نصیر وارثی
ایڈیٹر ،سہ ماہی ورثہ نیو یارک
خود نوشت کا محور مصنف کی شخصیت ہوتی ہے۔ سوانح یا سوانح عمری یا سوانح حیات کو انگریزی میں Biography کہتے ہیں۔ یہ بیوگرافی کسی اور کی زندگی کے حالات کسی دوسرے سے قلمبند کرنا ہے۔ جب کہ خود نوشت خود کی زندگی کے حالات خود قلمبند کرنا۔
اردو کی بہت سی خواتین مصنفین نے دیگر ادبی شکلوں کے ساتھ سوانح نگاری بھی کی ہے جو ان کی ادبی شراکت کی کثیر جہتی نوعیت کی عکاسی کرتی ہیں۔خواتین کی سوانح عمری مختلف ادوار میں خواتین کے ادا کردہ کرداروں کو اجاگر کرکے قیمتی تاریخی سیاق و سباق فراہم کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف مخصوص تاریخی واقعات کے بارے میں ہماری سمجھ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ روایتی بیانیے کو بھی چیلنج کیا جاتا ہے جو خواتین کے نقطہ نظر کو پسماندہ یا خارج کر سکتے ہیں۔
خواتین کی سوانح عمری پوری تاریخ میں خواتین کے سماجی اور ثقافتی اثرات پر روشنی ڈالتی ہے۔ آرٹ، سائنس، سیاست، ادب اور دیگر شعبوں پر اثر انداز ہونے والی خواتین کی زندگیوں کو دریافت کرکے، ہم اس بات کی بصیرت حاصل کرتے ہیں کہ خواتین نے معاشروں کو کس طرح تشکیل دیا ہے اور اسے جاری رکھنا ہے۔
خواتین کی سوانح حیات مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین کی کامیابیوں، جدوجہد اور لچک کو ظاہر کرتے ہوئے افراد، خاص طور پر نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے لیے تحریک کا ذریعہ بنتی ہیں۔ کامیاب خواتین کی زندگیوں کے بارے میں پڑھنا دوسروں کو اپنے اہداف اور خواہشات کو حاصل کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔
اردو ادب کے ابتدائی دور میں خصوصاً مغلیہ دور میں خواتین کو رسمی تعلیم اور ادبی مواقع تک محدود رسائی حاصل تھی۔ تاہم، جیسے جیسے وقت کے ساتھ سماجی اور ثقافتی اصولوں کا ارتقا ہوا، زیادہ خواتین نے تعلیم تک رسائی حاصل کی اور ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔
اردو خواتین کی سوانح نگاروں کی ابتدا اور ترقی اردو ادب کے وسیع تر ارتقاء اور برسوں کے دوران برصغیر پاک و ہند میں خواتین کے بدلتے ہوئے سماجی کردار سےتعلق رکھتی ہے۔ جیسا کہ خواتین کو تعلیم اور ثقافتی شرکت کے زیادہ مواقع ملے، انہوں نے سوانح حیات سمیت مختلف ادبی اصناف میں نمایاں حصہ ڈالنا شروع کیا۔
عصر حاضر میں خواتین اردو سوانح نگار اس میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ تاریخی شخصیات سے لے کر ہم عصر شخصیات تک کے موضوعات کو، متنوع تناظر فراہم کرتے ہیں اور اردو ادب کو تقویت بخشتے ہیں۔بے شمارخواتین قلمکاروں نے خودنوشتیں لکھی جن میں سے چند کاذکریہاں کیا گیا۔اس مضمون میں تمام کا احاطہ کرنا اور اس پر تفصیلی گفتگو کرنا ممکن نہیں ان خواتین نے، دوسروں کے علاوہ، اردو ادب کی تشکیل، متنوع آوازوں اور نقطہ نظر کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سوانحی تحریر میں ان کی شراکت نے نہ صرف ادبی منظر نامے کو تقویت بخشی ہے بلکہ اس نے خطے کی ثقافتی اور تاریخی داستانوں کو دستاویزی شکل دینے اور محفوظ کرنے میں بھی مدد کی ہے۔
اردو کی پہلی نسوانی خود نوشت(1885) جسے ریاست پاٹودی کی شہزادی شہر بانو بیگم دختر نواب اکبر علی خاں نے لکھا۔ بیتی کہانی: شہربانو بیگم کی اردو کتاب اردو سوانح نگار جو خواتین ہیں ان کی ابتداء اردو ادب کی بھرپور ادبی روایت سے ملتی ہے۔ اردو، ایک زبان جو برصغیر پاک و ہند میں تیار ہوئی، ایک متنوع اور متحرک ادبی تاریخ رکھتی ہے۔ اردو میں سوانح نگاری کی روایت مختلف ثقافتی اور تاریخی عوامل سے متاثر رہی ہے۔
19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل میں اردو ادب میں خواتین کی شرکت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ممتاز خاتون مصنفین ابھر کر سامنے آئیں، جنہوں نے شاعری، افسانہ اور سوانح عمری سمیت مختلف اصناف کے ذریعے اپنا اظہار کیا۔ ان میں سے کچھ خواتین نے سوانحی تحریر پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کیا، جو قابل ذکر افراد کی زندگیوں کی دستاویزات میں حصہ ڈالتے ہیں۔
رشید جہاں(1952ء-1905ء) کی لکھی خود نوشت “کاغزی ہے پیرہن” کو اکثر اردو بولنے والی خاتون کی لکھی ہوئی پہلی خود نوشت سوانح عمریوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوانح عمری راشد جہاں نے لکھی تھی، جو اردوکی ممتاز ادیب اور برطانوی ہندوستان میں ترقی پسند مصنفین کی تحریک کی رکن تھیں ۔ “کاغزی ہے پیرہن”، جس کا ترجمہ “کاغذی لباس” ہے، 1942 میں شائع ہوا تھا۔
رشید جہاں 5 اگست، 1905ء کو اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ڈاکٹر رشید جہاں کا تعلق علی گڑھ کے ایک روشن خیال خاندان سے تھا۔ ان کے والد شیخ عبد اللہ علی گڑھ کے مشہور ماہرتعلیم اور مصنف اور علی گڑھ خواتین کالج کے بانیوں میں سے ایک تھے، جنہیں ادب و تعلیم میں سن 1964ء میں حکومت ہند کی طرف سے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
عطیہ فیضی ( 1806) میں جب انگلستان حصولِ تعلیم کی غرض سے گئیں تو وہاں سے اپنی بہن زہرہ بیگم کو تمام احوال خط کی صورت میں لکھ کر بھیجنے لگیں۔ زہرہ بیگم یہ احوال تہذیب ِ نسواں میں چھپوا دیتی تھیں۔رسالہ تہذیب ِ نسواں لاہور سے شائع ہوتا تھا اوروہ خواتین کا پہلا اردو رسالہ تھا جس کی مدیر ایک خاتون تھیں (ان کا نام محمدی بیگم تھا )۔ بعدازاں یہ احوال کتابی صورت میں 1923ء میں زمانۂ تحصیل کے نام سے منظر ِ عام پر آیا-
بملا کماری(1942ء) پنجاب کی مشہور اداکارہ جن کا نام پریما تھا ان کی خود نوشت ایک ایکڑیس کی آپ بیتی کے نام سے نرائن دت سہگل لاہور نے شائع کیا۔
عصمت چغتائی(1915ء) نےاپنی آب بیتی”لحاف” کے نام سے لکھی جو 1943ء میں شائع ہوئی-
عصمت چغتائی ہندوستان کی ایک مشہور اردو مصنفہ، جنہوں نے افسانہ نگاری، خاکہ نگاری اور ناول نگاری میں نام پیدا کیا۔ اتر پردیش میں پیدا ہوئیں۔ جبکہ جودھ پور میں پلی بڑھیں، جہاں ان کے والد،مرزا قسیم بیگ چغتائی، ایک سول ملازم تھے۔ راشدہ جہاں، واجدہ تبسم اور قراۃالعین حیدر کی طرح عصمت چغتائی نے بھی اردو ادب میں انقلاب پیدا کر دیا۔ عصمت چغتائی لکھنؤ میں پروگریسیو رائٹرز موومنٹ سے بھی منسلک رہیں۔
قرۃ العین حیدر (1927–2007): اردو کے معروف ناول نگار، اپنے تاریخی اور سوانحی کاموں کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا ناول “آگ کا دریا” (آگ کا دریا) اردو ادب کا ایک کلاسک سمجھا جاتا ہے، اور اس میں تاریخ اور سوانح کے عناصر کو شامل کیا گیا ہے۔
شاعر کیفیؔ اعظمی کی بیگم شوکت ؔکیفی نےبھی اپنی خود نوشت کی” رہ گزر” کے نام سے لکھی ہے وہ یک آرٹسٹ تھیں۔ کیفی اعظم گڑھ میں 1924ء کو پیدا ہوئے بمبئی آکر بس گئے۔ شوکتؔ کیفی حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ڈرامہ کا شوق تھا۔ کیفیؔ سے ملاقات کے بعد دونوں محبت میں مبتلا ہوئے۔شادی کرلی۔ شبانہ اعظمی ، اور ان کے بھائی بابا اعظمی ۔ ان کی اولاد ہیں۔ شوکت ؔکیفی ایک پڑھی لکھی ۔باصلاحیت فن کا رہ ہیں۔ بحیثیت ادیبہ وہ مشہور نہیں۔ انہوں نے اپنی خود نوشت کی رہ گزر کے نام سے لکھی ہے۔ یہ ان کی بچپن جوانی اور کہولت کی یادوں کا مرقع ہے یہ یاد نگاری ( میمائرس) قسم کی خود نوشت ہے ۔ اس میں انہوں نے اپنے بچپن کے جاگیردارانہ ماحول اس کی حد بندیوں اور اپنی باغیانہ و متحرقانہ خیالات کا ذکر کیاہے-
اردو کی معروف فکشن نگار (افسانہ و ناول نویسی) خاتون خدیجہ مستور لکھنو میں 1927ء میں پیدا ہوئیں اور 1982ء میں لندن میں انتقال کر گئیں۔ انہوں نے اپنی خود نوشت تحریر کرکے پاکستان میں شائع کروائی ہے۔ لیکن اس کی رسائی ممکن نہ ہو سکی۔ انہوں نے مدیر نقوش محمدطفیل کی فرمائش پر نقوش کے آپ بیتی نمبر کے لئے جو مختصرآپ بیتی لکھی تھی۔ وہی ان کی خود نوشت کا نمونہ ہے۔ ( اسے بعد میں فن و شخصیت آپ بیتی نمبر میں شامل کیا گیا۔)
نے “ایک ٹوٹے ہوئے کالم پر سورج کی روشنی” کے نام عطیہ حسین (1913–1998)
ایک ناول تحریر کیا جو نیم خودنوشت ہےاور ان کی اپنی زندگی ایک جھلک پیش کرتا ہے عطیہ حسین برٹش بھارتی ناول نگار ، مصنفہ، براڈ کاسٹر جرنلسٹ اور ادکارہ تھی۔ وہ کلاسیک ڈایسورٹ اور خطوط کی ایک اہم مصنفہ تھی۔. وہ انگلش اور اردو میں میں لکھتی تھیں۔
کشور ناہید(1940ء) کی سوانح حیات “بری عورت کی کتھا” کے نام سے شائع ہوئی کشور ناہید فروری 1940ء میں بلند شہر (ہندوستان) میں ایک قدامت پسند سید گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد آٹھویں جماعت میں تعلیم کو خیرباد کہہ دیا تھا۔کشور ناہید پاکستان کی ادبی حلقوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ وہ ایک حساس دل کی ملک ہیں ملک کے سیاسی اور سماجی حالات پر اُن کی گہری نظر ہے۔ ایک عرصے سے وہ روزنامہ جنگ میں کالم لکھ رہی ہیں۔ کشور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر کام کرتی رہی ہیں-
اجیت کور (1934ء) نے اپنی آپ بیتی ” (خانہ بدوش) کے نام سے شائع کی جس کا کئی ملکی و غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ وہ اب بھی خود کو خانہ بدوش ہی کہتی ہیں۔ اجیت کور نومبر 1934ء کو
لاہور، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئیں انھوں نے ابتدائی تعلیم سیکرڈ ہارٹ اسکول اور خالصہ ہائی سکول، لاہور سےحاصل کی۔ وہ جب دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں کہ ملک کی تقسیم ہو گئی اور ان کا خاندان شملہ منتقل ہوگیا۔ 1948 میں دلی سے اجیت کور نے ایم اے اکنامکس اور بی ایڈّ کے امتحانات پاس کیے۔ انہوں نے اردو، انگریزی اور پنجابی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔
امرتا پریتم 1919 ء کی آپ بیتی (رسیدی ٹکٹ) کے نام سے شائع ہوئی ہے-امرتا پریتم متحدہ ہندوستان کے شہر گوجرانوالہ (جو کہ اب پاکستان کا شہر ہے)1919ء میں ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔
ان کا خاندانی نام امرت کور تھا۔ ان کے والد گیانی کرتار سنگھ لاہور کے ایک ادبی رسالے کے مدیر تھے۔ یوں امرتا کو بچپن سے ادبی ماحول ملا۔ وہ بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کے ادبی حلقوں میں یکساں طور پر مقبول رھیں۔ ان کی نمائندہ تصانیف میں “اج آکھاں وارث شاہ نوں”، “پنجر”، “ڈاکٹر دیو”، “ساگر اور سیپیاں”، “رنگ کا پتہ”، “دلی کی گلیاں”، “تیرہواں سورج”، “کہانیاں جو کہانیاں نہیں”، “کہانیوں کے آنگن میں” اور ان کی خود نوشت “رسیدی ٹکٹ” کے نام خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ نامور شاعر ساحر لدھیانوی سے ان کا یک طرفہ عشق ادبی حلقوں میں خاصامقبول رہا۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ سوانح نگاری سمیت اردو ادب میں خواتین کی شراکتیں مسلسل ارتقا پذیر ہیں۔ جیسے جیسے معاشرتی اصول بدل رہے ہیں اور خواتین کے لیے تعلیم اور اظہار کے زیادہ مواقع دستیاب ہوں گے، اردو سوانح عمری کے شعبے میں مزید ترقی اور تنوع دیکھنے کا امکان ہے۔
بانو قدسیہ (1928–2017): جہاں بانو قدسیہ اپنے ناولوں اور ڈراموں کے لیے مشہور ہیں، وہیں انہوں نے اپنی سوانح عمری بھی لکھی جس کا عنوان تھا “راجہ گدھ” (The Vulture)۔ اس کام میں وہ اپنی زندگی، محبت اور ادبی سفر کی عکاسی کرتی ہے۔
قیصری بیگم مولوی (1967ء) نذیر احمد دہلوی کی نواسی تھیں کتاب ِ زندگی لکھی ہے۔ یہ دراصل ان کی ڈائری تھی جو کراچی سے فضلی سنز نے شائع کی-
جیلانی بانو ( 1936ء) مشہور شاعر علامہ سید حسن حیرت ؔبدایونی کی صاحب زادی اور ڈاکڑ انور معظم ( سابق صدر شعبئہ اسلامک اسٹڈیز عثمانیہ یونیورسٹی) کی اہلیہ ہیں۔
جیلانی بانو نے اپنی مختصر آپ بیتی تحریر کی ہے۔جو رسالہ فن و شخصیت کے آپ بیتی نمبر میں بھی شائع ہوئی تھی۔ یہ آپ بیتی کم اور یادوں کا مرقع زیادہ ہے۔ اس میں ان کی کچھ بچپن کی یادیں ہیں کچھ جوانی کی۔ کچھ ذات سے متعلق ہیں کچھ عہد و ماحول و معاشرات سے تعلق رکھتی ہیں۔
صغریٰ مہدی کا شمار عصر حاضر کی مقتدر ادبی شخصیات میں ہوتا ہے انہوں نے اپنی خود نوشت حکایت ہستی کے عنوان سے لکھی جو 2000ء میں شائع ہوئی۔یہ آپ بیتی اگر ایک طرف مصنفہ کی زندگی، حالات و کوائف عصری معاشرتی کی ایک ریکارڈ ہے تو دوسری طرف ان کے خاندان، عہد و ماحول و تہذیب و معاشرت اور شخصیات کی عکاسی بھی ہے۔یہ آپ بیتی ، مصنفہ کی نجی زندگی انفرادی و اجتماعی شہری و دیہاتی زندگی ، معاشرت اور عصری حالات و کوائف و شخصیات کو پیش کرتی ہے۔
بیگم انیس قدوائی (پ: 1906 ، بارہ بنکی – م: 16/جولائی 1982)
اردو کے مشہور ادیب، مزاح نگار و انشائیہ نگار ولایت علی بمبوق (اودھ) کی دختر تھیں جن کی شادی تحریک آزادئ ہند کے مشہور سیاسی رہنما رفیع احمد قدوائی کے چھوٹے بھائی شفیع احمد قدوائی سے انجام پائی تھی۔ فسادات میں شوہر کی وفات کے بعد انہیں آل انڈیا کانگریس پارٹی کی طرف سے راجیہ سبھا میں 1956 تا 1962 کے دوران راجیہ سبھا میں رکن پارلیمان کے عہدہ پر فائز کیا گیا تھا۔
انیس قدوائی نے اپنی خود نوشت ، ا ٓزادی کی چھاؤں میں (1975ء) میں شائع کی
برصغیر کی آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کے چند برسوں کے حالات بیان کرتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسے خود نوشت کی بجاے ڈائری کہنا چاہیے۔
۔ اداؔ جعفری ( 1924ء) کا نام عزیز جہاں تھاشادی سے قبل ادؔا بدایونی کے نام سے مشہور تھیں۔ نورالحسن جعفری صاحب سے شادی کے بعد ادا جعفری نام اختیار کر لیا
اداؔ نے اپنے حالات زندگی ایک ڈائری میں محفوظ کر لئے تھے جو 1947ء کے خونریز فسادات اور تباہی و بربادی میں برباد ہوگئے۔ لیکن اداؔ جعفری نے اپنے وقت کے تمام حالات کوائف حادثات واقعات شخصیات سے حاصل کردہ تاثرات کو مخصوص دلکش انداز میں محفوظ کر لیا۔
صالحہ عابدہ حسین (پیدائش: 18 اگست، 1913ء – وفات: 8 جنوری، 1988ء) اردو زبان کی مشہور و معروف بھارتی مصنفہ، ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈراما نویس تھیں۔ وہ خواجہ غلام الثقلین کی بیٹی اور نامور شاعر خواجہ الطاف حسین حالی کی نواسی تھیں۔صالحہ عابدہ حسین پانی پت، ہریانہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں-ان کا اصلی نام مصداق فاطمہ اور قلمی نام صالحہ تھا۔ سلسلہ روز و شب کے نام سے آپ بیتی بھی لکھی جسے اردو کی بہترین آپ بیتیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ آپ بیتی ان کی وفات سے چار سال قبل شائع ہوئی۔
بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری (پیدائش: 22 نومبر، 1918ء – وفات: 20 اپریل، 2009ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والی اردو کی نامور مصفنہ، افسانہ نگار، ناول نگار، خاکہ نگار تھیں۔ وہ اردو کے مشہور ادیب اختر حسین رائے پوری کی شریک حیات تھیں۔
بیگم حمیدہ اختر کے شوہر اختر حسین رائے پوری انجمن ترقی اردو میں معاون رہے پھر آل انڈیا ریڈیو میں رہے اور آزادی کے بعد پاکستان چلے گئے تھے-بیگم حمیدہ اختربھی ان کے ہمراہ رہیں۔حمیدہ بیگم نےاپنی خودنوشت( یادوں کے سہارے) ترتیب دیا ۔ اختر حسین اپنے عہد کے ممتاز و معروف ادیب نقاد ، صحافی و مترجم تھے ۔ ان کے تعلقات اپنے عہد کے ممتاز ادباو شعر صحافیوں و افسران ِ حکومت و سیاسی رہنمائوں سے رہے۔
سعیدہ بانو احمد کی خود نوشت، ڈگر سے ہٹ کر (۱1996ء) بالکل ویسی ہی ہے جیسی ان کی زندگی تھی اور جیسا کہ کتاب کے نام سے بھی ظاہر ہے، یعنی ڈگر سے بالکل ہٹ کر۔ ایک روایتی خاندان سے تعلق رکھتے ہوئے قیام ِ پاکستان سے قبل کے دور میں آل انڈیا ریڈیو پر صدا کاری کرنے اورپھر غیر روایتی انداز میں ز ندگی گزارنے کا احوال دھیمے انداز میں بیان ہوا ہے۔یہ کتاب بعدازاں پاکستان سے بھی شائع ہوئی۔
بیگم جہاں آرا حبیب اللہ کی خود نوشت ،زندگی کی یادیں (2003ء)یہ خود نوشت پہلے انگریزی میں اور پھر اردو میں شائع ہوئی۔ اس کا ذیلی عنوان ریاست رام پور کا نوابی دور ہے ۔ اس میں ریاست رام پور کی زندگی، رسوم ورواج اورروایتی ثقافت بیان کی گئی ہے۔
فہمیدہ ریاض (1946–2018): ایک بااثر شاعرہ، مصنفہ، اور حقوق نسواں، فہمیدہ ریاض نے اپنی سوانح عمری لکھی جس کا عنوان تھا “دستک نہ دو” (دروازے پر دستک نہ دو)۔ اس کام میں، وہ بطور شاعر اپنی زندگی، اس کی جدوجہد، اور سماجی اور سیاسی اسباب سے وابستگی پر گفتگو کرتی ہے۔
کرشنا سوبتی (1925–2019): کرشنا سوبتی بنیادی طور پر ہندی میں لکھتی تھیں، لیکن اردو ادب میں ان کا تعاون قابل ذکر ہے۔ اس نے اپنی سوانح عمری “زندگینامہ” میں اپنی زندگی اور تجربات کی کھوج کی۔ سوبتی کی کہانی ایک مصنف اور ایک خاتون کے طور پر ان کے سفر کی واضح تصویر پیش کرتی ہے۔
زاہدہ حنا (پیدائش 1946): اردو کی ممتاز کالم نگار زاہدہ حنا نے سماجی اور سیاسی مسائل پر بہت زیادہ لکھا ہے۔ اس کی سوانح عمری، “اپنے لوہے کی چادر” (آہنی پردہ)، ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کا احاطہ کرتی ہے، جو صحافت میں خواتین کو درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالتی ہے۔
شائستہ سہروردی اکرام اللہ (1915–2000): ایک ہمہ جہتی شخصیت، شائستہ سہروردی اکرام اللہ ایک سفارت کار، سیاست دان اور مصنف تھیں۔ اس کی سوانح عمری، “پردہ سے پارلیمنٹ تک،” روایتی پرورش سے ہندوستانی پارلیمنٹ کا رکن بننے تک ان کے سفر کو بیان کرتی ہے۔
خدیجہ مستور (1927–1982): اپنے ناول “آنگن” کے لیے مشہور خدیجہ مستور نے “آنگن میں خدا” (آنگن میں خدا) کے عنوان سے ایک خود نوشت بھی لکھی۔ اس کام میں، وہ اپنی زندگی، ادبی مشاغل، اور اپنے وقت کے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی منظر نامے کی عکاسی کرتی ہے۔
ان خواتین خود نوشت نگاروں نے نہ صرف اپنی ذاتی کہانیوں کو دستاویزی شکل دی ہے بلکہ اردو ادب میں بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی داستانیں ادبی اور سماجی میدانوں میں خواتین کے چیلنجوں اور کامیابیوں کے بارے میں ایک منفرد تناظر فراہم کرتی ہیں، جو اردو کی خود نوشت سوانحی تحریر کی مجموعی ٹیپسٹری کو تقویت بخشتی ہیں۔
بیگم اختر (1914–1974): ایک عظیم ترین غزل اور ٹھمری گلوکار کے طور پر معروف ہونے کے ساتھ ساتھ، بیگم اختر نے اپنی سوانح عمری، “اے محبت، تیرے انجام پر رونا آیا” (اے محبت، میں تیرے نتائج کے لیے روتی ہوں) میں اپنی زندگی کے تجربات کا اظہار بھی کیا۔ )۔ اس کی یادداشتیں کلاسیکی موسیقی کی دنیا اور اپنے دور میں خواتین فنکاروں کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں بصیرت پیش کرتی ہیں۔
نیئر مسعود (1939–2015): اردو کے ممتاز شاعر، نیئر مسعود کی خود نوشت “انتخابِ کلامِ نیئر مسعود” (نیئر مسعود کی منتخب تصانیف)، قارئین کو ان کی زندگی، شاعرانہ سفر، اور اس کی ایک جھلک فراہم کرتی ہے۔ معاشرتی اصول جنہوں نے اس کے کام کو متاثر کیا۔
عطیہ فیضی (1877–1967): 20 ویں صدی کی ابتدائی مصنفہ اور ماہر تعلیم، عطیہ فیضی نے “آپا” کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی جس میں ان کی زندگی کا تفصیلی بیان دیا گیا ہے۔ آپا ادبی اور تعلیمی حلقوں میں ایک اہم شخصیت تھیں، اور ان کی سوانح عمری اپنے وقت کے سماجی اور ثقافتی حالات کی عکاسی کرتی ہے۔
فرخندہ لودھی (پیدائش 1945): فرخندہ لودھی، ایک ہم عصر اردو شاعرہ اور مصنفہ نے اپنی سوانح عمری لکھی جس کا عنوان تھا “رہ عشق” (محبت کا راستہ)۔ اس کام میں، وہ اپنے ذاتی اور فنی سفر کا اشتراک کرتی ہے، قارئین کو اپنی زندگی اور ادب کے میدان میں خواتین کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔
ناصرہ شرما (پیدائش 1946): ہندی اور اردو کی ایک مشہور مصنفہ ناصرہ شرما نے اپنی سوانح عمری “کیونکی میں ایک لڑکی ہوں” (کیونکہ میں ایک لڑکی ہوں) میں اپنی زندگی کے تجربات کو تلاش کیا ہے۔ وہ بطور مصنف اپنے سفر، صنفی مسائل پر اپنے مشاہدات، اور معاشرے کی بدلتی ہوئی حرکیات کی عکاسی کرتی ہے۔
رضیہ سجاد ظہیر (1924–1979): اردو کے ممتاز ادیب سجاد ظہیر کی اہلیہ کی حیثیت سے رضیہ سجاد ظہیر نے “سجاد ظہیر: ایک سفرنامہ” (سجاد ظہیر: ایک سفرنامہ) کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی ہے۔ یہ کام سجاد ظہیر کی زندگی اور ادبی خدمات کے ساتھ ساتھ رضیہ کے اپنے وقت کے ثقافتی اور سیاسی ماحول میں اپنے تجربات کے بارے میں بصیرت فراہم کرتا ہے۔
منیزہ شمسی (پیدائش 1947): ایک پاکستانی مصنفہ اور ادبی نقاد، منیزہ شمسی نے اپنی سوانح عمری “A Dragonfly in the Sun” لکھی ہے۔ یہ کام نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کو تلاش کرتا ہے بلکہ ان کی والدہ، اردو کی معروف ناول نگار عطیہ حسین سمیت ان کے خاندان کی ادبی میراث کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
فاطمہ ثریا بجیا (1930–2016): اردو کی ممتاز ناول نگار، ڈرامہ نگار، اور ڈرامہ نگار، فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی سوانح عمری “بانو” لکھی جس میں وہ اپنی زندگی، کیرئیر اور پاکستان میں ہونے والی ثقافتی تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
یہ خود نوشت نگاری، اگرچہ موضوعات اور اسلوب میں مختلف ہیں، اجتماعی طور پر اردو ادب میں خواتین کے متنوع تجربات کو سمجھنے میں معاون ہیں۔ وہ قارئین کو ان خواتین لکھاریوں کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگیوں کو تلاش کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، جو انہیں اپنے اپنے سفر میں درپیش چیلنجوں اور کامیابیوں کے بارے میں ایک اہم نقطہ نظر فراہم کرتے ہیں۔
سلمیٰ آغا (پیدائش 1962): موسیقی اور اداکاری میں اپنی خدمات کے لیے مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ سلمیٰ آغا، جو اصل میں پاکستان سے ہیں، نے “زندگی” کے عنوان سے ایک خود نوشت بھی لکھی ہے۔ اس کام میں، وہ تفریحی صنعت میں درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک ورسٹائل آرٹسٹ کے طور پر اپنے تجربات شیئر کرتی ہے۔
جمیلہ ہاشمی (پیدائش 1944): اردو کے معروف ادیب فیض احمد فیض کی صاحبزادی جمیلہ ہاشمی نے اپنی سوانح عمری ’’فیض سے فیض تک‘‘ لکھی ہے۔ یہ کام نہ صرف اس کے والد کے ساتھ اس کے تعلقات کو تلاش کرتا ہے بلکہ اس کی اپنی ادبی سرگرمیوں اور سماجی سرگرمی کو بھی تلاش کرتا ہے۔
فوزیہ رفیق (پیدائش 1967): ایک کینیڈین پاکستانی مصنفہ اور شاعرہ، فوزیہ رفیق نے “سکینہ” کے نام سے ایک خود نوشت سوانحی ناول لکھا ہے۔ اگرچہ روایتی خود نوشت نہیں ہے، لیکن یہ ناول ان کے اپنے تجربات پر مبنی ہے اور شناخت، ثقافت اور ہجرت کے موضوعات کو تلاش کرتا ہے۔
مہر افشاں فاروقی (پیدائش: 1954): ایک اردو شاعرہ اور مصنفہ، مہر افشاں فاروقی نے اپنی سوانح عمری لکھی ہے جس کا عنوان ہے “شہرِ افسوس”۔ اس کام میں، وہ اپنی زندگی، ادب کے لیے اپنے جنون، اور عصری معاشرے کی پیچیدگیوں کو تلاش کرنے والی ایک عورت کے طور پر اپنے تجربات کی عکاسی کرتی ہے۔
صغرا مہدی (1915–1995): ایک مشہور اردو اور گجراتی مصنفہ، صغرا مہدی نے اپنی سوانح عمری لکھی جس کا عنوان تھا “میری ذات زرا بینشاں”۔ وہ گجرات، بھارت میں پیدا ہوئیں، بعد میں وہ پاکستان میں آباد ہوئیں۔ اس کی سوانح عمری اس کے تجربات، ثقافتی تبدیلیوں اور ادب میں اس کے تعاون کی عکاسی کرتی ہے۔
نجمہ صادق (پیدائش 1947): ایک پاکستانی مصنفہ اور کارکن، نجمہ صادق نے اپنی خود نوشت “نجمہ” کے عنوان سے لکھی ہے۔ اس کا کام نہ صرف اس کی ذاتی زندگی کا احاطہ کرتا ہے بلکہ سماجی اور ماحولیاتی وجوہات کے لیے اس کی وکالت کی عکاسی کرتا ہے، جس سے یہ ادبی منظر نامے میں ایک منفرد شراکت ہے۔
حمیدہ شاہین (1926–2014): پاکستانی اردو اور پنجابی زبان کی ممتاز مصنفہ، حمیدہ شاہین نے اپنی سوانح عمری لکھی جس کا عنوان تھا “شہر خیال”۔ اس کی یادداشتیں اس کی زندگی، جن ادبی حلقوں میں وہ منتقل ہوئیں، اور سماجی تبدیلیوں کا اس نے مشاہدہ کیا۔
ادیبہ اقبال شیخ (پیدائش 1960): ایک ہم عصر اردو شاعرہ اور مصنفہ، ادیبہ اقبال شیخ نے اپنی سوانح عمری لکھی ہے جس کا عنوان ہے “اے رات کے مسافر”۔ اس کی داستان اس کے ادبی سفر، ثقافتی اثرات، اور خواتین لکھاریوں کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں ایک ذاتی تناظر پیش کرتی ہے۔
رفعت حسن (پیدائش 1943): ایک پاکستانی نژاد امریکی اسکالر، حقوق نسواں اور شاعر، رفعت حسن نے “اسلام اور خواتین: ایک تاریخی اور مذہبی تحقیقات” کے عنوان سے ایک خود نوشت سوانح عمری لکھی ہے۔ اگرچہ بنیادی طور پر ایک علمی متن ہے، اس میں صنف اور مذہب کے مسائل سے منسلک اسکالر کے طور پر اس کے سفر پر ذاتی عکاسی شامل ہے۔
فوزیہ وہاب (1956–2012): ایک پاکستانی سیاست دان اور مصنفہ، فوزیہ وہاب نے اپنی سوانح عمری لکھی جس کا عنوان تھا “فوزیہ وہاب: ایک سیاسی سفر۔” یہ کام بطور سیاست دان ان کی زندگی، پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ان کے تجربات اور سیاست میں خواتین کو درپیش چیلنجز کے بارے میں بصیرت فراہم کرتا ہے۔
ان خواتین نے اردو خود نوشت ادب میں متنوع جہتوں کا اضافہ کیا ہے۔ اپنی تحریروں کے ذریعے، وہ نہ صرف اپنے ذاتی تجربات کو دستاویزی شکل دیتے ہیں بلکہ سماجی اصولوں، ثقافتی تبدیلیوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کے ابھرتے ہوئے کردار پر وسیع تر بات چیت میں بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
سلمیٰ یعقوب (پیدائش 1971): ایک برطانوی-پاکستانی سیاست دان، کمیونٹی ایکٹوسٹ، اور مصنفہ، سلمیٰ یعقوب نے اپنی سوانح عمری لکھی جس کا عنوان تھا “خواب اور مخمصے: جمع تحریریں”۔ اگرچہ روایتی خود نوشت نہیں ہے، لیکن تحریروں کا مجموعہ ان کی زندگی، فعالیت، اور سماجی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بصیرت فراہم کرتا ہے۔
زہرہ نگاہ (پیدائش 1936): بحیثیت شاعرہ اپنی خدمات کے علاوہ زہرہ نگاہ نے “ہجرت میں ہجرت” کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی ہے۔ اس کا کام شاعر کی حیثیت سے اس کی زندگی، دیگر ادبی شخصیات کے ساتھ اس کے تعاملات، اور سماجی و ثقافتی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔
منیزہ ہاشمی (پیدائش 1944): اردو کے معروف شاعر فیض احمد فیض کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی نے “تم سے واری” کے نام سے ایک خود نوشت سوانح عمری لکھی ہے۔ اس کتاب میں، وہ اپنے والد کے بارے میں اپنی یادیں، ادب کی دنیا میں اپنے تجربات اور اردو ثقافت کو فروغ دینے میں ان کے تعاون کو بیان کرتی ہیں۔
نگار نذر (پیدائش 1943): ایک پاکستانی کارٹونسٹ اور ایڈیٹر، نگار نذر نے “سرگشت نگار” کے عنوان سے اپنی سوانح عمری لکھی ہے۔ اس کی داستان ایک اہم خاتون کارٹونسٹ کے طور پر اس کی زندگی اور صحافت کے میدان میں اس کے تجربات کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔
کنول فیروز (پیدائش 1949): ایک پاکستانی مصنف، صحافی، اور سماجی کارکن، کنول فیروز نے اپنی سوانح عمری لکھی ہے جس کا عنوان ہے “اُداس نسلین، خوشبو بھری راتیں”۔ یہ کتاب ان کی زندگی، خواتین کو درپیش چیلنجز اور سماجی مقاصد میں ان کے تعاون کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ خواتین اپنی سوانح عمری کے ذریعے اردو ادب میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ اُن کی تحریریں قارئین کو اُن کی زندگیوں، اُن کے ثقافتی مناظر، اور اُن تبدیلیوں کے بارے میں گہرا ادراک فراہم کرتی ہیں جو اُردو زبان کے ادبی ورثے پر دیرپا اثر ڈالتی ہیں۔
آغا شاہد علی (1949–2001): اگرچہ آغا شاہد علی ایک مرد شاعر تھے، لیکن ان کی بہن عذرا رضا (پیدائش 1949): معروف ماہر امراض چشم، مصنف، اور پروفیسر ہیں۔ عذرا رضا کی یادداشت “دی فرسٹ سیل: اینڈ دی ہیومن کوسٹس آف پرسوئنگ کینسر ٹو دی لاسٹ” ان کے ذاتی تجربات، پیشہ ورانہ سفر اور آنکولوجی کے شعبے میں درپیش چیلنجز کی عکاسی کرتی ہے۔
مینا کماری (1933–1972): جہاں مینا کماری بنیادی طور پر ہندوستانی سنیما میں ایک مشہور اداکارہ کے طور پر جانی جاتی تھیں وہیں وہ ایک اردو شاعرہ بھی تھیں۔ اس کی شاعری کا مجموعہ، اکثر خود شناسی اور پُرجوش، اس کے خیالات اور جذبات کی ایک جھلک فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ کوئی سوانح عمری نہیں ہے، لیکن اس کی شاعری اس کے اندرونی احساسات کا ذاتی اظہار ہے۔
بپسی سدھوا (پیدائش 1938): ایک پاکستانی نژاد امریکی ناول نگار، بپسی سدھوا نے “امریکی کہانیاں” (امریکی کہانیاں) کے عنوان سے ایک خود نوشت سوانح عمری لکھی ہے۔ اس کتاب میں، وہ ریاستہائے متحدہ میں ایک تارکین وطن کے طور پر اپنے تجربات کا اشتراک کرتی ہے، اپنی زندگی اور ثقافتی تبدیلیوں کے بارے میں بصیرت پیش کرتی ہے۔
عاصمہ جہانگیر (1952–2018): ایک پاکستانی انسانی حقوق کی وکیل، عاصمہ جہانگیر نے اپنی سوانح عمری لکھی جس کا عنوان تھا “اختلاف نوٹ”۔ یہ کام انسانی حقوق کی وکیل کے طور پر ان کی زندگی، پاکستان میں ان کے تجربات، اور مختلف محاذوں پر ان کی سرگرمی کا ایک زبردست بیان فراہم کرتا ہے۔
مختار مائی (پیدائش 1972): دیہی پس منظر سے تعلق رکھنے والی ایک پاکستانی خاتون، مختاراں مائی نے ناانصافی کے خلاف اپنی لچک کی وجہ سے بین الاقوامی توجہ حاصل کی۔ جہاں ان کی سوانح عمری، “ان دی نیم آف آنر،” بنیادی طور پر ان کے تکلیف دہ تجربات اور قانونی لڑائیوں کو بیان کرتی ہے، وہیں یہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین کو درپیش سماجی چیلنجوں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
یہ افراد اگرچہ اردو ادب سے خصوصی طور پر وابستہ نہیں ہیں، لیکن انہوں نے متنوع آوازوں اور تجربات کو سامنے لاتے ہوئے وسیع ثقافتی اور ادبی منظر نامے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کی سوانح عمری کے کام ان کے ذاتی سفر، جدوجہد، اور ان کے متعلقہ شعبوں میں شراکت کے بارے میں قیمتی بصیرت پیش کرتے ہیں۔
منٹو (1912-1955): جہاں سعادت حسن منٹو ایک ممتاز مرد مصنف تھے، ان کی بیٹی نگہت منٹو (پیدائش 1943): نے بھی اردو ادب میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ نگہت منٹو کی یادداشت “منٹو میرا دوست” اپنے والد کے ساتھ ان کے تعلقات کی عکاسی کرتی ہے، جو اردو ادب کی سب سے مشہور شخصیات میں سے ایک کی زندگی پر ایک منفرد تناظر فراہم کرتی ہے۔
زبیدہ مصطفیٰ (پیدائش 1941): ایک پاکستانی صحافی اور کالم نگار، زبیدہ مصطفیٰ نے سماجی مسائل پر بہت زیادہ لکھا ہے۔ اگرچہ روایتی خود نوشت نہیں ہے، لیکن اس کی کتاب “مائی ڈان ایئرز: ایکسپلورنگ سوشل ایشوز” میں اس کے کیریئر اور صحافت کے ذریعے سماجی چیلنجوں کو اجاگر کرنے کے لیے اس کے عزم پر مشتمل ہے۔
کرشنا سوبتی (1925–2019): ہندی اور اردو ادب میں ان کی شراکت کے لیے مشہور، کرشنا سوبتی نے “آتما کتھا” کے عنوان سے ایک خود نوشت سوانح عمری لکھی۔ اس کتاب میں، اصل میں ہندی میں، وہ اپنی زندگی کے تجربات، ادبی سفر، اور بدلتے ہوئے سماجی تانے بانے پر مشاہدات شیئر کرتی ہے۔
فاطمہ بھٹو (پیدائش 1982): اگرچہ بنیادی طور پر انگریزی ادب سے وابستہ ہیں، ایک پاکستانی مصنفہ اور شاعرہ، فاطمہ بھٹو نے اپنی یادداشت “سونگز آف بلڈ اینڈ سورڈ” میں اپنے خاندان کی تاریخ اور اپنے تجربات کو تلاش کیا ہے۔ یہ کتاب بھٹو خاندان کے ایک فرد کے طور پر ان کی زندگی اور عصری پاکستان کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔
میں ہوں ملالہ: ملالہ یوسفزئی کی خود نوشت سوانح اس لڑکی کی کہانی جو علم کی لیے کھڑی ہوئی اور طالبان نے جسے گولی ماری (I Am Malala: The Story of the Girl Who Stood Up for Education and was Shot by the Taliba) کرسٹینا لیمب کے اشتراک سے لکھی گئی ملالہ یوسفزئی کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ یہ 8 اکتوبر 2013 کو برطانیہ میں وڈن فیلڈ اور نیکولسن اور امریکا میں لٹل ، براؤن اینڈ کمپنی کے ذریعہ شائع ہوئی
قدسیہ زیدی (1929-2001): ایک پاکستانی اردو مختصر کہانی کی مصنفہ، قدسیہ زیدی نے “شہرِ مشاعرہ” کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی۔ اس کی داستان اس کی زندگی، ادبی سرگرمیوں، اور لکھنؤ کے ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہے، جہاں اس نے اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ گزارا۔
ان افراد نے، خواہ براہ راست خود نوشت کے کاموں کے ذریعے یا ذاتی عکاسی کو شامل کرنے والی تحریروں کے ذریعے، اردو ادب کی تفہیم اور اس کے وسیع تر ثقافتی، سماجی اور سیاسی سیاق و سباق کے ساتھ گہرائی میں اضافہ کیا ہے۔ ان کی داستانیں زندگی، شناخت اور سماجی تبدیلیوں کے بارے میں متنوع تناظر تلاش کرنے والے قارئین کے ساتھ گونجتی رہتی ہیں۔
عائشہ جلال (پیدائش 1956): ایک پاکستانی نژاد امریکی مورخ اور مصنفہ عائشہ جلال نے جنوبی ایشیا کی تاریخ پر بہت زیادہ لکھا ہے۔ ان کی یادداشت “پاکستان کے لیے جدوجہد: ایک مسلم ہوم لینڈ اور عالمی سیاست” تاریخی تجزیے کے ساتھ ذاتی عکاسی کو یکجا کرتی ہے، جو ان کی اپنی زندگی اور پاکستان کی تاریخ کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔
فوزیہ من اللہ (پیدائش 1974): ایک پاکستانی مصنفہ، فنکار، اور سماجی کارکن، فوزیہ من اللہ نے “چاند بی بی” کے عنوان سے ایک یادداشت لکھی ہے۔ یہ کتاب ایک فنکار، کارکن، اور فنکور چائلڈ آرٹ سینٹر کی بانی کے طور پر اپنے سفر کو بیان کرتی ہے، سماجی تبدیلی میں فن کی طاقت پر زور دیتی ہے۔
بینا شاہ (پیدائش 1972): ایک پاکستانی مصنفہ اور صحافی، بینا شاہ نے اپنی یادداشت “کراچی یو آر کلنگ می!” میں اپنے تجربات اور مشاہدات کا جائزہ لیا ہے۔ کتاب ذاتی کہانیوں، سماجی تبصروں، اور کراچی کی زندگی پر عکاسی کا امتزاج پیش کرتی ہے۔
زیب النساء حمید اللہ (1928–2000): ایک سرکردہ پاکستانی صحافی اور مصنف، زیب النساء حمید اللہ نے اپنی سوانح عمری “پردہ سے پارلیمنٹ تک” لکھی۔ کتاب میں قدامت پسند پرورش سے لے کر پاکستان کی پہلی خاتون صحافی اور بعد ازاں رکن پارلیمنٹ بننے تک ان کی زندگی کا پتہ لگایا گیا ہے۔
یہ خواتین، اپنے سوانحی کاموں کے ذریعے، قارئین کو شناخت، سماجی تبدیلیوں، اور ذاتی اور عوامی زندگی کے چوراہوں پر متنوع نقطہ نظر فراہم کرتی ہیں۔ ان کی داستانیں اردو ادب کی بھرپور ٹیپسٹری میں حصہ ڈالتی ہیں اور اپنے زمانے کے پیچیدہ حقائق کے بارے میں قیمتی بصیرت پیش کرتی ہیں۔
سارہ سلیری (پیدائش 1953): ایک پاکستانی نژاد امریکی اسکالر اور مصنفہ، سارہ سلیری نے “میٹللیس ڈےز” کے عنوان سے ایک یادداشت لکھی ہے۔ اگرچہ روایتی سوانح عمری نہیں ہے، لیکن یہ کتاب ثقافت، شناخت، اور خاندانی تاریخ کی کھوج کے ساتھ ذاتی عکاسی کو یکجا کرتی ہے، جس سے ایک مخصوص داستان تخلیق ہوتی ہے۔
ثمینہ بیگ (پیدائش 1990): ایک پاکستانی کوہ پیما اور ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے والی پہلی پاکستانی خاتون، ثمینہ بیگ نے اپنی سوانح عمری “اردو کی پہلی خاتون ماؤنٹ ایورسٹ پر” (ماؤنٹ ایورسٹ پر اردو کی پہلی خاتون) میں اپنے تجربات شیئر کیے ہیں۔ کتاب میں ایک دور دراز گاؤں سے کوہ پیمائی کی دنیا میں قابل ذکر بلندیوں کو حاصل کرنے تک کے اس کے سفر کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
کنول نصیر (پیدائش 1958): ایک پاکستانی شاعر اور مصنف، کنول نصیر نے “کوئل کی کہانی” (کوئل کی کہانی) کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی ہے۔ یہ کتاب ان کی ذاتی زندگی، فنکارانہ مشاغل اور معاشرے کے بارے میں عکاسی کرتی ہے۔
فریال گوہر (پیدائش 1952): ایک پاکستانی اداکارہ، ہدایت کار، اور خواتین کے حقوق کی کارکن، فریال گوہر نے “گوہر نیاب” (قیمتی زیور) کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی ہے۔ یہ کتاب پرفارمنگ آرٹس کی دنیا میں اس کے سفر اور سماجی مقاصد کے لیے اس کی وابستگی کو تلاش کرتی ہے۔
فریدہ خانم (پیدائش 1935): معروف پاکستانی کلاسیکل گلوکارہ فریدہ خانم نے اپنی سوانح عمری “اے میرے خواب ریزہ ریزہ” میں اپنی زندگی کے تجربات اور تاثرات شیئر کیے ہیں۔ یہ کتاب نہ صرف اس کے موسیقی کے سفر کی تفصیلات بتاتی ہے بلکہ اس کے زمانے کے ثقافتی ماحول کی ایک جھلک بھی پیش کرتی ہے۔
بشریٰ انصاری (پیدائش 1956): ایک ورسٹائل پاکستانی فنکار، اداکارہ، اور ٹیلی ویژن میزبان، بشریٰ انصاری نے “اے میرے لاگ” کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی ہے۔ یہ کتاب تفریحی صنعت میں اس کے کثیر جہتی کیریئر اور معاشرے پر اس کے مشاہدات کی عکاسی کرتی ہے۔
فاطمہ جناح (1893–1967): بانی پاکستان، محمد علی جناح کی بہن، فاطمہ جناح نے “مائی برادر” کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی۔ اگرچہ یہ کتاب ان کے بھائی کے ساتھ اس کے تعلقات پر مرکوز ہے، یہ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں تاریخی بصیرت فراہم کرتی ہے۔
زبیدہ مصطفیٰ (پیدائش 1941): اپنی صحافتی خدمات کے علاوہ، زبیدہ مصطفیٰ نے ایک خود نوشت لکھی ہے جس کا عنوان ہے “مائی ڈان ایئرز”۔ یہ کتاب صحافت میں ان کے کیریئر اور اپنی تحریر کے ذریعے سماجی مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
مہر سلطانہ (پیدائش 1933): اردو کی ایک ناول نگار اور مختصر کہانی کی مصنفہ مہر سلطانہ نے “آنگن آنگن ٹوٹا ہوا” (ٹوٹا ہوا آنگن) کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی۔ اس کام میں، وہ اپنی زندگی کے تجربات، معاشرے میں خواتین کو درپیش چیلنجز، اور رشتوں کی بدلتی ہوئی حرکیات پر اپنے تاثرات شیئر کرتی ہیں۔
جمیلہ فاروقی (پیدائش 1942):
شمس الرحمن فاروقی (1935-2020): جہاں شمس الرحمن فاروقی ایک ممتاز مرد مصنف تھے، وہیں ان کی اہلیہ جمیلہ فاروقی (پیدائش 1942): نے بھی اردو ادب میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کی سوانح عمری، “صرف تمھارے لیے” (صرف آپ کے لیے)، ان کی زندگی، ادبی حلقوں میں ان کے کردار، اور ایک مشہور ادبی شخصیت کی بیوی کے طور پر ان کے تجربات کی عکاسی کرتی ہے۔
جیلانی بانو ( 1936ء) مشہور شاعر علامہ سید حسن حیرت ؔبدایونی کی صاحب زادی اور ڈاکڑ انور معظم ( سابق صدر شعبئہ اسلامک اسٹڈیز عثمانیہ یونیورسٹی) کی اہلیہ ہیں۔
جیلانی بانو نے اپنی مختصر آپ بیتی تحریر کی ہے۔جو رسالہ فن و شخصیت کے آپ بیتی نمبر میں بھی شائع ہوئی تھی۔ یہ آپ بیتی کم اور یادوں کا مرقع زیادہ ہے۔ اس میں ان کی کچھ بچپن کی یادیں ہیں کچھ جوانی کی۔ کچھ ذات سے متعلق ہیں کچھ عہد و ماحول و معاشرات سے تعلق رکھتی ہیں۔
شاعر کیفیؔ اعظمی کی بیگم شوکت ؔکیفی بھی ایک آرٹسٹ تھیں۔ کیفی اعظم گڑھ میں ۱۴، جنوری ۱۹۲۴ء کو پیدا ہوئے بمبئی آکر بس گئے۔ شوکتؔ کیفی حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ڈرامہ کا شوق تھا۔ کیفیؔ سے ملاقات کے بعد دونوں محبت میں مبتلا ہوئے۔شادی کرلی۔ شبانہ اعظمی ، اور ان کے بھائی بابا اعظمی ۔ ان کی اولاد ہیں۔ شوکت ؔکیفی ایک پڑھی لکھی ۔باصلاحیت فن کا رہ ہیں۔ بحیثیت ادیبہ وہ مشہور نہیں۔ انہوں نے اپنی خود نوشت کی رہ گزر کے نام سے لکھی ہے۔ یہ ان کی بچپن جوانی اور کہولت کی یادوں کا مرقع ہے یہ یاد نگاری ( میمائرس) قسم کی خود نوشت ہے ۔ اس میں انہوں نے اپنے بچپن کے جاگیردارانہ ماحول اس کی حد بندیوں اور اپنی باغیانہ و متحرقانہ خیالات کا ذکر کیا
صغریٰ مہدی کا شمار عصر حاضر کی مقتدر ادبی شخصیات میں ہوتا ہینہوں نے اپنی خود نوشت حکایت ہستی کے عنوان سے لکھی جو 2000ء میں شائع ہوئی۔یہ آپ بیتی اگر ایک طرف مصنفہ کی زندگی، حالات و کوائف عصری معاشرتی کی ایک ریکارڈ ہے تو دوسری طرف ان کے خاندان، عہد و ماحول و تہذیب و معاشرت اور شخصیات کی عکاسی بھی ہے۔یہ آپ بیتی ، مصنفہ کی نجی زندگی انفرادی و اجتماعی شہری و دیہاتی زندگی ، معاشرت اور عصری حالات و کوائف و شخصیات کو پیش کرتی ہے۔
سارہ شگفتہ (پیدائش 1954): ایک ہم عصر اردو شاعرہ سارہ شگفتہ نے اپنی سوانح عمری لکھی ہے جس کا عنوان ہے “رات کی روشن صبح” (رات کی روشن صبح)۔ یہ کتاب ان کی زندگی، شاعرانہ سفر، اور سماجی و ثقافتی منظر نامے کے بارے میں ایک ذاتی بیان پیش کرتی ہے۔
زہرہ یوسف (پیدائش 1952): ایک پاکستانی انسانی حقوق کی کارکن، زہرہ یوسف نے “دو رشتے، دو لوگ” (دو ملک، دو لوگ) کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی ہے۔ یہ کتاب ان کی سرگرمی، انسانی حقوق کے حامیوں کو درپیش چیلنجز، اور پاک بھارت تعلقات پر ان کے نقطہ نظر کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔
رخسار امروہوی (1929–2018): اردو کی ایک ممتاز شاعرہ اور مصنفہ، رخسار امروہوی نے اپنی سوانح عمری “نگاہِ کرم” (مہربانی کی نگاہ) لکھی۔ کتاب ان کی زندگی، ادبی شراکت، اور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ خود نوشت سوانح عمری اردو کی ادبی روایت کو مزید تقویت بخشتی رہتی ہے، جو قارئین کو ذاتی داستانوں کا ایک ایسا موزیک پیش کرتی ہے جو ادب، معاشرے اور ثقافت میں شراکت کے پس پردہ افراد کی گہری تفہیم میں حصہ ڈالتی ہے۔
طاہرہ عبداللہ (پیدائش 1953): ایک پاکستانی انسانی حقوق کی کارکن اور حقوق نسواں کی ماہر، طاہرہ عبداللہ نے اپنی سوانح عمری “طاہرہ” میں اپنی زندگی کے تجربات شیئر کیے ہیں۔ کتاب اس کی سرگرمی، جدوجہد، اور سماجی انصاف کے اسباب سے وابستگی کو بیان کرتی ہے۔
رافعہ زکریا (پیدائش 1978): ایک پاکستانی نژاد امریکی وکیل، مصنفہ، اور کالم نگار، رافعہ زکریا نے ایک خود نوشت سوانح عمری لکھی ہے جس کا عنوان ہے “دی اپ اسٹیئرز وائف: این انٹیمیٹ ہسٹری آف پاکستان”۔ اگرچہ بنیادی طور پر ایک تاریخی داستان ہے، یہ کتاب پاکستان کے وسیع تر سماجی و سیاسی منظر نامے کے ساتھ ذاتی عکاسی کرتی ہے۔
مختلف خطوں، ثقافتوں اور زبانوں پر محیط یہ خود نوشت سوانح عمری جنوبی ایشیائی ادب کے بھرپور موزیک میں حصہ ڈالتی ہے۔ وہ قارئین کو ذاتی سفر، سماجی تبدیلیوں، اور تاریخ اور ثقافت کی وسیع تر ٹیپسٹری کے اندر انفرادی زندگیوں کے پیچیدہ تعامل کے بارے میں متنوع تناظر پیش کرتے ہیں۔
تہمینہ درانی (پیدائش 1953): ایک پاکستانی مصنفہ اور کارکن، تہمینہ درانی نے اپنی سوانح عمری لکھی جس کا عنوان تھا “مائی فیوڈل لارڈ”۔ یہ کتاب ایک پاکستانی سیاست دان غلام مصطفیٰ کھر کے ساتھ ان کی ہنگامہ خیز شادی پر کھل کر بحث کرتی ہے اور طاقت کی حرکیات، بدسلوکی اور صنفی عدم مساوات کے مسائل پر روشنی ڈالتی ہے۔
طاہرہ سید (پیدائش 1958): پاکستان کی معروف غزل گلوکارہ، طاہرہ سید نے خود نوشت “میری زندگی ہے نغمہ” میں اپنے تجربات شیئر کیے ہیں۔ یہ کتاب ان کے موسیقی کے سفر، تفریحی صنعت میں خواتین کو درپیش چیلنجز اور زندگی پر ان کے تاثرات کی عکاسی کرتی ہے۔
متنوع شعبوں اور تجربات کی نمائندگی کرنے والی یہ خود نوشتیں اردو ادب کے ادبی تانے بانے میں تہہ در تہہ اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ وہ انفرادی زندگیوں کے اہم ریکارڈ کے طور پر کام کرتے ہیں، جو قارئین کو ذاتی، ثقافتی، اور سماجی مناظر کے بارے میں ایک باریک بینی سے آگاہی فراہم کرتے ہیں جن پر یہ افراد تشریف لائے ہیں۔
امینہ سعید (پیدائش 1941): ایک پاکستانی تاجر اور مخیر حضرات، امینہ سعید نے “اندھوں کا آئینہ” کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی ہے۔ اس کتاب میں کارپوریٹ دنیا میں اس کے سفر، ادب اور تعلیم کے فروغ میں اس کے کردار، اور رکاوٹوں کو توڑنے والی خاتون کے طور پر اس کے تجربات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
نزہت عباس (پیدائش 1948): ایک پاکستانی صحافی، ایڈیٹر، اور حقوق نسواں کی کارکن، نزہت عباس نے اپنی سوانح عمری لکھی ہے جس کا عنوان ہے “ان دی نیم آف آنر”۔ یہ کتاب ان کی زندگی، صحافتی کیرئیر، اور خواتین کے حقوق کے لیے ان کی وکالت، سماجی چیلنجوں پر روشنی ڈالتی ہے۔
عائشہ صدیقہ (پیدائش 1966): ایک پاکستانی فوجی سائنسدان، سیاسی مبصر، اور مصنفہ، عائشہ صدیقہ نے “دی ہائبرڈ ٹروتھ” کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی ہے۔ کتاب ان کی زندگی، فوج میں ان کے تجربات اور پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ان کے نقطہ نظر کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔
عاصمہ جہانگیر (1952–2018): اپنی سوانح عمری “Dissenting Note” کے علاوہ، عاصمہ جہانگیر نے “ان ڈیفنس آف دی آنر ایبل لیڈی” کے عنوان سے ایک یادداشت لکھی ہے۔ یہ کتاب انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر ان کے تجربات اور انصاف کے لیے ان کی جدوجہد کا ذاتی احوال پیش کرتی ہے۔
یہ خود نوشت سوانح عمری اردو ادب کے متنوع ادبی اصول میں اپنا حصہ ڈالتی رہتی ہے، جو قارئین کو انفرادی زندگیوں، سماجی حرکیات، اور ابھرتے ہوئے ثقافتی مناظر کا ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہے۔ وہ قیمتی دستاویزات کے طور پر کام کرتے ہیں جو ان کے وقت کی روح اور مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنے والے افراد کی لچک کو حاصل کرتے ہیں۔
عائشہ جلال (پیدائش 1956): اپنی تاریخی تحریروں کے علاوہ، عائشہ جلال نے ایک خود نوشت سوانح عمری بھی لکھی ہے جس کا عنوان ہے “واحد ترجمان: جناح، مسلم لیگ اور پاکستان کا مطالبہ”۔ جب کہ بنیادی طور پر ایک تاریخی تجزیہ ہے، یہ کتاب پاکستان کی تخلیق پر جلال کے اپنے پس منظر، اثرات اور تناظر میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔
منیزہ شمسی (پیدائش 1946): ایک پاکستانی مصنفہ اور ادبی نقاد، منیزہ شمسی نے اپنی سوانح عمری “A Dragonfly in the Sun” لکھی ہے۔ یہ کام نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کو تلاش کرتا ہے بلکہ ان کی والدہ، اردو کی معروف ناول نگار عطیہ حسین سمیت ان کے خاندان کی ادبی میراث کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
حسینہ معین (1941–2021): ایک نامور پاکستانی ڈرامہ نگار اور ڈرامہ نگار، حسینہ معین نے اپنی سوانح عمری “دل دریا سمندر” لکھی۔ یہ کتاب تفریحی صنعت میں ان کے کیریئر، ان کی تخلیقات اور پاکستانی ٹیلی ویژن کے بدلتے ہوئے منظرنامے پر ان کے مشاہدات کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔
نگہت صاحبہ (پیدائش 1943): ایک پاکستانی اردو شاعرہ، نگہت صاحبہ نے “ستاروں سے اگے” کے عنوان سے ایک خود نوشت لکھی ہے۔ کتاب ان کی زندگی، شاعرانہ سفر، اور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں وہ ایک ممتاز شاعرہ کے طور پر ابھری تھیں۔
یہ خود نوشت سوانح عمری، مختلف اصناف اور اسلوب پر محیط، داستانوں کا ایک خوبصورت مجموعہ فراہم کرتی ہے جو اردو ادب کی اجتماعی تفہیم اور اردو بولنے والی دنیا کے افراد کے متنوع تجربات میں حصہ ڈالتی ہے۔
پروین شاکر (1952–1976): جہاں بنیادی طور پر اپنی شاعری کے لیے جانا جاتا ہے، پروین شاکر نے “پروین شاکر کی خاطر” کے عنوان سے ایک خود نوشت بھی لکھی۔ اس کام میں، وہ اپنے ذاتی تجربات، اپنی شاعری پر مظاہر، اور ادبی دنیا میں ایک خاتون کے طور پر درپیش چیلنجوں کا اشتراک کرتی ہے۔
یہ خود نوشت سوانح عمری، جو کہ مختلف شعبوں میں مختلف شخصیات اور ان کی شراکت کی نمائندگی کرتی ہیں، اردو ادب کو مالا مال کرتی رہتی ہیں۔ وہ قارئین کو مختلف سیاق و سباق میں گزاری جانے والی زندگیوں کے پورٹریٹ فراہم کرتے ہیں، جو اردو بولنے والی دنیا میں پیچیدگیوں اور کامیابیوں کا گہرا ادراک پیش کرتے ہیں۔