مظفر نازنین، کولکاتا
معروف صحافی، ادیب،شاعر، محقق جناب عطا عابدی سے میری ملاقات یکم جنوری ۲۲۰۲ء کو اپنے شہر کولکاتا میں ہوئی، جب موصوف کی آمد شہر نشاط کولکاتا کے ایک ادبی پروگرام ”جشن سال نو“میں ہوئی۔ میں اس سنہرے موقع کو اپنی خو ش قسمتی سمجھتی ہوں۔
عطا عابدی اردو ادب کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ بہت اہم اور معیاری شخصیت ہے جو زندگی کے مختلف نشیب و فرا ز سے گزر کر کامیابی کی بلندیوں پر پہنچے اور اونچی چوٹیوں کو عبور کیا۔ ان کی شخصیت اپنی ذات سے انجمن ہے۔ موصوف کا تعلق بہار کے شہر دربھنگہ سے ہے جو ادب کے حوالے سے بہت زرخیزمقام ہے۔ موصوف اچھے نظم نگار، شاعر، صحافی اور تنقید نگار ہیں۔ یہاں بڑے بڑے مشاہیراردو ادب پیدا ہوئے جنہوں نے دربھنگہ کانام پوری دنیا میں روشن کیا۔ یہاں بڑے بڑے ادبا شعرا پیدا ہوئے جنہوں نے پروقار مقام حاصل کیا۔ جن میں احسان دربھنگوی، اویس احمد دوراں، مجاز نوری، ابوالکلام قاسمی، مظہر امام کے نام ہیں۔ عصر حاضر میں چند اہم نام ہیں جن کے ذکرسے آ ج بہارکااردو ادب روشن او رتابناک ہے۔ جن میں بطور خاص ڈاکٹر امام اعظم، پروفیسر عبدالمنان طرزی،پروفیسر شاکر خلیق، سید محمود احمد کریمی، خلیق الزماں نصرت،جمال اویسی، خالد عبادی، ڈاکٹر احسان عالم، ڈاکٹر منصور خوشتر جیسے مشاہیرادب نے دربھنگہ کا نام روشن کیا اور ادب کے حوالے سے سنہری تاریخ رقم کی۔
اس شہر دربھنگہ کے گاؤں برہولیا میں عطا عابدی صاحب کی پیدائش یکم نومبر ۲۶۹۱ء کو ہوئی۔ ان کے والد کا نام عابد حسین انصاری ابن منیر مومن اور والدہ کا نام سائرہ خاتون بنت عبدالکریم (دیگھیار، دربھنگہ)ہے۔ ابتدائی تعلیم سمری دربھنگہ کے مڈل اور ہائی اسکو ل میں ہوئی۔ اس کے بعد آئی ایس سی مہارانی کلیانی کالج، لہریاسرائے اور بی اے، ایم اے ملت کالج دربھنگہ سے کیا۔ پی ایچ۔ڈی للت نارائن متھلا یونیورسٹی سے کی۔ ان کے تحقیقی مقالہ کا عنوان تھا ”بہار کے اردو ادبی رسائل، آزادی کے بعد سے ۰۰۰۲ ء تک“۔ ڈاکٹر منصور عمر صاحب ان کے گائیڈ تھے۔ لیکن ان کے انتقال کے سبب پروفیسر ارشد جمیل صاحب ان کے گائیڈ ہوئے۔ ۵/ دسمبر ۳۸۹۱ء کو ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ یکے بعد دیگرے کئی حادثات کا سامنا ہوا۔ ان کے سات سالہ معصوم بچے،عطا اللہ مظفر کو کسی جنونی نے شہید کر دیا۔اپنے اس ذہنی کرب کے باوجود موصوف ادب سے جڑے رہے۔ ان کی اہلیہ محترمہ ناظمہ پروین نے مصیبت کی گھڑی میں ان کا ساتھ دیا۔ صحیح کہا گیا ہے کہ شوہر کی کامیابی میں شریک حیات کا ہاتھ ہوتا ہے، محترمہ ناظمہ پروین اس قول کی مصداق ثابت ہوئیں۔ ان کے پانچ بچے ہیں۔ دو صاحبزادی نغمہ ترنم اور نازیہ ترنم کی شادی ہوچکی ہے۔ باقی بچے زیر تعلیم ہیں۔ عطا عابدی صاحب مطالعے کا گہرا ذوق رکھتے ہیں۔اپنا زیادہ تر وقت لائبریری کو دیتے ہیں۔ موصوف نے اپنی ایک کتاب ”بچوں کی کتابیں:تعارف و تذکرہ“بذریعہ ڈاک ارسال کی جس کے لئے میں عطا عابدی بھائی کی بے حد شکر گذار ہوں۔
ان کی چودہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن کی ادبی حلقے میں خوب پذیرائی ہوئی ہے۔ چند کتابیں یہ ہیں ”آئینہئ عقیدت(۷۸۹۱)، عکس عقیدت (۲۰۰۲)، بیاض (۳۰۰۲)، مطالعے سے آگے (۶۰۰۲)، افکار عقیدت (۷۰۰۲)، نوشت نوا (۹۰۰۲)، زندگی، زندگی اور زندگی (۰۱۰۲)، مناظر مذکر و مؤنث کے (۲۱۰۲، ۳۱۰۲)، خوشبو خوشبو نظمیں اپنی (۲۱۰۲)، شعر اساس تنقید (۵۱۰۲)، دریچے سے (۶۱۰۲)، سقوط ماسکو اور ترقی پسند ادب (۸۱۰۲) اور بچوں کی کتابیں: تعارف و تذکرہ“ (۲۲۰۲) کافی اہمیت کی حامل ہیں۔کئی کتابیں ترتیب شدہ ہیں اور کچھ اشاعت کے مختلف مرحلوں میں ہیں۔
زیر نظر کتاب بچوں کی کتابیں تعارف و تذکرہ ایک مبسوط کتاب ہے۔ اس کتاب کو موصوف نے ہمارے اپنے بچپن کے نام اور اپنے اور ہمارے بچوں کے نام منسوب کیا ہے۔ اس کتاب میں قریب ۰۰۱/ شخصیات کے تذکرے ہیں۔ ان شخصیات کا تعلق ریاست بہار سے ہے اور انہوں نے اردو ادب اطفال کے حوالے سے کتابی صورت میں بھی بڑا کام کیا ہے۔ بلاشبہ اس کتاب کے ذریعہ مصنف عطا عابدی صاحب نے اردو ادب اطفال کے تعلق سے ان مصنفین کی ادبی طفلی خدمات سے زمانے کو روشناس کرایا ہے۔ ۰۶۱ / صفحات پر مشتمل یہ کتاب روشان پرنٹرس دہلی۔ ۶ سے شائع ہوئی۔ کتاب کی قیمت ۰۵۲ روپے ہے اور اس کتاب کی اشاعت میں کسی ادارے کا کوئی مالی تعاون شامل نہیں ہے۔ موصوف جناب عطا عابدی انتظامی افسر (اردو) بہار ودھان پریشد پٹنہ جیسے عہدوں پر جنوری ۷۹۹۱ء سے فائز ہیں اور اردو ادب کے گراں قدر کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ موصوف کی ان خدمات کے تعلق سے معروف ادیب، محقق، ناقد حقانی القاسمی صاحب کے یہ خیالات قارئین کی نذر ہیں:
”عطا عابدی منجمد احساس اور مضمحل تجربے کے شاعر نہیں ہیں۔ ان کے ہاں تحرک کے کئی زاویے اور سلسلے روشن ہیں۔… ان کے خیال کائنات کا رشتہ زمین اور زندگی سے اس قدر گہرا ہے کہ زندگی کے مظہرات اور تضادات کی بالکل نئی تعبیریں ان کی شاعری کے وسیلے سے سامنے آئی ہیں۔
عطا عابدی کو اپنی ذات کا عرفا ن اور شعور ہے۔ اپنی جڑوں سے وابستگی نے ان کے شعری کردار کے دائرہ کو محدود نہیں کیا ہے بلکہ زندگی کے مختلف زاویوں کو سمجھنے اور شاعری میں متشکل کرنے کے لئے مہمیز کیا ہے۔ عطا عابدی کی شاعری میں احساس کا نیا پن اور زاویہئ نظر کی انفرادیت بھی ہے مگر ان کا تفرد احساس و اظہار کے ارتباطی عنصر میں پنہاں ہے۔“(نوشت نوا/ ۹۰۰۲ء)
پروفیسر وہاب اشرفی نے بھی ان کی شاعری کے حوالے سے اہم خیالات کا اظہار کیا ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”…اس شاعر کے یہاں غضب کا تیور ہے اور یہ تیور اساتذہ کی شاعری سے گہری واقفیت کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک طرف تو اشعار کی لپک بتاتی ہے کہ عطا عابدی نیا رنگ پیدا کرنے کے اہل ہیں تو یہ بھی واضح کرتی ہے کہ ان کے یہاں انحراف برائے انحراف نہیں ہے، ایک سوچا سمجھا موقف ہے۔ یہ موقف کسی تھیوری کا نتیجہ نہیں ہے، کسی وابستگی کا عکس نہیں ہے۔ ہاں جو کمٹمنٹ ہے وہ زندگی سے ہے۔ وہ زندگی جسے شاعر لمحہ لمحہ برت رہا ہے۔ یہ لمحہ لمحہ زندگی کبھی سپر ڈالنے پر مائل کرتی ہے تو کہیں چیلنج کا جواز پیدا کرتی ہے… نئی تعبیرات کا یہ شاعر اردو غزل کی دنیا میں جلد ہی پہچان لیا جائے گا۔“(بیاض /۳۰۰۲ء)
مشاہیر ادب کی مذکورہ آرا ا س حقیقت کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ عطا عابدی دنیائے ادب کے وہ ماہ درخشاں ہیں جن کی ضیاء باریوں سے اردو شعروادب تابندہ ہے۔ دیرینہ علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو متعدد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ جن میں ۹۸۹۱ء میں ادارہ بابی پیلی بھیت کا پہلاطرحی غزلیہ انعام، ۳۹۹۱ء میں راوی لندن کا پہلا عالمی نعتیہ انعام، ۳۹۹۱ء میں جریدہ ٹائمزدہلی کا مضمون نگاری کا تیسرا انعام، ۵۹۹۱ء میں راشٹریہ سہارا نویڈا کا موضوعی افسانوی مقابلہ میں دوسرا انعام، شاداں فاروقی ایوارڈ (بزم ادب دربھنگہ)، نقی احمد ارشاد ایوارڈ (علمی مجلس بہار۔ ۳۱۰۲ء)، شاد عظیم آبادی ایوارڈ اور احمد جمال پاشا ایوارڈ (بہار اردو اکاڈمی، ۳۱۰۲، ۴۱۰۲ء)، اکبر رضا جمشید اردو زبان وادب ایوارڈ، پٹنہ (۹۱۰۲ء)، ڈاکٹر محمد مسلم ایوار ڈ (اے ایم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ) اور کلیم اللہ کلیم دوست پوری ایوارڈ پٹنہ (۱۲۰۲ء) قابل ذکر ہیں۔
میں آخر میں ادب کے اس ماہ درخشاں کو ان کی ادبی خدمات کے لئے صمیم قلب سے پرخلو ص مبارکباد پیش کرتی ہوں اور بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوکر دعا کرتی ہوں کہ خدا انہیں صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے۔ اردو کے اس درنایاب سے اردو والے فیضیاب ہوتے رہیں، آمین ثم آمین۔