آل احمد سرور

راوی، یادگار غالب میں حالی لکھتے ہیں، ’’مرنے سے کئی برس پہلے چلنا پھرنا موقوف ہوگیا تھا۔ اکثر اوقات پلنگ پر پڑے رہتے تھے۔ غذا کچھ نہ رہی تھی۔‘‘ ۱۸۶۶ء میں خواجہ عزیز لکھنوی لکھنو سے کشمیر جاتے وقت راستے میں غالب سے ملے تھے، مرزا صاحب کے پختہ مکان میں ایک بڑا پھاٹک تھا، جس کی بغل میں ایک کمرہ اور کمرے میں ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ اس پر ایک نحیف الجثہ آدمی، گندمی رنگ، اسی بیاسی سال کے ضعیف، لیٹے ہوئے، ایک مجلد کتاب سینے پر رکھے، آنکھیں گڑوئے ہوئے پڑھ رہے تھے۔ یہ غالب تھے، جو دیوانِ قاآنی ملاحظہ فرمارہے تھے۔

خواجہ عزیز، آداب بجا لاتا ہوں (زور سے ) آداب بجا لاتا ہوں (وقفہ)

غالب، تشریف رکھیے۔ بندہ پرور۔ یہ قلمدان اور کاغذ ہے۔ آنکھوں سے کسی قدر سوجھتا بھی ہے لیکن کانوں سے بالکل سنائی نہیں دیتا۔ جو کچھ میں پوچھوں اس کا جواب لکھ دو۔ کہاں سے آئے ہو کیا نام ہے۔ (وقفہ)

عزیز لکھنوی۔ مجھ سے ملنے آئے ہو تو ضرور کچھ نہ کچھ کہتے ہوگے۔ کچھ اپنا کلام بھی سناؤ۔

عزیز، ہم تو آپ کا کلام آپ کی زبان مبارک سے سننے کی غرض سے آئے تھے۔

غالب، بھئی کچھ تو سناؤ۔

عزیز، ایک مطلع یاد آیا ہے۔ وہ عرض کیے دیتا ہوں۔ محض تعمیل ارشاد ہے

مہ مصراست داغ ازرشک مہتابے کہ من دارم

زلیخا کو رشد از حسرت خوا بے کہ من دارم

غالب، سبحان اللہ! کیا مزے کا مطلع کہا ہے۔ بھائی تم تو خوب کہتے ہو (شعر دہراتے ہیں)

عزیز، اب آپ بھی کچھ ارشاد فرمائیے۔ مدت سے آرزو تھی کہ آپ کا کلام آپ کی زبان سے سنیں۔

غالب، کیا سناؤں میرا حال دیکھ ہی رہے ہو۔ ایک غزل کے چند شعر یاد آگئے۔ وہی سنائے دیتا ہوں،

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر

وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھریوں دم بدم نکلے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن

بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا

اگر اس طرہ پرپیچ و خم کاپیچ و خم نکلے

ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی

پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کا فرپہ دم نکلے

کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

عزیز، حضور آپ نے بڑا سرفراز کیا۔ گستاخی ہوتی ہے مگر ابھی سیری نہیں ہوئی۔

غالب، بھائی اب میں تھک گیا۔ ایک شعر اور سن لو۔ آج کل اکثر پڑھتا رہتا ہوں۔

زندگی اپنی جو اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

غالب، (بآواز بلند) کھانا لاؤ۔

عزیز، حضور تکلیف نہ کیجیے۔ ہم صرف تھوڑی دیر کے لیے اتر پڑے تھے۔ ریل کا وقت بالکل قریب ہے۔ بگھی سرائے میں کھڑی ہے۔ اسباب بندھا ہوا رکھا ہے۔ آپ سے ملنے کو آئے تھے۔ اب اجازت چاہتے ہیں۔

غالب، آپ کی غایت اس تکلیف سے یہ تھی کہ میری صورت اور کیفیت ملاحظہ فرمائیں، ضعف کی حالت دیکھی کہ اٹھنا بیٹھنا دشوار ہے۔ بصارت کی حالت دیکھی کہ آدمی کو پہچانتا تک نہیں ہوں۔ سماعت کی کیفیت ملاحظہ کی کہ کوئی کتنا ہی چیخے، خبر نہیں ہوتی۔ غزل پڑھنے کاانداز ملاحظہ کیا۔ کلام سنا۔ اب ایک بات رہ گئی ہے کہ میں کیا کھاتا ہوں۔ اس کو بھی ملاحظہ کرتے جائیے۔ صبح کو سات بادام کا شیرہ۔ قند کے شربت کے ساتھ۔ دوپہر کو ٹکے بھر گوشت کا گاڑھا پانی۔ کبھی دوچار پھلکے۔ قریب شام تین تلے ہوئے کباب۔ کچھ گھڑی رات گئے پانچ روپے بھر شراب۔ زندگی عذاب ہوگئی ہے۔ ہائے میرا ایک شعر ہے،

یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں

لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہوگئیں

(پھر ٹھہر ٹھہر کر گنگناتے ہیں)

راوی، غالب آگرے میں رونق افروز ہیں۔ دیوان سنگھ راجہ کے یہاں غالب کے اعزاز میں ایک مخصوص غیرطرحی مشاعرہ ہے۔ افہام الدین ساحر، احمد شیون، زین العابدین شورش، غلام غوث بے خبر، شریک ہیں۔ غالب باتیں کر رہے ہیں۔

غالب، بھئی ہم کو ابتدائے شباب میں ایک مرشد کامل نے نصیحت کی تھی کہ زہد و ورع منظور نہیں۔ تاہم قانع فسق و فجور ہیں۔ پیو۔ کھاؤ۔ مزے اڑاؤ۔ مگر یہ یاد رہے کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو۔ سو میرا اس نصیحت پر عمل رہا ہے۔ میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اور سوچتاہوں کہ اگر مغفرت ہوگئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی۔ اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگانی ہے۔ اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے ہے وہ حور جیرن ہوجائے گی۔ طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی۔ وہی زمردیں کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ، چشم بدور، وہی ایک حور۔

بے خبر، حضور ذرا اس حور کو بھی دیکھیے۔

غالب، کون؟

بے خبر، یہ درگا بائی صنم ہیں۔ واہ کیا سج دھج ہے۔ قشقے کی آب و تاب اور سبز دوشالے کی آن بان تو دیکھیے۔

صنم، آداب بجالاتی ہوں۔ آپ کا عرصہ سے شہرہ سناتھا، آج زیارت ہوئی۔

غالب، واہ، سیہ چوٹی، زرافشاں مانگ، سبز اس پر دوشالہ ہے

تماشا ہے پر طاؤس میں کالے کو پالا ہے

صنم، آپ کی ذرہ نوازی ہے۔

غالب، آپ ذرہ نہیں آفتاب ہیں۔ ہاں صاحب اب مشاعرہ شروع ہو۔ صنم صاحبہ آپ ہی شروع کیجیے۔

صنم، عرض کرتی ہوں،

کچھ دوائے دل و جگر نہ ہوئی

مر گئے تم انہیں خبر نہ ہوئی

دل و جاں ہجر میں گئے ایسے

ایک کو ایک کی خبر نہ ہوئی

رہیں اب دیر ہی میں چل کے صنم

اپنی کعبے میں تو بسر نہ ہوئی

غالب، سبحان اللہ۔ شاعرہ اور شعر دونوں کا جواب نہیں۔ خیر اب چند شعر میرے بھی سن لیجیے،

ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ہے خون جگر جوش میں دل کھول کے روتا

ہوتے جو کئی دیدۂ خونا بہ فشاں اور

مرتا ہوں ہر اک وار پہ ہرچند سراڑ جائے

جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

بے خبر، سچ ہے۔ غالب کا ہے انداز بیاں اور

(ہلکی موسیقی)

راوی، مفتی صدرالدین خاں آزردہ کی عدالت ہے۔ غالب کا مقدمہ پیش ہوتا ہے۔ الزام یہ ہے کہ انہوں نے شراب قرض لی اور دام نہ دے سکے۔

مفتی صدرالدین آزردہ، کہیے مرزا صاحب آپ کو اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے۔ استغاثہ کے گواہوں کے بیانات بالکل واضح ہیں۔

غالب، پیر و مرشد مجھے کچھ عرض کرنا نہیں۔ میرا ایک شعر ہے۔ اس وقت یاد آیا۔ وہ سنائے دیتا ہوں،

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

مفتی صاحب، مرزا صاحب کیا شعر کہا ہے۔ آپ جیسے شاعر بے بدل کے لیے عدالت میں اس طرح کھچا کھچا پھرنا آپ کی توہین ہے آپ تشریف لے جائیے۔ جرمانے کی رقم میں اپنے پاس سے ادا کیے دیتا ہوں۔

درباری کے ہلکے ہلکے سر آہستہ آہستہ بلند ہوجاتے ہیں۔

نقیب، نگاہ روبرو۔ اعلیٰ حضرت خطاب فرماتے ہیں۔

بہادر شاہ ظفر، اب مرزانوشہ کی باری ہے۔ مرزا صاحب اپنی غزل سنائیے۔ مگر ریختہ ہو فارسی نہیں۔

غالب، پیر و مرشد،

فارسی بیں تا بہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ

بگز راز مجموعۂ اردو کہ بے رنگ من است

ظفر، ما بدولت تو اردو میں شعر کہتے ہیں اور اسی کا شعر پسند کرتے ہیں۔

غالب، عرض کرتا ہوں،

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگراور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدہ پر جیے ہم تو یہ جان چھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جودوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

سبحان اللہ۔ سبحان اللہ

ظفر، بھئی ہم تو تب بھی ولی نہ سمجھتے۔

غالب، پیر و مرشد تو اب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں مگر یہ اس لیے ارشاد ہوا کہ میں اپنی ولایت پر کہیں مغرور نہ ہو جاؤں۔

ظفر، (ہلکا قہقہہ) مرزا نوشہ خدا تمہیں زندہ رکھے۔ بڑے ہی دل چسپ آدمی ہو اور بھئی پڑھتے تو خوب ہو۔

راوی، ۹ بجے صبح کا عمل ہے غالب کھانا کھانے اندر جاتے ہیں۔ چہرے پر پریشانی کے آثار ہیں۔ ایک طوطا سردی کی وجہ سے سمٹا سمٹایا پروں میں چونچ دبائے بیٹھا ہے۔

غالب، میاں مٹھو نہ تمہارے جورو نہ بچے تم کس فکر میں سرجھکائے بیٹھے ہو۔

امراؤبیگم، میں کہتی ہوں یہ تمہیں ہو کیا گیا ہے۔ اور کچھ نہ ملا تو اس طوطے کے پیچھے پڑگئے۔

غالب، تو کیا جھوٹ کہتا ہوں۔ میرا ایک فارسی کا قطعہ ہے،

بہ آدم زن بہ شیطان طوق لعنت

سپر دنداز رہِ تکریم و تذلیل

ولیکن درا سیری طوقِ آدم

گراں تر آمد از طوقِ عزازیل

امراؤ، ہاں ہاں تم تو مجھے طوق لعنت سمجھتے ہو۔ میں تو روز خدا سے دعا مانگتی ہو ں کہ مجھ گناہ گار کو اس دنیا سے اٹھالے یا تمہاری اصلاح کردے۔ بوڑھے ہونے کو آئے۔ قبر میں پیر لٹکائے بیٹھے ہو۔ مگر یہ موئی شراب ایسی منہ سے لگی ہے کہ چھوٹتی ہی نہیں۔

غالب، تمہیں کیا۔ تم نے تو اپنے کھانے پینے کے برتن الگ کر ہی لیے۔

امراؤ، (تیز ہوکر) کیوں نہ کرتی۔ ہاں خوب یاد آیا۔ تم نے مجھے اس مکان کی محل سرا دیکھنے کو بھیجا تھا۔ ابھی دیکھ کر آئی ہوں۔ تم کہتے تھے دیوان خانہ بہت اچھا ہے۔ محل سرا بھی بری نہیں، میرا کیا ہے میں تو کرائے کے مکان میں رہنے کی عادی ہوچکی ہوں۔ مگر میں نے سنا ہے اس مکان میں کوئی بلا ہے۔

غالب، کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے۔

امراؤ، یہی تو تمہاری باتیں مجھے پسند نہیں۔ پھر چھیڑخانی پر اترآئے۔

غالب، میں ہوں ہنسوڑ اور تو ہے مقطع، میرا تیرا میل نہیں۔

امراؤ، سنا ہے شہر میں وبا پھیل گئی ہے۔ ہیضے سے برابر موتیں ہو رہی ہیں۔ تم تو باہر دوست احباب میں دل بہلاتے رہتے ہو۔ میں گھر میں پڑی دہلا کرتی ہوں۔

غالب، کیسی وبا۔ جب ایک ستر برس کے بڈھے اور ستر برس کی بڑھیا کو نہ مار سکے تو تف ہے، اس وبا پر۔ اچھا اب میں باہر جاتا ہوں۔ تمہارے وظیفے کو دیر ہوتی ہوگی۔ (موسیقی)

راوی، شیفتہ کے مکان پر مہمان جمع ہیں۔ مفتی صدرالدین آزردہ، مولوی فضل حق، مصطفے ٰ خاں شیفتہ، اردو دیوانِ غالب کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

آزردہ، مرزا صاحب بیدل کا رنگ آپ نے خودہی ترک کردیا ہے۔ انتخاب میں ایسے اشعار سب نکال دیجیے۔

غالب، کیوں بھئی مصطفے ٰ خاں تمہاری کیا رائے ہے۔ بھئی تم تو جانتے ہو تمہاری رائے پر مجھے کتنا اعتماد ہے۔

شیفتہ، پیرومرشد یہ آپ کی محبت ہے کہ میری ناچیز رائے کو اس قدر وقعت دیتے ہیں۔ آپ خودہی فیصلہ کیجیے کہ آپ کے رنگ میں پہلے سے تبدیلی ہوئی ہے کہ نہیں۔

غالب، کیوں نہیں۔ میری طبیعت اگرچہ ابتدا سے نادرخیالات کی جویا تھی لیکن آزادہ روی کے سبب سے زیادہ تر ان لوگوں کی تقلید کرتا رہا جو سیدھے راستے سے ہٹ گئے تھے۔ آخر جب ان لوگوں نے جو اس راہ میں پیش رو تھے دیکھا کہ میں باوجود اس کے کہ ان کے ہمراہ چلنے کی قابلیت رکھتا ہوں اور پھر بھی بے راہ سا بھٹکتا پھرتا ہو، تو ان کو میرے حال پررحم آیا اور انہوں نے مجھ پر مربیانہ نظر ڈالی۔ شیخ علی حزیں نے مسکرا کر میری بے راہ روی مجھ کو جتائی۔ طالب آملی اور عرفی شیرازی کی غضب آلود نگاہ نے آوارہ پھرنے کا جو مادہ مجھ میں تھا، اس کو فنا کر دیا۔ ظہوری نے میرے بازو پر تعویذ اور کمر پر زادراہ باندھا اور نظیری نے اپنی روش خاص پر چلنا مجھے سکھایا۔ اب میں نے وہ رنگ اختیار کیا ہے کہ فارسی کو بھی ریختے پر رشک آئے۔

آزردہ، مگر مرزا صاحب یہ سچی بات تو ہے کہ آپ بہت عرصے تک بھٹکتے رہے ہیں اور اب بھی سیدھی راہ پر نہیں آئے ہیں۔

شیفتہ، مرزا صاحب کا یہ شعر آپ نے سنا ہے

لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا

لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب ہیں

آزردہ، واہ کیا شعر ہے۔ یہ شاعری نہیں اعجاز ہے۔ مگر مرزا صاحب یہ تو آپ کا رنگ نہیں، خاص ہماری طرز کا شعر ہے۔

غالب،

تو اے کہ محو سخن گستران پیشینی

مباش منکر غالب کہ درزمانہ تست

فضل حق، مرزا صاحب آزردہ کی رائے صحیح ہے۔ آپ کو یاد نہیں جب آپ اکبر آباد سے آئے تھے تو یہاں کے مشاعروں میں آپ کی مشکل پسندی پر کس قدر طنز و تعریض ہوتی تھی۔ ملا عبدالقادر رامپوری نے تو ایک بے معنی شعر آپ سے منسوب ہی کر دیا تھا۔ اگر آپ چاہیں تو نمونے کے طور پر چند شعر بیدل کے رنگ کے رہنے دیں۔ ورنہ اردو دیوان میں تو آپ کو موجودہ رنگ میں زیادہ جلوہ گر ہونا چاہیے۔

غالب، اچھا بھائی تم اور شیفتہ مل کر میرے ریختے کا انتخاب کردو۔ پھر میں اسے ایک نظر دیکھ لوں گا۔ اور اس کے بعد دیوان چھاپے خانے کو دے دیا جائے گا۔ تم دونوں کی نکتہ سنجی اور ذوق سخن کا میں قایل ہوں۔

فضل حق، ابھی نواب صاحب نے آپ کا جو شعر سنایا تھا، اس غزل کے اور شعریاد ہوں تو سنائیے۔ اس زمین میں مومن اور ذوق کی بھی مشہور غزلیں ہیں۔

غالب، میرا بھی دوغزلہ ہے۔ مگر بھائی اب حافظہ کمزور ہوگیا ہے چند ہی شعر یاد ہیں۔ وہ سن لو،

ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں

کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام

ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا

لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں

وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے

جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہیں

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

فضل، کیا کہنے ہیں مرزا صاحب دریا کو کوزے میں بند کرنا یہی ہے۔

راوی، غروب آفتاب کے وقت غالب کھانا کھارہے ہیں۔ حالی کے ساتھ دوسرے شاگرد بھی موجود ہیں، حالی رومال سے مکھیاں جھل رہے ہیں۔

غالب، آپ ناحق تکلیف فرماتے ہیں۔ میں ان کبابوں میں سے آپ کو کچھ بھی نہ دوں گا۔ (ہنس کر) بھئی آپ نے نواب عبداللہ خاں کا قصہ سنا ہے۔ ان کے دسترخوان پر سب کے لیے ہر قسم کے کھانے ہوتے تھے۔ مگر خاص ان کے لیے ہمیشہ ایک ہی چیز تیار ہوتی تھی۔ ایک دن مز عفر ان کے سامنے آیا۔ مصاحبوں میں سے ایک ڈوم بہت منہ لگا ہوا تھا۔ نواب صاحب نے اس کو کھانا دینے کے لیے خالی رکابی مانگی۔ جس کے آنے میں کچھ دیر ہوئی۔ نواب کھاتے جاتے تھے اور خالی رکابی بار بار مانگتے تھے۔ مصاحب نواب کے آگے رومال ہلانے لگا اور کہا، ’’حضور اور رکابی کیا کیجیے گا۔ اب یہی خالی ہوئی جاتی ہے۔ نواب یہ فقرہ سن کر پھڑک گئے اور وہی رکابی اس کی طرف سرکادی۔ (تھکے ہوئے لہجے میں) لو بھئی اب میں ذرا آرام کرنا چاہتا ہوں، پیر کی ٹیس ہوش اڑائے دیتی ہے (کراہ کر) تم لوگ میرے قریب آجاؤ باتیں کرنے سے طبیعت بہلی رہے گی۔

مجروح، لائیے میں آپ کے پاؤں دبادوں۔

غالب، بھئی تو سید زادہ ہے مجھے کیوں گنہ گار کرتاہے

مجروح، ایسا ہی ہے تو مجھے کچھ اجرت دے دیجیے گا۔

غالب، اچھا یہی سہی۔

حالی، واہ کیا خوشگوار ہوا ہے۔ آسمان کو دیکھیے کیا نکھرا ہوا ہے۔

غالب، جو کام خود رائی سے کیا جاتاہے، اکثر بے ڈھنگا ہوتاہے۔ ستاروں کو دیکھیے کس ابتری سے بکھرے ہوئے ہیں نہ تناسب ہے نہ انتظام۔ نہ بیل ہے نہ بوٹا۔ مگر بادشاہ خود مختار ہے کوئی دم نہیں مارسکتا۔ (ہلکا قہقہہ)

حالی، آپ کا ایک شعر میری سمجھ میں نہیں آیا۔

غالب، تو کیا تعجب ہے۔ میری زندگی بھی تو تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ اچھا وہ کیا شعر ہے۔

حالی،

قمری کفِ خاکستر و بلبل قفس رنگ

اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے

غالب، ارے بھائی اے کی جگہ جُز پڑھو معنی خود سمجھ میں آجائیں گے۔

حالی، اگر آپ اے کی جگہ جز کا لفظ رکھ دیتے یا دوسرا مصرع اس طرح کہتے کہ ’’اے نالہ نشاں تیرے سوا عشق کاکیا ہے‘‘ تو کیا حرج تھا۔

غالب، تم ٹھیک کہتے ہو۔ مطلب تو واضح ہوجاتا مگر میری انفرادیت کا خون ہو جاتا۔ میں شارع عام پر چلنے سے بچتاہوں۔ میں نے ایک دفعہ اپنے مرنے کی تاریخ کہی تھی۔ غالب مرد۔ اسی سال شہر میں وبا پھیلی۔ سال گزرنے پر کسی نے کہا کہ حضرت آپ نے تو اپنے مرنے کی تاریخ بھی کہہ لی تھی۔ پھر یہ کیا ہوا۔ میں نے اسے لکھا کہ لسان الغیب کی بات غلط نہیں ہوسکتی، مگر وبائے عام میں مرنا میری شان کے خلاف تھا۔ میں طرز خیال میں جدت اور طرفگی دیکھتا ہوں۔ شاعری کو معنی آفرینی سمجھتا ہوں قافیہ پیمائی نہیں۔ میں ایسی رعایتوں کو جو ہرشخص کو سوجھ جائیں مبتذل جانتا ہوں۔ ایک شخص نے ایک دفعہ ایک شعر کی میرے سامنے بہت تعریف کی۔ میں نے پوچھا کہ ارشاد تو ہو وہ کون سا شعر ہے اس نے میرا مانی اسد کا یہ شعرسنایا،

اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی

مرے شیر شاباش رحمت خدا کی

مجھے اس پر بہت غصہ آیا۔ بے ساختہ زبان سے نکلا کہ حضرت اگر یہ کسی اور اسد کا شعر ہے تو اس پر رحمت خدا کی اور اگر مجھ اسد کا شعر ہے تو مجھ پر لعنت خدا کی۔ میرے شیر اور رحمت خدا کی۔ ایسے محاورے جو عامیوں اور سوقیوں کی زبان پر جاری ہیں میرے شعر کی شریعت میں حرام ہیں۔ میں تو جہاں صل علیٰ بھی اپنے کسی شاگرد کے یہاں لکھا دیکھتا ہوں اسے نام خدا کر دیتا ہوں۔ مدح و ستایش کی مجھے پروا نہیں تحسین ناشناس کا میں قایل نہیں،

نہ ستایش کی تمنا نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں میرے اشعار معنی نہ سہی

اچھا بھئی میر مہدی اب تم بس کرو۔ تھک گئے ہوگے۔

مجروح، حضور میرے پیر دابنے کی اجرت۔

غالب، بھیا کیسی اجرت۔ تم نے میرے پاؤں دابے۔ میں نے تمہارے پیسے دابے۔ حساب برابر ہوا۔ (قہقہہ)

راوی، ۱۸۶۰ء۔ غدر کا ہنگامہ فرو ہو چکا ہے، مگر دہلی پر ہر سو ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ جان و مال، آبرو کچھ محفوظ نہیں۔ غالب نے میر مہدی مجروح کو خط لکھا ہے۔ مجروح اپنے احباب کو پڑھ کر سنا رہے ہیں۔

مجروح، بھائی کیا پوچھتے ہو۔ کیا لکھوں۔ دلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر ہے۔ قلعہ، چاندنی چوک، ہر روز مجمع جامع مسجد کا، ہر ہفتے سیر جمنا کے پل کی، ہر سال میلا پھول والوں کا۔ یہ پانچوں باتیں اب نہیں۔ پھر کہو دلی کہاں۔ پرسوں میں سوار ہو کر کنووں کا حال دریافت کرنے گیا۔ مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازہ تک بلامبالغہ ایک صحرا لق و دق ہے۔ اینٹوں کے ڈھیر جو پڑے ہیں وہ اگر اٹھ جائیں تو ایک ہوکا عالم ہوجائے۔ قصہ مختصر شہر صحرا ہوگیا۔ اب جو کنویں جاتے رہے اور پانی گوہر نایاب ہوگیا تو یہ صحرا صحرائے کربلا ہوجائے گا۔ اللہ اللہ دلی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہتے ہیں واہ رے حسن اعتقاد۔ بندۂ خدا۔ اردو بازار نہ رہا۔ اردو کہاں۔ دلی کہاں۔ واللہ اب شہر نہیں ہے۔ کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے۔ نہ قلعہ نہ شہر۔ نہ بازار۔ نہ شہر۔

مجروح، ہائے کیا تھا کیا ہوگیا۔

حالی، تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ۔ نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز۔ غالب کا آخری زمانہ ہے ضعف بہت بڑھ گیا ہے۔ اکثر پلنگ پر لیٹے لیٹے گزرتی ہے۔ اس وقت منشی ہرگوپال تفتہ آئے ہوئے۔ ہیں ان سے باتیں ہو رہی ہیں۔

غالب، میں تو بنی آدم کو مسلمان ہو یا ہندو، یا نصرانی، عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی گنتا ہوں۔ دوسرا مانے یا نہ مانے۔ باقی رہی وہ عزیز داری جس کو اہل دنیا قرابت داری کہتے ہیں۔ اس کو قوم اور ذات اور مذہب اور طریقت شرط ہے اور اس کے مراتب و مدارج ہیں۔ دنیا دار نہیں ہوں، فقیر خاکسار ہوں۔ قلندری و آزادگی و ایثار و کرم کے جو دواعی میرے خالق نے مجھ میں بھر دیے ہیں بقدر ہزار ایک بھی ظہور میں نہ آئے۔ نہ وہ طاقت جسمانی کہ لاٹھی ہاتھ میں لوں اور اس میں شطرنجی اور ٹین کا لوٹا، سوت کی رسی لٹکا لوں اور پا پیادہ چل دوں۔ کبھی شیراز جا نکلا۔ کبھی مصر میں جاٹھیرا۔ کبھی نجف جا پہنچا۔ نہ وہ دست گاہ کہ ایک عالم کا میزبان بن جاؤں۔ اگر تمام عالم میں نہ ہوسکے نہ سہی جس شہر میں رہوں اس شہر میں تو ننگا بھوکا نظر نہ آئے۔

تفتہ، حضور وہ میری غزل پر اب تک اصلاح نہ ہوئی۔ میں چاہتا تھا کہ تیسرا دیوان جلد مرتب کرلیتا۔

غالب، مرزا تفتہ تم مشق سخن کر رہے ہو اور میں مشق فنا میں مستغرق ہوں۔ بوعلی سینا کے علم اور نظیری کے شعرکو ضایع اور بے فائدہ اور موہوم سمجھتا ہوں۔ زیست بسر کرنے کو تھوڑی سی راحت درکار ہے۔ باقی حکمت اور سلطنت اور شاعری اور ساحری سب بیکار ہے۔ ہندوؤں میں اگر کوئی اوتار ہوا تو کیا اور مسلمانوں میں نبی بنا تو کیا۔ دنیا میں نام آور ہوئے تو کیا اور گم نام رہے تو کیا۔ کچھ معاش ہو کچھ صحت جسمانی، باقی سب وہم ہے اے یار جانی۔ اچھا بھائی اب میں تھک گیا۔

راوی، غالب بستر مرگ پر ہیں۔ بڑی دیر کے بعد ہوش آیا ہے۔ حالی اور دوسرے احباب پاس بیٹھے ہیں۔ غالب علائی کے خط کا جواب لکھوا رہے ہیں۔

(نحیف آواز میں اور ٹھیر ٹھیر کر) جان غالب۔ تم میرا حال کیا پوچھتے ہو۔ دو چار دن میں ہمسایوں سے پوچھنا۔ ہائے۔ ہائے۔

دم واپسیں بر سر راہ ہے

عزیز و اب اللہ ہی اللہ ہے

(حزینہ موسیقی آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے )