ڈاکٹر محمد مُستمر

”ہریانہ میں اردو صحافت“کے حوالے سے روشنی ڈالنے سے قبل ہمیں تھوڑا سا تاریخی پس منظر کی جانب بھی جانا پڑے گا۔ جس وقت ہریانہ، متحد پنجاب کا حصہ ہو اکرتا تھا اور ہماچل پردیش بھی اسی میں شامل تھا نیز اور تھوڑا ذرا پیوستہ سے گزشتہ کی طرف سفر کریں تو آزادی سے قبل مغربی پنجاب یعنی پاکستانی پنجاب بھی اسی کا حصہ تھا۔ جس کا پایہئ تخت لاہور تھا اور صحافتی اعتبار سے لاہور، جالندھر اور امرتسر مراکز ہو اکرتے تھے۔ صحافتی نوعیت سے اُن امور میں کوئی شک و شائبہ نہیں کہ اردو صحافت میں جو کردار پنجاب نے ادا کیا وہ سب سے نمایاں ہے۔ اگر یوں کہہ دیا جائے کہ پنجاب صوبہ اردو صحافت کا دارالسلطنت تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ فرانسیسی محقق گارساں دِ تاسی کی تحقیقی کے مطابق 1852ء تک مشترکہ پنجاب سے نکلنے والے اردو اخبارات کی تعداد 24تھی ان میں سے کچھ اخبارات روہتک، جھجر، ہانسی اور انبالہ سے بھی شائع ہو اکرتے تھے جبکہ ابھی اردو صحافت کو شروع ہوئے صرف تیس سال کا ہی عرصہ ہو اتھا۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات تھی۔ ان اخبارات میں روزنامہ، ہفت روزہ، پندرہ روزہ اور ماہنامہ سبھی طرح کے اخبارات شامل ہیں۔ ہریانہ میں اردو صحافت کو ہم چار ابواب میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
1۔ آزادی سے پہلے
2۔ آزادی کے بعد (مشترکہ پنجاب کے حوالے سے)
3۔ ہریانہ کے وجود کے بعد
4۔ موجودہ صورتِ حال
لیکن ہمارا موضوع یہاں ”آزادی کے بعد اردو زبان و ادب کے فروغ میں اردو صحافت کا حصہ“ ہے۔ چنانچہ ہم یہاں انہی اخبارات و رسائل کا ذکر کریں گے جو صوبہئ ہریانہ سے آزادی کے بعد نکلتے رہے اور زبان و ادب کی خدمت کرتے رہے۔ پہلے ہم آزادی کے (مشتر کہ پنجاب کے حوالے سے)اُن اخبارات و رسائل کا ذکر کیا جائے گا جو پنجاب آزادی کے بعد وجود میں آتا ہے۔ آزادی کے بعد افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ لاہور جو اردو صحافت کا گڑھ ہواکرتا تھا وہ حصہ پاکستان میں چلا گیا اور سب سے بڑا زیاں جو پہنچا وہ اردو صحا فت کو پہنچا۔ آزادی کے بعد کا پنجاب اردو زبان و صحافت سے بالکل ہی خالی ہو گیا۔ بڑے بڑے اور معیاری اخبار ات سب لاہور کے حصہ میں آگئے۔ آزادی کے بعد روز نامہ ’ہند سماچار‘ہندوستان کے بڑے اخباروں میں شامل ہوتا ہے۔ لیکن زبان وبیان کے اعتبار سے اس کاجو معیار ہے وہ قابل ِ تشویش ہے۔ اس کی زبان اردو نہیں رہی، بس آپ رسم الخط کو اردو کہہ سکتے ہیں اور خالص رسم الخط سے زبانیں بلندی کے مقام کو حاصل نہیں کر سکتی ہیں۔ اُن کے اپنے تقاضے اور ضابطے ہوتے ہیں جن سے زبان کی خوبصورتی اور نزاکت قائم رہتی ہے۔ ’ہند سماچار‘ اخبار کو چوپڑا گروپ چلا تا ہے جو جالندھر سے شائع ہوتا ہے۔ جیساکہ اوپر کہا گیا ہے کہ آزادی کے بعد پنجاب کا خطہ اردو صحافت کے حوالے سے بالکل ہی خالی ہو گیا تھا تاہم ’ہند سماچار‘ کے علاوہ کچھ اخبارات و رسائل پنجاب سے نکلتے رہے اور دم توڑ تے رہے۔ انھیں زندہ کیسے رکھا جا سکتا تھا۔۔۔؟ جواب کلیئر ہے کہ جب قارئین ہی نہ رہے تو اردو کو کون پڑھتا۔۔۔؟ کسی بھی زبان کی بقا اس کے قارئین پر منحصر ہوتی ہے۔ دیوانِ تصورؔ نے 1948 ء میں امرتسر سے ماہنامہ ’مشرق‘ اور پھر 1958 ء میں گوڑ گاؤں سے ہفت وار اخبار ’نشانہ‘ بھی جاری کیا۔تارا چند ورما کی ادارت میں ہفت وار ’شعلہ‘ جالندھر سے 1953 ء میں شائع ہوناشروع ہوا تارا چند ورما کو بے باک صحافی ہونے کی وجہ سے اوبا ش قسم کے لوگوں نے قتل کر دیا تھا، چنانچہ یہ اخبار بند ہو گیا تھا۔ کامریڈ رام چند ر نے آزادی کے بعد لدھیانہ سے ’میرا دیش‘ نامی ہفت روزہ اخبار جاری کیا۔ 1949 ء میں ’شیرِ بھارت‘ اخبار کی ادارت کی بھی ذمہ داری سنبھالی۔ اسی درمیان موصوف نے ’طوفان‘اور ایک فلمی پرچہ ’ویکلی‘ کا بھی اجر اکیا۔ نرنجن داس شرما نے امرتسر سے ’آواز‘ نام کا اردو اخبار نکالا جو سناتن دھرم سبھا کے زیرِ اہتمام نکلتا تھا۔ ’انبالہ ٹائمز‘1965 ء میں انبالہ سے ہفت وار نکلنا شروع ہواجس کے مدیر ہیرا نند شرما تھے۔ یہ اخبار ہریانہ کے وجود کے بعد بھی 1971 ء تک جاری رہا جو بعد میں ہندی زبان میں نکلنے لگا۔ اوم پرکاش ملک نے 1963ء میں ایک ہفت روزہ اخبار ’آوازِ ہند‘ کے نام سے انبالہ سے جاری کیا جو ہریانہ کے قیام کے بعد1968 ء تک پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔
ہر گوپال شرما نے ضلع روہتک سے 1949ء میں ’جگت نیتر‘ کے نام سے پندرہ روزہ اخبار کا اجرا کیا۔ یہ اخبار اردو ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہوتا تھا۔ روہتک سے ہی کرشن لال باغیؔ نے 1964ء میں پندرہ روزہ ’پر شارتھی گزٹ‘ نکالنا شروع کیا۔ ضلع سونی پت سے اٹلس سائکل والوں کا اخبار ’اٹلس پریوار‘ نکلتا ہے۔ جس میں کارخانہ کی خبریں ہوتی ہیں۔ اسکے مالک ستیہ ویر ملہوترہ ہیں۔ یہ ہندی اور اردو، دونوں زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔امرنا تھ کوہلی باغیؔ نے فرید آباد سے ہفت وار پرچہ ’شیرِ سرحد‘ جاری کیا۔ فرید آباد سے ہی ٹیک چند نے ’ہمدر‘د‘ رسالہ نکالنا شروع کیا جس میں اردو شعرأ کا کلام شائع ہوتا تھا۔ کچھ شمارے نکلنے کے بعد یہ رسالہ بند ہو گیا۔ اور بھی کئی اخبار ات و رسائل فرید آباد سے نکلے جن میں شاہد انبالوی نے ماہنامہ اخبار ’اژرنگ‘ اور روپ لال مہتہ نے ’پیغامِ وطن‘ نام کے اخبار نکالے۔ ’اژرنگ‘ اخبار کے مدیر خاموش سرحدیؔ تھے جو خود بھی کرنال سے ’کانگریس‘ اخبار نکالتے تھے۔کانگریس ایک ادبی و اخلاقی پرچہ تھا۔ روپ لال مہتہ ایک سیاسی آدمی تھے او رپلوَل سیٹ سے ایم ایل اے بھی رہے۔کرنال سے راجپال بھاٹیہ نے 1954 ء میں ہفت وار اخبار ’جنم بھومی‘ کا اجرا کیا۔ یہ پرچہ آٹھ صفحات پر مشتمل تھا جس میں ادبی و اخلاقی مضامین شامل ہوتے تھے۔ پانی پت سے ہری چند نے 1960 ء میں ’نرالا جوگی‘ اخبار کا اجر اکیا۔ یہ اخبار ادویات سے متعلق تھا اور اردو ہندی دونوں زبانوں میں چھپتا تھا۔ گوڑگاؤں سے دو اخباروں کا اجرا عمل میں آیا۔1953ء میں گومانی رام آریہ نے ’اردو میوات‘ کے نام سے اخبار نکالنا شروع کیا۔ اپنے دور میں اردو پرچوں میں اس اخبار کی تعداد سب سے زیادہ تھی جس کی 6840کاپیاں شائع ہوتی تھیں۔
آزادی کے بعد متحد پنجاب سے سرکاری طور پر دو رسالوں کا اجر اعمل میں۔ ایک محکمہ اطلاعات و رابطہئ عامہ و ثقافت چنڈی گڑھ سے ’پاسبان‘اوردوسرا پرچہ بھاشا وبھاگ پٹیالہ سے ’پروازِ ادب‘شائع ہونے شروع ہوئے۔ ماہنامہ ’پاسبان‘ 2000 ء کے آس پاس بندہوگیا۔ماہنامہ ’پروازِ ادب‘ ابھی بھی پابندی کے ساتھ نکلتا ہے۔ جس کی ادارت کی ذمہ داری پہلے طارق کفایت سر انجام دیتے تھے۔ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے اشرف محمود نندن اس کے مدیر ہیں۔ یہ پرچہ خالص ادبی ہے اور اس کی ادبی آب و تاب ہنوز باقی ہے۔ آزادی کے بعد کچھ رسائل مالیر کوٹلہ سے شائع ہوتے رہے جو بعد میں بند ہو گئے، جن میں صدائے اہلِ پنجاب‘ مدیر ظہور احمد ظہورؔ اور ’لیڈی راج‘ مدیر ناز بھارتی، قابل ذکرہیں۔
ہریانہ کے وجود کے بعد: اب میں یہاں اُن اخبارات و رسائل کا ذکر کرنا نا گزیر سمجھوں گا جو ہریانہ کے وجود یعنی 1966ء کے بعد نکلتے رہے اور نکلنے شروع ہوئے۔ اس سے قبل میں اپنی بات کو آگے جاری رکھوں اس امر پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ ہریانہ کا قیام عمل میں آنے تک پنجاب میں اردوصحافت کو گہن لگنا شروع ہوگیا تھا۔ اب ایسے نامساعد حالات میں کیا اردو صحافت کو فروغ و جلا ملتی۔ اب جو بھی اخبارات و رسائل نکلے یا زندہ رہے یا کبھی بند ہو گئے یا وقفہ وقفہ پر نکلتے رہے، اُن رسائل و اخبارات کے پیچھے مہاجرین کا بہت بڑا رول رہا۔ کیونکہ وہ اپنے ساتھ جس زبان کو لائے تھے وہ اردو زبان تھی، اُن کا میڈیم اردو زبان تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ پنجابی اُن کی مادری زبان تھی مگر اُن کی تمام تر تعلیمات اردو زبان میں ہی ہوئی تھی۔ یہی وجہ رہی کہ جو کچھ تھوڑا بہت باقی رہا اور اردو صحافت زندہ رہی، وہ مہاجرین کی بدولت رہی۔”میوات کے مسلمانوں کا تو خدا ہی مالک ہے۔“بس اسی جملے پر اکتفا کیا جا سکتا ہے۔ یا وہ مسلمان جو دریائے جمنا کے کنارے کنارے کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ وہ اردو کیا۔۔۔؟ اپنے آپ سے بھی نا واقف ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہریانہ میں ابھی بھی لگ بھگ چھے فیصد مسلمان آباد ہیں مگر تعلیم اور بالخصوص اردو کے حوالے سے جمود طاری ہے۔ موجودہ کھٹر سرکار کو چھوڑ کر ہمیشہ چار پانچ ایم ایل اے اسمبلی میں پہنچتے ہیں اور دو تین وزیر بھی رہتے ہیں۔ لیکن انھوں نے بھی اردو کے حوالے سے آج تک کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے۔ بہر کیف یہ تو صورتِ حال رہی۔ اب اخبارات و رسائل کی طرف آتے ہیں۔
گوڑگاؤں سے بنسی دھر نمبر دار نے 1974ء میں ’گورو بھومی‘ نام سے اخبار جاری کیا۔ یہ ہفت وار تھا اوراردو ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہوتا تھا۔سونی پت سے نکلنے والا اخبارہفت روزہ ’اشوک چکر‘ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اخبار آسانند منجال کی ادارت میں 1956 ء سے نکلنا شروع ہوا تھا جو قیامِ ہریانہ کے بعد بھی جاری رہا۔ آسانند کے صاحب زادہ ڈاکٹر بیتاب علی پوری 1990 ء تک اسے چلاتے رہے۔بیتاب علی پوری ایک مستند اور کہنہ مشق شاعر تھے، جن کو زبان و بیان کی نفاست ونزاکت بخوبی شعور تھا۔ فرید آباد سے مدن لال بھیسن نے 1967ء میں ’کیریکٹر‘ نام سے پندرہ روزہ اخبار کا اجرا کیا۔ فرد آباد سے ہی امر ساہنی ہفت روزہ ’آواز‘ نکالتے رہے جو گزشتہ دو برس ہوئے ان کے وفات کے ساتھ ہی بند ہو گیا۔ حافظ سہارن پوری جو ہریانہ وقف بورڈ میں ملازم تھے جو ابھی گذشتہ 2017میں انتقال فرما گئے، تقریباََ چالیس سال تک ہفت وار ’صدائے وطن نکالتے رہے۔ انہی کے ساتھ عبد السمیع انصاری تین سال ہریانہ وقف بورڈ کا رسالہ ’وقف گزٹ‘ ہفت وار شائع کرتے رہے۔ روہتک سے شری رام شرما نے ’ہریا نہ تلک‘ کا اجرا اٹھارہ مارچ1923ء کوہفت وار کی شکل میں کیا تھا جو ہریانہ کے وجود کے بعد 1969ء تک جاری رہا، یہ اخبار 1962ء میں ماہنامہ ہو گیا تھا۔ روہتک سے ہی مراری لال پنوار کی ادارت میں 1967 ء میں ماہنامہ ’شہید‘ کا اجر اعمل میں آیا۔ موصوف نے ایک اور اخبار ’لہریں‘ کے نام سے جاری کیا تھا۔ یہ اخبار بھی ماہنامہ تھا۔ انہی کے ساتھ1977ء میں روہتک سے ’دیشنا دان‘ ہفت وار اخبار اوم پرکاش کھنہ نے جاری کیا۔ اوم پرکاش ملک کی ادارت میں انبالہ سے ایک ہفت روزہ اخبار 1963سے 1968تک ’آوازِ ہند‘ کے نام سے شائع ہوتا رہا۔ اسی ضمن میں انبالہ سے ہی دو پرچے اور جاری ہوئے ایک ہفت وار ’ارمان‘ 1972ء میں نانک چند ارمانؔ کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا اور دوسرا سہ ماہی رسالہ ’اوقاف‘ کے نام سے 1974ء میں حکیم اجمل خاں نے جاری کیا۔ 1971ء میں ’جوشِ جنوں‘ کے نام سے مدن موہن کمار نے پندرہ روزہ جریدہ کا اجرا ضلع جیند سے کیا۔ کرنال سے نکلنے والے اخبارات میں ’آریہ کیسری‘ اور ضمیر فروش‘ کے نام قابلِ ذکر ہیں جو بہ سلسلہ میلا رام برقؔ کی ادارت میں 1967ء میں پندرہ روزہ اور 1967ء میں ہی رتن لال وید کی ادارت میں ماہنامہ نکلنا شروع ہوا۔ انہی اخبارات کے ساتھ ’مہان بھارت‘ اور بانگِ عمل‘ شامل ہیں۔ ’مہان بھارت‘کو 1975ء میں ہفت روزہ نند کشور سندھالیہ نے نکالنا شروع کیا جبکہ ’بانگِ عمل کے مدیر گور دیپ سنگھ بخشیؔ تھے یہ اخبار 1974ء میں جاری ہوا۔ ایم رانا نے ضلع یمنا نگر سے 1978ء سے ’لالہ سماچار‘ اخبار کا آغاز کیا۔ہریانہ کی راجدھانی’منی مزرعہ‘ چنڈی گڑھ سے 1980 ء میں ماہنامہ’آبگینہ‘ کا اجراعمل میں آیا۔ اس کے چار شمارے ہی نکل پائے کہ یہ بند ہو گیا۔ اس کے مدیر و مالک حکیم مشکور ایوبی اور معاون مدیر قاری مہربان علی تھے۔یہ رسالہ خالص ادبی تھا اور مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس کا معیار بہت بلند تھا۔

1966ء کے بعد یعنی ہریانہ کے قیام کے بعد جو بھی اخبارات و رسائل نکلنے شروع ہوئے یا ہریانہ کے وجود میں آنے سے قبل نکل رہے تھے وہ آہستہ آہستہ بند ہوتے گئے۔ جس کی بنیادی اور خاص وجہ یہ رہی کہ ان اخبارات کو پڑھنے والے مہاجرین تھے جو سلسلے وار دارِ فانی سے کوچ کرتے گئے اور قارئین کی تعداد گھٹتی رہی۔ نتیجتاََ قاری نہ ہونے کے سبب ان اخبارات و رسائل کو بند کرنا پڑا۔ کچھ اخبارات و رسائل کا فی عرصہ تک نکلتے رہے اور کچھ کے چند شمارے ہی نکل پائے۔ 2000ء تک آتے آتے مذکورہ بالا اخبارات و رسائل نے بالکل ہی دم توڑ دیا۔
ہریانہ کے قیام کے بعد محکمہ اطلاعات و رابطہئ عامہ و ثقافت ہریانہ نے ’تعمیرِ ہریانہ‘ کا اجرا کیا۔ جس کی ادارت کی ذمہ داری ڈاکٹر سلطان انجم ؔسر انجام دیتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی و ادبی ماہنامہ رسالہ ہے۔ جس میں سرکار کی سرگر میوں اور خبروں کے ساتھ ساتھ ادبی مواد بھی موجود ہو تا ہے۔ یہ رسالہ مسلسل پابندی کے ساتھ نکل رہا ہے جس کی ادبی حیثیت اور چمک دمک بر قرار ہے۔ ہریانہ اردو اکادمی کے قیام کے بعد سہ ماہی رسالہ ’جمناتٹ‘ کا اجرا عمل میں آیا جو 1986ء یعنی اکادمی کے قیام سے لے کر ہنوز جاری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض دفعہ مشترکہ ہوجاتا ہے۔ اکادمی کا ایک پرچہ دو ماہی ’خبر نامہ‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ جس میں اکادمی کی سرگر میوں کے ساتھ اطراف و اکناف میں ہونے والی ادبی سرگر میاں بھی محیط ہو تی ہیں۔ 2009ء میں یہ اردو ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہونے لگا۔ اب گزشتہ دو برس سے بند ہو چکا ہے۔ ’جمنا تٹ‘ پہلے ناشر نقوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا بعد ازاں 1998ء میں شمس تبریزی اس رسالہ کے مدیر مقرر کئے گئے۔ اس وقت اس کا کوئی مدیر نہیں کیونکہ شمس تبریزی ستمبر 2015ء میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے اور اب اس کی ادارت کی ذمہ داری سید عبد الحنان کے سپرد ہے اور راقم الحروف کا تعلق بطور معاون ہے۔’خبر نامہ‘ پہلے ناشر نقوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا پھر شمس تبریزی اس کے مدیر رہے اور ڈاکٹر ایوب خاں بطور معاون۔
اب یہاں اُن حضرات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ جن کا تعلق ریاستِ ہریانہ سے رہا یعنی ہریانہ میں پیدا ہوئے لیکن وہ ہریانہ سے باہر مختلف اخبارات و رسائل سے وابستہ رہے اور اپنی صحافتی صلاحیتوں، قلم کی جولانیوں، اداریوں اور رَشحاتِ قلم سے جمہور کے دلوں کو گرماتے رہے نیز اردو زبان و ادب اور صحافت کی گراں بہا خدمات کو انجام دیتے رہے۔ جن صحافیوں کا پتہ چلتا ہے اُن کا ذکر ضلع وار کیا جائے گا۔
ضلع انبالہ: رام ناتھ اسیرؔ دو ماہی ’جمہور‘ سے وابستہ رہے۔ موصوف نے یہ رسالہ سریند ر موہن اور پیارے لال آزادؔ کے ساتھ مل کر جاری کیا تھا لیکن بد قسمتی سے اس کے دو شمارے ہی شائع ہو سکے۔ اقبال سحر انبالوی ماہنامہ ’رشحات‘ لاہور کے مدیر رہے۔ حسن رضوی کی وابستگی روز نامہ ’جنگ‘ لاہور سے تھی۔ علاوہ ازیں ہفت روزہ’اخبار ِجہاں‘ کراچی کے اور روزنامہ ’مساوات‘ (لاہور) کے کالم نگار تھے۔ ساتھ ہی ہفت روزہ ’شہاب‘ اور روزنامہ ’مشرق‘ (لاہور) کے نائب مدیر بھی رہے۔ کرشن کمار طورؔ گزشتہ تیس سالوں سے ’سرسبز‘ دھرم شالہ سے نکالتے ہیں جو ہنوز جاری ہے۔ عارج روپ نگری ’شوالک‘سے، مشہور شاعر ناصر کاظمیؔ ’خیال،ہمایوں،ہم لوگ (پاکستان) سے، وقار انبالوی ’زمیندار (لاہور)، ملاپ، ویر بھارت، احسان، سفینہ، نوائے وقت سے، نند کشور وکرم قومی اخبار، امرت، ارتقأ، نئی کہانی، آجکل (نئی دہلی) سے وابستہ رہے۔ نند کشور وکرم کئی برسوں سے اپنا ذاتی مُجلّہ ’عالمی اردو ادب‘ نکال رہے ہیں جس کی ادبی حیثیت و معیار سے پوری اردو دنیا واقف ہے۔
ضلع پانی پت: پانی پت کے حوالے سے خواجہ احمد عباس سب سے نمایاں مقام رکھتے ہیں اور اُن کی صحافتی صلاحیتوں و لیاقتوں کا پوری اردو دنیا دم بھرتی ہے۔ آپ’بمبئی کرانیکل‘اور ہفت روزہ ’بلٹر‘ کا آخری صفحہ لکھتے تھے۔ سلیم پانی پتی کا تعلق ’معارف‘ (علی گڑھ) مسلم گزٹ اور زمیندار سے رہا۔ ظفر عباس قریشی لا کالج لاہور کے جریدہ ’چناب‘ اور ماہنامہ ’طلوعِ اسلام‘ (لاہور) سے وابستہ رہے۔
ضلع حصار: حصار سے ایک نام انوار فیروز کا پتہ چلتا ہے جو پاکستان سے نکلنے والے مختلف اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔
ضلع سرسہ: سرسہ سے بھی ایک نام ابھر کر سامنے آتا ہے۔ وہ ہیں مشکور حسین یادؔ۔ جو پہلے حصار سے نکلنے والے ہفت روزہ اخبار’پکار‘ کے مدیر رہے۔ ہجرت کے بعد پاکستان سے نکلنے والے کئی جرائد سے وابستگی رہی جن میں ماہنامہ ’مصباح القرآن‘، ماہنامہ ’انیس‘ اور ماہنامہ’چشمک‘ شمولیت کے حامل ہیں۔
ضلع سونی پت: سونی پت سے بھی ایک نام دکھائی دیتا ہے۔ وہ ہے جیمنی سرشار ؔ۔ موصوف ہفت وار ’نیا جیون‘(فیروز پور)کے مدیر رہے۔
ضلع فرید آباد: ساحر ہوشیار پوری ماہنامہ ’کیلاش‘ (ہوشیار پور)،’چندن‘ (کانپور) اور ’ماہِ نو‘ دہلی سے وابستہ رہے۔ سمن سرحدی کا تعلق ماہنامہ ’سدا بہار‘ اور پندرہ روزہ ’ہند سندیش‘ سے رہا۔ اسی ضمن میں کیول فرید آبادی کی ’شیرِ سرحد‘ سے، ہاشمی فرید آبادی کی ’’پیسہ‘ اور انجمن ترقی اردو دہلی کے ہفت روزہ پرچہ ’ہماری زبان‘ سے وابستگی رہی۔
ضلع کورو کشتیر: شباب للتؔ لگ بھگ بارہ برس تک بھاشا و سنسکرتی وبھاگ ہماچل پردیش کے سہ ماہی رسالہ ’جدید فکرو فن‘ کے مہمان مدیر رہے۔ بال کرشن مضطر کا تعلق منزل، ایشیا، راہی، مزدور کی آواز، دستک، نیا مارگ، بزمِ خیال، چٹان، بڑھتے قدم، روزانہ، حق پرست، آوارہ بادل، اخبارات و رسائل سے بطور مدیر ومعاون رہا۔
گوڑ گاؤں: گوڑ گاؤں سے دیوانِ تصورؔ کا نام آتا ہے جو’ملاپ‘اور ’قومی آواز‘ سے منسلک رہے۔
موجودہ صورتِ حال: جیساکہ گزشتہ بھی کہا گیا ہے کہ ہریانہ میں اردو صحافت آزادی کے بعد مہاجرین کی بدولت زندہ رہی۔اگر یہ بات کہی جائے کہ 2000 ء کے بعد ہریانہ میں اردو صحافت کا سورج غروب ہو گیا، تو بے جا نہ ہوگا۔حالانکہ ہریانہ میں سن دو ہزار کے بعد مردم شماری میں تیزی سے اضافہ ہوا اور لوگ دیگر ریاستوں خاص طور پر اتر پردیش اور بہار سے ہجرت کرکے پانی پت، یمنا گر کرنال سونی پت، فرید آباد، گوڑ گاؤں اور پنچکولہ و چنڈی گڑھ جیسے شہروں میں آباد ہو گئے۔ مگر زبان کی طرف رجحان تو تب ہو جب پیٹ کی بھوک شانت ہو اور روزی روٹی کا مسئلہ آسان ہو۔ جو پرانے باشندے ہیں یعنی جنھوں نے تقسیم کے وقت ہجرت نہیں کی جیسے علاقائے میوات اور دریائے جمنا کے کنارے کنارے آباد قریات و قصبات۔ اُن پر اس قدر جمود طاری ہے کہ اُنھیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہریانہ میں اردو اکادمی بھی قائم ہے۔ سرکار کی متعصب پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہریانہ میں اردو زبان و ادب اور صحافت کے حوالے سے مستقبل تابناک نہیں ہے۔ جس طرح پنجاب میں محکمہ اطلاعات و رابطہئ عامہ و ثقافت، سے نکلنے والا ماہنامہ جریدہ’پاسبان‘ اور ہماچل پردیش میں سنسکرتی و بھاشا وبھاگ سے شائع ہونے والا سہ ماہی جریدہ ’جدید فکر و فن‘ بند ہو گیاہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہریانہ میں محکمہ اطلاعات و رابطہئ عامہ و ثقافت، سے جاری ہو نے والاماہنامہ رسالہ ’تعمیرِ ہریانہ‘ بھی بند ہو جائے گا کیوں کہ سلطان انجم ؔ رٹائر ہونے کے بعد بھی خود ہی کام کر رہے ہیں اور گزشتہ آٹھ برسوں سے ایسے حالات پید اکر دئے ہیں کہ پوسٹ فلپ ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ایسا ہی’قومی آواز‘ جو ایک سرکاری اخبار تھا اس کی کیا حالت ہوئی کیوں اور کیسے بند ہوا آپ سبھی حضرات واقف ہیں۔! یہی حال ’جمنا تٹ‘ کا بھی ہونے والا ہے۔ گزشتہ تین برس سے پوسٹ خالی پڑی ہوئی ہے اور رسالہ کا مالک خدا ہی ہے۔ دو ماہی ’خبر نامہ‘ جس کا ما سبق ذکر ہو چکا ہے، تو بند ہی ہو گیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان و ادب اور صحافت کی نمائندگی و سر پرستی کرنے ولا کوئی نہیں ہے۔ ہریانہ میں جو شعرأ و ادبأ جتنی بھی تعداد میں ہیں، ان کو اردو سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اُن کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اُن کی تخلیقات شائع ہو گئیں یا اُن کی متعصب ذہنیت کام کرتی رہتی ہے کہ کیسے زبان کو نقصان پہنچا یا جائے۔ سن2000 کے بعد صرف ایک رسالہ دیکھنے میں آتا ہے جو یمنا نگر کے قصبہ بوڑیہ سے سہ ماہی ’فیضانِ کریمی‘ کے نام سے نکلتا ہے۔ جس کی ادارت کے فرائض حافظ حسین احمد عرف پیرجی سر انجام دیتے ہیں۔ یہ رسالہ ہنوز جاری ہے۔ فرید آباد سے’آواز‘ 2000کے بعد تک ہفت وار نکلتا رہا۔ جس کے مدیر امر ساہنی تھے جو گزشتہ دو برس ہوئے اُن کی وفات کے ساتھ بند ہو گیا۔
سب سے اہم سوال یہ کھڑ اہوتا ہے کہ ان حالات کے ذمہ دار کون حضرات ہیں۔۔۔؟ ان تمام حالات کے ذمہ دار وہ حضرات ہیں جو مرکزیا دوسرے سرکاری اداروں میں کلیدی عہدوں پر جلوہ افروز ہیں یا وہ پروفیسر حضرات ہیں جن کو اللہ نے دولت اور عہدہ دونوں سے نوازہ ہے۔ ہریانہ ہی نہیں میں پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ جب تک ہمارے دلوں کے اندر خلوص پید انہ ہوگا، نہ ہم اردو زبان کو زندہ رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اردو صحافت کی بقا ممکن ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ اس بات کا غماز ہے کہ جتنا نقصان آزادی کے بعد اردو صحافت کو مسلمانوں سے پہنچا ہے وہ دوسروں سے نہیں۔ اب یوپی کی ہی بات لے لیجئے۔ یوپی میں اس وقت ایک ساتھ بیس ہزارسرکاری اردو ٹیچر کام کر رہے ہیں جن میں نوے فیصد مسلمانوں کی تعداد ہے۔ کتنے ٹیچر ہیں جو اردو کا اخبار پڑھتے ہیں، رسالوں کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے۔۔۔! بہ مشکل دو فیصد۔ اسی کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ کر رہے ہیں کہ اردو نہیں پڑھاتے۔ کہتے ہیں کہ سرکار کتابیں نہیں بھیجتی ہے۔اور بھی بہت سے مسائل اور وجوہات وہ آپ کے سامنے بیان کر دیں گے۔مگر مسائل سے تو تبھی لڑیں گے جب دل میں درد، کسک اور خلوص ہوگا۔ ضمیر تو مردہ ہو چکے ہیں او رقرآن کا ارشاد ہے جو قوم خود اپنی حالت نہیں بدلتی خدا بھی اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا۔ ہم کلیدی عہدوں پر بیٹھ کر صرف اسٹیج کی زینت بننا چاہتے ہیں اور کچھ بھی نہیں۔ کسی بھی قوم اور شعبہ کاتعلق اخلاص پر منحصر کرتا ہے جب دل میں یقین ہوتا ہے تو کامیابی یقیناََ قدم چومتی ہے۔ ہمیں اگر اردو صحافت اور زبان و ادب کو زندہ رکھنا ہے تو اپنے بچوں کو اردو پڑھانی ہوگی۔ میں میڈیم کی حمایت میں نہیں۔ اردوزبان کو ایک مضمون کی شکل میں سبھی اسکولوں میں نافذ کرنی چاہئے۔
٭٭٭
کتابیات
نام کتاب مصنف ناشر سنِ اشاعت
۱۔ اردو زبان و ادب میں کے فروغ مہندر پرتاپ چاندؔ ہریانہ اردو اکادمی، پنچکولہ ۷۱۰۲
میں ہریانہ کا حصہ
۲۔ اردو صحافت آزادی کے بعد ڈاکٹر افضل مصباحی عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی۔ ۵۹ ۳۱۰۲
۳۔سالنامہ آئینہئ اردو صحافت ایڈیٹر: مرتضیٰ اقبال مارچ ۵۱۰۲، شمارہ۔۱، جلد۔ ۱۴۔
۴۔اردو صحافت کا سفر گربچن سنگھ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۷۰۰۲
۵۔آل انڈیا ریڈیو اور اردو رفعت سروش ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۸۰۰۲
۶۔ الیکٹرونک میڈیا کی تاریخ سید سلیمان اختر کتابی دنیا، دہلی ۰۱۰۲
۷۔ اردو جرنلزم کیا ہے طہٰ نسیم کتابی دنیا، دہلی ۱۱۰۲
۸۔ الیکٹرونک میڈیا میں طارق اقبال صدیقی ایجوکیشنل بُک ہاؤس، علی گڑھ ۳۰۰۲
ابھرتے رجحانات
۹۔ اردو صحافت: حقائق، محمد شاہنواز ہاشمی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۲۲۰۲
روایت اور امکانات

Dr.Mohd. Mustamir
Assistant Professor
Zakir Husain, Delhi College, University of Delhi
Jawaharlal Nehru Marg. Delhi.02
Email.mohdmustamir@gmail.com