ابن انشا
(چند خطوط)
(۱)
’’لو مرزا تفتہ ایک بات لطیفے کی سنو۔ کل ہر کارہ آیا تو تمہارے خط کے ساتھ ایک خط کرانچی بندر سے منشی فیض احمد فیض کا بھی لایا جس میں لکھا ہے کہ ہم تمہاری صدسالہ برسی مناتے ہیں۔ جلسہ ہوگا جس میں تمہاری شاعری پر لوگ مضمون پڑھیں گے۔ بحث کریں گے۔ تمہاری زندگی پر کتابیں چھپیں گی۔ ایک مشاعرہ کرنے کا ارادہ ہے۔ تم بھی آؤ اور خرچہ آمد و رفت کا پاؤ۔ دن کی روٹی اور رات کی شراب بھی ملے گی۔ بہت خیال دوڑایا، سمجھ میں نہ آیا کہ یہ صاحب کون ہیں۔ ان سے کب اور کہاں ملاقات ہوئی تھی۔ اگر شاعر ہیں تو کس کے شاگرد ہیں۔ بارے منشی ہیرا سنگھ آئے اور دریافت ہوا کہ ادھر لاہور اور ملتان کی عملداری میں ان کا نام مشہور ہے۔ متوطن سیالکوٹ کے ہیں کہ لاہور سے آگے ایک بستی ہے جہاں کھیلوں کا سامان اور شاعر اچھے بنتے ہیں۔ ایسے کہ نہ صرف ملک کے اندر ان کی مانگ ہے بلکہ دساور کو بھی بھیجے جاتے ہیں۔
ان میاں فیض کے متعلق بھی منشی ہیرا سنگھ نے بتایا کہ اکثر یہاں سے دساور بھیجے جاتے ہیں۔ وہاں سے واپس کیے جاتے ہیں لیکن یہ پھر بھیجے جاتے ہیں۔ ادھر جو ماورائے قفقاز روس کی سلطنت ہے، وہاں کا والی ان کی بہت قدر کرتا ہے۔ اپنے ہاں انعام صد ہزاری بھی بخشا ہے کہ لینن انعام کہلاتا ہے اور کسی کسی کو ملتا ہے۔ یہ قصیدہ اچھا ہی کہتے ہوں گے۔ لیکن اپنی اپنی قسمت کی بات ہے۔ دلی کا قلعہ آباد تھا تو بادشاہ کا قصیدہ اور جوان بخت کا سہرا ہم نے بھی لکھا تھا۔ غفران مآب نواب رامپور کی مدح میں بھی اکثر اشعار لکھے اور ملکہ وکٹوریہ کا قصیدہ کہہ کر بھی لیفٹننٹ گورنر کے توسط سے گزرانا لیکن کبھی اتنی یافت نہ ہوئی کہ ساہوکار کا قرضہ چکتا کرتے۔
اتنی سرکاریں دیکھیں، آمدنی اب بھی وہی ایک سو باسٹھ روپے آٹھ آنے۔ فتوح کا اعتبار نہیں آئے آئے نہ آئے نہ آئے۔ منشی ہیراسنگھ نے یہ بھی بتایا کہ یہ فیض احمد فیض انگریزی داں ہیں، پھر بھی آدمی نیک اور شستہ ذات کے ہیں۔ کسی مدرسے میں لڑکے پڑھاتے ہیں۔ لڑکے پڑھانے والوں کے متعلق میری رائے اچھی نہیں۔ وہ مرد مجہول منشی امین الدین قاطع قاطع والا بھی تو پٹیالے میں راجا کے مدرسے میں مدرس تھا۔ لیکن خیر یہ آدمی اچھے ہی ہوں گے۔ خط تو بڑی محبت اور ارادت کا لکھا ہے۔ شروع خط میں چھاپے کے حرفوں میں ادارہ یادگار غالب بھی مرسوم ہے۔
اچھا ایک بات کل کے خط میں لکھنا بھول گیا تھا۔ منشی شیونرائن سے کہو کہ دیوان کا چھاپا روک دیں کہ ایک سوداگر کتابوں کا بلاد پنجاب سے آیا ہوا ہے۔ شیونرائن سے ہماری شرط تھی کہ وہ چھاپے تو پچاس نسخے احباب میں تقسیم کرنے اور صاحبان عالیشان کی نذر گزارنے ے لیے بایں تہی دستی وبے زری اسے قیمتاً لیں گے تاکہ اس پر بار نہ پڑے لیکن یہ شخص اس شرط پر چھاپنے کو آمادہ ہے کہ ہمیں کچھ نہیں دینا پڑے گا۔ بلکہ وہ پانچ نسخے حق تصنیف میں ہم کو دے گا۔ جب کہ شیو نرائن اور دوسرے مطبع والے ایک نسخہ دیتے تھے۔ بہت اخلاق کا آدمی معلوم ہوتا ہے۔ آتے ہوئے دوشیشے شراب انگریزی کے بھی لایا تھا۔ میں نے وعدہ کر لیا ہے۔ ہاں تو وہ صدی والی بات رہی جاتی ہے۔ اسی سے دیکھ لو کہ عناصر میں اعتدال کی کیا حالت ہے۔ سوچتا ہوں، جاؤں کہ نہ جاؤں؟ ہنڈی بھیج دیتے تو کوئی بات بھی تھی۔ بعد میں یہ لوگ کرایہ آمد و رفت بھی دیں یا نہ دیں۔ نہیں بابا۔ نہیں جاتا۔ میں نہیں جاتا۔
نجات کا طالب
غالب
(۲)
سعادت و اقبال نشاں مرزا علاؤالدین خاں بہادر کو فقیر اسد اللہ کی دعا پہنچے۔ لو صاحب یہ تمہارا پوتا، فرخ مرزا کا بیٹا مرزا جمیل الدین عالی انعام اور جاگیریں بانٹنے لگا۔ یہ حال اکمل الاخبار سے کھلا۔ تم نے تو نہ بتایا۔ لوہارو سے میر اشرف علی آئے تو یہ بھی پتہ چلا کہ یہ عزیز لوہارو چھوڑ ادھر کہیں سندھ میں جا نوکر ہوا۔ پہلے سرکار عالی کی پیشی میں تھا۔ اب کسی ساہوکارے کے کارخانے میں منصرم ہے۔ اتنی دور کیوں جانے دیا؟ نوابوں اور رئیسوں کے لڑکے سیٹھوں سا ہوکاروں کے متصدی ہوئے۔ ہاں صاحب شاہی لد گئی تو کچھ بھی نہ رہا۔ عالی شائد تخلص ہے۔ شعر کہتا ہوگا۔ اللہ ترقی دے۔ کس سے اصلاح لیتا ہے؟
ہاں تو وہ انعام جاگیر والی بات۔ اکمل الاخبار والے مضمون میں تھا کہ سال بھر میں جو دیوان یا قصے کہانیاں وغیرہ از قسم داستان امیر حمزہ چھپتے ہیں، اسی عزیز کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ یہ ان کو جانچتا ہے اور جو کلام پسندیدہ ٹھہرے اس پر انعام دیتا ہے۔ کسی کو پانچ ہزار، کسی کو دس ہزار، کسی کو کم بھی۔ ہزار دو ہزار بھی۔ یہ جو میرا اردو کا کلام کانپور میں چھاپا ہوا ہے، مطبع والے نے بامید انعام بھجوایا تھا۔ وہ تو مصر تھا کہ اس کے ساتھ ایک قصیدہ بھی خوش خط لکھوا کر طلائی جدول کے ساتھ بھیجا جائے۔ لیکن میں نے اسے ضروری نہ جانا کہ تعلقات میرے تم لوگوں سے عزیزداری کے کسی سے مخفی نہیں۔ میں تو اس کے بعد ہنڈی کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ الٹا مطبع والوں کے نام لفافہ آیا کہ فارم بھر کے بھیجو۔ چھ جلدیں داخل کرو اور پھر مصنفوں کی کمیٹی کے فیصلے کا انتظار کرو۔
یہ بھی لکھا تھا کہ مرزا جمیل الدین عالی فقط انعام کی رقوم کا امانتدار ہے۔ فیصلے کا کچھ اور صاحبان علم کی رائے پر انحصار ہے۔ مطبع والے نے ان لوگوں کے نام دریافت کیے۔ اس کا بھی کوئی جواب نہ آیا۔ اب اکمل الاخبار کہتا ہے کہ ایک انعام سراج الدین ظفر کو ملا۔ میں سمجھا شاہ نے رنگون میں کلام چھپوا کر بھیجا ہوگا۔ لیکن بات جی کونہیں لگتی تھی کہ وہ سرکار تو انعام دینے والی تھی۔ اب وضاحت ہوئی کہ یہ اور صاحب ان کے ہم نام ہیں لیکن شاعر اچھے ہیں۔ ان کے ساتھ یہ بھی تھا کہ ایک اور صاحب نے انعام پایا لیکن ناخوش ہوکر لوٹا دیا کہ مجھے ضرورت نہیں۔ اللہ اللہ کیسے مستغنی لوگ ہیں۔ پورے ایک ہزار کا انعام تھا۔
صاحب میں دوبارہ لکھتا ہوں کہ اب وہ زمانہ نہیں کہ ادھر متھراداس سے قرض لیا۔ ادھر درباری مل کو مارا۔ ادھر خوب چند چین سکھ کی کوٹھی جا لوٹی۔ ہر ایک کے پاس تمسک مہری موجود۔ شہد لگاؤ، چاٹو۔ پھر کبھی خان نے کچھ دے دیا کبھی الور سے کچھ دلا دیا۔ میرا مختار کار بنیا سود ماہ بماہ چاہے۔ گویا سود جدا، مول جدا، چوکیدار جدا، بی بی جدا، بچے جدا، شاگرد پیشہ جدا، آمد وہی کہ تھی۔ اب کہ جو یہ بنیا پنشن کے مجتمعہ دو ہزار لایا، اس نے اپنے پاس رکھ لیے کہ پہلے میرا حساب کیجیے۔ سات کم پندرہ سو روپے اس کے ہوئے۔ قرض متفرق گیارہ سو روپے۔ پندرہ اور گیارہ سو چھبیس سو روپے۔ یعنی دو ہزار مل کر بھی چھ سو روپے گھاٹا۔
یہ جو ایک ہزار روپے ان شاعر مستغنی الاحوال نے اپنے مقام سے فروتر پاکر لوٹا دیے ہیں، غالب غریب کو مل جاتے تو کم از کم اب تک کا قرض صاف ہو جاتا۔ شاعری سے بس یہی تو یافت تھی کہ قصیدہ لکھا، انعام پایا۔ اب وہ سرکاریں نہ رہیں۔ کتاب چھپواؤ تو مطبع والا مشکل سے راضی ہوتا ہے۔ کہتا ہے اتنی جلدیں خریدو۔ اپنے دوستوں کے پاس بکواؤ، تب ہاتھ لگاتا ہوں۔ یہ تصانیف پر انعام و کرام والا قصہ نیا ہے۔ اگر تم اس عزیز کو دو حرف لکھ دو تو بڑی بات ہو۔ اس بات کا میں برا نہیں مانتا کہ کلام ان کو یا ان کی کمیٹی کو پسند نہیں آیا۔ مروت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کسی اور سے نہ کہتا۔ تم سے واجب جان کر کہہ دیا کہ اتنا خیال کرتے ہو۔ محبت کا دم بھرتے ہو۔
راقم
غالب
(۳)
’’ہاہاہا۔ میرا پیارامیر مہدی آیا۔ غزلوں کا پشتارہ لایا۔ ارے میاں بیٹھو۔ شعر و شاعری کا کیا ذکر ہے۔ یہاں تو مکان کی فکر ہے۔ یہ مکان چار روپے مہینے کا ہر چند کہ ڈھب کا نہ تھا لیکن اچھا تھا۔ شریفوں کا محلہ ہے۔ پہلے مالک نے بیچ دیا۔ نیا مالک اسے خالی کرانا چاہتا ہے۔ مدد لگا دی ہے۔ پاڑ باندھ دی ہے۔ اسی دوگز چوڑے صحن میں رات کو سوتا ہوں۔ پاڑ کیا ہے۔ پھانسی کی کٹکر نظر آتی ہے۔ منشی حبیب اللہ ذکا نے ایک کوٹھی کا پتہ دیا تھا جو شہر سے باہر ہے۔ سوار ہوا۔ گیا۔ مکان تو پر فضا تھا۔ احاطہ بھی، چمن اور گل بوٹے بھی۔ لیکن حویلی اور محل سرا الگ الگ نہ تھے۔ ڈیوڑھی بھی نہ تھی۔ بس ایک پھاٹک تھا۔ کمرے اور کوٹھریاں خاصی۔ کمروں کے ساتھ کولکیوں میں چینی مٹی کے چولہے سے بھی بنے تھے۔ معلوم ہوا بیت الخلاء ہیں۔ صاحبان انگریزان پر چڑھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک زنجیر کھینچتے ہی پانی کا تریڑا آتا ہے۔ سب کچھ بہالے جاتا ہے۔
عجیب کارخانہ ہے۔ میں نے کرایہ پوچھا اور جھٹ کہا پانچ روپے منظور۔ ایک روپیہ زائد کی کچھ ایسی بات نہیں۔ لیکن مالک مکان کا کارندہ ہنسا اور بولا۔ پانچ روپے نہیں مرزا صاحب! پانچ سوروپے۔ میں نے کہا۔ خریدنا منظورنہیں۔ کرائے پر لینا ہے۔ وہ مردک سر ہلا کر کہنے لگا۔ پانچ سو کرایہ ہے اور دوسال کا پیشگی چاہیے یعنی بارہ ہزار دو اور آن اترو۔ یہاں چتلی قبر کے پاس دھنا سیٹھ نے حویلی ڈھاکر اونچا اونچا ایک مکان بنایا ہے۔ دو دو تین تین کمرے کے حصے ہیں۔ کلیان کو بھیجا تھا۔ خبر لایا کہ وہ پگڑی مانگتے ہیں۔ میں حیران ہوا۔ تمہیں معلوم ہے، میں پگڑی عمامہ کچھ نہیں باندھتا۔ ٹوپی ہے ورنہ ننگے سر۔ لوہارو والوں کے ہاں سے جو پگڑی پارسال ملی تھی، وہ نکلواکے بھجوادی کہ دیکھ لیں اور اطمینان کرلیں کہ مکان ایک مرد معزز کو مطلوب ہے۔ وہ الٹے پاؤں آیا کہ یہ دستار نہیں چاہیے رقم مانگتے ہیں دس ہزار۔ کرایہ اس کے علاوہ ساٹھ روپے مہینہ۔ بڑے بدمعاملہ لوگ ہیں۔ آخر پگڑی پھر صندوق میں رکھوادی۔ یہ مالک مکان کل آتا ہے۔ دیکھیے کیا کہتا ہے۔
میرن صاحب آئیں۔ شوق سے آئیں۔ لیکن یہ گانے بجانے والوں میں نوکری کا خیال ہمیں پسند نہیں۔ میں نے دیکھا نہیں لیکن معلوم ہوا ہے کہ ایک کوٹھی میں مشینیں لگا کر اس کے سامنے لوگ گاتے ناچتے ہیں۔ شعر پڑھتے ہیں۔ تقریریں کرتے ہیں۔ لوگ اپنے گھروں میں ایک ڈبا سامنے رکھ کر سن لیتے ہیں بلکہ اب تو اور ترقی ہوئی ہے۔ ایک نیا ڈبہ انگریز کاریگروں نے نکالا ہے۔ اس میں ایک گھنڈی ہے، اسے مروڑنے پر سننے کے علاوہ ان ارباب نشاط کی شکلیں بھی گھر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں۔
ایک خط ان میں سے ایک جگہ سے میرے پاس بھی آیا تھا۔ آدمی تو یہیں کے ہیں لیکن انگریزی میں لکھتے ہیں۔ بہت دنوں رکھا رہا۔ آخر ایک انگریزی خواں سے پڑھوایا۔ مشاعرے کادعوت نامہ تھا۔ کچھ حق الخدمت کا بھی ذکر تھا۔ میں تو گیا نہیں۔ دوبارہ انہوں نے یاد کیا نہیں۔ چونکہ پیسے دیتے ہیں۔ سرکاروں درباروں کی جگہ ان لوگوں نے لے لی ہے۔ جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں۔ میرن صاحب مجھے جان سے عزیز لیکن ان لوگوں سے سفارش کیا کہہ کر کروں کہ سید زادہ ہے؟ اردو فارسی کا ذوق رکھتا ہے؟ اسے نوکر رکھو۔ اچھا رکھ بھی لیا تو کاپی نویسوں میں رکھیں گے۔ میر مہدی یہ وہ زمانہ نہیں۔ اب تو انگریز کی پوچھ ہے یا پھر سفارش چاہیے۔
خط لکھ لیا۔ اب محل سرا میں جاؤں گا۔ ایک روٹی شوربے کے ساتھ کھاؤں گا۔ شہر کا عجب حال ہے۔ باہر نکلنا محال ہے۔ ابھی ہرکارہ آیا تھا۔ خبر لایا کہ ہڑتال ہو رہی ہے۔ ہاٹ بازار سب بند۔ لڑکے جلوس نکال رہے ہیں۔ نعرے لگا رہے ہیں۔ کبھی کبھی لڑکوں اور برقندازوں میں جھڑپ بھی ہوجاتی ہے۔ میر مہدی معلوم نہیں اس شہر میں کیا ہونے والا ہے۔ میرن کو وہیں روک لو۔ میر سرفراز حسین اور میر نصیر الدین کو دعا۔
نجات کاطالب
غالب
(۴)
منشی صاحب میاں داد خاں سیاح یہ خط نواب غلام بابا خاں کے توسط سے بھیج رہاہوں کہ تمہارا تحقیق نہیں اس وقت کہاں ہو۔ اشرف الاخبار تمہارے نام بھجوایا تھا، وہ واپس آگیا کہ مکتوب الیہ شہر میں موجود نہیں۔ اس اخبار کے مہتمم صاحب کل آئے تو کچھ اخبار بلاد دیگر کے دے گئے کہ مرزا صاحب انہیں پڑھیے اور ہو سکے تو رنگ ان لوگوں کی تحریر کا اختیار کیجیے کہ آج کل اسی کی مانگ ہے۔ یہ اخبار لاہور اور کرانچی بندر کے ہیں۔ کچھ سمجھ میں آئے کچھ نہیں آئے۔ آدھے آدھے صفحے تو تصویروں کے ہیں۔ دو دو رنگ کی چھپائی موٹی موٹی سرخیاں۔ افرنگ کی خبریں۔ اگر بہت جلدبھی آئیں تو مہینہ سوا مہینہ تو لگتا ہی ہے لیکن یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ آج واردات ہوئی اور آج ہی اطلاع مل گئی۔ گویا لوگوں کو پرچاتے ہیں۔ بے پر کی اڑاتے ہیں۔ پھر ایک ہی اخبار میں کشیدہ کاری کے نمونے ہیں، ہنڈیا بھوننے کے نسخے ہیں۔ کھیل تماشوں کے اشتہار ہیں۔ ایک لمبا چوڑا مضمون دیکھا، ’’اداکارہ دیبا کے چلغوزے کس نے چرائے۔‘‘ سارا پڑھ گیا۔ یہ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہوئی۔ کسی کی جیب سے کسی نے چلغوزے نکال لیے تو یہ کون سی خبر ہے۔
خیر یہ سب سہی، لطیفے کی بات اب کہتا ہوں۔ کرانچی کے ایک اخبار میں میرے تین خط چھپے ہیں۔ ایک منشی ہرگوپال تفتہ کے نام ہے، ایک میں نواب علائی سے تخاطب اور ایک میر مہدی مجروح کے نام۔ میں حیران کہ ان لوگوں نے میرے خطوط اخبار والوں کو کیوں بھیجے۔ اب پڑھتا ہوں تو مضمون بھی اجنبی لگتا ہے۔ اب کہ جو شراب انگریزی سوداگر دے گیا ہے کچھ تیز ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی کیفیت اک گونہ بے خودی سے آگے کی ہو جاتی ہے۔ یا تو میں نے اس عالم میں لکھے اور کلیان اٹھاکر ڈاک میں ڈال آیا۔ یا پھر کسی نے میری طرف سے گڑھے ہیں اور انداز تحریر اڑانے کی کوشش کی ہے۔ کونے میں کسی کا نام بھی لکھا ہے۔ابن انشا۔ کچھ عجب نہیں یہی صاحب اس شرارت کے بانی مبانی ہوں۔ نام سے عرب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیا حرکت ہے۔ سراسردخل در معقولات ہے۔ اخبار نویسی میں ٹھٹول کیا معنی؟ بھئی مجھے بات پسند نہیں آئی۔ امید ہے وہ ٹوپیاں تم نے نواب صاحب کو پہنچادی ہوں گی۔ نواب صاحب سے میرا بہت بہت سلام اور اشتیاق کہنا۔ میں سادات کا نیازمند اور علی کا غلام ہوں۔
نجات کا طالب
غالب