(ڈاکٹر سعدیہ)
شعبہئ اُردو
اٹل بہاری باجپئی نگر نگم ڈگری کالج
اسماعیل گنج، لکھنؤ

صحافت کی راہ بہت ہی نازک خوبصورت مگر پُرخار ہے اس راہ کی چمک دمک ہر ایک کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے اور لوگ اس وادی پُرخار میں دوڑے چلے آتے ہیں لیکن ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس راہ کی نزاکتوں اس کے تقاضوں اور دشواریوں کو نگاہ میں رکھ کر آتے ہیں اور کچھ ایسے ہی حادثاتی طور پر آجاتے ہیں لیکن آنے کے بعد وہ بھی اس پُرخار اور دلچسپ راہ سے نکل نہیں پاتے ہیں بالکل ویسے ہی ’بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی‘ کیوں کہ یہ سچائی ایمانداری قربانی جانثاری کا جذبہ مانگتی ہے۔
سچ لکھا تو حکومت کے ذریعہ مارا جائے گا
جھوٹ لکھا تو ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہوگا
شائد اسی لئے مولانا ابوالکلام آزاد نے الہلال (۲۱۹۱ء) کلکتہ سے شائع کیا اپنے پہلے ہی شمارہ میں مولانا نے لکھا تھا۔
”ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لئے نہیں بلکہ تلاش زیاں و نقصان میں آئے ہیں صلہ و تحسین کیلئے نہیں بلکہ نفرت و دشنام کے طلبگار ہیں عیش کے پھول نہیں بلکہ خلش اور اضطراب کے کانٹے ڈھونڈنے ہیں دنیا کے سیم و زر کو قربان کرنے کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے تئیں قربان کرنے کیلئے آئے ہیں“
صحافت کی اہمیت وفادیت ہر دور میں رہی ہے صحافت حکومت کی تیسری آنکھ ہوتی ہے جمہوریت کا چوتھا ستون ہوتا ہے یہ انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے اور مجبور و مظلوم عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہوتی کیونکہ کسی بھی جمہوری حکومت میں عوام کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود اور نظم و ضبط کے نفاذ کے لیے تین ادارے ہوتے ہیں مقننہ،انتظامیہ یہ اور عدلیہ یہ تینوں اداروں کی سلامتی کے لیے صحافت کا وجود ضروری اور لازمی ہے، صحافت کی قوت دراصل عوام کی قوت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوامی ادارے اس کے احترام پر مجبور ہوتے ہیں،(اگر ہم کو) یعنی عوام کو اپنی بات حکومت وقت سے منوائی ہے یا کسی جماعت تحریر یا حکومت کی پالیسی کو کامیابی یا ناکامی میں بدلنا ہو تو اس حوالے سے بھی صحافت ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ جیسا کہ اکبر الہ آبادی نے کہاہے۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
اردو کا سب سے پہلا اخبار جام جہاں نما تھا جو۲۲۸۱ء؁ میں کلکتہ سے جاری ہوا اس اخبار کے ایڈیٹر لالہ سراسکھ اور بانی ہری دت تھے یہ انگریزی تجارتی کو کوٹھی کی ملکیت تھا یہ اخبارکچھ فارسی اور اردو میں نکلتا تھا۔
خالص اردو کا سب سے پہلا اخبارتھاجسے مولانامحمد حسین آزادکے والدمحمدباقر نے ۲۲۸۱ء؁ میں دہلی سے جاری کیا،اس میں علمی ادبی تاریخی مضامین شائع ہوتے تھے اس کی پالیسی آزاد خیالی تھی۷۵۸۱ء؁ کی جنگ آزادی میں اس اخبار نے کھل کر انگریزوں کے خلاف لکھا اور ہندوستانی قوم پرستی کی حمایت کی اس جرم کی پاداش میں مولوی محمد باقر کو پھانسی ہوئی، اس طرح قوم پرورانہ صحافت کی قربان گاہ پر یہ پہلی بھینٹ تھی، پھر تو آگے سو ڈیڑھ سو برس کی تاریخ اردو صحافت کے نڈر بے باک صحافیوں کی تاریخ ہے جنہوں نے عواقب سے بے نیاز ہو کر ملک و قوم کی رہنمائی کی اور قومی آزادی کے جذبات کی تعمیر کی جس کے نتیجے میں میں بہت سے صحافیوں کو قیدوبندکی مصیبتیں بھی جھیلنی پڑیں اور مالی نقصانات بھی اٹھانا پڑا۔
ان جری صحافیوں کی فہرست میں مولوی محمد باقر کے علاوہ منشی سجاد حسین، منشی ہر سکھ رائے، اور مولانا ظفر علی خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا عبدالمجید سالک، جیسے اکابرین علماء ادب میں شامل تھے۔
دہلی اخبار اودھ پنج الہلال البلاغ کامریڈ ہمدرد، زمیندار ار،اردوے معلی تہذیب الاخلاق،مولانا آزاد کا لسان الصدق وغیرہ وغیرہ
لندن سے ایک اخبار’لندن پنج‘ نکلتا تھا، اس سے متاثر ہوکر انہیں خطوط پر منشی سجاد حسین نے ’اودھ پنج‘نکالا، مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار الہلال البلاغ، ظفر علی خاں کے زمیندار اخبار نے اتنی انقلاب آفرینیاں کی یہ تاریخ ِ صحافت کا سنگ میل بن گیا محمد رضوان الدین لکھتے ہیں کہ صحافت ایک ذمہ داری ہے اگر اسے پوری ایمانداری اور دیانتداری سے برتا جائے تو انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔
ٍ بقول شخصے شاعری میں انقلاب حالی نے برپا کیا تھا صحافت میں ویسا ہی انقلاب ظفر خاں کے ہاتھوں ہوا وہ بابائے صحافت کہلائے انقلاب احسان حُریت اور احرار اور مساوات جیسے اخبار زمیندار اخبار کے طفیل منصہ شہود پر آئے۔
ان مسلم قائدین کا صحافت سے منسلک ہونا تجارت کے لیے نہیں تھا بلکہ ایک مشن قوم و ملت وطن کی خدمت کے لئے تھا ان لوگوں نے صحافت کو اختیار کیا تو ایک بے لوث جذبے کے تحت ایک جدوجہد کسی نظریے کے لیے اپنی قوم کی خدمت کے لیے اور روزمرہ کے مسائل کو پیش کرنے کے لیے پوری دیانتداری کے ساتھ صحافت سے وابستہ ہوئے۔
ہم نے ہنس ہنس کر تیری بزم میں اے پیکر ناز
کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم
اردو صحافت کی ترقی اس کے معیار کو بلند کرنے میں جس اخبار کا ہاتھ ہے وہ ہے قومی آواز جس کا آغاز۵۴۹۱ء؁ میں ہوا، اس اخبار کی سرپرستی کانگریس پارٹی اور جواہر لال نہرو کر رہے تھے،اس کے ایڈیٹر حیات اللہ انصاری تھے، یہ اخبار بیک وقت لکھنؤ،پٹنہ، دہلی اور شرینگر سے جاری ہوا، یہ اپنے وقت کا سب سے معیاری اخبار تھا اردو صحافت کے بچنے ا س کے ترقی کرنے کا سہرا خود اردو زبان کو جاتا ہے اردو زبان کی اپنی سخت جانی اس زبان کی مٹھاس ایسی تھی کہ لوگ اس کے بچنے ساتھ جُڑ نے پر مجبور ہوگئے اردو صحافت نے ہر دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو سمجھااور ان تقاضوں کو پورا کیا۔
جو پیغام اس دور کا تھا وہ پیغام اہل اردو تک پہنچایا ان اخباروں کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے اہل اردو کو اپنے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور باشعور بنانے کی کامیاب کوشش کی، اردو رسائل و جرائد میں اردو کے گیسو سنوارنے اس کے فروغ اس کے ارتقاء ترویج میں بے پایاں خدمات انجام دیں ہیں۔
اخبار و جرائد نے زبان و بیان ادب کو ایک سمت موڑ عطا کیا اردو کی اہم تحریکات تصورات رجحانات کے فروغ میں صحافت میں بڑا کردار ادا کیا۔
ہندی میں کہا جاتا ہے ساحتیہ سماج کا درپن ہوتا ہے اردو میں کہا جاتا ہے ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے جیسا کہ ہمارا سماج ہے ویسا ہی ادب میں لکھا جاتا ہے درپن کے معنی آئینہ کے ہیں اورآئینے میں سماج کی تصویر آجاتی ہے جتنی پیچیدگیاں ہمارے سماج میں ہیں وہی پیچیدگیاں ہماری صحافت میں آ گئی ہیں، سماج سے انسانی قدریں معدوم ہوتی جارہی ہے سیاست کا اثر ہمارے سماج پر پڑ رہا ہے آج اخبارات سیاست سے متاثر ہو کر لکھے جا رہے ہیں اس لیے انسانی قدریں معدوم ہو رہی ہیں:
خوب آزادی صحافت ہے
نظم لکھنے پر قیامت ہے
دعویٰ جمہوریت کا ہے ہر آن
یہ حکومت بھی کیا حکومت ہے
پہلے لوگ مشن کے طور پر عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتے تھے سیاست نے لوگوں کے ذہنوں کو بدل دیا ہے اس لیے صحافت کی شکل بدلتی جا رہی ہے یعنی صحافت کی آزادی ختم ہوگئی انہیں حکومت کا سیاست کا پابند ہو کر لکھنا پڑ تا ہے اپنے قلم کو حکومت و سیاست کی اُن زنجیروں میں جکڑ کر کاغذ پردوڑانا ہے، ایک زنجیروں میں بندھا قلم کب تک دوڑے گا بشیر بدر نے شاید ایسے ہی ماحول کے لیے یہ شعر کہا تھا:

یہ زبان کسی نے خرید لی
یہ قلم کسی کا غلام ہے
لیکن تعریف تو اس بات کی ہے اردو زبان کتنی سخت جان ہے اردو صحافت کتنی دمدار ہے اپنے محدود وسائل کے باوجود اردو صحافت مسابقت کررہی ہے اردو صحافت مسائل سے دوچار ضرور ہے لیکن اس کے باوجود علاقائی انگریزی کسی زبان سے پیچھے نہیں ہے دیگر زبانوں کے اخباروں میں سرکولیشن زیادہ ہے روینو اشتہارات بھی زیادہ ہے اردواخبار کے پاس اس چیز کی کمی ہے یہاں آمدنی بھی کم ہے اشتہارات بھی کم ہے اس لیے اردو اخبار کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے اردو کا ایک اخبار خریدا جاتا ہے گھر کے دس لوگ پڑھتے ہیں بلکہ پڑوسی بھی مانگ کر پڑھ لیتا ہے۔
یہ بات صرف اردو اخبارات تک محدود ہے اگر دوسرے علاقائی زبان جیسے ملیالم، تمل، تیلگو سے مقابلہ کریں تو وہاں گھر کا مالک جب نوکری کے لیے صبح نکلتا ہے اپنے ٹفن کے ساتھ اپنا اخبار بھی ساتھ لے جاتا ہے کہیں پر ایک گھر میں دو یا تین اخبار آتے ہیں اگر آپ انگریزی میں دیکھے تو ایک اخبار کو پڑھنے والے ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین ہوں گے۔
تعداد اشاعت کا تعلق روینیو آمدنی سے ہے اگر ہم سرکولیشن پر نظر ڈالیں تو ہم کہ کتنے پیچھے ہیں دوسرے اخباروں کے مقابلے میں ہماری اردو صحافت کی جو پیچیدگیاں ہیں وہ یہ کہ یہاں تربیت یافتہ لوگوں کی کمی ہے ٹیکنیکل اسٹاف تو بہت مل جاتا ہے لیکن ایڈیٹوریل رپورٹنگ کی حد تک یہ مسئلہ رہتا ہے دوسری بات اردو اخبارات کا سرکولیشن کم ہو رہا ہے اردو اخبار کے پاس اشتہارات کی بھی کمی ہے یہ اردو اخبارات پڑھنے والوں اور اردو سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھی تشویشناک بات ہے کیوں کہ اُردو اخباروں کے پیچھے کوئی سرمایہ دار یا تجارتی ادارہ نہیں ہوتا ہے اسی لئے عام طور پر اُنھیں ایسے اشتہارات نہیں مل پاتے جو دوسری زبانوں کے اخباروں میں پابندی سے شائع ہوتے ہیں اسی لئے اُردو اخبارات سرمایہ کی کمی اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کی بے توجہی کا شکار ہوجاتے ہیں یہ حال ادبی رسائل پڑھنے والوں کا بھی ہے کی پڑھنے والے بیشمار ہوتے ہیں لیکن خریدنے والے گنتی کے لوگ ہوتے ہیں اسی وجہ سے اُردو کے اچھے معیاری ادبی رسالے اپنے خریداروں کے لئے ترستے رہتے ہیں اور تھوڑے ہی دِنوں میں بہارِ جاں فزاں دکھاکر غائب ہو جاتے ہیں۔
لیکن ساتھ ہی اتنے سارے مسائل کے باوجود جو پہلو ہے کہ اُردو صحافت جو اس ملک کا بڑا اقلیتی طبقہ ہے انکی تعمیرِ نو کیلئے ان مسائل کی نشاندہی کے لیے جن کو دیگر قومی صحافت علاقائی صحافت میں جگہ نہیں ملتی ان کو اجاگر کیا جاتا ہے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ شاید اردو صحافت کا بہت بڑا اور مثبت پہلو ہے اور آگے بھی اپنے محدود وسائل ل کے باوجود بھی اردو صحافت اسی طرح تعمیری رول ادا کرتی رہے گی بس ضرورت اس بات کی ہے ہمارے صحافی نڈراور بے باک ہوں جو حق بات کہہ سکیں اور حق کے لیے لڑ سکیں اور اندیشہ سود وزیاں سے بے نیاز ہوکراس راہ کو روشن کرتے رہیں۔