ڈاکٹر صوفیہ یوسف
یک کرداری ناول کی کامیابی کے بعد ناول کو اصولوں اور قاعدوں میں مقید نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک ایسی فارم ہے جس میں وقت کے ساتھ مسلسل تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ میلان کنڈیرا کے بقول ”ناول کا راستہ جدید تاریخ کے متوازی چلتا ہے‘‘ جبکہ گارشیا مارکیز کا ماننا ہے کہ ”ناول خفیہ کوڈ میں بیان کی گئی حقیقت ہے دنیا کے بارے میں ایک قسم کی پہیلی‘‘۔ ناول کے اس خدوخال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ناول، ناول کی تنقید اور نسائی شعور پر طاہرانہ نظر ڈالیں تو جس حقیقت کا سامنا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ عورت کے وجود، اہمیت، شناخت اور حقوق سے انکار کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن پھر بھی عورت کا کردار دنیا کی تمام زبانوں کے ادب میں مختلف صورتوں میں موجود ہے۔
اردو ادب میں خواتین کا حصہ بہت جاندار اور اہم ہے۔ اردو ناول اور اس کی تنقید نے جو منازل طے کی ہیں ان میں قلم کار خواتین بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ہماری ان قلم کاروں کی تخلیقات میں ہجرت، فسادات، بچھڑنے والوں کی یاد، اضطراب، حوصلہ مندی، مسکراہٹ، خود شناسی اور عصری حسّیت موجود ہے۔ ان تخلیق کار خواتین نے ہمارے معاشرتی رویوں اور بنیاد پرست مزاج کے اندر رہتے ہوئے نسائی شعور، جذبات و احساسات کے اظہار کے ساتھ ساتھ تعلیم کے فروغ، معاشی تغیر، روایتی طرز فکر، رسوم و رواج میں بدلائو کے لیے جدوجہد اور تقلید کے بجائے نئے راستوں کی تلاش، نفسیاتی و ذہنی پیچیدگیوں، خاموشی اور حسّیت کو اظہار کا منفرد اسلوب عطا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کی تاریخ ان اہل قلم خواتین کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ خواتین نے ادب کی ہر صنف پر قلم اٹھایا اور اسے خوب نبھایا۔ ان نسائی تحریروں نے ہی ادب کے بے رنگ خاکے کو بہار کے رنگوں سے مزین کیا ہے۔
اردو کے ابتدائی ناولوں میں جہاں ایک عرصے تک نذیر احمد کے ناول مراۃ العروس کی اصغری کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا وہیں ہادی رسوا کی امرائو جان جیسے کردار معاشرے کا دوسرا رخ کامیابی کے ساتھ پیش کرتے رہے۔ رتن ناتھ سرشار کے ناولوں میں گیتی آرا اور حسن آرا کے کردار بھی اتنے ہی جاندار ہیں جتنا کہ آزاد اور خوجی کے کردار۔
اردو ناول نے بیسویں صدی میں ترقی کی منازل تیزی کے ساتھ طے کیں۔ روایتی ناول سے لے کر جدید ناول نگاری تک‘ اور اس کی تنقید نے کہانی کو کئی حوالوں سے متاثر کیا اور خواتین ادیب اور خواتین ناقدین ان ناولوں اور ان کے نسوانی کرداروں کو نسائی سیاق و سباق میں پرکھنے کی کوشش میں کئی فکری زاویے منظر عام پر لائیں۔ ان خواتین نے اپنے مسائل کو اپنے انداز میں پیش کرنے اور پرکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وہ اس بات سے مطمئن نہ ہوئیں کہ مرد ناول نگاروں نے انہیں کس انداز میں اپنے موضوعات میں برتا اور کہانی کے کردار کے طور پر پیش کیا۔ مستنصر حسین تارڑ، عبدالصمد، شمس الرحمان فاروقی، انتظار حسین، شموئل احمد، مشرف عالم ذوقی، اصغر ندیم سید جیسے ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں عورت کو ایک مضبوط سماجی حوالے کے طور پر پیش کیا ہے۔ احسن فاروقی کے ناول ”سنگم‘‘ میں اوشا پاروتی ہند آریائی تہذیب کی علامت کے طور پر ملتی ہے۔ عزیز احمد کے ناول ایسی بلندی ایسی پستی میں ”نور جہاں‘‘ کا کردار بہت متحرک ہے۔ یہ کردار مغربی ماحول کے زیر اثر رہنے کے باوجود مشرقی وضع کو قائم رکھتا ہے۔ انور سجاد نے ”جنم روپ‘‘ میں مردانہ سماج میں خواتین کی جذباتی و فکری گھٹن کو موضوع بنایا ہے۔ اس ناول کا مرکزی نسوانی کردار اپنی خواہشات اور آرزوئوں کے مطابق اپنی دنیا تخلیقی کرنا چاہتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ ”بہائو‘‘ میں مادر سری تہذیب کا ذکر کرتے ہیں جس میں عورت کے پاس انتخاب کا اختیار موجود تھا۔ ناول کا نسوانی کردار ”پاروشنی‘‘ تمام تر نسائی حسیت کے ساتھ کہانی کو امر کر دیتا ہے۔ شموئل احمد نے اپنے ناول ”ندی‘‘ میں ندی کا سہارا لے کر عورت کی تہ دار معنویت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کوPortray کیا ہے۔ اصغر ندیم سید کے ناولوں ”ٹوٹی ہوئی طناب ادھر‘‘ اور ”دشتِ امکاں‘‘ کے نسوانی کردار سماجی روایت سے مختلف ہیں۔ دوسری طرف وہ خواتین ناول نگار ہیں جنہوں نے عورت کے کردار کے گرد اپنی کہانی کو بُنا اور اس کو درپیش مسائل کو موضوع بنایا۔ عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، حجاب امتیاز علی، جمیلہ ہاشمی، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ، رضیہ فصیح احمد، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، فہمیدہ ریاض، طاہرہ اقبال وغیرہ نے اپنے ناولوں میں سماجی مسائل کو نسائی زاویہ نگاہ سے پیش کرنے کی سعی کی۔
عصمت چغتائی عورت کو ایک باغی کے روپ میں پیش کرتی رہیں جو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتی ہے اور شکست کو قبول نہیں کرتی۔ قرۃ العین حیدر اپنے ناولوں میں عورت کو اس مقدر کے آئینے میں دیکھتی ہیں جسے دنیا نے اس پر مسلط کر دیا ہے اور جس کی وجہ سے مسلسل عورت کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ نسائی تغیر (Feminine Subjectivity) کو جس انداز میں قرۃ العین حیدر پیش کرتی ہیں اس کی نظیر اردو ادب میں نہیں ملتی۔
جمیلہ ہاشمی کے نسوانی کردار حالات کے سامنے ڈٹ جانے کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح خدیجہ مستور کے ناول ‘آنگن‘ میں چھمی اور عالیہ کے کردار مرد کرداروں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔ بانو قدسیہ کا ‘راجہ گدھ‘ اپنے نسوانی کرداروں کی وجہ سے نسائی مزاج میں رچا بسا ہوا ہے۔ اس ناول میں مردوں کے لاابالی پن اور ہوس پرستی کی آڑ میں حرام حلال کے تصور اور عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو پیش کیا گیا ہے۔ نسائی حسّیت کے حوالے سے صغرا مہدی کا ناول ”جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو‘‘ بہت اہم ہے۔ رضیہ فصیح احمد کا ناول ”آبلہ پا‘‘ اور ”انتظار موسم گل‘‘ نسائی پیرائے میں سماجی زندگی کو اعلیٰ طبقوں کے حوالے سے زیر بحث لاتے ہیں۔
یہ تو چند ناول نگاروں کے نسوانی کرداروں کا جائزہ ہے۔ اب اگر ہم ناول کی تنقید کو نسائی حسیت کے حوالے سے دیکھیں تو بیسویں صدی کے آخری تین عشروں اور اکیسویں صدی کے ابتدائی دو دہائیوں میں ناول کی نسائی تنقید پر کتب کی ایک بڑی فہرست ملتی ہے جن میں ناول، ناول کے نسوانی کرداروں اور ناول نگاروں کی تخلیقات پر نسائی تنقید کی گئی ہے‘ جیسے پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار (1975)، کرشن چندر کے نالوں میں نسوانی کردار (1987)، قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں تاریخی شعور (1992)، اردو ناول میں عورت کا تصور (1992)، اردو ناول کے فروغ میں خواتین کا حصہ (1999)، اردو ناولوں میں عورت کی سماجی حیثیت (2002)، تانیثیت کے مباحث اور اردو ناول (2008)، اردو کی خواتین ناول نگار (2009)، اردو ناولوں میں نسائی حسیت (2009) وغیرہ۔
ناول کے حوالے سے خواتین ناقدین نے زیادہ تر اس بات کو پیش نظر رکھا ہے کہ مرد ناول نگاروں نے عورت کو کس انداز میں پیش کیا ہے۔ تاریخی، سماجی‘ سیاسی اور نفسانی عوامل تحریر و تخلیق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کسی بھی فن پارے کا تنقیدی مطالعہ انہی اثرات کا تجزیاتی جائزہ بھی ہوتا ہے۔ نسائی شعور کے ادراک کے بغیر ناول کا مطالعہ بہتر طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ یہی احساسات بحیثیت فرد ایک خاتون لکھنے والی کو مرد لکھنے والے سے جدا کرتے ہیں۔