پطرس بخاری
ہم نے کالج میں تعلیم تو ضرور پائی اور رفتہ رفتہ بی،اے بھی پاس کر لیا، لیکن اس نصف صدی کے دوران جو کالج میں گزارنی پڑی، ہاسٹل میں داخل ہونے کی اجازت ہمیں صرف ایک ہی دفعہ ملی۔
خدا کا یہ فضل ہم پر کب اور کس طرح ہوا، یہ سوال ایک داستان کا محتاج ہے۔
جب ہم نے انٹرنس پاس کیا تو مقامی اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب خاص طور سے مبارک بعد دینے کے لئے آئے۔ قریبی رشتے داروں نے دعوتیں دیں۔ محلے والوں میں مٹھائی بانٹی گئی اور ہمارے گھر والوں پر یک لخت اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ لڑکا جسے آج تک اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے ایک بیکار اور نالائق فرزند سمجھ رہے تھے۔ در اصل لامحدود قابلیتوں کا مالک ہے، جس کی نشونما پر بے شمار آنے والی نسلوں کی بہبودی کا انحصار ہے۔ چنانچے ہماری آئندہ زندگی کہ متلق طرح طرح کی تجویجوں پر غور کیا جانے لگا۔
تھرڈ ڈویزن میں پاس ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے ہم کو وظیفہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ چونکہ ہمارے خاندان نے خدا کے فضل سے آج تک کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، اس لئے وظیفے کا نہ ملنا بھی خصوصاً ان رشتے داروں کے لئے جو رشتے کے لحاظ سے خاندان کے مضافات میں بستے تھے، فخرو مباہات کا باعث بن گیا اور ’’مرکزی رشتے داروں’’نے تو اس کو پاس وضع اور حفظ مراتب سمجھ کر ممتحنوں کی شرافت ونجات کو بے انتہا سراہا۔
بہر حال ہمارے خاندان میں فالتو روپیے کی بہتات تھی، اس لئے بلاتکلف یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ نہ صرف ہماری بلکہ ملک و قوم اور شاید بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایسے ہونہار طالب علم کی تعلیم جاری رکھی جائے۔ اس بارے میں ہم سے بھی مشورا لیا گیا۔ عمر بھر میں اس سے پہلے ہمارے کسی معاملے میں ہم سے رائے طلب نہ کی گئی تھی، لیکن اب توحالات بہت مختلف تھے۔ اب تو ایک غیر جانب دار اور ایمان دار مصنف یعنی یونیورسٹی ہماری بے دار مغزی کی تصدیق کر چکی تھی۔ اب بھلا ہمیں کیوں نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔
ہمارا مشورہ یہ تھا کہ فوراً ولایت بھیج دیا جائے۔ ہم نے مختلف لیڈروں کی تقریروں کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ ہندستان کا طریق تعلیم بہت ناقص ہے۔ اخبارات میں سے اشتہار دکھا دکھا کر یہ واضح کیا کہ ولایت میں کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فرصت کے اوقات میں بہت تھوڑی تھوڑی فیس دے کر بیک وقت جرنلزم، فوٹو گرافی، تصنیف و تالیف، دندان سازی، عینک سازی، ایجنٹوں کا کام، غرض یہ کہ بے شمار مفید اور کم خرچ میں بالا نشیں پیشے سیکھے جا سکتے ہیں اور تھوڑے عرصے کے اندر انسان ہر فن مولا بن سکتا ہے۔
لیکن ہماری تجویز کو فوراً رد کر دیا گیا، کیوں کہ ولایت بھیجنے کے لئے ہمارے شہر میں کوئی روایات موجود نہ تھیں۔ ہمارے گرد ونواح میں سے کسی کا لڑکا ابھی تک ولایت نہ گیا تھا اس لئے ہمارے شہر کی پبلک وہاں کے حالات سے قتعاً ناواقف تھی۔اس کے بعد پھر ہم سے رائے طلب نہ کی گئی اور ہمارے والد، ہیڈ ماسٹر صاحب، تحصیل دار صاحب ان تینوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں لاہور بھیج دیا جائے۔
جب ہم نے یہ خبر سنی تو شروع شروع میں ہمیں سخت مایوسی ہوئی، لیکن ادھر ادھر کے لوگوں سے لاہور کے حالات سنے تو معلوم ہوا کہ لندن اور لاہور میں چنداں فرق نہیں۔ بعض واقف کار دوستوں نے سینما کے حالات پر روشنی ڈالی۔ بعض نے تھیٹروں کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ بعض نے ٹھنڈی سڑک وغیرہ کے مشاغل کو سلجھا کر سمجھایا۔ بعض نے شاہد رے اور شالا مار کی ارمان انگیز فضا کا نقشہ کھینچا چنانچے جب لاہور کا جغرافیہ پوری طرح ہمارے ذہن نشین ہو گیا تو ثابت یہ ہوا کہ خوش گوار مقام ہے اور اعلا درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بے حد موزوں۔
اس پر ہم نے اپنی زندگی کا پروگرام وضع کرنا شروع کر دیا۔ جس میں لکھنے پڑھنے کو جگہ تو ضرور دی گئی لیکن ایک مناسب حد تک، تاکہ طبیعت پر کوئی ناجائز بوجھ نہ پڑے اور فطرت اپنا کام حسن و خوبی کے ساتھ کر سکے۔لیکن تحصیل دار صاحب اور ہیڈ ماسٹر صاحب کی نیک نیتی یہیں تک محدود نہ رہی۔ اگر وہ صرف ایک عام اور مجمل سا مشورہ دے دیتے کہ لڑکے کو لاہور بھیج دیا جائے تو بہت خوب تھا، لیکن انہوں نے تو تفصیلات میں دخل دینا شروع کر دیا اور ہاسٹل کی زندگی اور گھر کی زندگی کا مقابلہ کر کے ہمارے والد پر یہ ثابت کر دیا کہ گھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک کعبہ اور ہاسٹل گناہ ومعصیت کا ایک دوزخ ہے۔
ایک تو تھے وہ چرب زبان، اس پر انھوں نے بے شمار غلط بیانیوں سے کام لیا۔ چنانچے گھر والوں کو یقین سا ہو گیا کہ کالج کا ہوسٹل جرائم پیشہ اقوام کی ایک بستی ہے اور جو طلبہ باہر کے شہروں سے لاہور جاتے ہیں، اگر ان کی پوری نگہداشت نہ کی جائے تو وہ اکثر یا تو شراب کے نشے میں چور سڑک کے کنارے، کسی نالی میں گرے ہوئے پائے جاتے ہیں یا کسی جوئے خانے میں، ہزار ہا روپے ہار کر خود کشی کر لیتے ہیں یا پھر فرسٹ ایر کا امتحان پاس کرنے سے پہلے دس بارہ شادیاں کر بیٹھتے ہیں۔
چنانچے گھر والوں کو یہ سوچنے کی عادت پڑ گئی کہ لڑکے کو کالج میں داخل کرایا جایا لیکن ہاسٹل میں نہ رکھا جائے۔ کالج ضرور، مگر ہاسٹل میں ہر گز نہیں۔ کالج مفید، مگر ہاسٹل مضر۔ وہ بہت ٹھیک، مگر یہ ناممکن۔ جب انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین ہی بنا لیا کہ کوئی ایسی ترکیب ہی سوچی جائے، جس سے لڑکا ہوسٹل کی زد سے محفوظ رہے تو کوئی ایسی ترکیب کا سوجھ جانا کیا مشکل تھا۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ چنانچے از ہد غور و خوض کے بعد لاہور میں ہمارے ایک ماموں دریافت کیے گئے اور ان کو ہمارا سر پرست بنا دیا گیا۔ میرے دل میں ان کی عزت پیدا کرنے کے لئے بہت سے شجروں کی ورق گردانی سے مجھ پر یہ ثابت کیا گیا کہ وہ واقعی میرے ماموں ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ جب میں شیرخوار بچہ تھا تو وہ مجھ سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے، چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ ہم پڑھیں کالج میں اور رہیں ماموں کے گھر۔
اس سے تحصیل علم کا جو ایک ولولہ سا ہمارے دل میں اٹھ رہا تھا، وہ کچھ بیٹھ سا گیا۔ ہم نے سوچا یہ ماموں لوگ اپنی سر پرستی کے زعم میں والدین سے بھی زیادہ احتیاط برتیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے دماغی اور روحانی قویٰ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے گا اور تعلیم کا اصلی مقصد فوت ہو جائے گا، چنانچے وہی ہوا جس کا ہمیں خوف تھا۔ ہم روز بروز مرجھاتے چلے گئے اور ہمارے دماغ پر پھپھوند سی جمنے لگی۔
سنیما جانے کہ اجازت کبھی کبھار مل جاتی تھی لیکن اس شرط پر کہ بچوں کو بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ اس صحبت میں بھلا میں سینماسے کیا اخذ کر سکتا تھا۔ تھیٹر کے معاملے میں ہماری معلومات اندر سبھا سے آگے بڑھنے نہ پائیں۔ تیرنا ہمیں نہ آیا کیوں کہ ہمارے ماموں کا ایک مشہور قول ہے کہ ’’ڈوبتا وہی ہے جو تیراک ہو’’جسے تیرنا نہ آتا ہو وہ پانی میں گھستا ہی نہیں۔ گھر آنے جانے والے دوستوں کا انتخاب ماموں کے ہاتھ میں تھا۔ کوٹ کتنا لمبا پہنا جائے اور بال کتنے لمبے رکھے جائیں، ان کے متلق ہدایات بہت کڑی تھیں۔ ہفتے میں دو بار گھر خط لکھنا ضروری تھا۔ سگریٹ غسل خانے میں چھپ کر پیتے تھے۔ گانے بجانے کی سخت ممانعت تھی۔
یہ سپاہیانا زندگی ہمیں راس نہ آئی۔ یوں تو دوستوں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی، سیر کو بھی چلے جاتے تھے، ہنس بول بھی لیتے تھے لیکن وہ جو زندگی میں ایک آزادی، ایک فراخی، ایک وارفتگی ہونی چاہئیے وہ ہمیں نصیب نہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ ہم نے اپنے ماحول پہ غور کرنا شروع کیا کہ ماموں جان عموماً کس وقت گھر میں ہوتے ہیں، کس وقت باہر جاتے ہیں، کس کمرے میں سے کس کمرے تک گانے کی آواز نہیں پہنچ سکتی، کس دروازے سے کمرے کے کس کونے میں جھانکنا ناممکن ہے، گھر کا کون سا دروازہ رات کے وقت باہر کھولا جا سکتا ہے، کون سا ملازم موافق ہے، کون سا نمک حلال ہے۔
جب تجربے اور مطالعے سے ان باتوں کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا تو ہم نے اس زندگی میں بھی نشو و نما کے لئے چند گنجایشیں پیدا کر لیں لیکن پھر بھی ہم روز دیکھتے تھے کہ ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر زندگی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ ہم ان کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ اپنی زندگی کو سدھارنے کی خواہش ہمارے دل میں روز بروز بڑھتی گئی۔ ہم نے دل سے کہا، والدین کی نہ فرمانی کسی مذہب میں جائز نہیں لیکن ان کی خدمت میں درخواست کرنا، ان کے سامنے اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا، ان کو صحیح واقعات سے آگاہ کرنا میرا فرض ہے اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اپنی ادائیگی سے باز نہیں رکھ سکتی۔
چنانچہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں، میں وطن کو واپس گیا، چند مختصرمگر جامع اور مؤثر تقریریں اپنے دماغ میں تیار رکھیں۔ گھر والوں کو ہوسٹل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہاں کی آزادی نو جوانوں کے لئے از حد مضر ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ہزار ہا واقا ت ایسے تصنیف کئے جن سے ہاسٹل کے قوائد کی سختی ان پر اچھی طرح روشن ہو جائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے ظلم تشدد کی چند مثالیں، رقت انگیز پیرایے میں سنائیں۔ آکھیں بند کر کے ایک آہ بھری اوربے چارے اشفاق کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دن شام کے وقت بے چارہ ہاسٹل کو واپس آرہا تھا۔ چلتے چلتے پاؤں میں موچ آ گئی۔ دو منٹ دیر سے پہنچا۔ صرف دو منٹ۔ بس صاحب اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نےفوراً تار دے کر اس کے والد کو بلوا لیا۔ پولیس سے تحقیقات کرنے کو کہا اور مہینے بھر کے لئے اس کا جیب خرچ بند کر دیا۔ توبہ ہےالٰہی!
لیکن یہ واقعہ سن کر گھر کے لوگ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے مخالف ہو گئے۔ ہوسٹل کی خوبی ان پر واضح نہ ہوئی۔ پھر ایک دن موقع پا کر بے چارے محمود کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ شامت اعمال بے چارہ سنیما دیکھنے چلا گیا۔ قصور اس سے یہ ہوا کہ ایک روپے والے درجے میں جانے کے بجائے وہ دو روپیے والے درجے میں چلا گیا۔ بس اتنی سی فضول خرچی پر اسے عمر بھر سنیما جانے کی ممانعت ہو گئی ہے۔
لیکن اس سے بھی گھر والے متاثر نہ ہوئے۔ ان کے رویے سے مجھے فوراً احساس ہوا کہ ایک روپیے اور دو روپے کے بجائے آٹھ آنےاور ایک روپیے کہنا چاہئے تھا۔انھیں نا کام کوششوں میں تعطیلات گزر گئیں اور ہم نے پھر ماموں کی چوکھٹ پر آ کر سجدہ کیا۔
اگلی گرمیوں کی چھٹیوں میں جب ہم پھر گئے تو ہم نے ایک ڈھنگ اختیار کیا۔ دو سال تعلیم پانے کے بعد ہمارے خیالات میں پختگی سی آ گئی تھی۔ پچھلے سال ہوسٹل کی حمایت میں جو دلائل ہم نے پیش کی تھیں وہ اب ہمیں نہایت بودی معلوم ہونے لگی تھیں۔ اب کے ہم نے اس موضوع پر ایک لیکچر دیا کہ جو شخص ہوسٹل کی زندگی سے محروم ہو، اس کی شخصیت نا مکمل رہ جاتی ہے۔ ہاسٹل سے باہر شخصیت پنپنے نہیں پاتی۔ چند دن تو ہم اس پر فلسفیانہ گفتگو کرتے رہے، اور نفسیات کے نقطۂ نظر سے اس پر بہت کچھ روشنی ڈالی لیکن ہمیں محسوس ہوا کہ بغیر مثالوں کے کام نہ چلے گا اور جب مثالیں دینے کی نوبت آئی تو ذرا دقت محسوس ہوئی۔
کالج کے جن طلبہ کے متعلق میرا ایمان تھا کہ وہ زبردست شخصیتو ں کے مالک ہیں، ان کی زندگی کچھ ایسی نہ تھی کہ والدین کے سامنے بطور نمونے کے پیش کی جا سکے۔ ہر وہ شخص جسے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے جانتا ہے کہ ’’والدینی اغراض’’کے لئے واقعات کو ایک نئے اور اچھوتے پیرائے میں بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، لیکن اس نئے پیرائے کا سوجھ جانا الہام اور اتفائی پر منحصر ہے۔ بعض روشن خیال بیٹے والدین کو اپنے حیرت انگیز اوصاف کا قائل نہیں کر سکتے اور بعض نالائق طالب علم والدین کو اس طرح مطمئن کر دیتے ہیں کہ ہر ہفتے ان کے نام منی آرڈر پہ منی آرڈر چلا آتا ہے۔
بناداں آں چناں روزی رساند
کہ دانا اندراں حیراں بماند
جب ہم ڈیڑھ مہینے تک شخصیت اور ہاسٹل کی زندگی پر اس کا انحصا ر، ان دومضمونوں پر وقتاً فوقتاً اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے، تو ایک دن والد نے پوچھا،
’’تمہارا شخصیت سے آخر مطلب کیا ہے؟‘‘
میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا کہ وہ مجھے عرض و معروض کا موقع دیں۔ میں نے کہا، ’’دیکھیئے نہ! مثلاً ایک طالب علم ہے۔ وہ کالج میں پڑھتا ہے۔ اب ایک تو اس کا دماغ ہے۔ ایک اس کا جسم ہے۔ جسم کی صحت بھی ضروری ہے اور دماغ کی صحت تو ضروری ہے ہی، لیکن ان کے علاوہ وہ ایک اور بات بھی ہوتی ہے جس سے آدمی گویا پہچانا جاتا ہے۔ میں اس کو شخصیت کہتا ہوں۔ اس کا تعلق نہ جسم سے ہوتا ہے نہ دماغ سے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی کی جسمانی صحت بالکل خراب ہوااور اس کا دماغ بھی بالکل بیکار ہو لیکن پھر بھی اس کی شخصیت۔۔۔ نہ خیر دماغ تو بے کار نہیں ہونا چاہئے، ورنہ انسان خبطی ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر ہو بھی، تو بھی۔۔۔ گویا شخصیت ایک ایسی چیز ہے۔۔۔ ٹھہرئے، میں ابھی ایک منٹ میں آپ کو بتاتا ہوں۔‘‘
ایک منٹ کے بجائے والد نے مجھے آدھے گھنٹے کی مہلت دی جس کے دوران میں وہ خاموشی کے ساتھ میرے جواب کا انتظار کرتے رہے۔ اس کے بعد وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔تین چار دن بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ مجھے شخصیت نہیں سیرت کہنا چاہئے۔ شخصیت ایک بے رنگ سا لفظ ہے۔ سیرت کے لفظ سے نیکی ٹپکتی ہے۔ چنانچہ میں سیرت کو اپنا تکیئہ کلام بنا لیا لیکن یہ بھی مفید ثابت نہ ہوا۔ والد کہنے لگے،’’کیا سیرت سے تمہارا مطلب چال چلن ہے یا کچھ اور؟‘‘
میں نے کہا، ’’کہ چال چلن ہی کہہ لیجیے۔‘‘
’’تو گویا دماغی اور جسمانی صحت کے علاوہ چال چلن بھی اچھا ہونا چاہئے؟‘‘
میں نے کہا، ’’بس یہی تو میرا مطلب ہے۔‘‘
’’اور یہ چال چلن ہاسٹل میں رہنے سے بہت اچھا ہو جاتا ہے؟۔‘‘
میں نے نسبتاً نحیف آواز سے کہا،’’جی ہاں۔‘‘
’’یعنی ہاسٹل میں رہنے والے طالب علم نماز روزے کے زیادہ پابند ہوتے ہیں۔ ملک کی زیادہ خدمت کرتے ہیں۔ سچ زیادہ بولتے ہیں۔ نیک زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا،’’جی ہاں۔‘‘
کہنے لگے، ’’وہ کیوں؟‘‘
اس سوال کا جواب ایک بار پرنسپل صاحب نے تقسیم انعامات کے جلسے میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا۔ اے کاش میں نے اس وقت توجہ سے سنا ہوتا۔اس کے بعد پھر سال بھر میں ماموں کے گھر میں ’’زندگی ہے تو خزاں کے بھی گزر جائیں گے دن‘‘ گاتا رہا۔
ہر سال میری درخواست کا یہی حشر ہوتا رہا۔ لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ ہر سال ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا لیکن اگلے سال گرمیوں کی چھٹی میں پہلے سے بھی زیادہ شد ومد کے ساتھ تبلیغ کا کام جاری رکھتا۔ ہر دفعہ نئی نئی دلیلیں پیش کرتا، نئی نئی مثالیں کام میں لاتا۔ جب شخصیت اور سیرت والے مضمون سے کام نہ چلا تو اگلے سال یہ دلیل پیش کی کہ ہاسٹل میں رہنے سے پروفیسروں کے ساتھ ملنے جلنے کے موقعے زیادہ ملتے رہتے ہیں اور ان ’’بیرون ازکالج’’ملاقاتوں سے انسان پارس ہو جاتا ہے۔
اس سے اگلے سال یہ مطلب یوں ادا کیا کہ ہاسٹل کی آب وہوا بڑی اچھی ہوتی ہے، صفائی کا خاص طور سے خیال رکھا جاتا ہے۔ مکھیاں اور مچھر مارنے کے لئے کئی کئی افسر مقرر ہیں۔ اس سے اگلے سال یوں سخن پیرا ہوا کہ جب بڑے بڑے حکام کالج کا معائنہ کرنے آتے ہیں تو ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ سے فرداً فرداً ہاتھ ملاتے ہیں۔ اس سے رسوخ بڑھتا ہے، لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا میری تقریروں میں جوش بڑھتا گیا۔ معقولیت کم ہوتی گئی۔
شروع شروع میں ہاسٹل کے مسئلے پر والد مجھ سے باقائدہ بحث کیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے یک لفظی انکار کا رویہ اختیار کیا۔ پھر ایک آدھ سال مجھے ہنس کے ٹالتے رہے اور آخر میں یہ نوبت آن پہنچی کہ وہ ہاسٹل کا نام سنتے ہی ایک طنز آمیز قہقہے کے ساتھ مجھے تشریف لے جانے کا حکم دے دیا کرتے تھے۔
ان کے اس سلوک سے آپ یہ اندازہ نہ لگائیے کہ ان کی شفقت کچھ کم ہو گئی تھی۔ ہر گز نہیں۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض نا گوار حادثات کی وجہ سے گھر میں میرا اقتدار کچھ کم ہو گیا تھا۔
اتفاق یہ ہوا کہ میں نے جب پہلی مرتبہ بی،اے کا امتحان دیا تو فیل ہو گیا۔ اگلے سال ایک مرتبہ پھر یہی واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد بھی جب تین چار دفعہ یہی قصہ ہوا تو گھر والوں نے میری امنگوں میں دل چسپی لینی چھوڑ دی۔ بی،اے میں پے در پے فیل ہونے کی وجہ سے میری گفتگو میں ایک سوز تو ضرور آ گیا تھا لیکن کلام میں وہ پہلے جیسی شوکت اور میری رائے کی وہ پہلے جیسی وقعت اب نہ رہی تھی۔میں زمانۂ طالب علمی کے اس دور کا حال ذرا تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں، کیوں کہ اس سے ایک تو آپ میری زندگی کے نشیب وفراز سے اچھی طرح واقف ہو جائیں گے اور اس کے علاوہ اس سے یونیورسٹی کی بعض بےقاعدگیوں کا راز بھی آپ پر آشکار ہو جائے گا۔
میں پہلے سال بی،اے میں کیوں فیل ہوا، اس کا سمجھنا بہت آسان ہے۔ بات یہ ہوئی کہ جب ہم نے ایف،اے کا امتحان دیا، تو چونکہ ہم نے کام خوب دل لگا کر کیا تھا اس لئے اس میں ’’کچھ‘‘ پاس ہی ہو گئے۔ بہر حال فیل نہ ہوئے۔ یونیورسٹی نے یوں تو ہمارا ذکر بڑے اچھے الفاظ میں کیا لیکن ریاضی کے متعلق یہ ارشاد ہوا کہ صرف اس مضمون کا امتحان ایک آدھ دفعہ پھر دے ڈالو۔ (ایسے امتحان کو اصطلاحاً کمپارٹمینٹ کہا جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ بغیر رضا مندی اپنے ہم راہی مسافروں کے اگر کوئی اس میں سفر کر رہے ہوں مگر نقل نویسی کی سخت ممانعت ہے۔)
اب جب ہم بی، اے میں داخل ہونے لگے تو ہم نے یہ سوچا کہ بی،اے میں ریاضی لیں گے۔ اس طرح سے کمپارٹمینٹ کے امتحان کے لئے فالتو کام نہ کرنا پڑے گا۔ لیکن ہمیں سب لوگوں نے یہی مشورہ دیا کہ تم ریاضی مت لو۔ جب ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو کسی نے ہمیں کوئی معقول جواب نہ دیا لیکن جب پرنسپل صاحب نے بھی یہی مشورہ دیا تو ہم رضا مند ہو گئے، چنانچہ بی، اے میں ہمارے مضامین انگریزی، تاریخ اور فارسی قرار پائے۔ ساتھ ساتھ ہم ریاضی کے امتحان کی بھی تیاری کرتے رہے۔ گویا ہم تین کے بجائے چار مضمون پڑھ رہے تھے۔ اس طرح سے جو صورت حالات پیدا ہوئی اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے تھے جنہیں یونیورسٹی کے امتحان کا کافی تجربہ ہے۔
ہماری قوت مطالعہ منتشر ہو گئی اور خیالات میں پراگندگی پیدا ہوئی۔ اگر مجھے چار کے بجائے صرف تین مضامین پڑھنے ہوتے تو جو وقت میں فی الحال چوتھے مضمون کو دے رہا تھا وہ بانٹ کر میں ان تین مضامین کو دیتا، آپ یقین مانئے اس سے بڑا فرق پڑ جاتا اور فرض کیا اگر میں وہ وقت تینوں کو بانٹ کر نہ دیتا بلکہ سب کا سب ان تینوں میں سے کسی ایک مضمون کے لئے وقف کر دیتا تو کم از کم اس مضمون میں ضرور پاس ہو جاتا، لیکن موجودہ حالات میں تو وہی ہونا لازم تھا جو ہوا، یعنی یہ کہ میں کسی مضمون پر کماحقہ تو جہ نہ کر سکا۔ کمپارٹمینٹ کے امتحان میں تو پاس ہو گیا، لیکن بی،اے میں ایک تو انگریزی میں فیل ہوا۔ وہ تو ہونا ہی تھا، کیوں کہ انگریزی ہماری مادری زبان نہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ اور فارسی میں بھی فیل ہو گیا۔ اب آپ سوچیے نا کہ جو وقت مجھے کمپارٹمنٹ کے امتحان پر صرف کرنا پڑا وہ اگر میں وہاں صرف نہ کرتا بلکہ اس کے بجائے۔۔۔ مگر خیر یہ بات میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔
فارسی میں کسی ایسے شخص کا فیل ہونا جو ایک علم دوست خاندان سے تعلق رکھتا ہو لوگوں کے لئے از حد حیرت کا موجب ہوا، اور سچ پوچھئے تو ہمیں بھی اس پر سخت ندامت ہوئی، لیکن خیر اگلے سال یہ ندامت دھل گئی اور ہم فارسی میں پاس ہو گئے۔ اس سے اگلے سال تاریخ میں پاس ہو گئے اور اس سے اگلے سال انگریزی میں۔
اب باقاعدے کی رو سے ہمیں بی، اے کا سرٹفکیٹ مل جانا چاہئیے تھا، لیکن یونیورسٹی کی اس طفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمو نوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔ بعض طبائع ایسی ہیں کہ جب تک یکسوئی نہ ہو، مطالعہ نہیں کر سکتیں۔ کیا ضروری ہے کہ ان کے دماغ کو زبردستی ایک کھچڑی سا بنا دیا جائے۔ ہم نے ہر سال صرف ایک مضمون پر اپنا تمام تر تو جہ دی اور اس میں وہ کامیابی حاصل کی کہ باید و شاید۔ باقی دو مضمون ہم نے نہیں دیکھے لیکن ہم نے یہ تو ثابت کر دیا کہ جس مضمون میں چاہیں پاس ہو سکتے ہیں۔
اب تک دو دومضمونوں میں فیل ہوتے رہے تھے، لیکن اس کے بعد ہم نے تہیہ کر لیا کہ جہاں تک ہو سکے گا اپنے مطالعے کو وسیع کریں گے۔ یونیورسٹی کے بےہودہ اور بے معنی قواعد کو ہم اپنی مرضی کے مطابق نہیں بنا سکتے تو اپنی طبیعت پر ہی کچھ زور ڈالے لیکن جتنا غور کیا، اسی نتیجے پر پہنچے کے تین مضمو نوں میں بیک وقت پاس ہونا فی الحال مشکل ہے۔ پہلے دو میں پاس ہونے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ چنانچہ ہم پہلے سال انگریزی اور فارسی میں پاس ہو گئے اور دوسرے سال فارسی اور تاریخ میں۔
جن جن مضامین میں ہم جیسے جیسے فیل ہوئے وہ اس نقشے سے ظاہر ہیں،
(1) انگریزی، تاریخ، فارسی
(2) انگریزی، تاریخ
(3) انگریزی، فارسی
(4) تاریخ، فارسی
گویا جن جن طریقوں سے ہم دو دو مضامین میں فیل ہو سکتے تھے وہ ہم نے پورے کر دیئے۔ اس کے بعد ہمارے لئے دو مضامین میں فیل ہونا نہ ممکن ہو گیا اور ایک ایک مضمون میں فیل ہونے کی باری آئی۔ چنانچے اب ہم نے مندرجہ ذیل نقشے کے مطابق فیل ہونا شروع کر دیا،
(5) تاریخ میں فیل
(6) انگریزی میں فیل
اتنی دفعہ امتحان دے چکنے کے بعد جب ہم نے اپنے نتیجوں کو یوں اپنے سامنے رکھ کر غور کیا تو ثابت ہوا کہ غم کی رات ختم ہونے والی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اب ہمارے فیل ہونے کا صرف ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا ہے وہ یہ کہ فارسی میں فیل ہو جائیں لیکن اس کے بعد تو پاس ہونا لازم ہے۔ ہر چند کہ یہ سانحہ از حد جانکاہ ہو گا۔ لیکن اس میں مصلحت تو ضرور مضمر ہے کہ اس میں ہمیں ایک قسم کا ٹیکا لگ جائے گا۔ بس یہی ایک کسر باقی رہ گئی ہے۔ اس سال فارسی میں فیل ہوں گے اور پھر اگلے سال قطعی پاس ہو جائیں گے۔چنانچے ساتویں دفعہ امتحان دینے کے بعد ہم بیتابی سے فیل ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ انتظار در اصل فیل ہونے کا نہ تھا بلکہ اس بات کا انتظار تھا کہ اس فیل ہونے کے بعد اگلے سال ہمیشہ کے لئے بی،اے ہو جائیں گے۔
ہر سال امتحان کے بعد گھر آتا تو والدین کو نتیجے کے لئے پہلے ہی سے تیار کر دیتا۔ رفتہ رفتہ نہیں بلکہ یکلخت اور فوراً۔ رفتہ رفتہ تیار کرنے سے خواہ مخواہ وقت ضائع ہوتا ہے اور پریشانی مفت میں طول کھینچتی ہے۔ ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ جاتے ہی کہہ دیا کرتے تھے کہ اس سال تو کم از کم پاس نہیں ہو سکتے۔ والدین کو اکثر یقین نہ آتا۔ ایسے موقعوں پر طبیعت کو بڑی الجھن ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں پرچوں میں کیا لکھ کر آیا ہوں۔ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ممتحن لوگ اکثر نشے کی حالت میں پرچے نہ دیکھیں تو میرا پاس ہونا قطعاً نا ممکن ہے۔ چاہتا ہوں کہ میرے تمام بہی خواہوں کو بھی اس بات کا یقین ہو جائے تاکہ وقت پر انہیں صدمہ نہ ہو، لیکن بہی خواہ ہیں کہ میری تمام تشریحات کو محض کسر نفسی سمجھتے ہیں۔
آخری سالوں میں والد کو فوراً یقین آجایا کرتا تھا کیوں کہ تجربے سے ان پر ثابت ہو چکا تھا کہ میرا اندازہ غلط نہیں ہوتا لیکن ادھر ادھر کے لوگ ’’اجی نہیں صاحب‘‘، ’’اجی کیا کہہ رہے ہو؟‘‘، ’’اجی یہ بھی کوئی بات ہے‘‘ ایسے فقر وں سے ناک میں دم کر دیتے۔ بہر حال اب کے پھر گھر پہنچتے ہی ہم نے حسب دستور اپنے فیل ہونے کی پیشین گوئی کر دی۔ دل کو یہ تسلی تھی کہ بس یہ آخری دفعہ ہے۔ اگلے سال ایسی پیشین گوئی کر نے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی۔
ساتھ ہی خیال آیا کہ وہ ہاسٹل کا قصہ پھر شروع کرنا چاہئیے۔ اب تو کالج میں صرف ایک ہی سال باقی رہ گیا ہے۔ اب بھی ہاسٹل میں رہنا نصیب نہ ہوا تو عمر بھر گویا آزادی سے محروم رہے۔ گھر سے نکلے تو ماموں کے دڑبے میں اور جب ماموں کے دڑبے سے نکلے تو شائد اپنا ایک دڑبا بنانا پڑے گا۔ آزادی کا ایک سال، صرف ایک سال اور یہ آخری موقع ہے۔
آخری درخواست کرنے سے پہلے میں نے تمام ضروری مصا لحہ بڑی احتیاط سے جمع کیا۔ جن پروفیسروں سے مجھے اب ہم عمری کا فخر حاصل تھا ان کے سامنے نہایت بے تکلفی سےاپنی آرزؤں کا اظہار کیا اور ان سے والد کو خطوط لکھوائے کہ اگلے سال لڑکے کو ضرور آپ ہاسٹل میں بھیج دیں۔ بعض کامیاب طلبہ کے والدین سے بھی اسی طرح کی عرض داشتیں بھیجوائیں۔ خود اعداد وشمار سے ثابت کیا کہ یونیورسٹی سے جتنے لڑکے پاس ہوتے ہیں ان میں اکثر ہاسٹل میں رہتے ہیں اور یونیورسٹی کا کوئی وظیفہ یا تمغہ یا انعام تو کبھی ہاسٹل سے باہر گیا ہی نہیں۔
میں حیران ہوں کہ یہ دلیل مجھے اس سے بیش تر کبھی کیوں نہ سوجھی تھی، کیوں کہ یہ بہت ہی کارگر ثابت ہوئی۔ والد کا انکار نرم ہوتے ہوتے غور و خوض میں تبدیل ہو گیا، لیکن پھر بھی ان کے دل سے شک رفع نہ ہوا، کہنے لگے کہ ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جس لڑکے کو پڑھنے کا شوق ہو وہ ہاسٹل کے بجائے گھر پر کیوں نہیں پڑھ سکتا۔‘‘
میں نے جواب دیا، ’’ہاسٹل میں ایک علمی فضا ہوتی ہے جو ارسطو اور افلاطون کے گھر کے سوا اور کسی گھر میں دستیاب نہیں ہو سکتی۔ ہاسٹل میں جسے دیکھو بحر علوم میں غوطہ زن نظر آتا ہے۔ باوجود اس کے ہر ہاسٹل میں دو دو سو تین تین سو لڑکے رہتے ہیں۔ پھر بھی وہ خاموشی طاری رہتی ہے کہ قبرستان معلوم ہوتا ہے۔وجہ یہ کہ ہر ایک اپنے اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ شام کے وقت ہوسٹل کے صحن میں جا بجا طلبہ علمی مباحثوں میں مشغول نظر آتے ہیں۔ علی الصباح ہر ایک طالب علم کتاب ہاتھ میں لیے ہاسٹل کے چمن میں ٹہلتا نظر آتا ہے۔ کھانے کے کمرے میں، کامن روم میں، غسل خانوں میں، برآمدوں میں، ہر جگہ لوگ فلسفے اور ریاضی اور تاریخ کی باتیں کرتے ہیں۔ جن کو ادب انگریزی کا شوق ہے وہ دن رات آپس میں شیکسپیئر کی طرح گفتگو کرنے کی مشق کرتے ہیں۔ ریاضی کے طلبہ اپنے ہر ایک خیال کو الجبرے میں ادا کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ فارسی کے طلبہ رباعیوں میں تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ تاریخ کےدلدادہ۔۔۔‘‘
والد نے اجازت دے دی۔
اب ہمیں یہ انتظار کہ کب فیل ہوں اور کب اگلے سال کے لئے عرضی بھیجیں۔ اس دوران ہم نے ان تمام دوستوں سے خط وکتابت کی، جن کے متعلق یقین تھا کہ اگلے سال پھر ان کی رفاقت نصیب ہوگی اور انہیں یہ مژدہ سنایا کہ آیندہ سال ہمیشہ کے لیے کالج کی تاریخ میں یادگار رہے گا، کیوں کہ ہم تعلیمی زندگی کا ایک وسیع تجربہ اپنے ساتھ لئے ہاسٹل میں آ رہے ہیں جس سے ہم طلبہ کی نئی پود کو مفت مستفید فرمائیں گیں۔
اپنے ذہن میں ہم نے ہوسٹل میں اپنی حیثیت ایک مادر مہربان کی سی سوچ لی، جس کے ارد گرد نا تجربہ کار طلبہ مرغی کے بچوں کی طرح بھاگتے پھریں گیں۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کو جو کسی زمانے میں ہمارے ہم جماعت رہ چکے تھے، لکھ بھیجا کہ جب ہم ہاسٹل میں آئیں گے تو فلاں فلاں مراعات کی توقع آپ سے رکھیں گے اور فلاں فلاں قواعد سے اپنے آپ کو مستشنی سمجھیں گیں۔ اطلا عاً عرض ہے۔
اور یہ سب کچھ کر چکنے کے بعد ہماری بدنصیبی دیکھیئے کہ جب نتیجہ نکلا تو ہم پاس ہو گئے۔ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں پاس کرکے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔