ہندوستانیت کا پرستار-مُحمد قلی قطب شاہ

 

پروفیسر ڈاکٹر عالیہ کوثر علی شاہ خاں۔
صدر شعبہ اُردو۔راشٹر ماتا اندرا گاندھی کالج جالنہ۔مہاراشٹرا۔

والئی گولکنڈہ قطب شاہ کا بیٹا-پانچواں قطب شاہی بادشاہ۔اُردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر-جس نے پچاس ہزار سے زیادہ اشعار دکنی اُردو میں کہے ہیں۔
ماہرِ تعمیرات جس نے حیدر آباد جیسے فرخندہ بنیاد شہر کی تعمیر و تشکیل انجام دی۔ محمد قلی قومی یکجہتی و طنیت کے جذبے سے سر شار تھا۔ہندوستانی تہذیب و تمدن و ثقافت اسکی شاعری کی خاصیت ہیں۔وہ نا صرف ارضِ دکن کا فرماں رواں تھا بلکہ اقلیم سخن کا بھی بادشاہ تھا۔

دکن میں بہمنی سلطنت کے خاتمہ کہ بعد پانچ سلطنتیں وجود میں آئیں۔ گولکنڈہ کی قطب شاہی، بیجاپور کی عادل شاہی،احمد نگر کی نظام شاہی، برار کی عماد شاہی اور بیدر کی برید شاہی۔
محمد قلی قطب شاہ والئی گولکنڈہ قطب شاہ کا بیٹا تھا،جسے اس خاندان کے پانچویں بادشاہ ہونے کا فخر حاصل ہے۔اس خاندان کے آٹھ بادشاہ اُردو زبان کے سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ خود اُردو کے بہت اچھے شاعر بھی تھے۔
قطب شاہی دور کے مورخوں نے اپنا سارا زور قلم فتوحات کثور کشائی اور عشق و معاشقے کی داستان سرائی میں صرف کیا ہے۔جبکہ مغل حکمرانوں کی طرح اس خاندان کے حکمراں بھی رزم و بزم کے مردِ میدان رہ چکے ہیں۔
اس خاندان کا بانی سلطان قلی قطب شاہ ہے جو ترکستان کے بڑے قبیلے قراقونیلو کارکن تھا۔پندرہویں صدی میں ان لوگوں کو ایک دوسرے قبیلے سے جس کا نام آقو نیلو تھا نے نقصان پہنچایا اور انھیں ہمدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔چنانچہ سلطان قلی ترکستان سے بیدر آگیا۔
یہاں سلطنت بہمنی کی ملازمت کرلی۔اس نے اہل ملک اور شاہی خاندان کے ساتھ پوری وفاداری نبھائی۔اور محض اپنی ذاتی قابلیت کی بنا پر ترقی کرتا گیا۔1493 ء؁ میں محمود شاہ بہمنی نے ”قطب الملک“ کا خطاب عطا کیا۔اور 1496ء؁ میں تلنگانہ صوبہ کا صوبیدار بنایا گیا۔محمود شاہ بہمنی کے انتقال کے بعد1518ء؁ میں خود مختار ہوا۔]مقدمہ تاریخ دکن75-76ء[۔
استحکام حکومت کے علاوہ قلی قطب شاہ نے اپنا دھیان علمی و ادبی ماحول سازی کی جانب بھی رواں رکھا۔اس نے ”آش خانہ“کے نام سے ایک محل تعمیر کروایا تھا جہاں باقاعدہ ادبی مجلیسیں آراستہ کی جاتی تھیں۔ان محفلوں میں وہ ازخود شامل رہتا تھا۔
اسکے جانشین جمشید قطب شاہ(1543-1550)جو اپنے باپ اور بھائیوں کو قتل کر کے تخت نشیں ہوا تھا۔ کوئی اضافہ حکومت میں نہ کرسکا۔اسے بھی علم و ادب سے لگاؤتھا۔احمد شریف و قوعی اس کے دربار کا ملک الشعراء تھا۔
جمشید کے انتقال کے بعد اس کا چھوٹا بھائی ابراھیم قطب شاہ 1550-1580جو بیجانگرمیں جلا وطن تھا واپس آکر تخت نشیں ہوا۔ابراھیم قطب شاہ گرچہ خود شاعر نہیں تھا لیکن علم و ادب سے متصف تھا۔ اُردو فارسی اور عربی شعراء کے ساتھ ساتھ تیلگو زبان کا پہلا مربی ہے۔ وہ علم و ادب کا اتنا شوقین تھا کہ دوران سفر و حضر میں علماء و فضلاء کے علاوہ کتابوں سے بھرے ہوئے صندوق اسکے ساتھ ہوتے تھے۔اسکے دوران حکومت میں قطب شاہی سلطنت بہت زیادہ مستحکم ہوگئی تھی۔
محمدقلی قطب شاہ (1580-1611)کے تخت نشیں ہونے قبل سے ہی دکن علم و ادب کی شناخت بن چکا تھا۔ اسے ادب پروری،اہل کمال کی قدر دانی، علم نوازی کی شاندار روایت ورثے میں ملی تھی۔ جسے اس نے کامیابی کے ساتھ پختگی عطا کی ناصرف علم و ادب بلکہ دیگر فنون کو بھی جِلا بخشی۔
اپنے آبا و اجداد ہی کی طرح فن کا قدر دان اور ادب کا سرپرست تھا۔ وہ اُردو، فارسی، تلگو کا بہترین شاعر بھی تھا۔ اس کے دربار میں ہر زبان کے عالم، ادبا،شعرا،و مفکر موجود تھے۔
اس نے کتب خانوں سے دلچسپی اور علم و ادب کی آبیاری میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ اس نے خط نسنخ، ثلث اور نستعلیق، کے ماہر خوش نویسیوں کو ایران و عراق سے مدعو کیا تھا۔خوشخطی کے اس فن کو محمد قلی کے دورِ حکومت میں کافی فروغ ملا۔
فنِ مصوری کو بھی اسی دور میں پہچان ملی۔اسکی عمدہ مثال سالار جنگ میوزیم میں موجود ”دیوانِ محمد قلی قطب شاہ“ ہے۔
علم طب پر بھی اس نے خصوصی توجہ دی۔ اس کے دور حکومت میں طبِ یونانی کو فروغ حاصل ہوا۔ اس علم کے حاصل کرنے والے طالب علموں کو سہولتیں مہیا کرانے کیلئے 1595ء؁ میں ایک دو منزلہ عمارت کی بنیاد رکھی۔ جس میں شفا خانہ اور طلباء کی تعلیم کا معقول نظام تھا۔ اس شفاء خانے میں بیک وقت چار سو مریضوں کے قیام کا نظم کیا گیا تھا۔ ماہر طبیبوں اور حکیموں نے علاج و تعلیم کے علاوہ اپنے تجربات اور تشخیصات کو کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔”اختیارات قطب شاہی“ او ر”تذکرۃ الشہوۃ“اس کی بہترین مثال ہے۔
ماہر فلکیات کی دربار میں موجود گی اس کے قصائد میں موجود اصطلاحوں سے لگائی جاسکتی ہے۔وہ ہر فن مولا شخصیت کا حامل تھا۔اس کے فنون سپہ گری، بہادری و دلیری کے چرچے تھے۔ میدانِ جنگ میں اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتاتھا۔
اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں تینوں کی خوبیاں ا س میں موجود تھیں۔(اکبر کا زمانہ اور محمد قلی کا زمانہ ایک ہی ہے۔ جہانگیر اور شاہ جہاں اس کے بعد کو حکمراں ہوئے)
اکبر کی طرح مشترکہ تہذیب و قومیت کا مصور تھا۔جہانگیر کی طرح عدل و انصاف کا حامی تھا۔تو شاہجہاں کی طرح عالیشان عمارات تعمیر کروانے کا شوقین تھا۔
عظیم الشان شہر حیدر آباد کی تعمیر و تشکیل میں جس دور اندیشی اور مہارت کا استعمال ہو اہے وہ کسی سند کی محتاج نہیں۔مسجد یں، عاشور خانے، چہار بازار، چار مینار، حیدر محل،کتب خانے،شفاء خانے ہدی محل،چندن محل،خداداد محل،محل کوہ طور کے علاوہ آب رسانی کا نظام،آب رسانی کی سب سے عمدہ مثال گولکنڈہ ہے۔رائے درگ تالاب سے گولکنڈہ تک پانی جس طر ح پہنچا یا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
بقول محی الدین قادری زورؔ
”وہ دکن کے موجود تمدن اور تہذیب کا بانی ہے۔وہ ایک بلند مرتبہ مصلح قوم، مجتہد و قت،وضعدار رعایا پرور، فیاض اور رحمدل حکمراں تھا“۔
اس کے عہد حکومت میں کسی کو سزائے موت نہیں دی گئی۔(محمد قلی قطب شاہ-ڈاکٹر زور)
ان تمام خوبیوں کے علاوہ اس کی سب اہم پہچان دبستان گولکنڈہ کا نامور ترین شاعر ہے۔وہ اُردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے۔ اسکے دیوان میں غزلیں،مثنویاں،قصیدے، مرثیئے اور رباعیات غرض جملہ اصناف سخن کے وافر نمونے موجود ہیں۔اس نے اپنے عہد کی عام زندگی،رسم و رواج تہواروں اور تقریبوں کی تفصیلات موسموں کی خصوصیات،کھیل کود غرض چھوٹے سے چھوٹے موضوع پر اعلیٰ پایہ کی شاعری لکھی ہے۔(دکنی ادب کی تاریخ-صن66)سخن و دکن پر حکمراں رہ چکا ہے۔
بقول نصیرالدین ہاشمی“
”سلطان کے کلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔کہ وہ ایک فطری شاعر تھا اور ہر موضوع پر نہایت کامیاب طبع آزما ئی کرتا تھا“۔
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے اشعار کی کل تعداد پچاس ہزار ہے۔وہ ایک پر گو شاوعر تھا۔ اپنی اس خوبی کا بیان کچھ اسطرح کرتاہے۔
صدقے نبیﷺ قطب شہ یوں شعر بولے ہر دن
دریا کوں روز جوں ہے موجاب کا طلوع
ڈاکٹر زورؔ کے بموجب صرف بارہ برس کی عمر سے ہرروز اس نے اوسطاً چار یا پانچ شعر ضرور کہے ہیں۔اس کی شاعری کی کل عمر زیادہ سے زیادہ پچیس برس کہی جاسکتی ہے۔
حالانکہ اسے دکنی اُردو میں شعر و ادب کی کمزور روایت ور ثے میں ملی تھی۔ اس سے قبل فخر الدین نظامی کی مثنوی”کدم راؤ پدم راؤ“اشرف بیا بانی کی ”نو سر ہار“اور مشتاق،فیروز، محمود اور ملاّ خیالی کی متفرق غزلیں دکنی ادب کا سر مایہ تھیں۔
وہ فیروز اور محمود کو اپنا استاد مانتا تھا۔ وہ فارسی کے شاعر حافظ سے متاثر تھا۔حافظ کے بعد قلی قطب شاہ نے جن شعراء کا تذکرہ کیا ہے۔ان میں انوری، خاقانی، نظامی، عنصری اور ظہیر فاریابی ہیں۔
محمد قلی کے کلام میں تصوف کی چاشنی پیدا ہونے کا ایک سبب حافظ شیرازی کا مطالعہ ہے۔ حافظ کارنگ اسکی شاعری پر سب سے زیادہ مسلط ہے۔ اس نے کئی غزلیں حافظ کے رنگ میں لکھی ہیں وہ حافظ کا پہلا مترجم ہے۔ اسکی ترجمہ نگاری میں قدرتِ فن کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔
حافظؔ-گلِ بے رُخ یار خوش نباشد- بے بادہ بہار خوش نبا شد
ترجمہ
محمد قلی –
پھل بن رخ یار خوش ناویسے
بن مد پھلی جھاڑ خوش نہ ویسے
(سلطان محمد قلی قطب شاہ-ڈاکٹر زورؔ46-48)
موزونی طبع’قوت مشاہد‘بلند تخیل‘ اور مسلسل ریاضت وہ خوبیاں ہیں جو کسی شاعر کو عروج کمال تک پہنچانے کی ضامن ہوتی ہیں۔ اور قلی قطب شاہ کی خوش نصیبی کہ یہ تمام خوبیاں اسے ورثے میں ملی تھیں۔
شعر تیرا معانی صدقے نبی
لکھ لیتے ہاتے ہات گات پلات
اس قدر عوامی مقبولیت اور وسیع پسندید گی کے باوجود اس کے کلیات کے بہت کم نسخے دستیاب ہیں۔ تلگو زبان میں لکھے نسخے ملے ہی نہیں۔1922ء؁ میں مولوی عبدالحق نے ان نسخوں کو ڈھونڈ نکالا او ر اسے علمی و ادبی دنیا سے متعارف کروایا۔
رسالہ’’اُردو“ میں قلی قطب شاہ کی شاعری کی تحقیق و تدوین سے متعلق مضمون شائع کیا۔ وہ کلیات کو مرتب کر کے شائع کروانا چاہتے تھے۔لیکن وقت نے یاری نہ کی اور یہ اعزاز ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کے حصّے آیا۔ انھوں نے مجلس اشاعت دکنی مخطوطات کی تجویزپر 1940میں اسے مرتب کیا اور شائع کروایا۔(رسالہ اردو ادب-صن253)
محمد قلی حکمراں ضرور تھا لیکن بحیثیت فنکار و ہ صحیح معنوں میں عوامی شاعر تھا۔ اس کے موضوعات میں ہندوستانی تہذیب و تمدن، یہاں کے تہوار،کے علاوہ عیدوں کا بیان،شادی بیاہ کی رسومات کا بیان اور اسکی بارہ پیاریوں کا ذکر ہے۔م
محمد قلی کے کلام کی سب سے اہم خوبی یہ ھیکہ ان میں کہیں بھی مایوسی کا شائبہ تک نہیں ملتا۔صرف خوشی و انبساط کا عالم نظر آتا ہے۔
مذہبی شاعری میں مذہبی عقیدت مندی کے اظہار کے ساتھ ساتھ عیش کو شی بھی شامل ہے۔ حالانکہ ماہر نفسیات اور ادب کے ماہر نقاد دونوں ہی اس متضاد یگا نگت سے حیران ہیں۔ وہ ایک ہی غزل میں فسق و فجور کی باتیں کرتا ہے اور پھر ان کے دو ام کیلئے مقطع میں نبی یا علی سے استمداد کی دعا کرتا ہے۔اس دو ہری نفسیات کا عکس اس کے کئی اشعار میں نظر آتاہے۔
نبی صدقے بارا اماماں کرم تھے
کروعیش جم بارہ پیاریاں سو پیارے
محمد قلی کے شاعری کے موضوعات زیادہ تر عشق مجازی سے متعلق ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہی عشق مجازی عشق حقیقی تک رسائی کا وسیلہ بن گیا(رسالہ سب رس23-2001)
عالم منجے تعلیم کریں علم و ہنر کا
لکھے ہیں ازل تھے ہمنا عشق قرارا
غزل محمد قلی قطب شاہ کی محبوب صنف سخن ہے،رباعیات اور مثنوی جیسی دو تین اصناف سے قطع نظر اس کا سارا کلام غزل کی ہئیت میں ہے۔تقریباً279غزلیں دستیاب ہیں۔

محمد قلی کی تمام غزلیں ”سخن بہ زنانِ گفتن“ کی تعریف میں آتی ہیں۔ اس نے تقریباً ہر ردیف میں غزلیں کہیں ہیں۔جس سے اس کے قدرتِ کلام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
غزلوں میں ہندی شاعری کی روایت کے مطابق عشقیہ خطاب، محبوبہ کی جانب ہے یہاں نہ صرف واردات قلبی ہے بلکہ لہجہ نسوانی ہے افعال کے صیغے تک تا نیث کے ہیں
اگر ایک تل پڑے انتر پیاسوں
نین جل سوں سپت سمُدر بھراتی
(سپت-سات، سمدر-سمندر)
میں نہ جانوں کعبہ و بت خانہ و مے خانہ کوں
دیکھتا ہوں ہر کہاں دستا ہے تج مکھ کا صفا
محمد قلی نے غزل کو جمال آفریں کیفیات اور وصل کے رنگین تجربات کے لبے باکانہ اظہار کا وسیلہ بنایا۔ وصل و نشاط کی حکایات بکثرت ملتی ہیں۔محرومی اور نارسائی جیسی کیفیات کا کہیں دخل نہیں۔
اس نے اپنے ملک کو عمرانی اور سماجی نقط نظر سے ایک بلند سطح پر پہنچانے کی کوشیش کی ہے۔مختلف عیدوں کے تعلق سے 53چھوٹی بڑی نظمیں لکھی ہیں۔ ان تہواروں کو سر خوشی اور سرمستی کا بہانہ بنا لیتا تھا۔
ان کو خاص سلیقے اور تزک و احتشام کے ساتھ منانے کے انتظامات کرواتا تھا۔عید میلاد النبی کا جشن سرکاری و درباری سطح پر منایا جاتا تھا۔جو بلا تفریق مذہب و ملّت سب کی شمولیت کا موجب تھا۔
کھڑے ہوئیں دورست جوڑ ہندو راجاں
عید رمضاں جسے وہ ”عید سیوی“ کہتا تھا کے تعلق سے لکھتا ہے کہ
ایک ماہ تھے مزا دل لا لونیاں گگن کوں
دھنڈ نو چندر پیالا پایا ایتال ساقی
اسی طرح بقر عید کیلئے
بھرائے بزم ساقیاں مد مدن سوں
کہ ہے مستان کا مہمان بکرید
شب برات کیلئے کہتا ہے کہ
”شب برات نے آکر تمام عالم اسطرح روشن کردیا ہے جس طرح نور موسیٰ کی وجہ سے وادی ایمن روشن ہوگئی تھی اور نور روز کو بھی بڑی دھوم دھام سے منانے کا رواج تھا۔ ان عیدین کے علاوہ عید مولود علی اور عاشورہ کا اہتمام کرتا تھا۔
مولود علی کے موقع پر
تولد ہوئے آج کہ دن امام
دیپے جیوں نوا چندا بروئے فرخ
میں اپ دین چھوڑ پکڑ یا اس دین کا مارگ
نپاتے اجھوں موکو ہندؤے فرخ
درج بالا شعر میں اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ میں اپنے دین کو چھوڑ کر اس دین (شیعہ)کا راستہ چنا ہے ورنہ آپ مجھے ہندوپاتے یا اب تک ایک ہندو ہوتا۔
یہ اشعار اس قیاس کی تردید کرتے ہیں کہ وہ شروع سے شیعہ عقائد کا حامل تھا۔ وہ دس ماہ دینا داری میں گزارتا لیکن دو ماہ حضرت امام حسین اور شہدائے کربلا کے ماتم میں مگن رہتا۔
قطب پنجتن کی غلامی قبولیا-تو اس عیش انگوٹھی میں چند سوریائے
عیدین کے علاوہ اپنی سالگرہ پر بھی اس نے دس نظمیں تحریر کی ہیں
؎خدا کی رضا سوں بر سن گانٹھ آیا
؎نبی کی غلامی تھے آیا برس گانٹھ
سالگرہ کے علاوہ مہندی، جلوہ کی رسم پر بھی نظمیں تحریر کیں ہیں
شاہی کھیل چو گان پر بھی اشعار کہے ہیں۔

بات چوگان سیتی جو بن گیند کر
کھیلوں آپ سکیاں سوں تم سلطان خوش
اس کے علاوہ پھوکڑی پھو، کھمڈی، ڈھان ڈھکنی جیسے کھیلوں پر قلم اٹھا یا ہے۔
ہندوستان کے موسموں میں موسم برسات،ٹھنڈ کالا(سرما)اور بسنت بہا ر کے موضوع پر بہت کچھ لکھاہے۔
(تھنڈ کالا)
روت آیا کلیاں کا ہوا راج
ہری ڈال پر پھولاں کے تاج
ہوا آئی ہے لے کر تھنڈ کالا
پیا بن سستاتا مدن بالے بالا
(برش کالا)
حضرت مصطفےٰ کے صدقے آیا برش کالا
قطب شہ عشق کرو دن دن راج
دکن کی برسات اس کا خاص موضوع رہا ہے
مرگ سال آئیا پھر تھے مرگ نینی سنگاراں کر
جڑت مانک بہوٹیاں لعل موتیاں لیک دھاراں کر
مذہبی رواداری اسکی مملکتی پالیسی کا اہم جزو تھی۔بین قومی تمدن کو فروغ دینے کیلئے ہندوستان کے تہواروں کو رائج کیا۔یہ وہ تہوار تھے جن کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔جیسے ہولی،بسنت،برسات وغیرہ۔
محمد قلی نے اپنی شاعری میں ہندوستانیت کو ترجیح دی ہے۔ اس کے الفاظ، اسکے تخیلی کردار،موسم، اور کھانے بھی ہندوستان کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ وہ خود ایسا لباس پہنتا تھا جو ہندوستانی تھا۔ شاعری میں بلا تکلف مراٹھی،ہندی،سنسکرت کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اسکے کلام میں ”ہندیت“کا جز و زیادہ ہے۔
بسنت کا تہوار ایک ایسا ہندو تہوار ہے جو موسم بہار کے آغاز میں منایا جاتاہے۔ اس موضوع پر اس نے کئی نظمیں لکھیں۔ جن میں پھولوں کا ذکر، رنگوں کا ذکر اور کنیزوں کی خوش گفتاریوں کا ذکر ہے۔
نبی صدقے بسنت کھیلیا قطب شاہ
رنگیلا ہو رہیا تر لوک سار
بسنت کھلیں عشق کا آپیارا-تمہیں ہیں چاند میں ہوں ستارا……ان نظموں میں اس تہوار کی تمام خصوصیات کو بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کی شاعری میں مشک، زعفران، عنبر،چندن کی خوبشو،سنگھار، پھول بادل، بجلی سب کا تذکرہ نظر آتاہے۔
دراصل وہ اپنے دل میں پیدا ہونے والی امنگوں اور ارمانوں کاا ظہاربے حجابی کے ساتھ کرتا ہے۔ہندوستانی دیو مالائی داستانوں سے وہ متاثر تھا۔ہندو مذہب کے رسم و رواج کو بھی شاعری میں بیان کرتا ہے۔
آرتی کی رسم
کرتے ہو جیوا پیار تھے تم پر تھے رضواں آرتی
زہراسوں نس دن وارنے چند سو را تریا یا علی
(انتخاب قلی-صن1411)
کروں تن من تماری دشٹ پر تھے آرتی جھن جھن
فدائی ہو ہوا دیدار کی تروار کا مخلص
چندن-
چندن ہور عنبر کدم کر لگاؤں
کہ موہن کوں خوش باش تئیں میں رجھائی
چھڑکاؤ-
گلاب اچھے انگن میں چھنکاؤ کے
پیاری مومندر کوں چھنداں سو آئی
بلا خوف و تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ قلی قطب شاہ اور اس کی شاعری مشترکہ تہذیب کی علمبردار ہیں کلام کی شیرینی و سادگی مقبولیت کا باعث ہے۔
ان تمام موضوعات کے علاوہ محمد قلی نے اپنی بارہ کنیزوں جنھیں پیاریاں کہا کرتا تھا۔ کیلئے بھی نظمیں لکھی ہیں۔جو انکے ناموں یا خطابوں کیساتھ لکھی گئی ہیں۔یہ بارہ پیاریاں بارہ اماموں کی رعایت سے ”محل کوہ طور“ کے بارہ برجوں میں رہتی تھیں۔بعد کو ”خدا داد محل“ میں منتقل کردی گئیں۔
ہر پیاری کو اسکی شخصیت اور خوبی کی مناسبت سے اشعار میں بیان کیا ہے (ننھی،سانولی، موہنی،مشتری،حیدر محل، کنولی،پیاری،گوری، لالا،لالن، محبوب، جھیل)ان بارہ پیاریوں کے علاوہ بھی کنیزیں تھیں جن پر شاعری کی گئی ہے۔ایسی کل تیس پیاریوں کا ذکر کلیات محمد قلی میں ملتا ہے۔ جاوید و ششٹ نے اس تعلق سے ”روپ رس“ میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔
غزلیات کے علاوہ محمد قلی کو حمد، نعت، منقبت، قعائدہ، رباعی، مرثیہ پر بھی کمال حاصل تھا۔
حمد-
چندسور تیرے نور تھے نس دن کوں نورانی کیا
تیری صفت کن کرسکے توں آپی میرا ہے جیا
آج بھی اس حمد کو با اعتبار کمالِ فن اُردو کی بہترین حمدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔وہ اُردو شاعری کا واحد ایسا شاعر ہے جس نے کثرت سے تخلص بدل بدل کر استعمال کئے ہیں۔تقریباً 18تخلص کا محمد قلی قطب شاہ نے استعمال کیا ہے۔تلگو زبان میں وہ ”ترکمان“ کے نام سے شاعری کرتا تھا۔
مولوی عبد الحق رسالہ اُردو ادب میں لکھتے ہیں کہ ”محمد قلی قطب شاہ نا صرف پہلا شاعر ہے جس نے اُردو غزل،مثنوی قصیدہ، مرثیہ لکھا ہے۔بلکہ اس نے حلقہ تقلید سے باہر نکل کر جس میں اُردو شاعری ابتداء ہی سے مقید ہوگئی تھی کسی قدر آزاد روی اور جدت کا مسلک اختیار کیا اور اپنے مشاہد ے کو کام میں لا کر ایسی چیزوں پر نظمیں لکھیں جس سے اُردو کے بعد کے شعراء بھی قاصر رہے“۔
اس نے اپنی نزاکت بیانی، جدت آفرینی،جودت طبع اور صاحب ِ کمالی کا اکثر شعروں میں دعویٰ کیا ہے۔ اپنی شاعری کی وسعت اور پسندیدگی سے وہ بخوبی واقف تھا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی شاعرانہ بصیرت پر نازاں تھا، خود لکھتا ہے اور بجا لکھتا ہے۔
نہ لکھ سکے گا کنے، شرح منج کتاباں کا
ہمارا علم ہیسب عالمان میں جیوں اعجاز
کتابیات:۔
۱) سلطان محمد قلی قطب شاہ:۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ
۲) رو پ رس:۔ ڈاکٹر جاوید وششٹ
۳) رسالہ اُردو ادب:۔ قلی نمبر
۴) رسالہ قومی زبان:۔ 2013
۵) دکنی ادب کی تاریخ:۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ
۶) قلیات محمد قلی قطب شاہ:۔ ڈاکٹر سیدہ جعفر
۷) ماہنامہ سب رس:۔ 2001
۸) محمد قلی قطب شاہ:۔ مولوی عبدالحق-رسالہ اُردو
۹) قلی قطب شاہ کی جمالیات:۔ شکیل الرحمن
۰۱) NCPLبلاگ

————————-