شگفتہ یاسمین…چیچہ وطنی.پاکستان

گاؤں کے آس پاس سر سبز لہلہاتے کھیت تھے. جو سردیوں میں سبز جبکہ گرمیوں میں سُنہری رنگت بکھیرتے دِکھائی دیتے.گاؤں زیادہ بڑانہ تھا. چار گلیوں کو لگنے والاچوراہہ اُسے بڑا سمجھنےکے لیے کافی تھا.محمد شریف ایک ایکڑ پر سبزیاں اُگاتا اور صبح سویرے سبزی منڈی بیچنے کی غرض سے چل پڑتا. سبزی کو منڈی پہنچانے کے لیے اُس نے رکشہ بنایا جس پہ تازہ سبزی لاد کر وہ سویرے ہی شہر کا رُخ کرتا. محمد شریف کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے. بیٹی ابھی پرائمری میں تھی. گاؤں کے چوراہے میں اللہ دِتہ کی کریانہ کی دُکان تھی, جس میں گرمیوں کے شروع ہوتے ہی دکان میں رکھافریزر سوڈاواٹر کی ٹھنڈی بوتلوں سے بھر جاتا, اس کے علاوہ گھریلو ضرورت کی تمام اشیاء بھی دستیاب تھیں. اللہ دِتہ کے ماں باپ اس دُنیا سے رُخصت ہو چکے تھے, ایک بہن تھی جس کا زہنی توازن درست نہ تھا. محمد شریف سے اللہ دِتہ کی گہری دوستی تھی. اُس کے بچے اُسے چاچا کہتے جس وجہ سے سارے گاؤں کے بچے بڑے مردوزن سب اُسے چاچا اللہ دِتہ کہنے لگے. ہر شام وہ محمد شریف کے پاس اُس کے گھر چلا آتا جہاں وہ دن بھر میں ہونے والے واقعات ایک دوسرے کو بتاتے اور ساتھ مل بیٹھ کر چائے پیتے.
“ننّھی……اپنے چاچاکوچائےدےآؤ”
خورشیدہ نے بیٹی سے کہا. ننّھی اپنے باپ اور چاچا اللہ دِتہ کو چائے پکڑا کر واپس مڑی تو باپ نے اُسے روک لیا
“ننّھی سر پہ دوپٹہ لیاکر…..”محمدشریف نے تنبہہ کی
ننّھی نے مڑ کر جھکی نظروں سے باپ کو دیکھا پھر چلی گئ. خورشیدہ نے گھر کے ایک طرف انار کے دو پودے لگا رکھے تھے جن پہ پھول آنا شروع ہو گئے, وہ روز اُنھیں سینچتی ,اپنے بال بچوں کی طرح خیال رکھتی, ننّھی کی سہیلی شام کو اُس کے ساتھ کھیلنے گھر  آتی تو وہ دونوں انار کے پودوں کے پاس کچی جگہ پہ لکیر کھینچ کر سٹاپو کھیلتیں.
“ننّھی تو نے یہ کیا کر دیا اِس کا تو ایک انار بن جانا تھا “خورشیدہ نے ننّھی کے ہاتھ میں انار کی کلی دیکھی جسے وہ تقریباًمسل چکی تھی. سُرخ رنگ کی کلی ننّھے ہاتھوں میں مسلی جا چکی تھی, جس کا رنگ اُس کی اُنگلیوں پہ پھیل کر جم گیا.  ننّھی ہاتھ پکڑے ایسے کھڑی تھی جیسے اُس کے ہاتھ پہ زخم لگ گیا ہو جس سے خون بہہ نکلا ہو. خورشیدہ نے اُنھیں سختی سے منع کیا کہ آئندہ یہاں سٹاپو نہ کھیلیں مگر وہ بچیاں بھلا کہاں رُک سکتی تھیں. انار پکنے پر آئے تو خورشیدہ نے اُن پہ کپڑے کی تھیلیاں چڑھا دی تا کہ گلہری اور پرندوں سے محفوظ رہ سکیں, جو اکثر اُن کو چیچرتے رہتے تھے.
“امّی….امّی……. انار پک گئے ہیں”ننّھی نے اسکول سے آتے ہی ایک  انار توڑا, وہ اُسے کھول کر اُس میں پروئے دانے چکھنے لگی. خورشیدہ نے جب دیکھا تو چلااُٹھی, مگر تب تک وہ اپنی اسکول کی سفید وردی پہ انار کے سُرخ داغ لگا چکی تھی.
“داغ انار کا ہو یا جوانی کا دونوں اگر ایک بار لگ جائیں تو پھر کبھی نہیں جاتے, ہمیشہ ہمیشہ کا روگ بن جاتے ہیں انار کا داغ سفید کپڑے کے لیے اور جوانی کا لڑکی کے لیے……..”خورشیدہ نے ننّھی کی وردی پہ لگا انار کا داغ صاف کرتے ہوئےخود کلامی کی.
“سلام بھابھی” اللہ دِتہ سہہ پہر کے وقت کسی کام سے گھر آیا تو صحن میں پڑی چار پائی پر بیٹھ گیا.  ساتھ ہی لگے انار کے پودوں کے قریب ننّھی اپنی سہیلی کے ساتھ سٹاپو کھیلنے میں مصروف تھی. اللہ دِتہ اُن کے کھیل میں دلچسپی لیتے ہوئے دیکھنے لگا. ننّھی کی باری آئی تو اُس کی سہیلی شور مچانے لگی کہ باری میری ہے, مگر باری ننّھی نے ہی لی. وہ اُچھلتی کودتی اپنی باری لینے لگی , ایک طرف سے اُچھلتی اور ٹھیکری کوپاؤں سے گھسیٹ گھسیٹ کر دوسری طرف لے جاتی. اللہ دِتہ اُن کے کھیل پہ نظر رکھے ہوئے تھا. اُس نے ننّھی کے فربہ جسم کو جب اُچھلتے دیکھا تو وہ اُسے مکمل عورت نظر آرہی تھی. اُس کی نظریں وہیں جم سی گئیں اور اُس کے دل میں کچھ عجیب وغریب سی حرکت ہوتی ہوئی محسوس ہوئی. اُس کا دل اُس کے قابو میں نہ رہا, آنکھوں میں وہ دلکش چمکتے ہوئے خواب اُبھرنے لگے جو صدیوں پُرانے ہو کرتقریباً مدہوم ہونے کوتھے.  اُس کی زندگی میں آج تک کوئی لڑکی نہ آئی تھی دُکان پربھی اگر کوئی عورت سودا سلف لینے آتی تو وہ اُس کے خدوخال کا ناپ تول کرنے لگتا ,اُدھیڑ عمر میں قدم رکھتے ہی اُس کے جذبات جوانی کی سیڑھی چڑھنے لگے تھے. دن بدن اُس میں تبدیلیاں روُنما ہوتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں. اللہ دِتہ دُکان پہ سودا سلف لینے آئی  ہر خوبصورت عورت کو دیر تک باتوں میں اُلجھائے رکھتا اور بار بار اُس کے سراپے پہ سرسری نظریں پھیرتااور دبے لب مسکرا دیتا, یہ تبدیلی اُس میں اس لیے آنے لگی تھی کہ محمد شریف کی بیوی خورشیدہ  اُس کے لیے رشتہ تلاش کرنے کی تگ و دو میں تھی.وہ روز شام محمد شریف کے گھر کا چکر لگاتا تا کہ شادی کا کوئی سنیہہ مل سکے. ماں باپ کے مرنے کے بعد اُس کے جذبات تو جیسے گہری نیند سو چکے تھے جنھیں اب خورشیدہ نے جگایا تھا. وہ کلف لگے بالوں کو بار بار سنوارتا اور چند بال ماتھے پہ پڑی جھریوں پر بکھیر دیتا, کافی دیر تک آئینے میں خود کو دیکھتا رہتا, چہرے پہ پڑی جھریوں کی وجہ سے وہ کافی بڑی عمر کا دکھائی دیتا تھا. ننّھی کو اس طرح اُچھلتے دیکھ کر اب اُس کی دلچسپی اَن چھوئی کلیوں کی طرف بڑھنے لگی تھی دُکان پہ آنے والی چھوٹی بچیوں کو وہ ٹافیاں دیتا اور اُن کے خدوخال میں ہونے والی تبدیلی کا منتظر رہتا.
“ننّھی…. جاؤ چاچا اللہ دِتہ کی دُکان سے یہ سودا لے آؤ” خورشیدہ نے کہا.  وہ ماں سے پیسے لے کر دُکان کی طرف دوڑی.
“چاچا یہ امّی نے کچھ پرچی پہ سودا لکھ بھیجا ہے……. یہ دے دیں”ننّھی نے سانس پھولائے ہانپتے ہوئےکہا
اللہ دِتہ پرچی پر دیکھتے ہی بانچھیں پھیلائے مسکرانے لگا. خورشیدہ نے پرچی پہ کچھ عورت سے متعلقہ پوشیدہ چیز لکھ بھیجی تھی. پرچی کو ایک طرف رکھتےہوئے اُس نے سودا خاکی لفافےمیں ڈالا اور ننھّی کو پکڑا دیا. وہ لفافہ پکڑتی ہوئی پیچھے کی طرف مڑی تو اللہ دِتہ نے اُسے آواز دی.  “ننھّی ادھر آ… “
اُس کو اپنی کرسی کے پاس بُلا کر ایک ٹافی ہاتھ میں تھمائی,  اللہ دِتہ کا ٹافی پکڑانے کا اندازکچھ ایسا ہوتا کہ اُس کا ہاتھ جنبش پکڑنے لگتا. ننّھی باپ کے سامنے اور دُکان پہ جاتے ہوئے دوپٹہ لینے لگی تھی. اللہ دِتہ کی نظر اُس کے سارے بدن کا طوائف کر گئی مگر اُس کے دل کو وہ آسودگی نہ مل پائی جو وہ چاہتا تھا. ٹافی دیتے ہوئے اُس نے ننّھی کو گودمیں لے لیا, تندور میں اُبھرتے آلاؤ کی طرح اُس کے بدن میں بھی گرمی اُبھرنے لگی اور وہ ننّھی کے منہ پر بوسہ دینے لگا.
“چھوڑ چاچا….. مجھے گھر جانا ہے”ننّھی چلائی اور گھر کی طرف بھاگ گئی.  اللہ دِتہ کافی دیر تک اپنے اندر بجنے والی جذبات کی ڈُگڈگی کے ہاتھوں مچلتا رہا. اب اُسے ایک نئا مشغلہ مل چکا تھا وہ چھوٹی بچیوں کو ٹافی دینے کے بہانے گود میں لے لیتا منہ پر بوسہ دیتا اور اُن کے کپڑوں کے ڈیزائن دیکھنے کے بہانے کپڑوں کو چھوتا, اس طرح اُس کے مردانہ جذبات ذندہ ہونے لگے تھے, وہ خود کو خورشیدہ کے بتائے جانے والے رشتوں کے لیے تیار کر رہا تھا.
محمد شریف صبح سویرے سبزی لے کر منڈی کی طرف گیا اور خورشیدہ اللہ دِتہ کے لیے رشتہ دیکھنے.  ننّھی چھوٹے بھائیوں کے ساتھ گھر پہ اکیلی تھی چھوٹے بھائی کو بھوک لگی تو وہ رونے لگا, اُسے روتا دیکھ کر وہ چاچا اللہ دِتہ کی دُکان سے بسکٹ لینے چلی گئی.
“چاچا… مُنے کو بھوک لگی ہے مجھے بسکٹ دے دو”ننّھی نے کہا. اللہ دِتہ آج کچھ زیادہ ہی دل کے ہاتھوں مجبور تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ بھابھی خورشیدہ اُس کے لیے رشتہ دیکھنے گئ ہے, وہ سویرے ہی خیالات کی جھڑی لگا کر خود کو اُس میں خوش محسوس کر رہا تھا. آج دُکان پر بھی گاہک کو سودا سلف دیتے ہوئے وہ بار بار آئینہ دیکھتا اور بال سنوارتا, ننّھی کو دیکھتے ہی اُس نے آئینہ اُٹھایا, بال سنوارے اور ایک پیکٹ بسکٹ  اُس کے ہاتھ میں تھما دیا.
“ننّھی ادھر تو آ…… ” اُس نے ننّھی کو پاس بلایا وہ جھیجھک رہی تھی, اُسے  بھائی کے لیے جلد بسکٹ لے کر گھر پہنچنا تھا. چاچا اللہ دِتہ نے ٹافی اُٹھائی اور ننّھی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا, گود میں بیٹھا کر بوسہ دیاپھر اپنے ہاتھ کو ہلکی سی جنبش دی.  چاچا اللہ دِتہ خود کو گرم بھٹی میں جلتا ہوا محسوس کرنے لگا.
“چاچا چھوڑو….. مُنا رو رہا ہو گا” ننّھی چلائی, وہ اُسے زبردستی دُکان کی پچھلی طرف بنے سٹور میں لے گیا جہاں اُس نے اپنے جذبات کو آسودہ کرنے کے لیے اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا تاکہ اُس کے چِلانے کی آواز باہر نہ جا سکے. خورشیدہ گھر واپس آئی تو خوشی کی خبر لائی, مگر گھر آتے ہی ننّھی کی تلاش شروع ہو گئی.اگلی صبح تک وہ نہ ملی , محمد شریف گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مل کر اُسے ڈھونڈنے نکلا, ننّھی کی لاش گاؤں کے عقبی کھیت سے برآمد ہوئی. گاؤں کے لوگ ننّھی کو دیکھنے اُن کے گھر آئے اور کانوں کو چھوتے ہوئے کہہ رہے تھے. ” اللہ معاف کرے کیسا زمانہ آگیا ہے…” چند ہی لمحوں میں گھرکی چادردیواری میں کِھلنے والی کچی کلی کی خوشبو شوشل میڈیا کے ہاتھوں گھر گھر پھیل گئی………