شفیق الرحمان
ہماری فلموں سے مراد وہ فلمیں ہیں جو ملکی ہیں۔ جن میں ہماری روزانہ زندگی کے نقشے کھینچے جاتے ہیں۔ جن میں ہماری برائیاں اور کمزوریاں بے نقاب کی جاتی ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری فلموں نے اتنے تھوڑے سے عرصے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چند ہی سال کی بات ہے کہ یہاں نہایت مضحکہ خیز فلمیں بنتی تھیں جن کے خیال سے ہم شرمندہ ہو جاتے ہیں اور ہماری پیشانی پر پسینے کے پانچ چھ قطرے آ جاتے ہیں۔ لیکن اب خدا کے فضل سے ایسی فلمیں بننے لگی ہیں جن پر ہم فخر کرسکتے ہیں۔
اب ڈنڈے مار فلموں کا زمانہ گیا۔ بادشاہوں کے محلوں اور سنیاسیوں کے غاروں سے اب کیمرے کا رخ ایک معمولی خاندان کے گھر کی جانب ہوگیا ہے۔ اب ہماری فلمیں ہماری روزانہ زندگی کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ ہم اس ترقی پر یقیناً بہت خوش ہیں۔ بعض اوقات ہم تنہائی میں مسکرانے لگتے ہیں اور دیر تک مسکراتے رہتے ہیں۔ مسرت سے ہماری باچھیں کھل جاتی ہیں۔ فخر سے ہمارا سینہ تن جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کبھی کبھی کچھ عجیب سے خیالات ہمارے دل میں آنے لگتے ہیں۔ ہم بہت کوشش کرتے ہیں کہ اس الجھن سے باہر نکل آئیں لیکن مجبور ہو کر الٹی سیدھی باتیں سوچنے بیٹھ جاتے ہیں۔
پہلے تو ہم اپنے پروڈیوسر حضرات کی دریادلی پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہیں۔ ایک فلم خدا جانے کتنی لمبی ہوتی ہے۔ شاید کئی میل لمبی اور جب ٹریلر دیکھتے ہیں تو قریب قریب ساری فلمی کہانی سن لیتے ہیں۔ ٹریلر کے بعد فلم دیکھنا محض اسے دہرانا ہے۔ ایک اور بات جو ہمیں اپنی فلمیں دیکھنے کے بعد معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ جب محبت ہونی ہو تو یوں منٹوں میں ہو جاتی ہے اور ایک ہفتے کے اندر اندر دونوں کا برا حال ہو جاتا ہے۔ اب اس معاملے میں ہمیں کوئی ذاتی تجربہ تو ہے نہیں لیکن یہ ضرور سنا ہے کہ اصلی محبت ہونے میں کم از کم چھ ماہ سے ایک سال تک کا عرصہ لگتا ہے۔
لیکن یہاں یہ انکشاف ہوتا ہے کہ محبت کے لیے فقط ایک چیز ضروری ہے، اور وہ ہے ایک لڑکے اور لڑکی کی ملاقات۔ شام کو اگر لڑکا سینما گیا تو لڑکی ضرور وہیں ملے گی اور اگر لڑکی سرکس گئی تو لڑکا ضرور وہیں ہوگا۔ اگلے روز لڑکے کو تار ملے گا کہ فوراً گھر پہنچو۔ ریل کے ڈبے میں بیٹھتے ہی اسے پتا چلے گا کہ اتفاق سے لڑکی بھی اسی ڈبے میں بیٹھی ہے۔ راستے میں ان کے صندوق بدل جائیں گے۔ پھر ایک ادھیڑ عمر کے شخص کو لڑکا وہیں کہیں کسی آفت سے بچالے گا اور وہ شخص لازماً اسی لڑکی کا والد ہوگا۔ اور جب لڑکی کے والد تک معاملہ پہنچ جائے تو سمجھ لیجیے کہ اب شادی ہو کر رہے گی۔ اس قسم کے حادثات ہوتے رہیں گے حتی کہ دونوں کی شادی ہو جائے گی۔ شادی کے بعد حادثے بالکل بند ہوجائیں گے اور دنیا میں سکون آجائے گا۔
ساتھ ہی ایک اور گہرے راز کا انکشاف ہوتا ہے وہ یہ کہ اس ملک میں وہی شخص محبت کر سکتا ہے جو بہت اچھا گاتا ہو۔ جسے گانا نہ آتا ہو اس شخص کو اتنا سا بھی حق حاصل نہیں کہ محبت کے متعلق کچھ سوچے بھی۔ البتہ وہ کوشش کرے تو ولین کا کام کر سکتا ہے۔ دومحبت کے متوالے دلوں کے بیچ میں ٹانگ اڑا سکتا ہے بس! اب سوچیے تو سہی کہ ایک حسین خاتون (جن سے آپ محبت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔) ایک تتلی یا پھول کو دیکھ کر یا یونہی خواہ مخواہ اتنی خوش ہو جاتی ہیں کہ فوراً فی البدیہہ نظم کہہ کر اسے گانے لگتی ہے۔ لازماً آپ کو کسی درخت کی آڑ میں وکٹ کیپر کی طرح جھکے ہوئے تاک لگائے کھڑا ہونا چاہیے، تو اس وقت آپ کا پریم تبھی ظاہر ہوگا کہ آپ ایک ہاتھ لہرا کر نعرہ لگائیں اور گانا شروع کردیں۔ اور آپ ان کے گاتے ہی فوراً کسی جھاڑی کے پیچھے سے نکل نہیں آتے یا کسی درخت سے دھم سے کود نہیں پڑتے، اور اگر آپ فی البدیہہ اشعار نہیں کہہ سکتے اور فوراً ہی دو گانے میں شامل نہیں ہو سکتے تو خاطر جمع رکھیے کہ آپ ہرگز ہرگز پریم کے حق دار نہیں۔
آپ کو چاہیے کہ چوبیس گھنٹے ان کی کوٹھی کا پہرہ دیں اور اسی تاک میں رہیں کہ وہ خاتون کس وقت اپنے کمرے میں یا اپنے باغ میں یا باورچی خانے میں یا سیڑھیوں پر خوش ہوکر گانا شروع کرتی ہیں۔ بس یہ سنہری موقع ہے۔ آپ بلند آواز سے جواباً گانا شروع کر دیجیے۔ چاند پر ایک بدلی آجائے گی۔ بلبلیں چہچہانے لگیں گی (اگر وہ سوئی پڑی ہیں تو انہیں اٹھنا پڑے گا۔) ان خاتون کے گھر کے تمام افراد کے کانوں پر مہریں لگ جائیں گی۔ سب کے سب اس وقت تک بہرے رہیں گے جب تک آپ دونوں گانے کا شغل ختم نہیں کرتے۔ اگر وہ لوگ چونکیں گے تو آپ کے گانے سے نہیں بلکہ آپ کی سرگوشیوں سے۔ یا اگر آپ اپنے کمرے میں بیٹھے ان کی یاد میں گا رہے ہیں (بلکہ رو رہے ہیں۔) تو آپ کا نوکر کمرے میں چائے لائے گا اور چپ چاپ واپس چلا جائے گا۔ باہر جاتے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو ہوں گے۔
آپ کا پیارا کتا فرش پر بیٹھا ہوا زار و قطار رو رہا ہوگا۔ باہر ٹہنیوں پر بیٹھے ہوئے غمگین پرندے چٹاخ پٹاخ زمین پر گرتے ہوں گے اور گرتے ہی دم نکل جاتا ہوگا۔ دیکھتے دیکھتے بادل امڈ آئیں گے، بجلیاں کوندنے لگیں گی۔ یک لخت موسلا دھار بارش شروع ہو جائے گی اور آپ کا جنون دگنا ہو جائے گا۔ آپ یکا یک چلا چلا کر گانا شروع کر دیں گے۔ پھر یک لخت ایک فلک شگاف دھماکہ ہو گا۔ سب سہم کر رہ جائیں گے۔ ایک سادھو بارش میں بھیگتا ہوا مستانہ آواز میں گاتا ہو جا رہا ہوگا۔ آپ اسے للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے لگیں گے۔ آپ کے سامنے آکر تو وہ بالکل ہی آہستہ چلنے لگے گا۔ اس کی کوشش یہی ہوگی کہ کسی طرح وہ گانا پورا کر دے۔ جب تک وہ گاتا رہے گا، بجلیاں نہیں کڑکیں گی۔ بارش بھی دھیمی پڑ جائے گی۔ جونہی اس نے گانا ختم کیا، ایک دم بادل گھر آئیں گے گرج اور کڑک پھر شروع ہو جائے گی اور سینما ہال میں بے شمار بچے رونے لگیں گے۔
اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے ہاں ولین سے بہت بے انصافی کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہال کا ہال لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتا ہے۔ ذرا ولین نظر آیا اور اگلی سیٹوں سے گالی کی بوچھاڑ شروع ہوئی،
’’مارو خبیث کو۔۔۔!‘‘
’’ناہنجار، بدبخت! فلاں کا پٹھا۔۔۔ بدتمیز!‘‘
’’ہاتھ پاؤں توڑ ڈالو کم بخت کے!‘‘
دراصل ہمیں ولین ایک نہایت ڈراؤنی چیز دکھائی جاتی ہے جس میں دنیا بھر کے عیب ہوتے ہیں۔ اور ولین کا ہوا لوگوں کے دلوں میں اس قدر بیٹھ گیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ فلم میں ولین بالکل نہ ہو۔ فقط ہیرو ہیروئن ہوں۔ ان کے والدین ایک دو مسخرے اور چند نیک چال چلن والے آدمی ہوں۔ بس! جب ولین کی مرمت ہوتی ہے تو ہر شخص کا دل مسرت سے رقص کرنے لگتا ہے۔ ادھر ولین کیا مجال جو ذرا سی بھی مدافعت پیش کرتا ہو۔ ہٹا کٹا ولین ایک مرے ہوئے ہیرو سے مار کھاتا ہے۔
پرندوں کا ایک جوڑا بھی عرصے سے ہمارے سینوں پر مونگ دل رہا ہے۔ آندھی ہو، طوفان ہو، بجلیاں کڑکیں، اولے پڑیں، پرندوں کا کم از کم ایک جوڑا ضرور ٹہنی سے چپکا ہوا ہوگا۔ دونوں پرندے ایک دوسرے کو پیار کر رہے ہوں گے اور دل ہی دل میں قدرت کے ان ڈراؤوں پرہنس رہے ہوں گے کہ یہ کیا چھچھوری کوششیں ہمیں اڑانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ اور اسی موقع پر وہیں ہیرو اور ہیروئن بارش میں کھڑے بھیگ رہے ہوں گے۔ ان کے نزدیک گھنے درخت بھی ہوں گے، کوئی دالان بھی ہوگا لیکن بس بھیگنا جو ہوا۔ دالان میں کھڑے ہوکر تو ہرکوئی محبت کر سکتا ہے۔ مزہ ہے کہ محبت بارش میں بھیگ کر کی جائے۔ پھر کہیں پرندوں کا جوڑا بھی ٹہنی پر بیٹھا بھیگ رہا ہو تو زہے قسمت۔ اگر ہیروئن اکیلی کھڑی بھیگ رہی ہے تو وہ ضرور بھاگے گی۔ اور ہیروئن ایسے موقع پر سیدھی کبھی نہیں بھاگتی۔ ہمیشہ لمبے سے لمبا اور مشکل ترین راستہ اختیار کرے گی۔ راستے سے دور کوئی درخت کھڑا ہے تو یہ ضرور دوڑ کر اس میں ٹکر مارے گی۔ اگر ٹھوکر کے لیے پتھر نہیں ملتا تو تلاش کرکے کوئی پتھر ضرور ڈھونڈے گی اور دھڑام سے نیچے گر پڑے گی۔
ادھر لوگوں کو شروع سے آخر تک یہی انتظار رہتا ہے کہ ان کی شادی کب ہوتی ہے۔ ہیروہیروئن کی، استاد استانی کی، ہیرو کے دوست اور ہیروئن کی سہیلی کی۔ بیچ میں مشکلات آتی ہیں، مصیبتیں ٹوٹتی ہیں لیکن شادی کا پروگرام ہرگز نہیں بدل سکتا۔ اگر ہیرو آسٹریلیا چلا گیا اور ہیروئن تبت چلی گئی، اور دور کہیں پہاڑوں میں چھپ کر جوگن بن گئی تو بھی دنیا کی کوئی طاقت انہیں شادی کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ کسی نہ کسی دن ایک ہوائی جہاز آئے گا جس میں ہیرو بیٹھا ہوگا۔ اور اس ہوائی جہاز کا پٹرول عین اسی پہاڑ پر ختم ہوگا جہاں ہیروئن بیٹھی پوجا کر رہی ہوگی۔ ہوائی جہاز دھڑام سے گرے گا۔ باقی سب انا للہ ہوجائیں گے فقط ہیرو بچ جائے گا اور شادی ہو جائے گی۔
ہمارے ہاں کبھی کبھی ٹریجڈی بھی دکھائی جاتی ہے۔ اور اس میں یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہیروئن کے ابا کا انتقال ہو جاتا ہے، ہیرو کی جان بچاتے ہوئے۔ یا ہیرو کی محبوبہ نمبر دو ہلاک ہو جاتی ہے، وہ بھی ہیرو کی جان بچاتے ہوئے۔ کیونکہ ہیرو کا زندہ رہنا تو فلم کی جان ہے۔ یا یوں کہ ہیرو ہیروئن میں سے شادی کے وقت ایک رحلت کر جاتا ہے۔ عموماً ہیروئن۔۔۔ کیونکہ اس کی صحت محبت کرتے کرتے کمزور ہو جاتی ہے۔ پھر ہیرو چیخیں مارتا ہے۔ پتھروں اور درختوں سے دل کی باتیں کہتا ہے۔ بطخوں کو پکڑ پکڑ کر ان سے باتیں کرتا ہے۔ بکریوں کے سامنے روتا ہے۔ اونٹوں کی قطار دیکھ کر وہ بے اوسان ہو جاتا ہے اور ہیروئن کو یاد کرتا ہوا ریگستان میں نکل جاتا ہے۔
پھر اتنے میں ایک سادھو (جو دیر سے انتظار میں بیٹھا ہے۔) ایک دردناک گانا گاتا ہوا ایک جھیل کے سامنے سے گزرتا ہے۔ جھیل میں اس کا سایہ پڑ رہا ہے۔ دور کہیں سورج غروب ہو رہا ہے۔ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں میں تشنج پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک بات کی تسلی رہتی ہے۔۔۔ آخر شادی تک نوبت تو پہنچ گئی تھی نا۔
ایکٹروں کی صحت کے متعلق ہمیں بڑا فکر رہتا ہے۔ ہمارے ڈائریکٹر حضرات بے حد انتہا پسند ہیں۔ یا تو ہمیں تپ دق کے مارے ہیرو دکھائے جاتے ہیں یا ایسے جیسے بورا رکھا ہو۔ اب ان دونوں قسم کے حضرات کو کوئی حق نہیں کہ وہ محبت کے پاس بھی پھٹکیں۔ سینما دیکھتے وقت محبت کے متعلق ہمارے خیالات بڑے لطیف ہوتے ہیں اور ذرا سی ناگوار بات سے صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اگر ہم ایک بھاری بھرکم گینڈے کو ہیرو کے روپ میں دیکھیں جو ایک موٹی تازی ہیروئن سے عشق کا دعویٰ رکھتا ہو تو لازماً افسوس ہوگا۔ ہیرو صاحب ہیروئن کے کمرے میں کھڑے بڑی سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں۔۔۔ ہمیں دنیا کی کوئی طاقت جدا نہیں کر سکتی۔ ہم سماج کو کچل دیں گے۔ دنیا اگر ہم پر ہنستی ہے تو بیشک ہنسے۔ ہم یہ کردیں گے وہ کردیں گے۔۔۔ ساتھ ساتھ وہ اپنی نوخیز توند پر ہاتھ پھیرتے جاتے ہیں۔ تو اس وقت ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ شخص سراسر جھوٹ بول رہا ہے۔
عجیب سی بات ہے کہ لوگ موٹے تازے آدمیوں کو محبت سے مستثنی قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ تصور میں لا ہی نہیں سکتے کہ ایک انسان جس کا وزن اڑھائی من سے زیادہ ہو جس کی دو ٹھوڑیاں ہوں، جس کی توند طلوع ہو رہی ہو، اس کے دل میں بھی محبت کا جذبہ سماسکتا ہے۔ عموماً یہی سوچا جاتا ہے کہ اس سائز اور اس نمبر کے آدمی ہمیشہ کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔ اسی طرح تپ دق کے مارے ہوئے ہیرو بھی دواؤں کے متعلق سوچتے ہوں گے۔ اسی زد میں عورتیں بھی آسکتی ہیں۔ چنانچہ ایک فربہ خاتون کو سریلی آواز میں دردناک گانا گاتے دیکھ کر بجائے رونے کے ہنسی آتی ہے اور دل میں یہی خیال آتا ہے کہ اب یہ گانا گاکر فوراً ایک بھاری سا ناشتا تناول فرمائیں گی اور چند ڈکاریں لینے کے بعد مزے سے سوجائیں گی۔ اٹھیں گی تو پھر کھائیں گی۔ اور انہیں موٹاپے کے علاوہ فقط دو شوق ہیں۔۔۔ میک اپ کرنے اور خوشنما کپڑے پہننے کا اور تصویریں کھنچوانے کا۔
بعض اوقات ہمارے دل میں غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ہم سوچنے لگتے ہیں کہ آخر کیوں ہمیں متناسب جسم والے ایکٹر نہیں دکھائے جاتے۔ واجبی صحت والی خوبصورت ہیروئن اور تندرست بچے۔ یہ سب کہاں ہیں؟ کیا ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے کہ لمبے لمبے بالوں والے لوفر، گلگلے جیسی ہیروئن اور بسورتے ہوئے بچے دیکھیں۔ اگر یہی ہے تو ہمیں اپنے ساتھ ہمدردی ہے۔
اب رہ گیا فلموں کی لڑائی کا سین۔ سو ایک بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی، وہ یہ کہ ہمارے ہیرو ولین کو محض دھکیل ہی کیوں دیتے ہیں۔ سائنٹفک طریقے سے مکا کیوں نہیں مارتے؟ اگر انہیں ولین کے جذبات کا بہت خیال رہتا ہے تو پھر دھکیلنا بھی فضول ہے۔ کچھ بھی نہ کہا کریں۔ ایک بڑا دہشت ناک سین ہے۔ ایک طرف ہیروئن بھیگی بلی بنی کھڑی ہے۔ اس کے سامنے ولین کھڑا اسے دھمکا رہا ہے۔ ہیرو آجاتا ہے (وہ عموماً مصیبت کے وقت آجایا کرتا ہے، اس کی عادت ہے۔) یہ دیکھتے ہی اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ نتھنے پھول جاتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں۔ لوگ مشتاق ہیں کہ دیکھیے اب ولین کا کیا حال ہوگا۔ لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہیرو آگے بڑھ کر ولین کو ایک طرف دھکیل دیتا ہے تو ان کی تمام امنگوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ ادھر ولین اس صدمے سے اس قدر نڈھال ہو جاتا ہے کہ اٹھ نہیں سکتا۔ نہ وہ ہیرو سے لڑنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ بس وہیں چپ چاپ لیٹا رہتا ہے، یا چپکے سے باہر چلا جاتا ہے۔
اور اگر لڑائی ہوتی بھی ہے تو یوں کہ ادھر سے ہیرو دھکیلنا شروع کرتا ہے تو ولین کو دوسری دیوار تک لے جاتا ہے۔ پھر اس کی باری آتی ہے اور وہ دھکیلتا دھکیلتا ہیرو کو ادھر لے آتا ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کے سب منتظر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک اور قسم کی لڑائی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ ایک جگہ بہت سے آدمی کھڑے ہیں۔ یکایک سب کے سب پستول نکال لیتے ہیں۔ ہیرو ولین کو نشانہ بناتا ہے۔ ولین فوراً ہیرو کی طرف پستول کا رخ کر دیتا ہے۔ وہ گھوڑا تو دباتا ہے لیکن گولی ہیرو کے برابر سے نکل جاتی ہے اور ایک اور شخص خواہ مخواہ مر جاتا ہے۔ ولین گرتے گرتے ہیروئن کے چچیرے بھائی کو مار ڈالتا ہے اور وہ کسی اور کو۔ ہیروئن بھی کئی حضرات کو ہلاک کر دیتی ہے۔ اس کے بعد جو دھما دھم ہوتی ہے تو چاروں طرف دھواں ہی دھواں چھا جاتا ہے اور جب مطلع صاف ہوتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ صرف ہیرو اور ہیروئن زندہ کھڑے ہیں اور باقی سب لوگ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ ویسے کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ہیروئن نمبر دو ہیرو کی جان بچانے کے سلسلے میں ہلاک ہو جاتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ہیرو شادی کسی اور سے کرے گا۔
ڈاکٹر، وکیل، تھانیدار، یہ سب ہماری فلموں کی جان ہیں۔ جس فلم میں ایک آپریشن، ایک عدالت کا سین اور ایک گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی اسے بہت کم لوگ پسند کرتے ہیں۔ لیکن فلموں کا ڈاکٹر آل راؤنڈ ہوتا ہے۔ یعنی ہاتھ میں نشتر، گلے میں ربڑ کی نلکی، سر پر ہیڈ مرر اور دیوار پر بینائی ٹسٹ کرنے کے حروف۔ پتہ نہیں یہ سب چیزیں ایک ہی شخص ایک ہی کمرے میں کیونکر استعمال کر سکتا ہے اور ڈاکٹر کا محبوب فقرہ یہ ہے، ’’حالت نازک ہے، دماغی صدمہ پہنچا ہے۔ اگر ایسا ہی صدمہ دوبارہ پہنچایا جا سکے تو یہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے یا ہو جائیں گی۔‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دماغ کا آپریشن کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ ایسا آپریشن جو بڑے بڑے تجربہ کار سرجن نہیں کرسکتے۔
ایک خطرے سے ہم آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اگر فلم میں کوئی ایسا سین آجائے جہاں فضا میں سکون ہو۔ ایکٹر بولتے بولتے دفعتاً خاموش ہوجائیں۔ کوئی خوش خبری سنا دے یا بہت بری خبر لے آئے۔ دوپرندے (ہمارے پرانے دوست) بیٹھے ہیں۔ سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو اور ہوا چل رہی ہو، تو سمجھ لیجیے کہ ضرور کوئی نہ کوئی گائے گا۔ کسی نہ کسی ایکٹر کو بیٹھے بٹھائے دورہ اٹھے گا اور دیکھتے دیکھتے وہ آپے سے باہر ہو جائے گا۔ اس وقت دنیا کی کوئی طاقت اسے گانے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ اور کچھ نہیں تو فوراً وہی ہمارا دیرینہ رفیق ایک سادھو گاتا ہوا سامنے سے گزر جائے گا۔
اور یہ لاٹری کی علت بھی سچ مچ سمجھ میں نہیں آئی۔ فلم میں جہاں کہیں ہیرو لاٹری کا ٹکٹ لے لے، بس فوراً سمجھ لیجیے کہ یہ تین چار لاکھ یوں وصول کرلے گا۔ یہ یک طرفہ کارروائی ہمیں بالکل پسند نہیں۔ یا تو یوں ہو کہ فلم کے تمام ایکٹروں کو لاٹری کے ٹکٹ خریدتے دکھایا جائے۔ پھر کسی ایک کے نام انعام نکل آئے تو کوئی بات بھی ہوئی۔ لیکن جو سب سے غریب ہوتا ہے، اسے کوئی مجبور کر کے ایک ٹکٹ دلوا دیتا ہے۔ یک لخت وہ امیر ہو جاتا ہے اور بیوی بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر بمبئی یا لاہور بھاگ جاتا ہے۔ وہاں سارا روپیہ خرچ کر کے پاگل یا کانا ہوکر واپس آجاتا ہے۔ آتے ہی اس کی بیوی فوراً اسے معاف کر دیتی ہے۔ ایک ڈاکٹر آپریشن کر کے اس کا دماغ یا آنکھیں درست کردیتا ہے اور جہاں سے یہ قصہ شروع ہوا تھا وہیں ختم ہو جاتا ہے۔
اور زمینداروں کے متعلق لگاتار فلمیں دیکھ دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ زمیندار ایک نہایت رومانی ہستی ہے جس کا کام صبح سے شام تک شعر و شاعری اور محبت کرنا ہے۔ کپاس کے کھیتوں میں عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں۔ چرواہے بیلوں اور بھینسوں کے پاس بیٹھ کر محبوب کی یاد میں بانسری بجاتے ہیں۔ ہر ہل چلانے والا ایک زبردست گویا ہوتا ہے جو چوبیس گھنٹے گاتا ہی رہتا ہے۔ ہر زمیندار کے لڑکے کا فرض ہے کہ وہ ضرور کسی سے محبت کرے اور زمیندار کا فرض ہے کہ وہ پہلے تو رسماً خفگی ظاہر کرے، پھر شادی پر رضامند ہو جائے۔ لیکن ہمارے ایک زمیندار دوست نے جب ہمیں اپنے مربعوں پر مدعو کیا اور ہم ایک عرصے تک ان کی حرکات و سکنات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد بھی کوئی مشکوک بات پر آمد نہ کرسکے تو ہمیں بے حد مایوسی ہوئی۔
ہیروئن کی شادی ہو رہی ہے، لیکن غلط آدمی کے ساتھ۔ ہیرو یا تو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے یا کسی اور جگہ ہے۔ لوگ بے چین ہیں۔ ولین بڑا خوش ہے۔ ہیروئن رورہی ہے (بعض اوقات ایسے موقعوں پر ہیروئن گانے سے بھی نہیں چوکتی۔) یک لخت ایک آدمی دوڑتا ہوا آتا ہے اور چلا کر کہتا ہے، ’’ٹھہرو یہ شادی نہیں ہو سکتی!‘‘ اس کے پیچھے پیچھے پولیس کا ایک افسر اور چند سپاہی ہیں جو فوراً ولین کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے، ’’میں بے قصور ہوں۔‘‘ جواب ملتا ہے کہ یہ عدالت میں کہنا۔ عموماً ہیرو پولیس کے ساتھ آیا کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات اِھر اُدھر سے بھی برآمد ہو جاتا ہے۔ ہیروئن کے ابا اسے اشارہ کردیتے ہیں کہ جلد ہاتھ منہ دھو کر آجاؤ۔ اِدھر جو براتی ولین کے ساتھ آئے تھے وہ سوچتے ہیں کہ چلو شادی ہی میں جانا تھا، خواہ کسی کی ہو۔ چنانچہ وہ وہیں بیٹھے رہتے ہیں۔
پھر رومن وقتوں کا سین دکھایا جا رہا ہے۔ چند لوگوں نے رومن لباس پہن رکھا ہے۔ باقیوں نے نیکریں اور پتلونیں پہن رکھی ہیں۔ چند حضرات چھتریاں لگائے پھر رہے ہیں اور محراب میں سے کچھ اونٹ چلے جا رہے ہیں۔ ایک صاحب کے بال انگریزی تراش کے ہیں۔ ذرا غور کرنے پر کسی بازار میں بجلی کا کھمبا، کسی مکان پر کبوتروں کی چھتری، اور کسی درخت کی آڑ میں مسجد کا مینار ضرور مل جائے گا، یا یوں کہ سن انیس سو ایک کا واقعہ دکھایا جارہا ہے اور دیوار پر کیلنڈر لگا ہوا ہے سن انیس سو بیالیس کا۔
بغداد کا سین ہے۔ وزیر اپنی عجیب و غریب پوشاک میں سرکس کا مسخرہ نظر آرہا ہے۔ ولین نے پرانے یورپی سورماؤں کا لباس پہن رکھا ہے۔ ہیرو اپنی ایک گز لمبے پھندنے والی ٹوپی کے باوجود مغربی انداز سے ہیروئن کا ہاتھ چومتا ہے۔ پہلے ہیروئن کے ابا کا مال چراتا ہے، پھر وہیں بڑے اطمینان سے نماز پڑھتا ہے۔ چار ساڑھے چار فٹ لمبی (اور ساڑھے چار فٹ چوڑی) ہیروئن دن رات بیش قیمت کپڑے اور زیور پہن کر مسہری پر پڑی رہتی ہے۔ کبھی چونکتی ہے تو تماشائیوں کی تفریح طبع اور ریکارڈوں کی فروخت کے سلسلے میں گانا گاتی ہے (جسے کوئی پلے بیک سنگر پہلے ہی گاچکی ہے۔) ویسے بغداد کے آس پاس کوئی پہاڑ نہیں لیکن فلمی ڈاکو پہاڑی غاروں میں رہتے ہیں اور بادشاہ فقط بیس پچیس آدمیوں کے سامنے دیوانِ عام منعقد کرتا ہے۔
فرہاد صاحب نہایت دردناک لہجے میں گا رہے ہیں۔ لوگ الف لیلوی سٹائل کے کپڑے پہنے ادھر ادھر پھر رہے ہیں۔ اتنے میں دور ایک سڑک پر چمکیلی سی کار گزر جاتی ہے۔ مہابھارت کے زمانے کی ہیروئن کی کلائی پر اتفاق سے گھڑی بندھی ہوئی ہے اور اس کے بال پرم کیے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی ایکٹر کسی ایکٹر سے کسی راز کی اصلیت پوچھنا چاہے کہ اب تو بتا دو وہ بات کیا ہے؟ (یا کیا تھی) اور دوسرا ایکٹر کہے، ’’ذرا ٹھہرو، ابھی بتاتا ہوں۔‘‘ یا، ’’ذرا سے انتظار کے بعد سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔‘‘ تو سمجھ لیجیے کہ اس ایکٹر کا مطلب ہے کہ ’’میاں ابھی جلدی کیا ہے۔ ذرا دوتین ریل اور گزر جانے دو پھر بتائیں گے۔ اگر جلد جلد باتیں بتائی گئیں تو فلم چھوٹی سی رہ جائے گی۔‘‘
اب آخر میں ہم چند پراسرار باتوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے لیے معموں سے کم نہیں۔ ہم چاہیں جتنا سوچیں لیکن ان گتھیوں کو نہیں سلجھا سکتے۔ مثلاً جب ہیرو ایک برس تک جنگل میں رہتا ہے، جہاں اس کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں، کھانے کے لیے بندروں سے دھینگا مشتی کرکے پھل مہیا کرتا ہے تو ہر روز علی الصبح اس کی حجامت کون کر جاتا ہے؟ جب وہ صبح صبح اٹھ کر تیرتا ہے تو اس کا چہرہ آئینے کی طرح صاف ہوتا ہے۔ اسی طرح ہیروئن بار بار اتنی پھرتی سے لباس کیونکر بدل لیتی ہے۔ وہ ہر سین میں نیا لباس پہن کر آتی ہے۔
پھر یہ کہ جب کبھی پندرہ یا سولہ برس گزرتے دکھائے جاتے ہیں۔ ایک دھند سی پردے پر آ جاتی ہے۔ سین بدلنے پر ہم دیکھتے ہیں کہ اتنے طویل عرصے نے کسی ایکٹر کی صحت پر ذرا سی بھی اثر نہیں کیا۔ ہیرو پہلے سے بھی زیادہ چست ہے۔ ہیروئن پہلے سے کہیں چاق چوبند اور موٹی ہے۔ ان کے والدین بھی ہو بہو ویسے ہی ہیں۔ بلکہ پہلے سے کچھ تندرست ہی ہیں۔ یہ سین دیکھ کر ہم سوچتے رہتے ہیں کہ ان لوگوں نے پندرہ سال تک وہ کون سا ٹانک استعمال کیا ہوگا۔ کاش ایسے وقت اس ٹانک کا نام بھی بتا دیا جائے۔ اور یہ کہ جب کردار خودکشی کرنے جاتے ہیں تو چپ چاپ کیوں نہیں جاتے۔ گاتے ہوئے کیوں جاتے ہیں۔ اور ایک خاتون جو آٹھ دس برس سے ہیرو پر مفتون ہیں، یک لخت کسی اور خاتون کو ہیرو کے ساتھ دیکھ کر اپنے حقوق کیوں بخش دیتی ہیں؟ اور ساتھ ہی یہ کیوں فرما دیتی ہیں کہ آج سے ہیرو ان کا بھائی ہے۔ اسی طرح ہیرو بعض اوقات اچھی بھلی محبوبہ کو بہن کیوں بنا ڈالتا ہے؟
آخر میں ہم پھر عرض کیے دیتے ہیں کہ ہم اپنی فلموں کی حیرت انگیز ترقی پر بڑے مسرور ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے۔ بعض اوقات ہم مغرور بھی ہو جاتے ہیں اور دیر تک مغرور رہتے ہیں۔ اور یہ جو بعض اوقات ہمارے دل میں عجیب سے خیالات آنے لگتے ہیں، بالکل عارضی ہوتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد بخارات بن کر اڑ جاتے ہیں۔ اور ہم پھر اپنی فلموں کے دلکش تصور میں کھو جاتے ہیں۔