انٹرویو۔ جناب امجد اسلام امجد صاحب
از۔حنا خراسانی رضوی

”ورثہ “ کے ساتھ اپنی میزبان حنا خراسانی رضوی کا سلام و آداب قبول کیجئے!
قارئین گرامی! ڈنمارک کے فلسفی شاعر، کیرکیگارڈ Kierkegaard Sorenایک شاعر کی تعریف میں کہتاہے کہ”شاعر کا دل ناگفتہ و نادیدہ غموں سے پھٹا پڑا ہے لیکن اس کے لبوں میں ایسی گویائی ہے کہ جب آہیں اور نالے اس کے دل سے فرار پاتے ہیں تو دلفریب موسیقی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔“
اس تاویل کے ساتھ میں یہ کہوں گی کہ آج ”گوشہ انٹرویو“ میں جس شخصیت سے گفتگو کا ہمیں اعزاز ملا ہے ان کا کمال یہ ہے کہ جہاں ان کی شاعری اچھوتے، خوبصورت اور دلفریب لفظوں سے سجی ہے وہیں ان کے تصنیف کردہ ڈرامے بھی اپنی کمالیت اور اثر پذیری کے باعث ایسی شہرتِ خاص رکھتے ہیں کہ جن کا سحروقت کی بڑھتی رفتار کے ساتھ بھی ٹوٹتا نہیں۔ اور وہ شخصیت ہیں جناب امجد اسلام امجد صاحب۔
امجد اسلام امجد صاحب قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نگار، نغمہ نگارسفر نامہ نگار اورکالم نگار اور دوسری کئی کی شناخت بھی رکھتے ہیں۔ ستر سے زائد کتب کے مصنف ہیں اور بے شمار یادگار ڈراموں کے مصنف ہیں۔آپ کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو ستارہ امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمنس جیسے اعزازات پیش کیے گئے ہیں۔ ہم اپنے ذی وقار مہمان کا ہمیں وقت دینے کے لئے شکریہ ادا کرتے ہیں اور انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔
السلام علیکم امجد صاحب! کیسے مزاج ہیں آپ کے؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔وعلیکم السلام۔ اللہ کا شکر ہے۔بڑی مہربانی ہے اس کی۔
حنا خراسانی رضوی۔۔امجد صاحب! آپ کی شاعری کے ساتھ ساتھ ہم آپ کی ادبی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں پر بھی گفتگو کرنا چاہیں گے تو ابتدا ہم کرتے ہیں آپ کی ڈرامہ نگاری سے۔ پی ٹی وی (پاکستان ٹیلی وژ ن) کے لئے آپ نے بہت لکھا، قسط وار ڈرامے، مختصر ڈرامے، طویل ڈرامے جن میں آپ معاشرتی مسائل کو بہت خوبصورتی سے اجاگر کیاکرتے تھے لیکن اب کئی سالوں سے ہم آپ کا لکھا کچھ نہیں دیکھ پارہے ہیں۔غالباً انکار آپ کا آخری ڈرامہ تھا جو پندرہ سال پہلے نشر ہوا تھا؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔جی! پی ٹی وی پر آخری میرا ڈرامہ ”انکار“تھا جو میں نے ڈرگز کے بارے میں لکھا تھا۔ ہمارے اسکولوں، کالجوں میں آپ دیکھتے ہیں کہ بچے خاص کر امیر خاندانوں کے بچے ڈرگز کی طرف مائل ہورہے تھے تو اس موضوع پر میں نے لکھا تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب آپ اپنے معاشرے کو اون کرتے ہیں تو اس کا یہ تقاضہ ہے کہ پھر آپ اس کی sanctityیعنیٰ تقدس کو بھی ملحوظِ خاطر رکھیں اور اس کا جو ایک مستقبل ہے اس کے ساتھ بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ میں نے اب سولہ سال سے لکھنا چھوڑا ہوا ہے۔ بہت ڈرامے میں نے لکھے ہیں، ملا جلا کے کوئی ڈیڑھ دوسو سے زیادہ میرے ڈرامے ہیں لیکن ب میں نے لکھنا چھوڑا ہوا ہے صرف اس لئے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج کل زیادہ ترجو کچھ لکھا جارہا ہے، سب کو میں نہیں کہتا، لیکن زیادہ تر میں اس طرح سے نہیں ہونا چاہیئے جس طرح سے اس کو دکھایا جارہا ہے،ہمارے بچوں کو ینگسٹرز کو۔ہماری ینگ جنریشن اگر وہ اپنے معاشرے کی ویلیوز کو سمجھنا چاہتی ہے تو ٹی وی کے ڈرامے اس کو سمجھانے کے بجائے مزید الجھا دیتے ہیں کیونکہ ان ڈراموں میں، ایسے بے شمار موضوعات عجیب عجیب انداز میں ڈسکس کیے ہوئے ملتے ہیں کہ بچّے بجائے یہ کہ ان کا مائنڈ کلیئر ہو، مزید کنفیو ژن پیدا ہوجاتی ہے۔ اور پھر یہ کہ پہلے ایک پی ٹی وی ہوتا تھا اور سرکار کے ہاتھ میں تھاتو لڑائی ہماری ایک سے ہوتی تھی یعنیٰ سرکار سے، اس کے ساتھ لڑنا ہے اب سیٹھوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے اور سیٹھ جو ہیں سرکار سے زیادہ چالاک ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کو پیسہ کمانا آتا ہے اور ان کومیری یا کسی گانے والے کی یا ایکٹر کی ضرورت صرف اس حوالے سے ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے کمائیں گے کتنا۔تو میں چونکہ ان کا خالی کمائی کا ٹول نہیں بننا چاہتا تھا اس لئے میں نے تھوڑا سا اپنے آپ کو withdraw کر لیا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔جو کچھ آج ٹی وی پر ہمارے اقدار کے منافی دکھایا جارہا ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو آج کے لکھنے والے ہیں کیا وہ اپنے معاشرے اور اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ دیکھئے! میں آپ کو ایک بات بتاؤں! ہم لوگوں نے،مثلاً سنہ تہتر ۳۷ء میں میرا پہلا پلے آن ایئر گیا تھا۔ اس وقت ایک چینل ہوتا تھا اور اس میں باری لینا جو ہے وہ بڑا مشکل ہوتا تھا کیونکہ اتنے بڑے بڑے لوگ ہوا کرتے تھے، اشفاق صاحب تھے، بانو آپا تھیں، کمال احمد رضوی تھے، اطہر شاہ خان تھے، حمید کاشمیری تھے، صفدر میر صاحب تھے کہ ان کی موجودگی میں ہم جو نئے لوگ تھے ان کے لئے رستہ بنانا آسان نہیں تھا۔ حسینہ معین پہلی تھی جس نے بڑی مشکل سے رستہ بنایا تو اس کے لئے یہ تھا کہ جیسے کرکٹ میں نیٹ پریکٹس ہوتی ہے جو کھلاڑی کرتے ہیں توہمیں وہ بہت کرنا پڑتی تھی، اب آج کل پرابلم یہ ہوگیا ہے کہ نیٹ پریکٹس کی ضرورت ہی نہیں رہی، اب سیدھا گراؤنڈ میں جاکر ٹلے مارتے ہیں بس۔
اچھا! پھر یہ کہ چونکہ ایک دم سے چینل زیادہ آگئے تو مانگ بہت بڑھ گئی تو وہ جو ڈیمانڈ سپلائی کا دنیا میں پرنسپل ہے کہ جب ایک دم ڈیمانڈ بڑھی تو ہوا یہ کہ اسٹینڈرڈ نیچے گیا یعنیٰ پہلے صرف اے کلاس رائٹرز جو تھے ان کو بھی مشکل سے جگہ ملتی تھی لیکن جب مانگ بڑھی تو بی، سی اور ڈی کلاس کے لکھنے والے، بلکہ بعض اوقات نان رائٹرز جن کوصحیح لکھنا نہیں آتا وہ بھی اس میں گھس آئے جس کی وجہ سے پھر وہ اسٹینڈرڈ جو تھا آہستہ آہستہ نیچے ہوتا ہی چلا گیا۔میں یہ بات عمومی کہہ رہا ہوں۔ اکّا دکّا اچھی چیزیں لکھی گئیں اور اب بھی لکھی جارہی ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔جی درست کہا! آپ کا پی ٹی وی سے برسوں اپنے قلم کے ذریعے تعلق جڑا رہا لیکن کیا آپ وہاں کبھی کسی عہدے پر فائز رہے؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ہاں! یہ ٹھیک ہے پی ٹی وی سے میرا تعلق بہت گہرا رہا ہے۔ میں نے اس کے لئے لکھا بھی بہت ہے لیکن میں وہاں کبھی ملازم نہیں رہا۔البتہ میں پنجاب آرٹس کونسل میں ڈائریکٹر رہا ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔امجد صاحب! پی ٹی وی کے لئے ایک تاثر یہ ہے کہ وہاں لکھاری یا ڈرامہ نگار کے ہاتھ بندھے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہر مسئلے پر وہ کھل کر نہیں لکھ پاتے۔ آپ کا تجربہ اس سلسلے میں کیا کہتا ہے؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ دیکھیں حنا! میں آپ کو ایک بات بتاؤں؟ یہ جو ٹوٹل فریڈم یعنیٰ مکمل آزادی ہے نا یہ ایک یوٹوپین آئیڈیا ہے۔دنیا میں کہیں ٹوٹل فریڈم نام کی چیز exist کرتی ہی نہیں۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے اور جہاں حد آتی ہے تو وہ بنیادی طور پر اس آزادی کو بلاک کردیتی ہے۔ تو یہ ہے کہ پی ٹی وی پر کچھ پابندیاں تھیں اوران میں سے کچھ بالکل جائز تھیں۔ جیسا میں نے عرض کیا اس لئے جائز تھیں کہ سارا خاندان اکھٹے بیٹھ کر دیکھتا تھاتو لازم تھا کہ ہم ایسی چیزیں نہ دکھائیں جس کو خاندان میں لوگ embarrassed ہوکر دیکھیں اوردیکھ کر خجالت محسوس کریں۔
اب،پھر یہ ہے کہ جو سرکار ہوتی ہے اس کی اپنی کچھ پالیسیاں ہوتی ہیں وہ بھی چاہتی ہے ایسا لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ پابندی جو ہے یہ کوئی ایسی شدید تھی کہ آپ اسے فالو نہ کر سکیں۔ اب آپ دیکھئے!ہم ہی لوگوں نے لکھا اس دور میں۔ ”وارث“ جو ہے وہ مارشل لاء کے زمانے میں لکھا گیا جب کہ یہ جو جاگیردار طبقہ ہے، فیوڈل لارڈز طبقہ، اپنی پوری پاور میں تھا۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے
پھر ”جھوک سیال“ مجھ سے پہلے لکھا گیا جوطاہرہ سید کے والد صاحب کی کتاب تھی اس پر منو بھائی نے لکھا۔ اسی طرح اشفاق صاحب نے ”ایک محبت سو افسانے لکھے“ پھر حسینہ معین نے کیا کیا کمال کے ڈرامے لکھے ہیں، فاطمہ ثریا بجیا نے لکھے، یونس جاوید نے ایسے کمال کا لکھا۔ بعد میں ہمارے یونس بٹ اور دوسرے کئی لوگ بھی اس میں آئے اور انہوں نے بڑا اچھا لکھا۔ انور مقصود تو خیر لکھ ہی رہے ہیں۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ لکھنا چاہتے ہیں اور تھوڑا سا ہنر جانتے ہیں لکھنے کا، ان کو یقیناً تھوڑی بہت پرابلم تو رہی اور ہمیشہ ہی رہتی ہے، کہیں بھی جائیں آپ۔ میرا خیال ہے کہ بعض لوگ جلدی گھبرا جاتے ہیں اور وہ راستہ ڈھونڈنے کی زحمت نہیں کرتے۔ آپ اگرچاہیں تو راستہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ہم نے ”وارث“ اور”سمندر“ میں ایسے ایسے جملے آن ایئر کیے کہ لوگ ابھی تک حیران ہوتے ہیں کہ وہ کیسے ہوگئے؟ لیکن بات یہی ہے کہ آپ اس کو کس طرح سے لیکر آتے ہیں توپھر وہ ہوجاتے ہیں۔
مگر پھر میں وہی بات عرض کروں گا مکمل آزادی نام کی دنیا میں کہیں کوئی چیز نہیں ہے۔ اور یہ جو ہمارے سیٹھوں کے ڈرامے ہیں ان میں تو پابندیاں بے انتہا ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ پی ٹی وی پر ایک سو فیصد پاکستان نظر آتا ہے اور ان کے ڈراموں میں بیس فیصد سے آگے پاکستان نظر ہی نہیں آتا۔ تو اسی فیصد پاکستان تو ویسے ہی پابند ہوگیا۔ نہ ہمارے صوبائی کلچر نظر آتے ہیں نہ صوبائی زبانیں نظر آتی ہیں۔نہ تو مختلف کلچر کا پتہ چلتا ہے اورنہ مختلف لباس کا کسی کو پتہ چلتاہے۔
اور پھر یہ ہے کہ ایک جو ہوتا تھا atmosphere جو پی ٹی وی یا پرانے ڈراموں میں آپ کو پتہ چلتا تھا کہ یہ ایک انسانی ماحول ہے. اب ٹیکنالوجی نے ترقی اتنی کرلی ہے کہ اب ہم کٹ ٹو کٹ جو ہے وہ ایک ایکٹر سے دوسرے ایکٹر تک جاتے جاتے پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ جو بات کررہے ہیں یہ لوگ کہاں کھڑے ہیں اور کیا ہورہا ہے؟ تو یہ بھی ایک چیز کوئی اتنی اچھی نہیں کیونکہ اس سے جو بچے ہیں وہ مینرز سیکھتے تھے۔ جب آپ ایک سین ایسا لکھتے ہیں کہ بیل بجتی ہے اور گھر کا بڑابچے سے کہتا ہے کہ جاؤ باہر دیکھو جاکر کون ہے؟ اور پھر جب بچہ دروازہ کھولتا ہے تو اگر کوئی بزرگ ہے تو گھر کا بڑا خود اپنی جگہ سے اٹھ کے جاتا ہے اور مہمان کو اندر لاتا ہے اور اپنی جگہ پر اس کو احترام سے بٹھاتا ہے۔ اب اس سارے سین میں جو ایجوکیشن ہے اس بچے کی وہ یہ کہ اس کو پتہ چلتا ہے Age is to be respected ، بڑوں کی عزت کیسے کرنی ہے اور ان کو تعظیم کیسے دینی ہے۔ باپ نے ایک لفظ بھی نہیں کہا اس سے بلکہ اس نے کرکے دکھایا۔ تو یہ باتیں تھیں جو بچے سیکھتے تھے۔ ہم نے آج کل کیا کام پکڑا ہوا ہے کہ دیور بھابھی کا رشتہ ہمارا بڑا خوبصورت اور پیارا رشتہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو بڑی بھابھی ماں کی طرح ہوجاتی ہے اور جو ہم عمرہوتی ہیں وہ بہنوں کی طرح، چھوٹی بھابھی بیٹیوں کی طرح سے۔ اب عین ممکن ہے کہ ہزار یاپانچ سو جوڑوں میں سے ایک آدھ دیور بھابھی رشتے کے تقدس کا خیال نہ کریں۔ ممکن ہے! مگر وہ ایک آدھ ہی ہوگا نا! اب آپ کیا کرتے ہیں کہ اس ہزار میں سے نو سو ننانوے جو کہ رشتے کے تقدس کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ان کو نظر انداز کرکے ایک طرف کردیتے ہیں اور اس ایک آدھ کو آپ دس دفعہ دکھاتے ہیں۔ جو دیکھنے والے بچے ہیں، نوجوان ہیں، جب وہ ایک چیز کو بار بار دیکھیں گے تو ان کے دماغ میں لامحالہ یہ خیال آئے گا کہ یہ تو ہوتا ہی ہے،سارے ہی کررہے ہیں، کوئی کچھ بھی نہیں کہتا تو اس سے جو اُن کے ذہن کے اندر رشتوں کے تقدس میں ایک دراڑ پڑے گی تو پھر وہ بہت دور تک سوسائٹی پر اثر ڈالے گی۔
ُخرابیاں پی ٹی وی میں بھی تھیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں ہر چیز ٹھیک تھی لیکن میرے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اس طرح کی پابندیاں نہیں تھیں کہ لوگ کہیں کہ جی ہر موضوع پر لکھنے نہیں دیا جاتا تھا۔ ہم سب لوگوں نے اسی زمانے میں تو لکھا ہے جس کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔جی بالکل! نہ صرف ڈرامے بلکہ ان کے مکالمے تک لوگوں کو یاد ہیں۔ اور وارث میں تو آپ نے زمیندار وں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری اور طاقت کے بے جا مظاہرے کو ہی پیش کیا ہے چودھری حشمت کے کردار میں۔
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ دیکھئے نااسی لئے وہ کردار نہیں بھولتا کہ وہ پروٹو ٹائپ تھا اس ایک کردار کے اندر ایک پوری ذہنیت، دنیا کو دیکھنے کا ایک طریقہ،اس کردار کے اندر سمویا ہوا ہے۔ تو جب آپ اس ایک کریکٹر کو دیکھتے ہیں تو اصل میں آپ پوری سوسائٹی کا رویہ دیکھتے ہیں تو وہ ایک دیہاتی کریکٹر بھی تھا اور اپنے طبقے کا نمائندہ بھی تھاکہ یہ لوگ کس طرح سے سوچتے ہیں۔

حنا خراسانی رضوی۔۔آپ کا ارادہ ہے پی ٹی وی یا کسی نجی چینل کے لئے کچھ لکھنے کا؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ میں فی الحال کسی کے لئے بھی نہیں لکھ رہا۔ پی ٹی وی بیچارے کے پاس تو اب کچھ رہا ہی نہیں۔ وہاں کوئی اب پرانا بندہ ہے بھی نہیں، اکّا دکّا کوئی ہو تو ہو۔ لیکن یہ جو پرائیوٹ ہماری پروڈکشن ہیں ان میں سے، میں پھر کہہ رہا ہوں، ان میں سے کچھ بچے ایکٹر بہت اچھے ہیں، کچھ رائٹر بھی اچھے ہیں۔ کچھ بہت اچھی چیزیں بنی ہیں لیکن بری چیزوں کا والیوم اتنا بڑا ہے کہ ان میں چند اچھی چیزوں کا پتہ نہیں چلتا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ امجد صاحب! ایسی صورتحال میں ہماری نئی نسل کے لئے یہ اچھا نہیں ہوگا کہ آپ جیسے تجربہ کار اور ذی حس ڈرامہ نویس ان کے لئے لکھے؟
امجد اسلام امجدصاحب۔۔دیکھئے حنا! بات یہ ہے کہ میں ایک متنازع بات پر آپ کا بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہولڈ کرلیا ہے۔ اب اگر میں ان کے مطابق چلنے کی کوشش کروں تو وہ مجھے ویلکم کہیں گے۔ مجھے ڈھیر سارے پیسے بھی دیں گے، لیکن اگر میں ان کے بنائے ہوئے پاکستان کے یعنیٰ جو وہ اسکرین پر دکھا رہے ہیں، اس ک ے مخالف اگر کچھ دکھانے کی کوشش کروں گا تو وہ مجھے کبھی آگے نہیں آنے دیں گے۔ کوئی چینل بھی ہو۔ مجھ سے مراد ہے کوئی بھی بندہ جو سیریس بات کرنا چاہے گا اس کو نہیں آنے دیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ٹیمپریری سچیویشن ہے۔ یہ جیسے، بہت بڑی پانی کی لہریں ہوتی ہیں نا کبھی نیچے جاتی ہیں تو کبھی اوپر، تو یہ اب نیچے جاکر تقریباً اپنا سفر مکمل کرکے پھر اوپر کی طرف آئے گی کیونکہ لوگوں میں ایک ری ایکشن پیدا ہورہا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اب لوگ اتنی آسانی سے وہ جو ساس بہو، دیور بھابھی والی باتیں تھیں اب اس کو اتنی آسانی سے ہضم نہیں کرتے۔ اس میں exactement کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ تو امید ہے کہ یہ چیزیں کچھ تھوڑی سی بدلیں اور وہ ڈرامہ جو زیادہ encompass کرے پورے پورے معاشرے کے مسائل کو، وہ آگے آئے تو یہی ہمارے بچے جو نئے لکھنے والے ہیں انشاء اللہ بہت اچھا لکھیں گے اور ہمیں موقع ملا تو ہم بھی لکھیں گے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بالکل! ہم بھی امید رکھتے ہیں اوردعاگو ہیں کہ ایسا ہی ہو۔امجد صاحب آپ نے پی ٹی وی پر طنز و مزا ح بھی لکھا ۔ میں یہاں خاص ذکر کروں گی ” یا نصیب کلینک“ کاجو کہ اپنے وقت میں اور بعد میں بھی بے حد مقبول ہوا، لیکن پھرآپ نے مزاح کی طرف توجہ کم دی؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ ”یا نصیب کلینک“ تو میرا بڑا پرانا،آغاز کے زمانے کا ہے۔ اس کے پیچھے ایک بڑی دلچسپ بات ہے آپ کو سناتا ہوں۔ ہمارے دوست تھے کنور آفتاب احمد، بہت مشہور ٹی وی پروڈیوسر تھے، اصل میں وہاپنے ایک چھوٹے سے آپریشن کے لئے ایک کلینک میں گئے تھے تو وہاں کوئی دوچار انہوں نے بڑی مضحکہ خیز چیزیں دیکھیں۔ تو جیسے آدمی سفر سے آکر اپنے واقعات سب کو سناتا ہے تو ہم ایک محفل میں بیٹھے تھے جہاں وہ یہ باتیں سنارہے تھے کہ وہاں اس طرح کی ایک نرس تھی، جو رات کو دو بجے آکر مجھ سے پوچھتی ہے کہ”آپ کے کمرے میں کوئی اس طرح کی چادر تو نہیں ہے؟“میں نے کہا کہ ”بھئی خدا کا خوف کرو کچھ، اس وقت رات کے دو بج رہے ہیں۔“ تو وہ کہنے لگی کہ ”میری ڈیوٹی آف ہورہی ہے اور مجھے چادریں پوری کرنے ہیں۔“
حال دیکھئے! آپریشن کے مریض کو رات دو بجے اٹھا کر ان کو چادریں پوری کرنی ہیں۔ تواسی طرح کی کچھ اور چیزیں تھیں۔ سنہ ۰۶ء میں مسرت نظیر ہماری بڑی مشہور اداکارہ تھیں، وہ ایک ڈاکٹر صاحب سے شادی کرکے کینیڈا چلی گئیں اس زمانے میں تو اس میں ہم نے وہ کہانی بھی ڈال دی اور سب کو ملا کر ایک کامیڈی بنانے کی کوشش کی کہ جس کو عرفِ عام میں Slapstick Comedy کہتے ہیں یعنیٰ جس میں آپ مسلسل ہنستے رہتے ہیں۔ تو اللہ کے کرم سے وہ لوگوں نے بہت پسند کیا لیکن ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے قوت ِ برداشت جو ہے وہ پہلے بھی کم تھی اور اب اور بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی بے شمار وجوہات ہیں،میں اس وقت اس میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن اس سے ہوا یہ کہ لوگوں میں ایک بڑی بری عادت پڑ گئی کہ وہ مذاق کرتے اور اس کو اپنا حق سمجھتے تھے لیکن جب کوئی دوسرا مذاق کرتا ہے تو اس کو اپنی انسلٹ سمجھتے ہیں۔اصل جو خوشدلی ہوتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ آپ مذاق کریں بھی اور سہیں بھی۔ اچھا معاشرہ خوشدلی والا معاشرہ ہے نا کہ آپ اگر جملہ کستے ہیں تو پھر سہتے بھی ہیں۔ تو یہ کہ اس کی کچھ کمی تھی جس کی وجہ سے ہمارے یہاں مزاح میں ایک جس کو کہنا چاہیئے نا کہ ایک مزاح کا معاشرے سے جو ایک ڈائریکٹ واسطہ تھا وہ تھوڑا سا کمزور ہوگیا اور ہم نے چند موضوعات جیسے بیوی کا کردار پکڑ لیا یا پولیس کا کیریکٹر پکڑ لیا یا اس طرح کے قومی کیریکٹر بنا کے اسی پر کامیڈی کرتے جارہے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ مہذب معاشروں میں جو قوتِ برداشت ہوتی ہے اور جو خوشدلی ہوتی ہے اس کو فروغ ملنا چاہیئے تاکہ لوگ جو ہیں وہ خوشدلی سے سن سکیں اور یقین کریں کہ مجھے اس وقت تک ہنسنے کا حق نہیں ہے جب تک میں کسی دوسرے کا حق تسلیم نہیں کرتا۔تو یہ چیز یں جو ہیں اگر ہمارے معاشرے میں آجائیں تو ہمارے یہاں جیسے مزاحیہ اداکار اور لکھنے والے شاید ہی دنیا میں کہیں ہوں۔ بہت کمال کمال کے لکھنے والے موجود ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بالکل!پی ٹی وی نے جو مزاح پیش کیا وہ کس قدر تہذیب کے دائرے میں ہوتاتھاہم سب ہی واقف ہیں،یا نصیب کلینک ہوا، الف نون، ہیلو ہیلو،خواجہ اینڈ سن اور ایسے کئی دوسرے لیکن جب مزاح میں پھکڑ پن آگیا،خاص کر اسٹیج ڈراموں میں تو مزاح بدل گیا اورواقعی اب تویہ حال ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کے مذاق اور عورتوں کی ہجو جیسے موضوعات کو ہی مزاح سمجھا جاتاہے۔
امجد اسلام امجدصاحب۔۔ مزاح بدلا ہی نہیں بلکہ بہت گر گیا۔ بدلنا اس کے لئے مناسب لفظ نہیں ہے کیونکہ دیکھیں! جب مزاح پھکڑ پن میں آجاتا ہے تو پھکڑ پن کی کوئی حد نہیں رہتی۔ اس میں پھر آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ پہلے گھٹیا جملوں پر آتے ہیں پھر اس کے بعد بعض اوقات آپ دیکھیں کہ وہ ڈائریکٹ انسلٹ پر آجاتے ہیں۔ میں نے ایسے ڈرامے بھی دیکھے ہیں جن میں باقاعدہ گالیاں دی جاتی ہیں۔ تو یہ چیزیں جو ہیں پھر وہ نیچے سے نیچے چلی جاتی ہیں لیکن جیسا میں نے آپ سے عرض کیا جو ہمارے تھیٹر کے ایکٹر ہیں بہت سارے، کئی میرے جاننے والے ہیں وہ اتنے کریٹو لوگ ہیں کہ اگر ان کو گرنے پر مجبور نہ کیا جائے تو وہ بہت اچھا اور قاعدے کا مزاح پیش کرسکتے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ امجد صاحب آپ نے فلم کے لئے بھی لکھا؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ جی بہت کم۔ فلموں کا حال بھی آپ کو پتہ ہے وہ بھی کچھ اتنا اچھا نہیں ہے۔ جب پاکستان بنا ہے تو پہلے پندرہ بیس سالوں میں بہت اچھی بلکہ باقاعدہ بہت اچھی فلمیں ہمارے یہاں بھی بنی ہیں کیونکہ اس وقت ہمارے پاس وہ لوگ موجود تھے جن کی فلم انڈسٹری کی باقاعدہ ٹریننگ تھی تو ان کی وجہ سے اچھے موسیقار بھی آپ دیکھیں گے اس وقت خواجہ خورشید انور اور رشید عطرے آپ کو ملیں گے۔ پھر لکھنے والے اے۔حمید، سیف صاحب، منیر نیازی، قتیل شفائی کیسے کیسے باکمال لوگ تھے۔ وہ آرہے تھے پھر سنہ۰۷ء کے بعد وہاں بھی وہ کلچر آیا ہے نا جی کہ اب میں کیا عرض کروں، جس میں کسی کا لحاظ تک بھی نہ رہا تب آہستہ آہستہ اس کا گرتے گرتے یہ حال ہوگیاکہ جو معقول لوگ ہیں انہوں نے سنیما میں جاکے فلم دیکھنا ہی چھوڑ دیا اور یہ بڑی افسوس ناک بات ہے کہ جو کام ہم بہت اچھا کرسکتے ہیں ہم نے اس کو بھی خراب کردیا۔ اب یہ جو نئے بچے آرہے ہیں، اب جو میں دیکھ رہا ہوں کچھ میں نیا پن ہے، نئی چیزیں کررہے ہیں تو امید ہے کہ وہ اس ٹریڈیشن کو ازسرنو زندہ کرنے میں کامیاب ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔اور فلموں میں نغمہ نگاری بھی کی آپ نے؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ نغمہ نگاری میں نے کوئی ایسی خاص نہیں کی۔ زیادہ تر میری پہلے ہی کی چیزیں تھیں۔میری فلم تھی”نجات“ اس میں میرے گانے تھے باقی میرے اکّا دکّا گانے یہاں کی فلموں میں اور انڈین فلموں میں بھی ہیں۔راحت فتح علی کا جو مشہور گانا ہے ”لاگی تم سے من کی لگن“ وہ میرا ہی گانا ہے۔ وہ انڈیا میں انہوں نے گایا پھر عدنان سمیع خان نے کچھ گیت میرے وہاں کیے۔ فلم کے کام میں دراصل میرا دل زیادہ لگا نہیں پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔اچھا اب یہ بتائیے امجد صاحب کہ ان سب کے درمیان شاعری کی طرف رجحان کب ہوا؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔شاعری تو میں نے زندگی بھر کی،پہلے دن سے لیکر آج تک۔ جب میں پوری طرح ڈرامے میں دھنسا ہوا تھا، اس وقت بھی میں نے شاعری کو نہیں چھوڑا۔ آپ میری کتابوں کو دیکھیں ان میں جو درمیانی وقفہ ہے وہ جو میرا پی ٹی وی یا ڈراموں کے بیس سال ہیں اس میں بھی میری اتنی ہی کتابیں ہیں جتنی اس سے پہلے یا بعد میں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ واہ! کیا بات ہے۔ امجد صاحب کیا ہی اچھا ہو کہ ہم آپ کی کوئی نظم یا غزل آپ کی زبانی سنیں کافیض حاصل کرسکیں؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔بتائیے! آپ ہی بتائیے، میں وہی سنا دیتا ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ مجھے تو آپ کا سارا ہی کلام پسند ہے۔ لیکن آپ کا یہ شعر مجھے بے حد پسند ہے
وقت کرتا ہے ہر سوال کو حل
امجد اسلام امجدصاحب۔۔ زیست مکتب ہے امتحان نہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔جہ کیا بات ہے! لیکن میں چاہوں گی کہ آج آپ اپنی پسند کا کچھ سنادیجئے۔
امجد اسلام امجد صاحب۔۔چلئے! آپ کی اوڈیئنس چونکہ مجھے پتہ ہے کہ یہ بہت پڑھے لکھے لوگوں کی محفل ہے تو میں آپ کو ایک ایسی نظم سناتا ہوں جو میں بہت کم سناتا ہوں لیکن جو میرے دل سے بہت قریب ہے۔ انڈیا میں ہمارے دوست گلزار صاحب، ان کو تو سارے ہی لوگ جانتے ہیں، یہ ان کی بھی پسندیدہ نظم ہے اور وہ اکثراس کو کوڈ بھی کرتے ہیں اپنی گفتگو میں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ جی ضرور! ارشادکیجئے۔
امجد اسلام امجد۔۔ اس کا عنوان ہے ”تو چل اے موسمِ گریہ“

تو چل اے موسمِ گریہ،
پھر اب کی بار بھی ہم ہی
تری انگلی پکڑتے ہیں
تجھے گھر لے چلتے ہیں
وہاں ہر چیز ویسی ہے
کوئی منظر نہیں بدلا
ترا کمرہ بھی ویسے ہی پڑا ہے جس طرح تو نے
اسے دیکھا تھا، چھوڑا تھا
تیرے بستر کے پہلو میں رکھی اس میز پر اب بھی
دھرا ہے مگ وہ کافی کا
کہ جس کے خشک اور ٹوٹے کناروں پر
ابھی تک وسوسوں اور خواہشوں کی جھاگ کے دھبے نمایاں ہیں
قلم ہے، جس کی نب پر رت جگوں کی روشنائی یوں لرزتی ہے
کہ جیسے سوکھتے ہونٹوں پر پپڑی جمنے لگتی ہے
وہ کاغذ ہیں
جو بے روئے ہوئے کچھ آنسوؤں سے بھیگے رہتے ہیں،
ترے چپل بھی رکھے ہیں
کہ جن کے بے ثمر تلوؤں سے وہ سب خواب لپٹے ہیں
جو اتنا روندے جانے پر بھی اب تک سانس لیتے ہیں
ترے کپڑے
جوغم کی بارشوں میں دھل کے آئے تھے
مری الماریوں کے ہینگروں میں اب بھی لٹکتے ہیں
دلاسوں کا وہ گیلا تولیہ اور ہچکیوں کا ادھ گھلا صابن
چمکتے واش بیسن میں پڑے ہیں
اور ٹھنڈے گرم پانی کی وہ دونوں ٹونٹیاں اب تک رواں ہیں
تو جنھیں اس دن
کسی جلدی میں چلتا چھوڑ آیا تھا
دریچے کی طرف دیوار پر لٹکی گھڑی اب بھی
ہمیشہ کی طرح آدھا منٹ پیچھے ہی رہتی ہے
کلنڈر پر رکی تاریخ نے پلکیں نہیں جھپکیں
اور اس کے ساتھ آویزاں
وہ ایک مہکارتا منظر
وہ اک تصویر جس میں وہ مرے شانے پہ سر رکھے
مرے پہلو میں بیٹھی ہے
مری گردن اور اس کے گیسوؤں کے پاس اک تتلی خوشی سے اڑتی پھرتی ہے
کچھ ایسا سحر چھایا ہے
کہ دل رکتا،ہوا چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
مگر اے موسمِ گریہ
اسی ساعت نجانے کس طرف سے تو چلا آیا
ہمارے بیچ سے گزرا
ہمارے بیچ سے تو اس طرح گزرا
کہ جیسے دو مخالف راستوں کو کاٹتی سرحد
کہ جس کے ہر طرف بس دوریوں کی گرد اڑتی ہے
اسی اک گرد کی تہہ سی
تجھے دروازے کی بیل پر جمی شاید نظر آئے
کوئی تصویر کے اندر کمی شاید نظر آئے
تمنا سے بھری آنکھیں جو ہردم مسکراتی تھیں
اب ان آنکھوں کے کونوں میں نمی شاید نظر آئے۔“

حنا خراسانی رضوی۔۔ واہ کیا کہنے! بہت ہی خوبصورت۔ امجد صاحب بات شاعری کی چلی ہے تو میں آپ سے یہ جاننا چاہوں گی کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کے بڑھتے اثرات کیاانڈیا پاکستان کی روایتی ادبی محفلوں اور مشاعروں پر اس طرح اثر انداز ہورہے ہیں کہ شاعری کے معیار اور اہل ِ سخن اور سامعین کے درمیان بنے تعلق میں کوئی منفی فرق ڈال سکیں؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔عوامی رابطہ، یہ پہلے بھی کبھی اتنا اسٹرونگ نہیں تھا اور جہاں تک انڈیا کے مشاعروں کا تعلق ہے مجھے اتفاق سے کئی بار وہاں جانے کا موقع ملا ہے۔ وہاں اصل میں جو اُن کا ہندی مشاعرہ ہوتا ہے نا جس کو”کوی سمیلن“ کہتے ہیں وہ ہی dominant کرکے اب اُردو مشاعروں پر بھی حاوی ہوگیاہے۔ وہاں بھی آپ دیکھیں گے ترنم اور ون مین شو اور پرفارمنس زیادہ حاوی ہوگئی ہے۔ ۰۹۹۱ء کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ عرفان صدیقی شاید انڈیا میں آخری بڑے شاعر تھے۔ اس کے بعد ہمارے جو دوتین لوگ ہیں، گلزار صاحب ہیں یا جاوید اختر ہیں، وہ زیادہ تر اپنے لیرکس (Lyrics) کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ پرانے لوگوں میں زندہ تو اب بشیر بدر ہی ہیں۔ وہ بھی بیچارے اب نہ ہونے کے برابر ہیں کئی سالوں سے۔ تو شہریاراور ان سب لوگوں کا گروپ چلا گیا ہے۔ تو انڈیا میں بھی مشاعرے جو ہیں مقبولیت کے اعتبار سے بالکل میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ لوگ اس کو بہت شوق سے سنتے ہیں لیکن معیار کے اعتبار سے دونوں جگہ ایک ہی جیسا حال ہے۔
اب اصل میں یہ جو آیا ہے نا میڈیا اس نے آکر وہ جو پہلے تھا نا پچاس کی دہائی میں کہ مجھے شوق ہے شاعری کا اور میں کسی شاعر کو دیکھنا یا سننا چاہتا ہوں تو میرے پاس سوائے مشاعرے کے کوئی رستہ نہیں تھا۔ ہاں ریڈیو تھا جس میں کبھی کبھی آپ شاعر کی آواز سن لیتے تھے۔ چینل تو کوئی تھا ہی نہیں۔ اب آپ دیکھیں اخبارات ہے، ریڈیو ہے ٹیلی وژن ہے، فلمیں ہیں اور ان سب کے ساتھ سوشل میڈیا، یو ٹیوب، اتنے بے شمار رستے نکل آئے ہیں۔اب کے جو سننے والے ہیں وہ اپنے محبوب ادیبوں اور شاعروں کو پڑھ اور سن سکتے ہیں۔ البتہ مشاعروں میں یا ادبی محفلوں میں یہ ہوتا تھا کہ وہ سامنے بیٹھ کے سنتے تھے اور اب وہ اپنی مرضی کی چیز اپنی مرضی کے وقت پر سن سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے ان کو یہ موقع فراہم کردیا ہے تو شاید ایک وجہ یہ بھی ہو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہی نہیں پوری دنیا کے معاشرے میں علم و ادب کہہ لیجئے یا سوشل سائنس کہہ لیجئے، ان پر کوئی اچھا وقت نہیں۔ یعنیٰ جو بہت ترقی یافتہ ممالک ہیں ان میں بھی لٹریچر پر کوئی بہت زیادہ اچھا وقت نہیں۔دنیا میں اور ہمارے یہاں بھی آپ دیکھ لیجئے بہت سے پبلشروں نے کتابیں چھاپنا ہی بند کردیں۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ٹی۔ اے۔ سید جس ادارے کے روح رواں تھے اس نے کتابیں چھاپنا ہی بند کردیں۔تو اس سے بھی بڑا فرق پڑا ہے کیونکہ Accessibility بہت بڑھ گئی ہے۔ تو اس سے ایک خرابی یہ ہوئی کہ ہماری نسل تک یا ہم سے تھوڑا بعد تک لوگ کولیفائی کرکے لوگ شاعری کے میدان میں داخل ہوتے تھے یعنیٰ کوئی چھوٹی موٹی یعنیٰ میٹرک کی ڈگری لے لی یا ایف اے کی ڈگری لے لی اور تھوڑا بہت اس میں وقت گزار کے آتے تھے۔ اب یہ آسانی ہوگئی ہے کہ آپ سیدھا جمپنگ کرتے ہیں اور پھر آپ کو ہزاروں likes بھی مل جاتی ہیں اور وہ پتہ نہیں کن کی ہوتی ہیں۔اب وہ لوگ بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ جناب ہماری شاعری کو آپ جو مرضی کہتے رہیں لیکن یہ دیکھئے ہماری likes ہزاروں لاکھوں میں جارہی ہیں تو یہ ایک عجیب سی ہوا چلی ہوئی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ گرد بھی بیٹھے گی اور اس کے اندر سے بہتر رستہ پھر نکلے گا۔اور جہاں تک مشاعرے کیبات ہے تو اس کی روایت ختم اب بھی نہیں ہوئی مثال کے طور پر آپ دیکھ لیجئے کہ کووڈ کی وجہ سے دوسال سب چیزیں بند رہیں لیکن اس پچھلے ہفتے میں چھ دن میں میں نے پانچ مشاعرے پڑھے۔ اس میں یونیورسٹیاں بھی تھی، اس میں کالج بھی تھے، عوامی جگہیں بھی تھیں اور سرکاری محکمے بھی تھے۔ ابھی میں کراچی جارہا ہوں وہاں پانچ دن میں پانچ مشاعرے ہیں اور پھر جام شورو میں بھی ہے۔ مطلب یہ کہ یہ چیزیں بالکل ختم نہیں ہوئی ہیں لیکن کچھ فرق تو پڑا ہے۔ یہ بھی ہے کہ بطے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں رہا۔ پہلے وقتوں میں لوگوں کے پاس وقت بھی تھا۔ مشاعرہ جو ہے وہ ایک فل ٹائم ایکٹیویٹی ہوتی تھی جس کے لئے آپ gear up ہوکے گھر سے آتے تھے۔ اب کوئی بھی دنیا کا کام ہو ایک گھنٹہ اس میں گزر جائے تو اچھی سے اچھی چیز میں بھی لوگ گھڑی دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ ہماری زندگی اس طرح بہت ساری مصروفیات میں بٹ گئی ہے کہ اب یکسوئی کے ساتھ چار گھنٹے یا پانچ گھنٹے محفل میں بیٹھنا ممکن بھی نہیں رہا ہے۔ لیکن میرا یقین ہے کہ ان چیزوں کے جو آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں اس سے کوئی بہتری کی شکل ضرور نکلے گی۔

حنا خراسانی رضوی۔۔آپ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں اتنی وسعت ہے کہ ان سب کو بہتر انداز سے لیکر آگے چلتا رہے گا؟
امجد اسلام امجدصاحب۔۔ دیکھئے! سوشل میڈیا میں پرابلم یہ ہے کہ وسعت تو بہت ہے مگر گہرائی depth اس میں نہیں ہے اور پھر دوسرے یہ ہے کہ اس میں کہنا چاہیئے نا کہ ایک بیلنس، وہ نہیں ہے یعنیٰ اس میں بہت اوپر اور بہت نیچے،دو چیزیں ہیں مگر وہ ایک ہی ساتھ چل رہی ہیں۔ حالانکہ زندگی میں آپ بڑی چیز کو اونچا درجہ دیتے ہیں اور نیچے والی کو نچلا درجہ دیتے ہیں لیکن وہاں یہ کہ ”تیری سرکار میں پہنچے تو سب ہی ایک ہوئے۔“
لیکن اس کے باوجود میں آپ کو بتاؤں کہ یہ نہیں کہ سوشل میڈیا میں ہر چیز بری ہے۔ اچھی اچھی چیزیں بھی دیکھنے کو ملی ہیں لیکن وہ تعداد میں کم ہیں۔ ہنسی مذاق والے اور شغل میلہ کرنے والے لوگ زیادہ ہیں۔ اگر اس میں ایک لائن کھینچ لی جائے تو یہی سوشل میڈیا جو ہے شعر و ادب کی ترقی میں بہت بڑا کام کرے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔مجد صاحب تدریس کے شعبے سے بھی آپ منسلک رہے ہیں غالباً میو کالج لاہور سے آپ نے شروعات کی تویہ بتائیے کہ تمام شناخت میں اپنے لئے ایک استاد ہونے کی شناخت کیسی لگتی ہے؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ میں نے مختلف ملازمتیں کی ہیں۔ تھوڑی بہت دنیاوی انداز کی افسریاں بھی کی ہیں لیکن ایمانداری کی بات ہے جتنا مزہ مجھے ٹیچنگ میں آیا ہے وہ کسی کام میں نہیں آیا۔ یہ دنیا کا ایسا خوبصورت پیشہ ہے ایک تو یہ کہ وہ آپ کو ہمیشہ جوان رکھتا ہے۔ ہر سال کلاس میں آپ ینگ بچوں کے کے ساتھ interact کرتے ہیں اور ان کا جو جوش و جذبہ ہے وہ آپ کو بھی تقویت دیتا ہے اور زندہ رکھتا ہے۔ دوسرا یہ کہ میں دنیا کے ۷۲ ملکوں میں سو سوا سو دفعہ گیا۔ ماشاء اللہ میں نے بہت دنیا دیکھی۔ آپ یقین کریں کہ اس میں سے بیس ملک ایسے ہیں جہاں مجھے کوئی نہ کوئی اپنا شاگرد مل گیا۔
حناخراسانی رضوی۔۔واہ!
امجد اسلام امجد صاحب۔۔جی! اور وہ سب اچھے حالات میں ہیں۔ اس وقت جو خوشی ہوتی ہے کہ آج یہ بچہ جو اس جگہ پہ عزت کے ساتھ ایک اچھے رتبے کے ساتھ روٹی کمارہا ہے، اس کے یہاں تک پہنچنے میں شاید ایک آدھ فیصد ہاتھ میرا بھی ہو۔ تو وہ جو ایک کیفیت ہوتی ہے یعنیٰ آپ اس کی کامیابی میں اپنی کامیابی کو دیکھتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں۔ تو اس لئے میرے نزدیک اس جیسا پیشہ کوئی نہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔بالکل درست کہا آپ نے۔ امجد صاحب! بات سے ہی بات نکال رہی ہوں کہ چونکہ آپ ایک استاد بھی ہیں، اُردو ہماری قومی زبان تو قرار پائی لیکن نہ تو تعلیم کی زبان بن سکی اور نہ ہی دفتروں کی زبان، کیا ہم اس زبان کو ساتھ لیکر دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ دیکھیں! پہلی بات تو یہ ہے کہ اُردو ہو یا پاکستان کی دیگر قومی زبانیں، میرا یہ پکا یقین ہے کہ بچوں کو پہلی سے پانچویں جماعت تک اُردو میں پڑھایا جائے یا پھر جو اُن کی علاقائی زبان ہے اس میں پڑھانا چاہیئے۔کیونکہ جو کانسپٹ اس کے اپنی زبان میں کلیئر ہونگے کسی اور میں تو مشکل ہے، میں معافی چاہتا ہوں کہ ہم کتنی حماقت کرتے ہیں کہ کلاس ون کے بچوں کو دینیات انگریزی میں پڑھا رہے ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کرو، اس کی لوجک کیا ہے؟ دنیا میں کیا آج تک کوئی ایسی قوم ہے جس نے اپنی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں ترقی کی ہو۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں درمیان کا کوئی راستہ نکالنا ہے کیونکہ دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی بہت آگے نکل گئی ہے اور ہم بہت پیچھے ہیں اس لئے مجبوراً ایک خاص سطح پر آکر ہمیں ان کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن وہ سطح اوپر کی ہے، یعنیٰ وہ دروازے ہوتے ہیں نا جن پرpull اور push لکھا ہوتا ہے تو انگریزی زبان کو ہم کو push پر رکھنا تھا تاکہ اس کے ذریعے سے ہم باہر کی دنیا میں جائیں مگر ہم نے اس کوPull پر رکھ کر اندر کی طرف کھول لیا۔ مجھے کسی نے بتایا کہ پرائمری جماعت میں بچوں کو انگریزی پڑھا رہے ہیں۔ کس خوشی میں پڑھا رہے ہیں؟ بنیادی تعلیم تو اُردو زبان میں ہونی چاہیئے۔ اب دیکھئے! بارہویں جماعت میں کمپیوٹر آتے ہیں۔ میں بھی پڑھاتا رہا ہوں، اس میں ایک غلطی ہم بنیادی کرتے ہیں جس پر میں اس وقت بھی احتجاج کرتا تھا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ ہم نے ایک بنیادی غلطی کی ہے۔ ہم نے بارہویں جماعت تک اُردو پڑھائی ہے ہر شعبے کے طالبعلم کو، اس میں کوئی تخصیص نہیں انجینئرنگ ہو یا ڈاکٹری ہو یا کوئی اور شعبہ۔ اصل چیز تھی کہ ہم ان کو اُردو زبان سکھائیں لیکن ہم نے ان کو اُردو لٹریچر، یعنیٰ ادب پڑھانا شروع کردیا۔ یہ غلط ہے کیونکہ جس بچے کو ڈاکٹر بننا ہے یا انجینئر بننا ہے وہ اس کا گراؤنڈ ہی نہیں۔ ہاں اس کو اُردو میں اچھا لکھنا، اچھا پڑھنا، اچھا بولنا، وہ ہمیں سکھانا چاہیئے تھا۔ تو یہ ایک غلطی تھی جو ہم نے بہت برسوں تک کی ہے۔ اب تھوڑا شعور اس کا پیدا ہورہا ہے ممکن ہے کہ یہ ہوجائے کہ پرائمری جماعت تک کمپلسری کردیں اپنی زبان میں پڑھانا۔ اب اس کے ساتھ آپ انگریزی رکھیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ آگے اس کی ضرورت پڑتی ہے ایف اے میں ایف ایس سی میں انجینئرنگ میں میڈیکل میں لیکن بنیاد جو ہے وہ اپنی زبان میں ہونی چاہیئے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔آپ نے جیسے نشاندہی کی کہ ہم نے اُردو لکھنے پر زور نہیں دیا۔ توآج اس کا اثر اُردو رسم الخط کی جگہ رومن رسم الخط کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ جی! یہ خرابی وہاں سے آئی ہے، یہ پہلے نہیں تھی۔بہت سی خرابیاں تھیں مگر یہ نہیں تھی کہ اُردو میں بچہ لکھ نہ سکے۔ خرابی یہ ہوئی کہ ہمارا بچہ لاہور، گوجرانوالے یا سندھ میں بیٹھ کے پڑھتا ہے اور اس کی کتاب لکھی آکسفورڈ لندن میں جاتی ہے، چھپتی سنگاپور میں ہے اور دس گنا قیمت پر اس کو یہاں وہ چیزیں پڑھائی جاتی ہے جو بنیادی طور پر اس سے تعلق ہی نہیں رکھتیں۔تو یہ چیزیں ہیں جن کو دیکھنے کی بہت ضرورت ہے۔اب ان میں اُردو کہیں ہے ہی نہیں۔ جس بچے کو آپ نے اُردو پڑھایا ہی نہیں، اُردو لفظوں کی پہچان کرائی ہی نہیں، اُردو کی لکھائی اس کو سکھائی نہیں تو وہ بڑا ہوکر لٹریچر کو یا شاعری کو کیوں اور کیسے پڑھے گا۔ کامن سینس کی بات ہے نا! جو زبان اس کو آتی ہی نہیں وہ کیسے اس کو پڑھے گا۔ اس میں اُن بچوں کا قصور نہیں ہے۔ یہ ہمارے بچے جو آج اُردو رسم الخط میں نہیں لکھ سکتے اور رومن میں لکھتے ہیں، یہ ہمارا قصور ہے اور ہماری گذشتہ نسلوں کا قصور ہے جنھوں نے ان کو اس رستے پر ڈالا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟
امجد اسلام امجد صاحب۔۔ میں نے عرض کیا نا کہ اگر آپ اپنے ملک میں، پورے ملک میں اس چیز کو منڈیٹری کردیں کہ پانچویں جماعت تک کوئی بھی اسکول ہو اور آپ جو بھی پڑھائیں، اپنی زبان میں پڑھائیں گے تو یقین کریں کہ ہمارے آدھے مسئلے تو اسی سے حل ہوجائیں گے۔باقی رہے وہ بچے جو پچھلے تیس پینتیس سالوں میں اُردو پڑھے بغیر بڑے ہوگئے ان کو کسی طرح درمیان میں لایا جائے لیکن جب تک یہ راستہ بند نہیں ہوگا تو پھر تویہ کھیتیاں آباد ہوتی ہی رہیں گی۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ آپ کے بچوں میں سے کسی کا ادب کی طرف رجحان ہے؟
امجد اسلام امجد۔۔ میرے تینوں بچے ماشاء اللہ پڑھنے والے ہیں۔ میری بڑی بیٹی انور مسعود کی بہو ہے۔ وہ بی۔ اے میں تھی تو اس کی شادی ہوگئی تھی اور اب ماشاء اللہ اس کی اپنی چار بچیاں ہیں۔ اس نے چار بچوں کے بعد ایم اے کیا، ایم فل کیا اور آج کل پی ایچ ڈی کی تیاری کررہی ہے۔ میری دوسری بچی نے سائیکالوجی میں ایم ایس سی کیا ہوا ہے اور بیٹا میرا جو ہے وہ ماشاء اللہ سے اپنا پروڈکشن ہاؤس چلاتا ہے اور بہت اچھی ڈاکیومنٹری بنا رہا ہے۔ ساتھ ساتھ وہ لکھتا بھی ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ یہ تو خوشی کی بات ہے۔ آپ نے بھی کچھ ڈاکیومنٹری لکھی تھیں؟
امجد اسلام امجدصاحب۔۔ جی ہاں! میں نے لکھی ہیں اور سب سے زیادہ مجھے جس پر فخر ہے وہ میں کوشش کروں گا کہ آپ تک بھی پہنچ جائے۔دو چار دوست ہیں جن کے ساتھ ملکر یہ کام کیا۔ میں نے لکھی ہے اور میرے بیٹے نے اس کو پروڈیوس کیا ہے۔ یہ جو رسولِ پاک (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں جو ویسٹ میں ہو رہا ہے پچھلے آٹھ دس سالوں سے کہ کبھی خاکے بنائے تو کبھی کارٹون (نعوذ باللہ) تو ہم نے کوشش کی ہے ویسٹ کے آدمی کو ساتھ بیٹھ کر دوستانہ انداز میں آرام سے بتائیں کہ تم کہاں غلطی کررہے ہو۔ اس سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جو لوگ اس کو بہکا رہے ہیں وہ paid ہیں یا جنونی ہیں۔ ان سے بات کرنے کا فائدہ ہی نہیں ہے لیکن وہ جو کروڑوں لوگ متاثر ہورہے ہیں آپ ان کو بتائیں۔
یہ ڈاکیومنٹری کل تیرہ منٹ کی ہے اور انگریزی زبان میں ہے لیکن اسی مہینے ہم اس کو ڈینش میں، فرنچ میں، اسپینش میں اور جرمن میں ڈب کررہے ہیں۔ اس کے بعد ہم اس کو عربی اور فارسی میں بھی ڈب کریں گے۔ہماری ڈاکیومنٹری کی تھیم یہ ہے کہ ہم ویسٹ کے بندے کو بتائیں کہ دیکھو یہ دس ہزار سال کا ریکارڈ پڑا ہے ہمارے پاس۔ اس میں ہم پتھر کے زمانے سے شروع ہوئے اور چلتے چلتے آج اس جگہ پر کھڑے ہیں کہ تمہیں سوشل سیکیوریٹی میسّر ہے، تم نے بہترین لباس پہنا ہوا ہے، تمہارے پاس بہترین کھانے ہیں۔ دنیا میں جہاں چاہو تم جاسکتے ہو، رشتوں کا ایک نظام ہے جو تمہیں ملا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کہیں گا ہاں! یہ سب ہیں۔ اب ہم نے کہا چلو اب ایسا کرتے ہیں تھوڑی دیر پیچھے سفر کرتے ہیں ہسٹری میں کہ یہ کہاں سے کہاں تک پہنچی تو تمہیں پتہ چلے گا کہ سب سے زیادہ انسانی حقوق جس ایک انسان کی وجہ سے ہمارے سسٹم میں enter ہوئے ہیں وہ وہی پیغمبرتھا جس کو تم برا بھلا کہہ رہے ہو اور یہ اس کے ثبوت ہیں۔
آپ دیکھئے کہ ۵۵۹۱ء میں فرانس جیسے ملک میں خواتین کو ووٹ کا حق نہیں تھا، یہ میں کوئی بہت دور کی بات نہیں کررہا۔ ۵۵۹۱ء میں۔ لیکن ریاستِ مدینہ میں سوشل سیکیوریٹی ملے گی کہ جوں ہی بچہ پیدا ہوتا ہے، اس کا اور اس کی ماں کا وظیفہ لگ جاتا تھا۔ تو جب ہم کسی پڑھے لکھے سمجھدار آدمی کوآرام سے سمجھائیں گے تو اس کو بات سمجھ میں آئے گی جو لڑائی جھگڑے سے سمجھ میں نہیں آئے گی۔اب جو اپنے پیغمبر کو نہیں مانتے وہ ہمارے پیغمبر کو کیسے مانیں گے؟ اس لئے لاجک سے کام لینا چاہیئے جس پر وہ یقین رکھتا ہے۔
ہم ایشیائی لوگ جو ہیں باقی دنیا سے سو دوسو سال پیچھے ہیں مگر آہستہ آہستہ کوشش کررہے ہیں لیکن ابھی بھی ہم بہت پیچھے ہیں اور وہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں نا کہ مانگنے والے ہاتھ کی پوزیشن اور ہوتی ہے اور دینے والے ہاتھ کی پوزیشن اور ہوتی ہے۔ حالانکہ ہوتا وہ ہاتھ ہی ہے لیکن اس کی پوزیشن سے ساری چیزیں بدل جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم یہ ہیں ہمیں دینے والے ہاتھ کو لیکر اوپر آنا ہے گو کہ بڑا لمبا سفر ہے لیکن ناممکن نہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بالکل، امجد صاحب! آپ نے اتنا کچھ کیا زندگی میں، کس چیز کے کرنے پر فخر محسوس ہوتا ہے آپ کو اور کس چیز کے نا کرنے کا دکھ ہوتا ہے؟
امجد اسلام امجد۔۔ حنا! اللہ کا کرم ہے کہ اللہ نے بہت ساری مہربانیاں کی ہیں۔ جو بھی کام کاج میں نے کیا اللہ نے مجھے اس میں ہر طرح کی کامیابیاں دی ہیں۔ فخر تو بہت سارے ہیں ایک کا بتانا مشکل ہے لیکن جس چیز کا مجھے دکھ ہے وہ ایک ہی ہے اس لئے وہ میں آسانی سے بتا سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو potential ہمارے ملک کا ہے اور جو ہماری امت کی ہے،دونوں کو ہم پوری طرح سامنے لانے میں ناکام ہیں اور چونکہ ہم سب اس جرم میں کسی نہ کسی طرح برابر کے شریک ہیں تو مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ میرے لوگ جو ہیں اس سے زیادہ کے مستحق ہیں جو اُن کو ملا ہوا ہے لیکن شاید ان کو اس طرف لے جانے میں ہم لکھنے پڑھنے والوں سے شاید کچھ کمی ہوئی ہے کہ ہم وہ کام نہیں کرسکے کہ اپنے لوگوں کو اوراپنے معاشرے کو اتنا آگے جاتا نہیں دیکھ سکے جتنا ہم چاہتے تھے۔تو یہ ایک افسوس ہے اور اس کی تکلیف ہوتی ہے۔ باقی تو سب اللہ کا کرم رہا،بڑی مہربانیاں رہی ہیں اس کی زندگی میں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ ہم بھی دعاگو ہیں کہ آپ کی یہ دعا جلد قبولیت کے درجے پر پہنچے اور ہم اپنے لوگوں کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ سکیں۔آپ کابے حد شکریہ امجد صاحب! ہمیں وقت دینے کے لئے اور اتنی سیر حاصل گفتگو کرنے کے لئے۔
امجد اسلام امجد صاحب۔۔آپ بھی جیتی رہیئے! میری طرف سے سب دوستوں کو سلام اور ورثہ کے لئے نیک تمنائیں۔ اللہ حافظ۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ اللہ حافظ۔