پطرس بخاری
علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سرکھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجئے، دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ، ’’کتا وفادار جانور ہے۔‘‘ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم ليے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے، تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔
کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آکر ’’طرح‘‘ کا ایک مصرع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کردیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف سے ایک قدر شناس کتےنے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہواکہ کچھ نہ پوچھیے۔
کمبخت بعض تو دو غزلے، سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے۔ وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ ’’آرڈر آرڈر‘‘ پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پردھان کی بھی کوئی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھئے کہ میاں تمہیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جاکر طبع آزمائی کرتے یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے؟
اورپھر ہم دیسی لوگوں کے کتے بھی کچھ عجیب بدتمیز واقع ہوئے ہیں۔ اکثر تو ان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک حد تک قابل تعریف بھی ہے۔ اس کا ذکر ہی جانے دیجیے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات ہے یعنی ہمیں بارہا ڈالیاں لے کر صاحب لوگوں کے بنگلوں پر جانے کا اتفاق ہوا، خدا کی قسم ان کے کتوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔
جوں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے، کتے نے برآمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی ’’بخ‘‘ کردی اور پھر منہ بند کرکے کھڑا ہوگیا۔ ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں پھر ’’بخ‘‘ کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی۔ ہمارے کتے ہیں کہ نہ راگ نہ سُر، نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں۔ بےتالے کہیں کے۔ نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں۔ بس گلے بازی کيے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ تان سین اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے تعلقات کتوں سے ذرا کشیدہ ہی رہے ہیں لیکن ہم سے قسم لے لیجیئے جو ایسے موقع پر ہم نے کبھی ستیا گرہ سے منہ موڑا ہو۔ شاید آپ اس کو تعلّی سمجھیں لیکن خدا شاہد ہے کہ آج تک کبھی کسی کتے پر ہاتھ اُٹھ ہی نہ سکا۔ اکثر دوستوں نے صلاح دی کہ رات کے وقت لاٹھی، چھڑی ضرور ہاتھ میں رکھنی چاہییے کہ دافع بلیات ہے، لیکن ہم کسی سے خواہ مخواہ عداوت پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
کتے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پر اس درجہ غلبہ پا جاتی ہے کہ آپ ہمیں اگر اس وقت دیکھیں تو یقیناً یہی سمجھیں گے کہ ہم بزدل ہیں۔ شاید آپ اس وقت یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ یہ البتہ ٹھیک ہے۔ ایسے موقع پر کبھی گانے کی کوشش کروں تو کھرج کے سُروں کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبیعت پائی ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پر آیۃ الکرسی آپ کے ذہن سے اُتر جائے گی۔ اس کی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جائیں۔
بعض اوقات ایسا اتفاق بھی ہوا ہے کہ رات کے دو بجےچھڑی گھماتے تھیٹر سے واپس آرہے ہیں اور ناٹک کے کسی نہ کسی گیت کی طرز ذہن میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، چونکہ گیت کے الفاظ یاد نہیں اور نومشقی کا عالم بھی ہے اس ليے سیٹی پر اکتفا کی ہے کہ بےسرے بھی ہوگئے، تو کوئی یہی سمجھے گا انگریزی موسیقی ہے۔ اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو۔
آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا۔ ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ چھڑی کی گردش دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول زاویے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھی تھرتھرا کر خاموش ہوگئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔گویا ایک بےآواز لے ابھی تک نکل رہی تھی۔طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینا آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں، بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے۔
چونکہ ہم طبعاً ذرا محتاط ہیں اس ليے آج تک کتے کے کاٹنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا، یعنی کسی کتے نے آج تک ہم کو کبھی نہیں کاٹا۔ اگر ایسا سانحہ کبھی پیش آیا ہوتا تو اس سرگزشت کے بجائے آج ہمارا مرثیہ چھپ رہا ہوتا۔ تاریخی مصرعہ دعائیہ ہوتا کہ ’’اس کتے کی مٹی سے بھی کتا گھاس پیدا ہو‘‘
لیکن
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
جب تک اس دنیا میں کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مصر ہیں، سمجھ لیجیے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور پھر ان کتوں کے بھونکنے کے اصول بھی تو کچھ نرالے ہیں، یعنی ا یک تو متعدی مرض ہے اور پھر بچوں، بوڑھوں سبھی کو لاحق ہے۔ اگر کوئی بھاری بھرکم اسفندیار کتا کبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کو قائم رکھنے کے ليے بھونک لے تو ہم بھی چاروناچار کہہ دیں کہ بھئی بھونک۔ (اگرچہ ایسے وقت میں اس کو زنجیر سے بندھاہوا ہونا چاہیے) لیکن یہ کمبخت دو روزہ، سہ روزہ دو، دو، تین تین، تولے کے پلے بھی تو بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ باریک آواز ذراسا پھیپھڑا اس پر بھی اتنا زور لگا کر بھونکتے ہیں کہ آواز کی لرزش دُم تک پہنچتی ہے اور پھر بھونکتے ہیں، چلتی موٹر کے سامنےآکر گویا اسے روک ہی لیں گے۔ اب اگر یہ خاکسار موٹر چلا رہا ہوتو قطعاً ہاتھ کام کرنے سے انکار کردیں لیکن ہر کوئی یوں ان کی جان بخشی تھوڑا ہی کردے گا؟
کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی آواز سوچنے کے تمام قویٰ کو معطل کردیتی ہے، خصوصاً جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کردے تو آپ ہی کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ ہر ایک کی طرف باری باری متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ کچھ ان کا شور کچھ ہماری صدائے احتجاج (زیرلب) بےڈھنگی حرکات وسکنات (حرکات ان کی، سکنات ہماری۔) اس ہنگامے میں دماغ بھلا خاک کام کرسکتا ہے؟ اگرچہ یہ مجھے بھی نہیں معلوم کہ اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مارلے گا؟
بہرصورت کتوں کی یہ پرلےدرجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفریں رہی ہے۔ اگر ان کا ایک نمائندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آکر کہہ دے کہ عالی جناب، سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چون وچرا کیے واپس لوٹ جائیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم نے کتوں کی درخواست پر کئی راتیں سڑکیں ناپنے میں گزاردی ہیں لیکن پوری مجلس کا یوں متفقہ و متحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے۔ (قارئین کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر ان کا کوئی عزیزومحترم کتا کمرے میں موجود ہو تو یہ مضمون بلند آواز سے نہ پڑھا جائے۔ مجھے کسی کی دل شکنی مطلوب نہیں۔)
خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کئے ہیں۔ کتے اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہوگا۔ عموماً اس کے جسم پر تپسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارگناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غوروفکر کے ليے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بندکرلیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیوجانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا۔ گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا۔ لوگوں سے کہلوایا۔ خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سرکو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورت حالات کو ایک نظر دیکھا اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیاتو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اُٹھ کر ایک گز پرے جالیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے ليے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔
رات کے وقت یہی کتا اپنی خشک، پتلی سی دم کو تابحد امکان سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا، انہوں نے غیظ وغب، کے لہجہ میں آپ سے پرسش شروع کردی۔ ’’بچا فقیروں کو چھیڑتا ہے۔ نظر نہیں آتا، ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں‘‘ بس اس فقیر کی بددعا سے اسی وقت رعشہ شروع ہوجاتا ہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بےشمار کتے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چارپائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں۔
اگر خدا مجھے کچھ عرصے کے ليے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائےتو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے۔ رفتہ رفتہ سب کتے علاج کے ليے کسولی پہنچ جائیں۔ ا یک شعر ہے،
عرفی تو میندیش زغو غائے رقیباں
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا
یہی وہ خلاف فطرت شاعری ہے جو ایشیا کے ليے باعث ننگ ہے۔ انگریزی میں ایک مثل ہے کہ ’’بھونکتےہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے۔‘‘ یہ بجا سہی، لیکن کون جانتا ہے، کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کردے، اور کاٹنا شروع کردے؟