نصیر وارثی
عورتوں کی قرار واقعی عظمت و حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال نے خوب کہا ہے :
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
یہ محض شاعرانہ خیال آرائی نہیں ، بلکہ حقیقت کے عین مطابق ہے ۔ تصویرِ کائنات میں رنگ بھرنے اور زندگی کے سوزِ دروں میں ساز چھیڑنے والی ہستی یہی عورت ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ گھر کی چہار دیواری میں مقید رہ کر عورتوں نے بیش قیمت کارنامے انجام دیے ۔ ان کی دینی ، علمی ، روحانی ، ادبی ، شعری اور سماجی خدمات سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں ۔ حضرت بی بی سارہ و حضرت ہاجرہ کے علاوہ ام المومنین حضرت خدیجہ و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھن سے دنیا خوب واقف ہے ۔ دینی و شرعی مسائل کا چوتھائی حصہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بدولت ہم تک پہنچا ۔ اسلامی جنگوں میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے زخمی افواج کی مرہم پٹی کا کام انجام دیا ۔ سلطان شمس الدین التمش کی نام ور بیٹی رضیہ سلطانہ کی ہمت و جرات اور شجاعت و بہادری کے چرچے عام ہیں ۔ سیاست و حکومت کے علاوہ شاعری میں بھی با کمال تھیں ۔ ہندوستان کی پہلی فارسی گو شاعرہ میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ مغل شہزادیوں میں ایک سے ایک نامور اور با صلاحیت خواتین گذری ہیں ۔ گلبدن بیگم ، نور جہاں بیگم ، ممتاز محل اور زیب النساء ( اورنگ زیب عالمگیر کی صاحب زادی ) کی ذہانتوں اور لیاقتوں کو تاریخ فراموش نہیں کر سکتی ۔ غرض کہ شعر و ادب کے فروغ اور اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں مردوں کی طرح خواتین نے بھی بیش قیمت خدمات انجام دی ہیں ۔ لیکن برا ہو اس تعصب و تنگ نظری کا جس نے صنفِ نازک کے گراں قدر ادبی و شعری کارناموں کو اجاگر کرنے میں یا تو بخل سے کام لیا یا پھر انہیں سرے سے نظر انداز کر دیا ۔ سورج اور پھول کو روشنی بکھیرنے اور خوشبو پھیلانے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ علم و ادب ، فکر و فن ، شعر و سخن اور خاص طور سے اردو زبان کے فروغ میں حصہ لینے والی خواتین کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ شاہ فصیح الدین بلخی نے ” تذکرہ نسوانِ ہند ” میں تقریباً پانچ سو مایۂ ناز علمی و ادبی و روحانی خواتین کا تذکرہ جمع کیا ہے ، جس سے ان کے ہمہ جہت کارناموں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور اردو کے فروغ میں ان کی کار کردگیوں کا پتہ چلتا ہے ۔ اپنا خونِ جگر پِلا کر اردو کے گلشن کی آبیاری کرنے اور نظم و نثر کی مختلف اصناف کی ترویج میں ان پردہ نشیں بہنوں اور عزّت مآب خواتین نے ہر دور میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اردو ادب کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ مندرجہ ذیل خواتین نے شعر و ادب کی خدمت کے علاوہ اردو زبان کے فروغ و استحکام میں نمایاں کارنامے دیے ہیں :
تہنیت النساء بیگم ، لطف النساء امتیاز ، مہ لقا بائی چندا ، سیدہ جعفر ، رضیہ خاتون جمیلہ ، نثار فاطمہ کبریٰ ، رابعہ پنہاں ، انیسہ بیگم شروانی ، قرۃ العین حیدر ، عصمت چغتائی ، بشیر النساء ، حیا لکھنوی ، صفیہ شمیم ، رابعہ سلطانہ ، سعیدہ عروج ، رضیہ حلیمہ جنگ ، ادا جعفری ، ساجدہ زیدی ، زبیدہ تحسین ، وحیدہ نسیم ، نکہت بھاگل پوری ، زاہدہ زیدی ، رشیدہ عیاں ، سیدہ فرحتں ، جمیلہ بانو ، صغریٰ عالم ، بلقیس ظفیر الحسن ، مریم غزالہ ، فاطمہ وصیہ جائسی ، حسنیٰ سرور ، عرفانہ عزیز ، ناہید اختر ، شبنم عابدی ، شکیلہ اختر ، مسعودہ حیات ، صدیقہ شبنم ، مظفر النساء ، سیما عظمیٰ ، کشور ناہید ، نور جہاں ثروت ، ام ہانی ، پروین شاکر ، عشرت آفرین ، ملکہ نسیم ، نسیم سید ، حمیرہ رحمٰن ، عفّت زرّیں ، اسما سعیدی ، شہناز ، کہکشاں تبسم ، ڈاکٹر سلطانہ خوشنود جبیں ، ہاجرہ مسرور ، جیلانی بانو ، وغیرہم ۔
یہ چند نام نمونتاً ذکر کیے گئے ہیں ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترقی میں اپنی بہترین کار کردگی اور مثالی خدمات انجام دینے والی خواتین بیشمار ہیں ۔ اس مختصر سی تحریر میں ہر ایک کے نام اور کام سے قارئین کو آگاہ کرنا ممکن نہیں ۔ اردو نظم و نثر کی چند مشہور و معروف خواتین جنہوں نے اپنے بیش بہا کارناموں سے شعر و ادب کے ذخیرے میں اضافہ کیے ہیں ، ان کا تعارف و تذکرہ نہایت اختصار کے ساتھ نذرِ قارئین ہے :
نواب شاہ جہاں بیگم شیریں کی علمی و ادبی اور تصنیفی خدمات قابلِ قدر ہیں ۔ نظم و نثر دونوں صنفوں پر قدرت حاصل تھی ۔ اچھی شاعری کرتی تھیں ۔ ” شیریں ” اور ” تاجور ” تخلص تھا ۔ پروفیسر فصیح الدین بلخی کے بقول : ” ہندوستان میں ایسی ذی لیاقت اور با صلاحیت عورتیں کم پیدا ہوئی ہیں …………. تاریخ میں تاج الاقبال ، لغت میں خزینۃ اللغات اور اخلاق و تصوف میں تہذیب النسواں ان کی تصانیف سے یادگار ہیں ” ۔
( تذکرہ نسوانِ ہند ، ص : 68 )
محترمہ تہنیت النساء بیگم شعر و ادب کی دنیا میں دو وجہوں سے کافی شہرت رکھتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ وہ مشہور محقق اور ماہرِ لسانیات ڈاکٹر محی الدین قادری زور کی شریکِ حیات ہیں اور دوسری سب سے بڑی یہ کہ وہ اردو کی صاحبِ دیوان نعت گو شاعرہ ہیں ۔ 20 / مئی 1910 ء کو حیدر آباد کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ ان کی شعری و ادبی خدمات نا قابلِ فراموش ہیں ۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر تا دمِ حیات اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں کوشاں رہیں ۔ اس تعلق سے ڈاکٹر محی الدین زورؔ خود لکھتے ہیں کہ ” میں اپنی بیوی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے سارے گھریلو کاروبار سے مجھے آج تک بے نیاز رکھا ۔ نہ صرف یہی بلکہ میرے علمی و ادبی کاموں میں بھی انہوں نے دور دور تک ہاتھ بٹایا ۔
( یادگارِ زورؔ ، ص : 92 )
نعتیہ شاعری میں تہنیت النساء کا مقام و مرتبہ کافی بلند ہے ۔ ” ذکر و فکر ” ، ” تسلیم و رضا ” اور ” صبر و شکر ” ان کے مشہور نعتیہ مجموعہ ہائے کلام ہیں ۔ اول الذکر مجموعہ میں 75 / نعتیں شامل ہیں ، جب کہ ثانی الذکر مجموعہ میں 40 / نعتیں ، 9 / منقبتیں اور آخر الذکر مجموعہ میں 91 / نعتیں شامل ہیں ۔
محققینِ اردو ادب عرصۂ دراز سے مہ لقا بائی چندا کو اردو کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ مانتے آ رہے تھے ، لیکن نصیر الدین ہاشمی کے ذریعے لطف النساء امتیاز کے دیوان کی دریافت کے بعد مہ لقا بائی کے بجائے لطف النساء امتیاز کو اردو کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ لطف النساء ایک قادر الکلام اور پُر گو شاعرہ تھیں ۔ مختلف اصنافِ سخن پر مہارت حاصل تھی ۔ خاتون شاعرات میں غزل گوئی اور مثنوی نگاری کے حوالے سے منفرد و ممتاز تھیں ۔ لطف النساء امتیاز کے بارے میں نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں :
لطف النساء بیگم نام اور امتیاز تخلص تھا ۔ وطن حیدر آباد ہے ۔ ماں کا بچپن میں انتقال ہو گیا ، اس لیے شاہی خاندان میں پرورش ہوئی ………… اس کا دیوان 1212 ھ میں مرتب ہوا ۔ اس کے دیوان کا ایک قلمی نسخہ کتب خانہ سالار جنگ میں موجود ہے ، جس میں جملہ اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی گئی ہے ۔ دیوان کے علاوہ اس کی ایک ضخیم مثنوی ” گلشنِ شعرا ” کے نام سے موسوم ہے اور اس میں آٹھ ہزار اشعار ہیں ۔ ان سے امتیاز کی پُر گوئی کا اندازہ ہوتا ہے ۔
( دکن میں اردو ، ص : 441 ، قومی کونسل اردو ، نئی دہلی )
مہ لقا بائی چندا اردو کی دوسری صاحبِ دیوان شاعرہ ہیں ۔ 1181 ھ کو حیدرآباد ، دکن میں پیدا ہوئی ۔ میر و سودا کی ہم عصر ہیں ۔ ان کے کلام میں میر کا رنگ نمایاں ہے ۔ مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرتی تھیں ، لیکن قلبی میلان غزل کی طرف تھا ۔ انہوں نے کثرت سے غزلیں کہی ہیں ۔ علاوہ ازیں حضرت مولیٰ علی ، سیدہ بی بی فاطمہ زہرا اور دیگر ائمہ اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شان میں منقبتیں بھی لکھی ہیں ۔ مہ لقا بائی چندا شعر و ادب کی ممتاز ترین خواتین میں سے ایک تھیں ۔ اردو ادب کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ناممکل رہے گی ۔ ان کے قلمی دیوان کے تین نسخوں کا پتہ چلتا ہے ۔ ایک کتب خانہ سالار جنگ ، حیدرآباد کی زینت ہے ۔ دوسرا اورینٹل مینو اسکرپٹ لائبریری میں محفوظ ہے اور تیسرا نسخہ انڈیا آفس لائبریری ( لندن ) کا مخزونہ ہے ۔ چندا کا دیوان پہلی بار 1904 ء میں ” گلزارِ مہ لقا ” کے نام سے نظام المطابع ، حیدرآباد سے شائع ہوا ۔ نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں : 1178 ھ میں مہ لقا بائی چندا کی پیدائش ہوئی ۔ اس کا باپ صلابت خاں تھا ، جس کو شاہ عالم کے زمانے میں بسالت خاں کے خطاب سے موسوم کیا گیا تھا ۔ راج کنور بائی گجراتن اس کی ماں تھی ۔ چندا کی علمی قابلیت بہت اچھی تھی ۔ موسیقی کے ساتھ شعر کہنے کا شوق تھا ۔ شیر محمد خان ایمان سے اصلاح لیا کرتی تھی ۔ صاحبِ جاگیر و منصب تھی ۔ بڑے بڑے امرا اس کے موسیقی کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے …………. ارسطو جاہ کے حکم سے 1213 ھ میں اس کا دیوان مرتب ہوا ۔ اس کے اخلاق نہایت پسندیدہ تھے ۔ نماز کی سخت پابند تھی ۔ روزانہ قرآن پڑھا کرتی تھی ۔
( دکن میں اردو ، ص : 478 – 479 ، مطبوعہ : دہلی )
اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں نمایاں حصہ لینے والی خواتین میں ایک اہم اور قابلِ ذکر نام راضیہ خاتون جمیلہ کا بھی ہے ۔ ان کی شعری و ادبی خدمات باعثِ حیرت اور قابلِ قدر ہیں ۔ وہ ایشیا کی عظیم اور مشہور لائبریری ” خدا بخش اورینٹل لائبریری ” کے بانی محمد خدا بخش مرحوم کی اہلیہ اور شاد عظیم آبادی کی قابلِ فخر شاگردہ تھیں ۔ آٹھ دواوین اور دو مثنویاں ان کی شاعرانہ عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ اس مایۂ ناز خاتون پر ادبی دنیا جتنا بھی فخر کرے ، کم ہے ۔ ” نغمۂ دل ریش ” ان کا مشہور دیوان ہے اور چند سال پیشتر خدا بخش لائبریری ، پٹنہ سے مطبوع ہوا ہے ۔ اس کے مقدمہ میں شفیع مشہدی لکھتے ہیں : جمیلہ صوم و صلوٰۃ کی پابند ، تصوف و طریقت سے متاثر اور ایک قادر الکلام شاعرہ تھیں ، جن کے کلام میں حمد ، نعت ، منقبت ، قصیدے ، رباعیات اور مثنوی کا گراں قدر سرمایہ موجود ہے ۔ خصوصی طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، حضرت عبد القادر جیلانی غوث الاعظم اور اپنے مرشد حضرت جمال سے وہ بے پناہ عقیدت رکھتی تھیں اور ان کی شان میں بے شمار اشعار کہے ہیں ۔ دبستانِ عظیم آباد کی اس ممتاز ترین صاحبِ دیوان شاعرہ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے جو جوہر دکھائے ہیں ، ان کا اعتراف لازم ہے ۔ جمیلہ کے آٹھ دواوین اور دو مثنویاں موجود ہیں ۔
( دیوانِ جمیلہ ” نغمۂ دل ریش ” ص : 9 ، ناشر : خدا بخش لائبریری ، پٹنہ )
بیسویں صدی کے نصفِ آخر میں تانیثی ادب کی نمائندگی کرنے والی جو سب سے توانا اور سریلی آواز فضائے شعر و سخن میں بلند ہوئی ، وہ پروین شاکر کی آواز تھی ۔ محترمہ بلا کی ذہین ، سلیقہ شعار ، تہذیب و شائستگی کی پروردہ ، شعر و ادب کی رسیا اور ایک عظیم شاعرہ تھیں ، جن کی شاعری میں درد ، کسک ، سوز ، آہ و فغاں ، حسرت و یاس اور سماجی ناہمواریوں کے خلاف سخت احتجاج پایا جاتا ہے ۔ 24 / نومبر 1952 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا آبائی وطن ضلع گیا ، بہار اور بعض سوانح نگار کے بقول ضلع دربھنگہ ، بہار ہے ۔ اپنی علمی صلاحیت کے بل بوتے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئیں ، یہاں تک کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمنسٹر اور آخر میں ڈپٹی کلکٹر کے منصب تک پہنچ گئیں ۔ 1952 ء سے 1994 ء تک شاعری کی دنیا میں بلبلِ ہزار داستان بن کر چہچہاتی رہیں ۔ اردو زبان کے فروغ میں پروین شاکر کی خدمت کو کسی بھی جہت سے فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ پانچ شعری مجموعے خوشبو ، صد برگ ، خود کلامی ، انکار ، کفِ آئینہ ان کی شاعرانہ مہارت اور ادبی بصیرت کو اجاگر کرتے ہیں ۔ پروین شاکر اپنی ہم عصر شاعرات ( ادا جعفری ، یاسمین حمید ، شبنم شکیل ، زہرہ نگاہ ، کشور ناہید ، فہمیدہ ریاض ) میں مختلف حیثیتوں سے ممتاز ہیں ۔ ان کا یہ شعر ہزاروں اشعار پر بھاری ہے :
طلاق دے تو رہے ہو غرور و قہر کے ساتھ
مرا شباب بھی لوٹا دو میرے مہر کے ساتھ
ڈاکٹر سیدہ جعفر حیدر آباد کی مایۂ ناز خاتون اور اردو تحقیق کا نام ہے ۔ علم و ادب اور تحقیق و تصنیف کی ایک تیز رفتار مسافر ہیں ۔ ان کی حیثیت ماہرِ دکنیات کی ہے ۔ جدید و قدیم ادب پر گہری نظر رکھتی ہیں ۔ ان کی اب تک 32 / کتابیں شائع ہوچکی ہیں ، جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں : ( 1 ) تاریخِ ادب اردو 1700 ء تک ( 2 ) دکنی ادب کا انتخاب ( 3 ) فن کی جانچ ( 4 ) ماسٹر رام چندر اور اردو نثر کے ارتقا میں ان کا حصہ ( 5 ) ڈاکٹر محی الدین زور ( 6 ) دکنی رباعیاں ( 7 ) مہک اور محک ( 8 ) یوسف زلیخا ( 7 ) یادگار مہدی ( 8 ) ماہ پیکر ( 9 ) مثنوی گلدستہ ( 10 ) من سمجھاون ( 11 ) کلیاتِ محمد قلی قطب شاہ ۔ آخر الذکر چاروں کتابیں مرَتّب و مدوَّن ہیں ۔
قرۃ العین حیدر ایک مشہور علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے مشہور فکشن نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کی والدہ نذر سجاد ایک باکمال افسانہ نگار تھیں ۔ قرۃ العین حیدر کو علم و ادب اور قرطاس و قلم کی دولت وراثت میں ملی تھی ۔ 20 / جنوری 1927 ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں ۔ موصوفہ اعلیٰ عصری تعلیم یافتہ تھیں ۔ بی اے ، ایم اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جدید انگریزی ادب کا کورس کیمبرج یونیورسٹی سے کیا ۔ ان کو اردو نثر نگاری میں کمال حاصل تھا ۔ مختلف نثری اصناف مثلاً : ناول ، افسانہ ، ناولٹ ، رپورتاژ اور تراجم ان کے خاص موضوعات ہیں ۔ ایک کامیاب افسانہ نگار اور بے مثال ناول نگار کی حیثیت سے عالمی سطح پر ان کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ، وہ بہت کم خاتون کے حصے میں آئی ۔ قرۃ العین حیدر نے مختلف موضوعات پر دو درجن سے زائد کتابیں لکھ کر اردو زبان و ادب کے فروغ میں بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے ۔ ان کی ناولوں میں صنم خانے ، سفینۂ غم دل ، آگ کا دریا ، آخر شب کے ہمسفر ، گردش رنگ و چمن ، کارِ جہاں دراز ہے اور چاندنی بیگم ناول وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ جلا وطن ، آئینہ فروش ، شہر کوراں ، روشنی کی رفتار ، فقیروں کی پہاڑی ، آوارہ گرد ، فوٹو گرافر وغیرہ ان کے گراں قدر افسانے ہیں ، جو ان کے اعلیٰ فکر و فن اور بلند ادبی مقام کی نشان دہی کرتے ہیں ۔
ساجدہ زیدی کا شمار شعر و ادب کے معماروں میں ہوتا ہے ۔ نظم و نثر دونوں میدان کی فاتح ہیں ۔ ادیبہ ، شاعرہ ، ڈراما نگار ، نقاد اور دانش ور کی حیثیت سے ان کی ایک منفرد شناخت ہے ۔ ہندوستان کی عظیم ریاست اتر پردیش کے ضلع میرٹھ سے تعلق رکھنے والی یہ باکمال بہت سارے اوصاف کی حامل ہیں ۔ قرطاس و قلم ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔ انہوں نے اپنی گراں تخلیقات سے اردو ادب کے دامن کو وسیع کرنے کا مقدس فریضہ انجام دیا ہے ۔ ان کی پوری زندگی حرکت و عمل سے عبارت ہے ۔ جادۂ ادب کی تیز رو مسافر بن کر وہ ہمیشہ منزل کی جانب رواں دواں رہی اور شعر و ادب کی دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کی ۔ شخصیت کے راز ، انسانی شخصیت کے اسرار و رموز ، جوئے نغمہ ، سرحد کوئی نہیں ، سیلِ وجود ، موج ہوا پیچاں ، مٹی کے حرم ، نوائے زندگی اور آتشِ سیال جیسی کتابیں لکھ کر ساجدہ زیدی نے اردو زبان کے فروغ و استحکام میں اہم رول ادا کیا ۔
نمونے کے طور پر یہ محض چند ممتاز خواتین کی ادبی کاوشوں کا مختصر تذکرہ تھا ۔ ان کے علاوہ ماضی و حال سے تعلق رکھنے والی سینکڑوں خواتین ایسی ہیں ، جنہوں نے نظم و نثر ، تحقیق و تصنیف اور ناول نگاری و افسانہ نگاری کے میدان میں بیش بہا کارنامے انجام دے کر اردو زبان و ادب کے فروغ کے راستے ہموار کیے ہیں ۔ تفصیل کے لیے نسائی ادب پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کریں ۔