ہیر رانجھا ایک مشہور پنجابی لوک کہانی ہے۔ متعدد مصنفین و شعرا نے یہ کہانی لکھی، لیکن ان میں سے سب سے مشہور وارث شاہ کی لکھی ہوئی ہیر وارث شاہ[1] ہے۔ جو 1776ء میں پنجاب میں لکھی گئی۔ اس طرح کی مزید کہانیوں میں سسی پنوں، سوہنی ماہیوال وغیرہ شامل ہیں۔
داستان
ہیر ضلع جھنگ میں آباد سیال قبیلے سے تعلق رکھتی اور ایک راجپوت لڑکی ہے۔ وہ انتہائی خوبصورت ہے اور علاقہ بھر میں اس جیسی حسین لڑکی نہیں۔ رانجھا بھی جٹ اور دریائے چناب کے کنارے آباد ایک گاؤں تخت ہزارہ ، ضلع سرگودھا کا ہی باسی ہے۔ یہ علاقہ کوٹ مومن کے نزدیک ہے، اس کے تین بھائی کھیتی باڑی کرتے تھے مگر باپ کا چہیتا ہونے کے ناتے وہ جنگلوں میں پھرتا اور ونجلی (بانسری ) بجاتا رہتا۔ اس نے اپنی زندگی میں کم ہی دکھ دیکھے تھے۔ جب رانجھے کا باپ مر گیا ،تو اس کا دور ابتلا شروع ہوا۔ پہلے زمین کے معاملات پر اس کا بھائیوں سے جھگڑا ہوا اور پھر بھائیوں نے اسے کھانا دینے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً رانجھا نے اپنا گاؤں چھوڑا اور آوارہ گردی کرنے لگا۔ پھرتے پھراتے وہ ہیر کے گاؤں جا پہنچا اور اسے دیکھتے ہی اپنا دل دے بیٹھا۔ ہیر نے جب اسے بے روزگارپایا،تو رانجھے کو اپنے باپ کے مویشی چرانے کا کام سونپ دیا۔ رفتہ رفتہ رانجھے کی ونجلی نے ہیر کا دل موہ لیااور اس اجنبی سے محبت کرنے لگی۔ آہستہ آہستہ ان کے لیے ایک دوسرے کے بغیر وقت کاٹنا مشکل ہو گیا اور وہ راتوں کو چھپ کر ملنے لگے۔ یہ سلسلہ طویل عرصہ جاری رہا۔ ایک دن ہیر کے چچا کیدو نے انھیں پکڑ لیا۔ اب ہیر کے ماں باپ(چوچک اور مالکی) نے زبردستی اس کی سیدو قوم کھیڑا ساکن رنگ پور سے شادی کر دی گئی،
محبت کی نا کامی سے رانجھے کا دل ٹوٹ گیا اور وہ دوبارہ آوارہ گردی کرنے لگا۔ ایک دن اس کی ملاقات بابا گورکھ ناتھ سے ہوئی جو جوگیوں کے ایک فرقے کن پھٹا کا بانی تھا۔ اس کے بعد رانجھا بھی جوگی بن گیا۔ اس نے اپنے کان چھدوائے اور دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ وہ گاؤں گاؤں ،نگر نگر پھرتا آخر کار اس دیہہ میں پہنچ گیا جہاں ہیر بیاہی گئی تھی۔ اب رانجھا اور ہیر واپس اپنے گاؤں پہنچ گے۔ بحث مباحثے کے بعد آخر ہیر کے والدین دونوں کی شادی پر رضا مند ہو گئے مگر حاسد کیدو نے عین شادی کے دن زہریلے لڈو کھلا کر ہیر کا کام تمام کر دیا۔ جب رانجھے کو یہ بات معلوم ہوئی،تو وہ روتا پیٹتا اپنی محبوبہ کے پاس بھاگا آیا۔ جب ہیر کو مردہ دیکھا تو زہریلا لڈو کھا کر خودکشی کر لی۔
داستان خلاصہ
وادی چناب کے یہ دو نام عشقیہ کہانی کا حصہ اور پنجابی ادب عالیہ کا سرمایہ بن چکے ہیں۔ ہیر رانجھا کی مروجہ کہانی جسے وارث شاہ[2] اور دیگر شعرا کرام نے بیان کیا، کے مطابق ہیر جھنگ کے نواب سیال خاندان کے ایک شخص چوچک کی لڑکی تھی جس کے حسن و جمال کا شہرہ چار وانگ عالم پھیل چکا تھا۔ قصبہ تخت ہزارہ ضلع سرگودھا کے ایک شخص رانجھا نامی جو مردانہ حسن کا نمونہ تھا۔ ہیر کے حسن کی غائبانہ شہرت سے متاثر ہوا اور ہیر کے خیال میں غلطاں رہنے لگا۔ رانجھا کی بھاوجہ نے ایک دن اسے طعنہ دیا کہ کمائ نہیں کرتا مگر روٹی کے وقت ہزار حجتیں بناتا ہے تم نوابی چھوڑ دو، ورنہ جھنگ کی ہیر سیال کے پاس چلا جا وہی اب تمھاری روٹی پکائے گی۔ گھی سے گوندھی ہوئی روٹیاں اسی کی کھانا۔ رانجھا اپنی چار بھاوجوں کا طعنہ سن کر جھنگ کی طرف چل دیا۔ جھنگ بیلے میں سفر کرتا ہوا جب جھنگ کے پاس چناب کے کنارے پہنچا تو ایک آراستہ کشتی دیکھی جس میں پھولوں کی چادریں بچھی ہوئی تھیں مگر اس میں کوئی آدمی موجود نہ تھا رانجھا تھکا ہوا تھا وہ کشتی میں داخل ہو کر گھنی چھاؤں کے شرمیلے نشے میں مست ہو گیا۔ پچھلے پہر ہیر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ آئی اس نے کشتی میں اجنبی کو سویا ہوا دیکھا تو اس کی نوابی حس بھڑک اٹھی اس کی غیرت بیدار ہوئی، اس نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ کشتی میں داخل ہو کر رانجھا کو نیند سے جگا دیا اور اسے سخت سرزنش کی اس دوران میں رانجھا نے ہیر کی طرف دیکھا اور ہیر نے اس کی طرف دونوں کی نگاہیں ملیں اور پھر جھک گئیں، کہاں ہیر اس اجنبی پر سخت خفا تھی مگر نظریں ملنے کے بعد اس کا انداز انتہائی نرم ہو گیا۔ یہ پہلی ملاقات دونوں کے درمیان مستقل عشق کی بنیاد بن گئی۔ رفتہ رفتہ دونوں قریب ہو گئے۔
چوچک نے ہیر کی سفارش پر اسے بھینسیں چرانے کے لیے ملازم رکھ لیا۔ رانجھا ہیر کی بھینسیں لے کر جنگل بیلے جاتا اور ہیر گھی میں گوندھی ہوئی روتیاں لے کر اسے پہنچاتی۔ دونوں میں پیار اس قدر بڑھا کہ ایک دوسرے میں فنا ہو گئے۔ ہیر کا چچا کیدو لنگڑا دونوں کے پیار و محبت سے آگاہ ہو چکا تھا اس نے چوچک سے کہا۔ ہیر رانجھا کے ساتھ پھنس کر اپنی اور خاندان کی عزت خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے لہذا رانجھا کو یہاں سے نکال دو۔ چوچک نے پہلے کئی روز تک کیدو کی بات نہ مانی۔ پھر کیدو ایک دن چوچک کو لے گیا اور جھنگ بیلے میں دونوں کی ملاقاتوں کا مشاہدہ کرایا۔ چوچک نے گھر واپس آ کر رانجھا کو نوکری سے نکال دیا اور ہیر کا رشتہ سیدو قوم کھیڑا ساکن رنگ پور سے طے کر دیا۔ ادھر چوچک کی بھینسیں جو رانجھا کی ونجلی پر مست رہتی تھیں رانجھا کی جدائی میں اداس ہو گئیں اور کھانا پینا دودھ دینا بند کر دیا دوسری طرف رانجھا ہیر کے لیے بے قرار رہنے لگا ہیر اپنے محل میں مظطرب تھی۔ ہیر کا نکاح سیدو کھیڑے سے کر دیا گیا وہ ہیر کی ڈولی لے کر رنگ پور چلا گیا مگر وہ رانجھا کے لیے اداس و پریشان رہنے لگی۔ اس نے سیدو کھیڑے کو اپنا خاوند تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
ہیر کو یہاں ایک راز دار سہیلی سہتی جو اس کی نند بھی تھی، سے ملاقات کر کے بڑی تقویت ملی۔ سہتی بھی ایک شخص مراد سے محبت کرتی تھی مگر ان دونوں کے درمیان میں بھی دیوار حائل تھی۔ رانجھا ہیر سے ملاقات کے لیے بے قرار تھا اس نے ایک ہندو بال ناتھ کو اپنا مرشد بنایا اور اس کے مشورہ سے سادھو بن گیا۔ کان چھدوا لیے اور جوگی بن کر بھیس بدل کر رنگ پور پہنچا اور سیدو کھیڑے کے مکان پر صدا لگائی۔ کھیڑوں کی عورتیں جن میں ہیر اور سہتی بھی شامل تھیں۔ سادھو کو خیرات دینے باہر نکلیں۔ ہیر نے رانجھا کو پہچان لیا اور رانجھا نے اپنا مقصود دیکھ لیا۔ رانجھا نے رنگ پور میں ڈیرہ لگا لیا اور خیرات کے بہانے ہیر کا دیدار کرتا رہا۔ بالآخر ہیر نے سہتی کے ساتھ مل کر پروگرام بنایا جس کے مطابق ہیر کو سانپ نے ڈس لیا جب ہیر بے ہوش ہو گئی تو اس نے کہا کہ اس زہریلے سانپ کے ڈسے کا علاج اس سادھو کے پاس ہے جو کئی دنوں سے رنگ پور کے باہر ڈیرہ لگائے بیٹھا ہے اسے بلاؤ۔ سادھو بلایا گیا۔ ہیر اور رانجھا کو ایک کمرہ میں بند کر دیا گیا تا کہ سادھو منتروں کے ذریعے ہیر کو صحت یاب کرے چنانچہ سہتی نے کمرہ کی دیوار میں نقب لگائی۔ ہیر رانجھا دونوں بھاگ گئے۔ سہتی بھاگ کر مراد کے پاس پہنچ گئی۔ یہاں تک تمام داستان گو یا شاعر قریبا متفق ہیں۔ بعض جزویات میں اختلاف ہے مگر اس کے بعد کے واقعات میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ رانجھا کو کھیڑوں نے جنگل میں پکڑ کر مار دیا تھا۔ بعض کہتے ہیں دونوں کو قتل کر دیا تھا، کچھ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ دونوں جب جھنگ کے قریب پہنچے تو سیالوں نے ان کو قتل کر دیا تھا، کچھ داستان نویسوں نے یوں لکھا کہ رانجھا کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ہیر اپنے محل میں چلی گئی جہاں سے اس کی لاش ملی۔ بہر حال ہیر اور رانجھا کی کہانی کے اختتام پر اختلاف موجود ہے لیکن کہانی کے ابتدائی حصے اکثر و بیشتر شعرا نے ایک جیسے بیان کیے ہیں