کراچی سے کھٹمنڈو : دو دن کا ہوائی سفر

 

جب تشویش بڑھنے لگی تو معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ نیچے کھٹمنڈو کی فضا میں اک طوفان سا برپا ہے جس کی وجہ سے جہاز طوفان سے بھی اوپر کی فضا میں چکر لگا رہا ہے

 
 
تحریر: فیصل سمیع دھلوی
ہم نیپال کی راجدھانی کھٹمنڈو کی فضاوٴں میں ہزاروں فٹ کی بلندی پر جہاز میں موجود تھے جو سات یا آٹھ گھنٹے قبل دبئی کے ہوائی اڈے سے اڑان بھر کر اب کھٹمنڈو کے تری بھون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترنے کے بجائے فضا میں کافی دیر سے چکر لگا رہا تھا۔
مسافر بے چین ہورہے تھے اور ہمیں کافی بھوک بھی لگنے لگی تھی۔

 

کراچی سے دبئی تقریبا دو گھنٹے کی پرواز اور پھر دبئی کے ہوائی اڈے پر بھی کچھ گھنٹوں کا ٹرانزٹ ( دو پروازوں کے مابین انتظار کا وقت) جس میں پانی کے علاوہ کچھ نہیں ملا تھا اور پھر دبئی سے کھٹمنڈو کی چھ گھنٹے دورانیے کی فلائٹ اور پھر فضا میں گذرے ہوئے اس ایک گھنٹے سے زائد وقت کے بعد اب دل چاہ رہا تھا کہ کھانے کے لیے پیٹ بھر کچھ گرماگرم غذا کا اہتمام ہو۔
کیوں کہ فلائی دبئی ائرلائن میں دوران پرواز پانچ امریکن ڈالرنقد دے کر خریدا ہوا ایک ٹھنڈا اور منحنی سا سینڈوچ کب کا ہضم ہوچکا تھا۔
جب تشویش بڑھنے لگی تو معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ نیچے کھٹمنڈو کی فضا میں اک طوفان سا برپا ہے جس کی وجہ سے جہاز طوفان سے بھی اوپر کی فضا میں چکر لگا رہا ہے کہ شاید طوفان جلد ختم ہو تو جہاز کو نیچے اتارا جائے۔

 

آخرکار کافی دیر تک کھٹمنڈو کی اونچی فضاوٴں میں اڑتے رہنے سے جہاز کا ایندھن کم ہونے لگا اور پائلٹوں نے فیصلہ کیا کہ جہاز کو واپس دبئی لے جایا جائے مگر کھٹمنڈو سے دبئی واپسی کے لیے چھ گھنٹے کی پرواز کو جتنا ایندھن درکار تھا، موجودہ ایندھن اس سے کم تھا اس لیے پائلٹوں نے قریب ترین لکھنوٴ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا رخ کیا۔
لکھنئو کے ہوائی اڈے پر ری فیولنگ کے لیے اترنے کے فیصلے کو سن کر مسافروں کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑی مگر ہمارے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے کیونکہ جہاز میں شاید میرے علاوہ ایک اور ہی پاکستانی تھا اور باقی سب نیپالی جنہیں بھارت جانے کے لیے ویزے کے بجائے کسی بھی قسم کی شناختی دستاویز یا پاسپورٹ ہی ان کافی ہوتا ہے۔

 

جبکہ بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات کافی کشیدہ ہونے کی وجہ سے تولکھنوٴ ائیرپورٹ پر اترنے کی اطلاع سے خوامخواہ کے اندیشے کہ جب سب مسافرلکھنوٴ ائیرپورٹ پر اتریں گے تو بھارتی امیگریشن کا میرے لیے کیا رویہ ہوگا۔ حالانکہ یہ کوئی بغیر ویزے کے غیرقانونی داخل ہونے کی کوئی بالارادہ کوشش نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات کی فلائی دبئی ائیرلائن کے جہاز کی ہنگامی حالت میں ری فیولنگ کی غرض سے اترنے والی ایک پرواز ہے۔

 

جہازلکھنوٴ کے ہوائی اڈے پر اتر چکا تھا اور میں فکر میں ڈوبا ہوا تھا ۔ شاید اس پریشانی کا سبب یہ بھی تھا کہ میں نے یہ فرض کرلیا تھا کہ فلائی دبئی ائیرلائنز کا عملہ مسافروں کی تواضع کی غرض سے لکھنوٴ کے ہوائی اڈے پر بین الاقوامی آمد کے لاوٴنج میں کچھ انتظامات کرے گا جس کے لیے مسافروں کو اترنا پڑے گا۔
فلائی دبئی ائیرلائنز کے بجٹ ائیرلائنز ہونے کی وجہ سے جہاز میں خوردونوش کا بہت مختصر سامان موجود تھا اور کھٹمنڈوکی فضاوٴں میں کافی دیر تک چکر لگانے کے بعد جب پائلٹ نے دبئی واپسی کا اعلان کیا تو جہاز کے فضائی میزبان نے یہ خبر سنائی کہ اب جہاز میں موجود خوردونوش کا سامان بغیر معاوضے کے مسافروں کو پیش کیا جائے گا مگر دسیتاب سامان خوردونوش ابتدائی قطاروں میں ہی تمام ہوگیا بس کچھ چاکلیٹ بچ گئیں لہذا جہاز کے مسافروں کی اکثریت محروم ہی رہی ۔

 

ہمیں کھٹمنڈو جانا تھا کہ وہاں اپریل دو ہزار پندرہ کے اواخر میں انے والے شدید ترین زلزلے کے بعد بین الاقوامی رضاکار ہونے کی حیثییت سے والینٹرز منسٹرز انٹرنیشنل کی زلزلہ متاثرین کی جذباتی و ذہنی بحالی کے لیے کی جانے والی امدادی مہم میں شرکت کے لیے پاکستان سے بھی کئی رضاکار پہلے ہی دنیا کے مختلف ممالک کے رضاکاروں کے ساتھ وہاں مصروف کار تھے۔

 

میرا خیال تھا کہ اگر منگل کو نکلا جائے تو بہتر رہے گا مگر مجھے کہا گیا کہ پیر کو جانا ضروری ہے تاکہ کھٹمنڈو سے آگے کی جانب اک زلزلہ سے متاثرہ گاوٴں کی جانب جانے والے امدادی قافلے میں شامل ہوا جاسکے۔
ہمارے ٹریول ایجنٹ آصف صاحب نے بتایا کہ پیر کے دن صرف فلائی دبئی نامی ائیرلائن میں کھٹمنڈوکے لیے سیٹ دستیاب ہے۔ اس وقت تک مجھے یہ علم نہیں تھا کہ ہمارے دیگر ساتھی جو پہلے روانہ ہوئے تھے وہ قطر ائیرلائنز جیسی لگژری ائیرلائنز کے ذریعے سفر کرکے کھٹمنڈو پہنچے ہیں اور دوسری اہم بات یہ کہ فلائی دبئی ایک بجٹ ائیرلائن ہے اور جن دوستوں کو شاید علم نہ ہو ان کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ بجٹ ائیرلائن میں دوران پرواز کھانا،پانی،مشروبات اگر درکار ہوں تو خریدنا پڑتے ہیں، اس کے علاوہ اگر مسافر کا قد لمبا ہو اور اس کی ٹانگیں اکانومی کی دی گئی سیٹ اسپیس میں ایڈجسٹ نہ ہورہی ہوں تو کسی زیادہ گنجائش والی سیٹ کے حصول کے لیے بھی پیسے دے کر وہ سیٹ حاصل کی جاسکتی ہے۔

 

کسے علم تھا کہ کھٹمنڈو میں ہماری آمد تو منگل کی اک شام ہی لکھی جاچکی۔ پیر کی صبح کراچی کے قائد اعظم بین الاقوامی ہوائی اڈے کے جناح ٹرمینل سے دبئی کی فلائٹ پر سوار ہوتے وقت ہمارے ذہن میں شام سات یا آٹھ بجے تک کھٹمنڈو کے تری بھون بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچ جانے کا یقین تھا تو اس وقت تک یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ کراچی سے دبئی دو گھنٹوں کی فلائٹ اور پھر دبئی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دو اک گھنٹے کے ٹرانزٹ کے بعد چھ گھنٹوں کی دبئی سے کھٹمنڈو کی فلائٹ کے بعد کل ملا کر دس سے گیارہ گھنٹوں میں کھٹمنڈو پہنچ جاوٴں گا مگر ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ یہ سفر چھتیس گھنٹوں میں بدلے گا اور تین بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی جگہ چار بین الاقوامی ہوائی اڈوں جس میں لکھنوٴ بین الاقوامی ہوائی اڈا بھی شامل ہوجائے گا۔

 

ہماری پریشانی اس وقت تقریبا ختم ہوئی جب فضائی میزبانوں نے اعلان کیا کہ لکھنوٴ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر جہاز صرف ایندھن حاصل کرنے کے لیے اترا ہے لہذا مسافر ایندھن بھرنے تک جہاز میں ہی قیام کریں گے اور جہاز کے دروازے دبئی جاکر ہی کھلیں گے۔
رات کو ہمارا جہازلکھنوٴ ہوائی اڈے کے کسی دوردراز گوشے میں کھڑا تھا ۔اب جہاز کی کھڑکیوں سے صرف باہر لگی ہوئے بجلی کے کھمبوں کی جلتی بتیاں اور چند اک درخت ہی نظر ارہے تھے ۔

 

چند گھنٹوں کے بعد جہاز نے دوبارہ دبئی کی جانب اڑان بھری اور تقریبا چھ گھنٹوں کی پرواز کے بعد ہم بحفاظت دبئی کے بین الاقوامی اڈے پہنچے جہاں ہمیں فلائی دبئی کی جانب سے مک ڈونلڈ پر کھانے کا کوپن دیا گیا ۔ جہاز سے اترنے کے بعد پہلے فریش ہونے کے لیے ریسٹ روم اور پھر کھانے کے لیے مک ڈونلڈ کا رخ کیا ۔ ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ اب ہماری فلائٹ دن کے وقت دوبارہ کھٹمنڈو کے لیے اڑان بھرے گی تو ہم نے آرام،انتظار،بوریت اور جو کچھ بھی اس مجبوری کے عالم میں کیا جاسکتا تھا کیا اور آخرکار طویل انتظار کے بعد ہم دوبارہ کھٹمنڈو جانے کے لیے جہاز میں سوار ہورہے تھے اور اس دفعہ تقریبا چھ گھنٹوں کی معمول کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز بحفاظت کھٹمنڈو کے تری بھون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اتر گیا۔

 

کھٹمنڈو کا ہمارا پہلا سفر یادگار رہے گا کیونکہ ممکنہ طور پر تین بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر دو پروازوں کی مجموعی آٹھ گھنٹے کی مدت ، ٹرانزٹ کے تقریبا دو گھنٹوں کو ملا کر دس گھنٹے پر محیط وقت اب دو دن اور اک رات میں بدل گیا جس میں چار بین الاقوامی ہوائی اڈے، بائیس گھنٹے کی مدت پر محیط چار پروازیں اور ٹرانزٹ کے بارہ یا پیندرہ گھنٹے اوراس طرح پیرکی صبح کوکراچی سے شروع ہونے والا سفردبئی،لکھنوٴ، دبئی، کھٹمنڈو میں منگل کی شام کو اختتام پذیر ہوا۔