باسمہ تعالیٰ

      سرسید احمد خان  بہ یک وقت دانشور، مفکر،ادیب، مورخ،صحافی، مفسر،ماہرِتعلیم،مغربی علوم کے علمبردار،فلسفی ،بہترین منتظم اور عظیم رہنما تھے۔   

       سر سید مسلم نشاۃالثانیہ کے علمبردارتھے۔مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کی مسلمانوں کو جمود سے نکال کر ایک متحرک قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔وہ ایک بہترین مفکر،اعلیٰ خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔آپ نےقوم و ملت کی اصلاح وترقی کا ارادہ  اس وقت کیاجب انگریز پوری طرح ہندوستان پر قابض ہوچکےتھےاس وقت مسلمان پسماندگی کی زندگی گذار رہےتھے ۔ ایسے حالات میں سرسید نے یہ محسوس کرلیاتھا کہ اصلاح کی اگر کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان اور پسماندہ ہو جایگے۔ اس ضمن میں انور پاشاہ لکھتے ہیں:

                   ــ’’سرسید کا عہد ایک عبوری عہد تھا ،ایک طرف تغیرات کا عمل جاری تھا تو دوسری طرف یہ تغیرات اندیشہ ہائےدور دراز مختلف نوعیت کے شکوک و شبہات کے متحرک بھی تھے۔ شکست و ریخت کا عمل ابھی اپنی تکمیل کو نہیں پہنچا تھا ۔جب کہ دوسری جانب تعمیر وتشکیل کا عمل بھی اپنی واضح سمت سے محروم تھا۔ گویا ایک مبہم اور غیر واضح  فضا طاری تھی۔عوام و خواص دونوں ہی سطحوں پر تذبذب اور شکوک و شبہات کا رویہ غالب تھا۔ہندوستانی عوام و خواص کا ایک طبقہ اپنی ترقی اور اپنا مفاد اپنے برطانوی آقاؤں کی کورانہ تقلید اور ابن الوقتی میں مضمر پاتا تھا۔ جب کہ دوسری جانب ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو فرنگیوں سے مصافحہ کرنے تک کو کفر کامترادف قرار دیتا تھا۔ یہ طبقہ پوری شدت کے ساتھ انگریزوں سے لا تعلقی اور ان کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرنے پر کاربند تھا۔ غرض کہ ان دونوں میں ایک منفی نتیجہ کا پیش خیمہ تھی۔ اس صورتِ حال کے متوازی ایک طبقہ ابھر کر آیا جو تعلیم یافتہ تھا اور جدید علوم کی اہمیت سے واقف بھی ،متغیر حالات پر اس کی گہری نظر تھی اور دور اندیشی کو ترجیح دیتا تھا دانشوروں اور مفکرین کے اس طبقہ نے مصلحت پسندی،ذہنی بیداری وہوش مندی کے ساتھ اصلاحی حکمت عملی کو اپنا شعار بنایا۔سرسید اور رفقائے کار کا تعلق اسی طبقے سے تھا جنہوں نے حکمت عملی کو اختیار کیا اور زمانہ شناسی کو اہمیت دی۔‘‘        (۱نور پاشاہ   ادبی تحریکات و رجحانات ص۳۳۹ )

           سرسید اایک انقلاب آفریں شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنے فکر وعمل سے قوم کے فرسودہ خیالات اور جمود میں طغیانی پیداکردی۔ان کے دور رس نگاہوں نے شاہرائے زندگی پر مشعل کا کام انجام دیا۔ سرسیدنے ہند کی نشاۃالثانیہ میں گراں بہا خدمات انجام دئے۔  انگریزہندوستان پر پوری طرح قابض ہوچکے تھے۔ قوم و ملت مغلوب و محکوم ہوچکی تھی ۔سر سیدقوم میںموجود انتشار ی کیفیت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔اس نازک صورتحال میں سرسید نے بے خوفی اور صداقت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔اس وقت کے اہل علم و دانش کی ایک کثیر تعداد نے انکا ساتھ دیا  اسکے علاوہ انکے مخالفین کے بھی کثیر تعداد تھی معاصر اہلِ علم و دانش نے اس میدان میںان کے افکارکے تحت اپنی خدمات جاری رکھیں ۔ان معاصرین کی کاوشوں سے ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ سرسید نے عوام تک اپنے خیالا ت کی رسائی کےلیے سائنٹفک سوسائٹی کو قائم کیا ۔علی گڑھ تحریک کا آغازکیا۔ اخبارات کی اشاعت عمل میں لائی۔ جن سے وابستہ ہوکر اپنے مقاصد کی تکمیل کی جائے۔

                  سرسید کی دور رس نگاہیںدیکھ رہی تھیں کہ مغربی علوم و فنون کی حیثیت عالم گیر ہوتی جارہی ہے ۔آئندہ وہی قوم ترقی کرے گی جو اپنی شناخت بر قرار رکھتے ہوئےجدید علوم و فنون سے مستفیدہوگی ۔ سرسید نے ۱۸۶۳؁ءمیں ایک تحریر اس عنوان سے کہ ’’التماس بہ خدمت ساکنان ہندوستان در باب ترقی تعلیم اہل ہند‘‘چھاپ کر شائع کی جس کا خلاصۂ مضمون یہ تھا کہ ہندوستان میں علم کے پھیلانے اور ترقی دینے کے لئے ایک مجلس مقرر کرنی چاہئے جو اپنے قدیم مصنفوں کی عمدہ کتابیں اور انگریزی کی مفید کتابیں اردو میں ترجمہ کرکے شائع کرے ۔یہ ہی سائنٹفک سوسائٹی کا اہم مقصد ہے۔ سر سید کے کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ ہے۔  سرسیدنے۹؍جنوری ۱۸۶۴؁ءکوغازی پور میں علوم و فنون کے فروغ ،ترسیل ، ابلاغ اور اشاعت کے لیےاس سائنٹفک سوسائٹی کا قائیم کیا۔ڈاکٹر ابو سعید نور لکھتے ہیں:’’یہ سائنٹفک سوسائٹی بعد میں علی گڑھ تحریک میں تبدیل ہوگئی جس کے نتیجے میں پہلے علی گڑھ کالج پھر علی گڑھ یونیورسٹی معروض وجود میں آئی‘‘۔(تاریخ ادبیات اردو، ص ۱۵۷)

مولانا حالی نے اس سوسائٹی کے مقاصد کو مختصر طور پر نہایت خوبی سے ان الفاظ میں بیان کئے ہیں:

     سائینٹفک سوسائٹی اغراض و مقاصد یہ تھے کہ ادبی اور علمی کتابیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرواکر مغربی ادب اور علوم کا شوق اہل وطن میں پیدا کیا جائے گا ،علمی مضامین پر لکچر دیئے جائیں ،رعایا کے خیالات گورنمنٹ پر اور گورنمنٹ کے اصول حکمرانی رعایا پر ایک ایسے اخبار کے ذریعے سے ظاہر کئے جائیں جو اردو انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوا کرے ۔مختلف مذاہب کےماننے والوں کو رکن بنایا جائے  اور اس طرح قومی مغائرت اور مذہبی تعصبات اور جو جھجھک ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کی طرف سے ہے اس کو آہستہ آہستہ کم کیا جائے ۔اس کے اراکین میں ہندو ،مسلمان انگریز سب  شامل تھے ۔سائنٹیفک سوسائٹی سرسید کی تعلیمی مہم کی ہراول تھی اوراپنی نوعیت کی پہلی تنظیم تھی ۔ 

           سائنٹفک سوسائٹی کا قیام معنوی طور پر علی گڑھ تحریک کا نقطہ آغاز ہے یہ اتنا بڑا اقدام تھا کہ ملک کے طول و عرض میں متعدد ادارے سائنٹفک سوسائٹی کے طرز پر قائم ہوئے۔  سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے فروغ اور مستحکم کرنے کیے لئے بہت کوشش کی ۔ دولت مند افرادکو اس کی امداد پر آمادہ کیا ،حکومت کو اس سوسائٹی کے مقاصد سے آگاہ کیا،خود اپنی بساط سے بڑھ کر اس کو مالی امداد پہونچائی ،اس کی عالی شان عمارت اپنی نگرانی میں تعمیر کروائی،سوسائٹی کی مستقل آمدنی کے ذرائع پیداکئے۔ قابل افراد کو مترجمین کی حیثیت سے تقرر کیا ،    ۔ مختصر عرصہ میں اس سوسائٹی نے مختلف علوم و فنون کی  تقریباََ چالیس انگریزی کتابوں کا  اردو میں ترجمہ کروایا گیا ان میں تاریخ ہند، سیاست و دیگر علوم آب و ہوا، رسالہ برقی، ریاضی، تزکِ جہانگیری، تاریخ فیروز شاہی اور تاریخ مصر قدیم شامل ہیں۔

     سرسید قوم سے اس طرح مخاطب ہیں:  ’’ اے صاحبان ہم کو احسان مندی اور خاکساری سے اس خدائے مطلق کا بہت بہت شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے یہ فرمایا کہ جہاں دو یا تین آدمی نیک کاموں کے کرنے پر جمع ہوتے ہیں وہاں میں ان میں موجود ہوتا ہوں۔ اب جس مقصد کے واسطے ہم جمع ہوئے ہیں وہ ہمارے ہم جنسوں کی ترقی سے متعلق ہے اسی لیے وہ ایک نیک کام ہے بس ہم کو امید کرنا چاہیے کہ خدائے تعالی کا فضل ہمارے کاموں پر رہے گا۔‘‘(آمین)  )روائیداد نمبر ۱ سائنٹفک سوسائٹی ۹؍جنوری ۱۸۴؁ء)

        سرسید ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی جدوجہد کا جوبھی پہلو لے لیں ان میں ماہردکھائی دیتے ہیں ۔ سر سید نے صحافتِ کے متعلق مضامین تحریر کئے۔ سر سید نے قوم کی اصلاح کے لئےصحافت پیش  ِنظر رکھا۔جب حالات پر خطرہوں اور معاشرہ میں تنگ نظری ہو ،صحافت کی سچائی اور صداقت کی بنیادوں پر قائم رہنا مشکل تھا۔

                             سائنٹفک  سوسائٹی نے قدیم افکار کو جدیدافکار میں بدلنے کی کوشش کی، قوم و ملت کی اصلاح اور سوسائٹی کے مقاصد کی وضاحت کے لیے نیز انگریزوں اور ہندوستانیوں میں ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیےاور سوسائیٹی کی ترجمانی کے لئے اخبار کی اشاعت عمل میں لائی گئ، جس کا نام ’اخبار سائنٹفک سوسائٹی‘اور انگریزی میں اس کا نام’ THE ALIGARH INSTITUTE GAZETTE‘   (علی گڑھ انسٹی ٹیو ٹ گزٹ )تجویز کیاگیا۔  اس اخبار کے مدیرسر سید تھے ۔یہ اخبار پہلی مر تبہ ۳۰؍ مارچ ۱۸۶۶؁ء کو شائع ہوا۔

                    مو لانا ابوالکلام آزادکی نظر میںصحافی کا کردار اس طرح ہونا چاہیے :’’صحافی کے قلم کو ہر طرح کے دبائو سے آزاد ہونا چاہئے چاندی اور سونے کا سایہ بھی اس کے لئے سم ِقاتل ہے ، جو صحافی  رئیسوں کی ضیافتوں اور امیروں کے عطیوں کو قومی عطیوں ، قومی امانت اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کرلیتے وہ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ضمیر اور نور ایماں کو بیچیں بہتر ہے کہ درویوزہ گری کی جھولی گلے میں ڈال کر قلندروں کی کشتی کی جگہ قلم دان لے کر رئیسوں کی ڈیوڑھیوں پر گشت لگائیں اور گلی کوچہ ’قلم ایڈیٹر ‘ کی صدا لگاکر خو اپنے تئیں فروخت کرتے رہیں ــ‘‘۔(الہلا ل ۲۷ جولائی ۱۹۱۲)

          مذکورہ خوبیاں سرسیدکی تحریروں میں ملتی ہیں ۔سرسید کی تحریر یں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں پابندی سے   شائع ہوتی تھیں۔ان کے مضامین کا ہر لفظ قوم و ملت کو ترقی کی راہ پر گامزن  ہونے کی ترغیب دیتاہے۔اور زوال پذیر قوم و ملت کو خوابِ غفلت سے بیدار کی طرف رہبری کرتاہے ۔انہیں عزت و وقار کی زندگی کی طرف رہنمائی کی۔

    ادیب کس طرح سے ہو اس کے پاس کون کونسی خوبیاں رہنا چاہیےاس کا تذکرہ سرسید ، تہذیب الاخلاق میں کرتے ہیں : 

        ’’مضمون کے اداکا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا ، رنگین عبارت سے جو تشبیہات و استعارات خیال سے بھری ہوئی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا پرہیز کیا ۔ اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو مضمون کے ادامیں ہو جو اپنے دل میں ہو وہی دوسرے کے دل میں تاکہ دل نکلے اوردل میں بیٹھے ‘‘۔(عبدالحق ۔ مطالعہ سرسید احمد خان  ص۸)

   ان ہی خوبیوں والے مضامین علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں پابندی سے   شائع ہوتے تھے۔              

                   ابتداء میں  علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ہفتہ وار تھا لیکن بعد میں ہفتہ میں دو مرتبہ شائع ہونے لگا۔یہ پرچہ اگرچہ ہندوستانیوں اور انگریزوں کے مابین باہمی روشناس کا وسیلہ تھا تاہم اس کا مجموعی مزاج علی گڑھ تحریک کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا۔ اس نے مسلمانوں میں سیاسی، تہذیبی اورا دبی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور جہالت اور تاریکی کے دور ہو جانے کے امکانات پیدا کر دیے۔اس میں سماجی،تہذیبی،ادبی،اخلاقی،علمی اور سیاسی مضامین برابر شائع ہوتے تھے ۔انگریزی اخبارات کے مفید مضامین کو  ترجمہ کر کے شائع کرتے تھے۔  سائینٹفک سوسائٹی کی جانب سے مختلف عنوانات کے تحت لکچرس منعقد کئے جاتے تھے ۔ان لکچرس کو باقاعدگی کے ساتھ اس اخبار شائع کیا جاتا تھا ۔ایک خاص وصف جو اس اخبار کے ساتھ مخصوص تھا اور جو اس کو ہندوستان کے عام انگریزی اور دیسی زبانوں سے ممتاز ٹھراتا تھا وہ یہ تھا کہ اس نے اپنے طرز تحریر میں برخلاف اپنے تمام ہم عصروں کے کبھی کسی قوم یا فرقے یا کسی خاص شخص کی دل آزاری روا نہیں رکھی ۔

     مولاناالطاف حسین حالی اس اخبار کی خصوصیات کو یوں بیان کرتے ہیں:

 ’’اس اخبار کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس کا ایک کالم انگریزی میں اور ایک کالم اردو میں ہوتا تھااور بعض مضامین اردو میں الگ اور انگریزی میں الگ چھاپے جاتے تھے اس لیے انگریز اور ہندوستانی یکساںفائدہ اٹھا سکتے تھے ۔اس کا خاص مقصد گورنمنٹ اور انگریزوں کو ہندوستانیوں کے حالات اور خیالات سے آگاہ کرنا اور ان میں پولیٹیکل خیالات اور قابلیت اور مزاق پیدا کرتا تھا‘‘   ( : حیات جاوید ص۱۳۱)

            علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نے وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی انفرادیت اور شائستگی برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کو علمی مسائل ، سائنس کی اہمیت اور سیاسی معاملات کی طرف متوجہ کیا۔اخبار میں اداراتی صفحہ،سوسائٹی کی سرگرمیاں ،اور خبروں کو شائع کیاجاتا۔مختلف علمی ، سماجی، اور اصلاحی مضامین کو بھی شامل کیا گیا۔اس اخبار کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ یہاں حقیقت پسندی کو اولیت اور مرکزیت حاصل ہوئی، قدیم اور جدید صحافت کو یکجا دیکھا گیا۔اس اخبار کی زبان عام فہم تھی۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ روایتی مذہبی عقائد جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا نشاندہی کی گئی اور اس کو دور کرنے حتی المقدار کوشش کی گئی۔ سا ئنٹفک سوسائٹی کا اخبار علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ سرسید اس اخبارمیں مستقل لکھتے رہے۔ معاشرتی،سیا سی ،اخلاقی اور ادبی وغیرہ موضوعات پر انہوں نے اپنے دلی  جذبات کو تحریری شکل دیتے رہے۔کا اظہار کیا  ۔اخبار بتیس سال باقاعدگی کے ساتھ اپنی معینہ تاریخ پر شائع ہوتارہا ۔                  

                       سرسید مغربی علوم ، مغربی تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں سے وا قفیت کے لئے اپنے بیٹے سید محمود کے ہمراہ  اپریل ۱۸۶۹؁ يمیں انگلستان کا سفر کیا۔طویل قیام کے بعد اکٹوبر ۱۹۷۰؁ ءمیں ہندوستان واپس ہوئے۔سرسید نے لندن سے اپنے رفقا اور اخبار علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں اشاعت کے لیے کئی خطوط لکھے۔لندن سے لکھا ہوا سرسید کا اہک خط علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں۱۳ جنوری ۱۸۷۱؁ ءکو شائع ہوا خط کا اقتباس اس طرح سے ہے:

              ؓ ایک روز  میں اپنے لڑکے سید محمود اور اپنے دوست سید عبداللہ پروفیسرکے ساتھ ریل پر سوار ہوکر کیمرج کو گیا۔جن کبھی میں اپنے دطن یعنی ہندوستان کے کسی علمی جلسے کی سیر کے واسطے جاتا تھا تو ہمیشہ میرا نہایت جی لگتاتھا۔پس جب میںاس موقع پر کیمرج کے  قریب پہنچا جو علوم فنون کا مصدر ہے تو اس کی قدامت اور اس عالم گہر شہرت کے لحاظ سے جو اس شہر کو بہت سے ایسے مشہور و معروف آدمیوں کی بدولت حاصل ہوي ہےجن کو عقل و دانش اور کوشش کے سبب سے دنیا میںعلم کی روشنی پھیلی ہے اور اسکی شعاعوں سے جہالت ،غلطی اورتعصب کی رفع ہوي ہے، میرے دل پر ایک رعب اور حیرت کی سی حالت طاری ہوي۔

                 ’’کیمرج اس نام سے اس لیے مشہور ہے کہ کیم یا گرنٹ تو وہاں ایک دریا ہے اور ایک پل اس پر بندھا ہوا ہے جس کو انگریزی میں برج کہتے ہیں چنانچہ تاریخ میں بھی اس کو کیمرج یا گرینٹ برج دونوں طرح بیان کیا ہےاور وہ بہت سی صدیوں سے وہ اس مشہور و معروف یونیورسٹی ہونے کے سبب سے ممتاز ہے۔ؓ ( تہذیب الاخلاق  ص۷ آگسٹ ۲۰۲۲ )

      سر سیدکیمرج یونیورسٹی کے مطالعاتی سفر کے بعد اپنے جذبات ،احساسات اور خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:

    ؓکیمرج کی یونیورسٹی کی سیر سے جو اس قدر دانشمندی ، فیاضی ،جاں فشانی اور محنت کے ثبوت میری نظر سے گزرے ان کو دیکھنے سے مجھ کو نہایت حیرت ہوي اور میں نے اپنے دل میں بہ آرزوئے تمام یہ دعا مانگی کے میرے وطن ہندوستان میںجو ہندوستانیوں کی طبیعتوں میں ہنوز  ہمسری اور ترقی کا جوش نہیں ہے وہ بہت جلد برانگیختہ  ہوتاکہ اس کو بھی آئندہ کسی زمانہ میں جو نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہنوز بہت دور ہے علوم و فنون میں مشرقی ملکوں میں ایسی ہی شہرت او رعظمت حاصل ہو جیسی کہ انگلستان کو مغربی ملکوں میں حاصل ہے۔ؓ

      ( تہذیب الاخلاق  ص۸آگسٹ ۲۰۲۲ )

         لندن میں قیام کے دوران بھی سرسید سائنٹفک سوسائٹی کے فرو غ کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ چنانچہ وہاں سے مہدی علی خان کو خط لکھتے ہیں:’’کہ مجھ کو علاوہ مفارقت احباب کے یہ رنج بڑا ہے کہ میرے پیچھے لوگ عقل کے دشمن سائینٹفک سوسائٹی کی بڑی مخالفت کریں گے اور کوئی درجہ سعی و کوشش کا واسطے شکست کردینے سوسائٹی کے باقی نہ رکھیں گے ۔پس میں چاہتا ہوں کہ آپ سوسائٹی کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے سنبھالنے اور ممبروں کے بڑھانے میں زیادہ کوشش فرمائیں۔‘‘

         سائنٹفک سوسائٹی کی ذیلی کمیٹیاں بھی بنائی گئی۔ تحصیلی مکاتب کے نصاب تعلیم پر غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی گئی ۔اس سوسائٹی کے ضمنی نتائج میں سے درنی کلر یونیورسٹی کی تحریک بھی تھی جو اس زمانے کے لئے ایک عجیب خیال تھا ۔

        غرض یہ کہ اس سوسائٹی نے  ملی اور تعلیمی خدمات انجام دیں۔اس کی تقلید میں ملک کے مختلف مقامات میں انجمنیں اور سنبھائیں قائم کی گئیں جو اپنے اپنے علاقو ںمیں مفید کام انجام دیتے رہے ۔سوسائٹی کے اخبار علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے اردو اور دوسرےملکی اخبارات پر گہرے اثرات مرتب ہوےاور وہ سیاسی معاشرتی اور تعلیمی مسائل پر سنجیدگی سے بحث کرتے ۔سرسیدکی تحریروں میں قومی یکجہتی ،سالمیت اورامن دیکھائی دیتا ہے ۔  انہوں نے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور اسی کے ذریعہ اپنے مقصد کو حاصل کیا۔ سرسید ہندوستان کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:

’’ ہندوستان ایک دلہن کی مانندہے جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکیں ہندو اور مسلمان ہیں ۔ اگر وہ دونوں آپس میں نفاق رکھیں گی تو وہ پیاری دلہن بھینگی ہوجاوے گی اور اگر ایک آنکھ جاتی رہی تو کانی ہوجاوے گی ‘‘۔        ( مکمل مجموعۂ لکچرز  ، مرتبہ مولوی محمد امام الدین گجراتی ، صفحہ نمبر ۱۵۱ )     

        سر سید نے سید الاخبار،علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق میں خواتین کے متعلق اپنے خیالات،احساسات اور جذبات کو پیش کیا۔

    سرسید سے نےمذہبی نقطہ نظر سے خواتین کا مقام، خواتین کے طرز زندگی، صحافتِ نسواں اور تعلیمِ نسواں سے متعلق مضامین تحریر کئے۔

 سرسیدنہیں جاہتےتھے کہ خواتین کے نام سے کوئی الگ اخباریا رسالہ جاری ہو ۔  اس کا اندازہ سرسید کی سید ممتاز علی لاہور سے خط و کتابت سے ہوتاہے۔ سید ممتاز علی لاہور سے خواتین کے لیے ایک رسالہ نکالنا چاہتے تھے انہوں نے سر سید  سے اس رسالے کے لیے نام تجویز کرنے کی گذارش کی اور کچھ ناموں کی فہرست اپنے خط کے ساتھ روانہ کیے۔ سر سید نے ان ناموں کو خارج کردیا بلکہ اس خیال کو مسترد کردیا۔لیکن ممتاز علی کی فرمائش پر تہذیبِ نسواں نام تجویز کیا اور اپنے خط میں اس کی وضاحت کی ہے:                                                                                                     

       مشفقی و محبی مولوی سید ممتاز علی

    ــ’’عنایت نامہ ملا۔اگر آپ نے مجھ سے اس بات میں مشورہ نہیں لیا کہ اخبار جاری کرنا مناسب ہے یا نہیں؟ بلکہ اس کے نام کے بابت دریافت کیا ہے۔چاہے آپ میرا مشورہ پسند نہ کریں مگر میں یہی کہوں گا کہ آپ خواتین  کے لیے اخبارکرکےپچھتائیں گیاور تکلیف، نقصان اور سخت بدنامی کے بعد بند کرنا ہوگا۔ لیکن اگرآپ ان سب باتوں کو سمجھ لینے کے بعد جاری کریں تو جو نام آپ نے مجھے لکھ کر بھیجے ہیں ان میں سے مجھے کوئی بھی پسند نہیں آیا میری رائے  میں کوئی اخبار مستورات کے لیے جاری کیا جائے تو اس کانام تہذیبِ نسواںہونا چاہیے‘‘

(شیخ محمد اسماعیل پانی پتی  مکتوباتِ سر سید احمد خاں  ص ۳۸۶ (

           سرسید نے سید الاخبار ،علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق میں ایسے مضامین لکھے جن کا مقصد قوم و ملت کی رہبری و رہنمائی

تھی۔ان کی یہ فکر یں جدید وقت کے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ تھیں۔ اسی لئےسرسید کومعلمِ شفیق بھی کہاجاتاہے۔سر سید نے اپنے مضامین میں قوم وملت میں موجود خامیوں پر کھل کر بحث کی ہے ۔قوم وملت میںموجود مسائل کو پیش کیا مسائل کو حل کرنے کے تدابیر اور طریقوںکی طرف رہنمائی کی کیوں کہ ان کی نظر میںپوری قوم کے مسائل یکساں تھے ،مخصوص فرقہ کے مسائل پر وہ اس وقت بات کرنا زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔سرسید ہندو اور مسلمان دو نوں کو عزیز رکھتے تھے۔

   پروفیسر ٹامس آرنلڈ نے سر سید کی خدمات کا اس طرح اعترف کرتے ہیں:

     ؒ حقیقی عظمت کا اگر کوئ انسان مستحق ہوسکتا ہے تو یقینا سرسید احمد خاں اس کے مستحق تھے ۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑے آدمی اکژگزرے ہیں لیکن ان میں بہت کم ا یسے نکلیں گے جن میں یہ حیرت انگیز مہارتیں اور اوصاف مجتمع ہوں۔ وہ ایک ہی وقت میں

اسلام کا محقق ، علم کا حامی،قوم کا سوشل ریفارمر ،پولیٹیشن، مصنف اور مضمون نگار تھا۔اس کا اثر اس عالم کا نہ تھا جو گوشہ تنہائ میں بیٹھ کر اپنی تحریروں سے لوگو ں کے دل اکساے بلکہ وہ اعلانیہ دنیا کے سامنے لوگوں میں لوگوں کا رہبر بن کر اس لیے آیا کہ جس بات صیح اور سچ سمجھے اگر اسکی دنیا مخالف ہوتو ساری دنیاسے لڑنے کے لیےہر وقت تیار اور آمادہ رہے۔ہندوسان میں ایسے شخص کی مثال جیسا کہ وہ تھا کہاں مل سکتی ہےکہ نہ جاہ و مرتبہ تھا ، نہ دولت تھی،باوجود اسکے ہندوستان میں مسلمانوں کی قوم کا سردار بن کر ظاہر ہوا۔ یہ وہ رتبہ ہےجو اس سے پہلے کسی شخص کو بغیر تلوار کے زور کے حاصل نہیں ہوا   ؒ   پروفیسر ٹامس آرنلڈ  (ڈاکٹر سلیم اختر  اردو ادب کی مختصرترین تاریخ ص۳۲۹) 

            سرسید ورفقا، سائنٹفک سوسائٹی،علی گڑھ تحریک ، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کےمجموعی مقاصد یہ تھےکہ قوم و ملت کو تعلیم کی طرف راغب کرنا،ان کے اندر تحریری صلاحیت پیداکرنا۔ انگریزی اور مغربی علوم کی اہمیت کو واضح کرنا۔مذہبی تعلیم کا رجحان پیدا کرتےہوئے شریعتِ اسلامی سے واقف کروانا،  تہذیب و تمدن سے واقف کرنا ،دینی وعصری تعلیم کے ذریعہ معاشرے میں بیداری پیدا کرنا ،عالم میںہورہی سائنسی ترقی سےہونے والی تبدیلیوں کومنظرِ عام پر لانا ۔سیاسی بیداری پیدا کرنا ۔انگریزی تعلیمِ کاشوق پیدا کرنا،  دوسری اقوام سے شانہ بہ شانہ چلنے کے لےنئے علوم سیکھنے کی ترغیب دینا ۔اردو ادب کو عام فہم بنانا۔معاشرتی خامیوں کو دورکرنے کی کوشش کرنا۔سماجی فرائض سے آگاہ کرنا اور قومی یکجہتی کو فروغ دیناوغیرہ قابل ِذکر ہیں۔

      سر سید کے قائم کردہ سائنٹفک سوسائٹی ۱۸۶۴ء ، برٹشن انڈیا ایسوسی ایشن، کمیٹی برائے تبلیغ و توسیع تعلیم، محمڈن سول سروس فنڈا یسوسی ایشن، محمڈن ایجوکیشنل کانفرس، انڈین پیریاٹک ایسوسی ایشن، محمڈن ایسوسی ایشن ، ایم اے او کالج، وغیرہ یہ  انجمنیں اور ادارے ہیں ۔جن کے ذریعہ قوم وملت کی رہبری ورہنمائی کی گئی ۔

     سر سید کی تحریک ایک جامع تحریک تھی اور وہ جانتے تھے کہ مسلمان ترقی یافتہ قوم اس وقت ہوسکتی ہے جب اس کے ذہن میں جدید تعلیم کی شمع روشن ہو،دینی علوم کی صیح رہنمائی ہو۔ علی گڑھ تحریک ایک وسیع الجہت تحریک تھی جس کا مقصد سماجی، سیاسی، معاشی، اور تہذیبی زندگی میں اصلاح کر کے اسے ایک طاقتور قوم میں تبدیل کرنا تھا۔

         ڈاکٹر محمد جعفر جری  سرسید کو اس طرح خراج تحسین پیش کرتے ہیں:

ہندستان کی تاریخ میں یہ لکھا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہندستان میں خوبصورتی اور حسن کے معیار کو سمجھانے کے لیے شاہ جہاں نے جہاں تاج محل جیسی عمارت تعمیر کی ، اس سے بھی زیادہ اہم کارنامہ انجام دیتے ہوئے سرسید احمد خاں نے تعلیمی درس گاہ ’’علی گڑھ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ قوموں کی ترقی اور اُن کے کارناموں کے معاملے میں ہندستان کی تاریخ میں تاج محل سے زیادہ اہمیت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دی جائے گی۔ جہاں پر عالمی تناظر میں نئی نسل کو سجایا اور سنوارا جاتاہے اور اُن کی تعلیم و تربیت کے ذریعے قوم و ملت کے مستقبل کو تابناک بنانے کا کارنامہ انجام دیا جاتا ہے ۔

     سرسید کے قومی اور ملی کارنا مے سرسید کی بصیرت کا آئینہ ہیں۔  (گلستان  ِسرسید  ص۵۶)

    مجموعی اعتبار سے سر سید کی خدمات مسلمانوں کے لیے بڑی اہم اور انقلاب آفرین ہیں سر سید نے مذہبی اعتبارسےتقلید، تعصب اور تنگ نظری کو ختم کیا۔ سر سید کااہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوںنے مسلمانوں کے لیے سب سے پہلے قوم کا لفظ استعمال کیا اور انھیں قومیت کے تصور سے آگاہ کیا۔

  سرسیدا ور ان کےرفقان، سائنٹفک سوسائٹی،علی گڑھ تحریک ، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کا اردو زبان اور ادب پر بڑا احسان ہے ۔

                                     سرسید کی ہمہ جہت شخصیت کااحاطہ چند جملوں میں ناممکن ہے۔                            

                               میں ایک چراغ بجھنے آیا تو کئی چراغ خود بخود فروزاں ہوگئے۔

سر سید کی تحریک کا اہم مقصد یہ تھا کہ ملت کے ہر فرد کے سر پر کلمہ طیبہ کا تاج ہو، سیدھے ہاتھ میں فلسفہ ہو اور بائیں ہاتھ میں سائنسی علوم ہوں۔

      ڈاکٹر ناطم الدین منور

    شعبہ اردو  ساتاواہانا یونیورسٹی

     کریم نگر  صوبہ تلنگانہ

بسمہ تعالیٰ

سرسید احمدخان کی خطو ط نگاری

      خط کا لکھنا اور پڑھنا ایک سماجی عمل ہے۔ خط ایک ایسی تحریر ی گفتگو ہے جو دو اشخاص کے درمیان ہوتی ہےجب عوام ایک دوسرے سے نہیںمل سکتے تو خط کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ربط میں رہتے ہیںتو خط ملاقات کابدل بن جاتا ہےاسی لئے خط کو آدھی ملاقا ت  کہا جاتا ہے ۔خط اس وقت مکمل ہوتا جب خط میں خط لکھنے والا (مکتوب نگار ) کا نا م اورپتہ ہو دوسرے جس کو خط لکھا گیا (مکتوب الیہ ) کانام اور پتہ ہو تیسرے خط (مکتوب) میں کچھ تحریر ( پیغام ، اشارہ، تصویریا ایسا کچھ ہو جو مکتوب الیہ کو سمجھ میں آسکے)ہو تب ہی خط مکمل ہوتاہے۔  ڈاکٹرسید عبداللہ نے خط کو لطیف جذبات کی ترجمانی کہا ہے:

              خط ملاقات ہی کا نمائندہ ہوتا ہے جو بہ زبان وبے زبانی ،ان سب جذبات ِلطیف اور واردات ںنازک کی ترجمانی کرتاہے ،جو ملاقات سے وابستہ ہوتے ہیں۔اور عجب بات یہ ہے کہ خط میں ہم کلامی کے باوجود کامل تخلیہ موجود ہوتا ہے، خط اصولاباہمی بات چیت کا بدل ہوتے ہیںاس لئے ان میںگفتگو کی ضروری صفات ضرور ہونے چاہیے ۔  ( میرامن سے عبد الحق تک  ص۳۵۸)

         عبدالحق نے خط کو صداقت اور خلوص کا ترجمان کہا ہے:   مکتوبات دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرار ِ حیات کا تحفہ ہے۔اس میں وہ صداقت و خلوص ہے جو دوسرےکلام میں نظر نہیں آتا۔  (مکتوبات ِ حالی  ص ۱۰)

          پروفیسر خورشیدالاسلام  خط کو حسن  ِاتفاق کہتےہیں:   خط حسن  ِاتفاق کا نام ہے۔وہ ادبی کارنامےہوتے ہیں۔خط چھوٹی چھوٹی باتوں سے بُنے جاتے ہیں۔ وہ خطوط جن میںاستدلال کازور ہو،فلسفہ پر باقاعدہ بحثیں ہوں ،بالارادہ فن کاری ہو ،خطوط نہیں ہوتے۔(تنقید یں ص۹)

 رشید احمد صدیقی کہتے ہیں : خط لکھا نہیں جاتا بلکہ لکھ جاتاہے اور لکھنے والے کو مجبور کرتاہے کے وہ لکھے۔

            خط کی ابتداء کب ہوئی اور کیسے ہوئی اس کا تعین وقت نا ممکن ہے  البتہ یہ کہا جاسکتا ہے جب سے تحریر کی ابتداءہوئی ہے وہاں سے ہی خط کی ابتداء ہوی ہے۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ  ِوقت اپنا پیغام  دوسری سلطنتوں کے بادشاہوں تک پہنچانے کے لئے خطوط کا استعمال کرتے تھے ۔ابتداء میں خطوط کپڑے پر ،چمڑے پر، پتوں پرتحریر کرتے تھے۔ قاصد بادشاہ وقت کاپیغام خط کی شکل میںپہنچاتے تھے۔ اسکے علاوہ وسیع سلطنت میںموجود صوبوںکے وزراء اور امراء تک بادشاہ کافرمان(خط) قاصد لے کر جاتے تھے۔اس طرح سلطنت میں موجود وزراء اور امراء اپنے مراسلوں کے ذریعہ بادشاہ کو وقفہ وقفہ سے حالات سے آگاہ کرتے تھے۔بادشاہوں کے دربار میں خط وکتابت کےلئے قابل افراد کو مقرر کیا جاتا تھا۔ وہ زبان اور آداب تحریر (خط) سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے۔پیغام (خط) پہنچانے کےلئے الگ افراد مقرر تھے ۔ جن کو قاصد یا ہرکارہ کہا جاتا تھا۔یہ اپنی تیزرفتار سواریو ں کے ساتھ سفر کرتے تھے۔درمیان میں قاصدوں کے آرام کے لئے ریسٹ ہاوز (آرام گھر)موجو د رہتے تھے۔منزل تک پہنچنے کے لئے دوران ِسفر سوار اور سواری تبدیل ہوتے تھے تاکہ کم وقت میں اپنے مقصد کو پورا کیا جائے۔

            زمانہ کی رفتار کے ساتھ ساتھ خطوط رسانی کا نظام رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے یہ ایک وزارت و محکمہ کی شکل اختیار کر گیا۔ دنیا کے تقریباََ تمام ممالک میں خطوط رسانی کی تقسیم اور تمام مراحل کی تکمیل کے لئے مرکزی حکومت کے تحت  وزارت و محکمہ قائیم ہے۔

      

      عام طور پر خطوط کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔  اول :شخصی یا نجی خطوظ  ، دوم :سرکاری  خطوط، سوم :تجارتی خطوط ، چہارم:اخباری خطوط- ،  پنجم: اہل علم، مفکرین، دانشواران، ادیبوں کے خطوط۔

              مکتوب اگر دو ادبی شخصیتیوں یا دو دانشوروں کے درمیان یا ایک ادیب یا دانشور ہو جب کوئی خط تحریر کیا جاتا ہےوہ خط نہیں ہوتا بلکہ  ادب کا فن پارہ ، کسی بھی موضوع کے متعلق سند، محقیقن کےلیے ماخذو حوالہ کی حیثیت رکھتے ہیںان خطوط کے ذریعہ ہم کو اس دور  ادبی، سیاسی، سماجی ،ثقافتی،تہذیبی ،اخلاقی اور مذہبی حالات سے واقفت ہوتی ہے۔مکتوب میں ادیب و دانشور کی شخصیت دکھائی دیتی ہے۔مکتوب نگار کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے اسکے افکار کے رخ سے واقفیت ہوتی ہے۔بعض مشاہیرن ادب و دانش کے مکتوبات اردو ادب اور تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔

           اردو ادب میں خطوط نگاری کے ابتدائی نقوش رجب علی بیگ سرور، غلام غوث بے خبر ،سرسید احمد خاں،مولانا الطاف حسین حالی اور امیرمینائی کے ہاں ملتے ہیں۔اسکے علاوہ اردو ادب میں  مولانا ابوالکلام آزاد :؛ غبار خاطر،اسداللہ خاں غالب:؛ خطوط غالب، علامہ محمد اقبال:؛ خطوط ابال، علامہ شبلی نعمانی:؛ مکاتیب شبلی ،صفیہ اختر :؛ زیر لب،فیض احمد فیض:؛ صلیبںمرے دریچے میں اور مہدی افادی :؛ مکاتیب مہدی  خطوط کے مجموعے بہت شہرت رکھتے ہیں۔ 

مشاہیرن ادب و دانش کے خطوط کو ترتیب و ینے دالے (مرتبین) میں اہم نام محمد اسمعیل پانی پتی:سرسید کے خطوط، ڈاکٹر خلیق انجم :غالب کے خطوط،ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی :خطوطااقبال، محمد اکبر الدین صدیقی : خطو ط عبدالحق ،پروفیسر آل احمد سرور :رشید احمد صدیقی کے خطوط ،سید سلیمان ندوی:مکاتیب شبلی،ڈاکٹر سید عبداللہ :میرامن سے عبدالحق تک، خواجہ حسن نظامی:اتالیق خطوط نویسی اور شمس الرحمن:اردوخطوط قابل ذکر ہیں

   ان تمام سے قطع نظر ہم دانشواران و ادیبوں کے خطو ط میں خصو صاََ سر سید احمد خان کے خطوط کے بارے میں جاننے کی کو شش کرتے ہیں۔

             سرسید بہ یک وقت دانشور، مفکر،ادیب، مورخ،صحافی، مفسر،ماہرِتعلیم،مغربی علوم کے علمبردار،فلسفی ،بہترین منتظم اور عظیم رہنما تھے۔   

  سر سید ،مسلم نشاۃالثانیہ کے علمبردارتھے۔مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کی مسلمانوں کو جمود سے نکال کر ایک متحرک قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔وہ ایک بہترین مفکر،اعلیٰ خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔آپ نے اصلاح وترقی کابیڑا اس وقت اٹھایا جب انگریز پوری طرح ہندوستان پر قابض ہوگیےتھےاس وقت مسلمان ہرلحاظ سے بہت ہی پسماندگی کی زندگی بسر کر رہےتھے ۔ ایسے حالات میں سرسید نے یہ محسوس کرلیاتھا کہ اصلاح احوال کی اگر کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان اور پسماندہ ہو جایگے۔ اس ضمن میں انور پاشاہ لکھتے ہیں:

                   ــ’’سرسید کا عہد ایک عبوری عہد تھا ،ایک طرف تغیرات کا عمل جاری تھا تو دوسری طرف یہ تغیرات اندیشہ ہائےدور دراز مختلف نوعیت کے شکوک و شبہات کے متحرک بھی تھے۔ شکست و ریخت کا عمل ابھی اپنی تکمیل کو نہیں پہنچا تھا ۔جب کہ دوسری جانب تعمیر وتشکیل کا عمل بھی اپنی واضح سمت سے محروم تھا۔ گویا ایک مبہم اور غیر واضح  فضا طاری تھی۔عوام و خواص دونوں ہی سطحوں پر تذبذب اور شکوک و شبہات کا رویہ غالب تھا۔ہندوستانی عوام و خواص کا ایک طبقہ اپنی ترقی اور اپنا مفاد اپنے برطانوی آقاؤں کی کورانہ تقلید اور ابن الوقتی میں مضمر پاتا تھا۔ جب کہ دوسری جانب ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو فرنگیوں سے مصافحہ کرنے تک کو کفر کامترادف قرار دیتا تھا۔ یہ طبقہ پوری شدت کے ساتھ انگریزوں سے لا تعلقی اور ان کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرنے پر کاربند تھا۔ غرض کہ ان دونوں میں ایک منفی نتیجہ کا پیش خیمہ تھی۔ اس صورتِ حال کے متوازی ایک طبقہ ابھر کر آیا جو تعلیم یافتہ تھا اور جدید علوم کی اہمیت سے واقف بھی ،متغیر حالات پر اس کی گہری نظر تھی اور دور اندیشی کو ترجیح دیتا تھا دانشوروں اور مفکرین کے اس طبقہ نے مصلحت پسندی،ذہنی بیداری وہوش مندی کے ساتھ اصلاحی حکمت عملی کو اپنا شعار بنایا۔سرسید اور رفقائے کار کا تعلق اسی طبقے سے تھا جنہوں نے حکمت عملی کو اختیار کیا اور زمانہ شناسی کو اہمیت دی۔‘‘        (۱ انور پاشاہ   ادبی تحریکات و رجحانات ص۳۳۹ )

           سرسید احمد خاں ایک انقلاب آفریں شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی فکر وعمل سے قوم کے فرسودہ خیالات اور جمود میں طغیانی پیداکردی۔ یہ خدمات کبھی فراموش نہیں کی جائیںگی۔ان کے دور رس نگاہوں نے شاہرائے زندگی پر مشعل کا کام انجام دیا۔ ہند کی نشاۃالثانیہ میں گراں بہا خدمات ہیں۔اس وقت انگریزہندوستان پر پوری طرح قابض ہوچکے تھے۔  اس وقت قوم و ملت مغلوب و محکوم ہوچکی تھی ۔

       سر سیداس دور میںموجود انتشار ی کیفیت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔اس نازک صورتحال میں سرسید نے بے خوفی اور صداقت کو ہاتھ سے جانےنہیں دیا۔اس وقت کے اہل علم و دانش کی ایک کثیر تعدادنے انکا ساتھ دیا  اسکے علاوہ انکے مخالفین کے بھی کثیر تعداد تھی معاصر اہلِ علم و دانش نے اس میدان میںان کی فکر کے تحت اپنی خدمات جاری رکھیں ۔ان معاصرین کی کاوشوں سے ایک نئی فکر کا آغاز ہوا۔

     سرسید کی ہمہ جہت شخصیت ان کے ہر پہلو سےنمایاں وعیاں نظر آتی ہیں۔ ان کا جونسا بھی پہلو لے لیں ان میں وہ یکتا اور ماہرہیں ۔

سرسید نے عوام تک اپنے خیالا ت کی رسائی کےلیے سائنٹفک سوسائٹی کا قیام عمل میں لایاجس سے وابستہ ہوکر اپنے مقاصد کی تکمیل کی

سر سید ، تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں : 

        ’’مضمون کے اداکا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا ، رنگین عبارت سے جو تشبیہات و استعارات خیال سے بھری ہوئی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا پرہیز کیا ۔ اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو مضمون کے ادامیں ہو جو اپنے دل میں ہو وہی دوسرے کے دل میں تاکہ دل نکلے اوردل میں بیٹھے ‘‘۔(عبدالحق ۔ مطالعہ سرسید احمد خان  صفحہ۱۲)

     جب حالات پر خطرہوں اور معاشرہ میں تنگ نظری ہو ،صحافت کی سچائی اور صداقت کی بنیادوں پر قائم رہنا مشکل تھا۔سرسید نے اپنے اصلاحی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے جدید تعلیم کو موثر ہتھیار بنایا۔ اصلاحی مقاصد کو عام کرنے کے لیے سرسیدنے اخبار اور رسائل نکالے‘مضامین لکھے اور اپنے ہم خیال افراد کو اپنی تحریک میں شامل کیا۔

            سرسید او ر ان کے رفقاءنے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق میں ایسے مضامین لکھے جن کا مقصد قوم و ملت کی رہبری و رہنمائی تھی۔ان کی یہ فکر یں جدید وقت کے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ تھیں۔ان کے مضامین کا ہر لفظ قوم و ملت کو ترقی کی راہ پر گامزن  ہونے کی ترغیب دیتاہے۔اور زوال پذیر قوم و ملت کو خوابِ غفلت سے بیدار کی طرف رہبری کرتاہے ۔انہیں عزت و وقار کی زندگی کی طرف رہنمائی کی۔ان رسائل میں تصوف، شاعری، مضامین،کہانیاں ،حکایات،مذہبیات،سے متعلق مضامین اور خطوط وغیرہ شائع کئے جاتے  تھے۔

   سرسید کومعلمِ شفیق بھی کہاجاتاہے

               سرسید چونکہ اُس وقت کے ہندوستانی قوم بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی حالت دیکھ کر نہایت مایوسی اور بے دلی کے شکار ہوگئے تھے۔ وہ ایک حساس ذہنیت کے مالک تھے ۔اُ س وقت کے مسلمانوں کے حالات کو وہ اپنے دوست محسن الملک کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :

                             ’’افسوس کہ مسلمان ہندوستان کے ڈوب جاتے ہیں اور کوئی ان کو نکالنے والا نہیں ۔ہائے افسوس! ہاتھ پکڑنے والے کا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں اور مگر مچھ کے منھ میں ہاتھ دیتے ہیں ۔مسلمانوں کے ہونٹوں تک پانی آگیا ہے ، اب ڈوبنے میں بہت ہی کم فاصلہ باقی ہے ۔‘‘ (مکتوبات سرسید  ص۹۰)

           سرسید مغربی علوم ، مغربی تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں سے وا قفیت کے لئے اپنے بیٹے سید محمود کے ہمراہ  اپریل ۱۸۶۹؁ میں انگلستان کا سفر کیا۔ سرسید کے اس سفر کا مقصدعظیم علمی اور اصلاحی مقصد تھا۔ثریا حسین لکھتی ہیں:

                   ’’سرسید ایک عرصہ سے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانے کے لیے ایک معیاری تعلیمی ادارے کے قیام کی فکر میں تھے۔ مگر اپنےمنصوبے کوعملی شکل دینے سے پہلے وہ خود انگلستان کے نظام تعلیم اور وہاں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نصاب سے واقفیت ضروری سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ ولیم میور کی کتاب’’لائف آف محمد‘‘ کا جواب لکھنا بھی ان کے پیش نظر تھاجس کے لیے مطلوبہ کتابیں اور ماخذات صرف لندن کے کتب خانوں سے دستیاب ہوسکتے تھے۔ انگلستان کا یہ سفر ان کی اصلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں کی ایک اہم کڑی ثابت ہوا۔‘‘ ( سرسید اور ان کا عہد  ص۔۲۷۱) 

                دوران قیام سرسید نے وہاں کی تعلیمی اور تہذیبی ترقی کا قریب سے مشاہدہ ومطالعہ کیا۔  طویل قیام کے بعد اکٹوبر ۱۹۷۰؁ میں ہندوستان واپس ہوئے۔سرسید نے اپنے سفر کو کارآمد بنانے کے لیے دوران سفر مشاہدات پر غور وخوص کیا‘ نتائج اخذ کیے اور اپنے خیالات کو خطوط کی شکل میں لکھ کر ہندوستان روانہ کیا ۔ سرسید نے لندن سے اپنے رفقا اور اخبار علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں اشاعت کے لیے کئی خطوط لکھے۔

 سرسید نے قیام  ِ لندن کے دوران محسن الملک کو شخصی خطوط لکھے اور سائینٹفک سوسائٹی کے سکریٹری راجہ جے کشن داس کے خطوط میںمطالعات اور مشاہدات لندن کا تفصیلی ذکر کیا ۔ اور کہا کہ خطوط کو علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ میں شائع کیا جائے تاکہ ان کے مشاہدات سے اہل وطن بواقف ہوں۔

  

        سرسید کا سفرنامہ یکم اپریل  ۱۸۶۹؁ءسے شروع ہوتا ہے جب وہ بروز جمعرات اسٹیمر جہاز کے ذریعے بنارس سے لندن کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ سرسید پانی کے جہاز سے ۲؍مئی کو لندن پہنچے اور وہاں کے محلات‘کلیسائوں ‘پارکوں اور دیگر عمارات اور مقامات کا دورہ کیا۔ وہاںکےمردو خواتین کے تعلیمی نظام سے بے حد متاثر ہوئے اور ہندوستان میں بھی تعلیم نسواں کے حق میں بات کرنے لگے۔ ایک مصری لڑکی کی تعلیمی قابلیت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’روم اور مصر دونوں میں روز بروز تعلیم کی ترقی ہے۔ عورتیں بھی بہت زیادہ پڑھی لکھی ہوتی جاتی ہیں۔ مصر کی ایک مسلمان لڑکی کا میں نے حال سنا کہ عربی زبان جوکہ اس کی اصلی زبان ہے اور جس میں وہ نہایت فصاحت سے لکھتی پڑھتی ہے۔ فرنچ زبان میں بھی نہایت خوب بولتی ہے اور لیٹن اس قدر جانتی ہے کہ جو مضمون یا شعر اس کے سامنے رکھا جائے اس کو پڑھ لیتی ہے اور مضمون سمجھ لیتی ہے۔‘‘(سرسید مسافران لندن  ص۱۷۶)        

   لندن سے لکھا ہوا سرسید کا اہک خط علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں۱۳ جنوری ۱۸۷۱؁ کو شائع ہوا ۔سرسید نے جب پہلی دفعہ کیمرج  یونیورسٹی میں قدم رکھا تو ان کے دلی جذبات کی ترجمانی اس خط میںتحر یر کی ہے جس کا اقتباس اس طرح سے ہے:

         ’’ ایک روز  میں اپنے لڑکے سید محمود اور اپنے دوست سید عبداللہ پروفیسرکے ساتھ ریل پر سوار ہوکر کیمرج کو گیا۔جن کبھی میں اپنے دطن یعنی ہندوستان کے کسی علمی جلسے کی سیر کے واسطے جاتا تھا تو ہمیشہ میرا نہایت جی لگتاتھا۔پس جب میںاس موقع پر کیمرج کے  قریب پہنچا جو علوم فنون کا مصدر ہے تو اس کی قدامت اور اس عالم گہر شہرت کے لحاظ سے جو اس شہر کو بہت سے ایسے مشہور و معروف آدمیوں کی بدولت حاصل ہوي ہےجن کو عقل و دانش اور کوشش کے سبب سے دنیا میںعلم کی روشنی پھیلی ہے اور اسکی شعاعوں سے جہالت ،غلطی اورتعصب کی رفع ہوي ہے، میرے دل پر ایک رعب اور حیرت کی سی حالت طاری ہوي۔کیمرج اس نام سے اس لیے مشہور ہے کہ کیم یا گرنٹ تو وہاں ایک دریا ہے اور ایک پل اس پر بندھا ہوا ہے جس کو انگریزی میں برج کہتے ہیں چنانچہ تاریخ میں بھی اس کو کیمرج یا گرینٹ برج دونوں طرح بیان کیا ہےاور وہ بہت سی صدیوں سے وہ اس مشہور و معروف یونیورسٹی ہونے کے سبب سے ممتاز ہے۔‘‘( تہذیب الاخلاق  ص۷ آگسٹ ۲۰۲۲ )

      سر سیدکیمرج یونیورسٹی کے مطالعاتی سفر کے بعد اپنے جذبات ،احساسات اور خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:

          ’’کیمرج کی یونیورسٹی کی سیر سے جو اس قدر دانشمندی ، فیاضی ،جاں فشانی اور محنت کے ثبوت میری نظر سے گزرے ان کو دیکھنے سے مجھ کو نہایت حیرت ہوي اور میں نے اپنے دل میں بہ آرزوئے تمام یہ دعا مانگی کے میرے وطن ہندوستان میںجو ہندوستانیوں کی طبیعتوں میں ہنوز  ہمسری اور ترقی کا جوش نہیں ہے وہ بہت جلد برانگیختہ  ہوتاکہ اس کو بھی آئندہ کسی زمانہ میں جو نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہنوز بہت دور ہے علوم و فنون میں مشرقی ملکوں میں ایسی ہی شہرت او رعظمت حاصل ہو جیسی کہ انگلستان کو مغربی ملکوں میں حاصل ہے۔‘‘

      ( تہذیب الاخلاق  ص۸آگسٹ ۲۰۲۲ )

                   مسدس کے مطالعہ کے بعد سرسید نے بہت ہی دلی جذبات و خوشی سے سرشار ہوکر سے  الطاف حسین حالی کو اس طرح خط لکھا یہ ہی وہ خط ہے جس میں سرسید کے تاریخی الفاط ( جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا میں کہوںگا کہ حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوںاور کچھ نہیں) ہیں جوادب ِعالیہ کا حصہ بن گئے ہیں :

        ’’جناب مخدوم و مکرم من عنایت نامجات مع پانچ جلد مسدس پہنچے۔ جس وقت کتاب ہاتھ میں آئی جب تک ختم نہ ہولی ہاتھ سے نہ چھوٹی اور جب ختم ہولی تو افسوس ہوا کہ کیوں ختم ہوگئی۔اگر اس مسدس کی بدولت فن شاعری کی تاریخ جدیدقراردی جاوئے تو با لکل بجا ہو ۔کس صفائی،خوبی اور روانی سے یہ نظم تحریر ہوئی ہےبیان سے باہر ہے ۔تعجب ہوتا ہے کہ ایسا واقعی مضمون جو مبالغہ ،جھوٹ،تشبیہات دور ازکار سے جو مایہ ناز شعر او شاعری ہے بالکل مبرا ہے کیوں کہ ایسی خوبی و خوش بیانی اور موثر طریقہ پر ادا ہواہے۔متعدد بند اس میں سے ایسے ہیں جو بےچشم نم پڑھے نہیں جاسکتے ۔

                حق یہ ہے جو بات دل سے نکلتی ہے دل میں بیٹھتی ہے۔ نثر بھی نہایت عمدہ اور نئے ڈھنگ کی ہے۔پرانی شاعری کا خاکہ نہایت لطف سے اڑایا ہے یا ادا کیا ہے۔میری نسبت جو اشارہ اس نثر میں ہے اس کا شکر کرتا ہوں اور آپ کی محبت کا اثر سمجھتا ہوں۔  اگر پرانی شاعری کی کچھ بو اس میں پائی جاتی ہےتو صرف ان ہی الفاظ میں ہے جن میں میری طرف اشارہ ہے ۔

                بے شک میں اس کا محرک ہوا اور اس کو میں اپنے ان اعمال حسنہ میں سے سمجھتا ہوں کہ  جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا میں کہوںگا کہ حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوںاور کچھ نہیں۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے اور قوم کو اس سے فائدہ بخشے۔مسجدوں کے اماموں کو چاہیے کہ نمازوں میں اورخطبوں میں اسی کے بند پڑھا کریں۔آپ نے یہ نہہیں ارقام فرمایا کہ کس قدر چھپی ہیں اور کیا لاگت لگی ہے اور فی کتاب کیا قیمت مقرر کی ہے۔ نہایت جلد آپ ان جملہ امور سے مجھے مطلع فرمایئے یہ بھی لکھئے کہ بعد تقسیم یافروخت کس قدر کتابیں اب موجود ہے‘‘۔ 

    خاکسار آپ کا احسان مند

    سید احمد

     شملہ پارک ہوٹل

    ۱۰  جون ۱۸۷۹؁؁  

                      لندن میں قیام کے دوران بھی سرسید سائنٹفک سوسائٹی کے فرو غ کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھےاسی فکرمیں مہدی علی خان کو خط لکھتے ہیں:’’کہ مجھ کو علاوہ مفارقت احباب کے یہ رنج بڑا ہے کہ میرے پیچھے لوگ عقل کے دشمن سائینٹفک سوسائٹی کی بڑی مخالفت کریں گے اور کوئی درجہ سعی و کوشش کا واسطے شکست کردینے سوسائٹی کے باقی نہ رکھیں گے ۔پس میں چاہتا ہوں کہ آپ سوسائٹی کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے سنبھالنے اور ممبروں کے بڑھانے میں زیادہ کوشش فرمائیں۔‘‘

         سرسیدنے لندن سےایک خط میں محسن الملک کو لکھا واپسی تک ان کے خطوط کو ترتیب دیاجائے جن باتوں کی وضاحت مطلوب ہو انہیں پوچھ کر شامل کر لیا جائے اور مزید اضافے کیے جائیں۔ سرسید کی وطن واپسی اور ان کی مصروفیات کی وجہہ سے مجوزہ سفر نامہ ( خطوط کا مجموعہ) کتابی شکل میں شائع نہیں ہوسکا۔ جو حصہ ترتیب دیا گیاوہ تقریباً۱۰۰صفحات پر مشتمل تھا‘ جو ۱۸۰۰؁ء میں تہذیب الاخلاق میں شائع ہوا۔

     سرسید کی تحریروں میں دوران ِ سفر پیش آئے مشاہدات کو بنیاد بنا کر شیخ اسمٰعیل پانی پتی نے جولائی ۱۹۶۰؁ء میں چھ ضمیموں کے اضافے کے ساتھ سرسید کے سفر نامہ ’مسافران لندن‘کو ترتیب دیا۔پہلا ضمیمہ سکریٹری سائینٹفک سوسائٹی کے ۱۵؍اکتوبر ۱۸۶۹؁ء کو لکھے گئے ایک طویل خط پر مشتمل ہے۔ دوسرا حیات جاوید سے اخذ کیا گیا ہے۔ تیسرا ضمیمہ محسن الملک کو لندن سے لکھے گئے خطوط پر مشتمل ہے۔ چوتھا ضمیمہ بینتھم کلب کا حال‘پانچواں ضمیمہ ملکہ وکٹوریہ کی سالگرہ کی تقریب پر اور چھٹواں ضمیمہ سرسید کے نام ۱۷؍جولائی ۱۸۶۹؁ء کو لکھے گئے گارسان دتاسی کے خط پر مشتمل ہے۔ اس طرح سرسید کے خطوط پر مشتمل یہ سفر نامہ کی تکمیل ہوئی ۔ سرسید کے اس سفر نامہ سے انگلستان کی زندگی ‘وہاں کا جغرافیہ‘تہذیب و تمدن ‘تعلیمی نظام اور انگریزوں کی ترقی کے اسباب معلوم ہوتے ہیں۔

              سرسید کے سفر نامہ مسافران لندن(خطوط کا مجموعہ)  کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سرسید کے افکار کا مجموعہ ہے جسے سفر نامہ کی شکل دی گئی ہے۔ اردو کے سفر ناموں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہوتا ہے کہ بیشتر ادیبوں نے سفر نامہ لکھنے کی غرض سے سفر کیے اور اپنے افکار سے زیادہ سفر کےحالات کے بیان پر توجہ دی۔جب کہ سرسید نے اپنے سفر کی غرض و غایت کے پیش نظر انگلستان کی زندگی اور وہاں کے لوگوں کی ترقی سے ہندوستانیوں کے لیے فکر انگیز باتیں پیش کیں۔ یہ کتاب سفر کے احوال اور خطوط کے طرز  ِتحریرکو پیش کرتی ہے اس لیے اسے سفر نامہ(خطوط کا مجموعہ) قرار دیا جاسکتا ہے۔

    سفر نامہ مسافران لندن(خطوط کا مجموعہ) پر مجموعی تاثر بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ابراالباقی لکھتے ہیں:

سرسید کے سفر نامہ لندن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سفر نامے سے زیادہ سرسید کے افکار کا مجموعہ ہے جسے سفر نامہ کی شکل دی گئی ہے۔ اردو کے سفر ناموں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہوتا ہے کہ بیشتر ادیبوں نے سفر نامہ لکھنے کی غرض سے سفر کیے اور اپنے افکار سے زیادہ سفر کے حالات کے بیان پر توجہ دی۔جب کہ سرسید نے اپنے سفر کی غرض و غایت کے پیش نظر انگلستان کی زندگی اور وہاں کے لوگوں کی ترقی سے ہندوستانیوں کے لیے فکر انگیز باتیں پیش کیں۔ یہ کتاب سفر کے احوال پیش کرتی ہے اس لیے اسے سفر نامہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ (گلستان  ِسرسید ص۱۵۶)

                انجمن ِپنجاب کا قیام ۲۱؍جنوری ۱۸۶۵؁ءکو لاہور میں ہوا۔پہلے صدر پنڈت من پھول نے پہلے اجلاس میں انجمن کے مقاصدکو اس طرح بیان کیاکہ کلکتہ اور لکھنو کی طرح لاہور میں بھی ایک ایسی انجمن قائم کی جائےجس میں تنقید مطالب مفیدہ پنجاب و ترقی علم وہنر  کے تحریراََ و تقریراََ عمل میں آکر بذریعہ چھاپا منتشر ہوا کرے۔  اس انجمن کے کسی نے ۲۴   اور کسی نے ۳۵   ارکین لکھا ہے ہر ہفتہ اس انجمن کا  جلسہ خاص اور جلسہ عام ہوا کرتا تھا ۔ بہت جلد اس انجمن کی شہرت دور  دور تک پھیل گئی۔اس انجمن کے جلسہ عام میںتعلیمی ، اخلاقی، ادبی ،سماجی، تہذیبی ،انتظامی اور اصلاحی موضوعات پر اظہار خیال کی عوت دی جاتی اور مضامین پڑھائے جاتے تھے۔مقررین کو انعامات اور سند سے نوازا جاتاتھا۔

                         مولانا محمد حسین آزادنے ۱۱؍فروری ۱۸۶۵؁ء کو اپنا پہلا مضمون ـ ’درباب رفع افلاس ‘ جلسہ عام میں پیش کیااس طرح یہ سلسلہ تادیر تک چلتارہا۔آزاد کی علمی جستجو کو دیکھ کر انجمن کا سکریٹری مقررکیا گیا۔آزاد نے اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ انجمن میں نئ روح پھونک دی۔ایک سال میں آزاد نے مختلف موضوعات جس میں ادب،تاریخِ زبان اردو ،شعراوادیب اور عوامی مسائل پر ۳۶  لیکچر، مضامین اور تبصرے جلسہ عام میں پیش کئے۔ آزاد کا ایک مضمو ن ’خیالات در باب نظم اور کلام موزوں ‘پر بہت پسند کیاگیا۔اوریہ ہی مضمون مقدمہ ’نظم آزاد ‘  ہوا اور پھر یہ ہی مضمون کو اردو نظم نگاری میں ایک منشو ر کی حیثیت حاصل ہے۔اس طرح اردو کی پہلی نظم آزاد کی مرہون منت نہیں مگرتحریک ِ نظم نگاری  میں ان کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

                       محمد حسین آزاد نے ۱۹؍اپریل ۱۸۷۴؁ء کونظم نگاری اور جدید شاعری کے موضوع پر روایت سے ہٹ کر اپنے خیالات، جذبات اور احساسات کو پیش کیا۔قدیم شعری روایات پر عمل پیرا ہونے والوں نے اس پر اعتراض کیا اور شدید مخالفت کی۔قدامت پسندی اور روایت پسندی کے قلعہ سے تیروں کی بارش شروع ہوگئی ۔ اسی دوران آزاد نے سرسید کو ان حالات سے واقف کروانے اور تائید حاصل کرنے کے لئے ایک خط لکھا ۔جس کے جواب میں سرسیدنے  ۱۹  ؍اکتوبر ۱۸۷۴؁ ءکو ایک خط محمد حسین آزاد کو لکھتے ہیں جو درج ذیل ہے:

                   حالات مندرجہ سے اطلاع ہوئی۔افسوس صد افسوس کہ کبھی مسلمانوں میں باہم اتفاق نہ ہو۔ شعر و سخن پر رد وقدح دوسری چیز ہے اور آپس کا نفاق دوسری چیز ہے میری نہایت قدیم تمنا اس مجلس مشاعرہ سے بر آئی ہے ۔میں مدت سئ چاہتا تھا کہ ہمارے شعراءنیچر کے حالات کے بیان پر متوجہ ہوں۔آپ کی مثنوی ’خوابِ امن ‘پہنچی دل بہت خوش ہوا ۔دراصل شاعری اور زور ِسخن وری کی داد دی ہے ۔اب بھی اس میں خیالی باتیں بیت ہیں، اپنے کلام کو اور زیادہ نیچر کی طرف مائل کرو جس قدر کلام نیچر کی طرف مائل ہوگا اتنا ہی مزہ دے گا۔آپ لوگو ں کے طعنو ں سے مت ڈرو ضرور ہے کہ انگریزی شاعروں کے خیالات لے کر اردو زبان میں ادا کئے جائیںیہ کام ہی ایسا مشکل ہےکہ کوئی کر تو دے ۔اب تک ہم میں خیالات نیچر کے ہیں ہی نہیں۔ہم بیان کیا کر سلتے ہیں۔ بعد رمضان انشاءاللہ تعالی ایک مضمون طویل اس باب میں لکھوں گا۔ ان دنوں بسبب صوم کچھ کا نہیں ہوسکتا۔  ( سر راس مسعود :  خطوط سرسید ص ۲۲)

    سرسید وعدہ کے مطابق اپنے مضمون میں  نظم اردو کےشعراء کی بھر پور تائید کی اور مخالفین کی مذمت کی اور محمد حسین آزاد کی کاوشو ں کی بھرپور حمایت کی۔سرسید کا یہ مضمون  تہذیب الاخلاق میں ۷ـ؍فروری  ۱۸۷۵؁ء کو شائع ہوا۔

              انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے ابتداء میں ہندوستان میں بیداریٔ نسواں کی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک میں کئی تعلیم یافتہ مسلم خواتین نے حصہ لیا جن میں  سلطان جہاں بیگم ،وحید جہاں ،عطیہ بیگم،فیضی،فاطمہ بیگم، نفیس دلہن اور صغریٰ ہمایوںکے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اس تحریک نے خواتین کے مسائل کے لئے بڑی جدوجہد کی۔  اسی دور میں خواتین کےمتعلق  رسائل شائع ہونے لگے۔پہلا رسالہ  ۱۸۸۰؁ء میں لکھنو سے رفیق النساء کے نام سے جاری ہوا ۔   (رسالہ ’’رفیق النساء‘‘ جلد(۱) شمارہ۶۲،اگسٹ ۱۹۳۰؁ء  بنگلور )

                 سید احمد دہلوی نے خواتین سے متعلق ۱۸۸۴؁ء رسالہ اخبارالنساء دہلی سے جاری کیا۔ سید ممتاز علی لاہور سے خواتین کے لیے ایک رسالہ نکالنا چاہتے تھے انہوں نے سر سید احمد خاں سے اس رسالے کے لیے نام تجویز کرنے کی گذارش کی اور کچھ ناموں کی فہرست اپنے خط کے ساتھ روانہ کیے۔ سر سید نے ان ناموں کو خارج کردیا بلکہ اس خیال کو مسترد کردیا۔لیکن ممتاز علی کی فرمائش پر تہذیبِ نسواں نام تجویز کیا اور اپنے خط میں اس کی وضاحت کی ہے۔      

      مشفقی و محبی مولوی سید ممتاز علی

    ــ’’عنایت نامہ ملا۔اگر آپ نے مجھ سے اس بات میں مشورہ نہیں لیا کہ اخبار جاری کرنا مناسب ہے یا نہیں؟ بلکہ اس کے نام کے بابت دریافت کیا ہے۔چاہے آپ  میرا مشورہ پسند نہ کریں مگر میں یہی کہوں گا کہ آپ خواتین  کے لیے اخبارکرکےپچھتائیں گیاور تکلیف، نقصان اور سخت بدنامی کے بعد بند کرنا ہوگا۔ لیکن اگرآپ ان سب باتوں کو سمجھ لینے کے بعد جاری کریں تو جو نام آپ نے مجھے لکھ کر بھیجے ہیں ان میں سیمجھے کوئی بھی پسند نہیں آیا میری رائے  میں کوئی اخبار مستورات کے لیے جاری کیا جائے تو اس کانام تہذیبِ نسواںہونا چاہیے‘‘

(شیخ محمد اسماعیل پانی پتی :  مکتوباتِ سر سید احمد خاں  ص ۳۸۶ )                                                                                                   

        سرسید احمد خاں کو صحافتِ نسواں کا علم برداراور نقشِ اولین کہاجائے توبے جانہ ہوگا۔ کیوں کہ ان سے قبل کسی صحافی نےمذہبی نقطہ نظر سے خواتین کا مقام، خواتین کے طرز زندگی، صحافتِ نسواں اور تعلیمِ نسواں سے متعلق مضامین تحریر کرنے کی سعی نہیں کی ہے۔ سرسید وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے مرد اور خواتین دونوں سے متعلق اپنی صحافتی خدمات انجام دی ہیں۔اردو صحافیوںمیں سر سید سے پہلے اور بھی صحافی ملتے ہیں ۔لیکن صحافتِ نسواں پراردو میں ان کو نقشِ اولین کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔

    سر سید نے سید الاخبار،علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق میں خواتین کے متعلق مضامین تحریر کئے ہیں ۔ لیکن وہ یہ نہیں جاہتےتھے کہ خواتین کے نام سے کوئی الگ اخباریا رسالہ جاری ہو ۔ کیوں کہ ان کی نظر میں مرد و زن سب کے مسائل یکساں تھے ،مخصوص خواتین کے مسائل پر وہ اس وقت بات کرنا زیادہ پسند فرماتے تھے جس وقت ضرورت ہو۔شاید وہ مزید زندہ رہتے تو خواتین کے حق میں اپنے طور پر صحافت کے ذریعہ ضرور فائدہ پہنچاسکتے تھے۔

                   سرسید کے ہمعصر مذہبی رہنماوںنے سرسید کے مذہبی افکار کو مسترد کردیاتھا ۔سرسید مسلئہ اجتہاد کا سہارا لیااور اپنے جذبات کو خط کی شکل میں تحریر کرکے محسن الملک کو بھیجا سرسید اپنے جذبات کا اظہاراس طرح کرتےہیں؛

            ’’ بھائی جان سنو ؛ اب وقت نہیں رہا کہ میں اپنی مکنونات ِضمیر کو مخفی رکھوں میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر لوگ تقلید نہ چھوڑیں گے اور خاص اس روشنی کو جو قرآن و حدیث سے حاصل ہوتی ہےنہ تلاش کریں گے اور حال کے علوم سے مذہب کا مقابلہ نہ کرسکیں گے تو مذہب  ِاسلام  ہندوستان سے معدوم ہوجاو یگا اس خیر خواہی نے مجھ کو ب بر انگیختہ کیا ہے جو میں ہر قسم کی تحقیقات کرتا ہوں اور تقلید کی پرواہ نہیں کرتا ورنہ آپ کو خوب معلوم ہے کہ میرے  نزیک مسلمان رہنےکےلئے اور بہشت میں داخل ہونے کے لئے  ائمہ کبار تو درکنار مولوی حبو کی بھی تقلید کافی ہے۔‘‘   (پروفیسر خلیق احمد نظامی  سید احمد خاں  ص۲۹)

                    سرسید ورفقا، سائنٹفک سوسائٹی،علی گڑھ تحریک ، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کےمجموعی مقاصد یہ تھےکہ قوم و ملت کو تعلیم کی طرف راغب کرنا،ان کے اندر تحریری صلاحیت پیداکرنا۔ انگریزی اور مغربی علوم کی اہمیت کو واضح کرنا۔مذہبی تعلیم کا رجحان پیدا کرتےہوئے شریعتِ اسلامی سے واقف کروانا،  تہذیب و تمدن سے واقف کرنا ،دینی وعصری تعلیم کے ذریعہ معاشرے میں بیداری پیدا کرنا ،عالم میںہورہی سائنسی ترقی سےہونے والی تبدیلیوں کومنظرِ عام پر لانا ۔سیاسی بیداری پیدا کرنا ۔انگریزی تعلیمِ کاشوق پیدا کرنا،  دوسری اقوام سے شانہ بہ شانہ چلنے کے لےنئے علوم سیکھنے کی ترغیب دینا ۔اردو ادب کو عام فہم بنانا۔معاشرتی خامیوں کو دورکرنے کی کوشش کرنا۔سماجی فرائض سے آگاہ کرنا اور قومی یکجہتی کو فروغ دیناوغیرہ قابل ِذکر ہیں۔

پروفیسر ٹامس آرنلڈ نے سر سید کی خدمات کا اس طرح اعترف کرتے ہیں:

     ؒ حقیقی عظمت کا اگر کوئ انسان مستحق ہوسکتا ہے تو یقینا سرسید احمد خاں اس کے مستحق تھے ۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑے آدمی اکژگزرے ہیں لیکن ان میں بہت کم ا یسے نکلیں گے جن میں یہ حیرت انگیز مہارتیں اور اوصاف مجتمع ہوں۔ وہ ایک ہی وقت میں

اسلام کا محقق ، علم کا حامی،قوم کا سوشل ریفارمر ،پولیٹیشن، مصنف اور مضمون نگار تھا۔اس کا اثر اس عالم کا نہ تھا جو گوشہ تنہائ میں بیٹھ کر اپنی  تحریروں سے لوگو ں کے دل اکساے بلکہ وہ اعلانیہ دنیا کے سامنے لوگوں میں لوگوں کا رہبر بن کر اس لیے آیا کہ جس بات صیح اور سچ سمجھے اگر اسکی دنیا مخالف ہوتو ساری دنیاسے لڑنے کے لیےہر وقت تیار اور آمادہ رہے۔ہندوسان میں ایسے شخص کی مثال جیسا کہ وہ تھا کہاں مل سکتی ہےکہ نہ جاہ و مرتبہ تھا ، نہ دولت تھی،باوجود اسکے ہندوستان میں مسلمانوں کی قوم کا سردار بن کر ظاہر ہوا۔ یہ وہ رتبہ ہےجو اس سے پہلے کسی شخص کو بغیر تلوار کے زور کے حاصل نہیں ہوا   ؒ  (ڈاکٹر سلیم اختر  اردو ادب کی مختصرترین تاریخ ص۳۲۹)

  سر سید کی تحریک ایک جامع تحریک تھی اور وہ جانتے تھے کہ مسلمان ترقی یافتہ قوم اس وقت ہوسکتی ہے جب اس کے ذہن میں جدید تعلیم کی شمع روشن ہو،دینی علوم کی صیح رہنمائی ہو۔ علی گڑھ تحریک ایک وسیع الجہت تحریک تھی جس کا مقصد سماجی، سیاسی، معاشی، اور تہذیبی زندگی میں اصلاح کر کے اسے ایک طاقتور قوم میں تبدیل کرنا تھا۔

مجموعی اعتبار سے سر سید کی خدمات مسلمانوں کے لیے بڑی اہم اور انقلاب آفرین ہیں سر سید نے مذہبی اعتبارسےتقلید، تعصب اور تنگ نظری کو ختم کیا۔ سر سید کااہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوںنے مسلمانوں کے لیے سب سے پہلے قوم کا لفظ استعمال کیا اور انھیں قومیت کے تصور سے آگاہ کیا۔

    الغرض سرسید ورفقا، سائنٹفک سوسائٹی،علی گڑھ تحریک ، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کا اردو زبان اور ادب پر بڑا احسان ہے ۔

           سرسید احمد خان بیسویں صدی کے ہندوستان کی عظیم تاریخ ساز شخصیت گزرے ہیں۔ وہ بہت بڑے مفکر‘مصلح قوم‘ماہر تعلیم‘ادیب ‘صحافی‘ علی گڑھ یونی ورسٹی اور علی گڑھ تحریک کے بانی اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار رہے ہیں۔

                                      سرسید کی ہمہ جہت شخصیت کا چند جملوں میں احاطہ ناممکن ہے۔

میں ایک چراغ بجھنے آیا تو کئی چراغ خود بخود فروزاں ہوگئے۔

 سر سید کی تحریک کا اہم مقصد یہ تھا کہ ملت کے ہر فرد کے سر پر کلمہ طیبہ کا تاج ہو، سیدھے ہاتھ میں فلسفہ ہو اور بائیں ہاتھ میں سائنسی علوم ہوں۔

حیات سر سید کے چند نمایاں پہلو

(مکتوبات سر سید کی روشنی میں)

       

        سر سید کے تعلق سے ان کے رفیق مولانا الطاف حسین حالی کا یہ بیان سر سید شناسی کے سفرمیں میل کا پتھر ہے۔مولانا حالی کے اس بیان سے سر سید کی عملی زندگی کا نقشہ برآمد ہوتا ہے۔اس میں نسلوں کی تربیت اور ان کے حوصلوں کو مہمیز کرنے کا بھرپور سامان موجود ہے۔مولانا حالی لکھتے ہیں :

        ’’سر سید احمد خان کی عمر کچھ کم اسی برس کی ہو چکی ہے اور طرح طرح کے روحانی آلام لاحق ہیں مگر مدرسہ میں جو اس وقت انتظامات در پیش ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کا ارادہ قیامت تک جینے کا ہے۔ایسے ہی لوگ دنیا میں بڑے بڑے کام سر انجام کرتے ہیں۔‘‘(۱)

        مکتوبات سر سید اس عبقری شخصیت کی روداد حیات کو بیان کرتے ہیں ۔ان مکتوبات میں سر سید ایک طرف مدبر نظر آتے ہیں تو دوسری جانب ماہر تعلیم۔ایک طرف اس وقت کے تناظر میں اپنے سیاسی موقف کو دلائل کے ساتھ واضح کرتے ہیں تو اس کے بر عکس خاندانی مسائل کو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام تک پہنچاتے ہیں ۔خانگی زندگی میں وہ احمدی بیگم کے لیے ایک شفیق اور دلجوئی کرنے والے داداکے روپ میں نظر آتے ہیں تو اپنے دونوں فرزند وں کے لیے دور اندیش والد کی ذمے داریاں بھی بخوبی نبھاتے ہیں ۔اسی طرح مدرستہ العلوم کی امداد کے واسطے یہ انسان مغرب و مشرق تا جنوب و شمال ہر کونے میں فقیروں کی طرح صدا لگاتا پھرتا ہے۔اس عمل میں وہ کسی مقام پر ذلیل کیا جاتا ہے تو کسی مقام پر سر آنکھوں پر بٹھایا جا تا ہے۔

سر سید کی بصیرت سے واقف ہونے کے لیے مکتوبات سر سید کا مطالعہ ضروری ہے۔

   اپنے فرزند سید حامد کے ساتھ پیش آئے معاملات کی روشنی میں ایک والد کی طرح انہیں صبر کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور آئندہ کی منصوبہ بندی میں کن امور کو پیش نگاہ رکھنا ہے اس پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ۔ساتھ ہی اس بات کی بھی تلقین کرتے ہیں کہ رضائے الہی کو ہر حال میں ملحوظ رکھنا چاہیے اور خدا جب تک حالات سازگار نہیں بنا دیتا،سکون سے گھر بیٹھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔سید حامد کے انتقال کے بعد ایک خط میں لکھتے ہیں :

        ’’سید حامد کے انتقال سے جو الم ہوا ہے،اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا ۔ان کے قرض کی کوئی انتہا نہیں ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ کیونکر ادا ہو سکتا ہے۔تم نے جو تعداد قرضہ لکھی ہے،تفصیل وار اس کی فہرست لکھو کہ کس کس کا ہے۔او ر نیز ٹھیک اندازہ لکھو کہ ان کی بیوی کے اخراجات کے لیے ماہواری کیا دینا چاہیے۔مگر نہایت کفایت اور ضرورت سے کام ہونا چاہییں،جواب(جلد)بھیجو۔‘‘(۳)

  پیش نظر خط میںسر سید اپنے فرزند کے انتقال کے بعد ان کی بیوی بچوں کی کفالت کے لیے درکار ضروری رقم کی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اپنی پوتی احمدی بیگم کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :

        ’’تمہارا خط پہنچا۔تم نے تو دو خط بلانے کے لیے بھیجے تھے مگر ہماری بوا صاحب نے کوئی خط نہیں بھیجا،نہ بلانے کا پیغام بھیجا،اس لیے میں بھی نہیں آیا۔اب اس خط میں تم نے ان کی طرف سے بھی بلاوے کا پیغام بھیجا ہے،اب میں آئوں گا۔مگر اس پر ان کے دستخط نہیں ہیں۔تم نے ان کی طرف سے لکھ دیا ہے یا خود انہوں نے لکھا ہے؟   میں دو پلنگ اور دو شطرنجیاں کل روانہ کروں گا۔پلنگوں کو نواڑ سے بنوا رکھنا اور اگر گرمی ہو تو باہر کے مکان میں جو سونے کا کمرہ ہے،اس میں ایک پنکھا بنوا کر رکھنا۔جب سب چیز تیا ر ہو جاوے تو مجھے خبر کرو،میں چلا آئوں گا۔‘‘

        اس خط میں سر سید اپنی پوتی کے لیے ایک دوست نما دادا ہیں ۔ایک طرف احمدی بیگم سے گھر آنے کا وعدہ کرتے ہیں تو دوسری جانب بوا صاحبہ کی دستخط کے حوالے سے پوتی کو بہلانے کا بھی کام کرتے ہیں ۔   

         مکتوبات سر سید میں بہت سے ایسے خطوط یکجا کر دیے گئے ہیں جو اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں کہ سید صاحب حقیقی معنوں میں ایک رہنما تھے ۔انہوں نے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کیا کہ خوشامد کرنے والوں سے اجتناب اور تعریف سے حتی الامکان گریز ایک رہنما کی نمایاں صفت ہوتی ہے۔

منشی سراج الدین احمد نے سر سید کی تعریف میں کچھ لکھا تھاچنانچہ اس کے جواب وہ لکھتے ہیں :

        ’’آپ کا عنایت نامہ پہنچا،ممنون ہوا۔آپ کے قلم نے ’’سومور گزٹ‘‘ میں میری نسبت زیادہ  

جوش دکھایا ہے جس کے لائق میںخود اپنے آپ کو نہیں سمجھتا۔میں فرض کرتا ہوں کہ آپ اپنی عنایت و محبت سے مجھے ایسا ہی سمجھتے ہیں لیکن اور لوگ تو ایسا نہیں سمجھتے۔پس وہ لوگ آپ کی تحریر کو فضول سمجھتے ہوں گے۔پس ایسی تحریرات سے،جن کو لوگ فضول سمجھیں،کیا فائدہ؟۔بہ ایں ہمہ اگر آپ چاہتے ہیں تو لیجئے ،ملفوف ہے۔اگر تصویر میںکچھ نقص ہو تو بے چاری بے جان تصویر پر الزام نہ دیجئے گا۔بلکہ جس کی تصویر ہے اس پر،اور اگر آگے بڑھیے تو اور پر۔مگر یہ نصیحت پیر دانہ یاد رکھنی چاہیے  

        مذکورہ خط کا پس منظر یہ ہے کہ سر سید جب بنارس میں مجسٹریٹ کے عہدے پر فائض تھے تو وہاں کے مقامی لوگوں نے ایک نئی مسجد کی تعمیر کے لیے ان سے رابطہ کیا تھا۔ ان لوگوں کی درخواست پر سر سید نے حکومت کی طرف سے ہر قسم کی مدد فراہم کروائی تھی چنانچہ وہ لوگ سر سید کے تعاون کو مد نظر رکھتے ہوئے نو تعمیر شدہ مسجد کیلئے زمین کی گذارش کی۔سر سید نے شہر بنارس کے رئوسا کی اس تجویز کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ وہ ایسا کرنا کسی بھی طرح سے پسند نہیں کرتے۔تاہم انہوں نے ذمے دران مسجد کی اس پیش کش پر ممنویت کا اظہار کیا۔ سر سید نے حقیقی معنوں میں ایسے ا اس طرح کے دوسرے بظاہر آسان نظر آنے والے امور کی وساطت سے بھی ایک جہاں کو اپنا گرویدہ بنایا تھا۔یہی سبب ہے کہ ہزارہا مخالفت کے بعد بھی سر سید کے قدم ڈگمگائے نہیں۔اس کے بر عکس ایسے کئی واقعا ت رونما ہوئے جن میں سر سید کے سخت جان مخالف بھی ان کے ہم نوا ہوگئے۔یہ صرف سر سید کے ’’یقین محکم‘‘ اور ’’عمل پیہم‘‘کا فیضان ہے۔

ماخذ: ۱۔مکتوبات سر سید (جلد اول)،شیخ اسماعیل پانی پتی،مجلس ترقی ادب لاہور،۱۹۷۶،ص۱۹

۲۔مکتوبات حالی(جلد دوم)،شیخ اسماعیل پانی پتی ،حالی پریس پانی پت،۱۹۲۵،ص۲۰

۳۔مکتوبات سر سید (جلد دوم)،شیخ اسماعیل پانی پتی،مجلس ترقی ادب لاہور،۱۹۸۵،ص۱۴

        زبیر عالم  ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جواہرلال نہرو یونیورسٹی

تنویر عالم انصاری

سر سید  :خطوط کے آئینے میں

        سر سید احمد خان کو ہندوستان کی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے۔ہندوستانی زندگی کی تعمیر میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔سرسید کی زندگی کی تصویر جو خود انھوں نے کھینچے ہیں،جس سے ان کی شخصیت کے ہر پہلو کا ہم جائزہ لے سکتے ہیں ،یہ تصویریں ہمیں ان کے خطوط میں جا بجا بکھری ہوئی نظر آتی ہیں ۔آل احمد سرور لکھتے ہیں : ’’ خطوں میں وہی شخصیت جھلکتی ہے جو’ تہذیب الاخلاق‘ کے کالموں میں ہم ایک لیڈر،ایک مصلح قوم،ایک معلم اخلاق،ایک سیاسی رہنما،سے ہر جگہ دو چار ہوتے ہیں۔ سر سید کے خط غالب کے خطوں کی طرح دلچسپ نہیں ہیں۔سر سید کے یہاں نہ کوئی راز ہے،جس سے پردہ اٹھنے میں دلچسپی ہو،نہ نشیب و فراز ہیں ،جس سے گزر کر انسان ہمتوںکی پستی ،اور شوق کی بلندی کا نظارہ کرے۔‘‘(۱)

بے شک سر سید کھلی کتاب کی طرح تھے ، ان کا ظاہر و باطن یکساں تھا۔اب تک سر سید کے چار مجموعۂ خطوط شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں ۔۔سرسید احمد خان کے خطوط ،مرتبہ وحید ا لدین سلیم  ،خطوط سر سید  مرتبہ سر راس مسعود  ،مکتوبات سر سید  مرتبہ شیخ اسماعیل پانی پتی  ،مکاتیب سر سید احمد خان   مرتبہ مشتاق حسین

         سر سید کے خطوط ان کے اخلاق و عادات و نظریات کا پر تو لیے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ان کے خطوں میں سادگی و سلاست اور جامعیت ملتی ہے۔در اصل وہ خطوط کو صرف پیغام رسانی کا ذریعہ خیال کرتے ہیں ۔اسی لیے ترسیل ِ خیالات کے لیے انداز ِ بیان کا سہارا نہیں لیتے۔کیونکہ یہ خطوط  خیالات کی ترسیل کے غرض سے لکھے گئے ہیں۔ سر سید اپنے خطوں میں صرف کام کی باتیں کرنا چاہتے تھے۔ان کے پیش نظر صرف مقصد و مدعا ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر سید عبد ا ﷲ لکھتے ہیں :

 ’’   سر سید جس طرح نثر میں مدعا اور مقصد کے داعی ہیں اس طرح خط نگاری میں بھی مقصد ہی کے علمبردار ہیں۔‘‘ (۲)

سر سید کے تمام خطوط القاب و آداب سے شروع ہوتے ہیں۔عام طور سے وہ سادہ اور مختصر القاب کا استعمال کرتے ہیں ۔لیکن کبھی کبھی لمبے القاب بھی ان کے خطوں میں دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔مثلاً: مخدوم ومکرم من باعث افتخار قوم نواب عماد الملک بہادر،جناب والا مناقب مخدوم و مکرم جناب محمد علی حسن، وغیرہ۔سر  سید اپنے خطوں میں جگہ اور تاریخ کا خاص خیال رکھتے تھے۔عربی فقروں اور دعاؤں کا استعمال بہت خوبی سے کرتے ہیں ۔جب تصانیف کا یہ حال ہے تو پھر خطوط میں انشا کی لطافت اور رنگینی کہاںسے پیدا ہوگی؟ لیکن پھر بھی ان کی صفائی و بر جستگی اور حقیقت پسندی سے کہیں کہیں ان کے بیان میں رنگینی و دلکشی پیدا ہو جاتی ہے۔

  سر سید منکسر ا لمزاج شخصیت کے مالک تھے۔تکبر و غرور نام کی چیز ان کے اندر نہ تھی۔ اور ان کو اپنے معاصرین و احباب سے محبت بھی ظاہر ہوتی ہے۔زمانے کی تنگ نظری نے آپ پر کیا کیا الزامات لگائے۔ لیکن آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔وہ ہمیشہ خود کو خاکسار و ادنیٰ سمجھتے رہے۔

 ’’ میں صرف ایک گنہ گار شرمسار آدمی ہوں ۔ادنا سے ادنا مسلمان بھی مجھ گنہ گار سے ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔‘‘(۳)

        سرسیدنے قیام یورپ کے دوران وہاں کی ہر چیز کو عبرت اور حیرت کی نگاہ سے دیکھا۔وہاں کی زندگی اور ماحول کے بارے میں اپنے تاثرات خطوط کے ذریعہ اپنے احباب کو وقتاً فوقتاً بتایا کرتے تھے ۔یورپ میں ان کا زیادہ تر وقت علمی مشاغل و تحقیقات میں صرف ہوتا تھا۔سر سید نے انگلستان میں تقریباً سترہ مہینے قیام کیا۔ اس اثنا میں انھوں نے جو علمی و اصلاحی خدمات انجام دیں وہ حیرت انگیز ہیں۔ اس دوران انھوں نے نہ صرف درباروں ،محلوں،جنگی جہازوں،اور بازاروں کو دیکھا بلکہ تعلیمی اداروں بالخصوص کیمبرج و آکسفورڈ یونیورسٹیوں کا اچھی طرح مشاہدہ کیا۔ وہاں کے کتب خانوں کے متعلق محسن ا لملک کو لکھتے ہیں :

’’ کتب خانہ انڈیا آفس، کتب خانہ نہیں ،کتابوں کا شہر ہے۔۔برٹش میوزیم ،ایک بڑا کتابوں کا جنگل ہے۔۔۔‘‘ (۴)

        سر سید کا یہ سفر انگلستان ایک خاص مقصد کے تحت تھا۔ وہاں کے تعلیمی نظام اور عصری ماحول،تہذیب و تمدن کے علاوہ ولیم میور کی کتاب ’’لائف آف پرافٹ محمد ؐ ‘‘کا جواب لکھنا تھا۔کیونکہ انگریزوں میں بھی پیغمبر اسلام کو لے کر جو غلط فہمیاں تھیں ان کو بھی دور کرنا ضروری تھا۔میور کی اس کتاب میں اسلام اور پیغمبر اسلام پر اعتراضات کیے گئے ہیں ۔سر سید میور کی اس اعتراضات کا جواب اپنے تئیں فرض سمجھتے تھے۔جس کی تحقیق میں انھوں نے لندن ،جرمن،اور مصر کے کتب خانوں سے مواد حاصل کیے تھے۔سر سید ولیم میور کی پر تعصباتی نظریہ سے بہت دل برداشتہ ہو گئے تھے۔ایک خط میں وہ لکھتے ہیں:

’’ ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرت ؐ کے حال میں لکھی ہے۔اس کو میں دیکھ رہا ہوں ۔اس نے دل کو جلادیا ہے۔ اور ان کی نا انصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہو گیا ہے۔اور مصمم ارادہ کیا کہ کتاب لکھ دی جائے۔ اگر تمام روپیہ خرچ ہوجائے اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں تو بلا سے ،قیامت میں یہ تو کہہ کر پکارا جاؤںگا کہ اس فقیر مسکین احمد کو جو اپنے دادا محمد صلعم کے نام پر فقیر ہو کر مر گیا حاضر کرو‘‘(۵)

اور اس سلسلے میں سر سید کو جب معاشی مشکلات در پیش آنے لگی تو ایک خط میں محسن ا لملک کو لکھتے ہیں :

  ’’ کتابیں اور میرا اسباب یہاں تک کہ میرا ظروف مسی تک فروخت کر کے ہزار روپیہ بھیج دو‘‘(۶)

 ان کے دل میں خدا اور اس کے رسول سے کس حد تک محبت تھی اس کو تحریر کرنے کی ضرورت نہیں ،جس جوش و عقیدت سے انھوں نے ولیم میور کی کتاب ’’ لائف آف پرافٹ محمد ؐ‘‘ کے جواب میں اپنی کتاب ’’ خطبات احمدیہ‘‘ لکھی وہ اس کا عین ثبوت ہے۔ سر سید احمد خان کے خطوط ایک طرف ان کے تعلیمی مشن کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں ،تو دوسری جانب آپ کی شخصیت کا ہر پہلو واضح ہوتا ہے۔ ان خطوط سے آپ کے اخلاق و عادات،نظریات و عقائد،اپنے دوستوں سے بے تکلفی، محبت و عقیدت، اور آپ کے مشغولیت کے متعلق ہم بہت کچھ جان سکتے ہیں ۔ ۔ د

حواشی:  ۱۔ تنقیدی اشارے،آل احمد سرور،۶۶۔۲۔  میر امن سے عبد ا لحق تک، سید عبد اﷲ،ص،۱۹۵۔

۳۔  مکتوبات سر سید، اسماعیل پانی پتی،۳۰۳۔۴۔  رسالہ اردو،عبد ا لحق،۵۵۵۔

 ۵۔ رسالہ اردو،عبدالحق،ص،۵۵۱۔۶۔  خطوط سرسید،ص،۶۱

    تنویر عالم انصاری  ،ریسرچ اسکالر شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی

محمد شاداب شمیم

مکاتیب سرسید کے حواشی و تعلیقات :اہمیت ،ضرورت اور معنویت

    

        سرسید احمد خاں کا دور انیسویں صدی کاہے ان کی تحریروں اور خاص طورپر مکاتیب میں بڑی تعداد میں ایسے الفاظ،محاورات،اشخاص و مقامات ،قرآنی آیات ،عربی و فارسی کے الفاظ و محاورات ، فقہی اصطلاحات اور عقلی و منطقی دلائل و براہین کا استعمال ہو ا ہے جن کو بہ آسانی اردو کا ہر طالب علم نہیں سمجھ سکتا ،اس لیے ضروری ہے کہ مکاتیب سر سید کے حواشی اور تعلیقات تحریر کیے جائیں ورنہ خدشہ ہے کہ یہ مکاتیب کہیں اردو ہی والوں کے لیے قصۂ پارینہ نہ بن جائے۔

        مکتوب نگاری اردو ادب میں ایک اہم صنف کی حیثیت رکھتی ہے ،خطوط و مکاتیب نثری ادب کا وہ حصہ ہیں جن کے ذریعہ ہم کسی کی شخصیت کے پورے خدو خال سے واقف ہوسکتے ہیں ، سرسید اسلامی و ادبی تاریخ کا وہ سنگ میل ہیں جہاں سے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اردو زبان وادب کے محسن ،مصلح قوم ،رہنما و قائد اور جدید اردو نثر کے موجد کو ہم سرسید کے نام سے جانتے ہیں ،کون سی ایسی خدمت ہے جو سرسید نے انجام نہ دی ہو اور کون سا علم و ادب کا میدان ہے جس میں سرسید نے کوئی تحریر نہ لکھی ہو ،چوں کہ سرسید علمی،دینی ،تاریخی ،ادبی،اخلاقی ،اصلاحی،تعلیمی ،سماجی اور تہذیبی جیسے تمام میدانوں سے وابستہ تھے ا س لیے آپ کی خط و کتابت ہر طبقہ کے لوگوں سے ہوتی تھی اس وقت افہام و تفہیم ،سوالات و جوابات ،اعتراضات و جوابات ،مسائل اوران کے حل ،ضروریات اور اپنے منصوبوں  کا خاکہ ، خیالات و آرا کے اظہار اور دو سروں کو اس سے واقف کرانے کے لیے خطوط و مکاتیب کا سہارا لیا جاتا تھا۔

         سرسیدنے اپنے تعلیمی مشن اور منصوبوں کا اظہار لندن سے اپنے دوستوں کو خطوط لکھ کر کیا ہے ،تفسیر قرآن اور دیگر دینی مسائل میں علماء نے ان سے اختلافات کیے اور خطو ط کے ذریعہ سوالات و جوابا ت کا طویل سلسلہ جاری رہا تحریک علی گڑھ کے حامیین اور مخالفین سے بھی خط وکتابت ہوئی ان کے خطو ط تاریخی معلومات کا گنجینہ ہیں ،خواجہ احمد فاروقی نے اس سلسلہ میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے’’ اگر ہمیں آدم نثر جدید بانیٔ مدرسۃ العلوم اور حامی ٔ ملک و ملت یعنی سرسید اعظم کو اگر برافگند نقاب دیکھنا ہے توخطوط ِسرسید کا مطالعہ کرنا چاہیے ،وہاں انہوں نے اپنا دل ودماغ کھول کر رکھ دیا ہے ،یہ خطوط ان کے اخلاق و عادات، اعتقادات و نظریات اور عصری معلومات کا خزانہ اور گنجینہ ہیں ‘‘(مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی جائزہ ص:۲۵۴) خطوط سرسید کے ذریعہ مسلمانوں کی مذہبی ،حالت تحریک علی گڑھ مدرسۃ العلوم مسلمانان ہند ،تہذیب الاخلاق ،کالج کے حالات ،معاصرین سرسید اردو و ہندی نزاع ،جدید اردو شاعری،مسلمانوں کی سیاست اور تعلیم کی حالت ،قوم مسلم کی زبوں حالی و پستی اور ان کے تدارک کے ذرائع وغیرہ پر خاطرخوا ہ روشنی پڑتی ہے اور قیمتی تاریخی مواد حاصل ہوتا ہے ۔سرسید کو پیرائے سے زیادہ مطلب کی فکر تھی اور اسلوب سے زیادہ مضمون کی جستجو تھی سرسید کے خطوط مرحوم کی تمام  زندگی اور ان کی علمی وعملی جدو جہد کی آئینہ دار ہیں ،سرسید کے خطوط بڑی حد تک سپاٹ ہیں ؛لیکن خلوص اور سچائی نے بے جان لفظوں میں جان ڈال دی ہے ۔ان کے خطوط میں سادگی اور بے ساختگی ہے ۔  

سرسید اردو زبان وادب کی قد آور شخصیت ہیں ان کی شہرت و عظمت کئی وجوہ سے ہے ،وہ صرف عظیم مصلح اور مفکر ہی نہیں ،بلکہ علی گڑھ تحریک کے بانی اور جدید اردو نثر کے موجد بھی ہیں اور ساتھ ساتھ انہوں نے سادہ اور سلیس نثر کو اپنی تحریرکے ذریعہ فروغ بھی دیا ہے ان کے نثری ذخیرے میں خطبات،مقالات و مضامین تقاریر و بیانات اور مکاتیب ہیں مؤخر الذکریعنی سرسید کے مکاتیب بے توجہی کے سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں ۔

        اگر ہم کے مکاتیب کے مجموعوں کا جائزہ لیتے ہیں تو مندرجہ ذیل مجموعے سامنے آتے ہیں (۱) رسالہ تحریر فی اصول التفسیر ، ۱۸۹۲ ء مطبع مفید عام آگرہ ،(۲) مکاتیب الخلان فی اصول التفسیر و علوم القرآن مرتب محمد عثمان مطبع محمدی علی گڑھ ۱۹۲۵ ء (۳) خطوط سرسید مرتب سر راس مسعود نظامی پریس بدایوں ،۱۹۲۴ء (۴)انتخاب خطوط سرسید ، شیخ عطاء اللہ قومی کتب خانہ لاہور ۱۹۵۸ء (۵) مکتوبات سرسید شیخ اسماعیل پانی پتی   ان مجموعوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان پر حواشی و تعلیقات کا اضافہ انتہائی ناگزیر ہے ،اس لیے کہ سرسیدکے مکاتیب جو ان مجموعوں میں شامل ہیں ان کی تعداد تقریبا ایک ہزار ہے اور کوئی خط ایسا نہیں جن میں چند اصطلاحات ،مشکل الفاظ،تاریخی مقامات اور متعدد شخصیات کا ذکر نہ ہوں

                      مولوی سید ممتاز علی کے نام لکھے گئے ایک خط میں سرسید نے تہذیب الاخلاق کے بند ہونے کا ذکر کیا ہے حالاں کہ تہذیب الاخلاق سرسید کے مقصد و مشن کا سب سے مؤثر اور اہم ہتھیارتھا اسی کے ذریعہ سرسید نے اپنا پیغام عام لوگوں تک پہنچایا اور مسلمانوں کو تعلیمی ،ادبی ،سماجی اور تہذیبی سطح پر بیدار کیا آخر کیا اسباب و علل تھے کہ جس کی بنا پر سرسید کو تہذیب الاخلاق بند کرنا ۔’’حقیقت میں تہذیب الاخلاق بند ہونا نامناسب تھا گویا تحریر ،مضامین اور خیالات سب بند ہو گئے تھے ،اس کے سبب برا یا بھلا تحریر کا لگا ہے لگارہے گا،بعض بعض مضمون قابل پڑھنے کے تحریر ہوئے ہیں ،بعض صرف معمولی ہیں ،بہر حال ایک امر جاری رہنے سے امید ہے کہ کوئی عمدہ مضمون بھی آجائے گا ‘‘(مکاتیب سرسید احمد خاں ص:۱۳۹ مرتب مشتاق حسین )۔

        موجودہ وقت میں حواشی و تعلیقات کی اہمیت کہیں زیادہ ہو گئی ہے ،کیوں کہ ہم کسی مصنف اور ادیب کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں مصنف کے معاصرین کا ذکرملتا ہے ،نیز اس زمانہ میں مستعمل اشیا ،مقامات،املاک کے نام ملتے ہیں جو بعد میں حوادث زمانہ کا شکار ہو کر نامعلوم ہو جاتی ہیں اسی طرح اس زمانہ کے الفاظ و محاورات بھی آج کے لیے ناقابل فہم ہیں تاریخی نقطہ ٔ نظر سے ان کی تفصیل و معلومات کو حاصل کرکے حواشی و تعلیقات میں جمع کرنے سے ہم تاریخی ،فنی اور معروـضی اعتبار سے مضبوط و مالامال ہو جاتے ہیں ،آج جب ہم مکاتیب سرسید کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں موجود اسماء ،اماکن ،کتب و حوادث کی از سر نو تفہیم کی ضرورت پڑتی ہے ؛کیوں کہ فی زمانہ وہ تمام چیزیں قصۂ پارینہ ہیں جس کی عدم تفہیم ہمیں سرسید کی مطالب و احداف کی شناخت سے دور رکھ سکتی ہے ،ا س لیے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم مذکورہ چیزوں کو حواشی اور تعلیقات کے ذیل لاکر استفادۂ عام کا فریضہ انجام دے سکیں۔

     : محمد شاداب شمیم        ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی

محمد سرور لون

تہذیب الاخلاق کی ادبی اور تہذیبی اہمیت

     سرسید کا نام بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم مصلح کے طور پر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے اپنی اصلاحی فکر کو اپنی تحریروں میں عمدگی سے پیش کیا ہے ۔ سرسید نے علی گڑھ تحریک، ساینٹفک سوسائٹی اور رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے ذریعے مسلمان قوم کو زوال آمادہ حال سے عروج پذیر مستقبل کی طرف گامزن کیااور ان کی علمی و ادبی، تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی و روحانی اقدار میں اپنا تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ سرسیدنے انگلستان سے واپسی پر ایک رسالہ تہذیب اخلاق کے نام سے جاری کیا۔ بقول سرسیّد ’’اس پرچہ کے اجرا سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جاوے تاکہ جس حقارت سے سویلزڈ یعنی مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب قوم کہلائیں۔۱ 

     سرسید نے مسلمانوں میں اصلاحی سوچ کی بالیدگی پیدا کرنے کے لیے جن مختلف نکات کا ذکر اپنے مختلف تقاریر اور تحریروں میں کیا ان میں چند ایک قابل ذکر ہیں۔ درستی عقائد مذہبی، توہمات سے کنارکشی، اخلاقی عزت اور غیرت کا ہونا، تعلیمِ نسواں، تعلیم اطفال، ہنر وفن کا ہونا، رفا ہ عام کے لیے کام کرنا، ضبط اوقات گفتگو میں شائستگی، نئے علوم قبول کرنا، قومی اصطلاح اور جدید تعلیم کی ضروت وغیرہ۔

        ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے دیگر نمایاں لکھنے والوں میںسرسید کے نامور رفقائے کار کے نام شامل ہیں۔ان کے مضامین کی نوعیت اور معیار کے بارے میںڈاکٹرسید عبداللہ نے اپنی کتاب’’سرسید اور ان کے رفقائے کار کی اردو نثر کافنی وفکری جائزہ‘‘ میں پر مغز تبصرہ کیا ہے:

’’تہذیب اخلاق‘‘ کے مقالات عموماً مختصر ہوتے تھے اور ان میں ایک خاص نقطہ نظر بھی موجود ہوتا تھا

دونوں بیٹوں سید حامد اور سید محمود کے ہمراہ سفر لندن پر روانہ ہوئے۔سرسید کے اس سفر لندن کا مقصد سیر و تفریح بالکل نہیں تھابلکہ وہ ایک عظیم علمی اور اصلاحی مقصد کے حصول کے لیے وہاں گئے تھے جس کی جانب روشنی ڈالتے ہوئے ثریا حسین لکھتی ہیں:

                                 ساتھ ساتھ عورتوں کی بھی تعلیمی ترقی سے بے حد متاثر ہوئے اور ہندوستان میں بھی تعلیم نسواں کے حق میں       

        سر سید احمد خان کا ایک اور سفر نامہ’’ سفر نامہ پنجاب‘‘ کے نام سے سید اقبال علی نے مرتب کیا۔ اس سفر نامے میں سرسید کے  سفر پنجاب 1884ئکے احوال اور ان کے افکار ہیں۔سر سید نے حاجی محمد اسماعیل اور دیگر احباب کے ساتھ پنجاب کے مختلف شہروں لدھیانہ ‘امرتسر‘ گرداسپور کا سفر کیا تھا۔ دوران سفر سرسید نے جو تقاریر کیں ان کے تاثرات کو اس سفر نامہ میں شامل کیا گیا۔ ثریا حسین سفرنامہ پنجاب کے بارے میں لکھتی ہیں:

’’سیداحمد خاں کا سفر نامہء پنجاب فوجی جدوجہد کی ایک مختصر روداد ہے جس کا بنیادی مقصد اپنے تعلیمی مشن کو فروغ دینااور قوم کو جدید مغربی تعلیم کی ترویج پر متوجہ کرنا تھا۔ دلاوران پنجاب نے بھی سید کے قافلے کی راہ میں آنکھیں بچھائیں اور دوران سفر انہوں نے بھی امیر غریب‘ہندومسلمان اراکین آریہ سماج اور ہندو سبھا نیز اسکول و کالج کے لڑکوں سے ملاقاتیں کیں۔ سب کا دل اپنی درد مندی اور حق گوئی سے جیتا اور اپنا پیغام علم و عمل دوسروں تک پہنچایا اور ان میں تحرک پیدا کی۔ اس کے علاوہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں اٹھائے گئے سیاسی اور ملی سوالات‘تجارت و اقتصادیات اور ہندو مسلم اتفاق کی ضرورت پر اس میں اظہار خیال کیا گیا ہے وہ آج بھی اہم اور معنی خیز ہے۔ ‘‘(ثریا حسین۔ سرسید کا عہد۔ ص۔279)

                اس طرح سرسید کے لندن اور پنجاب کے اسفار پر مبنی دو سفر نامے بعد میں مرتب کیے گئے۔ ان سفر ناموں کی ادبی اہمیت سے زیادہ تہذیبی و سماجی اہمیت ہے کیوںکہ ان سفر ناموں میں شامل مواد سرسیدکے تعلیمی و تہذیبی افکار کو اجاگر کرتا ہے۔

 سفر نامہ مسافران لندن پر مجموعی تاثر بیان کرتے ہوئے ثریا حسین لکھتی ہیں:

’’سفر نامہ مسافران لندن کی اہمیت زبان و بیان کی خوبیوں سے زیادہ مصنف کے ذہنی رویے اور فکری نظام سے ہے۔ اگر ناقدین ان کے سفر نامے کو محض اصلاحی نوع کے سفر ناموں میں شمار کریں اور ان کے تاثرات کو احساس کمتری پر محمول کریں تو یہ صحیح نہیں کہ ایک پس ماندہ قوم کو ترقی یافتہ اہل ملک کے بالمقابل لاکھڑا کرنا اور انہیں اپنی کوتاہیوں سے آگاہ کرنا کسی طرح بھی احساس کمتری کا رویہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘

  (ثریا حسین۔ سرسید کا عہد۔278)