انٹرویو
افتخار حسین عارف صاحب
حنا خراسانی رضوی

اسلام وعلیکم۔۔۔میں ہوں ورثہ کی جانب سے آپ کی میزبان حنا خراسانی رضوی اور آج ہمارے مہمان ہیں محترم جناب افتخار حسین عارف صاحب۔ آپ ایک باکمال شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ محقق، نثر نگاراور تنقید نگار کی واضح پہچان بھی رکھتے ہیں۔علاوہ ازیں آپ نے کئی ملکی و غیر ملکی اداروں میں فرائض کی انجام دہی کی جن میں مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیاتِ پاکستان، نیشنل بک فاؤنڈیشن، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویج،ای۔سی۔او۔آئی۔ سی، بی۔سی۔ سی۔آئی اوراردو مرکز لندن شامل ہیں۔ آپ کی گونا گوں ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو ہلالِ امتیاز، ستارہ امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمینس ایوارڈ پیش کیے گئے۔آئیے! ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں اور اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔آداب! کیسے مزاج ہیں افتخار صاحب؟
افتخار عارف صاحب۔۔ شکر ہے الحمد للہ پروردگارکا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ سب سے پہلے تو آپ کا بہت شکریہ ہمیں وقت دینے کے لئے۔ آغاز ہم کرتے ہیں آپ کی ابتدائی زندگی سے۔
افتخار عارف صاحب۔۔جی! میں لکھنؤ میں پیدا ہوا تھااور وہاں شروع میں میری تعلیم ایک مدرسے میں ہوئی اور پھر میں نے لکھنؤکے مشہور گورنمنٹ جوبلی اسکول اور گورنمنٹ جوبلی کالج سے ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کیا۔پھر میں بی اے سے لکھنؤ یونیورسٹی چلا گیا اور وہیں سے میں نے ماسٹرز بھی کیا اور پھر ۵۶۹۱ء میں پاکستان آگیا۔ تو تعلیم لکھنؤمیں ہوئی میری۔ میرا ددھیال اور ننھیال دونوں لکھنؤکے تھے۔ جوہری محلہ فرنگی محل جو کہلاتا ہے، پرانے لکھنؤ میں وہاں میری ددھیال تھی اور چاندی خانہ چوک میں میرے نانا مرحوم رہتے تھے۔تو بس ایسے ہے۔

حنا خراسانی رضوی۔۔خوب! ۵۶ء میں جب ہجرت کرکے پاکستان آئے تو اس کے بعد کبھی لکھنو جانا ہوا آپ کا؟
افتخار عارف صاحب۔۔اصل میں کیا تھا کہ پاکستان ٹیلی وژن میں میری ملازمت ہوگئی اور اس زمانے میں ایسا ہوتا تھا کہ ہندوستان کے لئے پاسپورٹ وغیرہ بنوانے ہوتے تھے اور بہت احتیاط کی جاتی تھی۔ اس طرح سے جیسے آج کل آزادانہ پاسپورٹ بن جاتے ہیں، شناختی کارڈ بن جاتے ہیں اُس زمانے میں ایسا نہیں تھا بہت مشکل پیش آتی تھی اور ہمیں ضرورت بھی نہیں تھی۔یوں بھی منسٹری آف انفارمیشن میں جو لوگ کام کرتے تھے اُن کے لئے دشواری تھی ہندوستان کا ویزہ لینا لیکن میں جب دلّی جاتا تھاتو وہاں بھی جاتا تھا۔ میرے والدین لکھنو میں رہتے تھے اور جو میری دوسری والدہ سے میرے چاربھائی بہن تھے، وہ بھی وہیں رہتے تھے۔ دو بھائی اور دو بہنیں۔ حکومت کی طرف سے سارک کے اجلاس میں شرکت کے لئے ایک دفعہ ایک ڈیلی گیشن کی قیادت کررہا تھا تب میں وہاں سے گیا تھا۔ پھر سیمینار اور مشاعرے وغیرہ ہوتے رہتے تھے ہندوستان میں تب بھی جاتا تھا لیکن جب میں ٹی وی چھوڑ کر برطانیہ چلاگیا تو وہاں سے پھر میں کئی دفعہ گیا۔دلّی میں ایک بہت مشہور مشاعرہ ہوتا ہے جو لالہ بھرت رام مشاعرہ کہلاتا ہے۔ اس میں ہر سال تو نہیں مگر مسلسل مدعو ہوتا تھا تو جب بھی مجھے وقت ملتا تھا تو میں وہاں سے لکھنو چلاجاتا تھا۔ دلّی میں میرے ایک دوست ہیں پروفیسر گوپی چند نارنگ، ان کے یہاں ہی ٹہرتا ہوں۔ اب جیسے میں وہاں ٹہرا، اگلے دن مشاعرہ پڑھ کر صبح کو لکھنو چلا جاتا تھا، والدین اور بھائی بہنوں سے ملاقات کے بعد وہاں سے پھرلندن چلا جاتا تھا۔ والدین کے انتقال کے بعد ایک بار میں اور گیا مگر اب بہت دن سے میں نہیں گیا اُدھر۔

حنا خراسانی رضوی۔۔ تعلیم تو آپ لکھنو سے حاصل کر کے آئے تھے،تو پاکستان آکر آپ نے پہلی ملازمت پی ٹی وی میں کی؟
افتخار عارف صاحب۔۔ حنا! میں نے یہاں آکر ملازمت کی تلاش جیسے ہوتی ہے،وہ پہلے میں نے بھی کی۔ وہاں لکھنؤ یونیورسٹی میں میرے استاد تھے پروفیسر احتشام حسین، صدر شعبہ اُردو، تو انہوں نے مجھے رقعے دیئے تھے بعض بزرگوں کے لئے۔ اچھا!میری ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ میں کسی کالج وغیرہ میں پڑھاؤں گا۔ اس زمانے میں کراچی میں ایک ہی یونیورسٹی تھی خواہش تھی کہ اس میں کسی جگہ ملازم ہوجاؤں گا لیکن اس میں سیشن نہیں شروع ہوا تھا اور ظاہر ہے کہ میری کوئی جان پہچان بھی نہیں تھی تو میں گیا فیض صاحب کے پاس اور سبط حسن صاحب کے پاس کراچی میں اور لاہور میں ڈاکٹر وحید مرزا صاحب مرحوم، وہ لکھنؤ یونیورسٹی سے آئے تھے، ہمارے بہت مشہور تاریخ دان، وہ اس زمانے میں اسلامک انسائیکلوپیڈیا دائرہ المعارف اسلامی جو پنجاب یونیورسٹی کا ایک ادارہ تھا، اس کے وہ سربراہ تھے۔ فیض صاحب اس زمانے میں عبداللہ ہارون کالج کراچی کے پرنسپل تھے اور سبطِ حسن صاحب،ای ایف یو، جو ایک انشورنس کمپنی تھی، اس کے سربراہ تھے۔ لیکن اس وقت مجھے کہیں کسی کالج وغیرہ میں نوکری نہیں ملی۔ اس اثناء میں میرے پیسے جوتھے، جو میں لایا تھا وہ ختم ہونے لگے اور پریشانی سی لگنے لگی کہ کیا ہوگا جب یہ پیسے ختم ہوجائیں گے۔ اچھا! یہاں میری کوئی رشتے داری بھی نہیں تھی یعنیٰ بالکل اجنبی شہر میں، میں کیا کروں گا۔ مگر میرے ایک بزرگ دوست سید یاور مہدی صاحب، جو بہت مشہور ریڈیو پروڈیوسر بھی رہے اور کنٹرولر ہوکر سبکدوش ہوئے تو یاور بھائی جواس زمانے میں ”بزمِ طلبہ“کے نام سے ایک پروگرام کرتے تھے۔وہ بیچارے مجھے ریڈیو کی گاڑی میں یا کبھی رکشے میں لیکر مختلف کالجوں میں گئے اس غرض سے کہ شاید کہیں مجھے ملازمت مل جائے مگر پھر انہوں نے کہا کہ تم چھوڑو یہ ارادہ اور ریڈیو پر کام کرو۔ انہوں نے میرا آڈیشن کرایا اور میں خبریں پڑھنے لگا بیرونی نشریات کے شعبے میں۔اُس زمانے میں ایک بلیٹن پڑھنے کے دس روپے ملتے تھے اور اگر اس کا ترجمہ بھی ہوجائے تو دس روپے مزید مل جاتے تھے۔ وہیں میری ملاقات عبید اللہ بیگ صاحب سے اور قریش پور صاحب سے ہوئی۔ اچھا پھر کیا ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد ریڈیو پاکستان میں سلیم گیلانی صاحب آگئے، جو بعد میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہوئے۔ وہ میرے محسنوں میں سے ہیں، مجھ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ وہ جب بیرونی نشریات کے شعبے کے سربراہ ہوکر آئے تو انہوں نے میرے بلیٹن بڑھا دیئے اور میری بہت تنخواہ ہوگئی اور بہت پیسے ملنے لگے۔ اچھا اس عرصے میں میری والدہ جو تھیں گھبرا کے لکھنؤ سے یہاں آگئیں کہ نوکری اس کو مل نہیں رہی اور جتنے پیسے لے کر گیا تھا یہ ختم ہوجائیں گے تو کیا کرے گا۔میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا تو انہوں نے یہاں آکر دیکھا کہ پہلے کے مقابلے میں،میں نسبتاً آسودہ حال ہوں۔ تنخواہ بھی بہت ہے تو انہوں نے میری شادی کردی۔ اچھا ہمارے یہاں پھر گیتی جو ہماری بیٹی ہیں ان کی ولادت ہوگئی اور گیتی کی ولادت کے تین چار مہینے کے بعد ملک میں ٹی وی آگیا۔
اچھا اب دیکھئے کہ سلیم گیلانی صاحب ہم تینوں کو، یعنیٰ مجھے، عبید اللہ بیگ صاحب اور قریش پور صاحب کو لیکر اسلم اظہر صاحب کے پاس گئے جو پی ٹی وی کے جنرل منیجر تھے، اور ان سے کہنے لگے کہ فارغ اوقات میں یہ تینوں لڑکے کچھ کوئز کا پروگرام کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت میری عمر تیئیس برس بھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ہم تینوں آپس میں کھیلتے رہتے تھے تو وہاں بہت سے لوگ آکر بیٹھتے تھے۔ وہیں میری ملاقات عزیز حامد مدنی صاحب سے ہوئی جو میرے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔ آغا خالد سلیم صاحب تھے اور فاروقی صاحب تھے جو بڑے سینئر لوگوں میں سے تھے۔تو اسلم اظہر صاحب نے ہمارا امتحان لیا۔ دس سوال انہوں نے ہم لوگوں سے پوچھے اور ہم نے ان میں سے سات سوالوں کے جواب دیئے۔ اس دن اتوار تھا شاید،مجھے ایسا خیال ہوتا ہے کہ اگلے دن چھٹی تھی۔ اس زمانے میں ٹی وی ایک روز بند ہوتا تھا تو اسلم اظہر صاحب نے کہا کہ کل تو چھٹی ہے، پیر ہے، آپ لوگ منگل سے یہ پروگرام شروع کردیجئے۔ چنانچہ منگل سے پروگرام (کسوٹی) شروع ہو گیا۔ اب ہمارے پاس بہت پیسے آنے لگے یعنیٰ بہت سے، سے میری مراد بالکل نہ ہونے کے مقابلے میں۔

حنا خراسانی رضوی۔۔خوب، تو اس طرح سے کسوٹی کی شروعات ہوئی اور اس کے بعد پی ٹی وی میں آپ نے ملازمت کی؟
افتخار عارف صاحب۔۔جی،اصل میں جو کسوٹی کی ٹیم تھی اس میں عبید اللہ بیگ صاحب سب سے پڑھے لکھے آدمی تھے اور بہت ہی صاحبِ مطالعہ آدمی اور بہت ہی وسیع القلب،محبت کرنے والے اور مہربان۔ قریش پور صاحب جو تھے وہ میزبانی کے فرائض انجام دیتے تھے اور ہم دونوں سوال بوجھتے تھے۔پھریہ ہوا کہ ایک دفعہ الطاف گوہر صاحب وہاں آئے ہوئے تھے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو؟ تو میں نے کہا کہ میں ملازمت تلاش کرتا ہوں، کسوٹی میں آتا ہوں اور خبریں پڑھتا ہوں تو انہوں نے کہا کہ آپ ٹی وی کی ملازمت دیکھئے۔ ابھی اس میں اشتہار آنے والا ہے تو آپ اس کے اشتہار کے مطابق درخواست دے دیجئے۔ اب کیا ہوا کہ میں نے سینئر پروڈیوسر اسکرپٹ کے لئے درخواست دے دی۔ جب انٹرویو ہوا تو پورے ملک سے لوگ اس میں آئے ہوئے تھے،اس زمانے میں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ساتھ ہوتا تھا۔اچھاٹی وی کے چار اسٹیشن تھے، لاہور، راولپنڈی اسلام آباد، کراچی اور ڈھاکہ۔ ان چار اسٹیشنوں کے لئے چار لوگ منتخب کیے تو میرا بھی انتخاب ہوگیا اور میں مختار صدیقی صاحب، شہزاد احمد صاحب، سید رضی ترمذی صاحب، یونس منصور صاحب اور وہاں ڈھاکے میں شہید اللہ قیصر صاحب۔ اب ہماری تنخواہ ذرا بڑھ گئی اور ہم نے چھوٹا سا ایک گھر لے لیا۔ پھر ستتّر(۷۷) میں، میں اس وقت سینئر ہوگیا تھا بہت۔گریڈ ۸ میں جنرل منیجر ہوتے تھے اور میں بھی آٹھویں گریڈ میں آگیا تھا پھر میں نے استعفیٰ دے دیا اور آغا حسن عابدی صاحب مرحوم و مغفور مجھے لے گئے لندن اور بی سی سی آئی میں میری ملازمت شروع ہوگئی۔
اچھا بی سی سی آئی میں جب میں گیا تو اب ظاہر ہے کہ مجھے تو کوئی سمجھ نہیں تھی اور اعداد و شمار سے گویا نفرت تھی۔ پیسے ویسے کی سمجھ مجھے آج بھی نہیں ہے اور اُس وقت بھی نہیں تھی۔ اُس وقت تو بالکل ہی نہیں تھی اب تو شاید کوئی چیک وغیرہ لکھ لیتا ہوں۔لیکن اس زمانے میں جاننے کی اتنی ضرورت بھی پیش نہیں آتی تھی چنانچہ آغا حسن عابدی صاحب نے مجھ کو نیویارک بھیج دیا اورکولمبیا یونیورسٹی میں میرا ایک سینئر مینیجمنٹ کورس میں داخلہ کرادیا۔ تو وہاں میں نے کچھ دن گزارے اور میں نیویارک میں بی سی سی آئی کے دفتر میں بیٹھتا تھا۔وہاں سے لندن واپس آیا تو انہوں نے اور الطاف گوہر صاحب نے جو اس کے ٹرسٹی تھے اور ابن حسن برنی اور صالح نقوی صاحب نے وہاں اردو مرکز قائم کیا تھا۔ فیض صاحب نے اس کا افتتاح کیا اور وہیں لندن کے قیام کے زمانے میں ہی میری پہلی کتاب چھپی تھی” مہرِ دونیم “، دلّی سے بھی اور کراچی سے بھی چھپی۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ شاعری کا آغاز آپ نے کس عمر سے کیا؟
افتخار عارف صاحب۔۔حنا! شاعری میں نے طالبعلمی کے زمانے میں شروع کردی تھی۔خراب شعر کہتا تھابالکل،جیسے طالبعلم کہتے ہیں لیکن میں خود ہی کہتا تھا۔ میں نے کسی کو کوئی غزل وزل دکھائی نہیں حالانکہ لکھنو میں توہر محلے میں دس بیس شاعر تو ضرور ہی ہوتے تھے۔وہاں گھر کی خواتین بھی شعر کہہ لیتی تھیں اور بغیر پڑھے لکھے لوگ بھی۔ لوگ جن کو کہتے تھے ”امّی شعراء“ یعنیٰ وہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے تھے مگر وہ شعر کہنے پر قدرت رکھتے تھے۔تومیں بھی کرتا تھاموضوع طبعی آپ اسے کہئیے، شاعری نہ کہیئے۔ تک بندی جسے کہتے ہیں کہ جوڑ لیے کچھ اور اپنے کسی استاد کے خلاف شعر کہہ دیئے،دوستو میں کسی سے خوش ہوگئے تو اس پر شعر کہہ دیئے، کسی سے ناراض ہوگئے تو شعر کہہ دیئے۔ کہیئے کہ جیسے شغل کے طور پر۔ مگر جب ہم پاکستان آئے ناتو اب ہمارے حالات جو تھے وہ جیسے میں نے عرض کیا ناکہ جو بہت شروع کے چھ مہینے تھے وہ دشوار گزرے بہت۔ گزرنے ہی تھے ظاہر ہے فوراً ہی تو نوکری نہیں مل جاتی۔ کچھ نہ کچھ تو ادھر ادھر تلاش کرنی پڑتی ہے اور پھر ہم تویعنیٰ میرے والدین اور میرا خاندان غریب گھرانے سے تھے تو ہماری تو کوئی جان پہچان بھی نہیں تھی،نہ بیوروکریسی میں نہ سیاست میں۔ تو خود ہی جو کچھ ہونا تھاوہ ہونا تھا لیکن اللہ کا بہت شکر رہا کہ میں نے پچپن۵۵ سال ملازمت کی، پچھلے برس تک میں کام کررہا تھامقتدرہ قومی زبان کے سربراہ کے طور پر میں فارغ ہوااور اب میں گھر آگیا۔اور میں گھر آیا ہوں اور گھر کا ہورہا ہوں اس لئے کہ سال بھر سے کرونا کا قصہ ہے۔ توآنا جانا بھی نہیں ہوتا کہیں۔ گھر پہ ایک طرح کی کورنٹین ہے، تو یہاں رہتا ہوں۔

حنا خراسانی رضوی۔۔افتخار صاحب ابھی آپ نے کہا کہ پچپن سال آپ نے خدمات انجام دیں مختلف اداروں میں کام کیا،مقتدرہ میں اکادمی ادبیات میں، ریڈیو میں، ٹی وی میں، بنک میں، تو یہ بتائیے کہ ان میں سے کون سا ادارہ ایسا تھا کہ جہاں پر آپ کو کام کرکے لگا کہ یہاں پر میں مطمئن ہوں؟
افتخار عارف صاحب۔۔ حنا دیکھئے! جیسے میں نے آپ سے ابھی عرض کیا کہ میں تو استاد بننا چاہتا تھااور وہ میں نہیں ہوسکا۔ اچھا کیا ہوا کہ جب میری شہرت ہو گئی کسوٹی کی اور ٹی وی کے پروگراموں میں بہت سے لوگ آنے لگے،بزرگ بھی آنے لگے اور وائس چانسلر بھی اور کالجوں کے پرنسپل بھی تو مجھے کہا گیا کہ میں اب یونیورسٹی چلا جاؤں یا کسی کالج میں اپنے شعبے میں چلا جاؤں۔ تواس وقت میری تنخواہ اتنی ہوگئی تھی کہ میں کسی کالج میں نہیں گیا۔ پھر یہ کہ مجھے ریڈیو اچھا لگا، ٹی وی اچھا لگا اور اس میں سب سے جو اہم بات تھی، میں نے دیکھا کہ جو ٹی وی کی ملازمت تھی میری وہاں میں اسکرپٹ ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ ہوگیا تھایعنیٰ جوانی میں ہی،تیئیس برس (۳۲) کی میری عمر تھی۔ تو میں کراچی ٹی وی کے شعبہ مسودات کہہ لیجئے یااسکرپٹ ڈیپارٹمنٹ، اس کا میں نگران ہوگیا تھااور وہاں لائبریری بھی میرے پاس تھی اور خطاطی وغیرہ کے شعبے بھی میرے پاس تھے۔ تو مجھے بہت اچھا لگا۔ اب دیکھئے میں کہوں کہ مجھے اچھا نہیں لگتا تھاکہ میں چھوٹی سی عمر میں ایک بڑے ادارے میں گویا نسبتاً اچھے عہدے پر فائز ہوگیا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہے کہ میں اکتیس برس کا تھا جب میں لندن گیا اور وہاں میری تنخواہ بہت تھی۔بی سی سی آئی میں عام طور پر لوگوں کی جو تنخواہیں ہوتی تھیں مجھے اس سے بھی زیادہ تنخواہ ملتی تھی۔ بی سی سی آئی میں اور پکاڈلی میں گویامرکزی علاقے میں ہمارا بہت شانداردفتر تھا۔ وہاں ہم نے ایک لائبریری قائم کی تھی۔اردو کی کتابیں اس میں رکھی گئیں تھیں اورخدیجہ مستور صاحبہ کے نام سے وہ لائبریری قائم تھی۔اچھا اردو مرکز میں کوئی اُردو دنیا کا ایسا بڑا آدمی نہیں تھا جو وہاں نہ آیا ہو، ہندوستان سے آل احمد سرور صاحب، گوپی چند نارنگ صاحب، شمس الرحمان فاروقی صاحب، قرۃ العین حیدر صاحبہ، سردار جعفری صاحب، کیفی اعظمیٰ صاحب، مہندر سنگھ بیدی صاحب،شارب رضالوی صاحب، محمود ہاشمی اور خلیق انجم یہ سب وہاں تشریف لاتے تھے اور پاکستان سے تو آپ جس کا بھی نام لیجئے کہ جیسے جمیل جالبی صاحب، وزیر آغا صاحب، احمد ندیم قاسمی صاحب ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، عبداللہ حسین، احمد فراز، شہرت بخاری، فارغ بخاری اور ہمارے نوجوان دوستوں میں امجد، عطا، حسن، خالد احمد، عبید اللہ علیم، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر یہ سب وہاں تشریف لاتے تھے۔ باہر کے لوگوں میں جیسے ڈاکٹر فرانسس مشل، پروفیسر این میری شمل، روس سے چنگیز اعتما طوف، رسول حمزہ طوف، انا سوا رووا، لدمیلا وسیلیوا، اور دوسرے ملکوں کے جو اُردو کے لوگ تھے وہ بھی وہاں تشریف لاتے تھے۔یہ ادارہ بھی گویا مجھے بہت عزیز تھا جہاں میں نے یہ اُردو کی خدمت کی۔پھر جب بینظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت ضیاء الحق صاحب کے بعد آئی تو مجھے یہاں بلا لیا گیا۔ میں آگیااور مجھ کو اکادمی ادبیاتِ پاکستان میں اور رائٹرز اور اسکالرز فاؤنڈیشن میں ڈائریکٹر جنرل مقرّر کیا گیا۔ اس زمانے میں میری چھوٹی عمر تھی یعنیٰ اس کے مقابلے میں جو اب ہوں اور میں گریڈ اکیس میں آگیا تھا۔ اس کے بعد بی بی (بینظیر بھٹو)جب دوسری دفعہ آئیں تو مجھے انہوں نے مقتدرہ قومی زبان کا چیئرمین مقرّر کردیا ڈاکٹر جمیل جالبی کے بعد۔ تو آپ سمجھئے کہ مقتدرہ قومی زبان کا میں تین دفعہ چیئرمین مقرّر کیا گیا۔ پھر اکادمی ادبیات پاکستان کا میں چیئرمین مقرّر کیا گیا اور کچھ دیر میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کا بھی سربراہ رہا۔ ستر برس کی عمر میں جب میں نے استعفیٰ دیا تو پھر مجھے، پہلے تو کہا گیا کہ کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی ہے اس میں وائس چانسلر ہوکر چلا جاؤں۔ اُس زمانے میں وہاں سیاست بہت تھی تو میں نے ان سے گزارش کی اور کہا کہ میں وہاں نہیں جاؤنگا تو پھر مجھے،آصف زرداری صاحب کا زمانہ تھا، وہ صدر تھے مملکت کے اور سلمان فاروقی صاحب ان کے سیکریٹری تھے۔ تو فاروقی صاحب نے مجھ سے کہا کہ اچھا تو پھر آپ ”ای سی او آئی سی“ کے صدر ہوکر تہران چلے جائیں۔ وہ ایک طرح کا سفارتی طور پرایک اعلیٰ عہدہ تھا جو دس ملکوں کا ایک ادارہ تھا جیسے سارک ہے، یونیسکو ہے، اس طریقے کا ادارہ تھا۔ وہاں مجھ سے پہلے سات ایرانی صدررہ چکے تھے لیکن میں پہلا غیر ایرانی صدر تھا۔ یعنیٰ پاکستان سے میں وہاں گیا تھا۔ اچھا! بیچ میں، میں ” نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویج“ جو ہے زبانوں کا ادارہ، اس میں مجھ کو انہوں نے پروفیسر مقرّر کردیا تھا، دونوں ملازمتوں کے دوران، اُردو اور ہندی کے شعبے میں۔ یہاں میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں اس بیان سے کہ غالب نے کہا ہے نا! جو آدمی کا شوق ہو اگر وہی اس کا ذریعہ معاش ہوجائے تو اس سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں۔توحنا! بچپن سے میرا رجحان تھا کہ کتاب پڑھوں، کتاب کا کام کروں، درس و تدریس سے وابستہ رہوں، ادب سے نسبت ہو،تو پروردگار عالم نے اتنا کرم فرمایا مجھ پر کہ میری تما م ملازمتیں گویا کتاب کے اطراف میں رہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن ہو یا اُردو مرکز لندن ہو یا اکادمی ادبیاتِ پاکستان ہو، نیشنل بک فاؤنڈیشن ہو، مقتدرہ قومی زبان، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ہو، جہاں جہاں میں نے ملازمت کی کتاب اس کا گویا مرکز و محور تھی۔تو اللہ نے مجھ پر بہت کرم فرمایا کہ مجھے اس سے جوڑے رکھا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔واہ کیا بات ہے! اور یقیناً ان اداروں پر بھی کرم ہوا کہ آپ جیسی یگانہ روزگار شخصیت ان کو ملی۔
افتخار عارف صاحب۔۔عنایت! دیکھئے کیونکہ آپ کا پروگرام نوجوان دیکھتے بھی اور پڑھتے بھی ہیں آپ کے رسالے کو تو میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں پاکستان ہندوستان میں ایک یہ رویہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہیں تو پھر کتاب نہیں پڑھتے۔ عمومی طور پر، میں سب کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں، استشنیٰ ہوتے ہیں مگر فرض کیجئے کہ کسی نے اگر ایم اے کرلیا ہے خاص طور پر یہ جو ہیومینیٹیز کے جو علوم ہیں یا اگر آپ نے فرض کیجئے سوشیالوجی میں ایم اے کیا ہوا ہے اور آپ نے کوئی ملازمت کرلی ہے تو اب کوئی کتاب نہیں پڑھیں گے،جب تک مجبوری نہیں ہوگی۔ آغا حسن عابدی صاحب نے ” بی سی سی آئی“ کی ترقی کا اور”یو بی ایل“ کی ترقی کا ایک راز، انہوں نے چھوٹا سا پیپر لکھا تھا اس کو کہتے ہیں وہ ایروگنس آف ایچیومنٹس Arrogance of Achievement
کہ بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ آپ کسی چھوٹی سطح پر یاکمتر سطح پر کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ آگے بھی اس میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔ فرض کیجئے کہ آپ پہلے اسسٹنٹ لیکچرر مقرّر ہوئے۔ اسسٹنٹ لیکچرر کے طور پر آپ کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ آپ نے کلاس لیے اپنے اور پھرآپ فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد آپ پڑھ رہے ہیں یا نہیں پڑھ رہے ہیں لیکن آپ کی ذمہ داریاں گویا کلاس تک ہیں۔ پھر فرض کیجئے کہ ریڈر ہوگئے، اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے، پھر آپ پروفیسر ہوگئے پھر صدرِ شعبہ ہوگئے، پھر ڈین ہوگئے، ڈین سے آپ وائس چانسلر ہوگئے۔یا کوئی رپورٹر ہے، پہلے وہ سٹی میں آگیا اورسٹی ایڈیٹر ہوگیا، پھر نیشنل ایڈیٹر ہوگیا، اس کے بعدایڈیٹر ان چیف ہوگیا۔ تو آغا صاحب یہ فرماتے تھے کہ ضروری نہیں ہے کہ اگر کوئی آدمی بحیثیتِ رپورٹر کے بہت کامیاب ہے تو وہ وائس چانسلر بھی بہت اچھا ہوگا۔ ہر نئی ذمہ داری آپ سے تقاضہ کرتی ہے کہ آپ نئے طور پر اپنے آپ کو نئے جو چیلنج ہیں، نئی جو ریکوائرڈ اسکلز ہیں ان کو آپ حاصل کریں۔ چنانچہ جیسے میں یہاں سے فارغ ہوا تو میری تو بڑی شہرت تھی، مقبولیت تھی، سب کچھ تھا مگر آغا حسن عابدی صاحب نے مجھے میڈیا مینیجمنٹ کورس کے لئے امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں بھیجا۔ وہاں جو بھی تھوڑا بہت میں نے سیکھا اس کو واپس آکر اپنی ملازمت میں اپلائی کیا۔ چنانچہ میں نے بڑی محنت کی۔ دیکھئے ایک بات میں آپ سے عرض کروں! ساری زندگی پروردگار عالم لوگوں کو توفیقات سے نوازتے ہیں۔ اچھا اگر آپ کو اپنی توانائیوں کا اندازہ ہے تو آپ پھر محنت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو آمادہ کرتے ہیں۔ میں نے اپنے اداروں میں بہت کام کیا یعنیٰ اگر آپ فہرستیں بنوائیں کہ میں نے مقتدرہ میں کیا کام کیا یا اکادمی میں کیا کام کیا یا ایران میں میں نے کیا کام کیا اور ٹی وی میں میں نے کیا کام کیا تو آپ کو شاید اندازہ ہوگا کہ میں نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا اور!اللہ نے مجھے ایک نعمت یہ بھی دی تھی کہ ہماری شادی جلدی ہوگئی تھی تو ہمارے دو بچے تھے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور دونوں کی جلدی شادیاں ہوگئی تھیں یعنیٰ میں ابھی چالیس کا ہی تھا کہ ان کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ گیتی ابھی یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں کہ ان کا نکاح ہوا اور جب یونیورسٹی سے فارغ ہوئیں تو رخصت ہوگئیں چناچہ ہماری ذمہ داریاں جو تھیں وہ کم تھیں۔ گھر جو تھا وہ بیگم صاحبہ دیکھتی تھیں اور میں اپنے کام میں لگا رہتا تھا۔ وہ گھریلو خاتون ہیں تو وہ بالکل اس طرح کی ذمہ داریاں گھر اوراپنے بچوں میں مصروف رہیں۔ اب لندن میں تو زندگی اور طرح کی ہوتی ہے وہاں تو جو ایشیائی گھرانے ہیں، جیسے اب آپ سویڈن میں ہیں، وہاں کی جو زندگی ہے وہ کراچی اور لاہور کی زندگی سے تو مختلف ہے۔ وہاں تو آپ کی چھوٹی سی کمیونٹی ہے اسی میں آپ کبھی مہینے میں ایک دفعہ یا دو دفعہ ملتے ہیں۔ بہت قریبی عزیز وہاں ہوئے تو اور بات ہے وگرنہ آپ یا کام پر ہوتی ہیں یا گھر پر ہوتی ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ جی بالکل ایسا ہی ہے۔اچھا جیسا کہ آپ نے کہا کہ ہر کام یا جو بھی عہدہ آپ کو ملتا ہے، جو بھی آپ کے ذمےّ ہے اس کو صحیح طرح سے کرنابھی بہت بڑی ذمہ داری ہے تو مقتدرہ قومی زبان اور اُردو اکادمی ادبیات میں توماشاء اللہ آپ نے بہت کام کیے مگر میں آپ کی اس کوشش کے بارے میں جاننا چاہوں گی جو اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے لئے آپ نے کی؟
افتخار عارف صاحب۔۔ دیکھئے! اس میں ایسا ہے کہ مجھ سے پہلے بھی جو لوگ تھے انہوں نے بھی بڑی کوششیں کیں مثلاً مجھ سے پہلے جمیل جالبی صاحب تھے۔ انہوں نے بہت کام کیا۔ ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے بہت کام کیا۔ اشتیاق حسین قریشی صاحب تھے، انہوں نے بھی کام کیا۔اشتیاق حسین قریشی صاحب کا کراچی میں دفتر تھا تو وہ شروع کے دن تھے اور ان کی عمر بھی ایسی نہیں تھی کہ وہ کوئی بہت زیادہ محنت کرسکتے لیکن یہ جو ہمارے دونوں بزرگ تھے اُنہوں نے بڑی محنت کی۔ اچھا اب کیا ہے کہ بعض اوقات ہم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ یہ جو فیصلہ ہے کہ اُردو نافذ کیسے ہوگی؟ یہ کوئی ادارہ نافذ نہیں کرسکتا۔ یہ حکومتوں کے کرنے کا کام ہے۔ ہم تو یہ کرسکتے ہیں کہ وہ سہولتیں فراہم کردیں جس میں اُردو کا نفاذآسان ہوجائے۔ پاکستان میں اور بھی بہت سے مسائل ہیں اور یہ کوئی بہت ہی اسٹریٹ فارورڈ صورتِ احوال نہیں ہے کہ انگریزی کے سلسلے میں انگلینڈ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے یہاں پاکستان میں اس وقت چھتّر(۶۷) زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اب وہ ۶۷ زبانوں میں آپ کسی زبان والے سے یہ کہیں کہ بھئی آپ کی جو زبان ہے وہ تو صرف دس لاکھ آدمی بولتے ہیں یا آپ کی زبان شاید بیس ہزار آدمی بولتے ہیں تو ٹھیک بات نہیں۔ کوئی زبان کمتر نہیں ہوتی اس لئے کہ زبانیں جو ہوتی ہیں وہ تہذیبوں کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ان کی حفاظت کرتی ہے اورایک نسل سے دوسری نسل تک تہذیب اور روایت کو منتقل کرتی ہے۔ تو اس قبیلے کے لئے جس کی فرض کیجئے کہ زبان بلتی ہے یا کسی کی زبان براشسکی ہے یا کھوار ہے تو اس کے لئے اس کی مادری زبان سب سے زیادہ اہم ہے اس کی حفاظت کرنی چاہیئے۔ اسی طریقے سے بعض زبانیں جو ہیں ان کے بڑے علاقے ہیں جیسے پنجابی زبان کا علاقہ بہت بڑا ہے اور سندھی کا علاقہ بہت بڑا ہے۔ خیبرپختونخواہ کا اپنا علاقہ ہے۔ بلوچستان کا اپنا علاقہ ہے اور اُردو کے مقابلے میں ان سب زبانوں کی عمریں زیادہ ہیں۔ اُردو، اُن میں سب سے کم عمر زبان ہے لیکن اس کی ایک اہمیت ہے اور وہ یہ کہ یہ ہماری قومی زبان ہے۔ قومی زبان کے لئے ایک شرط، لنگوا فرانکا Lingua Francaہونا ہوتی ہے یعنیٰ ایک ایسی زبان جسے سب لوگ سمجھ سکیں۔ تو پاکستان کے لئے اُردو ہی وہ زبان تھی کہ جس میں سب لوگ ایک دوسرے سے بات کرسکتے تھے، تبادلہ خیال کرسکتے تھے۔ تقسیم سے پہلے کی صورت حال یہ تھی کہ جو مدراس کا آدمی تھا یا جو حیدرآباد دکن کا آدمی تھا وہ تیلگو بولتے تھے، کنڑ بولتے تھے، ملیالم بولتے تھے، بنگال کے آدمی بنگالی بولتے تھے، مختلف زبانیں بولتے تھے مگراب میں سندھ سے خیبر پختونخواہ آجاؤں تو پھر میں سندھی میں ان سے گفتگو نہیں کرتا یا بلوچی میں گفتگو نہیں کرتا پھر میں اُردو میں کرتا ہوں۔
ایک بات یہ ہوئی۔ مگر ہوا کیا کہ یہ سیاست کی نظر ہوگئی۔ اہلِ سیاست نے اس کو ایک نزاعی مسئلہ بنا دیا اور سول سروس نے اس میں اہلِ سیاست کا ساتھ دیا۔ کیونکہ سول سروس کی بقاء کا دارومدار انگریزی زبان پر تھا، اس لئے کہ یہ جو سول سرونٹس ہیں یہ انڈین ایڈمنسٹریٹر سروس جو تھی اس کے ولی عہد ہیں یعنیٰ اس کی وراثت اب ان کو منتقل ہوگئی۔ پہلے جو حکمران تھے وہ انگریزی بولتے تھے تو اب جو طبقہ یہ بنا بیوروکریسی کا، جس کو آپ سول سروس کہتے ہیں، یہ ان کے وارث ہیں۔ چنانچہ یہ انگریزی میں ہی سب لکھتے پڑھتے ہیں۔ اچھا! یہ ایک باقاعدہ روک بنتے ہیں اور نافذ ہونے میں سیاست دانوں سے زیادہ بیوروکریسی جو ہے وہ نہیں چاہتی اور وہ استعمال کرتی ہے۔ دیکھئے! جدید علوم کے حصول کے لئے انگریزی لازم ہے اس لئے کہ تاریخ کا بالکل سرسری مطالعہ کرنے والے بھی یہ بات جانتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا کہ جب یونانی غالب تہذیب تھے تو گریک لینگویج ساری دنیا میں پڑھی اور بولی جاتی تھی۔اسی طرح لاطینی زبان کا زمانہ آیا اور پھرہمارے یہاں عربی کا نفاذ ہوا، جب مسلمان پھیل گئے۔ اب آپ دیکھئے! آپ کے سامنے ہے کہ حجاز سے اسلام عراق میں آیا، اردن میں آیا، شام میں آیا،مصر میں آیا،اور یمن میں آیا تو حجازِ مقدس کی جو زبان تھی وہ ان کی زبانیں نہیں تھی۔ مصر کی تو اپنی زبان تھی، تیونیس کی یا الجیریا کی اپنی زبان تھی۔ اسی طرح عراق کی، شام کی اردن کی اپنی زبانیں تھیں مگر کیونکہ غالب تہذیب تھی عربوں کی تو وہ وہاں منتقل ہوئی مگر ایران نے مزاحمت کی۔ اپنی فارسی کو باقی رکھا اور عربی کا حصول بھی جاری رکھا چناچہ آپ اس وقت بھی ایران تشریف لے جائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہاں ایک طبقہ ہے جو عربی بھی جانتا ہے اور فارسی بھی جانتا ہے۔
اچھا پھر دیکھئے، اسی برصغیر میں سارا کاروبار جو تھا وہ فارسی میں چلتا تھا۔ یہ جو افغانستان کا علاقہ ہے یہ پہلے خراسان بزرگ کہلاتا تھا،یہاں بھی فارسی بولی جاتی تھی۔ اوپر تاجکستان میں سب لوگ فارسی بولتے تھے۔ حد یہ ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ میں بڑی حد تک فارسی بولی جاتی تھی،ان کے ایڈمنسٹریشن میں۔لیکن اب دنیا کی زبان بدل گئی اور علوم کی زبان جو ہے وہ انگریزی ہے۔ جدید علوم کے لئے انگریزی پڑھنا لازم ہوگیا ہے لیکن یہ دیکھا جانا چاہیئے کہ انگریزی، علوم کے حصول کے لئے ٹھیک ہے،اس حد تک میں بالکل قائل ہوں کہ انگریزی زبان پڑھائی جانی چاہیئے ورنہ آپ پیچھے رہ جائیں گے دنیا میں، سائنسز میں ٹیکنالوجی ہے، اسپیس ٹیکنالوجی ہے میڈیکل سائنسیز کے علوم ہیں اور پھر اس لئے کہ ایجادات وہاں ہورہی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ان سے لاتعلق رہیں۔ لیکن جو زندگی کا کاروبار ہے،دیکھئے پاکستان میں اس وقت سو کے قریب چینل ہیں یہاں پر انگریزی کا چینل لانے کی دو تین کوششیں ہوئیں۔ ڈان جیسا اخبار پاکستان میں نہیں تھا کوئی اور ابھی بھی نہیں ہے انہوں نے انگریزی چینل لانچ کیا مگر اس کو بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس لئے کہ وہ جسے انگریزی میں کہتے ہیں وائبل نہیں تھا۔ اچھا نوےّ بانوے فیصد اخبارات جو ہیں اس ملک کے وہ اُردو میں چھپتے ہیں۔ اُردو کے بعد نمبر آتا ہے سندھی زبان کا۔ پنجابی میں بمشکل دو تین اخبار چھپتے ہیں اور وہ بھی سمجھئے اس قدر کہ ہر سطح پر نہیں پڑھے جاتے اور یہی حال بلوچی زبان کا اور براہوی زبان کا ہے کہ بہت زیادہ کتابوں کی اشاعت وغیرہ نہیں ہوتی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ان زبانوں کو نظرانداز کریں۔ اور یہ ہماری اور تمہاری زبان نہیں ہیں پاکستان کی زبانیں ہیں، بلوچی بھی ہماری ہے، پنجابی،سندھی سب پاکستان کی زبانیں ہیں اور ان کا احترام بھی کیا جانا چاہیئے۔ان کا تحفظ کیا جانا چاہیئے، ترویج کی جانی چاہیئے اور ان کو اپناناچاہیئے۔ابھی میرے بچپن تک یعنیٰ آپ کی نسل تو بہت بعد کی ہے،ہماری اور آپ کی نسل کے درمیان بھی دو تین نسلیں ہونگی لیکن میری نسل تک سب کو فارسی پڑھنی پڑھتی تھی۔ ہم سب فارسی پڑھتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم جب بڑے ہوئے مدرسے میں داخل کرادیا گیا۔ وہاں آمد، آمدن، آمدی، آمد شد است کرتے رہتے تھے۔ رٹہ لگاتے رہتے تھے۔ پھر قرآن شریف پڑھایا جاتا ہے سب کو۔ سب عربی پڑھنے کی حد تک جانتے ہیں۔
اچھا ساؤتھ ایشیا ہمیشہ سے بائیو لنگل ہے۔ دیکھئے فارسی بولی جاتی تھی، عربی پڑھ لیتے ہیں، اُردو پڑھ لیتے ہیں آپ، پنجابی پڑھ لیتے ہیں آپ، سرائیکی پڑھ لیتے ہیں آپ، سندھی پڑھ لیتے ہیں جو ہمارے سندھ کے لوگ ہیں۔ خیر پور میں سکھر میں حیدرآباد میں جو لوگ رہتے ہیں۔ کراچی والے نہیں پڑھتے لیکن ہمارے سندھ کے علاقوں میں جو لوگ آباد ہیں، چاہے وہ کہیں کے بھی ہوں سب سندھی جانتے ہیں اور سندھی پڑھ لکھ لیتے ہیں۔کوئی اس میں اختلاف نزاعی مسئلہ نہیں ہے، فراخ دلی کی ضرورت ہے، وسعتِ نظر کی ضرورت ہے اور ایک استدلال کی ضرورت ہے کہ بھئی اگر چین میں انگریزی کے بجائے ساری تعلیم چینی زبان میں ہوتی ہے یا یا جاپان میں جاپانی میں ہوتی ہے۔ انگریزی سب جانتے ہیں لیکن جو سرکاری زبان ہے وہ ان کی چینی یا جاپانی ہے۔
اب دیکھئے! چینی زبان میں بہت سے لہجے اور بہت سی شاخیں تھیں مگر انہوں نے اسٹینڈرڈائزدڈکردیا ماندرین کو۔ سب جگہ وہی استعمال ہوتی ہے تو اگر کشادہ دلی سے کام لیا جائے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ دیکھئے قائداعظم علیہ رحمہ نے بھی اور اس سے پیشتر،پاکستان بننے کے بعد یہ اُردو کا قصہ نہیں ہے،آل انڈیا مسلم لیگ کی قراردادوں میں سے چلا آرہا ہے کہ اُردو جو ہے پاکستان کی جو نئی سلطنت بنے گی، جو ملک قائم ہوگا اس کی زبان اُردو ہوگی۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ جو تہتّر کا دستور ہے،اس کے اوپر پورے پاکستان کا اتفاق ہے اور اس میں باقاعدہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہوگی۔ اور وہی جو ہے سرکاری زبان ہے کوئی کسی قسم کا ابہام (Ambiguity) نہیں ہے لیکن بیورو کریسی جو ہے وہ اس میں خاموشی سے روڑے اٹکائے رہتی ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔تو کیا کوئی امید رکھی جاسکتی ہے کہ کبھی ایسا وقت آئے گا کہ اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو جائے، آپ کا کیا خیال ہے؟
افتخار عارف۔۔ اب حنا! دوسری بات یہ ہے کہ اُردو کے لئے نافذ کا لفظ استعمال کرتے ہیں،تونافذ تو اوپر سے مسلط کی جاتی ہے۔ ایک تو یہ لفظ جو ہے، ایک حکمرانی اور تمکنت کا اس میں اظہار ہے۔ نہیں، ہمیں اُردو کے رواج کو بڑھانا چاہیئے، اس کی ترویج کرنی چاہیئے۔ کون سا شہر اور کون سی جگہ ہے پاکستان کی جہاں اُ ردو نہیں بولی جاتی۔دیکھئے تمام علماء جو ہیں وہ مذہبی خطابات و بیانات اُردو میں ہی دیتے ہیں۔سیاست دان ایک دوسرے کو گالی کسی اور زبان میں نہیں دیتے۔ وہ انگریزی بولتے ہیں مگر گالی انگریزی میں نہیں دیتے۔ برا بھلا کہنا ہوتا ہے ایک دوسرے کو تو وہ اُردو میں برا بھلا کہتے ہیں۔اسی طریقے سے آپ سارے چینل دیکھئے، جتنے اشتہارات ہیں اُردو میں ہیں۔ اب تو یہ بالکل ایک خالص مادی مسئلہ ہے کہ اشتہارات اُردو میں جاری کیے جاتے ہیں اخباروں میں رسالوں میں اور دوسری جگہوں پر۔مجھے تو اس میں کوئی ذرہ برابر اندیشہ نہیں ہے کہ اُردو دن بہ دن ترقی کررہی ہے۔ آپ حساب لگائیے ۷۴۹۱ء کے مقابلے میں پاکستان میں اُردو زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ جی! ہم یہاں پردیس میں رہتے ہیں تو یہاں بھی پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ ہیں، پنجاب سے، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے۔ ہم جب آپس میں ملتے ہیں تو سب ایک دوسرے سے اُردو ہی میں بات کرتے ہیں۔
افتخار عارف صاحب۔۔ حنا! مجھے نہیں معلوم کہ آپ کب سے یورپ میں ہیں،لیکن دیکھئے ہمارے خلاف وہاں ایک سازش بھی پھیلائی گئی۔ اور وہ سازش یہ تھی کہ ایک خاص طرح کے سروے کرائے گئے۔ آج سے پچاس سال پیشتر کسی آدمی سے جب پوچھا جاتا تھا کہ آپ کی زبان کیا ہے؟ وہ کہتا تھا اُردو اور ہندوستانی والا کہتا تھا ہندی۔ اب جو ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ آپ کی مادری زبان کیا ہے؟ وہ کہتا ہے مادری زبان پنجابی، مادری زبان سندھی۔ دیکھئے یہ سروے باقاعدہ سازش کے تحت ارینج کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ فائنل کیلکولیشن کرتے ہیں تو آپ کے بولنے والے کی تعداد نسبتاً کم نکلتی ہے۔ میں تو انگلینڈ کے تجربے کے مطابق یہ بات کہہ رہا ہوں، پھر اور طرح طرح کی سازشیں ہوتی ہیں۔مثلاً انگلینڈ میں رہائش کے زمانے میں، میں کسی کمیٹی کا رکن ہوگیاتو میں ایک انٹرویو میں گیا۔ اچھا ظاہر ہے میں نے وہاں جاکر کہا کہ وہ اشتہار دکھائیے جس کی بنیاد پر آج کے پنجابی زبان کے انٹرویو ہورہے ہیں تو انہوں نے مجھے جو اخبارات میں اشتہارات چھپے تھے وہ دکھائے تو میں نے کہا اس اشتہار کی بنیاد پر تو کوئی پاکستانی آپ کا استاد منتخب نہیں ہوسکتا۔تو جو انگریز چیئر کررہے تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ اس کی وضاحت کریں گے؟ میں نے کہا کہ آپ نے اشتہار میں لکھا ہوا ہے
preference will be given to those teachers who speak Gurmukhi.
تو ہماری پنجابی کا آدمی وہاں پنجابی کا بھی استاد نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ ہماری جو پنجابی ہے وہ شاہ مکھی کہلاتی ہے اور وہ جو پنجابی ہندوستان میں بولتے ہیں وہ گرمکھی کہلاتی ہے۔ وہ ہندی یعنیٰ دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور ہماری جو ہے وہ عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔تو پھر انہوں نے اس انٹرویو کو موخر کیا۔ یعنیٰ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ انہوں نے ایشیو بنایا اس کو۔
دوسری بات یہ کہ باقاعدہ کانسٹی ٹیوشن میں لکھا ہوا ہے کہ صوبائی اسمبلی جو ہیں ان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے صوبے کا کاروبار جس بھی زبان میں چاہیں وہ چلا سکتی ہیں۔ کوئی ان کو روک نہیں سکتا۔ میں آپ سے عرض کروں بلوچستان میں جب پہلی جمہوری حکومتیں آئیں یعنیٰ جب مینگل صاحب کا زمانہ تھا یا غوث بخش بزنجو مرحوم کا،جو ہمارے بزرگ دوست تھے، تب اُردو میں سارا کاروبار چلتا تھا۔ بالکل یہی قصہ خیبرپختونخواہ میں مفتی محمود صاحب علیہ رحمہ، فضل الرحمٰن صاحب کے والد ماجد کے دور میں بھی سب اُردو میں کام ہوتا تھا۔آج اس میں سیاست تو ضرور ہوگی لیکن یہ گفتگو اور مکالمے سے حل ہوسکتا ہے معاملہ۔ اچھا دوسری طرف یہ کہ ہمارے یہاں ایک رجحان ہوگیا ہے یہ آدمی جو ہے اس کا لب و لہجہ غلط ہے یا اس نے یہ لفظ غلط بول دیا۔ یہ جو رویہ ہے، انگریزی میں اس کے لئے ایک لفظ ہے
Linguistic Imperialism
اس پر ہمیں غور کرنا چاہیئے کہ جب آپ اس طرح نقص نکالیں گے تو جو آپ کی زبان سیکھ بھی رہا ہوگا تو نہیں سیکھے گا۔آپ کی کوئی د لیل بھی ہوگی تو وہ نہیں مانے گا۔تو فراخدلی چاہیئے اور دونوں طرف چاہیئے۔ ان کو بھی یعنیٰ اُردو بولنے والوں کو بھی چاہیئے اور دوسری زبانیں بولنے والوں کو بھی چاہیئے کہ سب کی مادری ز بانوں کا احترام ہو، ان کو ترقی و ترویج کے، احیاء کے فروغ کے یکساں مواقع ملنے چاہیئے۔

حنا خراسانی رضوی۔۔ افتخار صاحب!یہ تو ہم جانتے ہیں کہ اُردو میں فارسی، عربی، ہندی اور ترک زبانوں کے الفاظ شامل ہیں لیکن یہ بتائیے کہ کیا اُردو میں ہماری علاقائی زبانوں کا بھی اثر ہے؟ اور دوسری بات یہ کہ علاقائی زبانیں بولنے والے جیسے پنجابی، پشتو، بلوچی اور سندھی بولنے والے اُردو میں اپنے لہجے بھی لے آتے ہیں تو اس سے اُردو پر یا اس کے تلفظ پر کوئی فرق پڑتا ہے؟
افتخار عارف صاحب۔۔ دیکھئے! میں جوزبان بول رہا ہوں آپ یقین کیجئے کہ میری ہمشیرہ مرحومہ جو تھیں وہ میرے لب و لہجے میں گفتگو نہیں کرتی تھیں۔ میرے سامنے اگر کوئی زبان بول رہا ہو تو میں بتا سکتا ہوں کہ یہ حیدرآباد دکن سے آیا ہے کہ یہ لکھنو کا آیا ہوا ہے کہ دلّی کا آیا ہوا ہے۔ ہے نا! کیا ایسا نہیں ہے کہ امریکی جو لب و لہجہ ہے انگریزی کا وہ برطانیہ سے بالکل مختلف ہے۔ اب جو یو۔کے ہے، جس کو ہم کہتے ہیں یونائیٹیڈ کنگڈم۔ آپ تو یورپ میں رہتی ہیں تو آپ جانتی ہیں اسکاٹش لہجہ بالکل جداگانہ ہے اور جو آئرش بولتے ہیں اور جو ویلش بولتے ہیں ان کی انگریزی کا لہجہ مختلف ہے۔ آسٹریلین انگریزی بالکل اور طرح کی بولی جاتی ہے۔ امریکن جو ہیں وہ اور طرح سے بولتے ہیں۔ اور توآپ چھوڑیئے! لندن اگر آپ تشریف لے جائیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ لندن کے دریا کے اِس طرف اور اُس طرف کے جو لوگ ہیں ان کے لہجے مختلف ہیں۔میں پہچان کے بتا سکتا ہوں یعنیٰ میں کہ جو وہاں کا رہنے والا نہیں ہوں،میں بتا سکتا ہوں کہ یہ ساؤتھ لندن کا رہنے والا ہے یا یہ سنٹرل لندن کا رہنے والا ہے۔
دوسری بات جو آپ نے فرمائی، دیکھئے برہمنیت کا جو بھی زبان شکار ہوگی وہ رہ جائے گی۔ یعنیٰ سنسکرت جیسی زبان،وہ ایک خاص طبقے میں محدود ہوئی، ختم ہوگئی۔ اچھا عربی جو ہے وہ جو حجاز میں بولی جاتی ہے وہ دبئی اور ابو ظہبی میں نہیں بولی جاتی۔ مصر میں مغرب میں، مراکش، الجیریا وغیرہ میں ویسی نہیں بولی جاتی ہے۔ ان کے یہاں بے شمار لفظ ہیں جو شامل ہوگئے ہیں۔ اسی طرح فرض کیجئے کوئی آدمی لکھنو یا دلّی سے آیا ہے تو دلّی اور لکھنو میں دیہاتوں میں جو زبانیں بولی جاتی تھیں مثلاً اودھی، برج بھاشا، کھڑی بولی، بھوج پوری، میتھلی، یہ جن کو ہم پراکرتی کہتے ہیں ان کے اثرات ہیں ان کی زبان میں، اُن زبانوں سے الفاظ لیے جاتے تھے۔ جتنے آپ کے افعال ہیں، جانا، کھانا، پینا یہ سب سنسکرت سے آئے ہیں یعنیٰ ۵۹فیصد سنسکرت سے آئے ہیں اور ۰۳ فیصد آپ کے الفاظ فارسی سے آئے ہیں جو آپ کے یہاں بولے جاتے ہیں۔ اُردو کا جو کُل ذخیرہ الفاظ ہے اس میں ۰۳ فیصد کے قریب فارسی کے الفاظ ہیں۔اسی طرح قرآن حکیم کے سبب سے، مذہبی کتابوں کے اور علوم کے سبب سے عربی کے بے شمار الفاظ ہیں جو اُردو میں بولے جاتے ہیں۔ ابھی میں اور آپ گفتگو کررہے ہیں، بہت سے انگریزی کے الفاظ بھی داخل ہوگئے ہیں، جیسے ابھی میں نے بکس بھی کہا، اور بھی کئی الفاظ ہیں۔ اچھا بحث یہ ہوتی ہے ہمارے قومی ترانے کے بارے میں کہ فارسی کے الفاظ بہت ہیں، ارے بھئی قومی ترانے میں جو الفاظ ہیں وہ دیکھئے کہ ایک اصول بنا تھا زبانوں کے حوالے سے کہ جب کوئی لفظ کسی زبان میں داخل ہوجاتا ہے تو پھر وہ اس زبان کا لفظ ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں میں نے ایک لطیفہ سا پڑھا تھا کہ جگاڑ کا لفظ آکسفرڈ کی لغت میں آگیا ہے۔ اس کے علاوہ بازار ہے، یہ جو دھرنا ہے، ڈاکو ہے بے شمار الفاظ ہیں جو انگریزی زبان کی لغت میں آگئے ہیں۔ اچھا اب یہ بالکل ممکن نہیں ہے کہ اُردو کا اب علاقہ جو ہے (جو ہندوستان میں ہے اس پر میں کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتا) جو پاکستان میں ہے جیسے پنجاب میں اُردو بولی جاتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پنجابی زبان کے الفاظ اس میں نہیں آئیں گے یا سندھی زبان کے الفاظ، سندھ میں آپ رہیں گی، سندھ کی دھرتی کی جو زبان ہے اس کے الفاظ آپ کی زبان میں نہیں آئیں گے۔ کیسے ممکن ہے کہ بلوچستان کے اور خیبرپختونخواہ کے علاقے سے تعلق رکھنے والوں کے الفاظ آپ کی زبان میں نہیں آئیں گے۔ بالکل آئیں گے۔ اچھا اور یہ بھی کہ وہ اس لب و لہجے میں نہیں آئیں گے۔ مثلاً محاوروں کی مثال دیکھئے، میرے بچپن میں محاورہ بولا جاتا تھا ”نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔“ لیکن ہمارے بچے یہ محاورہ نہیں استعمال کرتے اس لئے کہ ان کو رادھا اور نو من تیل کے بارے میں نہیں معلوم۔ یہ تو اس طرف (انڈیا) کی میتھالوجی کا حصہ ہے۔ یا پھر یہ کہ ”لنکا میں سب باون گز کے۔“ ان کو معلوم ہی نہیں کہ لنکا کیا ہے اور باون گز کیا ہے اور رامائن کیا ہے۔ بالکل اسی طریقے سے ”کہاں راجہ بھوج کہاں گنگوا تیلی۔“ اب آپ کو یہ کہانی نہیں معلوم ہے۔ یہ کہانی سرحد کے اس طرف کی ہے۔ اب ہمارے یہاں، یہاں کے جو لوک کردار ہیں جیسے وطائیو فقیر ہیں سندھ میں، سوہنی ہیں ماہیوال ہیں، ہیر ہیں رانجھا ہیں، سسی ہیں پنوں ہیں، یہ ہماری لوک داستانوں کے کردار ہیں وہ ہماری زبان میں آگئے ہیں۔اچھا پھر لہجے،مختلف بولے جاتے ہیں یعنیٰ پوٹھوہار کا لہجہ جو ہے وہ سرائیکی لہجے سے مختلف ہے۔ یہ بھی ایک الگ تنازعہ ہے پنجابی اور سرائیکی کا۔ پوٹھوہار والے کہتے ہیں ہماری الگ زبا ن ہے۔اسی طرح جو لہجہ سرحد کے اس طرف پنجابی کا ہے وہ سرحد کے اس طرف نہیں ہے۔دونوں جداگانہ پنجابی ہیں۔ اب دیکھئے امریکہ میں جو آدمی رہتا ہے وہ یو۔کے کی انگریزی تو نہیں بولتا ہے۔ انہوں نے تو لفظ بھی بدلنے شروع کردیئے ہیں۔ جیسے لفط پروگرام ہے دونوں جداگانہ اسپل کرتے ہیں۔ تو جہاں کی ہوگی زبان وہاں کے مخارج، ان کی زبان کی ساخت، یہ سب اثر انداز ہوگا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ صحیح! آپ نے بہت اچھی طرح سے اس کو بیان کیا۔ ایک بات کی اور وضاحت کیجئے افتخار صاحب کہ عام طور پر سننے میں آتا ہے کہ اُردو زبان کو خطرہ ہے؟ جبکہ دیکھنے میں تو یہ آرہا ہے کہ اُردو تو دنیا میں انٹرنیٹ کے ذریعے خوب پنپ رہی ہے؟تو اُردو کو کیا خطرہ لاحق ہے؟
افتخار عارف صاحب۔۔ ایسا ہے کہ ایک اندیشہ جیسے ہوتا ہے۔ فرض کیجئے اب جیسے آپ لوگ ہیں آپ کے سامنے ایک مثال ہے۔ میں نے آج کسی جگہ اور بھی یہ بات کہی ہے کہ یہودی جو تھے وہ ایک ہزار سال سے یورپ کے مختلف ملکوں میں رہ رہے تھے اور انہوں نے اپنی زبان کی حفاظت کی۔ یہ سب جانتے ہیں،Yaddish آپ کے سامنے ہے۔ اور جب اسرائیل بن گیا اور وہ لوٹ کر واپس آئے تو انہوں نے عبرانی زبان کو ازسرنو نافذ کیا اور اس کو اس قابل بنادیا کہ سارے علوم اس زبان میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اور یہ کب ہوا؟ یہ سمجھئے پوسٹ ۰۴، دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ سارا قصہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنی زبان کی حفاظت کی۔ ایک روایت تھی ان کی زبان کی۔ جس میں لکھا پڑھا جاتا تھا۔ تو ہم لوگ جو ہیں، ہم یعنیٰ میں اپنے بارے میں کہتا ہوں کہ بحیثیت ایک مذہب کے میں یہودی مذہب کے خلاف نہیں ہوں۔میں صیہونیت کے خلاف ہوں، Zionism کے۔ ان کا جو مکتب ہے اس کے خلاف ہوں۔ ان کی زبان اور ان کے پیغمبر، اگر میں نہیں مانوں حضرت موسیٰ صلواۃو سلام کو یا حضرت ہارون کو یا حضرت یعقوب کو تو میں مسلمان بھی نہیں رہ سکتا۔ اگر میرا ایمان قرآن کی طرح توریت پر انجیل پر یا زبور پر نہ ہو۔ میں اس نقطہ نظر سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے صیہونیت سے یعنیٰ اگر بہت بھاری لفظ نہ ہوتو یہاں نفرت کا لفظ استعمال کرنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس طبقے سے جو فلسطینیوں کو ان کا جائز حق نہیں دے رہا، ان کو حقِ خود اختیاری نہیں دے رہا۔جب اپنے لئے مانگ رہے تھے اور سارا یورپ ان کے لئے متفّق ہوگیا اسلام کی دشمنی میں اور ان کو لاکے وہاں بٹھا دیا۔ فلسطینیوں کو سمجھئے گذشتہ ستر سالوں سے انہوں نے کھدیڑ کے رکھا ہوا ہے۔ یعنیٰ کبھی آپ ان فلسطینیوں کو بیروت میں مارتے ہیں کبھی آپ تیونس میں جاکے مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جہاں بھی ملیں گے ہم مار دیں گے۔ ابھی بھی بمباری کی ہے کچھ دنوں پہلے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو کوئی بہت ہی ظالمانہ کاروائی ہے۔اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ جی بالکل جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
افتخار عارف صاحب۔۔۔ اچھا! اب یہ جو آپ نے پوچھا اُردو کے حوالے سے، میرا یہ بالکل خیال ہے کہ کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ جیسے میں ہندوستان میں رابطے میں رہتا ہوں، ادیبوں سے شاعروں سے اور میڈیا سے جیسے آپ نے فرمایا کہ یہ جو ویب نار وغیرہ ہوتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں کہ وہاں کی جو غیر مسلم آبادی بھی جو ہے اس میں بھی اُردو پڑھنے کا اُردو شاعری پڑھنے کا گذشتہ پینتیس چالیس برسوں میں رجحان بڑھا ہے۔ رسم الخط کا ان کے یہاں ایشو ضرور ہے تو صحیح ہے یا غلط ان کے یہاں ایک رسم چلی ہے کہ بائیولنگل چھپنے لگے ہیں یعنیٰ ہندی اور اُردو دونوں میں چھاپ دیتے ہیں۔ مثلاً ہمارے فیض صاحب کی اور خود میری شاعری اور منٹو، غلام عباس اور قاسمی صاحب اور راشد کا کام ہندی رسم الخط میں بھی چھپے ہوئے ہیں۔

حنا خراسانی رضوی۔۔ ابھی آپ نے شاعروں اور شاعری کا ذکر کیا تو کیا ہی بہترین ہوجائے ہمارے لئے کہ اگر آپ اپنی کوئی پسندیدہ نظم یا غزل اپنے مخصوص لہجے میں ہمیں سنادیجئے؟
افتخار عارف صاحب۔۔ جیسے بھی آپ کا حکم ہے۔ابھی جو میری نئی کتاب آئی ہے اس سے میں ایک غزل آپ کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔بہت شکریہ،عنایت ہے آپ کی۔
افتخار عارف صاحب۔۔۔

میان عرصہ موت و حیات رقص میں ہے
اکیلا میں نہیں کُل کائنات رقص میں ہے
ہر اک ذرہ ہر ایک پارہ زمین و زماں
خدا کے حکم پہ دن ہوکہ رات رقص میں ہے
اوطاق کنگرہ عرش کے چراغ کی لو
کسی گلی کے فقیروں کے ساتھ رقص میں ہے۔
مجال کس کی کہ جنبش کرے رضا کے بغیر
جو رقص میں ہے اجازت کے ساتھ رقص میں ہے
وہ قونیہ ہو کہ بغداد ہو کہ سہون ہو
زمین اپنے ستاروں کے ساتھ رقص میں ہے
میں اپنے شمس کی آمد کا منتظر تھا
سو اب مرے وجود میں رومی کی ذات رقص میں ہے۔

حنا خراسانی رضوی۔۔ واہ،کیا بات ہے! آپ کی زبانی سن کر جو مزہ آیا اس کا تو کیا ہی کہنا۔
افتخار عارف صاحب۔۔ بہت مہربانی، عزت آپ کی۔

حنا خراسانی رضوی۔۔ ہم تو آپ کے بہت عرصے سے مداح ہیں۔ بچپن میں جب ہمیں ٹی وی کے جو چند پروگرام دیکھنے کو ملتے تھے اس میں ایک کسوٹی بھی تھا آپ کا۔ آج کے زمانے میں تو انٹرنیٹ کی بدولت معلومات کا خزانہ ہماری انگلیوں پر ہے لیکن اُس زمانے میں کسوٹی جیسے پروگرام میں مختلف گوشوں سے سوالات پوچھے جاتے تھے، مثلاً ادب بھی تھا، مذہب بھی تھا، تاریخ بھی تھی، جغرافیہ بھی تھا،تواتنے موضوعات کی تیاری آپ لوگ کیسے کرتے تھے اور کس قدر وقت درکار ہوتا تھا؟
افتخار عارف صاحب۔۔ کسوٹی کے ہر پروگرام میں مہمان میں چھ آدمی آتے تھے۔ اب ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کون مہمان آرہا ہے اور یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کون سا آدمی کس شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ آکر مختلف سوال پوچھ لیتا تھا۔ فرض کیجئے کہیں یہ بتادیا جائے کہ آج کرکٹ کے سوال پوچھے جائیں گے تو آپ کرکٹ کی چار کتابیں پڑھ لیں گے۔ لیکن ہمیں یہ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ مہمان تاریخ کے کسی آدمی کو پوچھے گا یا کسی اساطیری جانور کو پوچھے گا، سنسکرت کی کوئی کتاب پوچھے گا یا تاریخ اسلامی کے کسی ہیرو کو پوچھ لے گا۔دیکھئے، ایک دفعہ کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ لوگوں کا حافظہ بہت اچھا ہے۔ گذارش یہ ہے کہ حافظہ بھی اچھا تھا بحمد للہ، اللہ کی بڑی نعمت ہے کہ ہم لوگوں کو چیزیں یاد رہتی تھیں۔ قریش پور اور عبید اللہ بیگ تو بہت ہی پڑھے لکھے لوگ تھے، میں تو ایسے ہی ان کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ لیکن بات یہ تھی کہ جب ہم پڑھتے تھے تو کچھ یاد رہتا تھا نا۔ اگر مطالعہ نہیں ہوگا تو حافظہ کیا کرے گا۔ حافظہ بھی پروردگار عالم کی عطا تھی اُ ن لوگوں کو بھی اور مجھے بھی یہ نعمت میسّر تھی۔ مجھے بھی چیزیں یاد رہتی تھیں۔ اب آپ دیکھئے میری اتنی عمر ہوگئی اور مجھے بہت سے شعر یاد رہتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ عمر کا کچھ اثر تو پڑے گا، چیزیں بھولیں گی بھی، جو چالیس، پچاس برس کی عمر میں جو تھا وہ چھتر ۶۷ برس کی عمر میں تو نہیں ہوگا۔لیکن اللہ کا شکر ہے میں ابھی بھی بیاض دیکھے بغیر پڑھ لیتا ہوں۔ تو گذارش یہ ہے کہ کتاب پڑھنے کے علاوہ ہمارا کام ہی نہیں تھا کوئی۔ یعنیٰ اپنے رزق کے لئے بھی کتاب پڑھنی پڑتی تھی اور شوق کے لئے بھی کتاب پڑھتے تھے۔

حنا خراسانی رضوی۔۔ ہمیں توایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے آپ اور عبید اللہ بیگ صاحب کوئی انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ ہر قسم کے سوالوں کے جوابات دے دیتے تھے آپ لوگ ماشاء اللہ۔ لیکن اب اس طرح کے پروگرام عنقا ہیں؟۔ پرائیوٹ چینل تو خیر چھوڑیئے پی ٹی وی بھی اب اس طرح کے پروگرام پیش نہیں کرتا۔
افتخار عارف صاحب۔۔حنا! دیکھئے پہلے ٹی وی کاایک چینل تھا۔چھ سات گھنٹے یعنیٰ پانچ بجے شروع ہوکر گیارہ ساڑھے گیارہ تک ختم ہوجاتا تھالیکن اس میں کلاسیکی موسیقی کے پروگرام ہوتے تھے، مذہبی پروگرام بھی ہوتے تھے، ڈاکومنٹری بھی ہوتی تھی، سیلانی کے ساتھ جیسا پروگرام ہوتا تھا اور اس میں ذہنی آزمائش کے پروگرام بھی ہوتے تھے۔اور روزانہ دو کھیل بھی ہوتے تھے،ایک پچاس منٹ کا کھیل اور ایک آدھے گھنٹے کا کھیل۔پھر ایک انگریزی کی فلم بھی ہوتی تھی مگر اب اتنے چینل ہیں مگر ایک ادبی پروگرام نہیں ہوتا۔کلاسیکی موسیقی کا کوئی پروگرام نہیں ہوتا بلکہ میوزک کا ہی کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔
پہلے مصلح الدین صاحب اور ناہید نیازی یہاں پروگرام کرتے تھے۔ سہیل بھائی(سہیل رعنا) تھے۔ یہاں کراچی سے کلیوں کی مالا ہوتا تھا،کیا عمدہ پروگرام تھا، یہ ہماری نازیہ، ذہیب اور فاطمہ یہ سب وہاں کے نکلے ہوئے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ہماری نسل ان ادبی اور معلوماتی پروگراموں کو بہت یاد کرتی ہے اور شدت سے ان کی کمی محسوس کرتی ہے۔
افتخار عارف صاحب۔۔ساری دنیا میں اور یہاں پاکستان میں بھی سارے چینل جو ہیں ان میں زیادہ خبروں کے پروگرام ہیں۔ حالاتِ حاضرہ کے پروگرام ہیں۔ سویرے سے جو شروع ہوتے ہیں تو رات بھر اسی کو دہرائے جاتے ہیں۔وہی بیس کے قریب سیاست دان ہیں جو کبھی اِس چینل پر تو کبھی اُس چینل پر ہوتے ہیں۔کوئی نئی بات نہیں کرتے۔وہی باتیں دہراتے رہتے ہیں۔ ایک ایشوہوتا ہے اوراسی کو سارے چینل والے گویاپیٹ رہے ہوتے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔جی اور دیکھنے والے کے بلڈ پریشر سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔
افتخار عارف صاحب۔۔ جی ہاں بالکل! آدمی مریض ہوجاتا ہے کہ ہے کیا سوائے مایوسی اور بد اطمینانی
کے ہر طرف۔

حنا خراسانی رضوی۔۔ افتخار صاحب! آپ سے اتنی چھی اور سیر حاصل گفتگو ہورہی ہے کہ وقت کا ہی اندازہ نہیں ہوا، اب ہم آپ کا اور وقت نہیں لیں گے۔ آپ سے گذارش ہے کہ ہمارے رسالے ”ورثہ“ کے لئے کوئی پیغام دیجئے؟
افتخار عارف صاحب۔۔ بس دیکھئے! ہم سب کو چاہیئے کہ جہاں جہاں ہم رہ رہے ہیں ہمیں ان کی حکومتوں کا، ان کے دستور کا احترام کرنا چاہیئے۔ ان پر عمل کرنی کی کوشش کرنی چاہیئے اور ان کے ساتھ مل کر اپنی تہذیبی شناخت کو اگر آپ برقرار رکھ سکیں تو یہ آپ کی بڑی خدمت ہوگی۔
دیکھئے میں بغیر لفظ ملائے ہوئے یہ بات کہہ رہا ہوں کیونکہ میں نے چودہ برس پردیس کی زندگی میں گزارے ہیں تو میں اس تجربے کے نتیجے میں کہہ رہا ہوں کہ کوئی بہت بڑا انقلاب آپ نہیں لاسکتے لیکن آپ یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ اپنی مذہبی شناخت کو اور اپنی تہذیبی شناخت کو باقی رکھ سکتے ہیں اگر آپ کوشاں رہیں۔ وہ تہذیبی روایتیں جو متصادم نہ ہوں آپ کے اپنے دستور سے اپنے مقامی قوانین سے تو اس کے اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دیکھئے تبدیلیاں تو ہونگی۔ ابھی ہم بیٹے ہوئے ہیں یہاں، کل پرسوں یہاں بہت گرمی تھی پھر اچانک ژالہ باری ہوگئی تو کوٹ پہننے کی ضرورت پیش آئی تو جب آب و ہوا آپ پر اثر انداز ہوتی ہے تو سیاسی آب و ہوا اورمعاشرتی آب و ہوا کیسے اثر نہیں کرے گی۔ابھی دیکھئے آپ سویڈن میں رہتی ہیں تو کیا چھ مہینے آپ اونی کوٹ پہن کر باہر نہیں جاتیں؟ایسا ہی ہے نا کہ اونی کوٹ بھی پہنیں گی، دستانے بھی پہنیں گی، مفلر بھی لیں گی، پورے جوتے بھی پہنیں گی کہ برف بھی آجاتی ہے اور اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گی۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے تہذیبی اثرات آپ پر نہ ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ جی بالکل! ماحول کا اثر تو ہوتا ہی ہے۔
افتخار عارف صاحب۔۔ ہوگا ہی، یہ تو ایک لازمی چیز ہے۔ یہ بھی میں کہتا ہوں کہ اگر آپ اپنے آپ کو یعنیٰ اس پر آمادہ ہوں اور آپ کی نیت خالص ہوتو اللہ آپ کی مدد کرے گا یعنیٰ آپ اپنی دینی شناخت اور تہذیبی شناخت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر آپ، جس ملک میں آپ رہ رہی ہیں وہاں تو آپ کو بے شمارآزادیاں میسّر ہیں۔ اسکینڈی نیویائی ممالک میں۔ مثلاً فرض کیجئے ایک آدمی سویڈن کی لائبریری میں جائے اور کہے کہ مجھ کو مشتاق احمد یوسفی کی کتاب چاہیئے تو وہ آپ کو ایک مہینے کے اندر پاکستان سے کتاب منگوا کر لائبریری کو دینگے۔ اسی طرح سے اگر کوئی بچہ فارسی، عربی یا اُردو پڑھنا چاہے تو اس کے لئے وہ ہر قیمت پر استاد مہیا کرینگے تاکہ وہ اپنی مادری زبان پڑھے۔ یہ جو یوروپیئن کانسٹیٹیوشن ہے، یوروپیئن کمیٹی کا اس کی یہ شق ہے کہ ہر بچے کو اس کی مادری زبان اور اس کی قومی زبان پڑھائی جائے گی۔ اوراس کا یہ حق ہے کہ وہ اس بات کا مطالبہ کرے۔

حنا خراسانی رضوی۔۔جی ہاں، یہ تجربہ ذاتی طور پر مجھے خود یہاں ہجرت کے بعد ہوچکا ہے۔افتخار صاحب آپ کی ادبی مصروفیات آپ کو دنیا میں جگہ جگہ لے گئی۔آپ نے ذکر کیا کہ اسکینڈی نیویا میں بھی آپ کا ناروے آنا جانا رہتا تھا۔ وہاں کی ادبی یادوں کے حوالے سے کچھ بتائیے؟
افتخار عارف صاحب۔۔ جی ہاں! وہاں بہت آیا ہوں۔ ہمارے دوست تھے مجاہد سید۔ پاکستان میں وہ جرنلسٹ تھے، پھروہ ناروے چلے گئے تھے۔ ان کا ادارہ تھا جہاں سے ”کاروان“ رسالہ نکلتا تھا اُردو میں۔ان کی بیگم صاحبہ یاسمین اور مجاہد دونوں میاں بیوی ملکر کام کرتے تھے۔ شاید ابھی بھی رسالہ نکلتا ہے آن لائن۔ تو اس زمانے میں بہت لوگ تھے وہاں سویڈن سے بھی تھے باسط میر اور سائیں سچا، ولید مہر اور ان کی بیگم رعنا، مسعود منوّر اور ہرچرن چاؤلہ تھے اور بھی بہت سے نوجوان ادیب اور شاعر تھے جو وہاں رہتے تھے۔ تو وہاں مشاعرے ہوتے تھے ہر سال۔ کچھ دنوں وہاں عطا الحق قاسمی سفیر ہوکر گئے تھے تو ہر سال کم از کم ایک بڑا مشاعرہ تو مجاہد سید کراتے تھے اور ہم سب جاتے تھے یعنیٰ میں، پروین، حمایت علی شاعر، پروین فنا سید اور محمد علی صدیقی، گوپی چند نارنگ، قتیل شفائی، ضمیر جعفری صاحب۔ ہمارے جہلم کے دوچار لڑکے وہاں کی اسمبلی کے ممبر بھی تھے۔ ایک نوجوان ہے خالد محمود، وہ ابھی آئے بھی تھے یہاں اپنی کتاب لیکر، تو اوسلو میں ہم بہت آئے۔ ان کی رائٹرز یونین میں بھی گئے تھے اور ایک دفعہ ان کی اسمبلی میں بھی گئے تھے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ جی! وہاں ہمارا حلقہ بڑا ہے۔
افتخار عارف صاحب۔۔۔ جی! اوسلو میں خاصے لوگ ہیں۔ آپ کے علم میں بھی ہوگا کہ دوسری جنگ عظیم کے آگے پیچھے ہمارے جہلم سے اور آزاد کشمیر سے بہت لوگ گئے تھے چنانچہ اب وہاں ان کی تیسری جنریشن ہے اور وہ مادی طور پر بھی کافی خوشحال ہیں۔ وگرنہ شروع میں تو زیادہ تر جیسے مزدور پیشہ بیک گراؤنڈ کے لوگ تھے، جیسے انگلینڈ میں تھا۔ انگلینڈ میں بھی شروع میں بریڈ فورڈ، مانچسٹر، برمنگھم کی طرف مزدور پیشہ لوگ گئے مگر اب ان کے جو بچے ہیں ان میں کوئی میئر ہورہا ہے کوئی لارڈ ہورہا ہے، کوئی پارلیمنٹ میں ہے کوئی اسمبلی میں ہے تو وقت لگتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں پروفیشنلی بہت ہی اچھی کمیونٹی ہے ہماری، ڈاکٹر ہیں انجینئر ہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لوگ بہت ہیں اور
They are doing very good
اسکینڈی نیویا میں،آپ کے یہاں بھی امکانات اور سہولتیں، آزادی اور مواقع یورپ کے باقی ملکوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہیں۔ امن و آتشی بھی بہت ہے اور ہمارے جو پاکستانی ہیں ان کی عزت بھی بہت ہے اور وہ محنت بھی کرتے ہیں۔دیکھئے جب مالی آسودگی آجاتی ہے تو ایک سطح کی جدوجہد ایک جنریشن کرچکی ہوتی ہے۔ اور آپ کے بڑے آپ کو گھر مہیا کرجاتے ہیں اور بنیادی ضروریات کی چیزیں مہیا کرجاتے ہیں۔ تعلیم کے حصول کے لئے بھی حکومت کی طرف سے سہولتیں ہیں والدین بھی چاہتے ہیں کہ بچہ پڑھ لکھ کے صحیح ہوجائے تو انوسمنٹ بھی ان کی اچھی ہوجاتی ہے۔ تو امریکہ میں، یورپ میں ہر جگہ
ہمارے بچے محنت کررہے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب آپ محنت کریں گے توکامیاب ہونگے کیونکہ مقابلے کا جو میدان ہے وہ آزادانہ ہے کوئی تعصّب نہیں ہے۔ یہ نہیں کہہ رہا کہ بالکل نہیں ہے تھوڑا بہت تو ہوگا لیکن عمومی طور پر کوئی آدمی کھلی دھاندلی جسے کہتے ہیں وہ نہیں کرسکتا۔اگر ہم اچھا کررہے ہیں تو اوپر
جائیں گے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بجا فرمایا آپ نے۔ بہت شکریہ افتخار صاحب آپ کا۔میرے لئے تو خوش نصیبی کی بات ہے کہ آپ سے مخاطب ہونے کا موقع ملا۔ وبا ء کا زمانہ ہے،کیا ہی کہوں، میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ اُس زمانے میں،میں یہاں ہوتی جب آپ اوسلو آتے تھے اورآپ کی میزبانی کی سعادت مجھے بھی ملتی۔
افتخار عارف صاحب۔۔ بشرط زندگانی، انشاء اللہ کبھی حاضری ہوگی۔ مہربانی آپ کی، بہت کرم۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔اب ہمیں اجازت دیجئے۔ آداب۔
افتخار عارف صاحب۔۔۔ سلامت رہیئے، اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

————————————————————