بیسویں صدی کے اہم کشمیری ادبی رسائل:ایک جائزہ

علمی اور ادبی میدان میں تحریری دستاویزکی بڑی اہمیت ہے۔یہ ماضی اور مستقبل کے مابین ایک پل کی سی حیثیت رکھتاہے۔جو نئی نسل کو ان کے ثقافتی ورثے اور اسلاف کی روایات سے بنائے رکھتا ہے۔دستا ویزات میں ایک قوم و ملت کی تاریخی،سیاسی،سماجی،لسانی،معاشی،مذہبی اور عقیدتی زندگی کا عکس موجود رہتا ہے۔اس اعتبار سے تحاریرتہذیبی روایات کو باقی بھی رکھتے ہیں اور مختلف علوم کی اشاعت کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔دستاویزات کی ایک وسیع و عریض دنیا ہے۔مذہبی صحا ئف،دائرۃ المعارف،لغت،گرامر،تاریخی کتب،رسائل و جرائد،اخبار اور انتظامی حکمنامے وغیرہ اپنے اندر ایک کائنات سموئے رکھتے ہیں۔
ان ہی دستاویزات میں سے ایک دستاویز جسے ہم ”رسالہ“کے نام سے جانتے ہیں۔رسالہ عربی زبان سے مستعار ہے۔ جس کے معنی چھوٹی کتاب،مکتوب یا فوجی دستہ ہے ؎۱ (فرہنگ امیر)۔
لیکن ادبی اصطلاح میں رسالہ سے مراد مقررہ وقت پے مخصوص موضوع پرتسلسل کے ساتھ شائع ہونے والی کتاب ہے۔رسالے کی بہت سی اقسام ہیں۔مثلاً ادبی،سائنسی،زراعتی،کھیل کود،مذہبی اورفلمی رسالے۔”ادبی رسالہ“ادب کا ایک لازمی جز ہے۔تحقیقی و تنقیدی،نظم و نثراورتاریخی مضامین اس کے خاص مندرجات میں سے ہیں۔جو قارئین میں ادبی میلان پیدا کرنے کا ایک کار گر وسیلہ ہے۔قارئین کی پسند و ناپسنددیدگی کی آراء کا لین دین علمی و ادبی ماحول کو جنم دیتی ہے۔اور یوں علم و ادب میں پیش رفت ہوتی ہے۔ ”رسالہ“ ایک زبان کے ادب کومحفوظ کرنے اور ترقی دینے میں معاون ثابت ہوا ہے،نیز یہ تخلیق کار کو قاری سے متعارف کرانے میں بھی نمائندہ کردار ادا کرتا ہے۔ادیبوں کی حوصلہ افزائی، قدر شناسی اور دیگر تعاون علم و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس ضمن میں ”رسالہ“ایک کار گر وسیلہ ہے۔جس کی وساطت قلمکاروں اور مصنفین کو داد سخن بھی ملتے ہیں اور علمی شناخت بھی۔رسائل کی اشاعتی روایت بہت پرانی ہے۔
؎ ادبی رسائل کے تناظرمیں ہم یہاں ا ن چند کشمیری رسالوں کا مفصل تذکرہ پیش کریں گے جن کے سفینے ہر دور میں کشمیری زبا ن و ادب کی تعمیر و ترقی میں پیش پیش رہے ہیں۔جنہوں نے کشمیری زبان و ادب کی صورت میں اس قوم کی تاریخ محفوظ کر لی ہے۔ کشمیری زبان کا پہلا رسالہ ایس۔ پی۔ کالج۔کی جانب سے شائع ہونے والا ”پرتاپ میگزین“ہے۔جس میں کشمیری زبان کے لیے ایک حصہ مختص تھا۔اگرچہ اس سے قبل ہی کشمیری زبان میں صحافت کا آغاز رسائل وجرائد کی اشاعت کے ذریعے ہوا تھا لیکن وہ صحافت کی ابتدائی کوششیں تصور کی جا سکتی ہیں۔کشمیر اورلاہور کے درمیان قدیم زمانے سے ہی خوشگوار علمی و ثقافتی تعلقات قائم تھے۔ان خوشگوار تعلقات کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ کشمیری زبان میں صحافت کا آغاز لاہور سے شائع ہونے والے ”بہارِ گلشن کشمیر“نامی اخبارہی سے ہوتاہے۔سری کنٹھ توشخانی کی ادارت میں ۲۲۔۱۲۹۱ میں پہلی بار کشمیری زبان کے رسم الخط کو اخبار میں جگہ دی گئی۔ یہ اخبار کشمیری زبان و ادب کی تاریخ میں اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ کشمیری زبان کا”لیلا“ نام سے لکھاجانے والاپہلا ناول اسی رسالے میں شائع ہوا۔یہ تجربہ خود”سری کنٹھ توشخانی“نے اخبار کے۲۲۹۱شمارے میں قسط وار شائع کیا تھا۔ اگرچہ یہ تجربہ فنی اعتبار سے کمزور ہی تھا لیکن اسی کی بدولت کشمیری زبان میں ناول نگاری کی روایت قائم ہوئی۔یاد رہے کہ صحافت کی ابتدا ء میں رسائل کے مقابلے میں روزناموں اور ہفتہ وارہ اخباروں کا ہی رواج تھا جس وجہ سے اکثر علمی و ادبی تخلیقات اخباروں ہی کی وساطت سے منظر عام پر آتے رہے ہیں۔
ڈوگرہ عہد کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔جہاں ظلم،بربریت،امتیاز،لوٹ ماراور رشوت ستانی جیسے خرافات کا بازارگرم تھاتو وہیں مزاحمت اور بغاوت کی آواز کو زیر نگیں رکھنے کے لیے ڈوگرہ حکومت نے اظہار راے پر بھی قدغن لگا دی تھی۔اس کسمپرسی نے عام کشمیری کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ سماجی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ علم وادب کا شعبہ بھی متاثر ہی رہا۔اس پُر آشوب دور میں شعبہ صحافت پربیشتر پابندی ہی عائد رہیں۔
”بیس ویں صدی کی تیسری دہائی میں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے عہد کے دوران”مڈلٹن اورگلنسی کیمشن“ کی ثالثی کی بدولت جموں و کشمیر کی عوام کو”پریس اور پلیٹ فارم“کی آزادی دی گئی۔.رسالہ اور میگزین“ تو دور کی بات اس سے قبل کشمیر میں کوئی اخبارتک شائع نہ ہوتا تھا“۔ ؎۱
پریس اور پلیٹ فارم کی بحالی کے بعدایس۔پی۔کالج۔کا”پرتاپ میگزین“کشمیر سے شائع ہونے والاپہلارسالہ یا میگزین تھا۔تیسری دہائی میں شروع ہونے والے اس انگریزی رسالے میں بعد میں اردو،ہندی اور پنجابی زبانوں کے لیے الگ الگ سیکشن مقرر کیے گئے۔۶۳۹۱میں باضابطہ طور پراس میں کشمیری زبان کا سیکشن بھی قائم کیا گیا:
”پریس کی آزادی کے بعد ۶۳۹۱میں وادی کشمیر سے جو پہلا میگزین شائع کیا گیا وہ ایس۔پی۔کالج۔کا ”پرتاپ میگزین تھا“۔ ؎۲
رسالہ ھذا میں کشمیری سیکشن کے قیام کے بعدبہت سے کشمیری ادباء اس کی طرف متوجہ ہوئے۔کشمیری سیکشن کا پہلا شمارہ معروف نقاد و محقق پروفیسر جیا لال کول کی نگرانی میں شائع ہوا۔اس کے ابتدائی شماروں میں کرشن جور ازدان،پرمانند،مقبول شاہ کرالہ واری،مہجور اور فاضل کشمیری جیسے نامور شعراء کا منظوم کلام ہی چھپتا رہا۔کشمیری زبان و ادب میں تنقیدی شعورکو فروغ دینے میں بھی یہ رسالہ قابل قدر خدمات انجام دے چکاہے۔ مہجور کی شاعری پرلکھا گیا ”نند لال امباردار“ کا کشمیری زبان کا پہلا تنقیدی مضمون پہلی بار اسی رسالے میں شائع ہوا۔پروفیسر محی الدین حاجنی نے کشمیری زبان کا پہلا سماجی ڈراما ”کسان کا گھر“ کے عنوان سے لکھاجو اسی رسالے میں ۸۳۹۱کے شمارے میں شائع ہو کر لوگوں تک پہنچااور یہ کافی پسند بھی کیا گیا۔ کشمیری زبان میں ڈراما کا پہلا تجربہ ہونے کے باوجود یہ ڈراما فنی نقائص سے مبرا ہے اور تخلیق کار کے تخلیقی کمال کا بھی پتاہ دیتاہے۔ ۴۴۹۱ کے بعد اس رسالے میں کشمیری سیکشن کی نشرو اشاعت تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک بند رہی جس وجہ سے اس دور کی ادبی تخلیقات کے بارے میں کوئی ثبوت بہم نہیں ہوتا۔۷۵۹۱ میں جب اس کی نشرو اشاعت کا سلسلہ پھرسے چل پڑا تو کشمیری زبان کے قلمکاراور قاری کے بیچ منجمد رشتہ ایک بار پھراستوار ہوا۔اس بار رسالے کے نئے مدیرپروفیسر محی الدین حاجنی مقرر ہوئے۔ اس کے عہد میں رسالے کی کارکردگی خاطر خواہ رہی جس سے بہت سے قلمکار وں اور دانشوروں میں ادبی ذوق و شوق پیداہوا،اور اسی ضرورت کے پیش نظر کشمیری سیکشن کے صفحات کا تعداد بھی ۴۲ سے ۵۶ تک جا پہنچا۔یہ اس رسالے کی ہی دین ہے کہ اس نے غلام نبی فراق،امین کامل،رحمن راہی،غلام رسول سنتوش،مرزا غلام حسن بیگ عارف،غلام نبی عار ض اور فاضل کشمیری جیسے نامور شعراء کشمیری زبان و ادب کو فراہم کئے۔ان شعراء نے کشمیری زبان و ادب میں معیار اور مقداردونوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔پرتاپ میگزین وہ واحد رسالہ ہے جو پچھلی آٹھ دہائیوں سے مسلسل کشمیری زبان وادب کی خدمت انجام دے رہا ہے البتہ اس حقیقت سے بھی فرار حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس کے معیار میں نمایاں گراوٹ پیدا ہوئی ہے۔
رسالہ ”کونگ پوش“کشمیری زبان وادب کی تاریخ میں دوسرااہم نام ہے۔ ”قومی کلچرل کانگریس“ کی طرف سے اجرا ہونے والے اس رسالے کواُس وقت کی مقامی سرکارکی سرپرستی حاصل تھی۔اُس وقت کا مروجہ کشمیری ادب(جس میں شاعری،افسانہ اور ڈراما شامل ہے)اسی رسالے میں شائع ہوتا رہا۔کشمیری زبان میں افسانے کا آغاز اسی رسالے کی مرہون منت ہے۔سوم ناتھ زتشی نے اپنا پہلا افسانہ ”ییلہ پھول گاش“(جب آفتاب طلوع ہوا)کے عنوان کے تحت اسی رسالے کے ۰۵۹۱ کے شمارے میں شائع کرایا۔”قومی کلچرل کانگریس“ کی نگرانی میں شائع ہونے والا یہ رسالہ اُس زمانے میں ترقی پسند منشور ہی کی آبیاری کرتا رہا،اس حوالے سے پروفیسر حاجنی لکھتے ہیں:
”کشمیری نظم و نثر کو جدید ترقی پسندی کی سمت ”کونگ پوش“ رسالے ہی کے ذریعے دی گئی“۔ ؎۳
اس رسالے میں چھپنے والی شاعری ترقی پسند نظریے ہی کی عکاسی کرتی ہے جس میں زیادہ تر جذباتیت ہی کا عنصر غالب ہے۔
مثلاً ژے چُھے کانہہ رحم ما ہر گز ژے ما پاسِ و.فا ہر گز
ژے ما شرم و حیا ہرگز ژے ما خوفِ خدا ہرگز
گرچہ ان اشعار میں ایک سماج کی منظر کشی کی گئی ہے لیکن ساتھ ساتھ انسان دوستی اور اخلاق سوزی پر بھی واویلا ہے۔
وٹان گوو ڈیونگ قومن قسمتس تسبح وانن منز
ہو ہے انسان چھا اشرف زمین زمانن منز
اگرچہ یہ شاعری سطحی اور فنی کوتاہیوں کا ہی ثبوت دیتی ہے لیکن اس میں شاعر روایتی طرز اظہار اور درویشانہ فکر ترک کرکے انسانی زندگی کے روز مرہ مسائل کے تئیں فکرمند نظر آتا ہے۔
رسالہ ”کونگ پوش“ کشمیری زبان کے لیے کسی کتب خانے سے کم نہیں جس نے نہ صرف اس زبان کا قیمتی اور قدیم کلمی سرمایہ محفوظ رکھا بلکہ ادبی ذوق رکھنے والے افراد کے لیے ایک وسیلہ بھی ثابت ہوا۔اسی رسالے نے کشمیری زبان کے ڈراما کی ابتدائی کوششوں کوچھاپ کر نئے قلمکاروں کو ڈراما لکھنے کی تحریک دی۔علی محمد لون،عزیز ہارون،نور محمد روشن،سوم ناتھ زتشی اور امین کامل کشمیری ادب کے وہ فنکار ہیں جنہوں نے شاہکار تخلیق کئے۔
”کونگ پوش“ کے بعدکشمیر بزم ادب کا شائع کردہ رسالہ”گلریز“کشمیری زبان میں اور ایک خاص نام ہے۔جہاں رسالہ ”کونگ پوش“کا نظریہ ’ادب براے زندگی‘ تھا وہیں ”گلریز“ رسالے نے نظریہ’ادب براے ادب‘ پیش کیا۔مرزا غلام حسن بیگ عارف،امین کامل،تنہاانصاری،فاضل کشمیری،ماسٹر زندہ کول،رسا جاودانی اور غلام نبی فراق جیسے شعراء کا کلام اس رسالے میں مسلسل شائع ہوتا رہا۔پروفیسر محی الدین حاجنی کا”مسدس حالی“اور میر سید علی ہمدانی ؒکے ”چہل اسرار“ کے تراجم بھی اسی رسالے کی وساطت سے لوگوں تک پہنچے۔پروفیسر حاجنی کا ”منصورالحلاج“ کی تصنیف ”کتاب الطواسین“ کے چند اقوال کا ترجمہ بھی اس رسالے میں شائع ہوا ہے۔اس کے علاوہ حضرت شیخ نورالدین ؒ کو میر محمد ہمدانی ؒکادیا ہوا’’خطِ ارشاد“بھی رسالہ ”گلریز“کی بدولت منظر عام پر آیا۔اسی رسالے کے ذریعے کشمیری زبان میں ”سفر نامے“کا بھی آغاز ہوا۔مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ رسالہ کشمیری روایت پسند مصنفین کے لیے ایک اہم ذریعہ رہا۔

”کا>شُرادب“ نامی یہ رسالہ کشمیری ادب کو فروغ دینے میں ایک اور کڑی ہے جو غلام رسول سنتوشؔکی سربراہی میں ۶۶۹۱ میں شروع کیا گیا،لیکن افسوس کہ یہ چودہ شماروں سے زیادہ نہ چل سکا۔اس کی ادارتی شعوریٰ میں غلام رسول سنتوش،دینا ناتھ نادم،علی محمد لون اور بنسی نردوش جیسے معروف کشمیری دانشورتھے۔خال و خد،پیام آرُت،ادبی ڈائری،زمین زراعت،راے تراے اور بکواس نامہ جیسے مخصوص کالم شائع ہوتے رہے۔رسالہ مدیر کی جانب سے امین کاملؔ،علی محمد لونؔ،غلام نبی فراقؔ،بنسی نردوشؔ، رحمن راہیؔ اور اختر محی الدین جیسے ادیبوں پر خاکے لکھے گئے جن میں اُن کی تصاویر بھی بنائے گئیں تھیں۔یہ رسالہ اس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ مختلف زبانوں کے افسانوں کا کشمیری ترجمہ اسی میں شائع ہوا۔اس تراجم سلسلہ میں سعادت حسن منٹو،احسان عبدالقدوس،واحدہ تبسم،گورکی،موپاساں،چیخوف اور اوہینری کے افسانے کشمیری زبان میں نقل کیے گئے۔اس کے علاوہ بہت سے کشمیری نقادین اور محققین کے تنقیدی و تحقیقی مضامین جن میں اوتار کرشن رہبر کا”کردارنگاری اور ادب“ ،محمد امین اندرابی ”روایت اور ادب“ ،مرزارعارف بیگ ”ہماری ادبی تحریک“ ،غلام نبی فراق”تراجم کی اہمیت“ اور فاروق نازکی کا”جدید شاعری“اس رسالے میں شائع ہوئے جس سے اس زبان میں تنقید و تحقیق کو بہت فائدہ ہوا۔یہ رسالہ جدید ادبی افکار و رجحانات کا ترجمان تھا جو بدقسمتی سے زیادہ دیر تک اپنا سفر جاری نہ رکھ سکا۔
”نیب“ اس ضمن میں ایک اور اہم رسالہ ہے جو امین کاملؔکی نگرانی میں بیس ویں کی آٹھویں دہائی ۸۶۹۱ء میں شروع کیا گیا۔یہ مشہور اردو رسالہ ”شب خون“جیسامعیار رکھتا تھا۔۸۶۹۱ سے ۱۷۹۱ تک اس کے سترہ شمارے شائع ہوئے۔’ظرافت‘، ’راے تراے‘اور’کہوچہ سام‘ جیسے مختلف مستقل کالموں کے علاوہ اس میں شائع ہونے والے مواد پر قارئین کے تاثرات پر مبنی خطوط بھی شائع ہوتے تھے۔کشمیر کی بے نظیر خوبصورتی اور اس کے شاندار ماضی پر امین کامل ؔ کا لکھا ہوا ”قصیدہ“ بھی اسی رسالے میں شائع ہوا جو ایک دستاویز کی حیثیت سے کشمیر کے ایک دور کی تاریخ اپنے اند سموئے ہوئے ہے۔ رسالے میں شائع ہونے والی امین کاملؔ کی شعری تخلیقات کشمیری غزل کو جدید رجحانات سے متعارف کرانے میں سودمند ثابت ہوئیں،یہی وجہ ہے کہ یہ رسالہ ”جدید شاعری“ کا ترجمان کہلایا۔اس رسالے نے کشمیری شعراء کو جدید یت کے ادبی افکار اور رجحانات سے آشنا کرایا۔بقول شوق اور ناجی:
”ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرکے ۸۶۹۱ میں امین کاملؔ نے ”نیب“ نام کا ایک نیا رسالہ شروع کیا جو ہمارے ادب میں ایک نئے رجحان کا نمائندہ بنا“۔ ؎۴
”زبان اور زبان سازی“، ”ٹالسٹاے کا ایک کردار“، ”آغا شاہد علی اور امریکی غزل“، ”رابرٹ بیلی کے غزل“ جیسے مختلف زبانوں کے تراجم اس رسالے میں شائع ہوئے جن سے کشمیری زبان و ادب میں تعداد اور معیار دونوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔اس رسالے کا بند ہونا کشمیری ادب کی تاریخ میں ایک اور ناخوشگوار واقع تھا۔بقول ضمیر انصاری:
”اس رسالے کا گھاٹے میں چلنا اس کے بند ہونے کی خاص وجہ تھی۔اس کو کوئی مالی امداد میسر نہ تھی“۔ ؎۵
اگرچہ مذکورہ رسالہ امین کامل ؔ کی حیات ہی میں اقتصادی مشکلات کے باعث بند ہوا تھا لیکن ایک دہائی قبل اُس کے فرزند منیب الرحمن نے اِس کو پرانے نام سے ہی”ای فارم“ میں دبارہ شروع کیا۔
ضلع بارہمولہ میں واقع علاقہ ”دلنہ“ سے تعلق رکھنے والی معروف ادبی شخصیت مرحوم ”نشاط انصاری“ نے ۲۷۹۱ میں ”دائرہ ادب دلنہ“ کے نام سے ایک ادبی و ثقافتی تنظیم کا قیام عمل میں لایا۔دلنہ اور اس سے متصل علاقوں کے مقامی تعلیم یافتہ افراد اس تنظیم سے وابستہ ہوئے۔اسی تنظیم نے ۶۷۹۱میں رسالہ ”پرتو“ کے نام سے ایک علمی وادبی جریدہ شروع کیا۔یہ شمالی کشمیر سے شائع ہونے والے رسالوں میں سے ایک اہم رسالہ ہے جس کے اب تک تیس سے زائدتنقیدی وتحقیقی، نظم اور نثر ی مواد پر مبنی شمارے شائع ہو چکے ہیں۔اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے پہلی بار ”رباعی نمبر“ ،”صحافت نمبر“ ،”انشائیہ نمبر“ ، ”وژن نمبر“ اور تنہا انصاری نمبر جیسی اصناف پر طبع آزمائی کی گئی۔اس میں شامل مضامین کشمیری ادب میں آنے والے ادیبوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہونگے۔
صحافت ایک قوم کی آئینہ دار ہوتی ہے۔یہ ایک قوم وملت کے نشیب و فراز کواپنے اندر سماکر اُس قوم کی تاریخ محفوظ کر لیتی ہے۔ صحافت کا ادب کے حوالے سے مثبت اور تعمیری رول رہاہے۔کشمیری زبان و ادب میں جب بھی صحافت کا تذکرہ ہوگااس کی ناقابل فراموش خدمات کوخراج تحسین پیش کیا جائے گا۔رسائل و جرائد کا کشمیری زبان وادب کو محفوظ کرنے،فروغ دینے اور نئی تبدیلیوں اور نئے افکار سے ہم آہنگ اور آشنا کرنے میں قابل قدر کردار رہا ہے۔ایک مقولہ ہے ”کہ جتنی زیادہ بجلی کی بتیاں ہونگی اتنی ہی زیادہ روشنی بھی ہوگی“۔یہ کشمیر ی علم و ادب کے لیے ایک سانحہ رہا ہے کہ یہ وقت وقت پر بیشتر ایسے رسائل کی خدمات سے زیادہ تر محروم ہی رہا ہے، جنہوں نے اس کی ترقی و ترویج میں گراں قدر خدمات انجام دی تھیں۔ان میں کچھ ارباب اقتدار کے خوف کی بھنیٹ چڑھیں تو کچھ اقتصادی بحران کے شکار ہو کر نابود ہوئے تو وہیں کچھ رسالے ایسے بھی گزرے جو افراد کی آپسی رسہ کشی اور تنازعے کے باعث کشمیری ادب میں نہ پُر ہونے والی خلا چھوڑ گئے۔
حواشی
۱۔ ادار= ”پیش گُفتار“ میگزین نمبر، پرتو دایرہ ادب دلنہ، ۰۰۰۲،ص ۵
۲۔ ایضاً،ص ۵
۳۔ بحوالہ مشعل سلطانپوری،کا>شرِ نثرک=/ تعمیر کار،کا>شُر شعبہ کشمیر یونیورسٹی،سرینگر،۲۸۹۱،ص ۵۲۲
۴۔ شفیع شوق،ناجی منور،کا>شر زبان تہ= ادبُک تواریخ،کا>شُر ڈپاٹمنٹ کشمیر یونیورسٹی،سرینگر،دویِم چھاپ،۴۱۰۲،ص ۶۷۳
۵۔ ضمیر انصاری ”نیب میگزین“ میگزین نمبر، پرتو، دایرہ ادب دلنہ، ۰۰۰۲،ص ۲۴
مضمون نگار:ڈاکڑ عابد فاروق
ڈیپاٹمنٹ آف ماڈرن انڈین لینگویجز،علی گڑھ مُسلِم یونیورسٹی،علی گڑھ