الٰہ آباد میں ابو الکلام آزاد کی تقریر اور جیل کی سزا
ڈاکٹر سنجے کمار
(اسسٹینٹ پروفیسر)
شعبہئ اردو، الہ آباد یونیورسٹی،الہ آباد، یوپی۔ ۲۰۰۱۱۲
Mobile No: 9919586916
Email: sanjay2013.au@gmail.com
مولانا ابوالکلام آزادایک نابغہئ روزگار، وحیدالعصراورہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ جتنے بڑے عالم تھے اتنے ہی بڑے سیاست داں بھی تھے۔ ملکی سیاست و قیادت کی ساری خوبیاں ان کے اندر بہ درجہئ اتم موجود تھیں۔ ان کے سماجی، سیاسی، سائنسی اور تعلیمی افکار و نظریات کی بدولت آج ملک ترقی کے نئے نئے راستوں پر گام زن ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے لیے انھوں نے اپنی پوری علمی و عملی زندگی صرف کر دی۔ ان کی سیاسی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انھیں دو بار انڈین نیشنل کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا۔ پہلی با ر۳۲۹۱ء میں اور دوسری بار ۰۴۹۱ء میں انھیں تب صدر بنایا گیا جب پوری دنیا دوسری عالمی جنگ کے شدید بحران سے دو چار تھی۔اُس دور میں ہندوستان بھی اپنی سیاسی اور قومی زندگی کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گیا تھا۔ یہ حالات مولانا آزاد کے لیے کسی سخت آزمائش سے کم نہ تھے۔
مولانا آزاد ہندوستان کی آزادی کے لیے کئی بار جیل گئے۔ آخری بار ۲۴۹۱ء میں وہ برطانوی حکومت کے قیدی بنے۔ اس سے پہلے وہ پانچ بار قید و بند کی سزا پا چکے تھے۔ جس کی تفصیل خود انھوں نے حبیب الرحمن خاں شروانی کو ایک خط میں لکھی ہے:
”صدیقِ مکرّم! قید و بند کی زندگی کا یہ چھٹا تجربہ ہے۔ پہلا تجربہ۶۱۹۱ء میں پیش آیا تھا، جب مسلسل چار بر س تک قید و بند میں رہا۔ پھر ۱۲۹۱ء، ۱۳۹۱ء، ۲۳۹۱ء اور ۰۴۹۱ء میں یکے بعد دیگرے یہی منزل پیش آتی رہی، اور اب پھر اُسی منزل سے قافلہئ باد پیمائے عمر گزر رہا ہے۔“ ۱؎
پانچویں بار ۰۴۹۱ء میں مولانا آزاد کو الٰہ آباد میں گرفتار کیا گیااور نینی سینٹرل جیل، الٰہ آباد میں قید کیا گیا۔ اُن کی یہ گرفتاری الٰہ آباد میں ہی ایک تقریر کے جرم میں کی گئی تھی۔ یہ تقریر انھوں نے ۳۱/ دسمبر ۰۴۹۱ء کو پُرشوتم داس پارک، الٰہ آباد میں کی تھی۔ اُس وقت مولانا آزاد الٰہ آباد میں کسی کام سے تشریف لائے تھے۔ ان کی آمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذکورہ پارک میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیاتھا جس کی صدارت پُرشوتم داس ٹنڈن نے کی تھی۔ میٹنگ میں تقریباً پانچ ہزار لوگ موجود تھے جس میں خاص طور سے طلبہ کی اکثریت تھی۔ پروگرام کی ابتدا میں پُرشوتم داس ٹنڈن نے مختصر تعارفی تقریر کی تھی، اس کے بعد مولانا آزاد نے کلیدی خطبہ دیا تھا۔ان کے خطبے کی کچھ اہم باتیں یہاں نقل کرناغیر مناسب نہ ہوگا۔ انھوں نے خطبے کا آغاز اس طرح کیا تھا:
”بھائیو! میں اِس وقت چند منٹ کے لیے آپ کے سامنے آگیا ہوں،ایسے کچھ کاموں سے جن کاموں کی وجہ سے مجھے الہ آباد آنا پڑا۔ چونکہ میں آ گیاتھا تو جب دوستوں نے کہا تو میرا خیال ہوا کہ اگر چند منٹ میں نکال سکتا ہوں تو مجھے نکالنا چاہیے اور آپ بھائیوں کی خدمت میں آنا چاہیے۔“ ۲؎
جس وقت مولانا آزاد رام گڑھ کے اجلاس میں کانگریس کے صدر منتخب ہوئے اُس وقت دوسری عالمی جنگ کی شروعات ہو چکی تھی۔ اس جنگ میں نازی جرمنی نے کئی ملکوں پر حملہ کرکے انھیں اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ اُس کے اِس حملے سے برطانیہ اور فرانس گھبرا گئے تھے۔ ایسے حالات میں اِن دونوں ملکوں کو جرمنی کے خلاف جنگ چھیڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اس میں اُنھیں ہندوستان کی مدد کی ضرورت تھی۔ کانگریس کے لیڈروں سے مشورہ کیے بغیر برطانیہ نے اعلان کر دیا تھا کہ اس جنگ میں ہندوستان ان کے ساتھ ہے، اور وہ پیسے اور آدمیوں سے برٹش فوج میں شامل ہو کر ان کی مدد کر رہا ہے۔ مولانا آزاد، مہاتما گاندھی اور دوسرے کانگریسی لیڈروں نے برطانیہ کی اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کر دیا، اور کہا کہ اگر برطانیہ ہندوستان کو آزاد کرد یتا ہے تو اس عالمی جنگ میں وہ ان کا ساتھ دیں گے۔ لیکن حکومت نے اِن کی مانگ کو ٹھکرا دیا۔ اب مہاتما گاندھی اور دوسرے لیڈروں نے کافی غورو فکر کے بعد یہ طے کیا کہ پورے ملک میں انفرادی ستیہ گرہ تحریک کی شروعات کی جائے۔ اس تحریک کے بارے میں مولانا آزاد اپنی کتاب انڈیا وِنس فریڈم اردو ترجمہ آزادیِ ہند میں لکھتے ہیں:
”دہلی اور پونا کی میٹنگوں کے بعد، جب انگریزوں نے کانگریس کے تعاون کی پیش کش ٹھکرا دی، تو گاندھی جی نے سول نافرمانی کی ایک محدود تحریک کے بارے میں سوچا۔انھوں نے یہ تجویز رکھی کہ مردوں اور عورتوں کو، ہندوستان کی جنگ میں کھینچے جانے کے خلاف، انفرادی طور پر احتجاج کرنا چاہیے۔ وہ کُھلے عام، جنگی کوششوں سے اپنے آپ کو لاتعلق رکھیں گے اور اپنی گرفتاری کی پیش کش کریں گے۔“ ۳؎
انفرادی ستیہ گرہ کی شروعات عوام سے نہیں بلکہ خاص چُنے ہوئے لوگوں سے کی گئی تھی۔ کانگریس کی اجازت سے ہی انفرادی ستیہ گرہ کیا جا سکتا تھا۔ اسے کرنے والے کا مقصد عالمی جنگ میں برطانوی حکومت کی طرف سے حصہ نہ لینے، ان کا مالی تعاون نہ کرنے اور بولنے کی آزادی کی مانگ کا اعلان اور تشہیر کرنا تھا۔ آزاد نے مذکورہ بالا تقریر میں کہا تھا:
”جہاں تک ہندوستان کے فیصلے کا تعلق ہے چونکہ ہندوستان کی مرضی اس لڑائی میں نہیں لی گئی ہے اس لیے انڈین نیشنل کانگریس کا یہ فیصلہ ہے کہ ایک پائی اور ایک آدمی بھی اس لڑائی میں نہ جانا چاہیے۔“ ۴؎
وہ آگے کہتے ہیں:
”ہر ایک کانگریس کے ممبر کو چار آنے والے ممبر کو جو آنے والے کو تیار ہوں گے کہ وہ اس سوال پر جیل جائے اُس کو پورا حق ہوگا کہ اپنا نام پیش کرے۔ اُس کو پورا حق ہوگا کہ اس کو جیل بھیجا جائے۔ جو کانگریس کے ممبر بھی نہیں ہیں اگر وہ بھی اس بات کو تیار ہوں گے کہ اِس دروازہ سے جائیں تو یہ دروازہ ان کے لیے بھی کھلا ہے۔“ ۵؎
جس طرح سے آزادی کی تما م تحریکوں کو کُچلنے کے لیے انگریزی حکومت سخت رویہ اپناتی تھی ویسے ہی اس تحریک کے ساتھ بھی کاروائی کا اندیشہ تھا۔ اس لیے مولانا آزاد برٹش حکومت کی بہت سخت انداز میں مذمت کرتے ہیں:
”برٹش گورنمنٹ یا برٹش گورنمنٹ کے ایجنٹ جو ہندوستان کے تخت پر بیٹھے ہیں وہ اس کام میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔ وہ ہندوستان میں جو سمجھتے ہیں کہ ہم روکاوٹ ڈال سکتے ہیں وہ احمق ہیں، وہ بے وقوف ہیں۔ وہ کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔“ ۶؎
مولانا آزاد اِسی تقریر میں آگے اور بھی سخت انداز اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”دنیا کے تمام علم، دنیا کی تمام عقل مندی کوئی چیز اُن کی اِس کو روک نہیں سکتی۔ زیادہ سے زیادہ دنیا کا اندھا پن کوئی نصب کر سکتا ہے اگر تو بھی اس کو نہیں روک سکتا۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ انگریزوں کو بھی ہے وہی اندھاپن۔ چودہ مہینے ہوگئے لڑائی کے اوپر آپ کو معلوم ہے اس چودہ مہینے کے اندر کون سا اندھاپن آج تک اِن بے وقوفوں نے نہیں کیا ہے۔ ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک۔ شاید ہی دنیا میں کسی حکمراں جماعت کی اندھے پن میں ایسی قابلیت ہو۔ آج یہ ہنسنے کی چیز نہیں ہے، یہ میرا سنجیدہ یقین ہے کہ شاید دنیامیں کسی حکمراں طبقے میں، کسی حکمراں کلاس میں اندھے پن کی ایسی تعداد میں اتنی قابلیت ہوگی جیسی کی برٹش راجیہ میں ہے۔ اُن کو تو چھوٹوں بڑوں کی تمیز نہیں ہے۔ اندھے پن کا سب سے پہلا ثبوت یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ ہمیں انتظار کر نا چاہیے کہ یہ جتنی سزائیں اٹھوانا چاہیں یا کرنا چاہیں یہ تمام بے ایمانی کے فیصلے کی باتیں ہیں۔ جب تک وہ دماغی حالت وہ اندھاپن جس میں وہ لوگ مبتلا ہیں، وہ لوگ جن کے ہاتھ میں برٹش گورنمنٹ کی باگ ڈور ہے، جب تک وہ اندھاپن دور نہیں ہوتا اُس وقت تک ہندوستان کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔“ ۷؎
اس تقریر کی وجہ سے مولانا آزاد پر برطانوی سرکار کے خلاف نفرت پھیلانے، سرکاری قانون کی خلاف ورزی کرنے، جنگ میں اُن کی مدد نہ کرنے اور عوام کو برانگیختہ کرنے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔ جس پر عدالت نے انھیں ڈیڑھ سال کی قید کی سزا سنائی۔ یہاں اِس پورے مقدمے کی روداد تفصیل کے ساتھ رقم کی جا رہی ہے۔
۳۱/ دسمبر ۰۴۹۱ء کو مولانا آزاد نے پُرشوتم داس پارک میں جو تقریر کی تھی اسے خفیہ طور پر ایک سی آئی ڈی شارٹ ہینڈ رپورٹر رام پرکاش اگروال نے شارٹ ہینڈ کی زبان میں نوٹ کیا تھا۔ اس کی اطلاع اُس نے مجسٹریٹ کو دو خطوں کے ذریعے دی۔ ایک خط انگریزی میں ہے اور دوسرا اردو میں۔ ان .دونوں خطوں کو یہاں من و عن نقل کیا جا رہا ہے:
“Sir,
The proceeding was noted down by me in short hand. The speech of Maulana A. K. Azad, verbatim of which is above is most provocative.The meeting was more or less a student meeting.It produced good effect on the audience.
witnesses are available.
Y.M.O. Servant
R.P. Agarwal
CID Reporter
14.12.40″ ۸؎
اردو خط اس طرح سے ہے:
”میں. C.I.D شارٹ ہینڈ رپورٹر ہوں۔ ۳۱/ دسمبر ۰۴ء کو پُرشوتم داس پارک میں ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں تعینات کیا گیا تھا کہ تقریریں نوٹ کروں۔ قریب پانچ ہزار آدمی میٹنگ میں موجود تھے۔ اس میٹنگ میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک تقریر کی تھی۔ بابوپرشوتم داس ٹنڈن صدر تھے۔ بابو پرشوتم داس ٹنڈن نے شروع انٹروڈکشن کیا تھا۔ پھر بہت مختصر تقریر کی تھی۔ مولانا صاحب نے تقریر کی تھی۔ مولانا صاحب کی تقریر ایک لغایتہ۰۲ ورق تک ہے جو میرے شارٹ ہینڈ نوٹ بُک میں درج ہے داخل کرتا ہوں۔ یہ XA Eہے۔ اُس کے بعد پرشوتم داس نے کچھ تقریر کی دونوں میں نے لکھا اور محی الدین اور عبد الرزاق گواہان موجودہ میٹنگ کو پڑھ کر سُنا دی گئی اور ان کے دستخط بنوائے تھے۔ میں نے لفظ بہ لفظ تقریر نوٹ کی تھی۔ EXA اُس کا صحیح اور اصل ریکارڈ تھے۔ اِس کو میں نے رومن میں لکھا جو ایک لغایتہ۱۱ ورق ہے جو EXB ہے میرے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ رومن کا لکھا ہوا بالکل EXA کے مطابق ہے۔ تقریر پڑھ کر سنائی گئی۔ گواہ نے تصدیق کیا۔“ ۹؎
اسی تقریر کو بنیاد بنا کر مولانا آزاد پر ڈِفنس آف انڈیارولس (D.I.R.) کی دفعہ (۵) ۸۳ کے تحت سزا دی گئی۔ اس میں اسی رولس کے ضمنی دفعات(e)۴۳، اور(p) بھی شامل ہیں۔ مذکورہ قانون کی دفعات یہاں درج کی جا رہی ہیں تاکہ قارئینِ کرام ان سے بخوبی واقف ہوجائیں:
“Defence of India Rules 1939(DIR)
Part VI
Prevention of Prejudicial Acts and Control of Information
Rule 34.(6): “Prejudicial act” means any act which is intended or is likely—
(e) to bring into hatred or contempt, or to excite disaffection towards, His Majesty or the Crown Representative or the Government established by law in British India or in any other part of His Majesty’s dominions.
(p) Otherwise to prejudice the effficient prosecution of the war and the defence of Bristish India, or the public safety or interest.
Rule 38(5): “If any Person contravenes any of the provisions of this rule, he shall be punishable with imprisonment for a term which may extend to five years [ or with fine or with both]” ۰۱؎
۹۲ / دسمبر ۰۴۹۱ء کو ایس آئی (ڈی آئی ایس) نے ضلع مجسٹریٹ الہ آباد کے روبرو ایک عرضی داخل کی جس میں وارنٹ جاری کرنے اور مولانا آزاد کو گرفتار کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ عرضی حسبِ ذیل ہے:
“To,
The District Magistrate
Allahabad.
Sir,
In connection with the marginally noted case, I beg to submit that Maulana Abul Kalam Azad delivered a speech on the Purshottam Das Park on the 13th December 1940 and there by committed an offence under rule 38(5) of the Defence of India Rules.
I,therefore, request you that a warrant may kindly be issued for the arrest of Maulana Abul Kalam Azad under rule 38(5) of the D.I.R.
I have the honour to be,
Sir,
Your most obedient servant,
S.I.
D.I.S. Allahabad.
29.12.40″. ۱۱؎
اس عرضی پر ضلع مجسٹریٹ نے وارنٹ جاری کیا۔ وارنٹ حسبِ ذیل ہے:
“To,
The Sub Inspector,
District Intelligence Staff,
Allahabad.
Whereas Maulana Abul Kalam Azad of Calcutta stand charged with the offence of 38, of the Defence of India Rules, you are hereby directed to arrest the said Maulana Abul Kalam Azad, and to produce him before me. Herein fail not.
Dated this 29th day of December 1940.
DGP Anthony
District Magistrate,
Allahabad”. ۲۱؎
وارنٹ حاصل کرنے کے بعد ایس آئی (ڈی آئی ایس) نے ڈپٹی ایس پی، ایس این آغا کے ساتھ مل کر مولانا آزاد کو صبح ۳/ جنوری ۱۴۹۱ء کو گرفتار کرکے نینی جیل بھیج دیتے ہیں۔ جس کی اطلاع ضلع مجسٹریٹ اور ایس او کوتوالی کو دے دی جاتی ہے۔ (ایس او کوتوالی کو ایف آئی آر درج کرنے کے لیے بھی کہا جاتا ہے)۔ اطلاع کا خط یہ ہے:
“To,
The District Magistrate,
Allahabad.
Sir,
I beg to submit that I accompanied by Mr. S. N. Aga, City Dy.S.P. Allahabad arrested Maulana Abul Kalam Azad this morning and safely placed him in the Central Jail, Naini.
Yours obediently,
S.I.
D.I.S. Allahabad
3.1.41.”۳۱؎
“To,
S.O. Kotwali.
On 13.12.40., at 6.30 P.M. Maulana Abul Kalam Azad of Calcutta delivered an anti-British and anti-war speech at the Purshottam Dass Park Allahabad, which was recorded in short-hand by B.R.P. Agarwal before the following persons and thereby committed an offence under rule 38(5) of the Defence of India Rules.
Please register a case against Maulana Abul Kalam Azad u/r 38(5), D.I.R. and do the needful. The necessary papers are herewith attached. I accompanied by Dy. S.P. City arrested him this morning and placed him in the Naini Jail.
Witnesses.
B. Ram Prakash Agarwal, Shorthand reporter, Allahabad.
Mohi Uddin s/o Abdul Rahim, Johnstonganj, Allahabad.
Abdul Razzaq s/o Abdul Rahman Khan, Badshahi Mandi, Allahabad.
S.I. P. Hari Krishna Chaturvedi, D.I.S., Allahabad.
H.C. Aziz Ahmad, D.I.S., Allahabad.
H.C. Muhammad Amin Uddin, O.P. Suraj Kund, Allahabad.
H.C. Nawab Ali, D.I.S Allahabad.
Cons. Dwarka Ram, O.P. Suraj Kund, Allahabad.
Cons. Vishwa Nath Pd “
Cons. Qubool Ahmad “
S.I. Inkisar Husain, D.I.S.
S.I. D.I.S. Allahabad.
3.1.41″ ۴۱؎
مولانا آزاد اپنی اِس گرفتاری کی صورت حال کو انڈیا ونس فریڈم اردو ترجمہ آزادیِ ہند میں یوں لکھتے ہیں:
”(پنجاب سے) واپس آتے ہوئے الہ آباد ۵۱؎ میں مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاری بھی مزاح کے عنصر سے خالی نہیں تھی۔صبح سویرے ایک پیالی چائے کی خاطر میں ریفرش منٹ کار کی طرف جا رہا تھا، اسی وقت سپر نٹنڈینٹ پولیس نے آداب اور اسی کے ساتھ ایک وارنٹ پیش کیا۔ میں نے متانت سے جواب دیا:۔ یہ خصوصی امتیاز جو آپ نے مجھے عطا کیا ہے، اسے میں اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔ آپ نے مجھے گرفتار کرلیا، اس سے پہلے کہ مجھے انفرادی ستیہ گرہ پیش کرنے کا موقع مل جاتا۔
مجھے دو سال ۶۱؎ قید کی سزا ملی اور مجھے نینی جیل میں رکھا گیا۔“ ۷۱؎
نینی جیل سے مقدمے کی شنوائی کا کام ہوتا رہا۔ ۸/ جنوری ۱۴۹۱ء کو مولانا آزاد کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور اُن کا بیان درج کروایا گیا، جو سوال و جواب کی شکل میں ہے۔ اسے یہاں نقل کیا جا رہا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ مولانا آزاد کس طرح سے اپنے موقف پر قائم رہے:
“M. Abul Kalam Azad S/o Khairuddin Ahmad(52)
Calcutta (Congress Worker)
Question: Did you on the 13th Dec. 1940 at Purshottam Das Park deliver this speech of which EXA represents the verbatim shorthand noted EXB its Roman Urdu transcription.
Answer: The speech as recorded by the shorthand reporter is full of mistakes and errors, but so far as the main object of the speech was to proclaim the decided policy of Congress not to assist in the prosecution of the war is concerned the essence of the recorded speech is correct. I have, as President of the Indian Congress, proclaimed this in several speeches all over the country and if this is an offence I have assume responsibility not only for having done so, but also to have told many others to follow the same course and the responsibility for this I assume I have nothing further to say.
DGP Anthony
8/1/41″ ۸۱؎
مجسٹریٹ نے مولانا آزاد کو ملزم ٹھہراتے ہوئے ان پر مقدمہ چلائے جانے کا حکم دیا۔حکم نامہ اِس طرح سے ہے:
“I, DGP Anthony Magistrate Allahabad hereby charge you M. Abul Kalam Azad as follows:
That you on or about the 13th day of Dec. 1940, at Purshottam Das Park Allahabad delivered a speech in which you brought the British Government into hatred and contempt and as a policy prejudicial the efficient prosecution of the war & the defence of British India which are prejudicial acts vide Rule 34(e) & (p) of the D.I.R. And thereby committed an offence punishable under Rule 38(5) D.I.R. of the Indian Penal Code and within my cognizance. And I hereby direct that you be tried by on the said charge.
Read & Explained to accused
Accused pleads,I admit
No defence
DGP Anthony
Magistrate Allahabad.” ۹۱؎
مقدمے کی تمام کاروائی مکمل ہونے کے بعد مجسٹریٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے میں مولانا آزاد کو اٹھارہ ماہ قیدِ محض کی سزا دی گئی۔ فیصلہ درج ذیل ہے:
“Judgment
Maulana Abul Kalam Azad, President of the Indian National Congress admits having delivered a speech in the Purshottam Das Park Allahabad on the 13th December, 1940, which was recorded in shorthand by the shorthand reporter and later read out by him to two witnesses who signed the shorthand version EXA, This speech is proved by the shorthand reporter.The Maulana Abul Kalam Azad in his statement says that the recorded speech is full of mistakes & errors, but inasmuch as it proclaims the declared policy of Congress not to assist in the prosecution of the war it is correct and he assumes full responsibility not only for having proclaimed this in the speech here, but also all over India, and also for having instructing several others to proclaim this policy all over. The speech abounds in passages which aim at bringing the British Government into hatred & contempt and at prejudicing the efficient prosecution of the war. These are prejudicial acts under Rule 34(e) and (p) and he has accordingly been charged under Rule 38(5) D.I.R to which charge he has pleaded guilty. It is to be noted that although the Congress has drawn up a well ordered programme of infroming the authorities in time of the date time place of carrying out anti-war propaganda by proclaiming the anti war slogan, in this instance, the Congress President himself delivered a virulent anti war speech in total disregard of this well disciplined programme declared by Congress in conducting its Satyagraha Campaign.
I find M. Abul Kalam Azad, guilty under Rule 38(5) of the DIR and sentence him to 18 months S.I. (Simple Imprisonment) and recommend him for “A” Class.
DGP Anthony
8/1/41
City Magistrate
Allahabad” ۰۲؎
نینی جیل میں اٹھارہ ماہ کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی مولاناآزاد کو برطانوی حکومت نے۴/ دسمبر ۱۴۹۱ء کو رہا کر دیا۔ حبیب الرحمن خاں شروانی کے نام ۰۱/ اگست ۲۴۹۱ء کو آزاد ایک خط میں لکھتے ہیں:
”نو مہینے ہوئے،۴/ڈسمبر ۱۴۹۱ء کو نینی کے مرکزی قید خانہ کا دروازہ میرے لیے کھولا گیا تھا۔ کل ۹/اگست ۲۴۹۱ء کو سوا دو بجے قلعہئ احمد نگر کے حصارِ کہنہ کا نیا پھاٹک میرے پیچھے بند کر دیا گیا۔“۱۲؎
مولاناآزاد نے وقت سے پہلے اپنی رہائی کے سبب پر انڈیا ونس فریڈم اردو ترجمہ آزادیِ ہندمیں ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے:
”ہم نے، بہرحال، سزا کی مدت پوری نہیں کی، کیونکہ دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والے دو اہم واقعات نے جلد ہی جنگ کا پورا مزاج تبدیل کر دیا۔ ان میں پہلا (واقعہ) جون ۱۴۹۱ء میں سوویت روس پر جرمنی کا حملہ تھا۔ پھر چھے مہینے کے اندر پرل ہاربر کے مقام پر جاپان نے یو۔ ایس۔ اے۔(امریکہ) کو نشانہ بنایا۔“ ۲۲؎
اس تعلق سے وہ مزید لکھتے ہیں:
”میری اہلیہ کئی برسوں سے بیمار تھیں۔۱۴۹۱ء میں، جب میں نینی جیل میں تھا، ان کی حالت اس درجہ بگڑ گئی تھی کہ انھیں دیکھنے کے لیے مجھے رہا کر دیا گیا تھا۔“ ۳۲؎
رہائی کا یہ دوسرا سبب صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ پہلا سبب ہی مبنی بر حقیقت ہے، اور اس کی تفصیل بھی مذکورہ بالا کتاب میں آزاد نے لکھ دی ہے جو حسب ذیل ہے:
”(جنگ میں) جاپان کی شمولیت کے ساتھ یو۔ ایس۔ اے۔کو جنگ کی براہ راست ذمے داری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے یہ وقت آنے سے پہلے ہی انگریزوں کو مشورہ دیا تھا کہ انھیں ہندوستان سے مفاہمت کر لینی چاہیے۔ اب اُس نے برطانیہ پر اور زیادہ دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ ہندوستانی مسئلے کو حل کرے اور ہندوستان کا رضامندانہ تعاون حاصل کرے۔ گو کہ اس وقت یہ بات معلوم نہیں ہو سکی، لیکن صدر روز ویلٹ نے پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے فورا ًبعد،برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ہندوستانی لیڈروں سے مصالحت کر لینی چاہیے، ہندوستان کی حکومت، ان درخواستوں کو تمام وکمال نظر انداز نہیں کر سکتی تھی اور ایک خاص نقطے تک اس نے اپنی پالیسی کو بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔
دسمبر ۱۴۹۱ء میں وائسرائے نے طے کیا کہ جواہر لال کو اور مجھ کو رہا کر دیا جانا چاہیے۔ یہ فیصلہ جنگ کی بدلی ہوئی صورتِ حال پر کانگریس کے ردِ عمل کو پرکھنے کی نیت سے کیا گیا تھا۔ سرکار ہمارے رد ِعمل کو دیکھنا چاہتی تھی اور اس کے بعد یہ طے کرنا چاہتی تھی کہ کیا دوسروں کو بھی آزاد کیا جا سکتا ہے۔کسی بھی صورت میں،میری رہائی ضروری تھی کیونکہ جب تک مجھے آزاد نہ کیا جاتا،ورکنگ کمیٹی کی کوئی میٹنگ ہو ہی نہیں سکتی تھی۔“ ۴۲؎
نینی جیل سے رہائی کے بعد مولانا آزاد کی جو ذہنی کیفیت تھی اسے وہ یوں بیان کرتے ہیں:
”میں ذہنی اذیت کی ایک کیفیت میں مبتلا تھا جس وقت رہائی کا پروانہ مجھ تک پہنچا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب مجھے آزاد کیا گیا تو مجھے ایک طرح کی تضحیک کا احساس ہوا۔ پچھلے تمام مواقع پر، جیل سے رہائی اپنے ساتھ جزوی کامیابی کا ایک احساس لے کر آتی تھی۔ اس بار میں نے شدت کے ساتھ یہ محسوس کیا کہ اگرچہ جنگ کو جاری ہوئے دو برس سے کچھ اوپر ہو چکے ہیں، ہم ہندوستانی آزادی کو حاصل کرنے کے لیے کوئی موثر قدم نہیں اٹھا سکے۔ ہم اپنی تقدیر کے مالک نہیں، بلکہ حالات کے شکار معلوم ہوتے تھے۔“ ۵۲؎
نینی جیل سے رہا ہونے کے بعد مولانا آزاد کا شان دار خیر مقدم کیا گیا۔ وہ جیل سے نکل کر سیدھے آنند بھون پہنچے۔ عبداللطیف اعظمی اپنے ایک مضمون میں اس واقعہ کی تصویر کچھ یوں کھینچتے ہیں:
”۴/ دسمبر:آج بعد دوپہر مولانا نینی جیل الہ آباد سے رہا کر دیے گئے۔ مولانا ٹھیک ساڑھے چار بجے شام کو جیل سے باہر نکلے، جہاں ان کا شان دار خیر مقدم کیا گیا۔ وہ جیل سے سیدھے آنند بھون گئے۔ایسوشی ایٹیڈ پریس کے نمائندے نے مولانا سے انٹرویو لینے کی خواہش کی تو انھوں نے انکار کر دیا۔“ ۶۲؎
الہ آبادمیں آزاد کی تقریر سے لے کر رہائی تک کی تفصیلات قلم بند کرنے کے بعد ایک بات اور ذہن میں آتی ہے کہ جس طرح سے انھوں نے رانچی کی جیل میں رہ کر تفسیر القرآن اور احمد نگر کے قلعے میں غبار خاطر لکھا، نینی جیل الہ آباد میں آخر انھوں نے کون سا کام انجام دیا؟ یعنی نینی جیل میں ان کے شب و روزکے معمولات کیا تھے؟ حالانکہ رانچی اور احمد نگر کی بہ نسبت الہ آباد میں ان کی قید کی مدت بہت کم تھی۔ پھر بھی گیارہ مہینے کچھ کم بھی نہیں ہوتے ہیں۔ نینی میں آزاد کی مشغولیت کے متعلق تمام کتب و رسائل کی ورق گردانی کرنے کے بعد ہمیں جو باتیں معلوم ہوئیں وہ حسب ذیل ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ چائے نوشی سے لطف اندوز ہونے کی ان کی عادت یہاں بھی برقرار رہتی ہے۔ مولانا حبیب الرحمن خاں شر وانی کو ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
”صدیقِ مکرم۔۔۔آپ جانتے ہیں صبح کی چائے کے بارہ میں میرا حال وہی ہے جو حاجی محمد جان قدسی کا تھا (شعر)۔ سفر ہو،حضر ہو، کوئی حالت ہو، اس معمول میں فرق نہیں پڑتا۔ گویا شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف یہی ایک وقت میرے حصے میں آیاہے۔۔۔ نینی سینٹرل جیل میں برابر یہ معمول رہا کہ صبح تین بجے اٹھتا، پانی کی کیتلی اسٹو پر رکھ دیتا اور غسل کے لیے چلا جاتا، واپس آتا تو پانی اُبل اُبل کر اپنی تیاری کا اعلان کرتا، بلا توقف چائے دانی میں چائے دم دیتا اور پھر جام و صراحی کی صحبت میں بیٹھ کر دنیا و مافیہا کو فراموش کر دیتا۔“ ۷۲؎
دوسری اور آخری بات یہ کہ مولانا آزاد نینی جیل میں رہ کر بحیثیتِ صدر کانگریس اپنا کام کر رہے تھے۔ برطانوی حکومت نے جیل میں رہتے ہوئے انھیں اس کام کی اجازت دے رکھی تھی۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبر جیل میں مولانا سے ملنے جاتے تھے ۸۲؎۔ان کو پرائیویٹ سیکریٹری رکھنے کی اجازت بھی تھی۔ انڈیا ونس فریڈم میں آزاد نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ گاندھی جی نے ان سے کہا کہ آپ احمد نگر کی جیل میں رہ کر وہی کام کرنے کی اجازت مانگیے گا جو کام آپ نینی جیل میں رہ کر کر رہے تھے:۔
”ہم نے منٹ دو منٹ بات کی ہوگی کہ گاندھی جی نے کہا: آپ جیسے ہی اپنی منزل پر پہنچیں، حکومت کو مطلع کر دیجیے کہ آپ صدر کانگریس کی حیثیت سے اپنا کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آپ کو اپنے پرائیویٹ سیکریٹری اور دوسری ضروری سہولتوں کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ جب پچھلی بار آپ گرفتار کیے گئے تھے اور نینی جیل میں رکھے گئے تھے حکومت نے یہ سہولتیں مہیا کی تھیں۔“ ۹۲؎
المختصر یہ کہ الہ آباد سے مولانا ابو الکلام آزاد کے بہت گہرے تعلقات تھے۔ تحریک آزادی میں الہ آباد کا اہم رول ہونے کے باعث یہاں اُن کی آمد و رفت اکثر و بیشتر ہوا کرتی تھی۔ایک تقریر کے جرم میں انھیں یہاں گیارہ مہینے کی قیدو بند کی سزا اُٹھانی پڑی۔ ایک سچے محبِ وطن ہونے کے باعث نہ تو انھوں نے تقریر کی آزادی سے سمجھوتہ کیا اور نہ ہی وہ کبھی جیل جانے سے گھبرائے۔
٭٭٭
حوالہ و حواشی:
۱۔ بنام حبیب الرحمن خاں شروانی، قلعہئ احمد نگر، ۱۱/ اگست ۲۴۹۱ء، غبارِ خاطر، خط نمبر ۶، مرتب: مالک رام، ۶۹۹۱ء،ص ۳۳
۲۔ تقریر، مولانا ابوالکلام آزاد، الہ آباد ریجنل آر کائیوز، پریاگ راج، فائل نمبر ۵۹، لِسٹ نمبر ۲۴۔
۳۔ آزادیِ ہند (انڈیا ونس فریڈم)، مرتبہ: ہمایوں کبیر، ناشر: ارشد محمود، ص ۶۴۔
۴۔ حوالہ نمبر ۲۔
۵۔ ایضاً۔
۶۔ ایضاً۔
۷۔ ایضاً۔
۸۔ ریجنل آرکائیوز، پریاگ راج۔ فائل نمبر ۵۹، لِسٹ نمبر ۲۴۔
۹۔ ایضاً۔
۰۱۔ www.legislative.gov.in (Government of India Ministry of Law and Justice)
۱۱۔ حوالہ نمبر ۸۔
۲۱۔ ایضاً۔
۳۱۔ ایضاً۔
۴۱۔ ایضاً۔
۵۱۔ انڈیا ونس فریڈم کے اردو ترجمہ آزادیِ ہند میں ہمایوں کبیر نے لاہور لکھا ہے۔ شمیم حنفی صاحب نے بھی ہماری آزادی
میں لاہور لکھا ہے۔ انڈیا ونس فریڈم کے انگریزی متن میں الہ آباد ہے۔ یہی درست ہے۔
۶۱۔ مولانا آزاد نے یہاں صحیح نہیں لکھا ہے۔ انھیں ڈیڑھ سال قید کی سزا ہوئی تھی۔
۷۱۔ حوالہ نمبر ۳، ص ۶۴۔
۸۱۔ حوالہ نمبر ۸۔
۹۱۔ ایضاً۔
۰۲۔ایضاً۔
۱۲۔حوالہ نمبر ۱، خط نمبر ۵، ص ۹۱۔
۲۲۔ حوالہ نمبر ۳، ص ۷۴۔
۳۲۔ ایضاً، ص ۱۲۱۔
۴۲۔ ایضاً۔ ص ۸۴،۷۴۔
۵۲۔ ایضاً۔ ص ۸۴۔
۶۲۔ ماہنامہ آج کل، نئی دلی، نومبر ۸۸۹۱ء، مولانا آزاد نمبر، مضمون: ”سوانح مولانا ابوالکلام آزاد سیاسی سرگرمیوں کی روشنی میں“۔ ص ۴۲۔
۷۲۔ ۹۱۔اے، بالی گنج سرکلر روڈ، کلکتہ۔ مورخہ ۴/ مارچ ۲۴۹۱ء۔ از کاروانِ خیال، مرتب: محمد عبدالشاہد خاں شروانی، ص ۹۰۱،۸۰۱۔
۸۲۔ عبد الطیف اعظمی اس تعلق سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”۸۲ / نومبر، ۱۴۹۱ء: نینی جیل (الہ آباد) سے رہا ہونے والے قیدیوں سے معلوم ہوا کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ایک معزز رکن مولانا سے ملاقات کے لیے جیل خانے میں تشریف لے گئے تو ایک پولیس انسپکٹر ملاقات کے وقت موجود تھا اور دونوں لیڈروں کی گفتگو کو نوٹ کر رہا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس قسم کی کاروائی کی گئی تھی۔ مولانا نے اس کے خلاف احتجاج کیا اورفرمایا: ”میں ملاقات کی سہولت کو ترک کرنے کے لیے تیار ہوں مگر یہ برتاؤ ناقابل برداشت ہے۔“
حوالہ نمبر ۶۲،ص۴۲۔
۹۲۔ حوالہ نمبر ۳، ص ۲۱۱۔
٭٭٭