فراق گورکھپوری

جب میں اس دنیا میں تھا تو میں نے بے چین ہوکر ایک بار کہا تھا،

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آج موت کی نیند پھر اچٹ گئی۔ کیا نیند، کیا موت، دونوں میں کسی کا اعتبار نہیں، جب زندہ تھے تو زندگی کا رونا تھا اور موت کی تمنا تھی، میں نے کہا تھا،

قید ہستی کا اسد کس سے ہو جزمرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

شمع اور سحر کا کیا ذکر ہے، میں نے تو کھلی کھلی بات کہہ دی تھی۔ ہاں ایک اور شعر یاد آگیا،

کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجے

ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں سو وہ بھی نہ ہوا

لیکن ذوقؔ نے اس سے بھی لگتی ہوئی بات کہی تھی۔ وہ نہ جانے یہ شعر کیسے کہہ گئے تھے،

اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

ہاں تو میں کہاں ہوں، ابھی میرے حواس درست نہیں، لیکن یہ زمین اور یہ آسمان تو کچھ جانے بوجھے معلوم ہوتے ہیں۔ لوگوں کو ایک طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ میں بھی انہیں کے ساتھ ہولوں۔۔۔ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں۔۔۔ اب ان راستوں پر پالکیاں جاتی ہوئی نظر نہیں آتیں، گھوڑا گاڑیاں چل رہی ہیں۔ لیکن ان کی شکل و صورت بالکل بدلی ہوئی ہے۔ آنکھوں کے سامنے سے بیسیوں ایسی گاڑیاں بھی گزر گئیں، جن میں کوئی جانور جتا ہوا نہیں تھا۔ سن رہا ہوں کہ لوگ انہیں موٹر کار کہتے ہیں۔ ان کل پرزوں سے چلنے والی گاڑیوں میں تیزی اور بھڑک تو بہت ہے لیکن پرانی سواریوں کی سی بات ان میں کہاں۔

خیر یہ تو ہونا تھا۔ آج سے نہ جانے کتنے برس پہلے جب میں اس دنیا میں تھا، تب ہی زمانہ کروٹ بدل چکا تھا۔ یہ کایا پلٹ آنکھوں کے لیے نئی چیز ہے اور دل و دماغ کو بھی حیرت میں ڈال دے لیکن میری آنکھوں نے تو اس وقت پچھلی زندگی پائی تھی۔ وہ انقلابات دیکھے تھے کہ اب کیا کہوں، حیرت کیا کروں اور کس بات پر کروں۔ بچپن اور جوانی میں قلعہ کے رنگ ڈھنگ کو دیکھا تھا۔ مغل دربار کی جھلملاتی ہوئی شمع ’’داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی‘‘ پھر بھی ایک نیا رنگ پیدا کر رہی تھی۔ شہر کے شریفوں اور رئیسوں کی زندگیاں دیکھی تھیں۔ دور دور تک کا سفر گھوڑوں پر، بہلیوں پر، پالکیوں پر اور ڈاک گاڑیوں پر طے کیا تھا۔ پھر ۱۸۵۷ کا غدر ہوا، غدر کیا ہوا قیامت آگئی۔ اس کے بعد پچھلی ہی زندگی میں ریل کی سواری پر دلی سے کلکتہ کا لمبا سفر پورا کیا معلوم نہیں کلکتہ کی شان اب کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہوگی۔ اس وقت یہ شہر دلہن بنا ہوا تھا جس کی یاد سے اب بھی تڑپ اٹھتا ہوں،

کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں

اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے

اور یو ں تو نہ کچھ رونق میں رکھا ہے نہ اجڑی حالت میں رکھا ہے۔ نہ آبادی میں نہ ویرانے میں پھر بھی جو کچھ ہے اور جیسا کچھ ہے غنیمت ہے۔

نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے

بے صدا ہوجائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

انسان جب زندگی کی مصیبتوں سے پریشان ہوجاتا ہے تو اسے دنیا چھوڑنے کی سوجھتی ہے۔ اپنے کو دھوکا دینے اور غلط راستہ پر چلنے کو اکثر لوگ خدا کی تلاش یا سچائی کا پا جانا سمجھتے ہیں۔ لیکن اس سچائی کی بھی سچائی مجھے معلوم ہے،

ہاں اہل طلب کون سنے طعنۂ نایافت

جب پانہ سکے اس کو تو آپ اپنے کو کھو آئے

دنیا کو چھوڑ کر تو پیغمبر بھی کچھ نہیں ہوتا

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے

میں اپنے خیالات کی دھن میں کہاں نکل آیا۔ یہ تمام چیزیں، یہ مکانات اور یہ آبادی نئی بھی معلوم ہوتی ہے اور پرانی بھی، اجنبی بھی اور مانوس بھی۔ وہ سامنے دھندلکے میں لال قلعہ نظر آرہا ہے، کچھ دور پر جامع مسجد کے برج اور مینار نظر آرہے ہیں۔ میں دلی ہی میں ہوں۔ ہائے دلی! وائے دلّی! اس بازار کی شان تو دیکھنے کی چیز ہے۔ چاندنی چوک! اچھا یہ وہی پرانا چاندنی چوک ہے جو بار بار لٹا اور بار بار آباد ہوا۔ اجڑا اور بسا۔ اس کا نام تک نہیں بدلا۔ یہاں تو نئی زندگی کے شور و پکار میں بھی، یہاں کی نئی آوازوں میں بھی پرانے نام کان میں پڑ رہے ہیں کوچہ چیلاں، کوچہ بلیماران، ان دو محلوں میں برسوں میرا قیام رہا ہے۔ بہار آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ لیکن باغ وہی رہتا ہے۔ اس بازار میں اس دوسری دنیا سے پلٹ کر کیا خریدیں۔ جب زندہ تھے تبھی یہ حال تھا کہ،

درم و دام اپنے پاس کہاں

چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں

لیکن اس طرف کچھ کتابیں بیچنے والوں کی دکانیں ہیں۔ کتابوں کی دنیا مردوں اور زندوں دونوں کے بیچ کی دنیا ہے۔ یہاں ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ ’’ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں۔‘‘ چلیں ذرا کتابوں کی اس خیالی دنیا کی سیر کریں۔ وہ ایک طرف الماری میں کوئی نہایت اچھی اور قیمتی کتاب رکھی ہوئی ہے۔ جلد تو دیکھو کیسی خوبصورت ہے۔ سنہرے حرفوں سے کچھ لکھا ہوا بھی ہے۔ اس کے برابر چھوٹی چھوٹی کتابیں دیکھنے میں کیسی بھی معلوم ہوتی ہیں۔ ارے بھئی! ذرا یہ سامنے لگی ہوئی کتابیں تو اٹھادینا، وہی جو سامنے کے تختے پر الماری میں لگی ہوئی ہیں۔ چھپائی اور لکھائی کے یہ کھیل پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے دیوان غالب، دیوان غالب، دیوان غالب مرقع چغتائی! میری آنکھیں یہ کیا دیکھ رہی ہیں۔ برلن اور ہندوستان کے کئی شہروں سے یہ کتابیں نکلی ہیں۔

کیوں بھئی ذوق اور مومن، ناسخ اور آتش، میر اور سودا یہ سب کے سب غالب سے زیادہ مشہور تھے۔ ان کے کلام تو اور ٹھاٹ سے چھپے ہوں گے ذراانہیں بھی دیکھوں۔ کیا کہا؟ صرف غالب کے دیوان اس اہتمام سے نکلے ہیں۔ پھر کیا کہا؟ آج غالب کی کہی ہوئی باتوں کا سارے ہندوستان میں شور ہے، غالب پر کتابیں اور غالب پر مضامین کثرت سے نکل رہے ہیں۔ اچھا! یہ کہنا بھی کسی ڈاکٹر بجنوری کا ملک میں مشہور ہے کہ ہندوستان کی دو بڑی کتابیں ہیں ایک وید مقدس اور دوسری دیوان غالب۔ تو صرف رہنا سہنا ہی اس ملک کا نہیں بدلا بلکہ مذاق شاعری کی بھی کایا پلٹ گئی ہے۔ ہاں اب آپ دوسرے گاہکوں کی طرف متوجہ ہوں۔ شکریہ۔ اب میں اپنے اس شعر کو کیا کہوں،

ہوں خفائی کے مقابل میں ظہوری غالب

میرے دعوے پہ یہ حجت ہے کہ مشہور نہیں

پہلی زندگی میں دوسروں کی شہرت کے کھیل دیکھے تھے۔ مرنے کے بعد اپنی شہرت کے کھیل دیکھ رہا ہوں۔ وہ زندگی کی چھیڑتھی یہ موت کی ہے۔

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

اس مرقع چغتائی کو کیا کہوں، اگر میرے اشعار تصویر کے نیچے نہ لکھے ہوتے تو میں بھی ان تصویروں کو نہ سمجھتا۔ خیر تو ان لکیروں اور رنگوں سے میرے شعروں کا مطلب سمجھایا گیا ہے۔ نہ دیوان غالب ہوتا نہ تصویر بنانے والا اپنایہ کمال دکھاسکتا،

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

بہرحال غزل کے مطلب کو تصویر کے پردوں سے ظاہر کرنے کی ادا کو میں کچھ سمجھا کچھ نہیں سمجھا۔ زیادہ تر تصویریں بے لباس ہیں،

شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

خیر اتنا تو ہوا کہ ’’چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط‘‘ ایک جگہ کر دیے گئے۔ حسینوں کے خط یعنی ان کی شوخ طبیعت، ان کے چنچل مزاج کی وہ تصویریں جو میرے اکثر اشعار میں اکثر دکھائی دیتی ہیں، او ریوں تو حسینوں کے خطوط بھی معلوم،

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں وہ جو لکھیں گے جواب میں

خیر مشہور ہوئے تو کیا اور نہ ہوئے تو کیا۔ میرا وہ فارسی کلام جس کاہندوستان میں جواب نہیں تھا وہ اس دوکان میں نظر نہیں آتا۔ میرے چند اشعار سے اگلے وقتوں کے لوگوں کو اور ممکن ہے آج کل کے لوگوں کو بھی یہ دھوکا ہو کہ میں نے اپنی شہرت کی ساری وجہ اپنے فارسی کلام کو جانا تھا اوراردو کی بڑائی کو میں نہیں سمجھا تھا۔ یہ ایک مزیدار دھوکا ہے۔ اردو آگے بڑھ کر کیا کچھ ہونے والی تھی اس کی جھلک میں دیکھ چکا تھا۔ میرے اردو کلام کے چند شعر جن میں فارسی زیادہ تھی، لوگ لے اڑے تھے اور یہ نہ دیکھ سکے تھے کہ میں نے غزل کو کتنی چنچل، کتنی ٹکسالی، کتنی چٹیلی، کتنی جیتی جاگتی، بولتی چالتی چیز بنادیا تھا۔ اگر میں اردو کی اہمیت کو نہ سمجھتا تو اپنے ان خطوط کو جن میں میں نے چٹھی کو بات چیت بنادیا تھا، اس احتیاط اور اس اہتمام سے بچاکر نہ رکھتا، قریب قریب سب سے چھوٹا اردو دیوان میں نے چھوڑا تھا اور مجھے یقین تھا کہ سب سے زیادہ میرے ہی اشعار لوگوں کی زبان پر ہوں گے۔

اب یہاں مجھے بہت دیر ہو چکی۔ کتاب بیچنے والا بھی اپنے دل میں کیا کہتا ہوگا۔ یہ ایک اخبار رکھا ہوا ہے۔ کیوں بھئی اس پر آج ہی کی تاریخ ہے نا؟ اچھا تو آج ۲۳ جون ۳۸ء ہے مجھے کچھ یاد آتا ہے کہ میں ۱۸۶۹تک زندہ تھا۔ اس کے بعد دوسری دنیا کی زندگی تھی اور اس میں ماہ و سال کہاں، آج اس دنیا سے گئے ہوئے ستر برس ہونے کو آئے۔ اتنے بڑے اور طویل عرصہ میں محض اپنی شہرت اور کامیابی کا حال جان کر خیر، ایک طرح خوش تو ہوں لیکن یہ جاننے کے لیے بے چین ہوں کہ ہندوستان میں اب کیسی شاعری ہو رہی ہے۔ کوئی کتب خانہ تو پاس ہوگا۔ لوگ کسی ہارڈنگ لائبریری کا پتہ دے رہے ہیں۔ اچھا دیکھوں، یہاں کیا داغؔ، امیرؔ، حالیؔ، اکبرؔ، اقبالؔ، حسرت موہانیؔ، جگرؔ، اصغرؔ، شادؔ عظیم آبادی، عزیزؔ، جوشؔ اور دوسرے شعرا کے مجموعے نظر آ رہے ہیں۔ ان میں داغؔ اور امیرؔ کو تو میں پچھلی زندگی ہی میں جانتا تھا۔ حالی تو میرے سب سے ہونہار شاگردوں میں تھے۔

اکبر سے بیسیوں برس پہلے اس دوسری دنیا میں ملا تھا جہاں سے خود آیا ہوں اور جہاں تمام مرے ہوئے شعراء کے ساتھ یہ سب بزم سخن کی رونق بن گئے ہیں۔ وہاں اکبر کا ساتھ چھوڑنے کو تو جی نہیں چاہتا تھا اور اقبال تو ابھی ابھی وہاں پہنچے ہیں۔ اس شخص کی شہرت وہاں برسوں پہلے پہنچ چکی تھی اور فرشتوں کی زبان پر اقبال کے نغمے برسوں پہلے سے تھے۔ میں نے اردو میں جس طرح کی شاعری کی داغ بیل ڈالی تھی، شاعری کو جو عظمت دینا چاہی تھی، میری یہ کوشش اقبال ہی کے ہاتھوں پروان چڑھی۔ حسرت موہانی کا کلام دیکھا۔ مومن، جرأت، مصحفی کا نام اس کلام سے چمک گیا۔ جگر، اصغر، شاد، عزیز، چکبست اور سرور جہاں آبادی ان سب کی شاعری اپنی اپنی جگہ اونچی ہے لیکن کہیں کہیں روک تھام اور گہری نظر کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ دیکھوں یہ یاس یگانہ کون شخص ہے اور اس کی آیات وجدانی میں کیا ہے۔ شعر تو جاندار ہیں۔ بیان کا طریقہ بھی کہیں کہیں استادانہ ہے۔ آتش کی گرماگرمی اور تیزی بھی مل جاتی ہے لیکن غالب کا نام اس شخص پر بھوت کی طرح سوار ہے۔ خیر۔۔۔ ’’وہ کہیں اور سناکرے کوئی۔۔۔‘‘ مرزا قتیل کی یاد تازہ ہوگئی۔ غالب نہ جانے کتنے شاعروں کی دکھتی ہوئی رگ ہے۔ میں اردو میں مسلسل نظم کی ترقی دیکھ کر خو ش ہوں۔

بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

غزل ہو یا نظم، سنجیدگی، مذاق کی پاکیزگی اور گری ہوئی باتوں سے بچنا بھی وہ خوبیاں ہیں جو شاعری کو پیغمبری کا درجہ دے دیتی ہیں۔ ہاں کچھ عجیب اور غلط باتیں بھی میرے بعد کی شاعری میں نظر آتی ہیں۔ ایک صاحب غالب کی جانشینی کا دعویٰ یوں کرتے ہیں کہ جس طرح میر کے ستاسی برس کے بعد غالب کا زمانہ آیا، اسی طرح غالب کے ستاسی برس بعد وہ پیدا ہوئے حالانکہ ہر وقت اور میرے زمانے کے ستاسی برس کے بعد بھی بیوقوف دنیا میں پیدا ہوسکتے ہیں۔ اپنے کچھ اچھے کچھ برے اشعار کو لوگ الہام بھی بتانے لگے ہیں۔ اپنی غلط اور بے ڈھنگی نقالی بھی دیکھتا ہوں بہت بوریت ؍کوفت ہو رہی ہے۔ مہمل فارسی ترکیبیں، ایک رسمی قسم کی مشکل پسندی، لفظ پرستی اور شعریت سے معرا بلند آہنگی اور اظہار علمیت یہاں تک کہ غیر موزوں کلام کو بھی شاعری بتانا یہ سب باتیں بھی آج کل کے شعرامیں آگئی ہیں۔

میں اردو نثر اور اردو رسالوں اور اخباروں کی کثرت اور آب و تاب کو دیکھ کر بھی خوش ہوں۔ رقعات غالب گویا اس بات کی پیشین گوئی تھے۔ یہ سب صحیح لیکن دلی کی پچھلی صحبتیں یاد آگئیں اور دل کو تڑپا گئیں۔ اب نہ ذوق ہیں نہ مومن، نہ شیفتہ نہ داغ، نہ حالی نہ مجروح، نہ انور۔ خیر شعر و شاعری ہی تو ساری زندگی نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ملک پھر جاگ رہا ہے۔ اس کی تمام قومیں مل کر ایک نئی زندگی پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اپنا شعر مجھے یاد آیا،

ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم

ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں

میری نظریں یہ بھی دیکھ کر خوش ہیں کہ انگریزوں کی تہذیب، ان کے علم و فن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی ہندوستان اپنی تہذیب کو پھر سے زندہ کرنا چاہتا ہے،

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں

مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفرملے

اب شام ہو رہی ہے۔ میں صرف ایک پل کے لیے اس دنیا میں آیا تھا۔ شاید مجھے آئے ابھی کچھ وقت نہیں ہوا، اور پل مارتے میں نے سب کچھ دیکھ لیا۔ دوسری دنیا کا ایک پل اس دنیا کی ایک صدی کے برابر ہوتا ہے۔ ہم اہل عدم ایک پل میں جو کچھ دیکھ لیتے ہیں دنیا میں اس کے لیے ایک عمر چاہیے۔ اب نہ وہ دلی ہے نہ ستر برس پہلے کا زمانہ، نہ مرزا ہرگوپال تفتہ ہیں کہ اس بے سروسامانی میں میری پیاس بجھائیں۔ اب تو قرض کی بھی نہیں پی سکتے۔ اخباروں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اب شراب اس ملک میں بند ہونے والی ہے،

مے بہ زہاد مکن عرض کہ ایں جو ہرناب

پیش ایں قوم بہ شورابۂ زمزم نہ رسد

ہندوستان بہت بدل چکا ہے لیکن اگلے وقتوں کے لوگ، معلوم ہوتا ہے ابھی باقی ہیں،

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو

جو مئے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں

خیر شراب سے نشاط اور خوشی کس کافر کو درکار ہے، ’’یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔‘‘ اور وہ بے خودی مجھ پر چھا چکی ہے۔ دنیا کے حسن کے کرشمے دیکھ چکا۔ میں اس تماشہ کو قیامت کہتا ہوں۔ میں خاک ہوچکا تھا،

بجز پرواز شوق ناز کیا باقی رہا ہوگا

قیامت ایک ہوائے تند ہے خاک شہیداں پر

پھر آنکھ کھل گئی۔

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی