ڈاکٹر ریحان حسن

پنج دریاؤں کی سرزمین پنجاب کی گیتی پر اردو کے ادب کے کئی اہم قلم کار پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقات کے حوالے سے ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ شاید ہی اردو کا کوئی قاری ہو جو مولانا الطاف حسین حالی، مولوی محمد حسین آزاد، فیض احمد فیض، حفیظ جالندھری، ساحر لدھیانوی،ثناء اللہ امرتسری وغیرہ کی ادب میں بیش بہا خدمات کا قائل نہ ہو۔ ایسا نہیں کہ اردو ادب میں پنجاب کے صرف مرد قلم کاروں نے ہی اہم خدمات کی ہیں بلکہ صنف نسواں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ وقیع تخلیقات پیش کی ہیں لیکن ان کے خدمات کا اعتراف جس طرح ہونا چاہیے نہ ہو سکا چنانچہ بہت سی خواتین کے علمی کارنامے پر دہ خفا میں رہ گئے۔ جس طرح ادب کی نثری اصناف میں خواتین نے اپنی ذہنی جودت اور فکری بصیرت کو بروئے کار لاکر رنگارنگ گل بوٹے کھلائے ہیں بعینہ اصناف نظم میں بھی عورتوں نے اپنی خلاقانہ صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔

اصناف نظم میں مرثیہ ایک ایسی صنف ہے جس میں طبع آزمائی آسان امر نہیں کیونکہ اردو ادب میں مرثیہ ایسی صنف ہے جس میں نظم کے منجملہ اصناف کی خوبیاں پائی جاتی ہیں اس لیے مرثیہ نگار کو اردو کی اصناف نظم سے واقفیت ضروری ہے تبھی اس صنف میں قدم رکھ کر کامیابی مل سکتی ہے چنانچہ جب ہم پنجاب میں مرثیہ نگار خواتین کی تلاش کرتے ہیں تو نوحہ و سلام کی صنف میں طبع آزمائی کرنے والی خواتین مل جاتی ہیں لیکن مرثیہ نگار شاذ ونادر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ مرثیہ کے فروغ میں اس سرزمین کے ادباء کا بھی کچھ کم حصہ نہیں، میرا نیسؔ اور مرزا دبیرؔ کے بعد پنجاب کے مرثیہ نگاروں کے مراثی بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ شخصی مراثی میں مولاناالطاف حسین حالیؔ کا مرثیہ غالب اور حکیم محمود خاں کا مرثیہ اس کے علاوہ علامہ اقبالؔ کا حالیؔ کے مثل غالب کا مرثیہ نیز حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام میں اسلام کی منظوم تاریخ کے ساتھ مرثیے کے محاکات اور کنور مہندر سنگھ بیدی کے شخصی مرثیوں میں مرثیہ پنڈت نہرو، مرثیہ ذاکر حسین، مرثیۂ اقبال اور حضرت امام حسین کے حضور مرثیہ حسین قیصر بارہوی کا شباب فطرت، معراج بشر، عظیم مرثیے، ڈاکٹر صفدر حسین کا آئین وفا علمدار کربلا، جلوہ تہذیب، چراغ مصطفوی، مقام شبیری، فیض احمد فیض کا امام حسین کی شان اقدس میں مرثیہ مجموعۂ کلام ’شام شہر یاراں‘ میں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ انبیا ء اللہ حیدر ضیاء کا قرطاس عزاء، قرآن دفا، نجوم فن وغیرہ ایسے مرثیے ہیں جن کی مرثیہ کی تاریخ میں بیحد ا ہمیت ہے۔ جہاں تک پنجاب میں صنف مرثیہ میں طبع آزمائی کرنے والی خواتین کی بات ہے تو ہمیں صرف دو خاتون ایسی ملتی ہیں جنہوں نے اس صنف کی جانب با قاعدہ توجہ کی تقسیم سے قبل تو پنجاب میں اردو زبان کا چلن اور بول بالا تھا لہذا اردو کی تمام اصناف میں یہاں کے تخلیق کاروں نے نمایاں کارنامے انجام دیے اسی طرح عورتوں نے بھی ادب کی مختلف اصناف میں اپنے جو ہر کمال دکھائے لیکن حجاب اور معاشرہ کی قائم کردہ روایات اور اصولوں کی پاسداری کے سبب ان کی ادبی خدمات کما حقہ سامنے نہ آسکیں چنانچہ پنجاب کی وہ خواتین جنہوں نے نوحہ وسلام کی صنف کے ساتھ ساتھ مرثیہ میں بھی فکری بصیرت کا ثبوت بہم کیا ان کے نام تاریخ کی بے رحمی اور مرد اساس معاشرہ کی نذر ہو کر رہ گئے پھر بھی پنجاب کی جن عورتوں کے مرثیے ملتے ہیں وہ اپنے بلندی تخیل، جذبات کی شدت اور شعور کی گہرائی و گیرائی کے سبب صرف مرثیہ ہی نہیں بلکہ نسائی ادب میں بھی اہم اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔