تحریر : عشرت معین سیما

دنیا کی کسی بھی زبان کا مطالعہ کرنے کے لیے جہاں اُس زبان کی تاریخ اہم ہے وہیں اس زبان کے ادبی خزانے کا مطالعہ، شاعری کی کیفیات، صحافت کا میعار اور زبان دانی کے اکتسابی امور کا ذکر بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر اس زبان کی وسعت کسی ایسے غیر علاقے میں جاننا مقصود ہو جہاں وہ زبان اپنی ثقافتی اقدار کے ساتھ ایک نئی بستی ترتیب دے رہی ہو تو اس علاقے کی طرز معاشرت کے اثرات بھی کسی نہ کسی طریقے سے موضوع گفتگو بن جاتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں جہاں ایک سے زائد زبانیں بولی، سمجھی اور پڑھی ولکھی جاتی ہیں وہاں غیر محسوس طریقے سے خود بہ خود ایک نئی طرز معاشرت اور ثقافت کی نمائش شروع ہوجاتی ہےجو اس غیر زبان کا حصہ ہوتی ہے۔ جرمنی میں اس حوالے سے گوئٹے انسٹیٹیوٹ اور ڈوئچے ویلے کے تحت کی گئی اردو صحافت کو اگر سب سے پہلی اردو صحافت کی بنیاد کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔ گوئٹے انسٹی ٹیوٹ اگرچہ زبان کی ثقافت اور ترویج کا ادارہ ہے لیکن اس ادارے کے زیر اہتمام کئی کتب کے تراجم، ادبی و لسانی سرگرمیاں اور صحافتی بنیاد پر رسائل و جرائد کا اجراء بھی جرمن زبان کی تعلیم کے ساتھ مربوط ہے۔ اسی لیے ان دونوں جرمن سرکاری اداروں میں اردو زبان کی ترویج کے ساتھ ساتھ صحافت اور ادب کو زبان کی صحت کے حوالے سے یکساں درجے پر رکھا گیا ہے تاکہ صحافی اور ادیب زبان کو اس کے عہد کی سچائی کے ساتھ سپرد قلم کرسکیں۔
جہاں باقائدہ اردو صحافت میں نشریاتی ادارے کی بات کی جائے تو ۱۹۵۳ میں قائم ہونے والا ادارہ ڈوئچے ویلے سب سے قدیم اردو نشریاتی ادارہ ہے جہاں اردو سروس کا باقائدہ آغاز چودہ اگست ۱۹۶۴ کو ایک مختصر دورانیہ کی مجلس سے کیا گیا تھا۔ اس نشریاتی سروس کے تحت جرمنی اور جنوبی ایشیاء کے مابین “ اردو نشریات” کا ایک پُل تعمیر کیا گیا۔ ابتدا ہی سے یہ ادارہ جرمنی کی سابقہ راجدھانی بون میں ہے لیکن اب برلن سمیت کئی بڑے شہروں میں اس کیے ذیلی دفاتر موجود ہیں۔
بون میں اعجاز حسین اور شہناز حسین کی زیر نگرانی جرمنی میں اس ادارے کے تحت باقائدہ پہلی اردو نشریات پیش کی گئیں اور بعد ازاں ان دونوں ہی کی رہنمائی میں متعدد معروف صحافیوں نے اس ادارے کے کام کو آگے بڑھایا اور یہ سفر انٹرنیٹ کی آمد کے بعد مذید آگے بڑھا اور سماجی میڈیا اور ویب سائیٹ کے حوالے سے کارکنان کی تعداد میں اضافہ کرتا چلا گیا۔
ساٹھ کی دہائی کے دوران جب جرمنی خود تاریخی سطح پر اور جغرافیائی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کی توجہ کا مرکز تھا وہیں جرمنی میں جنوبی سے آنے والوں کے دروازے بھی مشرق اور مغرب کی جانب کھلنے لگے تھے ۔ جرمنی میں خالصتاً اردو رسائل و جرائد کا بھی باقائدہ اجراء ستر کی دہائی میں ہوا جوکہ تنظیمی سطح پر پاکستانی طلبہ کی جانب سے تھا۔ ۱۹۷۶۔ ۱۹۸۴ تک پاکستانی سفارتخانے کے تعاون سے مغربی جرمنی میں “ تصور پاکستان” کے نام سے ایک جریدہ باقائدہ شائع ہوتا رہا جس کا مقصد اردو زبان سے وابستہ کمیونٹی کو تحریری سطح پر معلومات فراہم کرنا اور اور پاکستان کی ادبی ثقافتی تشہیر کرنا تھا۔یہ رسالہ برلن میں اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا جریدہ تھا۔
۱۹۸۵ میں پاکستانی طلبہ تنظیم کی جانب سے اردو رسالہ کاوش کا اجراء کیا گیا جس کا مقصد بھی پاکستانی کمیونٹی اور طلبہ و طالبات کو  تاریخی، ادبی اور ثقافتی سطح پر معلومات بہم پہنچانا اور زبان کا فروغ تھا۔ انور ظہیر رہبر کی زیر ادارت برلن سے جاری یہ رسالہ بھی دس سال تک باقائدہ شائع ہوتا رہا۔
چونکہ جرمنی میں پاکستانی اور ہندوستانی کمیونٹی کی تعداد قدرے محدود تھی لہذا یہاں سوائے معروف اردو اخبارات اور رسائل کی آمد کا سلسلہ بھی محدود تھا۔ فرینکفرٹ میں اس حوالے سے پاکستانی دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں رہائش پزیر تھے اس لیے وہاں اردو زبان و صحافت سے رابطے بھی مضبوط تر تھے۔ستر کی دہائی کے آخری سالوں میں فرینکفرٹ سے مظفر شیخ صاحب نے  اخبار جنگ کی نمائندگی سنبھالی تو اخبار جہاں اور بعد ازاں دیگر جنگ گروپ کے رسائل و اخبارات کی آمد کا سلسلہ جرمنی میں ہوا۔ اس وقت اقبال حیدر جنگ اخبار کے نمائندہ خصوصی کے طور پر متحرک ہیں اور باقائدگی سے کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی خبریں بھی اخبار جنگ کی زینت بناتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرمنی میں جب اردو ادب و شاعری کے فروغ اور زبان سیکھنے اور سکھانے کا سلسلہ بڑھا تو برلن سے “ نئی کاوش” کے عنوان سے پہلا ادبی جریدہ مجھ خاکسار کے زیر ادارت ۱۹۹۸ میں شائع ہوا اور جرمنی میں ہونے والی اردو ادبی تقریبات کا حال، ادباء و شعراء کا تعارف اور فن کی پیشکش کے ساتھ ساتھ کلاسیکل ادباء و شعراء کا تعارف و کلام بھی اس رسالے کی زینت بنا اور برلن فری یونیورسٹی کے شعبہ ہندوستانیات کے سربراہ ہیلموٹ نسپٹال کے زیر سرپرستی خوش اسلوبی سے آگے بڑھتا رہا۔ اس کے بعد فرینکفرٹ سے دو معروف ادبی جریدے فوزیہ مغل اور شریف مراد کے زیر ادارت بھی شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ عرفان احمد اردو اخبار نیشن کے نمائندہ اور ایک سوشل میڈیا فورم “ وائس آف جرمنی “ کے بانی ہیں جو ہفتہ وار انٹرنیٹ پر ایک انٹرویو یا مکالمے پر مبنی پروگرام پیش کرتے ہیں۔
برقی میڈیا کے فروغ اور انٹرنیٹ کی آمد کے بعد اردو صحافت کو بھی جرمنی میں استحکام ملا اور فرینکفرٹ سے حیدر قریشی کی زیر سرپرستی “ اردو ڈاٹ کام” کا اجراء ہوا۔ اس سے قبل حیدر قریشی اردو دوست کے عنوان سے ایک سہ ماہی ادبی جریدہ شائع کرتے تھے اور نوائے وقت لاہور کے لیے اپنا قلمی تعاون پیش کرتے تھے۔ عارف نقوی جو کہ اردو انجمن برلن کے بانی اور معروف ادیب و شاعر ہیں انہوں نے آل انڈیا اردو سروس اور ڈوئچے ویلے اردو سروس کے لیے مشرقی جرمنی سے اپنی گراں قدر خدمات پیش کی ہیں وہ اس وقت بھی ہندوستانی اردو اخبارات میں باقائدگی سے لکھتے ہیں اور اودھ نامہ لکھنو کے نمائندہ خصوصی ہیں۔ یہ اخبار انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔
پاکبان انٹرنیشنل کے بغیر جرمنی کی اردو ویب سائٹ کا ذکر ادھورا ہے۔ یہ ویب سائٹ ظہور احمد کی زیر سرپرستی بیک وقت گجرات پاکستان اور برلن جرمنی سے اپ ڈیٹ کی جاتی ہے جس میں ان دونوں خطوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی خبریں اور دیگر قلمی تعاون جو ادب سیاست مذہب اور مختلف شعبہ زندگی سے ہوتا ہے، شامل کیا جاتا ہے۔
دیسی دھوم ریڈیو، آواز ادب برلن اور دیسی میڈیا ڈوئچلینڈ بھی یوٹیوب اور مواصلاتی زریعہ ابلاغ کے طور پر گذشتہ چند سالوں سے نہایت متحرک سماعتی اور بصری پروگرام خوش اسلوبی سے ہفتہ وار پیش کر رہے ہیں اور ان کے سامعین کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے
جرمنی میں اردو صحافت کے ضمن میں کتابوں و رسائل کا اجراء، تراجم کے سلسلے، برقی و مواصلاتی نشریاتی پروگرام اور ویب سائٹ کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ جرمنی میں اردو صحافت کے حوالے بھی اسی طرح نمو پارہی ہے جس طرح ادب و شاعری کے میدان میں یہ اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ فرینکفرٹ اور برلن اردو صحافت کے دو اہم شہر ہیں جہاں رجسٹرڈ پریس کلب کی بنیاد کافی عرصے سے ہے اور پاکستان کے اہم اور معروف نیوز چینلز اور اخبارات کے نمائندے یہاں اپنی کارکردگی اور ذمہ داری بہ خوبی و احسن نبھا رہے ہیں۔