ڈاکٹر تسلیم عارف
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہئ اردو، جی ایل اے کالج،میدنی نگر، جھارکھنڈ

اردو صحافت اپنے ابتدائی دور سے ہی اپنے انقلابی مزاج کے لیے جانی جاتی ہے اور صوبہئ بنگال خاص طَور پر کلکتہ اس کی ’جنم بھومی‘ اور ’کرم بھومی‘ دونوں رہے ہیں۔۲۲۸۱ء میں اردو صحافت کی ابتدا اِسی سرزمین سے ہوئی اور بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں مولانا ابوالکلام آزاد جیسے قدآور صحافی اور مجاہدِ آزادی نے ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ جیسے مشہورِ زمانہ اخبارات بھی اسی خطے سے جاری کیے۔ان اخبارات کواپنی بے باکی اور حکومت کی آنکھ سے آنکھ ملانے کے حوصلے کی وجہ سے اسے برٹش حکومت کے عتاب کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن اس نے ہندستانیوں کے دل میں جو چنگاری پیدا کی اس کی وجہ سے بعد میں بھی کئی اخبارات و رسائل اس کی اتّباع میں جاری کیے گئے جن کے تیور ’الہلال‘ و ’البلاغ‘ جیسے ہی تھے۔انھی میں سے ایک اخبار’جمہور‘ بھی تھا جواپنی باغیانہ خصوصیات اور کج کلاہی کی بنا پر بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے صفِ دوم کے اخبارات میں سب سے نمایاں قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ نکلنے والے اہم اخبارات میں ’ہم دم‘ (لکھنؤ) اور ’مدینہ اخبار‘(بجنور) بھی اہم ہیں جنھوں نے ’کامریڈ‘و ’ہم درد‘(مولانا محمد علی جوہر)،’الہلال‘ و ’البلاغ‘ (ابوالکلام آزاد)،’اردوے معلا‘(حسرت موہانی) اور’زمین دار‘(ظفر علی خاں) جیسے صفِ اول کے اخبارات کے معیار کے مطابق بیسویں صدی کے اخبارات کی دوسری صف آراستہ کی۔ ان اخبارات میں ’جمہور‘ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ بہت ہی کم مدّت میں اس نے ایک وسیع حلقے تک رسائی حاصل کی اورایک قلیل مدت میں ہی اپنے اندازِ تخاطب اور جرأتِ رندانہ سے انگریزی حکومت سے زبردست لوہا لیا اوربرٹش حکومت نے اس کے باغیانہ تیور سے تلملا کر محض نو ماہ کے قلیل عرصے میں اسے بند کرا دیا۔
اردو اخبارات کے سلسلے سے جتنی کتابیں لکھی گئیں یا جو تحقیقیں ہوئیں، ان میں اس اخبار کا ذکر کم کم یا پھرمعدوم نظر آتاہے۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں نکلنے والے اخبارات اوربرطانوی حکومت کے ظلم و تشدّد سے ٹکرانے والے اخبارات میں اسے ایک ’انڈر ریٹڈ‘(Underrated) اخبار مانا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی رہی کہ اس اخبار کی کوئی فائل ہندستان کی کسی لائبریری میں دستیاب نہیں اورشانتی رنجن بھٹا چاریہ جنھوں نے اس اخبار کے تعلق سے بنیادی کام کیا ہے لیکن انھیں بھی اس کے کسی شمارے کا بہ نفسِ نفیس دیدارتک نصیب نہیں ہوا۔کیوں کہ جب ۸۱۹۱ء میں سرکار کے حکم سے یہ اخبار ضبط کیا گیا تو اس کے سارے شمارے بھی ضایع کر دیے گئے۔اخبار کے مدیر قاضی عبدالغفار نے بعد میں حیدر آباد کے ایک خریدار سے یہ اخبار قیمتاً حاصل کیا۔ اس اخبار کے سلسلے سے سب سے جامع اور مستند کام کرنے والی پروفیسر عابدہ سمیع الدین صاحبہ نے کافی تلاش و جستجو کے بعد قاضی عبدالغفارصاحب کی اہلیہ اور بیٹی کی وساطت سے اس اخبار تک رسائی حاصل کی۔بعد میں انھوں نے اس اخبار پر دل جمعی سے کام کیا اور اخبار کے اداریوں کا انتخاب کی اور اپنے مقدّمے کے ساتھ ’اخبار جمہور: برطانوی آمریت و استبداد سے ٹکراو(تجزیہ و انتخاب) کے عنوان سے ۴۱۶/صفحات کی ضخیم کتاب شایع کی۔
اس اخبار کے مالک مسعود احمد ولد عبدالعزیز اور(جمہور اخبار: برطانوی آمریب اور ظلم و استبداد سے ٹکراو۔ صفحہ-۵) مدیر قاضی عبدالغفار تھے۔
قاضی عبدالغفار (پیدایش:۹۸۸۱ء -وفات:۷۱/ جنوری ۶۵۹۱ء)کی پیدایش مراداباد میں ہوئی۔ان کے دادا قاضی حامد علی جو کہ مراداباد کے قاضی تھے، انھیں ۷۵۸۱ء کے غدر میں انگریزوں نے ظلم کا شکار بنایا اور پھانسی پر لٹکا دیا۔ ان کے والد کا نام خان بہادر قاضی ابرار احمد تھا جو علم و ادب کا ذوق و شوق رکھتے تھے جس کے باعث وہ اپنے وطن مرادآباد میں درجہئ اول کے آنریری مجسٹریٹ بن گئے۔ قاضی عبدالغفار کی ابتدائی تعلیم مرادآباد میں ہوئی، میٹرک پاس کرنے کے بعد انھیں اعلا تعلیم کے لیے علی گڑھ بھیج دیا گیاجہاں سے انھوں نے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کی۔ ان کے والد انگریزی سرکار میں مقبول تھے۔ انھوں نے کوشش کرکے قاضی صاحب کو نائب تحصیل دار کی ملازمت دلوادی پھر وہ اپنی محنت سے تحصیل دار بنے اور دو سال تک یہاں کام کیا، لیکن شروع سے ہی ان کی دل چسپی صحافت سے تھی۔ انھوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز محض ۶۱/ برس کی عمر میں ’نیّر عالم‘ اخبارکے ذریعے سے کیا جو مراداباد سے ابنِ علی صاحب کی ادارت میں نکلتا تھا۔وطن پرست خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے قوم اور ملت کی محبت ان کی رگوں میں دوڑتی تھی۔ اس کے علاوہ زبان وبیان پر بھی انھیں اچھّی قدرت حاصل تھی۔ لہٰذا جب ان کی صلاحیتوں کا علم مولانا محمد علی جوہر جیسی شخصیت کو ہوا تو انھوں نے اپنے اخبار’ہم درد‘ میں ’نائب صدر‘ کے طور پر ان کا تقرّر کر لیا۔’ہم درد‘ اخبار بھی اپنی وطن پرستی، بے باکی اور تحریکِ آزادی میں اپنے اہم کردار کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس زمانے میں ’ہم درد‘ کی مقبولیت اور معیار کا عالم یہ تھا کہ بڑے سے بڑا ادیب بھی ’ہم درد‘میں شایع ہونے کو باعثِ فخر سمجھتا تھا۔ایسے میں اس اخبار میں کام کرنے اور مولانا محمد علی جوہر کی تربیت نے قاضی صاحب کی صلاحیتوں کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ مولانا محمد علی سے قاضی صاحب نے وہ تمام گُر سیکھے جو اس فن لیے ضروری تھیں اور اسے معیاری بنانے میں معاوین ثابت ہوتیں۔ مولانا محمد علی کی نظربندی کے ساتھ یہ اخبار بند ہوگیا۔یہ مولانا محمد علی کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ جب ’ہم درد‘ اور اس کے بعد ’الہلال‘ و’البلاغ‘ جیسے اخبار پر برٹش حکومت کا عتاب نازل ہوا تو ابوالکلام آزاد کی محبت وعقیدت اور محمد علی جوہر کی ایما پر قاضی صاحب نے’جمہور‘ اخبار جاری کیاجس میں ہمیں مندرجہ بالا اخباروں کی اعلا صحافتی قدروں کی جھلک ہمیں نظر آتی ہے۔
اس اخبار کے پہلے شمارے کی اشاعت کی تاریخ کا تعین کرتے ہوئے پروفیسر عابدہ سمیع الدین لکھتی ہیں:
”۷۱۹۱ء کو ایک ہزار روپے کی ضمانت داخل کرنے کے بعد ۱۲/ دسمبر کو ’جمہور‘ نکالنے کے لیے ڈکلیریشن ملا جس کا نمبر ۱۰۱/ہے۔ اجازت نامے کے بعد اس کا پہلا شمارہ دسمبر ۷۱۹۱ء کو منظرِ عام پر آیا۔“
(اخبارجمہور: برطانوی آمریت و استبداد سے ٹکراو۔ صفحہ-۵)
قاضی عبدالغفار کے بارے میں ہم جانتے ہی ہیں کہ وہ ’لیلا کے خطوط‘ اور ’مجنوں کی ڈائری‘ جیسے ناولوں کے خالق ہیں۔محمد علی جوہر کے وہ تربیت یافتہ تھے اورمولانا آزاد سے بھی ان کے قریبی تعلقات تھے۔وہ گاندھی جی کے عقیدت مندوں میں تھے اس لیے کانگریس کی فکر و عمل کے حامی اور مسلم لیگی فکر سے خود کو علاحدہ رکھتے تھے۔ قاضی صاحب گاندھی جی کو ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا علم بردار سمجھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ادارت میں ’جمہور‘اخبار تحریکِ آزادی کے سلسلے سے اپنی بساط بھر کوششیں کرتا نظرآتاہے۔ بشمبر ناتھ پانڈے تحریکِ آزادی کے سلسلے سے ’جمہور‘ کی کوششوں کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں:
”جمہور‘ نے اپنی مختصر سی اشاعت میں تحریکِ آزادی میں ہر ممکن معاونت کی، قومی یک جہتی کا پرچار کیا اور مسلمانوں کودعوت دی کہ وہ کانگریس کو مضبوط بنائیں۔قاضی جی کے مطابق ’جمہور‘ ہندو و مسلمانوں کے متعلق جزئیات کی بحث کم چھیڑتا ہے۔ وہ ہندستان میں ایک متحد قومیت کا نہ صرف موئید بلکہ متمنی ہے۔ ’جمہور‘ کا طرزِ عمل ان لوگوں سے بالکل مختلف ہے جو رائی کا پہاڑ بنا کر مسلمانوں کے اندر ہم سایہ قوم کے خلاف اشتعال پیدا کرکے اپنا بازار گرم کر لیتے ہیں۔’جمہور‘ نے ہمیشہ وطن پرستی، قومی اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر زور دیا ہے۔“
(جمہور اخبار: برطانوی آمریت و استبداد سے ٹکراو۔ صفحہ-۲)

’جمہور‘ کی اشاعت محض نوماہ ہی ہو سکی لیکن اسی قلیل مدت میں اس نے قارئین کے درمیان اپنی منفرد شناخت قایم کر لی۔ اس میں ہمیں اُس عہد کے تناظر میں مختلف موضوعات پرقاضی صاحب اظہارِ خیال فرماتے نظر آتے ہیں۔اہم قومی اور مذہبی شخصیات مثلاً گاندھی جی، حسرت موہانی،مولانا عبدالماجد دریابادی اور مولانا محمود الحسن گنگوہی وغیرہ کے تعلق سے اداریے ملتے ہیں۔اس کے علاوہ ملّی اور تعلیمی اداروں کے حالات و مسائل کا بھی قاضی صاحب باریک بینی سے اپنے اداریوں میں جائزہ لیتے ہیں۔ ’کلکتہ یونی ورسٹی کمیشن‘،’تعلیمی ہوم رول‘،’ندوۃالعلما‘،’علی گڑھ میں مسئلہئ اقتدار‘،’تعمیمِ تعلیم‘،’جامعہ اردو حیدرآباد‘ اور ’علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن‘ وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت لکھے گئے اداریے اسی قبیل کے ہیں۔مذہبی مسائل کے تعلق سے بھی یہاں اظہارِ خیال ملتا ہے۔زکوۃکے مسائل، تعدد ازدواج،رمضان کی تقدیس وغیرہ جیسے دیگر عنوانات اسی ذیل کے اداریوں کا حصہ بنتے ہیں۔
قاضی عبدالغفار کا مطالعہ کافی وسیع تھا اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات سے وہ اچھی واقفیت رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ’جمہور‘ اس اعتبارسے کسی تنگ نظری کا شکار نظر نہیں آتا۔یہ اخبار صرف ملکی اور ملی مسائل تک ہی محدود نظر نہیں آتا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی جو حالات پیدا ہو رہے تھے، ان کا نہ صرف اس میں تذکرہ ملتا ہے بلکہ ہندستان کی صورتِ حال سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے برطانوی سامراج کی دوغلی پالیسی بے نقاب کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔اس قبیل میں ’ہندستان کے مطالبے اور برطانوی مزدور‘، ’ہندستان کے انتہا پسند اور انگلستان کے انتہا پسند‘، ’بغاوتِ آئرلینڈ اور اہلِ ہند‘ وغیرہ جیسے اداریے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں جن میں قاضی صاحب عالمی تناظر میں دلائل و براہین کی روشنی میں برٹش حکومت کے ظلم و جبر اور ہندستان اور انگلستان کی پالیسی میں دوہرا رویّہ اپنانے پرکاری ضرب لگاتے ہیں۔
ہندستان میں انگریزی زبان میں شایع ہونے والے اس زمانے کے اخباروں پر بھی قاضی صاحب کی گہری نظر رکھتے تھے۔ان اخبارات میں جو موضوعات اور مضامین قابلِ گرفت ہوتے، ’جمہور‘ میں ضرور ان کی گرفت ہوتی۔ ۴۲/ اگست ۸۱۹۱ء کا اداریہ اس ضمن میں کافی اہم ہے جو ’حملہ در حملہ‘ کے عنوان سے رقم کیا گیا ہے۔دراصل اُس زمانے میں ’انڈین ڈیلی نیوز میں ایک مضمون شایع ہوا جس میں رسالت مآب ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخانہ باتیں لکھی گئی تھیں۔اس پر اس وقت کے اردو اخباروں میں کافی ہنگامہ ہوا۔لیکن الٹا ہندستانی اخباروں پر’اندین ڈیلی نیوز‘نے مختلف قسم الزامات عائد کیے۔ اخبار کی اس حرکت پر قاضی صاحب نے اس اداریے میں برہمی کا اظہار فرمایا۔اس مسئلے پر صفائی دیتے ہوئے ’انڈین ڈیلی نیوز‘ نے جب متکبرانہ رویّہ اپنایا توقاضی صاحب نے اسے فرعون اور نمرود تک کے رویے سے تشبیہہ دے ڈالی۔ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے بے شک یہ مسئلہ کافی سنگینی کا حامل تھا لیکن جس طرح قاضی صاحب نے علمی انداز میں اردو روزناموں پر عائد کردہ الزامات کا جواب دیا ہے، وہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔
قاضی صاحب کا اسلوبِ بیان بھی ’جمہور‘ کی شان میں مزید اضافہ کرتا نظر آتاہے۔ قاضی صاحب اپنے اداریوں میں اکثر اشعار سے ابتدا کرتے ہیں اور موضوع کی مناسبت سے موزوں ترین اشعار رقم کر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اداریوں میں قرآنِ کریم کی آیات کا بھی جگہ جگہ استعمال نظر آتا ہے۔ کچھ جگہ تو وہ ترجمہ پیش کرتے ہیں لیکن کچھ مقامات پر اس طرح آیات کا استعمال کرتے ہیں کہ وہ عبارت کا ہی حصہ معلوم ہوتا ہے اوربیان کی چاشنی کا تو پوچھنا ہی کیا۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
٭ ”جب سمندر میں طوفان آتا ہے اور ہلاکت خیز موجیں کشتی کو پاش پاش کردیتی ہیں تو اس وقت بدنصیب ڈوبنے والا ایک بوسیدہ تختہ کو بھی اپنی زندگی کا سہارا خیال کرتا ہے اور اس کے اعتماد کا یہ عالم ہو جاتا ہے کہ وہ اس تنکے کو بھی کشتیِ حیات خیال کرتا ہے جواسی کی طرح سمندر کی موجوں میں بہا جاتا ہے۔بعینہٖ یہی حالت اس بدنصیب قوم کے اعتماد کی ہو جاتی ہے جس کا جاہ و جلال سیلابِ تنزلی میں غرق ہو گیا ہو۔ جس کی کشتیِ حیات زمانہ کی موجوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی ہو اور جس کے جہاز کا لنگر ٹوٹ چکا ہو۔“
(حملہ پر حملہ۔۴۲ / اگست ۸۱۹۱ء)

٭ ”ایک شخص کے سامنے جو برسوں سے فاقے کر رہا ہو ایک پر تکلف دسترخوان بچھا دیا جائے تو یہ سچ ہے کہ وہ لطیف غذاؤں کا فوراً متحمل نہ ہو سکے گا اور شاید کچھ عرصہ تک اس کی جھجک باقی رہے گی لیکن وہ کسی حال میں ان نعمتوں کو نعمت سمجھنے سے قاصر نہ ہوگا۔ اس لیے اگر کم و بیش ایک صدی تک دست نگری کی حالت میں رہنے کے بعد اہلِ ہند اپنے ملک کی حکومت میں حصہ لیتے ہوئے کسی قدر جھجکیں تواس کے یہ ہرگزمعنی نہیں کہ وہ ان سیاسی حقوق کی نوعیت سے واقف نہیں جن کا مطالبہ کیا جارہا ہے یا وہ ان کی قدر نہ کر سکیں گے۔“
(ہم کیا مانگتے ہیں اور کیوں مانگتے ہیں۔۰۱/ جنوری ۸۱۹۱ء)

قا ضی صاحب کے اسلوب میں یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ وہ اپنی تحریر کی روانی میں قرآن کی آیات کو جملوں میں استعمال کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کے ترجمے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے۔ الا ماشاء اللہ چند مقامات کو چھوڑ کر جہاں انھیں کوئی دینی مسئلہ سمجھانا ہو، وہاں البتہ ترجمہ پیش کرتے ہیں لیکن ان کا عمومی انداز یہی ہے کہ قرآن کی آیات بغیر ترجمے کے جملوں کا حصہ بناتے ہیں۔
جمہور کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں قاضی عبدالغفّار اپنے ذوق کے مطابق اداریوں کا افتتاح تواشعار کے ذریعے کرتے ہی ہیں،جگہ جگہ قرآن کی آتات کا بھی استعمال اپنی بات کی تائید کے لیے یا اپنی بات کو موثّر بنانے کے لیے کرتے ہیں جن میں اردو اور فارسی کی قید نہیں۔ایسے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
سب کی ہے تمھی پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لیے
ایک یہ بزم ہے لے دے کے ہماری باقی
ہے اُنھی لوگوں کی ہمّت پہ بھروسا اپنا
اب تو اُٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بارِ انتظار
کس طرح کاٹے کوئی لیل و نہارِ انتظار
سودا قمارِ عشق میں خسرو سے کوہکن
بازی اگرچہ پانہ سکا سر تو کھو سکا
کس منھ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روٗ سیاہ تجھ سے تو کچھ بھی نہ ہو سکا
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے توٗ امتحاں ہمارا
چو غلامِ آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم
نہ شبنم، نہ شب پرستم کہ حدیثِ خواب گویم
ہست مجلس بران قرار کہ بود
ہست مطرب بران ترانہ ہنوز
یادگارِ ہزارِ رنگِ گل ست
خس و خاشاک آشیانہئ ما
یہ اور اس طرح کے کئی اشعارموضوع اور موقع محل مناسبت سے جمہور کے اداریوں کا کثرت سے حصّہ بنتے ہیں۔قاضی صاحب اپنے اداریوں میں مکمل فارسی شعرکم استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے بجاے فارسی کا ایک مصرعے کے استعمال کو وہ زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک ہی اداریے میں تین تین اور چار چار کی تعداد میں اشعار پیش کرتے ہیں۔ مصرعوں سے وہ اداریوں کا عنوان بھی بناتے ہیں اور ذیلی سرخیوں کے طورپر بھی مصرعوں سے استفادہ کرتے ہیں۔۵۲/ مئی ۸۱۹۱ء کو دیوبند کے بزرگوں کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے عنوان بنایا ہے: ”سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا؟“۔ اسی طرح ہوم رول لیگ کے وفدکو کولمبو میں ہی روک دینے پر شدید غصّے کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے جو اداریہ رقم کیا ہے اس کا عنوان یہ تجویز کیا ہے:”زمینِ کوئے جاناں رنج دے گی آسماں ہوکر“۔
قاضی صاحب اپنے اداریوں میں ایسی کاٹ دار زبان اور طنز کے نشتر برطانوی عدلیہ اور افسران پر برساتے ہیں کہ ان کے لرز کر رہ جانے بغیر کوئی چارہئ کار نہیں۔ ایسے اداریے ان کی بے باکی کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ میں بس ایک اداریہ ”کالے آدمیوں کی بے وقوفی!“(مورخہ ۳۱/ مارچ ۸۱۹۱ء) سے اقتباس پیش کرنا چاہوں گا جس میں انھوں نے انگریزوں کے ذریعے معصوم ہندستانیوں کے قتل پر تبصرہ کیا ہے جس میں عدالت نے انصاف سے منھ موڑتے ہوئے ان حادثات کے وقوع ہونے کو ’اتّفاقیہ‘قرار دے دیا۔ اسی کے پس منظرمیں قاضی صاحب کا ردِّ عمل ملاحظہ فرمائیں:
”کم بخت (ہندستانی)اس قدر احمق ہوتے ہیں کہ نہ موقع دیکھتے ہیں نہ محل۔نہ کسی سے صلاح کرتے ہیں نہ مشورہ اور دفعتاً مر جاتے ہیں۔ بھلا بتائیے تو کہ اگر سارجنٹ صاحب کا رائفل اتّفاقیہ طور پر چل بھی گیا تو ضلع دار صاحب کے ملازم کو فوراً مر جانے کی کیا ضرورت تھی۔ اس قسم کی جماعتیں انتظامِ سلطنت میں حارج ہوتی ہیں۔ عدالت نے فیصلہ کیا کہ رائفل اتّفاقیہ طور پر چل گیا اور ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ رائفل کے چل جانے کی بحث ہی فضول ہے۔ غلطی سراسر مرنے والے کی تھی کہ وہ کیوں بغیر اجازت مر گیا۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ سارجنٹ صاحب کا رائفل اگر اتفاقیہ طور پر چل گیا تھا تو کیا کارتوس بھی اتفاقیہ طو رپر اس کے اندر پہنچ گیا اور کیا اس کی نال بھی محض اتفاقیہ طور پر ضلع دار صاحب کے ملازم کی طرف ہو گئی تھی۔ رائے بہادر سلطان سنگھ کی آنکھ مع عینک کے کیوں اتفاقیہ طور پر صاحب کے گھونسلے کے سامنے آ گئی؟ مسٹر معظّم علی کیوں اتفاقیہ طور پر وارنر صاحب کے سامنے آ گئے؟ ضلع دار کا نوکر کیوں اتفاقیہ طور پر سارجنٹ کے رائفل کی زد میں آ گیا؟ کالے آدمیوں سے اتفاقیہ طور پر جو غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، ان کی وجہ سے صاحب لوگوں کو خواہ مخواہ دشواریاں پیش آتی ہیں۔“
برٹش حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے اور اپنے ہم وطنوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کا یہ حتمی نتیجہ تھا کہ ’جمہور‘ حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگا۔ماہرِ ابوالکلامیات ڈاکٹر جمشید قمر کے مطابق کلکتہ میں پہلی جنگِ عظیم کے اختتام سے قبل قاضی عبدالغفارنے جوماحول بنایااس سے کلکتہ میں ’بَلوا‘ واقع ہوا۔ انگریزی حکومت نے اس واقعے کانوٹِس لیتے ہوئے قاضی صاحب پر تادیبی کارروائی کی۔ ’جمہور‘ اخبار بند ہونے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی تسلیم کیا جاتاہے۔آخر کار ۴۱/ ستمبر کو ڈفنس آف انڈیا ایکٹ کے تحت اس اخبار میں ہر خبر کی اشاعت کے لیے سنسر کی منظوری کو لازم کردیا گیا اور قاضی صاحب کو کلکتہ سے خروج کا حکم دے کر اخبار کو بندکر دیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ہندستانی صحافت کی تاریخ میں ایک امٹ نشان بن گیا۔ یہ اخبار قاضی صاحب کے دل کے کتنا قریب تھا اس کا اندازہ ان کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے:
”یادش بہ خیر ’جمہور‘ نے جب اپنے چہرے پر فنا کی نقاب ڈالی تو ’صباح‘ کی برقعہ کشائی نے اس کی تلافی کر دی۔ اس لیے مجھے اطمینان ہے کہ اگر ’صباح‘ نے بھی اپنے برادرِ مرحوم کا ساتھ دیا تو پھر اسی ’جمہور‘ کی روح کسی اور روپ میں اپنی رونمائی سے باز نہیں رہے گی۔“(حیاتِ اجمل- صفحہ۶۲۲-۵۲۲)
اس کے علاوہ قاضی صاحب کا بیان ہے کہ یہ ان کا سب سے کامیاب اخبار تھا جس کی تعداداشاعت ۰۰۰۳۱/ پہنچ چکی تھی۔صرف نو ماہ تک جاری رہنے والے اخبار کا اتنی تعداد میں لوگوں تک پہنچنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس اخبار کی مقبولیت کس درجے تک پہنچ چکی تھی۔افسوس کا مقام ہے کہ بیسویں صدی کے صفِ دوم کا سب سے اہم اخبار ہونے کے باوجود اس کا تذکرہ قاضی صاحب کی صحافت کا ذکر کرنے والوں نے بہت سرسری طور پر کیا ہے۔اب تو اردو صحافت کی دو صدیاں بھی مکمل ہورہی ہے اور ’جمہور‘ کی ایک صدی مکمل ہو چکی ہے۔ ایسے میں اردو صحافت کی تاریخ سے فراموش کیے ہوئے اس اخبار کے تعلق سے کئی گوشوں کو اجاگر کیا جانا باقی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں اس کی جانب خاطر خواہ توجہ کی جائے گی اورمختلف جہات سے ’جمہور‘ اخبار نے ہندستانی صحافت کو کیا دِیا اور تحریکِ آزادی پر اس کا کیا اثر ہوا؟ اس حوالے سے مطالعے کو ہمارے ناقدین توجہ کا مرکز بنائیں گے اور ’ہم درد‘، ’الہلال‘،’البلاغ‘ یا اس دور کے دیگر اردو اخباروں سے موازنہ کرکے اس کی صحیح قدر و قیمت تعین کریں گے۔ شایدایسا کرکے ہم قوم کی آزادی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تعلّق سے ’جمہور‘ کی خدمات کا ہم حق ادا کرسکیں۔
٭٭٭