ف۔س۔اعجاز
مدیر ماہنامہ انشا ء، کلکتہ

احمد سعید ملیح آبادی سابق ممبر راجیہ سبھا اور مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کے قائم کردہ روز نامہ ”آزاد ھند“، کلکتہ کے مدیر بہ عمر 96 سال اتوار 2 اکتوبر 2022کو طویل علالت کے بعد لکھنؤ کے ایک اسپتال میں انتقال فرما گئے۔روزنامہ آزاد ھند 1949 سے اُن کی ادارت میں ساٹھ سال تک شائع ہوا۔
احمد سعید ملیح آبادی نے با اُصول نظریاتی صحافت اپنے والد سے وراثت میں حاصل کی۔معمولاً باپ سے اولاد کو پیشہ منتقل ہوتا ہے۔ انھوں نے پیشے کے ساتھ وراثت میں باپ کے اصول بھی لے لئے اور اُن کی اتّباع کی۔عبدالرزاق ملیح آبادی مولانا آزاد کے معاون اور رفیقِ کار تھے اور اُن ہی کی اسلامی حرّیتِ فکر کے ساتھ قوم پرور سیکولر نظریہ پر کاربند رہے۔ اس طرح یہ سب خوبیاں سعید صاحب کے اندر منتقل ہو گئیں۔ اُنکی خدمات کے صلے میں انہیں غالب ایوارڈ، برلا ایوارڈ اور کئی دیگر نمایاں اکیڈمی ایوارڈز سے نوازا گیا۔
سعید صاحب کی صحافت محض ماہ و سال کا دستاویزی پُلندہ نہیں کہی جا سکتی۔ نہ صرف وہ اپنے منفرد فکری اور نظریاتی پہلؤوں کی بنا پر اہم سمجھی جاتی ہے بلکہ اُس کے اطلاقی پہلو اُسے قابلِ تقلید بنا دیتے ہیں۔اپنی سوانح ِعمری ”میری صحافتی زندگی“ میں انھوں نے لکھا ہے کہ ایک صحافی کے لئے سیاست داں ہونا بہت ضروری ہے جبکہ سیاست داں کا صحافی ہونا ضروری نہیں۔لیکن اپنی آخری عمر میں اپنے اخبار کی ملکیت بیچ کر راجیہ سبھا کی ممبری اختیار کرنا اُن کا قابلِ ستائش اقدام نہیں کہا جا سکتا۔جب تک وہ ایڈیٹر رہے لیڈر اور وزیر اُن کی بارگاہ میں اِذن ِ باریابی کے آرزومند رہا کرتے تھے۔ اُن کے ارادے چٹان پاش اور فیصلے دُور رَس ہوا کرتے تھے۔ جذبات کی رَو میں بہنے والے وہ نہیں تھے۔اپنے اخبار کی پالیسی وہ ہندوستانی قوم کے سیکولر اور ملّی مفاد کی مناسبت سے طے کرتے تھے۔ کوئی دلیل، کوئی منطق اُن کی اِس لکشمن ریکھا کو پار نہیں کر سکتی تھی۔
کئی برسوں سے مختلف عوارض میں مبتلا ہو کر وہ ملیح آباد میں اپنی بیٹی کے ساتھ مقیم تھے۔ کچھ عرصہ قبل اُن کی اہلیہ انتقال فرما گئی تھیں۔ سعید صاحب کے انتقال کو تمام صحافی اور دانشور برادری محسوس کرتی ہے۔ کلکتہ میں اُن کے قارئین اور ہر شعبہئ زندگی میں اُن کے چاہنے والے سوگوار ہیں کہ دنیائے صحافت میں ایک مخلص ہادیئ ملّت اور چہیتے رہنما کو کھو بیٹھے ہیں۔
ماہنامہ انشا ء نے اپنا پہلا خاص نمبر1987 میں اُن ہی کی بابت شائع کیا تھا۔ اُس شمارے کی ایک خاصیت یہ تھی کہ اُس میں ہم نے اُن کے بجائے اُن کے اداریوں سے لیا گیاایک منفرد انٹرویو شامل کیا تھا جس کا نیپالی میں ترجمہ انشا ء کے ایک قاری (مترنّم شاعر بی ایس تھاپا نثارؔ نیپالی(بنار ہاٹ، مغربی بنگال میں واقع ایک اسکول کے پرنسپل) نے شائع کیا۔اِس طرح کئی موضوعات کا اچھا اور معروضی احاطہ کر لیا گیا تھا۔
مارچ 1993 کا شمارہ بابری مسجد نمبر تھا جس کی خصوصیت ملیح آبادی صاحب کے لکھے ہوئے ہمارے منتخب کردہ آزاد ھند کے 42 اداریے تھے جو بابری مسجد کی شہادت کے بعد لکھے گئے تھے۔ کلکتہ میں آزاد ھند کے قارئین ہر صبح بابری مسجد سے متعلق اُن کے لکھے ہوئے اِداریے کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے۔لیکن بابری مسجد نمبر میں وہ اداریے ایک فکری تسلسل کو قائم کرنے کے لئے ہماری ادارتِ ثانی کے بعدپیش کئے گئے۔اِس کاوش نے اُن اداریوں کی تاریخی حیثیت کو زیادہ بلند کر دیا۔انشا ء کے کئی دانشور قارئین نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ بابری مسجد نمبر کو ہی اس سانحہ ئ عظیم پر قرطاسِ ابیض قرار دینا چاہئے۔ اس خاص شمارے کا اجرا کلکتہ میں دلیپ کمار صاحب نے انجام دیا تھا۔ ان اِداریوں کا گجراتی میں ترجمہ احمد آباد کے بزرگ شاعر رحمت امروہوی (کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ؔکے دوست) نے شائع کیا جس کے دو ایڈیشن نکلے۔ عجیب اتفاق ہے کہ نثار نیپالی بھی اپنے ترنّم کی بدولت کنورؔ صاحب کے پسندیدہ شاعر تھے!۔
ملیح آبادی صاحب کی چار کتابیں شائع ہوئیں۔ ”میری صحافتی زندگی“ اُن کی خود نوشت سوانح خاصّے کی چیز ہے۔ اُن کی آخری تحریروں میں سلطان احمد ایم پی، ممتا بنرجی اور دلیپ کمار کے بارے میں لکھے گئے مضامین ہیں جو انشا ء میں شائع ہوئے۔
وہ ایسے خوش بخت صحافی تھے جن سے شاید خدا اور مخلوقِ خدا دونوں راضی تھے۔ اپنے پیچھے وہ جو نسخہء کیمیا چھوڑگئے اُسے سمجھنا کسی کے لئے سعادت کی بات ہوگی۔ روزنامہ کا ایڈیٹر خبروں کے سہارے چلتا ہے۔ وہ خبریں کھاتا ہے، خبریں پیتا ہے اور خبریں ہی اُس سے برآمد ہوتی ہیں۔ لیکن یہ کوئی خاص بات نہیں۔ یہ تو صحافت اور صحافی کا معمول ہی ہے۔ خاص بات تو اُسے کہیں گے کہ اخبار پڑھنے والوں کو مدیر کی تحریروں سے نئی روشنی، نیانظریہ ملتا ہے یا نہیں۔