پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی
”رشید احمد صدیقی کے کسی شاگرد نے ان سے سوال کیا۔
’عورتوں کا قبرستان میں جانا کیوں منع ہے؟‘
رشید صاحب نے برجستہ جواب دیا ”زندہ عورتوں کا“۔
طنزوظرافت کا یہ تخلیقی سفر دبستانِ علی گڑھ کے علمی شہ پاروں سے تعبیرہے، جس کے لطیف ابتدائی علمی نمونے حالیؔ اور شبلیؔ کی تحریروں، تہذیب الاخلاق کے اِداریوں اور مضامین میں ملتے ہیں۔
سرسیّداحمدخاں، شبلیؔ، حالیؔ، ڈپٹی نذیراحمد، سجاد حیدریلدرم، سلطان حیدر جوشؔ، محمد علی جوہرؔ، محفوظ علی بدایونی، رشید احمدصدیقی، احمدجمال پاشا، مشتاق احمد یوسفی اور مختارمسعود نے اپنے گراں قدر لطیف علمی فن پاروں کے ذریعے اس فن کو استحکام بخشا اور مثبت روایت قائم کی۔ بیسویں صدی کے اواخر میں قمرالہدیٰ فریدی نے اس روایت کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی۔
سلطان حیدرجوش نے اپنی معیاری تحریروں سے مزاح کے ذریعے اصلاحی پہلو تلاش کیے۔ پہلی کتاب ”ہوائی‘‘منظرعام پر آئی۔ بعدازاں دو اور کتابیں ”نقش و نقاش“ اور ”نواب فرید“ شائع ہوئیں۔ نقش ونقاش کا ابتدائیہ ’عینک‘ دلچسپ اور توجہ طلب ہے۔ سلطان حیدر جوش کی علمی تحریروں میں سنجیدہ موضوعات پر مزاحیہ پہلو قاری کے ذہن کو تازہ کاری کا احساس دلاتے ہیں۔ طنز میں مزاح اور مزاح میں طنز پیدا کرنا ان کا فنی امتیاز ہے۔ چند مثالیں دیکھئے:
”سائنس یہ صاف طور پر بتاتی ہے کہ دو طاقتیں جب ایک دوسرے سے زبردست ٹکرائیں تو یقینا کمزور کو پسپا کردیتی ہیں۔ اب کوئی وجہ نہیں کہ مہذب دنیا ہمیشہ طاقتور کا ساتھ نہ دے کیوں کہ کمزور کی حمایت نہایت غیرضروری اور اصولِ سائنس کے خلاف ہے“۔ (مضمون:اتفاقات)
”فی زمانہ اگر تعلیم اس حد تک پہنچ گئی کہ قلی بھی انٹرنس پاس سے کم نہیں لیا جاتا تو ممتحن کا فعل برید بھی اس درجہ بڑھ گیا ہے کہ اگر سولہ لڑکے انٹرنس میں شامل ہوں تو ایم اے پاس کرنے تک بلامبالغہ ایک ذات واحد رہ جائے گا“۔ (مضمون: سنسر)
’جوشِ فکر‘ اور ’فسانہ‘ ان کے مضامین کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ان میں طنزومزاح کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ سلطان حیدر جوش بصارت سے بصیرت کا کام لیتے ہیں۔مضمون ’قرض و مقراض‘ میں طنز اور رمز کا ایک خوبصورت نمونہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”زمانے تین طرح کے ہوتے ہیں ماضی، حال اور استقبال۔ زمانہئ گذشتہ تاریخ ہے، موجودہ کا حال روشن ہے اور مستقبل کو نتیجہئ حال کہنا چاہیے“۔ (مضمون: قرض و مقراض)
سلطان حیدر جوش کی تحریروں میں طنز، خالص مزاح اور رمز کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں لیکن کہیں کہیں ان کا طنز، مزاح سے دامن چھڑاکر زہرناکی کی سرحدوں تک جاپہنچتا ہے۔ سلطان حیدر جوش مشرقی طرز کے مزاح نگار تھے۔ انھوں نے مغربی تہذیب کے خلاف گہرے طنز کیے ہیں۔
سجادحیدر یلدرم نے علی گڑھ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ چند برس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں رجسٹرار کے عہدے پر فائز رہے۔ جزوی طور پر صدر شعبہئ اردو کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ مختلف ممالک کا دورہ کیا۔ ترکی میں قیام کے دوران ترکی زبان میں استعداد حاصل کی۔ یلدرم، ترکی زبان کا لفظ ہے۔ وہ دبلے پتلے منحنی جسم تھے، ترکی ٹوپی پہنتے تھے۔یلدرم نے ترکی افسانہ ’آسیب‘ کا اردو ترجمہ کیا۔ اس افسانے میں عشق ومحبت کے عنصر کو آسیب اور مردوں کی ارواح کے تخیل سے ملایا گیا ہے۔ ابتدأ میں افسانہ پڑھتے وقت قدرے اُلجھن ہوتی ہے لیکن آہستہ آہستہ دلچسپی پیدا ہونے لگتی ہے۔
’ثالث بالخیر‘ ترکی افسانہ نگار احمد حکمت کے مشہور ناول کا ترجمہ ہے۔’حکایات و احتسابات‘ یلدرم کے علمی مضامین کا مجموعہ ہے جو الناظر پریس سے شائع ہوا۔
’یلدرم کی تحریروں میں ایک بڑی بات یہ ہے کہ وہ صرف پُرمعنی ہی نہیں بلکہ معنی خیز ہیں۔ صرف معنی خیز ہی نہیں خیال انگیز ہیں، گویا یہ خیالات ہی نہیں بلکہ خیالات کے تخم بھی ہیں“۔ (نیرنگ)
یلدرم نے اپنی مؤثر نثری تحریروں کے ذریعے ظرافت کے سنجیدہ اور شائستہ پہلو تلاش کیے۔ ان کے چند اہم طنزیہ مضامین میں حضرتِ دل کی سوانح عمری، حکایاتِ لیلیٰ ومجنوں، سفر بغداد اور زیارتِ قاہرہ اہم ہیں۔ ان مضامین کی طنزیہ ادبی نثر سے یلدرم کی عالمانہ فکر اور ظریفانہ لطافت کا اندازہ ہوتا ہے۔
سرسیّد کی تحریروں میں تیکھے مگر شائستہ نشتروں کے علاوہ مزاح کے لطیف نمونے بھی موجود ہیں۔ ان کے مضامین میں بحث و تکرار اہم ہے۔ سرسیّد نے اپنے مخالفین کو طنزیہ و مزاحیہ انداز میں نشانہ بنایا ہے یا بعض اوقات تحریف کے انداز میں مدبرانہ اظہارِ خیال کیا ہے۔
مولانا شبلی کا شمار علی گڑھ کالج کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ وہ اعلیٰ پائے کے ظرافت نگار اور صاحبِ طرز ادیب تھے۔ شبلیؔکی تحریریں سنجیدہ اور علمی طنز کا عمدہ نمونے پیش کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنے دور کی معاشرت کو مؤثر طنزیہ پیرائے میں پیش کیا ہے۔
شبلیؔ کے یہاں ظرافت سے زیادہ طنز وتعریض کا پہلو نسبتاً نمایاں نظر آتا ہے۔ بایں ہمہ ان کے مزاج میں شوخی اور شگفتگی موجود ہے۔ شبلیؔ کے خطوط اور سیاسی نظمیں مثلاً مولویوں کا شغلِ تکفیر اور صلح کانفرنس کی شکست اور جنگ کا آغاز طنز کے اعلیٰ نمونے پیش کرتے ہیں۔
نذیراحمد بنیادی طور پر ناول نگار تھے لیکن ان کی تحریروں اور خصوصاً ناولوں میں طنزومزاح کے عمدہ اور شائستہ نمونے موجود ہیں۔ انھوں نے ناول میں کرداروں کے ذریعے مناسب موقعوں پر طنزیہ جملوں کا برمحل استعمال کیا ہے۔
حالیؔ کی عالمانہ تنقیدی بصیرت میں اصلاحی طنز اور مزاحیہ تنقید کا پہلو کارفرما نظر آتا ہے۔ ان کی ایک مشہور نظم ’کالے اور گورے کی صحت کا میڈیکل امتحان‘ توجہ طلب ہے۔ اس نظم کے سیاسی تناظر میں لطیف عالمانہ طنز ملتا ہے۔ مسدس حالیؔ میں ملتِ اسلامیہ پر اصلاحی نوعیت کا لطیف طنز خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی حسِ مزاح پر دلالت کرتا ہے۔
حالیؔ مثبت، صحت مند، معروضی اور معتدل طنزومزاح نگار تھے۔ ان کے یہاں مزاح کا مقصد استہزا ہرگز نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون ’مزاح‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ وہ اپنی نظموں، رباعیات اور نثرپاروں میں سماج کی اخلاقی پستی کو طنزیہ پیرایہ میں بیان کرتے ہیں اور کہیں کہیں لطیفوں اور مثالوں کا سہارا بھی لیتے ہیں۔
محفوظ علی بدایونی نے علی برادران کے ساتھ سیاست میں بھی حصّہ لیا اور خلافت تحریک کے دوران ’ہمدرد‘ میں طنزیہ و مزاحیہ مضامین شائع کرائے۔ محفوظ علی بدایونی کا ایک طنزیہ کالم ’ہمدرد‘ میں ’تجاہلِ عامیانہ‘ کے عنوان سے پابندی کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ اس کالم کا منفرد اسلوب اور دلچسپ انداز عوام میں بہت پسند کیا گیا۔
ہمدرد، نقیب، الناظر، علی گڑھ میگزین اور دکن میں شمع بے نور، ملائے سومالی، ملا علی کاتب بودھا موی اور ملا علی آقِ سقال وغیرہ فرضی ناموں سے اپنے مضامین شائع کراتے تھے۔مضامینِ محفوظ کے نام سے انجمن ترقی اردو ہند نے ان کے مضامین کا مجموعہ بھی شائع کیا تھا۔
محفوظ علی بدایونی نے سیاسی مباحث پر متعدد مضامین لکھے۔ تجاہلِ عامیانہ کا غیرمعمولی جلسہ، کاروائی جلسہ، حاجی صاحب کی تقریر اور کاروائی جلسہ، حاجی صاحب کی تقریر جنگ پر، بلبلانِ اسیر کی رہائی اور مسٹر صاحب دین مضامین قابل ذکر ہیں۔
علی برادران کی جیل سے رہائی پر اپنے ایک مضمون ”بلبلانِ اسیر کی رہائی“ میں لکھتے ہیں:
”بچہ: ابا جان! یہ کیا کام کرتے ہیں؟
باپ: اس ملک کے ہندو مسلمانوں کی خدمت کرتے ہیں۔
بچہ: تو کیا جسے ضررت ہو سودا سلف لا دیتے ہیں۔
باپ: ہماری محبت تو انھیں ایسی ہی ہے کہ اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن اصل میں یہ اور بڑے بڑے بھاری کام کرتے ہیں۔
بچہ: تو کیا یہ بوجھ اُٹھاتے ہیں؟
باپ: (آنکھوں میں آنسو آگئے) حقیقت میں یہ بڑے بھاری بھاری بوجھ اُٹھاتے ہیں“۔
محفوظ علی بدایونی کی شائستہ طنزیہ تحریریں اصلاحِ معاشرہ اور قومی و ملّی تحریکات کے لیے معاون ثابت ہوئیں۔ انھوں نے پردہئ خفا میں رہ کر فنِ طنزوظرافت کی بے لوث خدمت کی۔محفوظ علی بدایونی کے مزاح کا عنصر طنز کے تیکھے پن کو بے اثر کردیتا ہے۔ انھوں نے معمولی سماجی اور مذہبی مسائل کو طنزوظرافت کے انداز میں سنجیدگی کے ساتھ برتا ہے۔
ظفرعلی خاں نے اپنی صحافتی تحریروں اور خصوصاً نظموں میں اس دور کے سیاسی حالات و کوائف کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ ظفرعلی خاں سنجیدہ طنزومزاح نگار ہیں۔
ظفرعلی خاں کی طنزیہ شاعری کی عمدہ مثالیں ”بہارستان اور نگارستان“ میں ملتی ہیں مثلاً قانون وقت، اسیرانِ فرنگ، جنگِ طرابلس، گاندھی اور مالوی، قادیانی خرافات، مسجد شہید گنج کی شہادت، لندنی معشوق اور دہلوی عاشق، وہ اور ہم، مولوی اور مالوی، اور احرار کا جنازہ۔ ان نظموں میں انگریزوں کی حکمتِ عملی اور بے جا رویے پر گہرا طنز ملتا ہے۔ ’زمیندار‘ میں متعدد طنزیہ ومزاحیہ مضامین اور شعری طنزیہ تخلیقات شائع ہوئیں۔ مولانا ظفرعلی خاں کا ڈرامہ ”ایڈیٹر کا حشر“ اور اودھ پنچ کے ظرافت مآب صحافت پر قومی تعلیم کا سنگِ بنیاد اہم ہیں۔
ظفرعلی خاں کی ایک مشہور طنزیہ نظم کے چند اشعار دیکھئے:
اشنان کرنے گھر سے چلے لالہ لال چند
اور آگے آگے لالہ کے ان کی بہو گئی
نیچی نظر سے کہنے لگے وہ بھی چوگئی
پوچھا جو میں نے لالہ للائن کہاں گئی
وہ ہندوستانی تہذیب کے تناظر میں سماج کی برائیوں پر کاری ضرب کے طنزیہ نشتر نہایت شوخ انداز میں اس طرح لگاتے ہیں کہ تحریر میں قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔
رشیداحمد صدیقی کے ذکر کے بغیر اردو طنزومزاح کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ ان کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع اور متنوع ہے۔ طنزیہ تحریروں میں عالمانہ شان اور علی گڑھ کی اقامتی زندگی کا بیان ان کی تحریر کو دلچسپ بنا دیتا ہے۔لطیف طنز، شائستہ مزاح اور لفظی صنعت گری ان کا خاص انداز ہے۔رشید احمد صدیقی اپنا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”طنزوظرافت کی میری ابتدائی مشق کچی بارک اور ڈائننگ ہال سے شروع ہوئی“۔
علی گڑھ کے علمی و تہذیبی ماحول کو رشیداحمد صدیقی نے گل منزل، سرگزشتِ عہد گل اور سلام نجد پر کے عنوان سے طنزومزاح کے پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ علی گڑھ ان کے تخلیقی سرچشموں کا منبع وماخذ رہا۔آشفتہ بیانی میری، گنج ہائے گراں مایہ، طنزیات و مضحکات، ہم نفسانِ رفتہ، خنداں، نقش ہائے رنگ رنگ، اور مضامین رشید احمد صدیقی کی بزلہ سنجی، شگفتہ بیانی، لطیف طنز اور شائستہ مزاح کی بہترین مثالیں پیش کرتے ہیں۔
دھوبی، چارپائی، پاسبان، ارہر کا کھیت، گواہ، ریڈیو سننے والے اور اگر ڈاکٹر نہ ہوتے، مضامین سے چند مثالیں ذیل میں مثال کے طور پر پیش کی جارہی ہیں:
”ہر انسان پیدائشی جھوٹا اور ہرگواہ اصولاً سچا ہوتا ہے“۔ (گواہ)
”اگر ڈاکٹر نہ ہوں تو موت آسان اور زندگی دلچسپ ہوجائے“۔ (اگر ڈاکٹر نہ ہوتے)
رشید احمد صدیقی اپنے کرداروں کے ذریعے واقعات سے مزاح پیدا کرتے ہیں اور پورے سماج کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور معمولی بات کو موضوع بناکر اصلاحی پہلو بھی تلاش کرلیتے ہیں۔رشیداحمد صدیقی کے برجستہ خوب صورت تخلیقی جملے طنزوظرافت کے حسن میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔ ان کی ظریفانہ تحریروں سے چند اقتباسات دیکھئے:
”انگریزوں کو آئی سی ایس نے خراب کیا، عشاق کو شعراء نے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہندوستان کو شعراء اور آئی سی ایس کے اثر سے آزاد کردیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ سوراج مل جائے گا۔ انگریزوں میں عشاق اور عشاق میں انگریز بننے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی“۔ (مضامینِ رشید)
”علی گڑھ میں نوکر کو آقا ہی نہیں، آقائے نامدار بھی کہتے ہیں۔ اور وہ لوگ کہتے ہیں جو آج کل خود کو آقا کہلاتے ہیں یعنی طلبہ! اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نوکر کا کیا درجہ ہے۔ پھر ایسے آقا کا کیا کہنا جو سپید پوش واقع ہو“۔ (دھوبی)
”ارہرکا کھیت دیہات کی زنانہ پارلیمنٹ ہے۔ کونسل اور اسمبلی کا تصور یہیں سے لیا گیا ہے۔ گاؤں کا چھوٹا بڑا واقعہ یہاں معرضِ بحث میں آتا ہے۔ سکھیا کے حمل کیسے ٹھہرا، پٹواری کی بیوی نے اس سال کون کون سے زیور بنوائے وغیرہ“۔ (ارہر کا کھیت)
رشید احمد صدیقی کی لطیف مزاحیہ تحریریں، مضامین، انشایئے اور خاکے اردو طنزوظرافت کی تاریخ میں منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ بہ قول رشید احمد صدیقی:
”اردو جاننا اور علی گڑھ سے واقف نہ ہونا بجائے خود کسی فتور کی علامت ہے۔ اردو کا ایک نام علی گڑھ بھی ہے“۔
مولانا محمد علی جوہر عظیم مجاہد آزادی، معروف صحافی اور تخلیق کار تھے۔ انھوں نے تحریکِ آزادی کے فروغ اور قومی شعورکی بیداری کے پیشِ نظر اخبار ’ہمدرد‘ جاری کیا۔ اس اخبار کے ذریعے انھوں نے طنزومزاح کے پیرائے میں انگریزوں کو ہدف بنایا۔محمد علی جوہرؔ ہمدرد کے ۹۲/جنوری ۸۲۹۱ء کے شمارے میں انگریزوں کی سفاکانہ ریشہ دوانیوں پر اپنے اداریے میں طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”حسرتؔ صاحب (مولانا حسرتؔ موہانی) چاہتے ہیں کہ کمیشن کا ایک ڈاک خانہ بنایا جائے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ سے بنائے ہوئے دستورِ اساسی کے تیار ہونے تک جسے حسرتؔ صاحب اس کمیشن کے منھ پر پھینکنے کے لیے ہم سے کہتے ہیں، ہم ایک پوسٹ کارڈ ڈاک خانے میں ڈال دیں جس میں لکھا ہوکہ ہم تمہارا خیرمقدم نہیں کرسکتے۔ یہ پوسٹ کارڈ صرف ۳/فروری کی ہڑتال ہوگی“۔
مولانا محمد علی جوہرؔ کی اس تحریر میں انگریز حکومت پر تیکھا احتجاجی طنز اور استہزا کا پہلو شامل ہے:
”اگر کمیشن کا ہر رکن ہندوستانی ہوتا تب بھی ہمیں کمیشن ہرگز قبول نہ ہوتا۔ اس لیے کہ اگرچہ خوش دامن صاحبہ تشریف نہ رکھتیں تاہم فیصلہ میاں بیوی کے ہاتھ میں نہ ہوتا بلکہ ہندو مسلمان دونوں بیویاں بن جاتے اور سوکنوں اور بیرنوں کی طرح لڑتے اور فیصلہ میاں کرتے۔ اگر ہم دونوں اتحاد واتفاق بھی کرلیتے تب بھی فیصلہ برطانوی پارلیمنٹ کے ہاتھ ہوتا۔ وہی عربوں کی مثل صادق آتی ہے ہر کام میں گھر والی سے مشورہ ضرور لیا کرو مگر کیا وہی کرو جو تم مناسب سمجھو“۔
تیکھا طنز اور احتجاجی رویہ محمد علی جوہرؔ کی پوری تخلیقی کائنات پر حاوی نظر آتا ہے۔ ان کا یہ رویہ انگریزوں کے ظلم و استبداد اور جوروستم کے خلاف ’ہمدرد‘ کے اِداریوں اور مختلف تحریروں میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
مشتاق یوسفی اپنے گہرے مشاہدے اور عالمانہ تجربات کو کرداروں کے ذریعے،اور سماج کی زوال پذیر تہذیبی اقدار کو فنکارانہ تراش خراش کے ساتھ طنزومزاح کے پیرایہ میں پیش کرتے ہیں۔آبِ گم، چراغ تلے، خاکم بدہن اور زرگزشت طنزوظرافت کی تاریخ میں گراں قدر اضافہ ہیں۔زہرہ نگار نے مشتاق یوسفی کے بارے میں کہا تھا کہ یوسفی اور ان کی کتابیں کبھی بوڑھی نہیں ہوسکتیں۔
چراغ تلے میں شامل مضامین پڑیے گر بیمار، یادش بخیر، چارپائی، آنا گھر میں مرغیوں کا اور صنفِ لاغر طنزومزاح کے شاہکار نمونے ہیں۔ اس کتاب کے مقدمے ”پہلا پتھر“ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف دوسروں کو طنز کا شکار بناتے ہیں بلکہ اپنی ذات کو بھی معاف نہیں کرتے۔مضمون ”یادش بخیر“ میں آغا تلمیذالرحمن چاکسوی ایک اہم کردار ہے جس کے ذریعے وہ سماج کے ان افراد کا مذاق اُڑاتے ہیں جو ماضی پسند اور ماضی پرست ہیں۔ مستقبل ان کے نزدیک بے معنی ہے۔”چراغ تلے“ میں مزاحیہ مضامین زیادہ ہیں لیکن خاکم بدہن میں طنزیہ ومزاحیہ دونوں یکساں طور پر موجود ہیں۔
مشتاق یوسفی جزئیات نگاری کے ذریعے دل فریب نقوش اُبھارتے ہیں۔ ”زرگزشت“ ایک ”ایسے آدمی کی کہانی ہے جس پر بحمداللہ کسی بڑے آدمی کی پرچھائیں تک نہیں پڑی“۔ زرگزشت کے مقدمے ’تزکِ یوسفی‘ میں مشتاق یوسفی مزاح کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں:
”مزاح کی میٹھی مار بھی شوخ آنکھ، پرکار عورت اور دلیر کے وار کی طرح خالی نہیں جاتی“۔
آبِ گم کے مضامین میں کار، کابلی والا، الٰہ دین کا چراغ اور دھیرج گنج کا پہلا مشاعرہ اہم ہیں۔
مشتاق یوسفی کے بے ساختہ اور پُرمعنی مزاحیہ جملے پڑھ کر ہونٹوں پر تبسم کی لکیر ضرور اُبھر آتی ہے۔ کبھی قہقہے لگانے کو جی چاہتا ہے اور کبھی ان کی تحریر آبدیدہ کردیتی ہے۔
”عمر کی اس منزل پر آپہنچا ہوں کہ اگر کوئی سنِ ولادت پوچھ بیٹھے تو اسے فون نمبر بتاکر باتوں میں لگا لیتا ہوں“۔ (م۔ا۔ی)
”عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بدذائقہ کھانا بنانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ بیگمات کو آتا ہے“۔
”مزاح نگار کو جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ ہنسی ہنسی میں اس طرح کہہ جاتا ہے کہ ہنسنے والے کو بھی بہت بعد میں خبر ہوتی ہے“۔
”میں نے کبھی کسی پختہ کار مولوی یا مزاح نگار کو محض تقریر وتحریر کی پاداش میں جیل جاتے نہیں دیکھا“۔
”مشاعرے سے پہلے خطبہئ صدارت، سامعین پر اتنا ہی گراں گزرتا ہے جتنا طویل خطبہئ نکاح بے صبردولہا پر“۔
مشتاق یوسفی کی صدارتی تقریر سے اقتباس:
”ہم نے اپنے دیرینہ دوست مرزا عبدالودود سے پوچھا، صدارتی تقریر کے اُصول بتایئے۔ انھوں نے برجستہ جواب دیا:
اوّل: سنجیدہ لوگوں سے گفتگو کرنے سے پرہیز کرو۔
دوم: اختصار سے کام لو۔
سوم: بیٹھ جاؤ قبل اس کے کہ بٹھائے جاؤ۔
چوتھا اور آخری اُصول یہ ہے کہ آنکھیں بند رکھو تاکہ حاضرین کا ردّعمل نہ دیکھ سکو“۔
مشتاق یوسفی کے طنز میں بے پناہ ظرافت کی آمیزش ہوتی ہے۔ ان کے جملوں سے محفل قہقہوں سے گونج اُٹھتی ہے:
”سچ پوچھئے تو کراچی میں مچھردانی بھی اس معنی میں استعمال ہوتی ہے جس میں سرمہ دانی، تلے دانی، چائے دانی، دودھ دانی، ہمدانی، صمدانی، اردودانی وغیرہ جس میں اشیائے متعلقہ کو بہ حفاظت تمام بند کیا جاتا ہے کہ نکلنے نہ پائیں“۔
”فاروقی صاحب گولے کے کباب کی دوکان پر لے جاتے اور گولے کے کباب کھلاتے۔ پیٹ بھرنے سے پہلے آنکھیں بھر آتیں“۔ (م۔ا۔ی)
مشتاق یوسفی ایسے دانشور مزاح نگار ہیں جن کے ذکر کے بغیر طنزوظرافت کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ یوسفی کے لطیف تخلیقی مزاحیہ جملے سامعین اور قارئین کے ذہن پر دیرپا اثر چھوڑتے ہیں۔
احمدجمال پاشا بنیادی طور پر مزاح نگار تھے۔ بعدازاں انھوں نے اپنی تحریروں اور لطیفوں میں طنز سے بھی کام لیا۔
مجھے اکثر وہ لمحے یاد آتے ہیں جب دہلی کی تاریخی جامع مسجد کے علاقے اردو بازار میں قدیم سلیمان ہوٹل کی خستہ حال کرسیوں پر بیٹھ کر شام کے وقت احمدجمال پاشا کے ساتھ چائے کی چسکیاں لی تھیں اور طنزومزاح کے موضوع پر ان سے گھنٹوں گفتگو ہوئی تھی۔ ان دنوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہئ اردو میں ریسرچ کا طالب علم تھا۔ اس وقت یہ اندازہ بھی نہ تھا کہ مجھے اردو کے ایک بڑے طنزومزاح نگار سے ملاقات کا موقع فراہم ہوا۔ احمدجمال پاشا کے لہجے کی متانت اور ظریفانہ جملوں نے میرے ذہن و دل پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔
پاشا کی تصانیف میں اندیشہئ سحر، چشم حیراں، فنِ لطیفہ گوئی، غالب سے معذرت کے ساتھ، مضامینِ پاشا، پھڑکتے ہوئے لطیفے، طنزیے و مزاحیے، لذتِ آزار، ہجویات میر، ظرافت اور تنقید، ملا نصیرالدین کے لطیفے، مجازؔ کے لطیفے کے علاوہ پتیوں پر چھڑکاؤ اہم طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔
شکر کا شکر، ادب اور مارشل لا، مجھ سے ایک چائے کی پیالی نے کہا، یونیورسٹی کے لڑکے، شرافت کی تلاش، مقدمے کا مقدمہ، مرزا ظاہردار بیگ کافی ہاؤس میں، کتاب کی جلد، آموختہ خوانی کے علاوہ کپور ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (پیروڈی) مضامین اہم ہیں۔
کتے کا خط پطرس کے نام، اور گدھے کا خط کرشن چندر کے نام اردو طنزومزاح میں اختراع کے حامل ہیں۔
چند مضامین سے مثالیں پیش کی جارہی ہیں:
”مقدمہ پہلے ایجاد ہوا یا لڑائی؟… مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ لڑائی بلامقدمے کے ادھوری رہ جاتی ہے۔ اور مقدمہ لڑائی کے بے کیف“۔
(مقدمے کا مقدمہ)
”شاعر کے اندازِ بیان میں اس کا کلام کم اور تخلص زیادہ ہوتا ہے۔ کامیاب شاعر وہ ہوتا ہے جو اپنا تخلص سنائے اور کلام کو صاف ٹال جائے۔ اچھے شاعر وہ ہوتے ہیں جو واقعی شاعری کرتے یعنی ہوٹل نہیں آتے“۔ (مجھ سے ایک چائے کی پیالی نے کہا)
”ایک مشہور افسانہ نگار پر الزام ہے کہ وہ فاقہ مستی کرتے اور معمولی ملازمت کرتے تھے۔ بڑے شاندار افسانے لکھا کرتے تھے مگر جب ان کو عزت، شہرت اور دولت ملی اور وہ فلمی دنیا میں چلے گئے تو جاتے وقت وہ اپنا قلم بھی لیتے گئے جس سے اب وہ خراب سے خراب افسانے لکھنے کی مشق کررہے ہیں“۔ (ادب اور مارشل لا)
لفظوں کے برمحل استعمال سے مزاح پیدا کرنا پاشا کا فن ہے۔ طنز پر ان کی گرفت بہت دبیز تھی۔ وہ اردو کے سنجیدہ طنزومزاح نگاروں میں ہیں۔ احمدجمال پاشا نے اس فن کو ہمیشہ شوق کے طور پر برتا اور کبھی پیشہ قرار نہیں دیا۔
مختار مسعود اپنے مخصوص طرز، اسلوبِ نگارش اور خوبصورت علمی طنزیہ نثر کے لیے اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ان کے شاہکار تخلیقی نثرپاروں نے طنزوظرافت کے علمی معیار کو بلندی عطا کی۔ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود انھیں اردو زبان و ادب سے گہرا شغف رہا۔
آوازِ دوست، سفر نصیب اور لوحِ ایام مختار مسعود کی اہم کتابیں ہیں۔ حرفِ شوق ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ لوحِ ایام کا انتساب چراغ اور دریچے کے نام ہے۔ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
”اس کتاب کو لکھنے میں اتنا وقت نہیں لگا جتنا یہ طے کرنے میں کہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے اور اگر لکھا جائے تو اس کی حدبندی کیسے کی جائے۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے آپ کو کتاب پڑھنی ہوگی۔ اس کے بعد گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ اگر وہ سلامت نظر آیا تو گویا انقلاب کے موضوع پر لکھنے کا فیصلہ کچھ ایسا درست نہ تھا“۔
ایک تھا بادشاہ، جستجو اور گفتگو، نئے نام اور پرانی تصویریں، خانہ جنگی، فرد جرم، فن کار، الفاظ، اشعار، آخرکار، مضامین اہم ہیں۔مختار مسعود کی تحریروں میں شائستہ علمی طنزومزاح پر غالب نظر آتا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے:
”غالب کا بادشاہ بس نام کا بادشاہ ہے، علمداری انگریز کی ہے۔ بے اختیار بادشاہ کی جیب خالی ہے۔ وہ دال پکاکر غالب کو تحفے میں بھیجتا ہے۔ غالب شعر اور لفظ کا بے اختیار بادشاہ ہے۔ وہ اس تحفے کے بارے میں ایک رباعی کہتا ہے اور اس دال کو دولت و دین و دانش و داد کی دال قرار دیتا ہے۔ جب غالب ایسے بے بس بادشاہ کا قصیدہ لکھتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کے لشکر کا جھنڈا بلند ہونے پر چرخ کو چکر آگیا“۔ (ایک تھا بادشاہ)
”تہران میں تازہ وارد ہوں۔ میرے پاؤں میں چکر ہے۔ ضرورت اور ضابطے کے تحت مجھے آٹھ دس وزارت خانوں اور پندرہ بیس سفارت خانوں کے دروازوں پر تعارفی اور رسمی ملاقاتوں کے لیے دستک دینی ہے اور یہ کہنا ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔ نیا ہونے کے باوجود آپ کے لیے پرانا ہوں“۔ (جستجو اور گفتگو)
”خطبہئ استقبالیہ کے آغاز میں جو فارسی شعر پڑھا گیا، وہ ایک جانا پہچانا شعر ہے۔ اس شعر سے میری شناسائی بچپن میں ایک شادی کی تقریب میں ہوئی تھی“۔ (بازگشت)
مختار مسعودایک تقریب کے دوران افتتاحی تقریر میں اس طرح گفتگو کرتے ہیں:
”میرے والد محترم شیخ تھے۔ میں سیّد ہوں۔ وہ نسلاً کشمیری شیخ تھے اور میں اس مادر درس گاہ کی فرزندی کی رعایت سے جس کے بانی سرسیّد تھے، سید ہونے کا دعویدار ہوں۔ میرے پاس اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں۔ نہ کوئی دستاویز اور نہ کوئی گواہ لیکن ان دونوں چیزوں کی فراہمی میں قطعاً کوئی مشکل نہیں۔ بازار میں ہر طرح کے نسب نامے بہ آسانی مل جاتے ہیں۔ بے تصدیق اور بے ثبوت دعویٰ کرتا ہوں اور لوگ انکار کردیں کہ تم سیّد نہیں ہو تو وہ حق بجانب ہیں“۔
مختار مسعود کے نثری شہ پاروں میں لطیف عالمانہ طنز اور ظریفانہ انداز اپنی پوری حشرسامانیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے۔
قمرالہدیٰ فریدی کی تعلیم و تربیت علی گڑھ کی فضا میں ہوئی۔پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد اسی مادرِ علمی کے شعبہئ اردو میں استاد مقرر ہوئے۔ ان دنوں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔موصوف سولہ کتابوں کے مصنف ومؤلف ہیں۔ ان میں اِک معرکہ لہو کا، سرسیّد اور اردو زبان و ادب، اردو داستان، طلسم ہوش رُبا: تنقید وتلخیص، اردو نثر:اصناف و اسالیب، اور اظہار و ابلاغ کے علاوہ مرتبہ کتابوں میں سحرالبیان، گلزارِ نسیم، باغ و بہار اور سب رس شامل ہیں۔
انھوں نے ماہ نامہ تہذیب الاخلاق جوائنٹ ایڈیٹر، ششماہی تنقید جوائنٹ ایڈیٹر، خبرونظر جوائنٹ ایڈیٹر، سہ ماہی الفاظ ایڈیٹر اور آرٹس فیکلٹی جرنل دانش میں شریک مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
قمرالہدیٰ فریدی نے تحقیقی و تنقید مضامین کے علاوہ انشایئے، خاکے اور افسانے بھی لکھے۔ اور اپنی لطیف مزاحیہ تحریروں کے ذریعے اہلِ ادب کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔
قمرالہدیٰ فریدی کی مزاحیہ نثر میں مخصوص قسم کی علمی شان، سلاست اور بے ساختہ پن ہے۔ ان کا یہ منفرد اسلوبِ بیان اور دانشورانہ انداز قاری کو گرویدہ بنا لیتا ہے۔ لہجے میں ملائمت، مزاج میں سادگی اور قدرے شرمیلاپن ان کی شخصیت کو انوکھے انداز سے اپیل کرتا ہے۔ مشفق خواجہ نے فریدی صاحب کے سلیس اسلوب کی دل کھول کر ستائش کی ہے۔ خاکسار بھی قمرالہدیٰ فریدی کی ان جملہ خصوصیات کا معترف ہے۔ ان کے مزاحیہ علمی نثرپارے عام قاری کو بھی ہمیشہ متاثر کرتے ہیں۔
قمرالہدیٰ فریدی کے مضامین، انشایئے، اور خاکے ماہنامہ کتاب نما، الفاظ اور دیگر معیاری رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ہزاروں خواہشیں ایسی، اور پھر یوں ہوا، موت کا ایک دن معین ہے، مسٹر کمپیوٹر (مزاحیہ خاکہ)، اخترانصاری (مزاحیہ خاکہ) اور حکیم گل حکمت ان کے اہم طنزیہ و مزاحیہ مضامین ہیں۔
قمرالہدیٰ فریدی کے لطیف مزاحیہ علمی طنز کے چند اقتباس نمونے کے طور پر پیش ہیں:
”بہت دنوں تک ہم یہی سوچتے رہے کہ موت کے خوف سے غالب کی نیند اُڑگئی تھی۔ چنانچہ اپنے آپ کو پُرسکون رکھنے کے لیے انھیں ایک شعر کہنا پڑا۔ بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ شاعر دراصل موت کے انتظار میں اپنی راتوں کی نیند خراب کیے ہوئے ہے۔ موت نہیں آتی تو یہ کہہ کر دل بہلانا چاہتا ہے کہ جس کا ایک دن معین ہو، وہ وقت سے پہلے کیوں آنے لگی۔ ہاں البتہ نیند آسکتی تھی مگر وائے ناکامی کہ وہ بھی نہیں آتی۔ ایک مدت تک ہم اس مفہوم پر قناعت کیے بیٹھے رہے اور بارہا افسوس بھی ہوا کہ اگر وقت سے پہلے ہی موت آجاتی تو اس کا کیا بگڑ جاتا، بے چارے شاعر کا بھلا ہوجاتا۔ لیکن جب ذرا عقل آئی اور دیوانِ غالبؔ کو اِدھر اُدھر سے اُلٹ پلٹ کر دیکھنے کا موقع ملا تو پتا چلا کہ… ہماری ہی طرح انھیں بھی زندگی پیاری تھی“۔(موت کا ایک دن معین ہے)
ایک اور اقتباس دیکھئے:
”نام تو ان کا کچھ اور ہے لیکن دوستوں نے حکیم گل حکمت کا لقب عطا کررکھا ہے۔ ویسے تو ان کے اور بھی بے شمار القاب ہیں مگر اوّل تو وہ ادبی نقطہئ نظر سے غیرمعیاری ہیں۔ دوسرے خود حکیم گل حکمت کو پسند نہیں۔ تیسرے ان سے ذاتی مخاصمت کی بوٗ آتی ہے۔ اس لیے لے دے کر یہی لقب رہ جاتا ہے جو بعض لوگوں کے نزدیک ناقابلِ فہم ہونے کی وجہ سے کثیرالمعانی اور کثیرالمعانی ہونے کے سبب قابل ترجیح ہے“۔ (حکیم گل حکمت)
مضمون ”اور پھر یوں ہوا“ کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ ہو:
”کبھی یوں بھی ہوا کہ وہ اسٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا گاڑی آنے میں ذرا دیر ہے۔ اب یہ سوال ہے کہ وقت کیوں کر گزارا جائے۔ چائے پی لی جائے! اُن کے ہاتھ میں چائے کی پیالیہے۔نہایت سکون سے چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ حلق سے اُتارے جارہے ہیں۔ اتنے میں ٹرین آجاتی ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ ابھی گاڑی بہت دیر رُکے گی۔ چائے ختم کرکے سگریٹ سلگاتے ہیں، لمبے لمبے کش لیتے ہیں اور گنگناتے ہوئے باتھ روم کا رُخ کرتے ہیں۔ یکایک چھک چھک کی آواز سنائی دیتی ہے، وہ اپنے بھاری سوٹ کیس کو ویٹنگ روم میں چھوڑ کر باہر نکلتے ہیں، پلیٹ فارم کے آخری سرے پر موجود ٹرین کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگاتے ہیں۔ دوڑتے دوڑتے سوٹ کیس یاد آجاتا ہے۔ یکساں رفتار سے پلٹتے ہیں، سوٹ کیس اُٹھاتے ہیں اور گھر لوٹ جاتے ہیں“۔ (اور پھر یوں ہوا)
قمرالہدیٰ فریدی کی تحریروں میں شگفتہ طنزاور شائستہ علمی مزاح نہایت لطیف اور شستہ انداز میں جلوہ گر ہوتا ہے۔
دورِ جدید کے طنزوظرافت نگاروں میں قمرالہدیٰ فریدی علی گڑھ کے آخری قابل ذکر مزاح نگار ہیں۔
مآخذ:
اردو ادب میں طنزومزاح فرقت کاکوروی (یوپی)
رشید احمد صدیقی مالک رام، دہلی
مشتاق یوسفی مظہراحمد، دہلی
اردو ادب میں طنز ومزاح وزیرآغا (دہلی)
مضحکات و مطائباتِ سرسیّد کتب خانہ پنجاب (پاکستان)
چراغ تلے مشتاق یوسفی (کراچی)
زرگزشت مشتاق یوسفی (کراچی)
طنزومزاح کا تنقیدی جائزہ عبدالغفور
نگارستان ظفر علی خاں (دہلی)
مضامینِ رشید رشیداحمد صدیقی (علی گڑھ)
حرفِ شوق مختار مسعود (پاکستان)
بحث و تکرار(مضمون) سرسیّد احمد خاں (علی گڑھ)
موت کا ایک دن معین ہے (مضمون) قمرالہدیٰ فریدی (علی گڑھ)
رسائل:
نقوش طنزومزاح نمبر، ادارہئ فروغ اردو، لاہور، ۹۵۹۱ء
علی گڑھ میگزین، طنزوظرافت نمبر، مسلم یونیورسڑی علی گڑھ، ۳۵۹۱ء
ادبِ لطیف، ۱۶۹۱ء، لاہور
آجکل، طنزومزاح نمبر، دہلی
سہ ماہی الفاظ، ۱۰۰۲ء، علی گڑھ
٭٭٭