ڈاکٹر رؤف خیر
ادب و صحافت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اچھا ادیب اچھا صحافی ہوسکتا ہے۔ جیسے مولانا ابوالکلام آزاد (مدیر الہلال و البلاغ)، مولانا ظفر علی خان (مدیر زمیندار)، مولانا محمد علی جوہر (مدیر ہمدرد و کامریڈ)، شاہد احمد دہلوی (مدیر ساقی)، احمد ندیم قاسمی (مدیر فنون) وغیرہ وغیرہ۔
ایک اچھا صحافی ایک اچھا ادیب بھی ہوجاتا ہے جیسے محمد طفیل نے اپنے رسالے ’نقوش‘ کی ادارت سنبھالنے کے بعد کئی بے مثال خاکے لکھے جو ادبی شاہ کار ٹھہرے۔ ان کے خاکوں پر مشتمل کتابیں ہیں جناب، صاحب، محترمی، مکرمی، وغیرہ وغیرہ۔ ڈاکٹر وزیرآغا نے اپنے رسالے ’اوراق‘ کے نکالنے کے بعد کئی تجربے کیے۔ تنقید اور انشائیے کی ترویج و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض کم زور ادیب و شاعر کوئی نہ کوئی رسالہ نکالنے لگے اور یوں ادبی دنیا میں ان کی ”آمد“ ہوئی۔ کسی نے ”شاندار“،”ادبی محاذ“ کھول دیا اور پھر دیگر رسائل میں بھی ان کی تخلیقات ِ نظم و نثر بار پانے لگیں۔ کسی بااثر شخصیت کے ہاتھ پر کسی نے بیعت کرلی اور اس کے کارناموں کے ”اثبات“ میں اور اس کے مخالفین کی نفی میں اپنے رسالے کو آلہء کار بناکر ”رنگ“ جمانا شروع کیا، اور اس سے ممکنہ فائدہ اٹھانا شروع کیا۔
صحافی ایک باوقار منصب ہے۔ ایماندار اور بے باک صحافی سے بے ایمان عہدہ دار اور سیاست داں بہت گھبراتے ہیں اسی وجہ سے بیشتر صحافی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں یعنی اپنی زبان اور اپنے قلم کا سودا کرکے ایسے عہدیداروں اور سیاست دانوں سے بڑا فیض پاتے ہیں جس میں مالی فائدہ اہم ہے۔
سرکاری ملازم کی طرح صحافی کو باضابطہ تنخواہ یا وظیفہ Pension ملنے والا نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنی صحافتی زندگی ہی کو غنیمت جان کر زیادہ سے زیادہ کما لینا چاہتا ہے تاکہ خوش حال زندگی گزار سکے۔ ایک صحافی کو بڑی ’سیاست‘ سے ایک ’منصف‘ مزاج مالک نے اپنے اخبار میں کام کرنے کے لیے دگنی تنخواہ کی پیش کش پر حاصل کرلیا۔ پھر اس صحافی کی خدمات کے عوض مزید بہتر سہولیات فراہم کرتے ہوئے ایک اور پارٹی نے اسے اپنے ’اعتماد‘ میں لے لیا۔ ہم اس صحافی کی ’عارفانہ‘ دوراندیشی کی داد دیتے ہیں۔
بعض سربراہانِ مملکت اخبارات کی سرپرستی بھی کرتے رہے ہیں۔ سکھ دیو مرزا پوری کی ادارت میں اردو کا پہلا اخبار ’جامِ جہاں نما‘ 1822 میں کلکتے سے نکلتا تھا جس پر باضابطہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مہر ثبت ہوتی تھی۔ اس کے برخلاف حکومتِ وقت کے خلاف آواز اٹھانے والے اخبار بھی ہمیشہ نکلتے رہے ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا اخبار ’دہلی اخبار‘ 1836 میں شاہجہاں آباد دہلی سے محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نکالتے تھے جنھیں حق گوئی و بے باکی کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا گویا صحافی محمد باقر پہلے ’شہیدِ صحافت‘ ہیں۔
حیدرآباد سے ایک روزنامہ ’نظام گزٹ‘ والیِ سلطنت حضور نظام سابع میر عثمان علی خاں بہادر کے نام پر 1927 سے نکلا کرتا تھا جس میں نظام دکن کے فرمان اور تخلیقات بڑے اہتمام سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ مذکورہ نظام گزٹ نے میر عثمان علی خان کا سالگرہ نمبر بھی شائع کیا تھا۔ 3رجب 1350 ھ مطابق 14 نومبر 1931 کو اس اخبار نے جلی حروف میں یہ خبر بھی شائع کی تھی:
”شہزادہ اعظم جاہ بہادر کا عقد ترکی کے خلیفہ عبدالمجید خان کی صاحب زادی در شہوار سے اور
معظم جاہ کا عقد مذکورہ خلیفہ کی بھانجی نیلوفر سے یکم رجب 1350ھ کو ہوگیا—“
یہ دونوں شادیاں آخرکار ناکام ٹھہریں۔ دونوں خوب صورت شہزادیاں حیدرآباد چھوڑ کر چلی گئیں۔
یہ ’نظامِ گزٹ‘ پولیس ایکشن کے ہاتھوں نظام کی حکومت کے خاتمے کے باوجود جاری رہا اور نظام دکن میر عثمان علی خاں بہادر کے انتقالِ پرملال 24 فروری 1967 کے بعد یہ اخبار بھی بند ہوگیا—
’لیلیٰ کے خطوط‘ اور ’مجنوں کی ڈائری‘ کے شہرت یافتہ ممتاز ادیب قاضی عبدالغفار نے 1935 میں روزنامہ ’پیام‘ جاری کیا۔ بعد میں اسے اختر حسن کو سونپ دیا جو حسرت موہانی کے بھتیجے ہوا کرتے تھے۔ اختر حسن کمیونسٹ تھے اور انڈین نیشنل کانگریس کے ہم نوا تھے۔ وہ چونکہ نظام سابع کی حکومت کی برقراری کے خلاف تھے اس لیے انھیں رضاکاروں کا نشانہ بننا پڑتا تھا۔ قاضی عبدالغفار بھی ترقی پسند تھے۔ اختر حسن کے احباب مخدوم محی الدین، سلیمان اریب، راج بہادر گوڑ تھے۔ ادبی حلقوں میں ’پیام‘ کافی مقبول تھا۔ نظام دکن کے خلاف پولیس ایکشن، کے بعد کئی اخبار بند ہوگئے ان میں پیام بھی تھا۔ اختر حسن نے عملاً سیاست میں قدم رکھا۔ اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا مگر جیت نہ سکے۔ آخری زمانے میں اختر حسن اردو اکادمی آندھراپردیش کے چیئرمین بھی کچھ دن رہے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غالب کی فارسی مثنوی ’چراغ دیر‘ کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔
آزادی کے بعد حیدرآباد سے 1949 میں دو روزنامے نکلے۔ رہنمائے دکن (جولائی 1949) اور سیاست (15 اگست 1949)
روزنامہ رہنمائے دکن اپنے اسلامی مزاج کی وجہ سے مسلمانوں میں خوب چلتا تھا۔ ہر سال میلاد النبی نمبر، شب برات نمبر، شب معراج نمبر، یوم عاشورہ نمبر وغیرہ وغیرہ کے ذریعے وہ سنیوں اور شیعوں میں کافی مقبول تھا۔ فسادات کے موقعوں پر بھی لوگ اس کی خبروں پر زیادہ یقین کرتے تھے اس لیے اخبار ہاتھوں ہاتھ بک جایا کرتا تھا۔ پہلے اس کے ایڈیٹر، پرنٹر اور پبلشر محمود وحیدالدین تھے پھر لطیف الدین اور وقار الدین ہوئے۔ آج بھی یہ وقار الدین صاحب ہی کی سرپرستی میں نکل رہا ہے۔ اب حیدرآباد سے زیادہ اضلاع میں مقبول ہے۔ رہنمائے دکن شروع میں روزنامہ ’رہبرِ دکن‘ تھا۔ اس میں شعر و ادب کا خاص خیال رکھا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر اس نے اپنے اخبار کے ذریعے بچوں کو ادب سے جوڑا۔ یہ واحد اخبار تھا جس میں بچوں کا صفحہ ہر ہفتہ شائع ہوا کرتا تھا جس میں بچوں کے لکھے ہوئے مختصر مضامین اور کہانیاں شائع ہوا کرتی تھیں۔ بچو ں کے لیے لکھنے والے آگے چل کر بڑوں میں بھی پہچانے جانے لگے ان میں ایک خاکسار رؤف خیر بھی ہے جس نے اپنے طالب علمی کے دور میں 1963-64 میں بچوں کے لیے جو کہانیایں لکھیں وہ رہنمائے دکن میں اکثر شائع ہوتی تھیں۔ پھر رؤف خیر کی نظمیں ماہ نامہ ’کھلونا‘ اور ’پیام تعلیم‘ دہلی میں بھی شائع ہونے لگیں۔
روزنامہ ’رہنمائے دکن‘ میں ہر جمعرات شعری صفحہ شائع ہوتا تھا جس میں کسی ایک عنوان کے تحت مشہور اشعار کے علاوہ مختلف نئے پرانے شاعروں کی غزلیں بھی شائع کی جاتی تھیں۔ خاکسار رؤف خیر کی بے شمارابتدائی غزلیں بھی اسی اخبار میں چھپتی رہیں اس طرح رؤف خیر کی ادبی تربیت میں روزنامہ ’رہنمائے دکن‘ کا غالب حصہ ہے۔
15 اگست 1949 کو محبوب حسین جگر اور عابد علی خان صاحبان کی مشترکہ کوششوں سے روزنامہ ’سیاست‘ جاری ہوا۔ یہ ایک سیکولر مزاج کا اخبار رہا۔ ترقی پسند نظریات کے حامل محبوب حسین جگر کے دوستوں میں ہندو مسلم شب شامل تھے۔ مسلمانوں کے تمام فرقے سنی، شیعہ، مہدوی، پارسی وغیرہ سب ’سیاست‘ میں لکھا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ کمیونسٹ فکر کے ادیب مخدوم، سلیمان اریب، راج بہادر گوڑ، امجد باغی، منوہر راج سکسینہ، زینت ساجدہ، شاہد صدیقی، شہریار کاؤس جی، ہرمز، ظفر الحسن جیسے لکھنے والوں کا تعاون سیاست کو حاصل رہا۔ یہ اخبار ہندو مسلم یکجہتی کا علم بردار تھا اس لیے ہر مذہب و ہر مسلک کا آدمی اس کا قاری تھا۔ یوں سیاست نے گنگاجمنی تہذیب کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ محبوب حسین جگر اسے صرف مسلمانوں میں محدود کرکے نہیں رکھنا چاہتے تھے چنانچہ اسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوئی۔ سرکاری خبریں سرکاری اشتہارات سے بھی یہ بہرہ یاب ہونے لگا۔ اس کے قارئین جناب شاہد صدیقی کا کالم شیشہ و تیشہ بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ شاہد صدیقی کے بعد اس کالم کی ذمے داری مجتبیٰ حسین پر ڈالی گئی جو بحسن و خوبی انجام دی گئی۔
سیاست اپنے لکھنے والوں کی تخلیقات کا معاوضہ بھی ادا کرتا تھا۔ ہر اتوار اوج یعقوبی صاحب ’شاعر سیاست‘ کے فرضی نام سے ایک نظم لکھا کرتے تھے جس کا معاوضہ پندرہ روپے انھیں ملا کرتا تھا۔ جب کبھی خاکسار رؤف خیر کی غزل شائع ہوتی تھی بطور معاوضہ تیس روپے کا منی آرڈر گھر کے پتے پر پہنچ جایا کرتا تھا یا پھر دفتر سیاست سے یہ معاوضہ حاصل کرلیا جاتا تھا۔ روزنامہ منصف جب شائع ہونا شروع ہوا تو اس نے ہر جمعہ مذہبی ایڈیشن، ہر جمعرات ادبی صفحہ، ہر چہار شنبہ خواتین کا صفحہ وغیرہ شائع کرنا شروع کیا۔ چنانچہ روزنامہ سیاست کو بھی ’مسابقت میں اپنا سیکولر رویہ بدل کر مذہبی صفحہ شائع کرنا پڑا۔ اب تو جشنِ میلاد النبی کے موقعے پر سیاست میں بے شمار مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔ رمضان کے زمانے میں بلکہ ہر جمعہ قرآن و حدیث کے وسیلے سے علمی مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔ حمد و نعت بھی اب شائع ہوتی ہیں۔ خواتین کے لیے بھی مفید مضامین سیاست کی زینت بنتے ہیں۔ ہر ہفتے سیاست کا ادبی صفحہ بھی مرکز نگاہ بنتا ہے۔ ہر اتوار سیاسی و سماجی مسائل پر لمحہئ فکر دینے والے مضامین اور تراجم بھی قارئین کی فکر کو جھنجھوڑتے ہیں۔ سرکاری سرپرستی سیاست کو اب بھی حاصل ہے، سرکاری اشتہارات بھی اسے ملتے ہیں۔ ضرورتِ رشتہ کے بے شمار اشتہارات کے علاوہ خرید و فروخت کے کلاسفائیڈ اشتہارات سے اخبار بھرا رہتا ہے مگر بقول خیر:
کوئی بھی زور خریدار پر نہیں چلتا
کہ کاروبار تو اخبار پر نہیں چلتا
سیاست میں کیریئر گائیڈنس کا سلسلہ نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے شروع کیا گیا، اور انھیں اپنا مستقبل سنوارنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اردو دانی کی کلاسس چلائی جاتی ہیں اور اردو سکھانے کے لیے سلسلہ وار کتابیں چھاپ کر طلبہ و طالبات کو مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ امتحانات کامیاب کرنے والوں کو اسناد کے ساتھ ترغیبی انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔
یوں تو روزنامہ ’ملاپ‘ بھی 1949 ہی میں جاری ہوا مگر جب یہ دہلی سے نکلتا تھا تو سہ روزہ تھا مگر 1951 میں حیدرآباد منتقل ہوا تو روزنامہ ہوگیا۔ ملاپ بھی سیکولر اخبار تھا۔ یدھ ویر جی اس کے مدیر تھے۔ اس میں ہندی الفاظ بہ کثرت استعمال ہوا کرتے تھے۔ اس کاخاص کالم ’پیاز کے چھلکے‘ فکر تونسوی لکھا کرتے تھے۔ اس کا ادبی صفحہ علاء الدین حبیب ترتیب دیا کرتے تھے۔ مشہور و ممتاز ادیبوں کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والو ں کی خوب پذیرائی کی جاتی تھی۔ خاکسار رؤف خیر کی تخلیقات بھی 1970 کے آس پاس ملاپ میں خوب چھپتی رہی ہیں۔بعد میں کچھ دن نظیر علی عدیل نے بھی ادبی صفحہ ترتیب دیا۔
حیدرآباد کا یہ واحد اخبار تھا جس میں شاعروں ادیبوں کی تخلیقات چھٹی ساتویں دہائی ہی سے ان کی تصویروں کے ساتھ بڑے اہتمام سے ہر چہار شنبہ کو شائع کی جاتی تھیں علمی ادبی مسائل بھی موضوعِ بحث آتے تھے۔ ادبی حلقوں میں روزنامہ ’ملاپ‘ کافی مقبول رہا۔ ہر سال دیوالی نمبر، جشن آزادی نمبر، سری کرشن نمبر، یوم جمہوریہ نمبر بھی نکلا کرتا تھا اور بے حد معلوماتی ہوا کرتاتھا۔ 1984 میں اردو روزنامہ ملاپ بند کردیا گیا مگر ہندی ملاپ آج تک جاری ہے اور کافی پڑھا جاتا ہے۔
نواب محبوب عالم خان صاحب کو بھی اخبار نکالنے کا شوق چرایا چنانچہ 1976میں انھوں نے روزنامہ ’نوید دکن‘ نکالا۔ یہ جماعتِ اسلامی فکر سے قریب تھا۔ اس میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ حیدرآباد کے ایک مرشد نے امام ابن تیمیہ جیسے مفکر و عالمِ بے بدل کو چپل سینڈ (کانٹے دار پودہ کیکٹس) لکھ دیا تھا جس پر طرفین سے کافی گرماگرم بحث اس اخبار میں چلی تھی۔ نوید دکن میں عالمی خبریں تو ذیلی حیثیت رکھتی تھیں اسلامی فکر کا غلبہ تھا۔ ایسا اخبار جو بدعات و خرافات کا رد کرے، شیعہ، مہدوی، پارسی، سکھ، عیسائی اور دیگر غیرمسلموں کو خوش نہ کرسکے وہ بھلا کیسے پنپ سکتا ہے چنانچہ دو ہی سال میں یعنی 1978 میں یہ روزنامہ بند ہوگیا۔
1977 میں روزنامہ ’منصف’کے منظرِ عام پر آنے کی روداد بڑی دلچسپ ہے۔ جناب محمود انصاری روزنامہ سیاست میں سب ایڈیٹر تھے مگر وہ خود اپنا اخبار نکالنا چاہتے تھے ان کی ایک بہن ڈاکٹر عطیہ انصاری سعودی عرب کی شاہی معالج تھیں۔ محمود انصاری نے مالکانِ سیاست سے کہا کہ انھیں ملازمت سے سبکدوش کردیا جائے تاکہ وہ اپنی بہن کے پاس سعودی عرب چلے جائیں۔ چنانچہ روزنامہ ’سیاست‘ سے انھیں سبکدوش کرکے ان کے تمام بقایاجات ادا کردیے گئے۔ ایک وداعی جلسہ بھی رکھا گیا جس میں سیاست کے ذمے دار اور صحافی برادری کے ہمدردوں نے تقاریر کیں اور ایک اچھے صحافی سے جدا ہونے کو صحافت کا بہت بڑا نقصان قرار دیا۔ بس کیا تھا۔ محمود انصاری کو موقع ہی مل گیا۔ انصاری نے بہی خواہوں کے جذبات کے احترام میں کہا کہ سعودی عرب جانے کا اپنا ارادہ انھوں نے بدل دیا ہے اور اخبار نکالنے کی کوئی سبیل نکالیں گے۔ اسی دوران یہ منصف کا ڈیکلریشن لے چکے تھے۔ ظاہر ہے تجربہ کار صحافی محمود انصاری کسی اخبار کے کل پرزے ہوکر رہ جانا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے روزنامہ سیاست میں ان کے جو بقایا جات تھے بڑی مصلحت سے وصول کرلیے اور فوراً اپنا اخبار منصف نکالنا شروع کردیا۔ اتفاق سے شہر حیدرآباد میں 1977 میں فسادات پھوٹ پڑے اور منصف کے نمائندے شہر بھر میں گھوم پھر کے خوب خبریں جمع کرنے لگے اور بڑی تفصیلی خبریں اس میں چھپنے لگیں چنانچہ منصف کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ ادیبوں اشاعروں کے جامع تعارف کے ساتھ ان کے بڑے فوٹو بھی (شاہ علی فوٹو گرافر کے ذریعے) شائع کرنے کا اہتمام بھی منصف میں ہونے لگا۔ محمود انصاری حیدرآباد کے ادیبوں شاعروں کو دوست رکھتے تھے۔ اور ادیب شاعر محمود انصاری کو دوست رکھتے تھے۔ یوں ادبی جلسوں کی تفصیلی رپورٹ تصویر کے ساتھ منصف میں شائع ہونے لگی۔ محمود انصاری کے اچانک انتقال کے بعد ان کے بھائی مسعود انصاری نے اسے کچھ دن سنبھالا۔ مصنف کو عطا محمد خان جیسے بے باک صحافی کا بھرپور تعاون شروع ہی سے حاصل رہا ان کا کالم طرفہ تماشہ بہت مقبول تھا۔ عطا محمد خان اور منصف لازم و ملزوم تھے۔ بہت ہی کم عمری میں عطا محمد خان کا انتقال بھی اچانک ہوگیا۔ پھر مسعود انصاری سے جناب خان لطیف خان صاحب نے روزنامہ منصف حاصل کرلیا اور اسے بام عروج پر پہنچا دیا۔ ABC کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کا سب سے زیادہ چھپنے والا روزنامہ منصف کئی سال سے سرِفہرست ہے۔ اس کے ہفتہ واری ضمیمے (سپلمنٹ) بھی بڑے شوق سے پڑھے جاتے ہیں جیسے گھر آنگن، آئینہ ادب، آئینہئ شہر، مینارہئ نور اس کے علاوہ سائنس اور ٹکنالوجی پر کافی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ منصف کے ادبی ایڈیشن میں ہند و پاک کے مشاہیر ادیبوں، شاعروں پر تصویروں کے ساتھ بھرپور مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ شاعر و مضمون نگار کی تصویر بھی شائع کی جاتی ہے۔ دیگر لکھنے والوں کی تخلیقات بھلے ہی ردی کی ٹوکری کی نذر بھی کردی جائیں مگر ادبی صفحے کے مرتب مضطر مجاز صاحب کے کیے ہوئے اقبال کی فارسی تخلیقات و قطعات کے منظوم اردو تراجم بلا ناغہ ہر ہفتے ضرور شائع ہوتے ہیں۔ بہرحال ادبی صفحہ بہت اچھا نکلتا ہے۔
کے ایم عارف الدین نے مدینہ ایجوکیشن سنٹر نام پلی حیدرآباد سے اپنا اخبار ”ہمارا عوام“ 1995 میں جاری کیا مگر یہ چل نہیں سکا۔ چند ہی سال میں بند ہوگیا۔
مسلمانوں کی ہر دل عزیز جماعت مجلس اتحاد المسلمین کا نمائندہ روزنامہ ”اعتماد“ نئی جاپانی مشتری پر 2005 سے بڑا خوبصورت شائع ہونے لگا۔ عالمی خبروں کے ساتھ شہر اور اضلاع کی خبریں بھی تفصیل سے شائع کی جاتی ہیں اس کے علاوہ کئی ادبی، سائنسی، طبّی ضمیمے بھی شائع کیے جاتے ہیں جو کافی معلوماتی ہوتے ہیں۔ شہر بھر میں مجلس اتحاد المسلمین کا بول بالا ہے۔ سلطان صلاح الدین اویسی ہی کی طرح ان کے دونوں بیٹے بیرسٹر اسدالدین اویسی ایم پی اور اکبرالدین اویسی ایم ایل اے اپنی حق گوئی و بے باکی کی وجہ سے عوام میں کافی مقبول ہیں ان کے بے شمار چاہنے والوں کی وجہ سے اعتماد کافی پڑھا جاتا ہے۔
روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں سے جاری کیا گیا ہے جیسے دہلی، کلکتہ، پٹنہ، رانچی، بنگلور، گورکھپور وغیرہ اسی طرح 2006 میں حیدرآباد سے بھی جاری کیا گیا۔ اس اخبار میں شمالی ہندو جنوبی ہند کی خبروں کے ساتھ ساتھ حیدرآباد و اضلاع کی تفصیلی خبریں تصویروں کے ساتھ شائع کی جاتی ہیں اس لیے اس کے قارئین کی تعداد بھی قابلِ لحاظ ہے۔یہ اخبار چونکہ بہ یک وقت سات آٹھ جگہوں سے شائع ہوتا ہے اس لیے نیشنل اور انٹرنیشنل ہر اہم خبر اس میں پائی جاتی ہے۔ بعض اہم کالم بھی تمام جگہوں سے نکلنے والے روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ میں مشترک رہتے ہیں۔ اس ادارے سے ہفتے وار عالمی سہارا اور ماہ نامہ ’بزمِ سہارا‘ بھی بڑے خوب صورت انداز میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ (کچھ دن ہوئے بزم سہارا بند ہوگیا)
پانچویں دہائی سے معین فاروقی کی ادارت میں روزنامہ ”انگارے“ بھی نکلا کرتا تھا مگر عوام میں یہ مقبولیت حاصل نہ کرسکا۔ لگتا تھا بعض ہفتہ وارو ں کی طرح سرکاری مسل کی تکمیل کے لیے نکالا جاتا تھا۔ معین فاروقی کے انتقال کے بعد 1990کے آس پاس انگارے پر بھی اوس پڑگئی۔
حیدرآباد اور اطراف و اکناف سے کئی ہفتہ وار اور پندرہ روزہ اخبارات نکلے اور نکلتے رہتے ہیں جن میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو سرکاری خانہ پری اور سرکاری اشتہارات کے حصول کے لیے نہایت ہی محدود تعداد میں شائع ہوتے ہیں جو سرکاری فائل میں جگہ پاتے ہیں تاکہ ان کی سرکاری مراعات برقرار رہیں۔ اردو اکادمی بھی ایسے ہفتے وار اور پندرہ روزہ رسائل و جرائد کو ہر ماہ ایک مقررہ رقم بطور امداد دیتی ہے یوں ان غریب صحافیوں کی روزی روٹی کا کچھ نہ کچھ بندوبست ہوجاتا ہے۔ ایسے اخباروں میں البتہ کچھ ایسے ضرور رہے ہیں جنھوں نے اپنی پہچان بنائی ہے جن کا ذکر آگے آئے گا۔
مشہور و ممتاز ترقی پند شاعر مخدوم محی الدین نے 1951 میں اپنا ہفت روزہ ”نیا دور‘‘نکالا جو کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان تھا مگر یہ اخبار بے ضابطہ بھی تھاا ور عوام سے اس کا رابطہ کم کم ہی تھا۔ یہ کب نکلتا تھا کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا ڈاکٹر محبوب فرید کی تحقیق سے خود ہمیں پتہ چلا کہ اس نام کا کوئی ہفتہ وار مخدوم بھی نکالا کرتے تھے۔ حیدرآباد کے بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ مخدوم کی حیات ہی میں یہ چپکے سے بند بھی ہوگیا۔
مشہور و ممتاز سماجی و سیاسی رہنما جناب غوث خاموشی نے 1954 میں اپنا ہفت روزہ’’معمار“ جاری کیا جس میں قرآن و حدیث، سیاست، ادب سے متعلق سب کچھ ہوتا تھا مگر اس کے بارے میں عوام الناس کو کم کم ہی خبر ہوتی تھی ایک دن خاموشی کے ساتھ یہ بھی بند ہوگیا۔
ترقی پسند ادیب نجم الثاقب شحنہ رہتے تو یادگیر (کرناٹک) میں تھے لیکن 1955 میں حیدرآباد سے ادبی رسالہ ”گجر“ جاری کیا جو ترقی پسند ادب کا ترجمان تھا۔ چند سال بعد ہی اس کی شام ہوگئی۔
1956 میں شیعیت کی ترجمانی کے لیے انور ہاشمی نے ”شاہکار“ اور کرار کاظمی نے ”بانگِ درا‘‘جاری کیا۔ ان کے مدیروں کی وفات کے ساتھ ہی یہ پرچے بھی بے نام و نشان ہوگئے۔
کمیونسٹ پارٹی کے وفادار اورقد آور مخدوم کے قریبی پستہ قد دوست امجد باغی نے 1960 سے ماہنامہ ”نیا آدم“ جاری کیا۔ مخدوم کی وفات کے فوری بعد 1970 میں نیا آدم کا مخدوم نمبر جناب امجد باغی نے نکالا جو دستاویزی حیثیت کا حامل تھا۔ امجد باغی کے ساتھ ہی 1980 میں نیا آدم بھی ختم ہوگیا۔
مسلمانوں کے ہمدرد رہنما، مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکنِ رکین جناب عبدالرحیم قریشی نے 1964 میں اپنا ہفتہ وار ’شعور‘ جاری کیا اور مسلمانوں کے مسائل پر خود بھی کھل کر لکھا اور دیگر دانشوروں سے لکھوایا۔ قریشی صاحب ادارہ تعمیر ملت سے بھی وابستہ تھے۔ اللہ عبدالرحیم قریشی کو سلامت رکھے مگر ”شعور“ سلامت نہیں رہا۔ (عبدالرحیم قریشی بھی سلامت نہیں رہے)۔
شفیع اقبال نے پنڈت نہرو کی پہلی برسی کے موقعے پر اپنا ہفتہ وار ”ہماری منزل‘‘جاری کیا۔ ابھی پچھلے دنوں مئی 2015 میں اس کی پچاسویں سالگرہ کا جشن منایا گیا تھا۔ ہماری منزل میں نئے ادیبوں شاعروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی چنانچہ خود خاکسار رؤف خیر اس کی زندہ مثال ہے۔ یہ پرچہ اب بھی نکلا کرتا ہے۔ شفیع صاحب ماہنامہ ”پروانہئ دکن“ بھی نکالتے ہیں۔
حیدرآباد کے نئے لب و لہجے کے مقبول و ممتاز شاعر خورشید احمد جامی کی یاد میں ان کے چہیتے شاگرد محمود خاور نے 1970 میں ہفت روزہ ’برگِ آوار‘ جاری کیا جس کے سرنامے کے طور پر ان کے مربی جامی صاحب کا شعر درج رہتا تھا:
لے کے پھرتی ہیں آندھیاں جس کو
زندگی ہے وہ برگِ آوارہ
”برگِ آوارہ“ جامی صاحب کے شعری مجموعے کا نام بھی ہے۔ ویسے 1966 میں پاکستان کے باغی شاعر حبیب جالب کا مجموعہ اسی نام سے شائع ہوچکا تھا۔
محمود خاورنے ”برگِ آوارہ‘‘میں اس دور کے نئے پرانے تمام قلم کاروں کو جمع کررکھا تھا۔ ہر ہفتے اس ہفتہ وار کا قاری کو انتظار رہتا تھا۔ ان کے پاکستان ہجرت کرجانے کے بعد ان کے بھائی انور مسعود نے اسے کچھ دن سنبھالا۔ آخرکار وہ بے ادب آندھی کی نذر ہوگیا۔
حیدرآباد کے استاد شاعر اوج یعقوبی صاحب ایک ادبی ہفتہ وار ”رابطہ“ ساتویں دہائی میں حیدرآباد سے نکالا کرتے تھے جس میں رؤف خیر نے مختلف کتابوں پر تبصرے کیے۔ اس طرح رؤف خیرمیں تنقیدی بصیرت پیدا کرنے میں اوج صاحب کے رابطے کا دخل ہے۔ ایک آدھ سال سے زیادہ یہ برقرار نہیں رہا۔
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز پہلے روزنامہ’’رہنمائے دکن‘‘سے وابستہ تھے۔ انھوں نے خود اپنا پرچہ نکالنا طے کیا اور 1999 میں ہفت روزہ ”گواہ“ جاری کیا جو ہر ہفتہ پابندی سے آج بھی شائع ہوتا ہے اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہونے کی وجہ سے امریکہ، یورپ، سعودی عرب اور پاکستان وغیرہ میں شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اس میں فاضل کا بے باک اداریہ شمارے کی جان ہوا کرتا ہے۔ گواہ میں ہر موضوع پر کھل کر لکھا جاتا ہے۔ مذہب، ادب، سیاست، اور کھیل وغیرہ پر کافی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ شہر میں ہونے والے اہم جلسوں کی تفصیلی رپورٹ بھی شائع کی جاتی ہے۔ یہ ایسا ہفتہ وار ہے جس میں ہر مکتب فکر کی پذیرائی کی جاتی ہے۔
ساتویں دہائی میں فارسی و اردو کے استاد شاعر برق موسوی اپنا ایک پندرہ روزہ ”آب و تاب‘‘نکالا کرتے تھے جس میں وہ مختلف شاعروں کے کلام کا سخت تنقیدی جائزہ لے کر عروض و زبان و بیان کی غلطیوں کی نشان دہی کیا کرتے تھے۔ ایک آدھ سال کے اندر ہی یہ پرچہ ان کی شدت پسندی کاشکار ہوکر اپنی آب و تاب کھوچکا۔
حیدرآباد تو ہر اعتبار سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ آس پاس کے علاقوں سے بھی کچھ پرچے نکلے۔ جیسے کرنول سے کٹر اہل حدیث عالم مولانا عبدالعزیز رحمانی چھٹی ساتویں دہائی میں ”العزیز“ ہفتہ وار نکالا کرتے تھے۔ کاتبوں کے ہاتھوں پریشان ہوکر بعض اوقات وہ اپنے پرچے کی کتابت بھی خود ہی کرلیا کرتے تھے۔ اس لیے پرچہ کبھی وقت پر نہیں نکلتا تھا۔ پرچہ خالص قرآن و سنت کا ترجمان تھا۔ مولانا عبدالعزیز رحمانی نے منکر حدیث غلام جیلانی برق کی کتاب دو قرآن و دو اسلام کا دندانِ شکن جواب ’صحیح اسلام بجواب دو اسلام‘ کتابی صورت میں دیا۔ ان کی وفات کے ساتھ یہ پرچہ بھی ختم ہوگیا۔
یسیر کرنولی بھی اپنا ہفتہ وار نکالا کرتے تھے اور غالب کی زمینوں میں غزلیں کہا کرتے تھے۔ ڈاکٹر قیسی قمر نگری نے 2001 میں ماہ نامہ ”بزمِ آئینہ“ جاری کیا جس میں عرسوں میلوں کے ساتھ ادب سے متعلق تخلیقات بھی شائع ہوا کرتی ہیں۔ علمی و مذہبی مضامین بھی شائع ہوتے ہیں۔ یہ پرچہ اب ڈاکٹر وحید کوثر کی ادارت میں نکل رہا ہے۔
2010 میں ورنگل سے جاری کردہ ہفتہ وار’’اردو ہماری زبان“ وحید گلشن کی ادارت میں پابندی سے نکل رہا ہے اس میں بھی عرسوں میلوں اور ادبی محفلوں کی تفصیلی روداد شائع ہوتی رہتی ہے۔ تجارتی نوعیت کا یہ ہفتہ وار ورنگل سے باہر بھی شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ وحید گلشن نے اسے اپنا آرگن بنا لیا ہے۔
ساتویں دہائی میں ہنمکنڈہ (ورنگل) سے پندرہ روزہ’’شرارے‘‘جلیل صاحب نکالا کرتے تھے۔ آٹھویں دہائی میں وہ کچھ دن اردو اکادمی اے پی کے چیئرمین بھی رہے۔ ان کی وفات کے ساتھ ”شرارے“ بھی بجھ گیا۔
کڑپہ (رائل سیما- آندھرا) سے ڈاکٹر خسرو قادری نے ایک سہ ماہی ادبی رسالہ’’دبستان“ 2009 میں جاری کیا جو جدید مکتب فکر کا نمائندہ رسالہ ہے۔
نظام آباد سے جمیل نظام آبادی نے ساتویں دہائی میں ماہ نامہ ”گونج“ جاری کیا جو آج بھی نکل رہا ہے اور اضلاع میں خوب پڑھا جاتا ہے۔ اضلاع کے ادیبوں شاعروں کی گونج میں خوب پذیرائی ہوتی ہے اسی طرح وہ لوگ بھی گونج کی مدارات میں تن من دھن سے کام لیتے ہیں۔
نظام آباد ہی سے ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر نے ماہ نامہ ”تمہید‘‘2010 میں جاری کیا جس میں ادب کے ساتھ ساتھ مذہبی معلومات بھی پیش کی جاتی ہیں۔ راجہ مہدی علی خان کی کلیات شائع کرکے ادب میں ان کو زندہ رکھنے کے جتن کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر ہند و پاک میں اپنی تحقیقی صلاحیتوں کی وجہ سے پسند کیے جاتے ہیں۔ ماہ نامہ تمہید آج بھی پابندی سے شائع ہوتا ہے۔ حال ہی میں اس کا اقبال نمبر نکلا۔
مشہور و ممتاز افسانہ نگار و ناول نویس بدنام رفیعی، شاعر مسعود جاوید ہاشمی اور ماہر اقبالیات جناب مصلح الدین سعدی جیسے اربابِ قلم کی مشترکہ ادارت میں ماہ نامہ ”افق‘‘ حیدرآباد سے چھٹی دہائی میں نکلا کرتاتھا۔ یہ رسالہ ترقی پسندوں، دہریوں اور جدیدیوں کے جواب میں اسلامی ادب پیش کیا کرتا تھا کہ اسلامی اقدار ہی عالمی اقدار ہیں۔ افسوس کہ یہ جلد ہی بند ہوگیا۔
چھٹی دہائی میں اردو کے مجاہد کمال کریم نگری، کریم نگر سے گزرنے والی ندی کے نام پر اردو ماہ نامہ”مانیر“ نکالا کرتے تھے جس میں آس پاس کے اضلاع کے تخلیق کاروں کا کلام شائع ہوتا تھا۔ کریم نگر کے تجارتی مرکزی مقام پر عدالت کے قریب بہت بڑی جائیداد کسی اردو نواز نے اردو کے لیے وقف کی تھی جس میں ایک بہت بڑی لائبریری قائم کی گئی تھی۔ اس جائیداد کی رکھوالی کمال صاحب نے اپنی زندگی میں تو کی اب پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہوا۔ ”مانیر“ تو چند ہی سال میں بند ہوگیا۔
ماہ نامہ ”معمار“ ساتویں دہائی میں آرمور (نظام آباد، اے پی) سے عبدالحمید کی ادارت میں بڑی پابندی سے نکلا کرتا تھا جس میں سارے ملک کے ادیبوں شاعروں کی تخلیقات بڑے اہتمام سے شائع کی جاتی تھیں تقریباً دس سال تک اس کا شہرہ تھا۔ مدیر معمار کے انتقال کے بعد یہ بھی بند ہوگیا۔
جماعت اسلامی سے وابستہ دینی فکر کے مدیر جناب یعقوب سروش اپنے گاؤں آرمور سے ایک رسالہ’’بساطِ ذکر و فکر“ نکالا کرتے تھے جس میں ادبی تخلیقات کے ساتھ ساتھ اسلامی فکر پر مشتمل مضامین کو ترجیح دی جاتی تھی۔ ان کے انتقال کے ساتھ یہ بساط بھی الٹ گئی۔
ادارہئ ادبیاتِ اردو کے بانی مشہور ماہر دکنیات محقق و ناقد و شاعر ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے ایوانِ اردو حیدرآباد سے جنوری 1938 میں ماہ نامہ ”سب رس“ جاری کیا جس میں تحقیقی و تنقیدی مضامین کے ساتھ ساتھ شعر و ادب پیش کیا جاتا تھا۔ ہر دور کے تمام اچھے لکھنے والوں کا تعاون سب رس کو حاصل رہا ہے۔ صاحب زادہ محمد علی میکش، سلیمان اریب، خواجہ حمیدالدین شاہد، اکبرالدین صدیقی، غلام جیلانی نے بھی اس کی ادارت کی مگر پروفیسر مغنی تبسم نے سب رس کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دی۔ آج کل پروفیسر بیگ احساس اس کے مدیر ہیں اور اس کا رنگ روپ نکھر کر ادبی دنیا کو چکاچوند کررہا ہے۔
ڈاکٹر زور کے شاگر رشید اور عقیدت مند خواجہ حمیدالدین شاہد کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ وہاں سے بھی وہ ہر ماہ سب رس نکالا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے ساتھ یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ حیدرآباد کے خاموش طبع شاعر وقار خلیل نے بھی سب رس کے لیے بڑی خدمات انجام دی ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ زندگی بھر ادارہ ادبیاتِ اردو سے وابستہ رہے۔
سلیمان اریب اور ماہ نامہ ”صبا“ ایک دوسرے سے پہچانے جاتے تھے۔ 1955 میں سلیمان اریب نے صبا کی بنیاد ڈالی۔ ہند و پاک کے تقریباً تمام اچھے تخلیق کار و تنقید نگار صبا میں شائع ہونا اعزاز سمجھتے تھے۔ اس کے کئی دستاویزی حیثیت کے نمبر بھی نکلے جیسے مخدوم نمبر وغیرہ۔ صبا شروع ہی سے مالی پریشانیوں کاشکار رہا۔ آخرکار 1970 میں کینسر کے شکار اریب کی موت کے ساتھ ہی یہ بھی زندگی و موت کی کشمکش میں رہا۔ کچھ دن مغنی تبسم نے اسے زندگی بخشنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہاتھ لگی۔
لسانی بنیادوں پر 1956 میں آندھراپردیش کی تشکیل کے بعد محکمہ اطلاعات و تعلقاتِ عامہ (Dept of Information & Public Relations) کے تحت ماہ نامہ ’آندھراپردیش‘ سرکاری ترجمان کی صورت منظرعام پر آیا جس میں شائع ہونے والی تخلیقات کا معاوضہ بھی ادا کیا جاتا تھا۔ ابتدا میں اس کے ایڈیٹر کنول پرشاد کنول رہے۔ کچھ دن اختر حسن بھی تھے۔ سید شاہ حبیب الدین قادری بھی اس کے مدیر رہے ہیں۔ تلنگانہ اسٹیٹ (2014) کے قیام کے بعد اس کا نام ماہ نامہ ’تلنگانہ‘ ہوگیا ہے اور مدیر حبیب صاحب ہی ہیں۔
مارچ 1958 میں اعظم راہی نے ماہ نامہ ”پیکر‘‘جاری کیا جس میں شامل جدید تخلیق کاروں کی تخلیقات نے اردو ادب کو نئی زندگی بخشی۔ ترقی پسندوں کے چل چلاؤ کے دن تھے۔ پیکر میں ہر مکتب فکر کے لکھنے والوں کی پذیرائی کی جاتی تھی۔ چنانچہ مجروح، اخترالایمان، جاں نثار اختر، ندا فاضلی، شمس الرحمن فاروقی، محمد علوی، کمار پاشی، جوگندرپال، جگدیش بمل، مخدوم، جامی، سلیمان اریب، شاذ تمکنت، اقبال متین وغیرہ کے ساتھ ساتھ تاج مہجور، رؤف خلش، مجتبیٰ حسین، حسن فرخ، رؤف خیر، علی الدین نوید، غیاث متین اسلم عمادی وغیرہ کی پذیرائی ہوئی تھی۔ اعظم راہی اور پیکر ایک ہی سکے کے دو رخ شمار ہوا کرتے تھے۔ پیکر جیسا رسالہ بھی افسوس کہ بند ہوگیا۔ الحمدللہ اعظم راہی سلامت ہیں اور ان دنوں امریکہ میں اپنے بیٹے کے پاس ہیں۔
1965 میں ناصر کرنولی نے ماہ نامہ ”پونم“ جاری کیا۔ یہ رسالہ بھی ہندوستان بھر میں شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ ناصر صاحب کو خیربہوروی اور جرم محمد آبادی سے خاص عقیدت تھی وہ ان کی تخلیقات بڑے اہتمام سے بلا ناغہ شائع کیا کرتے تھے۔ راقم الحروف رؤف خیر کی نظمیں غزلیں بھی پونم میں چھپتی رہی ہیں۔ ناصر کرنولی اردو کے لکچرر تھے۔ وظیفے کے بعد وہ اپنے آبائی مقام کرنول منتقل ہوگئے اور ’پونم‘ اماوس کا شکار ہوگیا۔
حیدرآباد میں طوائفوں کے علاقے محبوب کی مہندی سے ایک پردہ نشین شریف خاتون احمدی بیگم 1963 سے رسالہ ”قلم کار“ نکالا کرتی تھیں جس کے خاص نمبر دستاویزی حیثیت کے حامل ہوا کرتے تھے۔ یہ رسالہ شروع ہی سے بے ضابطگی کا شکار رہا اور تین سال سے زیادہ جی نہ سکا۔
1968 میں زندہ دلانِ حیدرآباد کے ترجمان کے طور پر ڈاکٹر مصطفی کمال کی زیرادارت ”شگوفہ“ منظرعام پر آیا۔ پہلے یہ ڈیڑھ ماہی ہوا کرتا تھا۔ پھر ماہنامہ ہوگیا۔ طنز و مزاح کے تمام لکھنے والو ں کے لیے یہ ایک خوانِ یغما ثابت ہوا۔ ہند و پاک میں اس کی دھوم مچی اور سب کا تعاون اسے حاصل ہوا۔ اس کے کئی خاص نمبر نکلے جیسے ڈرامہ نمبر— اہم مزاح نگاروں پر خاص گوشے بھی مرتب ہوئے جیسے گوشہئ مجتبیٰ حسین، طالب خوندمیری، پرویز یداللہ مہدی، خواجہ عبدالغفور، برق آشیانوی وغیرہ۔ مصطفی کمال بڑی سنجیدگی سے طنز و مزاح کے اس رسالہ ”شگوفہ‘‘کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ آج بھی یہ خاصی تعداد میں چھپتا ہے۔ انھوں نے اوورسیز مدیر بھی شگوفہ کے بنا رکھے ہیں جو رسالے کے لیے بیرونی ممالک سے سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ تلنگانہ اردو اکادمی نے انھیں 2015 میں ایک لاکھ روپے اور سند پر مشتمل مخدوم ایوارڈ سے سرفراز فرمایا۔
ساتویں دہائی میں 1970 کے آس پاس انور نظامی ادبی ماہ نامہ’’گل نو“ چھتہ بازار حیدرآباد سے نکالتے تھے جس کا شعری حصہ خاکسار رؤف خیر دیکھا کرتا تھا۔ شمع معمے کے حل بھی اس میں سجھائے جاتے تھے۔ اس طرح سارے ہندوستان میں گل نو اپنی بہار دکھا کر مرجھاگیا۔ انور نظامی بجائے خود بڑے اچھے خوش نویس تھے۔ رؤف خیر کے ابتدائی دوشعری مجموعے اقرا (1977) اور ایلاف (1982) انور نظامی کی خوش نویسی کی یادگار ہیں۔
1943 سے اردو املا کو آسان بنانے کی مہم چلانے والے جی۔ ایم۔ خان کا رسالہ’’ہندوستانی ادب“ ساتویں دہائی سے نکلا کرتا تھا مگر ان کے تجویز کردہ املے کی طرح ان کا رسالہ بھی ناکام ثابت ہوا۔
اسی سلسلے کے ایک اور مبلغِ املا جعفر حسن بھی تھے جو رسالے میں اپنا نام ”جافرہسن“لکھا کرتے تھے۔ یہ بھی بے نام و نشان ٹھہرے۔
1977 میں نظام اردو ٹرسٹ لائبریری کے زیرِ اہتمام ”مبصر“ جاری کیا گیا۔ نظام ٹرسٹ میں حلقہئ اربابِ ذوق کے تحت اردو کی معیاری کتابوں پر تبصروں کی محفل سجائی جاتی تھی۔ بعد میں یہی تبصرے ”مبصر“ کی زینت بن کر دستاویزی حیثیت اختیار کرجاتے تھے۔ ایسی ہی ایک محفل میں رؤف خیر کے ترائیلوں کے مجموعے ’ایلاف‘ پر جناب مضطر مجاز نے مدلل تبصرہ کیا تھا جو بعد میں ”مبصر“ میں شائع بھی ہوا۔ مبصر کے مدیر مشہور شاعر منظور احمد منظور تھے۔
1980 ہی کے آس پاس انکم ٹیکس کنسلٹنٹ Income Tax Consultant جناب بشیر وارثی چھتہ بازار حیدرآباد میں واقع اپنے آفس سے ایک ادبی رسالہ ”ذوقِ نظر“ نکالا کرتے تھے جس کے پس منظر میں دراصل ڈاکٹر یعقوب عمر تھے جو عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہئ فارسی سے وابستہ تھے۔ ڈاکٹر یعقوب عمر نے پروفیسر گیان چند جین کی زعفرانی فکر کو نشانہ بناتے ہوئے سخت تنقیدی کتاب لکھی۔ این میری شمیل کی صلاحیتوں کا بھی حق گوئی و بے باکی سے جائزہ لیا۔ ڈاکٹر یعقوب عمر نے بے شمار مضامین تو لکھے مگر ان کو چھپواتے ہوئے انھیں تامل ہوا کرتا تھا۔ خاکسار راقم الحروف انھیں چھپوانے پر اکساتا تھا مگر انھیں یہ وہم تھا کہ ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشیں کہیں ایڈیٹر اپنے نام سے نہ چھاپ لے یا ضائع نہ کردے۔ اس زمانے میں زیراکس کا چلن اتنا عام نہیں تھا۔ وہ بہت کاہل بھی واقع ہوئے تھے اسی لیے انھوں نے بشیر وارثی کو پرچہ جاری کرنے پر آمادہ کیا ان کے بیشتر مضامین اسی ماہ نامہ ’ذوقِ نظر‘ میں بلا ناغہ شائع ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر یعقوب عمر بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ غزل نظم کے علاوہ انھوں نے ہجویں بھی لکھیں جو بہت دل چسپ ہوا کرتی تھیں۔ بشیر وارثی بھی شاعرتھے۔ ان کا شعری مجموعہ ”بصارت و بصیرت“ (تاریخی نام جس سے 1401ھ برآمد ہوتا ہے) آج تک شائع نہ ہوسکا جس کی کتابت انور نظامی نے کی تھی۔ اسی زمانے میں ترائیلوں پر مشتمل میرے مجموعے ”ایلاف“ کی بھی کتابت انور نظامی ہی نے کی تھی جو 1982 میں (مطابق 1401ھ) شائع ہوا۔ بشیر وارثی کو اللہ نے دولت اور دل دونوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ وہ ضرورت مندوں، شاعروں ادیبوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ ان کی وفات کے ساتھ ”ذوقِ نظر“ بھی ختم ہوگیا۔ڈاکٹر یعقوب عمر بھی بے نام و نشان ٹھہرے۔
ادارہ ادب اسلامی کے دیرینہ رکن جناب مسعود جاوید ہاشمی امریکہ میں مقیم رفیقِ دیرینہ مقبول رضوی کے اشتراک سے دینی فکر پر مشتمل بچوں کا ماہ نامہ’’فن کارِ نو“ 2000 سے نکال رہے ہیں جو آدھا اردو اور آدھا انگریزی میں ہوتا ہے۔ اس سے پہلے آٹھویں دہائی میں وہ ادبی ماہ نامہ ”فن کار“ نکالا کرتے تھے جو چند ہی سال میں دم توڑ گیا۔
ڈاکٹر م۔ق۔ سلیم شروع ہی سے ادب سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے مضامین اور مراسلے ان کی خوش ذوقی کے مظہر ہوا کرتے ہیں۔ آج کل وہ روزنامہ ”صحافی دکن“ کا ادبی ایڈیشن ترتیب دے رہے ہیں اور کتابوں پر تبصرے کررہے ہیں۔انھوں نے 1987 میں بچوں کا رسالہ ’شعاعِ اردو‘ جاری کیا جس میں بچوں کی ذہنی تربیت سے متعلق تخلیقات ہوا کرتی ہیں جن میں ان کے دین و دنیا کا خیال رکھا جاتا ہے۔
حیدرآباد سے آندھراپردیش اردو اکادمی کا ترجمان ماہ نامہ ”قومی زبان“ 1981 سے شائع ہونے لگا۔ یہ چونکہ سرکاری نوعیت کا رسالہ ہے اس لیے اس میں شائع ہونے والی ادبی تخلیقات کا معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹر سکریٹری اردو اکادمی کی نگرانی میں یہ پابندی سے شائع ہورہا ہے۔شکور صاحب اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔رسالہ کی ذمہ داری جناب زبیری صاحب بڑی خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں۔
1983 میں جناب قمرالدین صابری ایڈووکیٹ نے ڈیمائی سائز پر ادبی ماہ نامہ’’شاداب“ جاری کیا۔ اس کے تحت کئی خاص نمبر بھی شائع کیے گئے جیسے آصف جاہی عہد نمبر، حیدرآباد کے اردو شعرا نمبر وغیرہ۔ قمرالدین صابری صاحب نے مکتبہئ شاداب کی بنیاد بھی رکھی تھی اور ادبی کتابیں پچاس فی صد ڈسکاؤنٹ پر نقد خریدا کرتے تھے۔ ان کے انتقال سے نہ صرف حیدرآباد کی ادبی صورتِ حال متاثر ہوئی بلکہ ”شاداب“ پر بھی برے دن آئے۔ ان دنوں ڈاکٹر محبوب فرید اسے’’شاداب انڈیا“ کے نام سے زندہ رکھے ہوئے ہیں اور اس میں ا ردو انگریزی ادبی تخلیقات جمع کرکے اسے اپنے عصر سے ہم آہنگ کردیا۔
مشہور شاعر میر محمد علی خاں میکش کے صاحب زادے مجتبیٰ فہیم نے اپنے والد کی یادگار قائم رکھنے کے لیے ماہ نامہ’’رنگ و بو“ 1994 میں جاری کیا جس میں ہند و پاک کے لکھنے والوں کی تخلیقات شائع ہوا کرتی ہیں۔ آج بھی رنگ و بو ہر ماہ پابندی سے شائع ہورہا ہے۔
1996 میں جناب سعادت احمد نے ماہ نامہ ”پیام اردو“ جاری کیا۔ وہ مخلص اردو نواز تھے۔ وہ نہ شاعر تھے نہ افسانہ نگار۔ ہر ماہ پابندی سے شائع ہونے والا’’پیام اردو“ اچانک منظرعام سے ہٹ گیا۔ مدیر کی بھی کوئی خبر نہیں۔اب ”پیامِ اردو“ پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔
1996 ہی میں حیدرآباد کے شاعر جناب نیر نے ماہ نامہ’’خوشبو کا سفر“ جاری کیا۔ مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہونے والی بے بحر تخلیقات پر سخت تنقید بھی کیا کرتے ہیں۔ یوں وہ اصلاح کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
میرفاروق علی محکمہئ آب کاری (اکسائیز ڈیپارٹمنٹ) میں بڑے عہدے پر تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد اپنا رسالہ ماہنامہ’’عدسہ“ 2006 میں جاری کیا اور کئی خاص نمبر شائع کیے جو دستاویزی نوعیت کے ہیں جیسے علامہ اقبال نمبر، عزیز احمد نمبر، میلاد نمبر، مصطفی رسا نمبر، قرۃ العین حیدر نمبر، اقبال سہیل نمبر، مضطر مجاز نمبر وغیرہ اس کے علاوہ کچھ انوکھے نمبر نکال کر ادبی دنیا کو چونکایا جیسے بکری نمبر، کتا نمبر جوتا نمبر وغیرہ۔یہ رسالہ بند ہو چکا ہے۔
بیشتر ہفتہ وار ”پندرہ روزہ“ ماہ نامے وغیرہ ملی جلی نوعیت کے نکلتے ہیں یعنی ادب کے ساتھ ساتھ کھیل، سیاست، سماجی مسائل وغیرہ پر معلومات بہم پہنچاتے ہیں مگر بعض پرچے صرف مذہب سے سروکار رکھتے ہیں جیسے حیدرآباد میں مسلکِ اہل حدیث کے بے غرض بے لوث مبلغ مولانا ابو تمیم محمدی کی ادارت میں 1960 کے آس پاس ماہ نامہ’’البیان“ نکلتا تھا جس میں شرک و بدعات کے خلاف لکھا جاتا تھا۔ مولانا کی وفات (1973) کے بعد ان کے دستِ راست مولوی محمد مشیرالدین (ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب (لندن) کے والد) نے البیان جاری رکھا۔ یہ رسالہ عموماً پابندی سے شائع نہیں ہوتا تھا۔ آخرکار بند ہی ہوگیا۔
مولوی صفوۃ الرحمن صابر صاحب سلطان شاہی حیدرآباد سے پانچویں دہائی سے ماہ نامہ’’الحق“ نکالا کرتے تھے جس میں مذہبِ اسلام کی جدید توضیح و تعبیر کی جاتی تھی جو مسلمات سے ٹکراتی تھی۔ ’الحق‘ ہی کے نام سے ان کے بعد ان کے شاگرد مولوی حبیب الرحمن پان منڈی سے یہ رسالہ نکالتے تھے جس میں بعض صحیح احادیث پر اعتراض کیے جاتے تھے۔ شبِ قدر اور عذابِ قبر کا انکار کیا جاتا تھا۔ راسخ العقیدہ اصحاب الحدیث ایسے ”الحق“ کو باطل کا ترجمان سمجھتے رہے ہیں۔
ان دنوں سابق صوبائی امیر جمعیت اہل حدیث مولانا صفی احمد مدنی کی زیرادارت ماہ نامہ’’گلستانِ حدیث‘‘اور مولانا ساجد اُسید ندوی کی کوششوں سے ماہ نامہ ”صدائے سلف“ نکل رہا ہے۔ مگر یہ رسالے وقت پر نہیں نکلتے۔
جمعیت ابنائے قدیم۔جامعہ دارالسلام عمر آباد کا ترجمان ماہ نامہ ”راہ ِ اعتدال“ عمر آبا د ٹمل ناڈو سے تقریباً 16سال سے مدیر ِ اعلیٰ مولانہ حفیظ الرحمن ا عظمی عمری حفظہ اللہ اور مدیر مسؤل محمد رفیع کلوری عمری کی نگرانی میں پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے جس میں دینی،اخلاقی مضامین کے ساتھ ساتھ شعر و ادب بھی ہوتا ہے۔
جماعتِ اسلامی کا ترجمان ہفتہ وار ”گیٹورائی“ تلگو زبان میں دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں ساتویں دہائی سے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ اس کے مدیر ایس ایم ملک تلگو زبان پر عبور رکھتے ہیں اور تلگو داں لوگوں سے دین اسلام کا تعارف کرانے میں کئی کتابچے چھاپتے رہتے ہیں۔
دارالسلام سبیل السلام حیدرآباد کا ترجمان’’صفا“ 2004 سے نکل رہا ہے جس میں دینی مضامین چھپتے ہیں مولوی حمیدالدین عاقل کے قائم کردہ دارالعلوم حیدرآباد سے 2005 سے حسامی نکل کر دین و اخلاق پھیلا رہا ہے۔ 1977 سے اقبال اکادمی حیدرآباد سے ششماہی’’اقبال ریویو“ نکلتا ہے جس میں مختلف ماہرینِ اقبالیات کے اقبال سے متعلق تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔
قاضی اسد ثنائی’’الانصار“ نکالتے ہیں جس میں ہند و پاک کے لکھنے والوں کی تخلیقات شائع ہوتی ہیں۔
پروفیسر مغنی تبسم کا رسالہ”شعر و حکمت“ کافی ضخیم نکلتا تھا اور چونکہ یہ رجسٹرڈ نہیں تھا اس لیے شعر و حکمت کتاب نمبر1، شعر و حکمت نمبر2، 3، 4 جیسے نام سے نکلا کرتا تھا۔ اس کے کئی خاص نمبر نکلے جیسے ن م راشد، میرا جی نمبر وغیرہ اور کئی ادیبوں شاعروں کے بھرپور گوشے بھی نکلے جو الگ سے کتابی شکل میں بھی شائع کیے گئے۔ کئی تحقیقی و تنقیدی مضامین پر مشتمل ضخیم شعر و حکمت ادبی دنیا میں اپنی انفرادیت کے لیے پہچانا جاتا تھا۔ پروفیسر مغنی تبسم کے گزر جانے کے ساتھ ہی یہ بھی دم توڑ گیا۔
عثمانیہ یونیورسٹی کا مجلہ عثمانیہ 1927 سے نکلتا رہا جس میں تحقیقی و تنقیدی مضامین بار پاتے تھے۔ پروفیسر عبدالقادر سروری کے بعد یہ بھی ختم ہوگیا۔ مشہور ناول نگار عزیز احمد ان کے معاون تھے۔
بیشتر کالجوں سے سالانہ مجلے نکلتے رہے ہیں مگر ان کی ادبی حیثیت غیرمسلمہ ہوا کرتی تھی۔ اب کسی کالج میں اردو دوسری زبان کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے تو یہ بھی غنیمت ہے۔ لہٰذا اب کسی کالج کے اردو مجلے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
آندھرا و تلنگانہ میں اردو صحافت
ضمیمہ Supplement
بعض اخبارات و رسائل و جرائد کا ذکر بھی ضروری ہے جو حیدرآباد سے نکلتے رہے۔ محترم اکبر علی صاحب کا اخبار ”صحیفہ“ اعظم پورہ حیدرآباد سے پابندی سے نکلا کرتا تھا۔ 1947سے پہلے بھی یہ مقبول تھا 1947کے بعد بھی یہ مقبولِ خاص و عام تھا۔ اس کے مدیر بے حد باذوق صحافی تھے۔ ان کے دفتر پر گاہے گا شعری محفلیں منعقد ہوتی تھیں جن میں حیدرآباد اور بیرونِ حیدرآباد کے نمائندہ شعرا شریک ہوا کرتے تھے۔اخبار کو بند ہوئے پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا اس کے باوجود اعظم پورہ میں واقع اس عمارت پر صحیفہ اخبار کا بورڈ آویز اں ہے اس کے سامنے موجود مسجد،صحیفہ مسجد کہلاتی ہے۔
اپنے ابتدائی دور میں احمد جلیس ہفت وار موج نکالتے تھے ساجد اعظم اور فضل اللہ فضل قریشی بھی ان کے معاون تھے۔ احمد جلیس نے کچھ دن بحیثیت لکچرر انورالعلوم کالج میں خدمات انجام دیں۔ پھر آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ ان کا ایک خاص پروگرام چھوٹی چھوٹی باتیں حیدرآباد و اطراف و اکناف میں بڑے شوق سے سنا جاتا تھا جس میں احمد جلیس کے ساتھ ساتھ اسلم فرشوری، جعفر علی خاں اور غوثیہ سلطانہ کے مکالمے بہت پسند کیے جاتے تھے،بیشتر تو یہ پروگرام راست Liveہی پیش کیا جاتا تھا۔ آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کے علاوہ احمد جلیس نے گلبرگہ،کڑپہ اور اورنگ آباد میں بھی خدمات انجام دیں۔
حیدرآباد کے ایک ہوشیار صحافی علی صدیقی تھے جو ہفت وارابن الوقت 1970میں نکالتے تھے۔ وہ پھر اچانک حیدرآباد سے دہلی پہنچ گئے۔ اس وقت کی وزیر اعظم اندراگانڈھی سے بہت قریب ہوگئے۔ انڈو عرب بنگلہ دیش فرنٹ قائم کیا جس کے تحت عالمی نوعیت کے مشاعرے کروائے۔ ہر سال بڑی خوب صورت ڈائری چھاپتے تھے اور سارے ملک کی ممتاز شخصیتوں کو پیش کرتے تھے۔
اسی زمانے میں ایک اور ممتاز صحافی ابوالوقت نکالا کرتے تھے مگر یہ زیادہ دن چل نہیں سکا۔
ایک کانسٹیبل یوسف ندیم تھے۔ سرکاری ملازمت چھوڑ کر صحافت کے میدان میں کود پڑے اور ہفت وار رہنمائے تلنگانہ نکالنے لگے جس میں سیاسی ثقافتی مضامین کے ساتھ ساتھ ادبی تخلیقات بھی شائع کی جاتی تھیں۔ اس کا ایک شمارہ تو پوسٹ کارڈ پر شائع ہوا تھا غالباً صحافت کی تاریخ کا یہ واحد تجربہ Acitivityتھا۔ بعد میں وہ چند رسریواستو کے دور میں اردو اکاڈمی آندھرا پر دیش میں ملازم ہوگئے تھے۔ان کے ایک ساتھی رفیق جعفر نے کچھ دن اردو ہفت وار وِنگس Wingsنکالا جس کی اڑان بہت مختصر رہی۔
1970کے آس پاس حیدرآباد کے ایک سیاسی و سماجی خدمات گار ملک محمد علی خان اردو میں ہفت روزہ پنچ شیل نکالتے تھے۔اس کے بعد وہ محکمہء تعلقات عامہ میں سرکاری ماہ نامہ ”آندھرا پردیش“ کے مدیر ہوگئے۔ کچھ دن وہ اردو اکاڈمی سے بھی وابستہ رہے مگر ان کی زندگی کا آخری دور نہایت کس مپرسی میں گزرا۔اردو صحافت میں ان کی خدمات کا ذکر ضرور ہوگا۔
2010میں اعظم راہی مشہور و ممتاز ماہ نامہ پیکر کے بعد ماہ نامہ تیشہ بھی نکالتے تھے مگر یہ رسالہ حیدرآباد و دہلی کی سرکاری فائیلوں کے لیے ہوتا تھا ان کے امریکہ جانے کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیا۔
ہمارے کرم فرما بزرگ قانون داں جناب ابراہیم خلیل ایڈووکیٹ سے انٹرویو کرنے پر بعض اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ ابراہیم خلیل صاحب بڑے باذوق وکیل تھے، حال ہی میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی ذاتی لائبریری میں ہر موضوع پر نایاب کتابیں موجود ہیں ریسرچ سکالرس ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ آزادی سے پہلے روزنامہ مشیر دکن کے بانی واسودیو تھے۔روزنامہ صداقت جماعت ِ اسلامی کا نمائندہ اخبار تھا جو گوشہ محل حیدرآباد سے نکلتا تھا۔ جناب نرسنگ راؤ روزنامہ رعیت نکالتے تھے۔ روزنامہ اقدام مشہور صحافی مرتضیٰ مجتہدی نکالتے تھے جن کی بیوی سعادت جہاں رضوی ایڈووکیٹ تھیں اور سٹی سیول کورٹ کے احاطے میں نوٹری کرتی بیٹھتی تھیں۔ روزنامہ سیاست میں کام کرنے والے منور علی کے والد آزادی سے پہلے روزنامہ ہمدم نکالتے تھے۔ ایک کانگریسی شعیب اللہ روزنامہ امروز کے مدیر تھے جو مجلسِ اتحاد المسلمین کے مخالفین میں تھے۔کسی نے ان کا قتل کردیا۔ روزنامہ وقت کے مدیر عبدالرحمن رئیس تھے۔مرتضیٰ مجتہدی کے بالمقابل زین العابدین اور اسمعیل ذبیح ”ہمارا اقدام“ (روزنامہ) نکالتے تھے۔ روزنامہ پرچم کے مدیر فصیح الدین احمد تھے۔ ایک اخبار آہنگ بھی کچھ دن نکلا۔روزنامہ جناح کے ایڈیٹر کوئی غلام محمد تھے۔
1950کے آس پاس حیدرآباد سے بچوں کے لیے بھی دل چسپ رسالے آزادی سے پہلے نکلا کرتے تھے۔ ماہ نامہ ”تارے“ مسلم ضیائی اور ”نو نہال“ جناب مرغوب الدین نکالتے تھے۔ روزنامہ رہنمائے دکن کے مدیر منظور حسین صاحب کے فرزند بچوں کے لیے ماہ نامہ ”مُنّا“ نکالا کرتے تھے۔حیدرآباد میں شروع ہی سے بچوں کے ذوق کا بھی خاص خیال رکھا جاتا رہا ہے۔
ماقبل و ما بعد آزادی حیدرآباد سے روز ناموں کے ساتھ ساتھ ہفت روزہ اخبارات کی بھی کوئی کمی نہیں رہی۔ 1970کے آس پاس ’منیر جمال انگریزی میں لیڈر Leader۔اردو میں جی ایم عروج”خوں ناب“ نکالتے تھے اکبر وفاقانی آرٹ سے متعلق رسالہ ”حُسن کار“ خوب نکالتے تھے۔ جناب ”انور ادیب“ ہفت وار رفتار سیاست 1965کے آس پاس نکالتے تھے۔ اسی زمانے میں ہفتہ وار نئے نکات اور ”دبدبہء آصفی“ بھی نکلتے تھے۔ 1951کے قریب احمد مکی اپنا ماہ نامہ ایوان جاری کیا جو کچھ ہی دن چلا۔ ایک بزنس مین غوث الدین ماہ نامہ ”فلمی تصویر“ بڑی کامیابی اور پابندی سے نکالتے رہے۔ ان کا چٹ فنڈ کا کاروبار بھی تھا۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ غوث الدین راتوں رات حیدرآباد کے منظرنامے سے غائب ہوگئے۔ ظاہر ہے پھر پرچہ بھی بند ہوگیا۔ ادارۂ ادبیات اردو اور ماہ نامہ سب رس کے خاموش خدمات گار مشہور شاعر جناب وقار خلیل کے بیٹے عظیم الرحمن تقریباً 2010سے ماہ نامہ شان الھند آرٹ پیپر پر نکالتے رہے ہیں جس میں ادب سے ہٹ کر سب کچھ ہوتا تھا۔
آزادی سے پہلے عثمانیہ یونیورسٹی کے بعض شعبوں سے ان کے اپنے مجلے نکلا کرتے تھے۔شعبہء اردو سے پروفیسر عبدالقادر سروری کی سرپرستی میں مجلہ عثمانیہ ڈاکٹر یوسف حسین خان کی زیر نگرانی شعبہء سیاسیات سے مجلہ سیاست۔ ڈاکٹر رحیم الدین کمال کے خسر جمیل الرحمن کی سرپرستی میں شعبہء تاریخ سے مجلہ تاریخ اسی طرح افسر جنگ کے نام پر ماہ نامہ افسر نکلتا تھا جس کی ادارت عبدالحق کرتے تھے عبدالحلیم شرر کاماہ نامہ دِلگداز بھی حیدرآباد سے نکلا جب شرر یہاں کام کرتے تھے۔
آزادی سے پہلے کچھ ماہ نامے خواتین کی حُسنِ ادارت میں نکلتے تھے جیسے ”خادمہ“ (مدیرہ سارہ بیگم) ماہ نامہ خاتون ِ دکن (مدیرہ صالحہ الطاف) جو آزادی کے بعد بھی کئی سال زندہ رہا۔1975کے آس پاس یہ بند ہوا۔ محترمہ صغرا ہمایوں مرزا اور زیب النساء بھی اپنے اپنے ماہ نامے نکالا کرتی تھیں۔
جیسا کہ کہا گیا ہے ہر محکمے کے تحت اس محکمے کا ایک مجلہ سرکاری طور پر نکلتا تھا جس میں محکمے سے متعلق کار روائیوں کی تفصیلات،مقدمات اور ان کے فیصلے،ٹنڈر وغیرہ کے بارے میں معلومات ہوا کرتی تھیں۔ جیسے محکمہء مال گزاری کا رسالہ مال گزاری جو روینیو ڈیپارٹ منٹ کے قوانین، محکمہ جاتی کارروائیوں اور فیصلوں پر مشتمل ہوتا تھا۔
1947سے پہلے حیدرآباد ہائی کورٹ کے فیصلوں اور قوانین سے متعلق بعض پندرہ روزہ نکلتے تھے مراۃ القوانین،نظائر دکن آئین ِ وقت اور دکن لار پورٹ Deccan Law Reportوغیرہ جس میں دیوانی مقدمات وفوجداری مقدمات Civil & Criminal Casesکی تفصیلات اور ان مقدمات کے فیصلوں کی تفصیلات درج ہوتی تھیں جنھیں وکلاء نظیر کے طور پر پیش کرتے تھے۔
”نظائر دکن“ کے مدیر فدا حسین خان تھے جو ڈاکٹر ذاکر حسین خان کے والد تھے۔ ایک رسالہ نکلتا تھا ”نظائر حیدرآباد“ جس کے مدیر تھے کلیم الدین انصاری ایڈووکیٹ جنرل ہائی کورٹ حیدرآباد آندھرا پردیش۔ جناب عبدالرحمن رئیس کی زیر ِ ادارت ”مقنن“ نکلا کرتا تھا جو آزادی سے پہلے کی نظام کی حکومت کی قانونی گشتیوں،GOsفرامین کے علاوہ ہائی کورٹ کے فیصلوں پر مبنی ہوتا تھا۔ یہ وہی عبدالرحمن رئیس ہیں جن کی ادارت میں روزنامہ ”وقت“ بھی آزادی سے پہلے نکلا کرتا تھا۔
نظائیردکن۔اور۔نظائر حیدرآباد کی طرح نظائر ممالکِ غیر پر مشتمل ”نظائر ہند“ بھی حیدرآباد سے نکلتا تھا جس میں لاہور، ممبئی،کلکتہ،مدراس،الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلوں کی تفصیلات ہوا کرتی تھیں۔ نظائر کا یہ سلسلہ آ ج بھی جاری ہے۔AIR (All India Reporter)مستند سمجھا جاتا ہے۔ پورے ہندوستان میں ہونے والے مقدمات اور فیصلوں کی تفصیلات اس میں درج ہوتی ہیں اور یہ سند کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ آزادی سے پہلے Indian Law Casesنامی رسالہ الہ آباد سے نکلتا تھا جس کا ترجمہ حیدرآباد میں ابراہیم علی فاضل کیا کرتے تھے۔ جن کے تین بیٹے بھی ایڈووکیٹ تھے۔ اس طرح قانونی رسائل کی نشر و اشاعت کا بھی حیدرآباد مرکز رہا ہے۔
تلنگانہ میں ہندی اخبارات و رسائل
تلنگانہ کی راج دھانی حیدرآباد سے اردو اور ہندی کے بے شمار روزنامے Dalies ہفت وار Weekliesماہ نامہ Monthliesنکلتے رہے ہیں اور نکل رہے ہیں۔
ہندی پرچار سبھا سے ایک رسالہ ”اجنتا“ کبھی سہ ماہی Quarterlyکبھی ششماہی Half Yearlyاور کبھی Annuallyسال میں ایک با ر نکلتا ہے۔ ہندی پر چار سبھا کا جو بھی صدر Headہوتا ہے وہی اجنتا کا ایڈیٹر بھی ہوتا ہے۔
ہندی پرچار سبھا ہی سے ایک اور رسالہ وی ویرن پتریکا Viveran patrikaنکلتا ہے جو پردیش کی ادبی و سماجی صورت ِ حال کے تذکرے پر مشتمل ہوتا ہے۔
1970کے آس پاس حیدرآباد کے شری بدری وشال پتی نے اردو ہندی تلگو زبانوں کے ادیبوں شاعروں پر مبنی تری وینی Triveniتنظیم قائم کی تھی تاکہ تینوں زبانوں کے لکھا ری آپس میں قریب آئیں اور ایکتا کو فروغ ہو۔ 1974کے آس پاس انھوں نے ہندی میں ادبی ماہ نامہ کلپنا جاری کیا تھا جس کے ایڈیٹرس میں اوم پرکاش نرمل تھے۔ کلپنا میں چھپنے والی تخلیقات کا معاوضہ دیا جاتا تھا۔ ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کے افسانہ نگاروں اور شاعروں کی تخلیقات بھی کلپنا میں چھپتی تھیں مگر یہ ادبی رسالہ پڑھنے والوں کی بے حسی اور مفت خوری کی نذر ہوگیا۔ خرید کر پڑھنے والوں کی کمی نے اسے مار دیا۔ شری بدری وشال پتی نے ایم۔ایف۔حسین آرٹسٹ کو Promoteکیا تھا۔ اُن سے کلپنا کا ٹائیٹل بنوایا جاتا تھا۔ رامائن اور مہابھارت کی پینٹنگس Paintingsبھی حسین سے کروائی گئی تھیں۔1970کے آس پاس نکلنے والا کلپنا اس دور کے اہم رسالوں شمع، بیسویں صدی، سریتا ساری کا، دھرم یگ کا ہم پلہ تھا۔
1980کے آس پاس ہندی میں ایک اہم رسالہ ”حیدرآباد سماچار“ منندرجی نکالا کرتے تھے جس میں اردو رسالوں میں شائع ہو نے والی اہم تخلیقات بھی شائع کی جاتی تھیں۔ یہ رسالہ تقریباً دس سال پہلے بند ہوگیا۔ اب ان کے بیٹے نیرج کمار ہندی ویکلی ”دکھشن سما چار“ نکال کر ہندی ادب و صحافت کو زندہ رکھنے کے جتن کررہے ہیں۔
گووند اکشے ہرماہ پابندی سے ”گولکنڈہ درپن“ نکالتے ہیں اور ہرماہ کسی نہ کسی ادیب یا شاعر کا گوشہ چھاپتے ہیں اور اس کی رسم اجراء ضرور کرواتے ہیں۔ اس کے بہت خریدار ہیں جو گولکنڈہ درپن کی پذیرائی کرتے ہیں۔
حیدرآباد کے مشہور کوی دلی چند ششی ویکلی ”اگروال سماج“ 1970کے آس پاس نکالا کرتے تھے اب وہ کافی بوڑھے ہوچکے ہیں۔ پرچہ بھی بند ہے۔
ہندی کے ایک اور ترقی پسند شاعر ششی نرائن سوادھین بڑی آسان اور سمجھ میں آنے والی شاعری سے اردو ہندی حلقوں میں کافی مقبول ہیں ان کا مجموعہ ہندی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شائع ہوا ہے۔ وہ بھی ایک ادبی رسالہ نکالتے تھے، ابھی پچھلے دنوں ان کا دیہانت ہو گیا۔
دکھشن ہندی پر چار سبھا کے زیر اہتمام ماہ نامہ شراونتی Shravantiہندی اور تلگو میں ایک ساتھ نکلا کرتا ہے۔ دکھشن ہندی پرچار سبھا کا جو بھی شکریٹری HODہوتا ہے وہی اس کا ایڈیٹر بھی ہوتا ہے۔ ہندی پر چار سبھا دراصل مہاتما گاندھی کی قائم کردہ ہے جس کا ہیڈ کواٹر چینئی میں ہے اسی کی شاخ حیدرآباد میں ہے جہاں سے شراونتی نکلتا ہے۔
اسی طرح ہر سرکاری محکمے اور عدالت کے اپنے ترجمان Organsہوتے ہیں جو سہ ماہی ششماہی یا سالانہ نکلا کرتے ہیں۔
1919-20میں لاہور سے لالہ کشال چند نے روزنامہ ملاپ اردو شروع کیا۔یہی لالہ آریہ سماج کے بانیوں میں شمار ہوئے اور مہاتما آنند سوامی کہلائے بلکہ انھیں آریہ سماج کے تیسرے چوتھے امام کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے بیٹے رن ویرجی، یدھ ویرجی اور یش ویرجی اہم صحافیوں میں گنے جاتے ہیں۔ نوین سوری مہاتما آنند سوامی کے پوتے اور رن ویرجی کے بیٹے ہوتے ہیں۔ آزادی کی لڑائی میں بھی اس خاندان کی خدمات مانی جاتی ہیں۔ یدھ ویرجی اور سیتاجی نے آزادی کی خاطر جیل کی تکلیفیں بھی اٹھائیں۔ان دونوں کی ملاقات جیل ہی میں ہوئی۔ شادی بھی جیل ہی میں ہوئی۔یدھ ویر جی اور سیتایدھ ویر جی نے مل کر 1947کے آس پاس حیدرآباد سے بھی روزنامہ اردو ملاپ جاری کیا جو دہلی کے ساتھ ساتھ چھپتا تھا۔ ملاپ نے اردو صحافت کو فکر تو نسوی جیسا کالم نگار دیا جس کے پیاز کے چھلکے شمال سے دکن تک شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ 1950کے قریب ہندی ملاپ شروع کیا گیا۔ اردو ہندی ملاپ دونوں ایک ہی جگہ سے ساتھ ساتھ شائع ہوتے تھے۔ دونوں اخبارات کا اداریہ Editorialایک ہی ہوا کرتا تھا جو صحافتی تاریخ کی انوکھی مثال ہے۔
1970کے آس پاس ملاپ ملٹی کلرڈ رنگا رنگ نکلنے لگا ذرائع Sourcesکی کمی کی وجہ سے ملاپ کچھ دن ویکلی نکلا پھر سنبھل گیا اور ڈیلی ہوگیااور آج تک پابندی سے ہندی ملاپ نکل رہا ہے۔ یہ پورے ملک کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اخبار شمار ہوتا ہے۔ تلنگانہ کے علاوہ آس پاس کے صوبوں میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ ادیبوں شاعروں کی تخلیقات بڑے اہتمام سے شائع کی جاتی ہیں۔ مگر اردو ملاپ بند ہوگیا۔
ہندی ملاپ نے اپنے ایسے پڑھنے والے پیدا کرلیے ہیں جو ملاپ کے عادی Addictہو چکے ہیں جنھیں ملاپ سے ہٹ کر کسی اور اخبار کے مطالعے سے تسکین نہیں ہوتی۔ ملاپ کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
گریش سنگھی کا ہندی میں روزنامہ ”سوتنترا وارتا“ دوسرا بڑا خبار ہے۔یہ پہلے صرف تلگو میں نکلا کرتا تھا مگر 1979میں ہندی میں وارتا نکلنے لگا کیوں کہ آندھرا و تلنگانہ میں ہندی دوسری بڑی زبان ہوگئی ہے۔ جس طرح لکھنؤ و دہلی کے اردو گھرانے کی نئی نسل ارو رسم خط Scriptسے نابلد ہوگئی ہے اسی طرح حیدرآباد کی نئی نسل بولتی تو اردو ہے مگر لکھنا پڑھنا نہیں جانتی ایسی نسل ہندی اور انگریزی اخبارات پڑھتی ہے۔ہندی ملاپ کے بعد دوسری پائیدان پر ہندی وارتا ہے۔
خواجہ سردار علی بھی ہندی میں روزنامہ پرجا سا ہتیا Praja Sahayata Dailyنکالتے ہیں۔ یہ ایک زمانے میں ہندی کا مقبول روزنامہ شمار ہوتا تھا۔ مہشور و ممتاز نوجوان صحافی شری ایف۔ایم۔سلیم اس سے وابستہ تھے جن کا کالم ”ہجوم میں چہرہ“ بہت مشہور ہوا اور جو کتابی شکل میں آچکا ہے۔ اب یہ اخبار کتنا چھپتا ہے اللہ ہی جانتا ہے۔
گریش سنگی صاحب Sri Greesh Sanghi 1996-97سے سوتنترا وارتا Swatantra Wartaنکال رہے ہیں جو صرف مخصوص حلقوں تک پہنچ پاتا ہے۔تلنگانہ سوچنا بھون Telangana Information Dept.کے ذمہ داروں سے مجھے کچھ اور معلومات بھی حاصل ہوئی۔ ان کے ریکارڈ کے مطابق ایک ڈیلی ہندی Nizam Vartaبھی نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ آکاش جیوتی Akash Jyothiہندی روزنامہ ہے۔ایک اور ہندی ڈیلی Vaibhav Samacharبھی ریکارڈ پر ہے جس کے ایڈیٹر نوجوان منوج ہیں۔ ایک پنڈت جی ہیں جو ہندی روزنامہ اجنتا Ajantaنکالتے ہیں۔ سوچنا بھون والوں نے انھیں پولو پنڈٹ کا نام دے رکھا ہے کہ جب کبھی یہ وہاں آتے ہیں اپنے ساتھ پولو کے پیاکیٹ لے جاتے ہیں اور دفتر کے ہر چھوٹے بڑے عورت مرد کو پولو پیش کرتے ہیں۔
ناگپور سے ایک ہندی اخبار نوبھارت Nav Bharatبھی نکلتا ہے جس کی برانچ حیدرآباد میں بھی ہے۔ بہت سارے اخبارات سرکاری فائل میں درج ضرور ہوتے ہیں مگر عوام تک ان کی رسائی کہاں تک ہوتی ہے یہ عوام اور ایڈیٹر ہی جانے۔کیا ہندی کیا اردو کئی اخبارات کا یہی حال ہے سرکاری اشتہارات اور مراعات Facilitiesسے فائدہ اٹھانے کے لیے ایسے کئی اخبارات بظاہر نکلا کرتے ہیں جو مارکیٹ میں شاید ہی ملتے ہوں۔
میں جب اخبارات کے ریسرچ کے سلسلے میں سوچنا بھون گیا ہوا تھا تو ایک ایڈیٹر صاحب نے مجھے اپنے دو اخبارات دیے جن میں خبریں تمام تر تصویروں کے ساتھ بالکل ایک جیسی تھیں البتہ صرف آگے پیچھے یا نیچے اوپر کردی گئی تھیں۔ معلوم ہوا کہ ایک ہی شخص دو دو اخبارات بھی نکالتا ہے تاکہ سرکاری فائدے زیادہ حاصل کرلے۔
سوچنا بھون ہی کے ریکارڈ سے پتہ چلا کہ ہندی میں ایک پندرہ روزہ Tatpar (Fortnightly)بھی نکلتا ہے۔
ہندی میں ایک ماہ نامہ اگرمنچ Agarmanchکا ذکر بھی ریکارڈس میں ہے۔
ہندی تو پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اسی طرح پورے آندھرا و تلنگانہ میں بھی ہندی کا بول بالا ہے۔سنجیدگی اور ایمان داری سے اگر ہمار ے صحافی کام لیں تو اردو ہندی صحافت ترقی کر سکتی ہے۔ ضرورت بس اتنی ہے کہ ضمیر کو زندہ رکھا جائے۔ بھگوان کو بھلے ہی نظر انداز کردیں، اپنے ضمیر کی طرف سے آنکھیں تو نہ موندلیں۔!
Dr. Raoof Khair
9-11-137/1, Moti Mahal, Golconda
Hyderabad – 500008 (Telangana)
Mob.: 09440945645
Email.: raoofkhair@gmail.com