ئٰ
۷۵۸۱ کی ناکامی کے بعد ہمارا ملک پوری طرح برطانوی سامراج کے شکنجے میں آ گیا غیر ملکی نو آبادیاتی حکومت نے معاشی استحصال کے علاوہ بھی ہندوستانیوں کی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا تھا۔ مغربی تہذیب کے سیلاب میں ہندوستانیوں کی صدیوں سے پرورش یافتہ تہذیبی، سماجی اور اخلاقی قدریں بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں اور پوری ایک صدی قدیم و جدید کی کشمکش میں گذری جس کا انجام مغربی صنعتی تہذیب کے غلبہ و اقتدار کی شکل میں رونما ہوا۔ انگریزوں نے اپنے نو آبادیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے جن تصورات کو فروغ دیا ان میں قومیت کا شعور بھی تھا جو ہندوستان کے حق میں آزادی کی نعمت کا مقدمہ ثابت ہوا۔ ہندوستان میں قومی شعور کی بیداری کے ساتھ تحریک آزادی میں تیزی اور ہمہ گیری پیدا ہو گئی اور ہندوستانیوں نے انگریزوں کو اپنے ملک سے باہر نکالنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔
تحریک آزادی کے فروغ اور قومی شعور کی بیداری میں اردو زبان و ادب نے عموماً اور اردو صحافت نے خصوصاً اہم اور موثر کردار ادا کیا اور آزادی کی تحریکات میں ایک نئی روح پھونکی۔
افراد سے اقوام کی تشکیل ہوتی ہے فرد اور قوم دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ فرد کے بغیر قوم کا تصور ممکن نہیں۔ کسی قوم کے شعور کی بیداری میں اس عہد کے ماحول اور ادب دونوں کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ جب ہم ۷۵۸۱ کے پس منظر میں اس عہد کے پر آشوب حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اخبارات نے ہندوستانی عوام و خواص کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور ملکی شعور کو ایک خاص تحریک کی جانب راجع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
عتیق صدیقی ہندوستانی اخباروں کا جائزہ لیتے ہوئے نٹ راجن کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”انیسویں صدی کی چھٹی دہائی ہندوستان کی برطانوی تاریخ کا ایک اہم ترین زمانہ ہے۔ برطانوی ملک گیری کا جو سلسلہ ۷۵۷۱ میں پلاسی کے میدان میں شروع ہوا تھا پورے سو سال بعد یعنی ۷۵۸۱ میں اودھ کے خاتمے پر اس کی تکمیل ہو گئی۔ اس موقع پر ہندوستانیوں نے ایک عظیم بغاوت کی شکل میں پلاسی کے قومی سانحے کی صد سالہ برسی کی۔ اس بغاوت کو جسے انگریزو ں نے غدر کا مہمل نام دیا تھا بروئے کار لانے میں ہندوستانی اخباروں نے نمایاں حصہ لیا۔“ ۱؎
جنگ آزادی ۷۵۸۱ء کے بعد اردو صحافت کا ایک خاص دور شروع ہوتا ہے۔ خورشید عبدالسلام کے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے:
”ابتدا میں اردو اخباروں کا لب ولہجہ نرم اور مصلحت وقت کے تابع تھا اور زیادہ تر اخبارات کی توجہ سیاست کی جگہ مغربی علوم و فنون کی اشاعت پر مرتکز تھی، ملکی حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں سے نکل کر تاج برطانیہ کے زیر نگیں آ گئیں تو حکمراں طبقے کے طرز عمل میں کچھ بہتری کے آثار نظر آنے لگے اور اخبارات بھی ملکی مسائل پر دبی ہوئی زبان میں رائے زنی کرنے لگے۔“ ۲؎
انقلاب ۷۵۸۱ کی ناکامی کے بعد انگریزوں کے مسلسل سفاکارانہ رویے سے ہندوستانی عوام اور سپاہ متنفر ہو چکی تھی اور انہوں نے انگریزوں حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ ۱۳/مئی بغاوت کی تاریخ طے پائی تھی لیکن میرٹھ کے حریت پسندوں سے صبر نہ ہو سکا۔ اردو اخبار پہلے ہی اس تحریک کو پیش کرکے عوام میں بیداری کی لہر پیدا کر چکے تھے۔ اور ان کے دلوں میں آزادی کا جوش و ولولہ پیدا ہو چکا تھا۔
ملک گیر سطح پر وقوع پذیر ہونے والی اس تحریک کے دوران لارڈ کیننگ ہندوستان کا گورنر جنرل تھا۔ گینگ ہندوستانی اخباروں کا مزاج سمجھ چکا تھا اس نے اس سلسلے میں کہاتھا:
”دیسی اخباروں نے خبریں شائع کرنے کی آڑ میں ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں دلیرانہ بغاوت کے جذبات پیدا کر دیے ہیں۔ یہ کام بڑی مستعدی و چالاکی اور عیاری کے ساتھ انجام دیا گیا۔“ ۳؎
اس باب میں ۶۳۸۱ سے ۷۴۹۱ تک کے ان اخبارات اور رسائل کو شامل کیا گیا ہے اور جنہوں نے قومی شعور کو بیدار کرنے اور جنگ آزادی کے لیے زمین ہموار کرنے میں اہم اور مؤثر کردار ادا کیا۔ اس دور کے اخبارات میں مولانا محمد باقر کا ”دلی اردو اخبار ۶۳۹۱“، ”سحر سامری‘ ۶۵۸۱، منشی نول کشور کا اودھ اخبار ۹۵۸۱، کمند لال کا ”تاریخ بغاوت آگرہ ۹۵۸۱، عبدالرحمن کاشف کا اخبار ”صبح“ ۹۵۸۱ نصیر الدین آفندی کا ”شمس الاخبار“ مدراس ۹۵۸۱، اجودھیا پرساد کا ”خیر خواہ خلق“ اجمیر ۰۶۸۱ حیدر علی کا ”شعلہ طور“ کانپور ۰۶۸۱، محمد منظور کا ”منظور الاخبار“آگرہ ۰۶۸۱، میر فتح اللہ کا ”کوٹہ گزٹ“ ۰۶۸۱، امراؤ علی کا ہفتہ وار ”اخبار عالمتاب“ آگرہ ۱۶۸۱، منشی امان علی کا ہفتہ وار ”کشف الاخبار“ ۱۶۸۱، بمبئی ۱۶۸۱، منشی عبدالحکیم کا ”اخبار عالم“ میرٹھ ۱۶۸۱، منشی دھر کا ”آب حیات“ ۲۸۸۱، محمد اکبر کا ”عمدۃ الاخبار“ ۳۶۸۱، اسماعیل خاں کا ”لارنس گزٹ“ میرٹھ ۰۶۸۱، محمد قاسم کا ”قاسم الاخبار“ بنگلور ۵۶۸۱، جمیل الدین کا ”صادق الاخبار“، دبدبہئ سکندری ۶۶۸۱ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
متذکرہ بالا اخباروں کا طرز تحریر، زبان و بیان لب و لہجہ براہ راست اور بالواسطہ طور پر انگریزوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ تلخ بھی ہوتی تھا۔ اردو اخباروں نے قومی شعور کو بیدار کرنے، عوام کے دلوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرنے اور ان ارادوں کو مستحکم بنانے میں اہم اور مؤثر رول ادا کیا۔ ۷۵۸۱ کی قیامت صغری کے فرو ہونے کے بعد مدیروں پر مظالم کیے گئے۔ انہیں پھانسیاں دی گئیں۔ ان کے مطابع ضبط کر لیے گیے لیکن انہوں نے ہنستے ہوئے ان تمامظالم کو برداشت کیا اور ملک کے لیے جان کی بازی لگا دی۔
”دلّی اردو اخبار“ ۷۵۸۱ میں بند ہو گیا۔ اس اخبار کو مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولانا محدم باقر نکالتے تھے۔ یہ اس دور کا مقبول اخبار تھا۔ لیکن یہ انگریزوں کے عتاب سے نہ بچ سکا۔ امداد صابری ”روح صحافت“ میں لکھتے ہیں:
”دہلی میں جب تک جنگ آزادی جاری رہی ان وقت تک ”دہلی اردو اخبار“ نے نہ صرف اپنے صفحات آزادی کو کامیاب کرنے کے لیے وقف کر رکھے تھے بلکہ اس کے بانی مولانا محمد باقر نے قلم کی جنگ کے علاوہ تلوار سے بھی انگریزوں سے جنگ لڑی اور جس وقت جنگ ناکام ہوئی اور انگریز دہلی پر قابض ہو گئے تو اخبار بند ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا محمد باقر انگریزوں کی گولی کا نشانہ بنے اور جامِ شہادت نوش کیا۔“ ۴؎
”دہلی اردو اخبار کا نام آخری دنوں میں بہادر شاہ ظفر نے اپنے نام کی مناسبت سے ”اخبار الظفر“ تجویز کیا تھا۔ اس نام سے ”دلی اردو اخبار“ کے صرف دس شمارے دستیاب ہو سکے ہیں۔“ ۵؎
آخری شمارے میں یہ خبر قابل ذکر ہے:
”—چار دن سے خوب لڑائی، توپ و تفنگ کی ہو رہی ہے۔ کفار نے نئے مورچے بنا لیے ادھر سے بھی مورچے جدید بنے— مجملاً اتنا بس ہے کہ انشاء اللہ صبح و شام تائید ایزدوقہار، قدرت قادر ذوالجلال سے فتح اسلام و ہلاکت کفار نمایاں ہوتی ہے۔“ ۶؎
اس دور کے اخباروں میں ”اودھ اخبار“ بھی ایک اہم اخبار تھا۔ یہ اخبار منشی نول کشور کی ادارت میں لکھنؤ میں معرض وجود میں آیا۔یہ ہفتہ وار اخبار اپنے دورکی ادبی، تمدنی، معاشرتی اور سیاسی تاریخ کی مستند اور باوقار دستاویز کی حیثیت رکھتاہے۔ یہ اپنے عہد کے حاکموں پر نکتہ چینی کرتا تھا، لیکن اپنی متانت کو برقار رکھتے ہوئے۔ اودھ اخبار نے ہندوستانیوں کے دلوں میں قومی بیداری پیدا کی جس کا ثبوت اس کے مختلف شماروں میں مل جاتاہے۔
اودھ اخبار کے بارے میں گارساں دتاسی نے ۶۶۸۱ میں لکھا تھا:
”یہ اخبار پچھلے سات سال سے نہایت کامیابی کے ساتھ نکل رہا ہے۔ اس کی ہر اشاعت پچھلی اشاعتوں سے بہتر نظر آتی ہے۔ اس کی تقطیع اور صفحات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ اخبار ہفتہ وار ہے اور چہار شنبہ کو شائع ہوتا ہے۔ شروع شروع میں اس میں صرف چار صفحے شائع ہوا کرتے تھے اور وہ بھی چھوٹی تقطیع پر چھپے ہوئے اور پھر سولہ اور اب اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہوتا ہے، پہلے کے مقابلے میں اس کی تقطیع بڑی ہو گئی ہے، میرے خیال میں اس سے زیادہ ضخیم اخبار ہندوستان بھر میں کوئی نہیں۔“ ۷؎
اودھ اخبار حکومت کی بدسلوکی اور اس کی بے جا حکمت عملی پر تنقید کرتا تھا۔ اس میں جاں نثارانِ وطن کی قربانیوں کی داستانیں پیش کی جاتی تھیں۔ اس کے لکھنے والوں میں اردو کے معروف ادیب اور شاعر اور انشاپرداز مثلاً رتن ناتھ سرشار، سید احمد اشہری، مرزا حیرت دہلوی، مولانا جالب دہلوی، احمد حسن شوکت اور غلام محمد خاں وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔قومی شعور کی بیداری میں اودھ اخبار کی پر جوش اور ولولہ انگریز تحریروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
عوام کے دلوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرنے میں چربی والے کارتوسوں کا سانحہ بھی بڑا اہم ہے۔ ”صادق الاخبار“ کے ایک شمارے میں اس واقعہ سے متعلق خبر درج ذیل الفاظ میں دی گئی ہے۔
”ان دنوں تمام سپاہ سرکار نے نئے نئے کارتوسوں سے سرتابی کرنا شروع کر دی ہے۔ چنانچہ چندروز ہوئے کہ علاقہ بنگال میں کچھ پلٹنیں پھر گئی تھیں، ایک ان میں سے موقوف ہوئی اور اس کے افسروں کو بھی پھانسی کا حکم ہوا تھا— پلٹنیں گورکھا نمبر ۶۱ مقیم انبالہ نے بروقت قواعد عمل درآمد سے انکار کر دیا— از روئے ایک چھٹی سیالکوٹ کے ظاہر ہوا کہ یہاں کے سپاہی بھی نئے کارتوسوں کی قواعد سے ٹکراتے ہیں اور بجائے دانتوں کے ہاتھوں سے کارتوس توڑتے ہیں لوگوں کے دل کا شک بالکل رفع نہیں ہوا۔“ ۸؎
عتیق احمد صدیقی ”صادق الاخبار کے سلسلے میں رقمطراز ہیں:
”دلی کا سب سے زیادہ قابل ذکر اخبار ”صادق الاخبار“ تھا۔ جس نے بغاوت کے جذبات کی تخم ریزی میں سب سے زیادہ حصہ لیا تھا اور جس نے بغاوت کے دوران میں باغیوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی تھی۔“ ۹؎

”صادق الاخبار“ نے جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس اخبار نے اپنی وقیع تحریروں کے ذریعے ہندوستانیوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی۔ یہ اخبارعوام و خواص میں از حد مقبول تھا۔“
اس زمانے کے اردو اخباروں کے مختلف شماروں میں غدر کے حالات میری نظروں سے گذرے۔ یہ اخبارات نیشنل آرکایوز آف انڈیا، خدا بخش لائبریری پٹنہ، اور ذاکر حسین لائبریری جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں موجود ہیں۔ ان اخباروں کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ۷۵۸۱کے اوائل ہی سے بغاوت کے اثرات رونما ہونے لگے تھے اور اخباروں کا لب و لہجہ تندوتیز اور تلخ ہونے لگا تھا۔
”سلطان الاخبار“ اپنے ایک شمارے میں لکھتا ہے:۔
”ہمارا ملک اگر لیں گے جان دینے کا ارادہ کیا ہے۔ خلاف عہد و پیمان اگر ریاست لینے پر سرکار کو اصرار ہے تو یہاں بھی سر میدان ہر ایک جان دینے کو تیار ہے جس دم معرکہ کارزار کی گرم بازاری ہوگی دیکھ لینا کیسی ذلّت و خواری ہوگی۔“ ۰۱؎
لکھنؤ سے ایک اخبار ”سحر سامری“ ۷۱/نومبر ۶۵۸۱ کو جاری ہوا۔ یہ اخبار اپنے ۵۱/دسمبر ۷۵۸۱ کے شمارے میں اس دور کے حالات اور حکمرانوں کی بد انتظامیوں کا انکشاف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”ان دنوں غلہ کی گرانی ہے —بے معشی نے ہر قماش کے آدمی کا اطمینان کھو دیا…………. ہر غریب و مسکین روٹی کے ٹکڑے کو محتاج ہوا — حکام اس طرح عنان توجہ پھیرتا نہیں۔“ ۱۱؎
امداد صابری کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابق ”کشف الاخبار“ ممبئی سے منشی امان علی نکالتے تھے۔ اس میں خبروں کے علاوہ مقامی واقعات پر تبصرہ بھی ہوتا تھا اور حکومت کے مختلف محکموں کی بدعنوانیوں کے خلاف آواز بھی اٹھاتا تھا۔ ۲۱؎
”تاریخ بغاوت ہند“ بھی اسی دور کا اخبار تھا جو ۹۵۸۱ میں آگرہ سے جاری ہوا۔ اس میں سلسلہ وار ہندوستان کے مختلف علاقوں اور شہروں میں رونما ہونے والے جنگ آزادی کے واقعات شائع ہوتے تھے۔ ”شعلہ طور“ بھی ایک اہم اخبار تھا۔ اس میں عام طور پر معاشرتی اور سیاسی واقعات کے بارے میں خبریں شائع ہوتی تھیں اور انقلاب پسندوں کے حالات درج ہوتے تھے جن میں انقلابیوں کے ساتھ زیادتی، ناانصافی اور ظلم و استبداد کو واضح طور پر بیان کیا جاتا تھا۔ غدر کے بعد خصوصاً مسلمانوں کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ ۸۲/ جولائی ۴۷۸۱ کے شمارے میں ”شعلہ طور“ بہادر شاہ ظفر کے وزیر حکیم نواب ضیا الدولہ کی داستانِ غم بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”حکیم صاحب پر بغاوت کا شک تھا کہ غدر میں شریک تھے اور بعد غدر کے اٹھارہ عزیز و قریب مثل بیٹیوں، پوتوں کے سرکار نے گرفتار کرکے گولیو ں سے مار دیے جو بیشمار دولت تھی وہ لٹ گئی۔ اور انکا عمدہ محل سرکار میں ضبط ہو گیا۔ ان کی زندگی مصیبت میں گذر نے لگی اور در حقیقت ان کا حال قابل رحم تھا۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں اور بیوی وغیرہ کو دو دو روز فاقے سے گذر جاتے تھے جب سرکار نے اشتہار دیا کہ جو شخص چاہے دہلی میں آئے مگر پھر گرفتار ہوئے ان کے مقدمے کی تحقیقات ہوئی لیکن عوام ثبوت میں بری ہوئے اور کچھ جائیداد مثل مکان اور دوکان کے واپس ملیں۔ آٹھ مہینے تک اس جائیداد پر قابض رہے بعد اس کے جب ایک جدید ڈپٹی کمشنر آئے تو پھر مخبروں نے کہا، ہم نواب صاحب پر فرد جرم ثابت کر سکتے ہیں، چنانچہ کمشنر نے گورنمنٹ میں رپورٹ کی اور جائیداد پھر ضبط ہو گئی اور نواب صاحب پھر مفلس ہو گئے۔ سولہ سال تک متواتر انہوں نے سپریم کورٹ میں عرضیاں گذاریں مگر کچھ سماعت نہ ہوئی اور نواب صاحب کسی زمانے میں کروڑ پتی تھے فقیر سے بھی بدتر ہوگئے۔“ ۳۱؎
غدر کے فرو ہونے کے بعد انگریزوں کی انتقامی کارروائی کا سلسلہ شروع ہو گیا جو برسوں تک جاری رہا۔ اس پر آشوب دور یعنی ۶۶۸۱ میں رامپور سے ”دبدبہ سکندری“ منظر عام پر آیا۔ یہ اخبار نواب کلبِ علی خاں والیِ رامپور کی ایماء پر جاری کیا گیا تھا۔ اس اخبار میں اس دور کے ہنگاموں اور سیاسی معاملات کا ذکر ملتا ہے۔ امداد صابری دبدبہئ سکندری کے بارے میں لکھتے ہیں:
”اس (دبدبہئ سکندری) میں غیر ملکی خبریں زیادہ جگہ پاتی تھیں۔ انگریز حکومت کے خلاف افغانسان میں جو بغاوتیں ہوتی رہیں اس اخبار میں ان کی تفصیلات گاہے گاہے شائع ہوتی تھیں۔ یہ اخبار روس کی سیاسی حکمت عملیوں کا بھی مخالف تھا اور وقتاً فوقتاً اس کے عزائم پر نکتہ چینی کرتا تھا۔ ملکی مسائل پر بعض اوقات مناسب موقعوں پر حکومت کی غلط کاروائیوں پر ٹوکتا تھا۔ اس کی اشاعت میں انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ کا حال درج ہے۔“ ۴۱؎
اس دور کے اخبارات میں ایک اخبار ”آفتاب عالمتاب“ شائع ہوتا تھا۔ اس اخبار کو امراؤ علی نے آگرہ سے ۱۶۸۱میں ہفتہ وار جاری کیا تھا۔ اس میں سیاسی خبروں کے علاوہ بہادر شاہ ظفر کے حالات بھی درج ہوتے تھے۔
۱۷۸۱ میں ”اخبار عالم“ لاہور سے نکلنا شروع ہوا۔ یہ اخبار حکومت کی بد انتظامیوں پر نکتہ چینی کرتا تھا اور حاکموں کے جانبدارانہ رویے کی نقاب کشائی کرتاتھا۔ ”اتالیق ہند“ کا ذکر بھی ضمنی طور پر کرنا ضروری ہے۔ ”اتالیق ہند“ ۴۷۸۱ میں لاہور سے ہفتہ وار جاری ہوا تھا۔ یہ اخبار حکومت کو مشورے دیتا اور عوام میں ہند و مسلم اتحاد پیدا کرتا تھا۔
”تسنیم“ آگرہ یکم جنوری ۸۷۸۱ کو جاری ہوا تھا۔ اس اخبار کو منشی لال نکالتے تھے۔ تسنیم آگر میں اندرون ملک کے علاوہ غیر ممالک کی خبریں بھی شائع ہوتی تھیں۔ ہندوستانیوں کے سیاسی استحصال کے علاوہ انگریزوں نے ان کے سماجی و مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرنا شروع کر دیا۔ ان کے ذہنوں کو بدلنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے گئے۔ مسیحیت کی تبلیغ زور شور سے شروع کر دی گئی۔ انگریزوں کی اس حکومت نے ہندوستانیوں کے دلوں میں عام طور پر نفرت اور غم وغصہ پیدا کر دیا۔ ”تسنیم“ آگرہ ۶/جنوری ۸۸۸۱ کے شمارے میں ان کے افعال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”اب تو حد گزر گئی کہ ہر طرح کے افعال واسطے ورغلانے اور ناپاک کرنے کے پیدا کرتے جاتے ہیں۔ انجیل کی پڑھائی روز مرہ کی گئی پھر بھجن سنائے گئے، تب مستورات میں میم لوگ بھجن سنانے بحیلہئ دست کاری جانے لگیں۔ پھر بازاروں اور میلوں میں جا کر کرسچن بھجن گانے لگے پھر باجا لیکر لوگوں کو متوجہ کیا اور وہ بھی کچھ تعجبات میں سے نہیں معلوم ہوا یعنی سوائے قحط زدوں کے بہت کم خوشی سے کرسچین ہوئے پھر گیروا کپڑے پہنے — اور مدرسوں سے جب کام خاطر خواہ نہ نکلا تو اب ہسپتال ہو گئے ہیں مردانہ بھی زنانہ بھی۔“ ۵۱؎
انیسویں صدی کے اواخر میں یعنی ۵۹۸۱ میں امرتسر سے اخبار ”وکیل“ کا اجرا عمل میں آیا۔ اس کے مہتمم شیخ غلام محمد تھے۔ اس اخبار کی خدمات جن مدیروں نے یکے بعد دیگرے انجام دیں ان کے نام اس طرح ہیں۔ مرزا جالب دہلوی، مولوی انشا اللہ خاں انشا، مولوی عبداللہ منہاس، مولوی محمد شجاع اللہ، حکیم فیروز الدین فیروز۔
اخبار ”وکیل“ کی زبان سلیس ہوتی تھی۔ اس میں عصری حالات وواقعات پر تبصرے شائع ہوتے تھے۔ ملکی اور غیر ملکی دونوں طرح کی خبریں شامل اشاعت ہوتی تھیں۔
مولانا محمد علی جوہر اخبار ”وکیل“ کے بارے میں رقمطراز ہیں:
”وکیل‘ اردو صحافت کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔ اس کے خیالات ہمیشہ دانشمندان اور پروقار رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ذہنی رواداری کا مظہر تھی اور یہ وہ خوبی ہے جو اس دور کے بہترین انگریزی اخباروں میں شاذ ہی ملتی ہے۔“ ۶۱؎
”وکیل“ کو بیسویں صدی کے اوائل میں خاصی مقبولیت حاصل ہو گئی تھی۔حسرتؔ موہانی نے اپنے رسالے ”اردوئے معلّٰی“ کے ۱۱/مئی ۱۱۹۱کے شمارے میں اخبار وکیل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے۔
”زبان کی صحت اور لٹریچر کی خوبی کے لحاظ سے زمیندار کی طرح وکیل بھی ایک خاص امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے ایڈیٹوریل مضامین کی آزادی کا مقابلہ نسبتاً کوئی دوسرا اسلامی اخبار نہیں کر سکتا۔ مثلا ۹۱/اپریل کے پرچے میں مسلم یونیورسٹی اور عام رائے مطالبہ پر ایک قابل قدر مضمون لکھا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ قائم ہونے والی مسلم یونیورسٹی کو بہر صورت حکومت کی ماتحتی سے آزاد رہنا چاہیے اس کا چانسلر مسلمان ہو اور اس کی عنان حکومت مسلمانوں کے ہی ہاتھ میں رہے اور سب سے زیادہ اس کی تعلیمی زبان اردو رکھی جائے۔“ ۷۱؎
ان دنوں سرکار یہ غور کر رہی تھی کہ جو اخبارات باغیابہ مضامین لکھ رہے ہیں ان پر پابندی لگائی جائے اور افسران بالا کو یہ اختیارات دے دیے جائیں کہ وہ اس قسم کے اخباروں کو ڈاک خانے ہی میں روک لیں۔ ۱۲/جنوری ۰۹۸۱ کے شمارے میں ”وکیل“ حکومت اس پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”سرکار چاہتی ہے کہ ڈاک خانے کے ذریعے معاندانہ مضامین کی اشاعت نہ ہو اس وجہ سے ڈاک خانے کے افسروں کو اختیار دے گی کہ جس تحریر کو باغی سمجھیں بذریعہ ڈاک خانہ جانے سے روک دیں۔ سوال یہ ہے کہ فیصلہ کونسل کرے گی کہ کوئی تحریر باغیانہ ہے یا نہیں؟ ڈاک خانے میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے ملک کے حقوق پامال کرکے اس کے خواہاں نہ ہوتے ہوں کہ سرکار ان کے ساتھ رعایت کرے، کیا ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کی آزادی چھوڑ دی جائے گی۔ جدید قانون ڈاک خانے میں جو اسوقت کونسل وائسرائے میں پیش ہے، علاوہ متذکرہ بالا دفعہ کے یہ بھی ایک دفعہ جدید پڑھائی جائے گی کہ جس وقت ملک میں کوئی عام شورش دیکھی جائے۔ اس وقت افسران ڈاک خانے کو اختیار حاصل ہونگے کہ وہ جس تحریر یا مطبوعہ کو چاہیں گے روک دیں گے اس امر کے فیصلے کے لیے کہ آیا اس کا وقت آ گیا ہے یا نہیں کہ کاغذات کی اجازت رد کی جائے صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ سیکریٹری آف اسٹیٹ نے انڈیا آفس کی خواہش سے حکم دیا ہے کہ کوئی کاغذ کنیڈا سے ہندوستان کو ایسا نہ بھیجا جس سے بغاوت ہو جائے۔“ ۸۱؎
اس دور کے اخباروں میں ”کرزن گزٹ“ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کرزن گزٹ ۰۰۹۱ میں کلاں محل دہلی سے ہفتہ وار نکلنا شروع ہوا تھا۔ جو بیس صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے مالک و مدیر مرزا حیرت ایک حق پسند اور بیباک صحافی تھے۔ حکومت کے کاسہ لیسوں پر نکتہ چینی کرتے نیز حکومت کی نا انصافیوں اور بد اعمالیوں کی نقاب کشائی کرتے تھے۔ اس کے مدیر کو باغیانہ مضامین لکھنے کی پاداش میں بڑی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں لیکن ان کی روش میں کوئی فرق نہیں آیا۔
بیسویں صدی کے اوائل سے آزادی ہند تک
بیسویں صدی کے اوائل میں نئی قومی تحریکوں نے جنم لیا۔ بنگال کی تقسیم، مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کا قیام بھی اسی دور میں عمل میں آیا۔ دوسری دہائی میں انڈین نیشنل کانگریس میں کچھ گرمی کے آ ثار نظر آنے لگے۔ پہلی جنگ عظیم، ہوم رول لیگ، خلافت تحریک جیسی تحریکوں نے جنم لیا۔ ان تمام سیاسی سرگرمیوں کے اثرات اردد صحافت نے بھی براہِ راست طور پر قبول کیے۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں نکلنے والے اخباروں میں ”وطن“ اخبار کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اخبار ۴۰۹۱ میں لاہور سے جاری ہوا۔ اس کے مالک اور ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ تھے۔ ابتدا میں یہ اخبار مسلمانوں کے مسائل اور ان کے حقوق کے تحفظ سے بحث کرتا تھا البتہ ۷۰۹۱ سے اس کی پالیسی میں تبدیلی پیدا ہو گئی اور اس میں تحریک آزادی کے سلسلے میں مضامین شائع ہونے لگے جو حکومت کے خلاف تھے۔ ۰۳۹۱میں ”وطن“ اخبار بند ہو گیا۔
”ترقی“ ۲۰۹۱ میں لاہور سے شائع ہوا۔ اس میں انڈین نیشنل کانگریس کے سالانہ اجلاسوں کی کارروائیاں چھپتی تھیں۔ جنوری ۸۰۹۱ کے شمارے میں ایک اجلاس کی مختصر کاروائی شائع ہوئی، جو حسب ذیل ہے۔
”انڈین نیشنل کانگریس کا اجلاس بھی اسی سال (۸۰۹۱) میں ہوا مگر امن و امان گذشتہ سالوں کی مانند خوبی کے ساتھ نہیں، کیونکہ اختلافِ رائے کے باعث اعتدال پسند اور انتہا پسند فریق میں خوب جھگڑا فساد ہوا۔زیادتی انتہا پسندوں کی تھی۔ اس فریق کا پروگرام یہ ہے کہ حکمراں سے ر عایت طلب نہ کرو، قانونی حدود سے باہر ایجی ٹیشن کرو، انگریزی چیزوں کو یک قلم چھوڑ دو، نہ گونرمنٹ کی ملازمت کرو، نہ سرکاری کونسلوں اور ڈسٹرکٹ میونسپل بورڈ کی ممبریاں، انگریزی عدالت سے انصاف نہ کراؤ، مدرسوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل نہ کراؤ۔“ ۹۱؎
ماہنامہ ”زمانہ“ ۷۰۹۱ میں کانپور سے جاری ہوا۔ اس کے مدیر شیوبرت لال تھے۔ اس میں سیاست، معیشت، مذہبیات، اخلاقیات، طنزیات اور لسانیات سے متعلق تنقیدی مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس کا ایک کالم ”رفتارِ زمانہ“ کے عنوان سے شائع ہوتا تھا۔ اپنے دور کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ”زمانہ“ جنوری ۷۰۹۱ کے شمارے میں لکھتا ہے:
”بغاوت کے بعد انگریزوں کو ہندوستانیوں سے ہمیشہ خطرہ رہتا تھا۔ انگریزوں کو بڑے سے بڑا جرم کرنے پر بھی کوئی خاص سزا نہ دی جاتی تھی اس کے بر عکس اگر کوئی ہندوستانی چھوٹا سا بھی جرم کرتا تو اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی۔“ ۰۲؎
جنوری ۷۰۹۱ ہی کے شمارے میں انگریزوں کی نا انصافیوں کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے:
”آج کل سرکاری تشدد کا زمانہ ہے گورنمنٹ اور قوم برطانیہ کو بغاوت کا بھوت ستا رہا ہے، اور سرکار اس سے مقابلہ کرنے کے لیے نئے قانون وضع کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ ہندوستانیوں کے لیے آہنی شکنجے تیار کے جا رہے ہیں تاکہ ان کے ہاتھ پیر بندھنے کے علاوہ زبان بھی بند ہو جائے۔“ ۱۲؎
معین عقیل بیسویں صدی کے اوائل کی صحافت کا مزاج اس دور کے سیاسی تناظر میں اس طرح بیان کرتے ہیں:
”بیسویں صدی کی صحافت کا لازمی مزاج سیاست تھا۔ مختلف سیاسی تحریکوں، ہلچل، اور ہنگاموں میں اخبارات سیاسی ماحول کے تقاضوں سے دور نہیں رہ سکتے تھے۔ چنانچہ اخبار کا اپنا سیاسی نقطہ نظر ہوتا تھا۔ سیاست کی طرح صحافت بھی دو مختلف راہوں پر گامزن تھی۔ ایک متحدہ قومیت کے نظرئیے کے ساتھ، اور دوسری علیحدہ مسلم قومیت کے تصور کے ساتھ، بعض اخبار اس ذیل میں زیادہ مستعد اور ہنگامہ خیز رہے — اخبارات نے اپنے دور کے سیاسی ماحول کو مثالی حد تک متاثر کیا۔ ان کا یہ انداز تقسیم ہند تک مستقل اور روز افزوں رہا۔ ایسے اخبارات میں ”الہلال“ اور ”ہمدرد“ دورِ اوّل ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔“ ۲۲؎
”زمیندار“ جون ۹۰۹۱ میں لاہور سے مولانا سراج الدین نے جاری کیا تھا۔ ۹۰۹۱ ہی میں مولانا سراج الدین کی وفات ہو گئی لیکن ان کے فرزند مولانا ظفر علی خاں نے اسے جاری رکھا۔ زمیندار عوام میں بہت مقبول تھا۔ زمیندار کے اندازو اسلوب کے بارے میں خورشید عبدالسلام لکھتے ہیں:
”اس دور کے سیاسی اداریے بلند آہنگ اور خطیبانہ انداز اور بیباکی اور طوفانی سیاست کی غماز ہیں۔ اس نے عوام کے دلوں میں غیر ملکی حکومت کا خوف دور کیا اور صداقت پر رہ کر اپنی بات کہنے کا درس دیا — یہ اخبار۷۳۹۱ تک قوم پرست اور کانگریسی نطقہئ نظر کا حامل رہا۔ اس کا خیال تھا کہ کانگریس ملک کی متحدہ قومی جماعت ہے۔ اس کے زیر سایہ ملکی آزادی کے لیے جدوجہد ہو سکتی ہے، غرض کہ ہر اعتبار سے زمیندار کی حکمت عملی قوم پرستانہ اور کانگریسی تھی۔“ ۳۲؎
معین عقیل ”زمیندار“ کے بارے میں رقمطراز ہیں:
”زمیندار نے اپنے دور اجرا میں سیاسی بیداری پیدا کرنے میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ اولاً یہ سیاسی بیداری کسی واضح نصب العین کے لیے نہیں تھی لیکن اس سے آنے والی سیاسی تحریکوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ اس میں طنزیہ اور سیاسی شاعری نے عروج پایا۔ اس کے ذریعے ہی مزاحیہ شذ رات کی ابتدا ہوئی جس میں طنز و مزاح کے پیرایہ میں قومی اور ملکی مسائل کو نمایاں کیا جانے لگا۔ اس سے بڑے بڑے صحافی وابستہ رہے۔ ان میں عبداللہ العمادی، نصر اللہ خاں عزیز، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر، مرتضیٰ احمد خاں میکش، چراغ حسن حسرت، حاجی لق لق وغیرہ ممتاز ہیں۔“ ۴۲؎
”مخبر عالم“ ۸/جون ۳۰۹۱ کو مراد آباد سے جاری ہوا۔ اس کا تیسرا شمارہ عالم اور رحمت عالم کے نام سے شائع ہوا۔ اس اخبار نے انگریزوں کی مسیحی تبلیغ کی مخالفت کی۔ اخبار ۰۳/اگست ۳۰۹۱کے شمارے میں لکھتا ہے۔
”ریاست جے پور میں جہاں بہت دنوں سے عیسائی پادریوں کے قدم جمے ہوئے ہیں ان کے دو مشن اسکول جاری ہیں۔ ایک عالیشان گر جابنا ہوا ہے۔ عیسائی لیڈیاں گھر گھر تعلیم دیتی پھرتی ہیں۔ اور بڑی آزادی کے ساتھ عیسائی پادری وعظ کہتے ہیں……. ایک ریاست کے سب جج برہمن اورلیڈی ڈاکٹر برہمنی کو عام طور پر عیسائی بنایا گیا جس سے ہر طرف اس گروہ سے عام ناراضگی اور نفرت کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ ہندوؤں نے اپنے بچوں کو اسکولوں سے اٹھا لیا مشنری لیڈیوں کا آنا جانا بند کر دیا ہے۔ عیسائی اسکول ویران پڑے ہیں۔“ ۵۲؎
تحریک آزادی کے عظیم مجاہد، سیاست داں اور اعلیٰ پایے کے تخلیق کار، صحافی سید فضل الحسن حسرتؔ موہانی کی ادارت میں رسالہ ”اردو ئے معلّٰی“ جولائی ۳۰۹۱ سے نکلنا شروع ہوا۔ اڑتالیس سے چونسٹھ صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس میں اردو کے نامور شعرا کے علاوہ ادبی، تاریخی تنقیدی اور سیاسی مضامین بھی بڑی بیباکی سے لکھے جاتے تھے۔ حکومت پر اعتراضات کرنا اور مسلمانوں کو کانگریس میں شمولیت کی تلقین کرنا اس کا شعار تھا۔ یہ اخبار کمیونسٹ پارٹی اور کانگریس کا حامی تھا اور اس وقت وقوع پذیر ہونے والی تحریکوں میں حصہ لیتا تھا۔ ”اردوئے معلّٰی“ کے فروری ۶۰۹۱ کے شمارے میں ایک مضمون ’سدیشی تحریک‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ مضمون کا ایک اقتباس ذیل میں ملاحظہ ہو۔
”سدیشی تحریک ایسی مفید اور مبارک تحریک ہے جس کے خلاف کوئی ہوش مند اور ایماندار آدمی اپنی آواز بلند نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بعض دشمن بھی جو تمام ملکی تحریکوں کی مخالفت کرتے ہیں اس تحریک سے علانیہ طور پر اظہار ِ اختلاف کرتے ہوئے جھجکتے ہیں۔“ ۶۲؎

اس دور کے اخباروں میں ”ہندوستانی“ بھی قابل ذکر ہے۔ ہندوستانی ۶۲/ اگست ۴۰۹۱کو لاہور سے ہفتہ وار جاری ہوا۔ یہ اخبار انگریزوں کا سخت مخالف تھا۔ جس دور میں ہندوستانیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور خاص کر افریقہ اور امریکہ میں ان کی بڑی تضحیک کی جاتی تھی ”ہندوستانی“ ان حالات کو بیان کرتے ہوئے لکھتاہے:
”ہندوستانی تمام ممالک یورپ اور افریقہ سے کیوں نکالے جاتے ہیں اس لیے کہ وہ تھوڑی مزدوری پر کام کر دیتے ہیں، تھوڑے داموں پر گزر کر سکتے ہیں، جوتہ لات، گھونسہ اور گالیاں خوب کھا سکتے ہیں اور ہضم کر سکتے ہیں، غلاموں کی طرح فرمانبرداری کر سکتے ہیں۔ جب دباؤ دب جاتے ہیں جو سناؤ وہ سن لیتے ہیں اور چوں نہیں کرتے۔ ہندوستانی تمام محکموں سے رفتہ رفتہ کیوں نکالے جاتے ہیں اس لیے کہ وہ یورپین لوگوں سے ذہین، محنتی اور ارزاں ہوتے ہیں۔“ ۷۲؎
”آزاد“ جنوری ۷۰۹۱کو لاہور سے نکلنا شروع ہوا، اس کے مدیر بشن نرائن آزاد تھے۔ اس اخبار کا نصب العین ہندوستانیوں میں آزادی کی تبلیغ کرنا تھا۔ جس وقت انگریز ہندوستانیوں پر مظالم توڑ رہے تھے یہ اخبار بڑی آب و تاب کے ساتھ نکل رہا تھا۔ اور انگریزوں کے سفا کانہ مظالم کو دیکھ کر خاموش نہ رہ سکا۔ مارچ ۶۰۹۱ کے شمارے میں ان خیالات کا اظہار ملتاہے۔
”ایک عرصہ سے ہندوستانیوں پر ظلم ہو رہا ہے اور سینکڑوں ہندوستانی گوروں نے ٹھوکروں سے اڑا دیے ہیں لیکن یہ خبر بھی کبھی سچ نہیں سمجھی جائیگی کسی کی تلی بڑھ جاتی ہے کوئی نمونیہ کا مریض ہوتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ مظلوم گوروں کی ٹھوکر کا مرض بتایا جائے۔ آخر اس ظلم کی انتہا بھی ہے گورنمنٹ کو یہ بتلا دینا چاہئیے کہ کتنے ہندوستانی جب تک گوروں کی ٹھوکروں سے نہ مریں اس وقت تک کوئی خبر سچ نہیں ہوتی یا دوسرے الفاظ میں یہ کہہ دینا چاہئیے کہ گوروں کو اتنے ہندوستانیوں کا خون معاف ہے۔ اگر گورنمنٹ ایسا کرے تو شاید ہندوستانی اس ظلم کو گوارا کریں کیونکہ وہ ایک زمانے سے ایسے ظلم برداشت کرنے کے عادی ہوگئے ہیں مگر سچائی کا حامی کہلاتے ہیں اور ظلم کو پبلک میں لانے سے روکے جو ہندوستانیوں پر ہور ہے ہیں۔۔۔۔ قید اور پھانسی ایسی سزائیں نہیں جو محبت بڑھائیں۔ گورنمنٹ کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ جتنی سختیاں ہم پر کی جائیں گی اتنی ہی نفرت گوروں کے لیے ہمارے دل میں بڑھے گی، قومی شہیدوں کے خون کے ایک ایک قطرے سے ہزار ہزار جاں نثار پیدا ہوں گے — قید ہمارے لیے فردوس سے کم نہیں، کیونکہ ہم قوم کے لیے صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ قید کی تکلیفیں ہمارے لیے راحتیں ہیں۔ کاش وہ دن جلد آ جائے جب ایک ہندوستانی بھی چوری اور بدمعاشی کے لیے جیل میں نہ جائیں۔ اگر جائے تو ملکی اورقومی محبت اور خیر خواہی کے لیے۔“ ۸۲؎
”ہند“ ۴۰۹۱ میں لکھنؤ سے ہفتہ وار شائع ہوا، منشی دوارکا پرساد افق لکھنوی اس کے ایڈیٹر تھے۔ یہ اخبار سودیشی تحریک کا حامی تھا۔ حکومت پر نکتہ چینی کرتا اور سخت مخالفت کرتا تھا۔ اس اخبار پر پابندی لگا دی گئی اور یہ جلد بند ہو گیا۔
”انڈیا‘ گوجرانوالہ سے ۷۰۹۱ میں جاری ہوا۔ حق پرست اور بیباک اخبار تھا۔ اس کے مدیر دینا ناتھ پر باغی ہونے کا الزام لگا کر پریس ضبط کر لیا گیا نیز مقدمات چلائے گئے کیونکہ اس میں انقلابی مضامین شائع ہوتے تھے۔ اسی طرح ”آفتاب“ ۷۰۹۱ میں ہفتہ وار نکلنا شروع ہوا تھا۔ اس کے مالک اور ایڈیٹر سید حیدر رضا دہلوی تھے۔ اس میں حب الوطنی سے بھر پور مضامین شائع ہوتے تھے۔ یہ اخبار ڈیڑھ سال کے بعد بند ہو گیا۔ ”سوراجیہ“ ۷۰۹۱ میں الہ آباد سے شائع ہوا۔ یہ حریت پسند اخبار تھا بغاوت کی تلقین کرتا تھا۔ اس کے مدیر کو جیل بھیج دیا گیا اور اس طرح یہ بھی ۰۱۹۱ میں بند ہو گیا۔ ہفت وار ”انقلاب“ ۸۰۹۱میں معرض وجود میں آیا۔ یہ بھی سودیشی تحریک کی حمایت میں لکھتا تھا۔
بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بعض اہم اخبارات کا اجرا عمل میں آیا۔ اس زمانے کے صحافیوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ابوالکلام آزاد ایک ہمہ جہت اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک صاحب طرز ادیب، محقق اور سیاست داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب صحافی بھی تھے۔ اوائل عمر ہی سے مضمون نویسی میں شغف رکھتے تھے۔ اخبار بینی نے ان کے اس مذاق کو اور بھی جلا بخشی۔ اسی مذاق نے انہیں ایک کامیاب نثر نگار اور صحافی بنا دیا۔ اردو صحافت میں روز بروز ان کی دلچسپی بڑھتی گئی، نتیجے کے طور دپر مولانا نے ایک ادبی گلدستہ ”نیرنگ عالم“ کلکتہ سے جاری کیا۔ ”الصباح“ اور ”الندوہ“ کی ادارت کے ساتھ ”مخزن“ اور مختلف جرائد اور اخباروں میں مضامین لکھتے رہے۔ مولانا نے ”تحفہئ محمدیہ“ اور ”خدنگِ نظر“ کو بھی مرتب کیا۔ ۳۰۹۱ میں ”لسان الصدق“ جاری کیا۔ ”وکیل“ اور ”دارالسلطنت“ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔
صحافت میں مولانا ابوالکلام آزاد کا اہم ترین کارنامہ ”الہلال“ ہے۔ اس اخبار کا اجرا ۳۱/جولائی ۲۱۹۱ کو عمل میں آیا۔ یہ ہفتہ روزہ اخبار اردو ٹائپ میں شائع ہوتا تھا۔ اس میں مذہبی سیاسی، تاریخی، ادبی، سوانحی مضامین نیز جغرافیہ سے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے۔ ۶۱/نومبر ۲۱۹۱ کو حکومت نے الہلال پریس کی دو ہزار روپے کی پہلی ضمانت ضبط کر لی۔ اس طرح ۴۱، اور ۷۱ اکتوبر کا مشترکہ شمارہ بھی ضبط کر لیا تھا اور دس ہزار روپے کی نئی ضمانت کا مطالبہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے ۸۱/نومبر کی اشاعت کے بعد ”الہلال“ بند ہو گیا۔ ۰۱/جون ۷۲۹۱ کو الہلال دوبارہ جاری ہوا۔ اور ۹/دسمبر ۷۲۹۱کی اشاعت کے بعد الہلال بالکل بند ہو گیا۔
ہندوستان ہی میں نہیں جنوبی افریقہ میں بھی انگریزوں نے ہندوستانیوں پر ظلم توڑے اور ذلیل و خوار کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے۔ اور نئے قانون نافذ کیے اس کے بر خلاف جنوبی افریقہ کے ہندوستانیوں نے جنوبی افریقہ میں ستیہ گرہ شروع کر دیا۔ ہندوستانی بخوشی گرفتار ہوئے ادھر ہندوستان میں بھی ستیہ گرہ کی حمایت کی گئی۔ ہندوستانی اخباروں نے بھی اس تحریک کی حمایت کی۔
مولانا ابوالکلام آزاد ۶/ نومبر ۳۱۹۱ کے شمارے میں رقمطراز ہیں:
”میر ا مقصد جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے تازہ مصائب ہیں۔ ہندوستانیوں کا کوئی جرم بجز اس کے نہیں کہ وہ وہاں بس گئے ہیں، کاروبار کرتے ہیں اور چونکہ محنتی اور کفایت شعار ہیں اس لیے روپیہ پیدا کر لیتے ہیں۔ ان کی مرفہ الحالی وہاں کی گوری آبادی کو کھٹکتی ہے اور پسند نہیں کرتی کہ ان کی سرزمین میں باہر کا کوئی آدمی روپیہ کمائے اور بوجہ کم خرچ اور کفایت شعار ہونے کے ہندوستانی کم نفع پر مال فروخت کرتے ہیں بعض بازاروں میں گورے دکانداروں کو اس سے بھی نقصان ہوتا ہے یہ ان کی مزید برہمی کا سبب ہے۔ انہوں نے اپنی گورنمنٹ کوآمادہ کیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہندوستانیوں کو یہاں کے قیام سے روک دیا جائے۔“ ۹۲؎
امدادی صابری تاریخ صحافت اردو میں ”الہلال“ کے بارے میں لکھتے ہیں:
”مولانا کی ادارت میں الہلال نے ہندوستان کے عوام کو انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی ہی دعوت نہیں دی تھی بلکہ انہیں یہ بھی بتایا کہ انگریز سامراج کے خلاف ان کی جدوجہد تمام آزادپسند اقوام کی جدوجہد کا ایک جزو ہے۔ اس طرح الہلال نے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کے ذہنی افق کو وسعت بخشی اور ان کے عزائم اور ارادوں کو پختگی دی۔“ ۰۳؎
تحریکِ آزادی ہند کی تاریخ میں مولانا محمد علی جوہر کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ سچے مجاہد آزادی اور محب وطن تھے۔ تحریک آزادی کی تبلیغ کے لیے انہوں نے ایک اخبار ”ہمدرد“ کے نام سے جاری کیا۔ یہ اخبار ۳۲/فروری ۳۱۹۱ کو کوچہ چیلان دہلی سے ایک روزنامہ کی شکل میں جاری ہوا تھا۔ مولانامحمد علی جوہر کی فرمائش پر مولانا حالی نے ”ہمدرد“ کے اجرا کے موقع پر ایک رباعی کہی تھی جس سے اس اخبار کی غرض و غایت کا اندازہ ہوتا ہے۔
عزت کی تمنا نہ خطابوں کی طلب اک قوم کی خدمت کی ہے خواہش یا رب
ہمدرد کو اسم با مسمیٰ کیجیؤ، اس نام کی لاج ترے ہاتھ ہے اب
ہمدرد کی فائلیں ذاکر حسین لائبریری جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں موجود ہیں۔ ان فائلوں کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدا سے آخر تک مولانا محمد علی آزادیِ وطن کے لیے لکھتے رہے۔
۷۱/دسمبر ۳۱۹۱ کے شمارے میں لکھتے ہیں:

”آج کل مسلمانوں میں حریت اور آزادی کا بہت چرچا معلوم ہوتا ہے جو آوازیں پبلک میں سنائی دیتی ہیں وہ حریت کے زور میں بہہ رہی ہوتی ہیں اور جو مضامین پبلک میں قبولیت حاصل کرنے کے واسطے لکھے جاتے ہیں ان میں سوائے آزادی کے اگر کوئی دوسرا خیال نظر آتا ہے تو وہ لوگوں پر لعن طعن ہوتا ہے جن کو یہ حریت پسند اپنا مخالف خیال کرتے ہیں۔ حریت اور آزادی بیشک انسانی زندگی کے واسطے روح رواں کا حکم رکھتی ہیں اور جس قوم میں حریت اور آزادی کا مادہ باقی نہ رہے اس کے لیے موت زندگی سے بدرجہا بہتر ہے۔“ ۱۳؎
”الہلال“ کے بند ہو جانے کے بعد ۲۱/نومبر ۵۱۹۱ کو مولانا ابوالکلام آزاد نے ہفتہ وار ”البلاغ“ کلکتہ سے جاری کیا لیکن یہ بیک وقت دو شماروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ پندرہ روزہ نکلتا تھا۔ اپریل ۶۱۹۱ کو صوبہ بدر ہو جانے کی وجہ سے ۷۱/ اور ۱۳/مارچ ۶۱۹۱ کے بعد البلاغ بند ہو گیا۔ البلاغ کی زبان بڑی صاف ستھری اور جامع ہوتی تھی۔ یہ اخبار بھی اپنے عہد کی سیاسی تحریکوں اور حالات و کوائف کا ترجمان تھا۔
مولانا محمد علی ہمیشہ کانگریس کے سرگرم رکن رہے۔ انہوں نے ہندوستان کو تحریک آزادی میں شمولیت کی تلقین کی۔ ہمدرد کے ۴/اگست ۵۲۹۱ کے شمارے میں لکھتے ہیں:
”بعض روشن خیال سیاسین کو سوراج پارٹی میں شامل ہونے میں تامل ہے اور ان کی رائے ہے کہ کانگریس میں اتنی وسعت نہیں کہ وہ اس میں داخل ہو کر سرگرمی کا اظہار کرسکیں۔“ ۲۳؎
ایک اور جگہ کانگریس کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
”کانگریس کی کامیابی نہ تو ممبروں کی تعداد پر منحصر ہے اور نہ مختصر جماعتوں کے اتحاد پر اس کا انحصار ہے بلکہ اس کا ا نحصار طاقت پر ہے جو وہ ہم میں پیدا کردے۔ اس بات کا خیال دل میں لائیے کہ ہندوستان کی تمام جماعتیں اور بیس کروڑ کے بیس کروڑ انسان کانگریس میں باہم متحد ہو جائیں۔ ۳۳؎
اخبار”غدر“ یکم نومبر ۳۱۹۱کو کیلی فورنیا سے جاری ہوا۔ یہ اردو، ہندی، مراٹھی اور گورومکھی زبانوں میں نکلتا تھا۔ اس کے ایڈیٹر رام چند اور معاون ایڈیٹر برکت اللہ بھوپالی تھے۔ یہ ایک انقلابی ہفتہ وار اخبار تھا جو ہندی ایسوسی ایشن آف ینگ کاسٹ کا آرگن تھا۔ کچھ عرصہ بعد یہ ایسوسی ایشن سان فرانسسکو منتقل ہو گئی تو اخبار کا دفتر بھی منتقل ہو گیا۔ اس ایسوسی ایشن کا نام غدر پارٹی تھا۔ غدر پارٹی کے روح رواں اور اخبار غدر کے بانی لالہ ہردیال تھے۔ یہ اخبار انگریز حکومت کی شدت سے مخالفت کرتا تھا۔ عوام کو غدر پارٹی میں شامل ہونے اور تحریکوں میں حصہ لینے کی تلقین کرتا تھا۔ غدر پارٹی کے رضا کار اس کو عام سڑکوں اور بازاروں میں تقسیم کرتے نیز غیر ممالک میں رہنے والے ہندوستانیوں کو ہندوستان آنے کی تلقین کرتے۔ پہلی جنگ عظیم کے ختم ہونے کے بعد جب انگریز ہندوستانیوں پر ظلم توڑ رہے تھے ایسے دور میں اخبار ”غدر“ لکھتا ہے۔
”غیر ممالک میں رہنے والے ہندوستانیوں تم فوراً ہندوستان آجاؤ اور غدر مچا کر انگریزوں کو قتل کرو اور ان کو اس قدر خوف زدہ کر دو کہ وہ بھاگ جائیں اور اس طرح ان کو ملک سے نکال کر ہندوستان کو برطانوی لعنت سے نجات دلاؤ۔ یہ صحیح اور ٹھیک وقت ہے غدر مچانے کے لیے اپنے آپ کو منظم کرکے تیار ہو جاؤ۔ ایسے میں جبکہ یورپ میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ یہ تمام ٹیکس دینا بند کرو، سارے ہندوستان میں غدر مچا دو ہمیں ایسے بہادر اور سرفروش مجاہدین چاہئیں جو ہندوستان میں غدر مچا سکیں۔“ ۴۳؎
اس دور کا ایک اور اہم اخبار ”ہمدم“ تھا۔ یہ اخبار یکم اکتوبر ۶۱۹۱ کو لکھنؤ سے جاری ہوا۔ ایڈیٹر سید جالب دہلوی تھے۔ اس اخبار نے ایسے دور میں تحریک آزادی کی حمایت میں آواز بلند کی جب ہندوستان میں پہلی جنگ عظیم جاری تھی۔ انگریزو ں کی طرف سے سخت قانون نافذ کیے جا رہے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر اخباروں کی ضمانتیں ضبط کرلی جاتی تھیں۔ اس اخبار کی فائلوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خلافت تحریک سے متعلق زیادہ خبریں شائع ہوتی تھیں۔ اخبار ”ہمدم“ نے اپنی تحریروں کے ذریعے تحریک آزادی کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کی۔
پہلی جنگ عظیم سے قبل انگریزوں نے ہندوستانیوں سے جو وعدے کیے تھے جنگ ختم ہونے کے بعد پورا نہیں کیا۔ مزید یہ کہ ہندوستانیوں کے استحصال کے لیے ”رولٹ ایکٹ“ جیسے قوانین نافذ کیے۔ اس دور کے ایک اور اخبار ”رہنما“ نے ”رولٹ ایکٹ“ کی سخت مخالفت کی۔ یہ اخبار ۸۱۹۱ میں محلہ مفتی ٹولہ مرادآباد سے پندرہ روزہ نکلنا شروع ہوا۔ کچھ عرصہ بعد ہفتہ وار ہو گیا۔ اس کے مدیر محمد اشفاق حسین صدیقی مرادآبادی تھے۔ اس میں سیاسی نوعیت کے مضامین ہوتے تھے بالخصوص پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریزوں کے مظالم کا ذکر اس کے مختلف شماروں میں مل جاتا ہے۔
اخبار ”پرتاپ“ ۰۳/مارچ ۹۱۹۱ کو لاہور سے جاری ہوا۔ یہ روزنامہ چار صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ ”پرتاپ“ کے ایڈیٹر مہاشیہ کرشن چندتھے۔ جب ”پرتاپ“ معرض وجود میں آیا اس وقت پنجاب میں سیاسی بے چینی کا دور تھا۔ لہٰذا پرتاپ نے قومی نظریات کی حمایت کرنا شروع کر دی۔ ۸۱/اپریل ۹۱۹۱کو مہاشہ کرشن چندکو گرفتار کر لیا گیا۔ مہاشہ کی گرفتاری کے بعد پرتاپ بند ہو گیا۔ ۰۲۹۱ میں مہاشہ جی جیل سے واپس آئے تو ”پرتاپ“ بھی دوبارہ جاری ہو گیا۔
۹۱۹۱ء میں جب تحریک خلافت کا آغاز ہوا اسی سال لاہور سے اخبار ”سیاست“کا اجرا عمل میں آیا۔ یہ اخبار سیاسی تحریکوں کا حامی تھا۔ اس کے باغیانہ رویے کو دیکھتے ہوئے اخبار پر سینسرلگا دیا گیا۔ ایک غلط ترجمے کی سزا میں اس کے سب ایڈیٹر کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور اخبار کی ضمانت بھی ضبط کر لی گئی۔ ۱۲۹۱ میں اس کے بانی و ایڈیٹر مولانا حبیب اللہ نے تحریک خلافت میں حصہ لیا تو تحریک میں شمولیت کی پاداش میں انہیں بھی تین برس کی قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ اخبار“ سیاست“ کی تحریریں حق گوئی اور انصاف پسندی پر مبنی ہوتی تھیں۔ اسی لیے عوام اور خواص دونوں میں ”سیاست“ کو بہت مقبولیت ملی۔
۹۱۹۱ میں اخبار”کانگریس“ کا اجرا عمل میں آیا۔یہ اخبار کانگریس پارٹی کا ترجمان تھا۔ دہلی سے نکلتا تھا۔ اس کے مہتمم لالہ شنکر تھے۔ یہ اخبار قومی پالیسی پر عمل پیرا تھا۔ زیادہ دن نہ چل سکا اور جلد ہی بند ہو گیا۔
۲۱/اپریل ۳۲۹۱ کو مہاشہ خوشحال چند کی زیر ادارت اخبار ”ملاپ“ کا اجرا ہوا۔مہاشہ خوشحال چند نے ملک کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے عوام میں آزادی کا جذبہ پیدا کیا۔ ملاپ میں انگریزوں کے خلاف کارٹون وغیرہ بھی شائع ہوتے تھے۔
روزنامہ ”الجمعیۃ“ گلی قاسم جان دہلی سے ۵۲۹۱میں جاری ہوا۔ اس اخبار کے مدیر اعلیٰ ابوالاعلی مودودی تھے۔ اس کے علاوہ جن صحافیوں نے بحیثیت ایڈیٹر اس اخبار کی خدمات انجام دیں ان کے نام بالترتیب اس طرح ہیں۔ مولانا حامد الانصاری غازی، مولانا عثمان فارقلیط اور ہلال احمد زبیری وغیرہ۔الجمعیۃ میں مذہبی اور سیاسی دونوں طرح کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس اخبار نے ملک کی سیاسی تحریکوں میں بھی حصہ لیا۔ اس دور کا ایک اور اخبار ہفتہ وار ”پیغام“ پشاور سے ۰۳۹۱ میں جاری ہوا۔ اس کے مدیر سید میر عالم شاہ ایک بیباک اور نڈر صحافی تھے۔ انہوں نے انگریزوں کی سفاکانہ پالیسی کے خلاف قلم اٹھایا۔ اس اخبار کی پالیسی حکومت کے خلاف تھی۔ اس کی تحریریں بہت جذباتی ہوا کرتی تھیں اور ان میں انتہا پسندی پائی جاتی تھی۔ اس اخبار کی زندگی مختصر رہی۔ اس کے تین پرچے شائع ہوئے اور تینوں بحق سرکارضبط کر لیے گئے نیز ایڈیٹر کو تین سال قید بامشقت کی سزا ملی۔
اسی دور کے بعض اہم رسائل اور جرائد نے بھی آزادی کی تحریک میں حصہ لیا۔ اگر چہ بعض رسائل بنیادی طور پر مذہبی اور ادبی تھے لیکن ملک کی سیاسی فضا کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کے ترجمان بن گئے اس دور کا ایک رسالہ ”منادی“ تھا۔ اس کے مدیر خواجہ حسن نظامی تھے۔ یہ رسالہ ۰۲۹۱ میں کوچہ چیلان سے جاری ہوا۔ ”منادی“ تصوف کی اساس پر جاری کیا گیا تھا لیکن اس کے ایڈیٹر نے تحریک آزادی کے واقعات، حالات اور کوائف پر بھی لکھا۔ معین عقیل اس زمانے کے رسائل کے بارے میں رقمطراز ہیں:
”اس دور میں بعض اردو رسائل اور جرائد نے بھی سیاسی ماحول کے اثرات اخذ کرکے سیاسی رائے عامہ کی ترجمانی کی۔ ”ہمایوں“ میاں ”بشیر“نکالتے تھے۔ نیاز فتحپوری نے ”نگار“ کا اجرا کیا۔ حافظ محمود عالم نے ”عالم گیر“ نکالنا شروع کیا تھا۔ حکیم یوسف حسن ”نیرنگ“ نکالتے تھے۔ ”ادبی دنیا“ شیخ عبدالقادر کی سرپرستی میں نکلتا تھا۔ شاہد احمد دہلوی نے ”ساقی“ کا اجرا کیا۔ ”ادب لطیف“ لاہور سے جاری ہوا۔ قدیم رسائل میں معارف اور جامعہ باقاعدگی سے نکلتے تھے۔ ”ترجمان القرآن“ مذہبی مقصد رکھتا تھا۔ لیکن اس نے سیاسی مباحث کو بھی اہمیت دی۔ اسے مولانا مودودی حیدرآباد دکن سے نکالتے تھے۔ یہ تمام رسائل اپنے عہد کے نمائندہ صحیفے تھے۔ ان میں ادب، فن، مذہب، تہذیب کے علاوہ سیاست پر بھی مضامین شائع ہوتے تھے۔“ ۵۳؎
عتیق صدیقی ہندوستانی اخبار نویسی کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں:

”ہندوستانی اخبار نویسی کا اگر غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستانی اخبار نویسی کا مزاج ابتدا ہی سے باغیانہ تھا۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہندوستانیوں نے فارسی، بنگلہ، اردو، ہندی اور انگریزی اخبار جاری کرنا شروع کیے۔ سیدھے سادے معصوم سے اصلاحی اخبار ہوتے تھے۔ ان میں خبریں بھی شائع ہوتی تھیں مگر بظاہر غیر سیاسی قسم کی۔ ان کے انداز بیان اور مواد کا تجزیہ کیا جائے تو ان کی گہرائی میں غم وغصے کے طوفان نظر آئیں گے۔“ ۶۳؎
مندرجہ بالا سطور کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس عہد میں اخبارات ایک موثر ذرایع ابلاغ تھے۔ جنہوں نے براہ راست اور بالواسطہ عوام میں قومی شعور بیدار کیا۔ آزادی کی روح پھونکی اور عوام کو ملک گیر سطح پر بیدار کرکے اس تحریک کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اخبارات کے مدیر نڈر ہو کر بڑی بیباکی سے اپنے خیالات اورنظریات کو سپرد قلم کرتے رہے۔ اس جرم کی پاداش میں اخباروں کی ضمانت ضبط ہو گئی۔اور مدیروں کو قید بامشقت کی سزائیں دی گئیں۔ اخبارات پر سنسر لگا دیے گئے اور پریس ایکٹ کے تحت سخت سے سخت قانون نافذ کیے گئے۔ لیکن وہ اپنے ملک کی آزادی اور سلامتی کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ ان اخبار وسائل نے ہندوستانی عوام میں سیاسی بیداری پیدا کرکے حصولِ آزادی کی راہیں ہموار کر دیں۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں ایسے بے شمار جانبازوں نے بے باک صحافیوں اور قلم کاروں کے نام پردہ خفا میں ہیں جنھوں نے بے خوف اور نڈر ہو کر بے باکانہ انداز میں انگریزوں کے ظلم و استبداد اور جور و ستم کے خلاف اپنے قلم کی تلوار سے آزادی کی تحریکوں میں حصہ لیا اور اپنے اخبارات اور رسائل میں ہندوستان کے عوام کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی۔ اس نوع کے موضوع پر برسوں سے تحقیقی کام کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اسی ضرورت کے پیش نظر خاکسار نے ڈی لٹ کے لیے اس موضوع کا انتخاب کیا۔ جس کے ذریعہ بعض اہم چشم دید حقائق اور واقعات اجاگر ہو سکیں۔

٭٭٭

حوالے (References)
(1) Natrajan: History of Indian Journalism P.183
بحوالہ:”ہندوستانی اخبار نویسی“ از عتیق احمد صدیقی (۷۵۹۱) ص ۹۵۳
۲؎ خورشید عبدالسلام ”صحافت پاکستان و ہند میں“ ۳۶۹۱ ص ۴۸
۳؎ عتیق احمد صدیقی، ہندوستانی اخبار نویسی، ص ۹۵۳
۴؎ امداد صابری ”روح صحافت“ (۸۶۹۱) ص ۱۶۔۰۶۲
۵؎ عتیق احمد صدیقی ”ہندوستانی اخبار نویسی“ ص ۶۹۔۵۹۳
۶؎ ”اخبار الظفر“ ۳۱/جولائی ۷۵۸۱
۷؎ خطبات گارساں دتاسی ص ۴۱۵
۸؎ صادق الاخبار شمارہ ۲/اپریل ۷۵۸۱
۹؎ عتیق احمد صدیقی ”ہندوستانی اخبار نویسی“ ۷۵۹۱ ص ۴۶۔۳۶۳
۰۱؎ عتیق احمد صدیقی ”ہندوستانی اخبار نویسی“ ۷۵۹۱ ص ۴۶۔۳۶۳
۱۱؎ ”سحر سامری“ شمارہ ۵۱/ دسمبر ۶۵۸۱
۲۱؎ امداد صابری ”تاریخ صحافت اردو“ جلد اوّل ۳۰۲
۳۱؎ شعلہئ طور شمارہ ۸۲، جولائی ۴۷۸۱
۴۱؎ امداد صابری ”تاریخ صحافت اردو“ جلد دوم ص ۷۵۲
۵۱؎ تسنیم، آگرہ شمارہ ۶ جنوری ۸۸۸۱
۶۱؎ کامریڈ، شمارہ ۷۲ فروری ۰۳۹۱ص ۶
۷۱؎ اردوئے معلّٰی شمارہ ۱۱، مئی ۱۱۹۱ ص ۰۱
۸۱؎ اخبار وکیل، شمارہ ۱۲، جنوری ۸۹۸۱
۹۱؎ ترقی، شمارہ جنوری ۸۰۹۱
۰۲؎ زمانہ کانپور، شمارہ جنوری ۷۰۹۱ ص ۸
۱۲؎ زمانہ کانپور، شمارہ جنوری ۷۰۹۱ ص ۹
۲۲؎ معین عقیل، تحریک آزادی میں اردو کا حصہ، ص ۹۶۶
۳۲؎ خورشید عبدالسلام، صحافت پاکستان و ہند میں، ص ۹۳۴
۴۲؎ تحریک آزادی میں اردو کا حصہ ص ۱۷۶
۵۲؎ امداد صابری، تاریخ صحافت اردو، جلد چہارم ص ۸۳۳
۶۲؎ اردوئے معلّٰی، شمارہ فروری ۶۰۹۱ ص ۵
۷۲؎ بحوالہ امداد صابری، تاریخ صحافت اردو، جلد چہارم،ص ۲۸۴
۸۲؎ اخبار آزاد، شمارہ مارچ ۶۰۹۱
۹۲؎ الہلال، شمارہ نومبر ۳۱۹۱
۰۳؎ بحوالہ، تاریخ صحافت اردو جلد پنجم ص ۸۶
۱۳؎ ہمدرد، شمارہ ۴/ اگست ۵۳۹۱، جلد دوم ص ۵
۲۳؎ ہمدرد، ۴۲/دسمبر ۵۲۹۱ جلد دوم ص ۵
۳۳؎ بحوالہ تاریخ صحافت اردو جلد پنجم ص ۵۳۳
۴۳؎ تحریک آزادی میں اردو کا حصہ ص ۴۸۶
۵۳؎ عتیق احمد صدیقی، ہندوستانی اخبار نویسی، ۷۵۹۱، ص ۹۵

کتابیات (Bibliography)

کمپنی کی حکومت 1965طبع چہارم 1969
تاریخ سلطنت خداداد محمود بنگلوری اشاعت اول 1970
اسباب بغاوتِ ہند سر سید احمد خاں، اگست 1958
سن ستاون پنڈت سندر لال 1957
غدر کے تناظر (مترجمہ) ظفر تاباں اشاعت اول 1935
(1)’آجکل‘ آزادی نمبر، نئی دہلی اگست 1957
۷۵۸۱ کا تاریخ روزنامچہ خلیق احمد نظامی، اشاعت 1958
Russiles Dairy Vol. II
دہلی کی جانکی خوانہ حسن نظامی، اشاعت دوم، دہلی 1925
افسانہئ غم سید احمد علوی، اشاعت 1962
مختصر تاریخ اودھ اعجاز علی خاں، اشاعت اول 1978
انقلاب 1857کی تصویر کا دوسرا رخ (مترحم) شیخ حسام الدین1960
تواریخ کانگریس پٹالی سیتا رامیہ، مجازی پریس، لاہور
سیاسیات ہند (ترجمہ پولیٹیکل انڈیا، سرجان کنگ)، جناح برقی پریس 1965
مکمل تاریخ آزاد ہند فوج جناح برقی پریس، دہلی 1965
تحریک آزادی و یکجہتی خان عبدالودود خاں، اشاعت اول 1983
کاروانِ آزادی حسین علوی، نامی پریس، دہلی 1970
تاریخ آزادی ہند مترجمہ عدیل عباسی، جلد سوم 1985
جدوجہد آزادی بپن چند/ املیش ترپاٹھی، برون ڈے، مترجم غلام ربانی تاباں، اشاعت 1972
اپنی کہانی راجندر پرساد، مترجم گوپی ناتھ امن1964
(2)اخبار مدینہ جنوری 1939جلد 28
تحریک خلافت قاضی عدیل عباسی، اشاعت 1978
تحریک آزادی ابوالکلام آزاد 1943
انقلاب کی خونریز داستان شوکت علی فہمی، خواجہ پریس، دہلی 1970
سبھاش بابو کی تقریریں امداد صابری 1948
تحریک 1942 دھرم پال، گیلانی پریس، لاہور
پیسہ اخبار منشی محبوب عالم 1856لاہور
تحریک آزادی اور اردو نثرر پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی، دہلی 1996
شہیدانِ جنگ آزادی پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی، 2015، نئی دہلی
زمانہ کانپور 1907، کانپور
تحریک آزادی میں اردو کا حصہ معین عقیل 1980
اودھ پنچ جلد سوم شمارہ ۳ نومبر ۹۹۸۱
کشن پرشاد کول اودھ پنچ کے نورئن 1955جلد دوم
نوائے آزادی عبدالرزاق قریشی، 1978
ہمدرد محمد علی جوہر، بحوالہ افادات محمد علی 29جنوری1928
افادات محمد علی رئیس احمد جعفری
تواریخ عجیب موسوم بہ کالا پانی جعفر تھانیسری، اسلامی پریس، لاہور 1903
داستان غدر ظہیر احمد دہلوی
اعمال نامہ سر رضا علی 1930
میرا افسانہ چودھری افضل حق
اپنی کہانی راجندر پرشاد1960
تلاش حق، گاندھی جی ترجمہ سید عابد حسین 1986اشاعت اول
میری کہانی پنڈت نہرو جلد دوم، دوسرا ایڈیشن
نقش حیات مولانا حسین احمد مدنی، جلد اول دوم
صحافت پاکستان و ہند میں خورشید عبدالسلام 1963
روح صحافت امداد صابری 1968
خطبات گارساں دتاسی
(4)اخبار الظفر 13/جولائی 1857
(5)صادق الاخبار شمارہ ۲/اپریل 1857
تاریخ صحافت اردو جلد اول، دوم
(6)سحر سامری شمارہ 15ستمبر 1856
(7)شعلہ طور شمارہ 28جولائی 1874
(8)تسنیم آگرہ شمار 6جنوری 1888
(9)کامریڈ شمارہ 27فروری 1920
(10)اردوئے معلی شمارہ 11، مئی 1911
(11)اخبار وکیل شمارہ 21جنوری 1998
(12)ترقی شمارہ جنوری 1908
فن ادارت مسکین حجازی لاہور 1981
٭٭٭

English Books
————————-

1. My Experiment with Truth, Mahatma Ghandi
2. Discovery of India, Pt. Nehru
3. India Wins Freedom, Abul Kalam Azad
4. History of Indian Journalilsm Natrajan
5. Russiles Diary Vol 1
6. History of Indian National Congress
P. Sita Ramayya.
7. Encyclopedia of Britania 7th & 8th Volume
8. Comrade: English News Paper
Editor; Mohammad Ali Johar
9. Harijan English News Paper
Editor: Mahatma Gandhi