تانیثیت کی تحریکِ سے عورت کے اندر ایک نئی ذہنی بیداری پیدا ہوئی ہے۔ جس کے سبب عورت اپنے تمام تر سماجی اور معاشی گتھیوں کو سلجھانے کی طرف اب متوجہ ہوئی ہے۔ جس میں سماج میں آبرو ریزی کی عورت، اشتہار کی عورت، سماج اور معاشی حالت کے تحت کمزور عورت، برقعے ولی عورت کال گل عوررت اور اسی طرح کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جن میں عورت ہمیشہ ہمیشہ استحصال کا شکار رہی ہے۔ لیکن عورت نے اس دباؤ کو کہاں تک با شعور ہو کر ہٹانے کی کوشش کی ہے؟ اسے چولہے چکی اور دوسرے حالات میں ایسا جکڑ دیا گیا ہے کہ وہ اس سے ابھر نہیں پاتی ہے اور اگر کبھی کسی نے کوشش بھی کی تو اسے سماج، اصول اور ”لوگ کیا کہیں گے“ جیسے حالات پیدا کر کے دبا کر پھر اسی جہنم میں ڈھکیل دیا گیاہے۔ بقول سردار جعفری ؎
تیری قسمت ایک عورت کے سوا کچھ بھی نہیں
جب تلک تو خود نہ توڑے گی طلسم ِرنگ و بو
اس سماجی نظام میں پڑھی لکھی تعلیم یافتہ عورت بھی کبھی کبھی مذہبی رسم و رواج کے پابندیوں میں جکڑی نظر آتی ہے۔وہ ایک طرح کی مشین بنادی گئی ہے، جو گھر اور خاندان سے سیکس ورکر تک کی زندگی تک محض ایک استحصال کی شے ہو کر زندہ رہنے کی اجازت پاتی ہے۔ حالات کا تقاضہ کچھ اس طرح رہاہے کہ وہ ان سب کو اوڑھ لے تاکہ بچپن کی تھوپی گئی پابندیاں، آرش اور پتی و رتا سماج میں پتی کی پوچاہی کو وہ اپنا دھرم ایمان سمجھتی رہے۔ یہاں پر حالات اس کومجبور کرتے ہیں اور یہاں اپنے ایسے تمام طرح کے تانیثیت کی تحریک میں نظر آتے ہیں۔ یا پھر عورت کے اعمال و اطوار یا پھر پورا پدری نظام؟
ایسے کئی سوالات ہیں جو تانیثیت کی تحریک کی شاعری میں ان گنت روپ لے کر آتے ہیں جن میں زندگی اور زندگی کی سچائیاں اور اسکے پیچ و خم جڑے ہوئے ہیں۔ اور ان کی سچائیاں، اچھائیاں، برائیاں سب سے لڑتا جھگڑتا نسواتی طبقہ شامل ہے۔
نئی عورت نے اپنے کوکئی ٹکڑوں میں بانٹ لیا ہے۔ ایک تو یہ احساس کہ مدتوں تک مرد سوسائٹی نے عورت کو انسان نہیں سمجھا اور اس کی ہر طرح کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر جیسے اسے انسان ہونے کے احسان سے بھی دور کر دیا۔ محض اس طرح کہ مرد عورت کا ایک طرح سے ان داتا بن گیا ہے اور عورت جیسے اس کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔عذرا عباس نے اس بات کو بڑی مہارت کے ساتھ اپنی نظم ”ایک روٹی تک پہنچنے کے لئے“ میں اس طرح نظم کیا ہے ؎
”ایک روٹی تک پہنچنے کے لئے
ہم اپنے خواب بیچ دیتے ہیں
اپنے رنگ دھو ڈالتے ہیں
اپنی خوشبو اڑا دیتے ہیں
اپنی آنکھیں دُھندلی کر لیتے ہیں
اور اپنے جسموں کو صد ہاسال سے
چلتی ہوئی چکی میں پیش ڈالتے ہیں
بقول ورجنا ولف:
”اِس سے پہلے کہ ہم عورتیں لکھنا شروع کریں یہ ضروری ہے کہ اس فرشتہ صفت شخصی (یعنی عورت)کا وہ روپ جو مردوں سے اسے دیا ہے ختم کر دیں ۱؎
لیکن وقت کی تبدیلی کے ساتھ عورت میں بھی تبدیلی نظر آئی اور جب ادب میں یہ عورت میرا بائی، مہادیوی ورما، قراۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، پروین شاکربن کر اپنی تخلیق کو پیش کرتی ہے تو ااج کے بدلتے ہوئے ماحول میں عورت کی بڑی سے بڑی قربانی اس کے اچھے اور خراب کا علم اس کی اچھی اور نئی سوچ نے ہی سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔
یہ بھی اس لحاط سے نئی ہے کہ اجتماعی طریقے پر عورت نے ادب اور تخلیقات پر کبھی نہیں سوچا۔ بلکہ اس کی فکر اجتماعی مسائل کو انفرادی ڈھنگ سے پیش کرنے میں شاید یقین رکھتی ہے غرض کہ ۰۲/ویں صدی کی ابتدا سے تانیثیت کی ابتدا ہو چکی تھی۔ لیکن اُسمیں کوئی اظہاریت کی وہ صورت پیدا نہیں ہوتی تھی جو ااج کے عالمی ادب میں اور اردو ادب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اُس وقت تک عورتیں اپنی مصیبتوں کا بیان اور مجبوریوں کا ذکر کر کے سمجھتی تھی کہ ہم نے عورتوں کی مشکلات اور مسائل کا اظہار کر دیا ہے اور اب یہ مرد سوسائٹی اس کا تعارف کرے۔ لیکن جیسا ہوا کرتا ہے کہ کسی نے اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ صرف اظہار افسوس کے علاوہ۔ خواتین کی بہتری کے لیے کوئی تصور حیات پیش نہیں کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا گیا کہ عورتیں اگر اپنی گھریلو زندگی کو سنبھال اور سنوار لے تو یہ مشکلات ختم ہو سکتی ہے مگر عملی طور پر عورتوں کی سماجی بہتری کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اس کے باوجود بھی عورتوں نے اپنی کوشش جاری رکھیغرض کہ مجموعی طور پر عورتوں میں لکھنا پڑھنا خراب رسم ہی رہی لیکن جب وقت بدلا اور حالات بدلے تو ادب میں بھی یہ صورت تبدیل ہوئی۔ پھر جہاں ادب بھی ایک طرف نئی نئی صورتوں نے جنم لیا وہیں پر عورت نے بھی یہ سوچا کہ آخر وہ اپنی دنیا کہاں تلاش کرے۔ تب اُس کو دکھ-درد کا احساس ہونے لگا۔ اور اب اس کو اپنی فکر بھی ہونے لگی کہ اس کی اپنی پہچان ہوئی چاہئے تاکہ وہ مردوں کی بنائی ہوئی شخصیت کا کہیں عکس بن کر نہ رہ جائے مشرق میں یہ صورتیں زیادہ رائج تھیں۔ مشرق کے مقابلے میں مغرب میں عورت آزاد تھی۔ اور وہاں کی مردسوسائٹی نے عورت کو کافی سہولتیں دے رکھی تھیں۔ اس کے باوجود وہاں پر Feminist Movementکی ضرورت پیش آئی جو ایک تحریک میں ابھری جسے تانیثیت کا نام دیا جاتا ہے۔بقول پروفیسر سید محمد عقیل رضوی:
تانیثیت ایک نیا فکری تصور ہے جو بیسویں صدی کے نصف کے بعد میں مغربی فکر اور تنقیدی تصورات میں روز بروز اپنا دباؤ ڈالتا جا رہا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنی احتجاجی صورتیں بھی واضح کرتا جاتا ہے۔ احتجاج ان معنوں میں کہ مرد کی بنائی ہوئی اس سوسائٹی میں نہ صرف یہ کہ عورتوں کو زندگی میں مواقع کم فراہم کئے جاتے ہیں۔ بلکہ زندگی کی ارتقائی پیش قدمیوں میں عورت کو یاپیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے یا اُس کی کوششوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ادب میں بھی اسے کئی طرح سے نظر آنداز (Ignore) کیا جاتا ہے۔ اُس کی تخلیقات کو نہ صرف نہ کہ اہمیت کم دی جاتی ہے بلکہ اُن تخلیقات کی تفہیم یا تعبیر، یہ مرد سوسائٹی اپنے زاوے سے کری رہی ہے۔ جس میں عورتوں کی نفسیات، برتاؤBehaviourاور اُن کے اپنے سوچنے کے طریقوں کو کسی مطالعے میں شمال نہ کر کے سب کچھ مرد حاوی سوسائٹی اپنی طرح سے پیش کرتی رہی ہے۔ ۲؎
اردو ادب اور خصوصاً اردو شاعر ی میں عورت کا کیا تصور ہے عورت کو ادب میں کس نظر سے دیکھا گیا ہے عورت کی سماج میں کیا حیثیت ہے، اس کی شخصیت اور مرتبے کو کس انداز سے برتا گیا ہے، ہماری اردو شاعری اور اردو شاعروں نے عورت کے ساتھ کہاں تک انصاف کیا ہے اور عورت کے ساتھ ادب میں کیا سلوک ہوا ہے شاید اردو ادب کی عورت صرف گھر کی چہار دیواری میں قید ہو کر ازندگی کے شب و روز گزارتی تھی عورت کی زندگی اُس کے شب و روز نیز اس کے اطراف ادب میں شاید قابل اعتماد نہیں سمجھے جاتے تھے۔ اور صرف مرد سوسائٹی اپنے زاوئے سے عورت کے حقوق اُس کی آزادی، اُس کی زندگی کی کار گزاریوں اور متن اور اُس کے اصول خود طے کرتی تھی گویا عورت کی برابری کی بات تو دورہی اسے انسان بھی نہیں سمجھا گیا۔ مردوں نے اُس کے حسن و جمال، زلف و خسار سے ادبی کہکشاں تو تیار کرلی، لیکن اس کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ بھی اپنی تحریروں میں اپنے مسائل اپنی زندگی اور ان ادبی صورتوں اور حقائق حیات کو اپنے ڈھنگ سے پیش کر سکے اس لیے مرد سوسائٹی خود اپنے ہی زاویہ سے اس کے لئے ادبی موضوع اور متن تیار کرتی (نزیر احمد کے ناول) گویا یہ سب کچھ خود مرد سوسائٹی کے بنائے ہوئے اصول تھے۔
بقول پروفیسر سید محمد عقیل رضوی:
”تانیثیت کے مبلغ یہ مانتے ہیں کہ ادب اور زندگی میں جتنے بھی اصول بنائے گئے ہیں وہ تمام مرد وں نے ہی بنائے ہیں۔ اس لئے یہ سب اصول صرف مردوں کے حق میں ہیں۔ کبھی کبھی تو عورتوں کے لئے ادب کے موضوعات بھی مرد سوسائٹی نے تقسیم کر دیئے ہیں۔ کم از کم اردو ادب میں تویہ بات بہت واضح ہے۔“
آپ کو یاد ہوگا کہ ناول امراؤ جان ادا میں جب امراؤ جان اپنی غزل میں مذکر فعل لاتی ہے اور مطلع پڑھتی ہے:
کعبے میں جا کر بھول گیا راہ دیر کی
ایمان بچ گیا مرے مولیٰ نے خیر کی
تو خان صاحب کہتے ہیں:
خان صاحب اچھا مطلع کہا ہے۔ مگر یہ بھول گیا کیو؟ ”امراؤ جان! جو اب دیتی ہے“”امراؤ جان تو کیا خاں صاحب میں ریختی کہتی ہوں۔‘
وہی جنسی (Gende Bias)ہے جو غزل کی شاعری میں داخل ہو گیا تھا“ ۳؎
بقول شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے اپنے مضمون تانیثیت کی تفہیم کے حوالے سے اچھی باتیں بیان کی ہیں۔
”تانیثی تنقید عورت کو نہ صرف اس کا صحیح مقام دلانا چاہتی ہے بلکہ وہ گزشتہ اور موجود ادب میں عورت کے نقطہئ نظر کے اظہار کی کمی کی تلافی بھی کرنا چاہتی ہے یہاں تک کہ تانیثیت یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ عورت کے بنائے ہوئے متن کو مرد پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکتا …………تانیثی تنقید کے کئی مدارج یا مراتب ہیں۔ مثلاً اول اور سب سے زیادہ معدّبانہ مرتبہ تو یہ ہے کہ عورتوں کے بنائے ہوئے متون کا مطالعہ اس طرح کیا جائے کہ اُن کو وہ اہمیت مل سکے جس کے وہ مستحق ہیں۔ اور جو انہیں اب تک نہیں مل سکی تھی۔ …………تانیثی تنقید کا دوسرا درجہ یہ ہو سکتا ہے کہ مردوں کے بنائے ہوئے متون کا مطالعہ اس نقطہئ نظر سے کیا جائے کہ ان میں عورتوں کے بارے میں کیا تصورات اور اصول شعوری طور پر پیش کئے گئے ہیں۔ یعنی عورتوں کے بارے میں قوانین، پابندیاں، تصورات، مفروضات، تعصبات وغیرہ جو معاشرے میں رائج ہیں وہ مردوں کے بنائے ہوئے متون میں کسی حد تک رائج ہیں اور کسی نقطہئ نظر سے پیش کئے گئے ہیں، …………تیسرا پہلو ان مطالعات کایہ ہو سکتا ہے کہ عورتوں کے بارے میں جو اسٹریو ٹائپ (گلے بندھے) کردار معاشرہ میں یا مردوں کے متون (بلکہ اکثر عورتوں کے بھی متون) میں پائے جاتے ہیں ان کا تجزیہ کیا جائے مثلاً
(۱) عورت مامتا کی دیوی ہے۔ لیکن سوتیلی ماں بے حد ظالم ہے (سوتیلے باپ کے بارے میں ایسا کوئی اسٹرییوں ٹائپ نہیں)
(۲) عورت نرم و نازک ہوتی ہے لیکن شوہر کی خدمت اور گھر کے کام کاج کے لئے اس سے جفا کش اور مناسب کوئی ہستی نہیں۔ تانیثیت اگرچہ و نئی ادبی تھیوری کی براہ راست پیداوار نہیں ہے لیکن اس کا فروغ بھی کم و بیش اسی زمانے میں شروع ہوا تھا۔ چونکہ تانیثیت کے بنیادی اصول اور تصورات غیر معمولی انسانی دلچسپی کے حامل ہیں۔ اس لیے تانیثیت پر مبنی افکار و مطالعات آج تمام دنیا میں مقبول ہو رہے ہیں۔ ۴؎
لفظ تانیثیت انگریزی لفظ فیمینزم Feminismسے بنا ہے۔ لاطینی زبان میں Feminismکے معنی عورت کے ہیں ”عام طو سے اس کے معنی ہیں عورت، عورتوں کا وغیرہ اور ”ISM“ سے مراد ”نظریہ“ہے گویا فیمینزم کے معنی ہوے تانیثی نظریہ ہے گویا فیمینزم کے معنی ہوئے تانیثی نظرریہ، یا تانثینیت انگریزی لغات میں Feminismکے معنی ہیں ”عورتوں کی خصوصیات“لغات میں Womanismکا لفظ بھی آیا ہے جو انایاب ہے“ (بحوالہ شہناز نبی-فیمینزم تاریخ و تنقید)لیکن آج حالات بدلے ہیں اور تانیثیت کے معنی میں بھی تبدیلی آئی ہے اور اس کے معنی بتائے گئے ہیں کہ ”عورتوں کے حقوق اور اُن کے کارناموں سے متعلق جوش و خروش یا اُن کی حمایت“ اب اسی کی روشنی میں ہم تانیثیت یا Feminismکی تعریف اور تانیثیت کیا ہے دیکھتے ہیں:
New Webster’s Dictionaryمیں لکھا ہے۔
”فیمینزم سے مراد وہ اصول ہے جو عورتوں کے لئے ان سماجی و سیاسی حقوق کی حمایت کرتاہے جو مردوں کو حاصل ہیں طبّی اصلاح میں کسی مرد کے اندر زنانہ پن کی موجود گی فیمینزم ہے۔“۵؎
انسایکلو پیڈیا آف فیمینزم میں تاینیثیت کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے۔
“It is the advocacy of women’s rights based on abelief in the equality of sexes, and in its broadest use the word refers to every one who is aware of and seeking to and women’s sul…………orbation in any way and for any reason…………feminism originates inthe pereeption that there is somthing wornng with socitey’s treatment of women” ۶؎
پنگوئی ڈکشنری آف پالیٹکس میں لکھا ہے:
”یہ ایک ایسی تحریک ہے جو عورتوں کے لئے برابر سیاسی اور سماجی حقوق کی دعویدار ہے۔ اس تحریک کی تمام شاخیں اس بات پر مضر ہیں کہ مردوں کے ہاتھوں عورتوں کے استحصال کی ایک طویل روایت تاریخی طورپر موجو دہے“۷؎
Linda Gordonکا کہنا ہے- تانیثیت کا طلب ہے۔
”عورتوں کے اقتدار اور گھروں /اداروں /یا سماج میں اُن کے حاکمیت کے فروغ کے لئے متھ ہو کر جدو جہد کرنا…………عورتوں کا اپنی ضروریات کے مطابق ڈاھلنا فیمینزم ہے۔“۸؎
اردو کی جدید نقاد پروفیسر شہناز بی بھی تانیثیت کے بارے میں لکھتی ہیں۔
”عورتوں پر ظلم و ستم اور جبر و استبداد کی روایت بہت پرانی ہے تاہم اُس کی طرف لوگوں کی توبہ بہت تاخیر سے مبزول ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس تاریخی حقیقت کی طرف سماج کا دھیان اسی وقت پھر جاتا جب اُس کی شروعات ہوئی تھی۔ تاہم اسے عورتوں کی سادگی اور سادہ لوحی کہتے یا مردوں کی بے حسی اور سفائی۔ کہ عورتوں کے استحصال کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا۔ خود عورت نے بھی نہیں۔ اور دھیرے دھیرے یہ روایت اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہی۔“۹؎
غرض کہ جیسے جیسے سوسائٹی میں تبدیلی آئی تو ادب میں بھی تبدیلی آئی اور یہی عورت جو کبھی گھر کی چہار دیواری میں قید رہتی تھی۔ اور گھٹن بھری زندگی گزارتی تھی۔ اب اس کی سوچ اور اس کے مسائل میں بھی تبدیلی آئی۔ اور وہ خود اپنے لیے نئے راستے تالاش کرنے کی فکر کرنے لگی۔ پھر نتیجہ یہ ہوا کہ خود ادب کی دُنیا ہو یا سماج سبھی جگہ یہی عورت مرد کے مدِّ مقابل کاندھوں سے کاندھا ملا کر چلتی ہوئی دکھائی دی۔ اور اپنی تحریروں اور ہتھیلیوں سے ادب کی دُنیا میں ایک ہلچل پیدا کر دی۔ اور جب اسی عورت نے جنسی تجربات کو اپنے کلام میں پیش کیا جو ادب کی صورت بھی بدلی نت نئے راستے بھی اس عورت نے تلاش کئے اور اپنے کلام کے ذریعے یہ بتانے کی بھی کوشش کی کہ زندگی صرف دُکھ درد کا ہی نام ہیں۔ اس کے سوا بھی زندگی میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ بقول سردار جعفری:اپنی کتاب ”ترقی پسند ادب“ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
”اور اب یہ نئی عورت ہمارے ادب میں قدم رکھ رہی ہے ابتدا میں صرف عشق اور عورت کی آزادی کے تصور نے ترقی پسندادیبوں کے تخیل کو متحرک کیا تھا۔ لیکن اب وہ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ عشق کی صحت مندی اور عورت کی آزادی کی بنیادیں معاشی اور سماجی ہیں۔ اور اب جب تک عورت کو معاشی آزادی نہیں ملے گی۔ اور وہ وسیع سماجی آزادی میں اپنا حصہ حاصل نہیں کرے گی تب تک عشق اور حسن دو نوں بیمار رہیں گے۔ اس طرح اب عورت کے تصور میں گہرائی پیدا ہورہی ہے جو بہتر قسم کی حقیقت نگاری کی ضامن ہے۔ اسی لئے ابتدائی دور میں رومانیت زیادہ تھی لیکن آج حقیقت پسندی بڑھ رہی ہے۔“۰۱؎
غرض کہ یہ سوچ بھی اس لحاظ سے نئی ہے کہ اجتماعی طریقے پر عورت نے ادب اور تخلیقات پر کچھ نہیں سوچا بلکہ اس کی فکر اجتماعی مسلسل کو انفرادی ڈھنگ سے پیش کرنے میں شاید یقین رکھتی ہے۔بقول رفیعہ شبنم عابدی:
”اب وہ متاعِ کو چہ و بازار نہیں رہی بلکہ شمع محفل اور چراغِ خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ مشعل راہ بھی بن گئی۔“۱۱؎
غرض کہ آج کے بدلتے ماحول میں یا پھر سماجی نظام میں جو تبدیلی کو محسوس کرتی ہے آج کی نئی عورت عورتوں میں خود ایک جذبہ ایک نئی فکر پیدا ہو گئی اور ان سب سے بڑھ کر ان کے اندر ایک انا (Ego) پیدا ہو گئی ہے۔ جو کہ کسی بھی صورت میں سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اور اس سمجھوتے کے سبب وہ خودداری،بیداری اور نئی چنوتیوں کی طرف اقدام کرتی ہے۔بقول محمد حسن۔ اپنے ناول غم ِدل وحشت ِدل میں بھی اب نئی عورت کے لئے تقریبا یہی بات کہتے ہیں۔
”یہ نئے دور کی نئی عورت کا پہلا قصیدہ تھا۔ جس نے شاعری کی تاریخ کا ایک نیا ورق رقم کیا تھا۔ لیلیٰ اور سلمیٰ کے سامانِ تفریح ہونے کے تذکرے نہیں تھے۔ نسوانی حسن کا چرچا نہیں تھا۔ عورت کے ہاتھ کی حسین ہتکھڑیاں اور پاؤں کی بیڑیاں ٹوٹی ہوئی پڑی تھیں۔ اور شاعر کی آنکھیں ایشیا میں جون آف آرک کا تصور کر رہی تھی۔“۲۱؎
اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تانیثیت کی تحریک سے عورت کے اندر ایک نئی زہنی بیداری پیدا ہوئی ہے جس کے سبب عورت اپنے تمام تر سماجی اور معاشی گتھیوں کے سلجھانے کی طرف اب متوجہ ہوئی ہے سماج میں آبرو ریزی کی عورت اشہتار کی عورت، سماجی اور معاشی حالت کے تحت کمزور عورت برقے والی عورت کال گرل کی عورت اور اسی طرح کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جن میں عورت ہمیشہ سے استحصال کا شکار رہی ہے۔ لیکن عورت نے اس دباؤ کو کہاں تک باشعور ہو کر ہٹانے کی کوشش کی ہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ عورتوں نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی ہے اور احتجاج کے ذریعے انقلاب کی طرف گامزن ہیں۔ بقول شہناز بی۔
”انہوں نے (عورتوں) صرف سماجی سطح پر ہی تبدیلیاں نہیں لائیں بلکہ ادبی سطح پر بھی اپنی بھرپور تخلیقیت کا مظاہرہ کیا۔ اور جب بات عورتوں کے تخلیق ادب کی آتی ہے تو ہمیں ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک کے مختلف حصوں اور زبانوں کی طرف نظر ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے۔“۳؎۱
اب ہم اپنی بات سیمو دیبوار کے اقتباس پر ختم کر دینا چاہیں گے۔ ”آزاد عورت“ ان باتوں سے چھٹکارا پاکر ہی وجود میں آئے گی، جو آرہی ہے، یہ بتانا مشکل ہے کہ اُس کے تخیلات کی یہ دنیا مردوں کی دنیا سے کسی قدر مختلف ہوگی…………کتنا فرق، عورت کی اس دنیا میں مردوں کی دنیا سے ہوگا، مگر عورت کی دنیا کا یہ فرق عورتوں کی ترقی کے امکانات کو روشن کرے گا۔ ایسے امکانات جنہیں مردوں نے دبا (Supperssed) دیا تھا اور انسانیت کے لئے وہ گم ہو چکے تھے اب یہ بہترین اور بے حد مناسب موقع ہے کہ عورت اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی بھلاتی کی فکر کرے“۔۴۱؎
غرض کہ یہ احتجاج کی چنگاری اور تیز ہو جاتی ہے اور مردوں کی بنائی ہوئی دنیا سے الگ ہو کر ایک نئی دنیا ”اپنی دنیا آپ پیدا کر“ والی صورت کی شکل میں نمایاں ہوتی ہے اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ”تانیثیت ایک فلسفہئ فکر اور ایک تحریک اور جو ایک ائیدڈیا لوجی کے ساتھ چلتی ہے۔ تانیثیت کا اسی دائرے میں رہ کر ادب کا محاسبہ مناسب ہوگااور یہی صحیح تانیثیت بھی ہوگی۔
۱۔ بحوالہ اردو کی نسائی شاعری- ڈاکٹر اسلم الہ آبادی
۲۔ پروفیسر سید محمد عقیل رضوی۔ اصول تنقید اور ردِّ عمل۔ ص:۰۶
۳۔ پروفیسر سید محمد عقیل رضوی۔ تانیثیت ایک تنقیدی تھیوری ہے۔ ص:۱۶
۴۔ شمس الرحمٰن فاروقی۔ مضمون۔ تانیثیت کی تفہیم۔ بحوالہ جدید شاعرات اردو……نئی فکر اور نئے راستے۔
۵۔ بحوالہ شہناز بی۔ فیمینزم تاریخ و تنقید۔ ص:۹۱
۶۔ Tuttle, L. (1987) Encyclopedi of feminis, London Arrow Books, Pg. 107
۷۔ بحوالہ شہناز بھی۔ فیمینزم تاریخ و تنقید، ص: ۹۱
D. Robertson (1998), the Penguin Dictionary of Politics, 2nd edition, London, Penguin Books Pg. 186
۸۔ بحوالہ شہناز بی: فیمینزم: تاریخ و تنقید، ص: ۰۲
Gordon Linda
۹۔ پروفیسر شہناز بی۔ فیمینزم تاریخ و تنقید، ص:۱۳
۰۱۔ علی سردار جعفری۔ ترقی پسند ادب، ص: ۱۴۲
۱۱۔ پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی۔
۲۱۔ پروفیسر محمد حسن۔ ناول: غمِ دل وحشتِ دل، ص: ۳۳۱
۳۱۔ پروفیسر شہناز بی: فیمینزم تاریخ و تنقید، ص: ۶۸۱
۴۱۔ سمیموں دیبوارThe Second Sex.
٭٭٭