاے تھا۔ اس کی رودادبھی سرکاری نوعت کی ہے۔
محمدحسنپ آزاد بحت ثر اردو سفرنامہ نگار بھی اپنی امتایزی شناخت رکھتے ہںک۔ جعفرتھانسر ی کا سفرنامہ ’تواریخ عجبا‘موسوم بہ کالاپانی انگریزوں کے ظلم واستبداد کی داستان ہے۔۷۵۸۱ء کی ناکامی کے بعد علمااور مجاہدین آزادی کے لےم جو سخت سزائںش مقررکںع۔مولوی تھانسر۔ی بھی اس کا نشانہ بنے اور انہں‘ مجاہدین آزادی کی مدد کرنے کی پاداش مںا کالا پانی کی سزا دی گئی۔انھوں نے اٹھارہ برس انڈمان مںا گزارے۔یہ سفر نامہ خود نوشت سوانح کی نوعتی کا ہے۔اس مںھ انگریزوں کے مظالم کے ساتھ جزائرانڈمان کے حالات و کوائف نہایت دلچسپ اندازمںپ باان کےر گئے ہںہ۔

بسوایں صدی مںر اردو سفر نامہ
بسوایں صدی کے اوائل مں اردونے نثری اسلوب،خصوصاً نثری اصناف کے حوالے سے خوب ترقی کی،کئی اہم نثرنگاروں کو جنم دیا اور کئی معائری اردو سفر نامے بھی شائع ہوئے۔ان سفر ناموں کی طویل فہرست ہے۔یہاں سبھی کا ذکرممکن نہںث البتہ چند اہم سفرناموں کو زیربحث لایا گار ہے۔
ابتدائی دور کے سفر ناموں مںٹ والی ریاستِ بھوپال سلطان جہاں بگم کا سفر نامہ ’سا حت سلطانی‘ نواب لاوقت جنگ بہادرکا سفر نامہ’یوروپ و امریکہ‘اور سائحت نامہ عبداللہ سندھی کا ’کابل مںں سات سال‘ سر راس مسعودکا ’جاپان کا تعلی ب نظم و نسق‘ عبدالماجددریابادی کا ’ڈھائی ہفتے کا پاکستان‘ قابل ذکرہںو۔
اس دور کے چنداہم سفر نامے بھی سامنے آتے ہںس جنہںس اوّلتھ کا درجہ حاصل ہے مثلاً منشی محبوب عالم، خواجہ غلام الثقلنل، خواجہ حسن نظامی، مہاراجہ کشن پرشاد، شخا عبدالقادر، سد سلما ن ندوی،نشاط النسابگمس،مولاناعبداللہ سندھی،قاضی عبدالغفار، مر رضاعلی وغرےہ کے نام اہم ہںں۔
مہاراجہ کشن پرشاد حد رآباد کے وزیراعظم تھے۔ ان کے دو سفر نامے ’سرکپنجاب‘ اور ’سفر نامے‘ شائع ہوئے۔’سفرنامے‘مںض دکن کی ساہسی صورت حال اور تہذیب و معاشرت کی عکاسی کی ہے۔
’مقام خلافت‘اور ’ساقحت نامہ یوروپ‘ شخ عبدالقادرکے دو سفرنامے منظرعام پرآئے پہلے سفر نامے مںخ انھوں نے ترکی کے مسلم معاشرے کی روداد با ن کی ہے اور دوسرے سفر نامے مںں یوروپ کی ساrسی،سماجی اور تعلیلق صورت حال کا باہن کار ہے۔
سدرسلماحن ندوی اعلیٰ پائے کے نثرنگار،دانشوراور انشاپردازتھے۔وہ ۳۳۹۱ء مں کابل کے شاہ نادرخاں کی دعوت پر علامہ اقبال اور سرراس مسعودکے ساتھ کابل گئے تھے۔’سرت افغانستان‘سدخسلماٰن ندوی کا سفر نامہ اسی سفر کی رودادہے۔
غلام الثقلنم معروف دانشوراور عالم تھے۔ایران،روس،قسطنطنہن،عراق،مکہ اور مدینہ کی ساےحت کے بعد انھوں نے ’سالحت نامہ‘کے عنوان سے اپناسفرنامہ ترتب دیا جو نہایت سادہ پرتکلف اور حققتا نگاری پر مبنی ہے۔
منشی محبوب عالم نے صحافی کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔ان کے دو سفر نامے ’بغداد‘اور ’عجائبات یوروپ‘ مںے بعض انکشافات اور نئی معلومات فراہم کی ہںغ۔
حسرت موہانی کی اہلہی بگمپ نشاط النسانے ۶۳۹۱ء مںو مولانا کے ساتھ عراق کا سفر کاج تھا۔’سفر نامہ عراق‘ دراصل اسی سفر کی یادگارہے۔انھوں نے اگرچہ عراق کو ایک خاتون مشرق کی نظر سے دیکھالکنر عراق کی خواتنا آزادگی اور روشن خاکلی کو سراہااور وہاں کی فن تعمرق کے حسن کو باعن کات۔
قاضی عبدالغفارسادست داں، تخلقگ کار، وقائع نگاراورانشاپردازتھے۔’نقش فرنگ‘ ان کا سفرنامہ بھی ہے اور تجزیہ بھی اور تبصرہ بھی جو انھوں نے انگریزوں کی سامست ہندوستانونں سے متعلق،ان کے رویے پر نہایت بصرات افروز اندازمںو کاس ہے۔قاضی عبدالغفار احانخلافت کے مسئلے پر گفتگوکرنے، ممبر کی حتاگ سے لندن گئے تھے اور کامایبی سے ہمکنارہوئے۔’نقش فرنگ‘ اسی سفر کی روداد ہے۔
بسونیں صدی کے سفرنامے قدیم سفرناموں کی طرح صرف ساسحت کے واقعات اور مناظرکو پش کرنے تک محدودنہںن ہںض بلکہ فخروانبساط،کا ا ت اور حصول عبرت اور ردعمل کا ذریعہ بھی ثابت ہوئے۔ان کا یہ تخلی ص انداز فکشن کے با نہا سے قریب ترنظرآتاہے،جہاں قاری کی شمولتف اوّل تا آخربرقراررہتی ہے۔
عبداللہ بصرمنابنان تھے،راجستھان ان کاتھا۔ فن تاریخ گوئی پر انہںک دسترس حاصل تھی۔ ان کاسفرنامہ ’سفر دکن‘ کے عنوان سے ۰۳۹۱ء مںی شائع ہوکرمنظرعام پر آیاجومنظوم ہے۔اس کا بشترر حصہ نواب عثمان علی خاں سے گفتگو پر مشتمل ہے۔
بسوایں صدی کے نصف آخرکے سفرنامہ نگاروں مںر چند اہم نام سامنے آتے ہںش جن کا ذکر سطوربالا مں کان گاں ہے۔خواجہ حس نظامی کے سفر نامے ’سفرنامہ حجازومصرو شام‘ سرو دہلی ’سفر نامہ افغانستان‘محمدعلی قصوری کا سفر نامہ ’مشاہدات کابل و پاکستان‘عبداللہ سندھی کا ’کابل مںع سات دن‘دلی کا پہرہ‘ ملاواحد کا ’مسافر کی ڈائری‘ خواجہ احمد عباس، رہ نوروثوق،سدش عابد حسن’، سفر زندگی کے لےش سوزوساز، صالحہ عابد حسنا ’ساحل اور سمندر،احتشام حسنا ’دنات مرسا گاؤں، غلام السدعین ’پردس و پارس،ثریاحسن’’بسا دن انگلستان مںر،وزیرآغا،جمل الدین عالی کے سفر نامے،جملو الدین عالی’جہاں دیگرقرۃ العنک حدسر’زردپتوں کی بہار، خواب خواب‘ سفر رام لعل ’شوق آوارگی، سراکردناس کی غافل‘ صغریٰ مہدی ’مہ و سال آشنائی‘فضہ احمدفضؔ ’زمنم اور ملک اور انتظار حسنن ’سفرنامہئ کشمرہ، محمددین تاثری’سفرنامہ شملہ، کوثرچاندپوری ’ہو نگ سانگ کا سفر ہندوستان ترجمہ: پروفسراضانء الرحمٰن صدییا، علی گڑھ،سفرنامہ ’ارض قرآن‘ سدے ابوالاعلیٰ مودودی ’سفرنامہ حجاز‘ غلام رسول، ’مہرلبک۔‘ ممتازشربیں ’ باؤلی بھکارن‘ بشریٰ رحمٰن، ’حجاز مقدس‘ پروفسر توقرماحمدخاں،’شہردرشہر‘شفقغ خاں، ’جاپان چلوجاپان‘مجتبیٰ حسنہ، ’تعلیام کارواں‘راحت ابرار(علی گڑھ)’دیوارچنہ کے سائے مںل‘ منزل نہ کرقبول‘ ’خداکی بستی‘عبدحاللہ فہد، ’پابہ رکاب‘ابوسفاان اصلاحی کودرا۸۰۰۲ء اور ’لستم پوخ‘ (استنبول مںن گالرہ دن)راشد شاذ ۳۱۰۲ء ’نشاط آبلہ پائی‘ا طہرصدییپ، ’خوابوں کا جزیرہ ماریشس کا سفر نامہ‘ دردانہ قاسمی شامل ہںا۔علاوہ ازیں ایران نامہ(1998) سفر نامہ بنگلہ دیش (2006) سدرظل الرحمٰن کے سفر نامے ہں۰۔
اردو سفر نامے کا اجمالی جائزہ
عہدعتقف ہی سے عالمی سطح پر سفر کا رواج رہا ہے۔دانشوراور درویش،علم و فضل اور روحانی کشف و کمال،عرفان ذات نز تبلغں و تعلمپ کے لےڑ سفرکرتے تھے۔ہجرت بھی سفرکے اقسام مںک شامل ہے۔نقل مکانی اور سا حت نہ صرف انسان بلکہ چرندپرندکی فطرت مںی بھی شامل ہے۔
سفرکے اقسام اور مقاصد بالکل مختلف ہںا۔ذاتی طورپرسرہو تفریح بھی سفرکی ایک قسم قراردی جاسکتی ہے۔ان مںی چند اسفار حکمرانوں کی خواہش اورایماپر کےر گئے۔دورقدیم مںا سا ح پدمل اور جانوروں کے ذریعہ سفرکرتے تھے۔بعد ازاں بحری بڑ وں کے ذریعہ سفرکا ترقی پذیرطریقہ عمل مںح آیا۔
ابتدامںو سادح سفر کے حالات و کوائف و روداد سنہ بہ سنہ حکائی شکل مںف ایک دوسرے تک پہنچادیتے تھے۔بعدازاں انہںچ تحریری شکل مںج محفوظ کایجانے گا۔ہر سامح کے سفراختاور کرنے کا مقصد سفرکی روداد تحریرکرنانہںی تھا۔اسفارمختلف مقاصد پرمبنی ہوسکتے ہںذ۔ سایحت کے دوران متعددایسے رموزاور موجودات کا انکشاف ہوتاہے،جنہںں منصہ شہود پرلاناممکن نہں ہوسکتا۔
زمانہئ قدیم مںد مسافروں کی آپ باو رں اور سفر بافا ں،سفر نامے کے آغاز کا نقش اوّل ثابت ہوئے۔ان مں چند مبالغہ آمزف،فرضی اور مشکوک بھی ہوتے تھے لکنت وقت کی ضرورت کے ساتھ ییہ انداز اور داستانوی طرز کے قصے اور واقعات،خطوط اور ڈائریاں روزنامچے،سفر کی روداداختاثر کرتے گئے۔ ابتدائی سفرنامے داستانوی نوعتم کے تخلاےتی قصوں سے ماخوذتصور کےھ جاتے تھے۔پریس قائم ہونے سے تحریری شکل کے ساتھ سفر نامے تصویری شکل مںا بھی شائع ہونے لگے۔
سفر نامے کے ذریعہ مختلف ممالک کی طرز معاشرت،تہذیب و تمدن،تاریخ و ثقافت،علوم و فنون،طرزتعمر ،قوموں کے عروج و زوال اور خصوصاًجغرافا ئی حالات کا علم ہوجاتاہے۔مورخ سفر ناموں کے ذریعہ تارییئ شواہد کے ساتھ مستندتاریخ قلم بندکرسکتا ہے۔ دناو کے مختلف ساوح بھی مختلف ممالک، مذاہب، تہذیبوں، مسلکوں اور عقائدسے تعلق رکھتے ہںج۔ ان کے علوم و فنون کا دائرہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ ہرساہح کی سارحت کے اغراض و مقاصد بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہںم۔ سفرنامے کسی ملک کی ایی تصویرپشے کرنے کے متحمل ہوتے ہںے جنہںن تاریخ داں پش کرنے سے قاصر نظر آتے ہںت۔ سفرناموں کے ذریعہ عالمی سطح پر تاریخ و تمدن،علم و ادب اور فنون کی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔
اردواور فارسی کے بشتر سفرنامے عرب، ایران، افغانستان، چنص،پاکستان انگلستان، حجاز مقدس، ترکی اور چند سفرنامے ماریشس اور بنگلہ دیش جاپان وغر ہ سے متعلق منظرعام پر آئے ہںر،انہںے ممالک کے گردبشتر سفرنامے سانحوں کے موضوعات کامرکزبنے رہے۔
سفرنامے مںر فکشن کا باانہد،آپ بیں کا عنصر،جگ بیضو کا لطف وانبساط،ڈرامائی کتہم اور سفرکرنے والے کی سفرسے ذاتی گہری دلچسپی، مشاہدات وتجربات، سفرکی پوری حشرسامانوںں کے ساتھ قاری کو ابتداسے آخرتک ساتھ لے کر چلنے کا فن عطاکرتا ہے اور قاری سفرنامہ نگار کے ساتھ سفرکابھرپورلطف اٹھاتاہے۔
سفرنامہ کو اردو کے غرل افسانوی ادب مں بحت چل صنف تسمےی کاے جا چکا ہے۔باپنہت اس صنف کا اہم وصف اور صنفی امتانز قراردیا گاج ہے۔اس لےپ سفر نامہ نگار کا تخلقا کار یا صاحب قلم ہوناضروری ہے۔سفرکرنے سے انسان مںر خود اعتمادی اور دانشوری کا جذبہ بد ارہوتا ہے۔کشادہ قلبی اور ذہنی تحرک جنم لتار ہے۔فکرمںا آفاقتا اور وسعر النظری پدما ہوتی ہے۔عام طورپر یہ دیکھا گار ہے کہ سفرنامہ نگار اپنے سفرنامے واحد متکلم ہی مں تحریر کرتے ہںا۔سا۔حوں اور سفرناموں کے متعدد اقسام اور مقاصد ہوتے ہںل۔ بعض خود نوشت اور آپ باوسعں سفرناموں کا تاثر دییا ہں ۔سفرنامے کا تارییر اعتبار سے طویل بھی ہوتے ہںچ اور حکائی روایت کے لحاظ سے قدیم بھی۔یونان کے سا ح ہرروڈوٹس (۵۲۷ م ق)کو Shiply کی Dictionary of Word Literature کے حوالے سے پہلا سفرنامہ نگار تسلمہ کاد جاتاہے لکنن دنالکا تحریرشدہ باضابطہ سفر نامہ یونان کے معروف ساجح میگس تھینز کا ’سفرہند‘ہے۔یہ 303 م ق چندرگپت موریہ کے عہد مںن ہندوستان آیا۔
اردو کا پہلا باضابطہ سفرنامہ یوسف خاں کمبل پوش کا’عجائبات فرنگ‘ تسلمں کار گائ جو ۳۷۸۱ء مںی منظرعام پر آیاجن کا ذکر گذشتہ صفحات مںھ کاد جا چاکا ہے۔اردو مںئ سفر ناموں کا باضابطہ آغاز انسو یں صدی سے ہوا بسوایں صدی مںر بتدریج ارتقاعمل مںز آیااور دورجدید مں اردو سفرنامے ارتقائی منزل کی جانب گامزن ہںب۔ گذشتہ صفحات مںا اکسوایں صدی کی دوسری دہائی تک اردو سفرناموں کا جائزہ لا گات ہے البتہ قدیم اور جدید سفرناموں مںق واضح فرق یہ ہے کہ قدیم سفر ناموں مں مشاہدہ،تجربہ اور دریافت کا عنصر شامل ہے لکنم دورجدید کا سفرنامہ نگاراپنے سفرنامے مں قاری کی شمولتں کے ساتھ اپنی آرا کا اظہاربھی کرتا ہے۔غرمافسانوی ادب کے حوالے سے اردو سفرنامہ ایک کاما ب اور دلچسپ صنف کے طورپر تسلمع کی گئی ہے۔

34

پروفسرضیا ء الرحمٰن صدیقی
شعبہ اردو،علی گڑھ مسلم یونو رسٹی
علی گڑھ،اترپردیش (انڈیا)

ٓ