ڈاکٹر سیّد احمد قادری
(بہار،انڈٖیا)
مولانا ابوالکلام آزاد (1888ء۔1958ء) کا مشہور اور مقبول ہفتہ وار اردو اخبار ”الہلال“اردوصحافت کی تاریخ کا سنہری باب ہے۔ مولانا آزاد نے اپنے صحافتی شعور و آگہی سے ملک کی سیاسی، سماجی، تہذیبی، مذہبی،معاشرتی،لسانی، ادبی اورصحافتی معیار اور وقار قائم کیا ہے۔ خاص طور پر مولانا آزاد نے صحافتی تقاضوں اورذمّہ داریوں کوپورا کرتے ہوئے جس خوش اسلوبی، سنجیدگی، صبر و تحمل، برد باری اور متانت سے اردو صحافت کو جو آفاقیت بخشی اوراعٰلی معیار قائم کیا ہے، انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ان کے اسلوب کی سحر انگیزی اور معروضیت پسندی اردو صحافت کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے۔ مولانا آزاد کی ان تما م خوبیوں کا اعتراف ان کے معاصرین، زعمأ و اکابرین نیز صحافیوں، ادیبوں اور سیاسئین نے بھی خلوص دل سے کیا ہے۔ ان اعتراف میں مولانا آزاد کی صحافتی بصیرتوں کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی افکار و اظہار، علم و ادب،شعر و سخن اور سیا ست و معاشرت کے لئے فرض کفایہ کی ادائیگی کے لئے ممنونیت کا اظہار ہے۔ معروف مصری ادیب طہٰ حسین نے مولانا کی صحافت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا ”ان کی صحافت خود اپنی صحافت تھی، جسے خود انھوں نے ایجاد کیا تھا اور ان کے ساتھ ختم ہو گئی“۔ ’الھلال‘ نے جس طرح صحافتی دنیا میں انقلاب لایا تھا، اس کے معترف نیاز فتح پوری بھی تھے اور انھوں نے بھی لکھا تھا ’مولانا آزاد نے ’الہلال‘جاری کیا اور اس شان کے ساتھ کہ صحافت کا تمام اگلا پچھلا تصور ہمارے ذہن سے محو ہو گیا اور ہم سوچنے لگے کہ کیا یہ آواز ہماری ہی دنیا کے کسی انسان کی ہے۔ کیا یہ زبان ہمارے ہی ابنائے جنس میں سے کسی فرد کی زبان ہے‘۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا آزاد کو اپنے طالب علمی کے دور میں ہی اس امرکا اندازہ ہو گیا تھا کہصحافت ترسیل وابلاغ کا مؤثراور طاقتور ذریعہ ہے اورواقعات و حالات حاضرہ کی معلومات بہم پہنچانے کااتنا بہتر وسیلہ ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے سماجی پیشوا، سیاسی رہنما اور مشاہیرادب نے نہ صرف اس کی بھرپور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے لیے صحافت کو ہی اپنا ہتھیار بنایا۔سے منسلک رہے۔تاریخ شاہد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دیے، بڑے بڑے انقلابات کوجنم دیا اورظالم حکمرانوں کے دانت کھٹّے کردیے۔ عالمی پیمانہ پر ایسے کئی مقام آئے، جب صحافت کی بے پناہ طاقت، اس کی عوامی مقبولیت اوراس کی تنقید سے خوف زدہ ہوکر اس پرپابندیاں عاید کی گئیں۔ صحافت نے جیسے جیسے ترقی کی منازل طئے کی، ویسے ویسے اس کی مقبولیت، اہمیت اورافادیت بڑھتی گئی اورلوگوں کومتوجہ کرانے میں کامیاب ہوتی گئی۔ایک وقت ایسا آیا، جب لوگ صبح آنکھ کھلتے ہی اخبارتلاش کیا کرتے تھے۔ اس طرح صحافت انسانی زندگی کا ایک حصہ بن گئی۔ اپنے عہد کے عظیم ڈکٹیٹر نیپولین بونا پاٹ نے بھی صحافت کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے کہا تھا کہ:
” I fear three newspapers more than a hundred thousand bayonets”
”یعنی”لاکھوں سنگینوں سے زیادہ میں تین اخبار سے خوف زدہ رہتا ہوں“۔نیپولین بوناپاٹ کا یہ خوف یقینی طورپر صحافت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس نے ضرور اس بات کومحسوس کیا ہوگا کہ دشمن کی صفوں میں انتشاربرپا کرنے میں توپ اورتفنگ، لاؤ لشکر، تیر، تلوار کے ساتھ ساتھ ہاتھیوں، گھوڑوں اورفوجیوں کی بے پناہ طاقت، صحافت (اخبار) کے سامنے کند ہے۔ جو کام صحافت سے لیا جاسکتا ہے،وہ توپ اوربندوقوں سے بھی نہیں لیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے عظیم مفکر، دانشور، سربراہ، مصلح، سیاستداں اوررہنما اس کی اہمیت کے معترف اورقائل رہے ہیں۔ اس کی سیکڑوں مثالیں عالمی طورپر ہمیں دیکھنے کوملتی ہیں۔ اپنے ملک کے کئی مشاہیر کے ساتھ ساتھ بیرون ملک میں ہم جھانکیں توپاتے ہیں کہ اپنے ملک سے کہیں زیادہ دوسرے ملکوں میں ایسی ہزاروں مثالیں موجودہیں۔ ان میں چند نام جوفی الحال میرے ذہن میں آرہے ہیں، وہ ہیں سررچرڈ اسٹیل(Sir Richard Steel)، جوزف ایڈیسن(Joseph Addison)، جوناتھن سوئفٹ(Jonathan Swift)، بابائے صحافت ڈینیل.ڈی فو(Daniel Defoe)وغیرہ ان لوگوں نے صحافت سے جڑکر نہ صرف اپنے گہرے مطالعہ ومشاہدہ اورفکروفلسفہ سے صحافت کا مقام بلند کیا، بلکہ صحافت کواپنے خیالات وافکار کاذریعہ ئ اظہاربناکر اپنی شخصیت اوراپنی فکرسے دنیا کے سامنے اپنی ایک منفرد پہچان بنانے میں کامیاب رہے اورجب انہیں یہ کامیابی مل گئی توپھروہ عملی میدان میں اترے اوربڑے بڑے معرکے سر کیے۔
یہی وجہ تھی کہ مولانا آزاد محض گیارہ سال کی عمر میں ہی صحافت کے مشکل اور دشوار گزار سفر پر نکل پڑے اور اس سفر میں خاردار دار راستوں سے گزرتے ہوئے، نت نئے تجربات حاصل کرتے ہوئے ملک و قوم کی تصویر و تقدیر کو بدلنے کے لئے غیر ملکی تسلط، جبر و ظلم، استحصال و استبداد کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے منافرت، تعصب، تنگ نظری کی نہ صرف بیج کنی کی بلکہ اپنے ملک کو انگریزوں کی غلامی کی ز نجیروں سے آزاد کراکر امام الہند بن گئے۔
مولانا آزاد نے صحافت کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کا نچوڑ مئی1902ء میں ’فن اخبار نویسی‘ کے عنوان سے سر عبد ا لقادر کے مشہور زمانہ رسالہ ’مخزن‘ میں طویل مضمون از طرف، از مولوی ابو الکلام محی ا لدین آزاد دہلوی،مقیم کلکتہ، شائع کرایا تھا۔ جس میں انھوں نے مختلف ذیلی عنوانات کے تحت نہ صرف فن صحافت بلکہ فکر صحافت پر تفصیلی اور تحقیقی مضمون سپرد قلم کرتے ہوئے بتایا تھا کہ….
”اخبار دراصل زندہ ہادی ہے۔جو ہر قسم کی باتوں میں ہدایت کرتا ہے۔ بری باتوں سے تنفر دلاتا ہے اور عمدہ باتوں کی جانب مائل کرتا ہے، کیوں کہ انسان کی طبیعت میں اِک ایسی زبردست قوت گمراہ کنندہ موجود ہے،جس کا کام انسان کو چاہ ضلالت میں ڈالنا ہے۔ اس کی اعلٰی کوششوں سے انسان سیدھے سعادت اور نیک بختی کے راستے کو چھوڑ کر شقاوت کی تنگ و تاریک اور خوفناک و پیچ دار گھاٹیوں میں آنکھ بند کئے پڑ جاتا ہے اور اس بد بختی کے مقام پر خوش قسمتی کے راستے کو تلاش کرتا ہے اور جب تک کہ کوئی خضر صفت رہبر ہاتھ پکڑ کے منزِل مقصود تک نہ پہنچائے وہ یونہی پریشان و سرگردان رہتا ہے۔ اس لئے ہر قوم اور فرد کو ایک رہبر اور ہادی کی سخت ضرورت ہے اور بے اس کے کوئی بھی صراط المستقیم پر نہیں چل سکتا۔
پس حالتِ موجودہ کے اعتبار سے اخبار سے بڑھ کر قوم کا کوئی ہادی اور رہبر نہیں ہے جو اسے سیدھی راہ چلانے میں مددگار اور ترقی کا بدل و جان خواستگار ہو۔“
اس پورے تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا آزاد نے صحافت کو اپنا کر الہلا ل اور البلاغ کے ذریعہ ملک کے خواص وعام تک اپنی آواز پہنچا کر نہ صرف اپنی منفرد پہچان بنائی، بلکہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بھی بنائی۔ صحافت کے راستے سیاست کے میدان میں داخل ہوکروہ اپنے اغراض و مقاصد میں کامیاب ہوئے۔
غیر منقسم ہندوستان پر انگریزوں کے ظلم و ستم بڑھتے جا رہے تھے۔ان کے جبر و ظلم نے ہندوستانیوں کو بے دست و پا کردیا تھا۔ مولانا آزاد نے یہ بھی دیکھا کہ اس وقت کے گورنر لارڈ کرزن بنگال پر خاص توجہ دے رہے تھے اور سیاسی سورش کو دن بدن بڑھا رہے تھے۔ انگریزوں نے اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے ہندوستانیوں کے درمیان Divide and rule کی پالیسی بناکر ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ تفرقہ پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، جس سے برسہا برس کا اتحاد و اتفاق، جو ملک کے ہندو،مسلمان کے مابین تھا، وہ انگریزوں کی منظّم اور منصوبہ بند سازش سے اس کا شیرازہ بکھرنے لگا ہے۔ ایسے میں مولانا آزاد نے اپنا فرض سمجھا کہ صحافت کو اپنا کر مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان بڑھ رہی خلیج کو دور کیا جائے اور مسلمانوں کو ان کے مذہب کے حوالے سے حب الوطنی کے جزبے سے سرشار کیا جائے۔ اس کے لئے انھوں نے اپنی بے پناہ علمی،ادبی، لسانی،سیاسی، سماجی اور مذہبی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کا فیصلہ کیا۔میں یہ بات واضح کر دوں کہ مولانا آزاد نے اچانک صحافت کی دنیا میں قدم نہیں رکھا، بلکہ اپنے اس فیصلہ سے قبل وہ ’نیرنگ خیال‘ (ماہنامہ شعری جریدہ)،’المصباح‘(ہفتہ وار)، ’خدنگ نظر‘شعری رسالہ،لکھنؤ)، ’احسن ا لاخبار‘(ہفتہ وار، کلکتہ)، ’لسان الصدق‘(ہفتہ وار)،’الندوہ‘(لکھنؤ)،’دو روزہ اخبار’وکیل‘(امرتسر)وغیرہ جیسے اخبار و رسائل سے وابستہ رہ کر اور دیگر جرائد میں فکر انگیز مضامین لکھ کر نہ صرف صحافتی تجربات حاصل کر لیا تھا، بلکہ پورے ملک میں تحیّر اور تحریک پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک انفرادی شان اور پہچان بنا لی تھی۔ گرچہ اس وقت ان کی عمر طفل مکتب جیسی ہی تھی، لیکن ان کے مضامین اور صحافتی تبصروں کے معیار اور سحر انگیزی دیکھ کر حالی اور شبلی بھی متیّحر تھے کہ اس کم عمری میں یہ صلاحیتیں؟ اسی دوران مولانا آزاد نے بیرون ممالک کا بھی سفر بھی کیا اور عراق، مصر، اور ترکی وغیرہ کے انقلابیوں سے ان کے گہرے روابط ہوئے اور ان کی انقلابی سرگرمیوں کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے اخبارات و رسائل سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور اپنے ملک واپسی کے بعد انھوں نے مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اتحا د و اتفاق کے لئے رائے عامّہ کو ضروری قرار دیااور یہ فیصلہ کیا کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے ایک اخبار کا اجرأ بہت ضروری ہے۔ چنانچہ 13/ جولائی 1912ء کو سید سلیمان ندوی، عبداللہ عمادی، اور عبدا لسلام ندوی کے تعاون سے ”الہال“ کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ اس پہلے شمارہ میں مولاناآزاد نے جس دانشورانہ انداز اور منفرد اسلوب میں اپنی قوم کو حیات، عروج، اور عزّت بخشنے کی دعوت دی ہے، وہ تازیانہ تھا۔ الہلال کے پہلے شمارہ میں مولانا آزاد لکھتے ہیں…….
”آہ کاش مجھے وہ صور قیامت ملتا، جس کو میں لے کر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر چڑھ جاتا۔ اسی ایک صدا ئے رعد عصائے غفلت شکن سے سرکشتگان خواب ذلت و رسوائی کو بیدار کرتا اور چیخ چیخ کر پکار تا کہ اٹھو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں موت کی جگہ حیات، زوال کی جگہ عروج اور ذلت کی جگہ عزت بخشنا چاہتا ہے“
مولانا آزاد نے”الہال“ سے صحافت کی باضابطہ ابتدأ کی اور صحافت کو عبادت سے تعبیر کرتے ہوئے،اسے مشن بنایا اور اپنے اس مشن کے لئے انھوں نے اپنے اخبار کے تحریری معیار کے ساتھ ساتھ اخبار کے صوری حسن پر بھی خصوصی توجہ دینا ضروری سمجھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے اخبار”الہلال“ کے لئے ترکی سے ٹائپ اور پریس سے متعلق دوسری اشیاء منگائی تھیں۔گرچہ اس میں انھیں کافی دشواریاں ہوئی تھیں، جن کا تفصیل سے ذکر پہلے شمارہ میں انھوں نے کیا ہے۔ مولانا آزاد نے صحافت کو اپنے ضمیر اور ایمان کی طرح قدر دانی کرنے کی تلقین کی ہے۔ ”الہال“ کے تیسرے شمارہ 27/ جولائی 1912ء کو مولانا آزاد کے مطابق اس وقت کے ایک صاحب ثروت نے”الہال“ کے پہلے شمارہ کے حسن و معیار اور تحریر کی سحر انگیزی سے متاثر ہو کر ایک بڑی رقم ارسال کی اور ہر ماہ اتنی ہی بڑی رقم کی اعانت کا وعدہ کیا تو اس اعانت کو نہ صرف انھوں نے واپس کر دیا بلکہ”الہال“ کے تیسرے شمارہ میں اس امر کا اظہار کیا کہ……
”ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لئے نہیں، بلکہ تلاش زیاں و نقصاں میں آئے ہیں،صلہ و تحسین کے نہیں، بلکہ نفرت و دشنام کے طلب گار ہیں۔ عیش کے پھول نہیں، بلکہ خلش و اضطراب کے کانٹے ڈھونڈھتے ہیں، دنیا کے زروسیم کو قربان کرنے کے لئے نہیں، بلکہ خود اپنے تئیں قربان کرنے آئے ہیں۔ایسوں کی اعانت فرمائیاں کیا نفع پہنچا سکیں گی؟
پھر یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ کا یہ عطیہ کس مقصد سے ہے؟ آپ مجھ کو خریدنا چاہتے ہیں تو یہ رقم تو گرانقدر ہے۔ میں تو اپنی قیمت میں گھانس کی ایک ٹوکری کو بھی گراں سمجھتا ہوں۔ شاید چاندی اور سونے میں پلے ہوئے رؤسا کو خریدنے کے لئے اتنا روپیہ مطلوب ہو ورنہ ہم ایسے خاک درویشوں کی ایک پوری جماعت اتنے میں مل جائے، لیکن ہاں اگر اس سے میری رائے اور میرا ضمیرخریدنا ہو تو باادب واجب عرض ہے کہ ان خزف ریز سے طلائی کی تو کیا حقیقت ہے، کوہ نوراور تخت طاؤس کی دولت بھی جمع کر لیجئے جب بھی وہ مع آپ کی پوری ریاست کے اس کی قیمت کے آگے ہیچ ہیں، یقین کیجیے کہ اس کو تو سوائے شہنشاہ حقیقی کے اور کوئی نہیں خرید سکتا اور وہ ایک بار خرید چکا۔
ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قیمت کے سر کی انسان یا جماعت سے کوئی اور رقم لینا جائز رکھتا ہے، وہ اخبار نہیں بلکہ اس فن کے لئے ایک دھبہ اور سرتاسرعارہے،ہم اخبار نویسی کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں اور (امربالمعروف ونہی عن المنکر)کا فرض الہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں….پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے اور چاندی اور سونے کا تو سایہ بھی اس کے لئے سم قاتل ہے، جو اخبار نویس رئیسوں کی فیاضیوں اور امیروں کے عطیوں کو قومی اعانت،قومی عطیہ اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کر لیتے ہیں، وہ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ضمیر اور نور ایمان کو بیچیں۔“
”الہلال“ کئی نا موافق حالات اورمالی مشکلات کے باوجود اپنے صوری اور معنوی، حسن و معیار سے عوام الناس میں مقبول ہو رہا تھا۔ جس سے مولانا آزاد کا یقینا حوصلہ بڑھ رہا تھا، جس کا اعتراف انھوں نے 25/دسمبر 1913ء کے ’الہال‘ کے شمارہ میں اس طرح کیا ہے…….
” اس چھہ مہینے کے قلیل زمانے میں جو حیرت انگیز اور محیرالعقول مقبولیت الہلال نے پیدا کی ہے، وہ ہر لحاظ سے اردو پریس کی تاریخ میں ایک مستثنٰی واقعہ ہے۔ شاید ہی آج تک کوئی چھپی ہوئی چیز اس کثرت اور شغف کے ساتھ پڑھی گئی ہے، جس قدر گزشتہ چھہ ماہ کے عرصے میں الہلال کے اوراق پڑھے گئے ہیں۔“
”الہلال“ کی شہرت اورمقبولیت روز افزوں بڑھتی جا رہی تھی۔ ملک کے دیگر اخبارات و رسائل مثلاََ، ہمدرد، زمیندار، مدینہ، کامریڈ،مسلم گزٹ وغیرہ کے علاوہ بیرون ممالک کے اخبارات و رسائل جیسے الموید، الجریدہ، الزہرہ،اتحاد و ترقی، البرہان،المنار، الہلال قاہرہ، چہرہ نما، شہبال، تصویر افکاراور السلام وغیرہ میں مثبت اور حوصلہ افزأ تبصرے شائع ہو رہے تھے اور اس کی تعداد اشاعت پچیس ہزار سے بھی تجاوز کر گئی تھی، جو اس زمانے میں بہت بڑی بات تھی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ متعصب اور انگریزوں کے پٹھو ؤں کی نگاہوں میں یہ اخبار کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا اور انگریزی روزنامہ’پائینئر‘نے حکومت کو آگاہ کیا کہ یہ اخبار اس کے خلاف کس طرح زہر افشانی کر رہا ہے۔ نتیجہ میں حکومت نے’الہلال‘ کے دو مضامین، فوجی اخبار، اور سقوط انٹ ورپ کو قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے 18 / ستمبر 1913ء کو پریس ایکٹ کے تحت دو ہزار کی ضمانت طلب کی گئی،جسے 27/ستمبر1913ء تک جمع کرنے کی تاکید تھی۔ حکومت وقت کے اس رویہ کے خلاف ملک کے دور دراز علاقوں میں پھیلے ’الہلال‘ کے پرستاروں اور مدّاحوں کو بے حد تکلیف پہنچی اور اس خیال سے کہ اس ضمانت کے باعث کہیں ’الہلال‘ کی اشاعت پر کوئی منفی اثرات نہ پڑے۔ قارئین اور مخلصین نے بڑی تعداد میں منی آرڈر دفتر’الہلال‘ کو روانہ کرنا شروع کر دیا۔پہلے دن تو مولانا نے ان سبھی منی آرڈروں کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا، لیکن منی آرڈروں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا، تب مولانا کو ان سبھی کے احساسات و جذبات کی قدر دانی کرتے ہوئے بحالت مجبوری قبول کرنا پڑی۔ اس پس منظر میں مولانا آزاد’الہلال‘ کے1/ اکتوبر 1913ء کے شمارہ میں تحریر کرتے ہیں…..
”ضمانت دی جا چکی ہے۔ ادارہ’الہلال‘ سر دست کسی طرح کا بار اپنے قوم پر ڈالنا نہیں چاہتا، تاہم خلوص نیت اور جوش اسلامی نے جس انفاق فی سبیل اللہ کی راہ کھول دی اور اس قدر شدید مخالفت و اعراض کے احباب کرام ہیں جو اپنے لطف و کرم سے باز نہیں آتے تو پھر مجھے کیا حق ہے کہ اس شئے کو واپس کر دوں، جو اپنے حق پرستی اور صداقت کے نام پر سچّے دلوں اور پر خلوص ہاتھوں نے پیش کی ہے“
یہ وہ وقت تھا جب ’الہلال‘ کے ساتھ ساتھ پورے ملک سے کئی اردو اخبارو رسائل نہ صرف حق و انصاف کا پیغام دے رہے تھے اور انگریزوں کے ظلم و ستم اور استحصال و استبداد کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے نیز برطانوی حکومت کے لئے ایک چیلنج بنے ہوئے تھے،خاص طورپرمولانامحمدعلی کا’ہمدرد‘(1912ء)، مولاناظفر علی خان کا ’زمیندار‘(1909ء)، مولوی مجید حسن کا ’مدینہ‘(1912ء) اور’کامریڈ‘ ’مسلم گزٹ‘ وغیرہ جیسے اخبارات و رسائل اس عہد میں اردو صحافت کا اعلیٰ معیار قائم ہوئے تھے بلکہ اردو صحافت کے فروغ کے لئے راستے بھی ہموار کر رہے تھے اور ثابت قدمی سے یہ بھی بتا رہے تھے کہ صحافت کس طرح ظالموں اور شدّادوں کے لئے تیغ برہنہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی وجوہات تھیں کہ ایسے تمام اخبارات کے حق کی آواز کو دبانے کے لئے حکومت برطانیہ نے 1910ء میں پریس ایکٹ تیار کیااور نفاذکے وقت یہ بتایا گیا کہ یہ ایکٹ صرف تین برسوں کے لئے ہے۔لیکن ایسا نہیں ہوا اور اظہار رائے پر طرح طرح کے نہ صرف پہرے بٹھائے گئے بلکہ کئی طرح کی پابندیاں بھی لگا دی گئیں۔ جس کانقصان یہ ہوا کہ اس ایکٹ نے ملک بہت سارے اخبارات کی کمر توڑ دی۔ ایک اطلاع کے مطابق اس قانون کے تحت991پریس اور اخبارات پر سخت کاروائی کی گئی۔ ان میں 286کو سخت تنبیہ کی گئی اور705کے معاملے میں بڑی بڑی ضمانتیں لی گئیں۔ ٹھیک اسی زمانے میں Defence of India Regulation نافذ کر کے سیاسی، عوامی اور تحریک آزادی کو کچلنے کی پوری کوشش کی گئی۔ پریس ایکٹ کے نام پر جیسے جیسے حکومت کی سختی سامنے آنے لگی، ویسے ویسے اس کے خلاف احتجاج بھی بڑھنے لگا۔ مولانا آزاد نے انگریزوں کی اس سازش کو بخوبی سمجھ لیا، اس ضمن میں مولانا آزاد نے بڑے جذباتی انداز میں اپنے اخبار کے1/ اکتوبر1913ء کے شمارہ میں لکھا کہ…..
”زمیندار“ اور”الہلال“کا اب تزکرہ لا حا صل ہے۔ مرض عالمگیر اور سیلاب ہر طرف رواں ہے۔ مجھے اپنے معاملات کی کچھ فکر نہیں، میں نے روز اوّل ہی سے اعلان کر دیا تھا کہ اگر میرے کاموں میں صداقت ہوگی تو ہر حال میں نا قابل تسخیر ہے اور اگر نیتوں میں کھوٹ ہوگا تو باطل اپنی تباہی کا بیج خود اپنے اندر رکھتا ہے، اس کے لئے پریس ایکٹ کی ضرورت نہیں۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس مطلق العنانہ استبداد کی تیغ سے اب کسی ہستی کو امان نہیں۔ جو حالت نظر آرہے ہیں،ان کی پیشن گوئی مستقبل کے متعلق موجودہ حالت سے بھی زیادہ مخدوش ہے۔ جب روزانہ (حبل ا لمتین) کلکتہ کو بھی پریس ایکٹ سے پناہ نہ ملی، جس نے موجودہ اسلامی جوش و حرکت میں حصّہ لینے کا کوئی جرم نہیں کیا، محض واقعات و اخبار کی اس کے ذریعہ شہر میں اشاعت ہو جاتی ہے کہ اوروں کو شکوہ و شکایت کا کیا موقع؟“
دو ہزار روپئے کے بعد حکومت نے پریس ایکٹ کے تحت ایک بار پھر دس ہزار روپئے کی مزید ضمانت طلب کی، اور اسے بھی ضبط کر لیا گیا۔ در اصل’الہلال‘ سے حکومت خوف زدہ ہو گئی تھی اور اسے یہ شدّت سے احساس ہو چکا تھا کہ اس اخبار کے ذریعہ آزادیئ ہند کی کوششیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ دس ہزار روپئے کی ضمانت کی ضبطی کے بعد اس اخبار کو جاری رکھنے کے سلسلے میں سوچنا پڑا۔ اس دوران 1914ء میں عالمی جنگ شروع ہو گئی۔ حالات بڑی تیزی سے بدل رہے تھے۔ 18/دسمبر 1914ء کو’الہلال‘ کا آخری شمارہ منظر عام پر آیا۔ اس کے بند ہو جانے کے کچھ ہی عرصے بعد یعنی 18/نومبر1915ء سے ہفتہ وار ’البلاغ‘ جاری کیا گیا۔ اس اخبار سے مولانا آزاد نے براہ راست تحریک آزادی کے پیغامات کو دور رکھا اورقران کی روشنی میں مسلمانان ہند کو محبت، اخوت اور یکجہتی کی دعوت دی۔ لیکن حکومت کی نگاہ میں مولانا آزاد کی ہر تحریک اور تحریر قابل گرفت تھی اور حکومت کو یہ احساس شدّت سے ہو چکا تھا کہ مولانا آزاد کی ان تحریر اور تحریک پر پابندی لگانا ضروری ہے اور صرف پریس ایکٹ کے تحت کاروائی کر کے ان کی سرگرمیوں کو نہیں روکا جا سکتا ہے۔ حالانکہ مولانا آزاد نے بہ حالت مجبور ی پانچ ماہ بعد ہی یعنی 12/نومبر 1915ء سے’البلاغ‘جیسے خوبصورت، معیاری اور تاریخ ساز اخبار کو بند کر دیا۔اس کے باوجود حکومت خاموش نہیں بیٹھی اور اس نے Defence of india regulation کے تحت انھیں نہ صرف تمام صحافتی سرگرمیوں سے روکنے کی کوشش کی بلکہ انھیں کلکتہ سے جلا وطنی کا 3/ مارچ 1916ء کو حکم صادرکر دیا۔چونکہ پنجاب، دہلی، اتر پردیش، اور بمبئی کے صو بائی حکومتوں نے پہلے ہی ان کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی،اس لئے انھیں رانچی(بہار) میں پناہ لینا پڑی۔ یہاں بھی انھیں چین و سکون سے نہیں رہنے دیا گیا اور8/جولائی 1916ء سے مولانا کی جلا وطنی کو نظر بندی میں بدل دیا گیا۔
’الہلال‘ پر برٹش حکومت کی عائد کی گئی پابندی اور جرمانہ کے باوجودمولانا آزاد کے حوصلے، جرأت، بے باکی میں کمی نہیں آئی، بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوا۔ بعد میں جب مولانا آزاد ملک کی آزادی کی سیاسی تحریک میں عملی طور پر شامل ہوئے، تب ان کی وہ ساری صحافتی جرأت مندی، حوصلے اور بے باکی کام آئی۔ گرچہ 1/ جنوری 1920ء کو نظر بندی کے بعد انھوں نے ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کو دوبارہ جاری کرنے کی کوششیں کیں، لیکن اس وقت تک ان کی سیاسی مصروفیات کافی بڑھ گئی تھیں، نتیجہ میں وہ صحافت کی بجائے سیاست کے سفر پر آزادیئ ہند کے لئے نکل گئے اور بے حد کامیاب ہوئے۔
مولانا آزاد کی صحافت نے سیاسی، سماجی، تہذیبی، مذہبی،معاشرتی،لسانی، ادبی اورصحافتی معیار قائم کرتے ہوئیان تمام سطح پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ان کے صحافتی افکار و نظریات اور اسلوب بیان سے اس دور کی بڑی بڑی شخصیات متاثر تھیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی مشہور کتاب ’Discovery of India‘ میں لکھا تھا کہ….
” مولانا ابو اکلام آزاد نے اپنے ہفتہ وار ”الہلال“ سے مسلمانوں کو ایک نئی زبان میں مخاطب کیا۔ یہ ایک ایسا انداز ِ خطاب تھا، جس سے ہندوستانی مسلمان آشنا نہ نہ تھے۔ وہ علی گڑھ کی قیادت کے محتاط لہجے سے واقف تھے۔ سر سید، محسن ا لملک، نزیر احمد اورحالی کے انداز بیان کے علاوہ ہوا کا کوئی گرم جھونکا ان تک پہنچا ہی نہ تھا۔ ’الہلال‘ مسلمانوں کے کسی بھی مکتبِ خیال سے اتفاق نہیں رکھتا تھا، بلکہ وہ ایک نئی دعوت اپنی قوم اور ہم وطنوں کو دے رہا تھا“
مولانا آزاد نے صرف چوبیس پچیس سال کی عمر میں صحافت کا جو بلند اور اعلٰی معیار قائم کیا تھااور جس طرح کے صحافتی لب و لہجہ اور اسلوب سے روشناس کرایا تھا، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ معیار، لب و لہجہ اور اسلوب اپنے ساتھ لیتے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا آزاد اگر سیاست کی دنیا میں داخل نہیں ہوتے، تو بھی وہ صحافت کے مرد آہن کے طور پر ہمیشہ یاد کئے جاتے۔ اردو کی صحافت مولانا آزاد کی صلاحیتوں کی ہمیشہ مقروض رہے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭