ڈاکٹر نورالصباح
کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے جو انسانی کی طمانیت کا ذریعہ ہوتی ہے اور یہی طمانیت اسے تکمیلیت کا درجہ عطا کرتی ہے۔ اسی طرح ضرورت کے تحت فرصت کے اوقات میں داستان طرازی نے تولید پائی اور پھر عدیم الفرصتی کے باعث اسی کے بطن سے افسانہ طرازی نے ایجادی صورت اختیار کی اور مزید ہنگامہ آرائی اور افرا تفری و مشینی ماحول کے سبب افسانچوں کی تشکیل ہوئی تاکہ اس تشکیلیت سے انسان قلبی سکون کے ساتھ ساتھ زمانے کے نشیب وفراز اور سیاسی وسماجی رویوں سے واقفیت و عوام کی ذہنی اپج مع ان کے مابین پھیلی بداعتقادیوں وتوہم پرستی کے جال میں بنی ہوئی باتوں سے روشناس ہوسکے۔ جس کی روشنی میں خامیوں سے پردہ اٹھاکر اس کو نیست ونابود کیا جاسکے اور اچھائی کو پھیلایا جاسکے۔ غلط رویوں کے خلاف آواز بلند کی جاسکے اور اپنے حقوق کی آبیاری کی جاسکے۔ توہم پرستی کو مٹایا جاسکے اور مذہب پرستی کو عام کیا جاسکے۔
آسمان ادب کے افق پر نظریں دوڑائی جائیں تو وہاں بے شمار کہکشائیں جھلملاتی ہوئی نظر آجائیں گی۔ ان میں کوئی قطب مشتری ہے تو کوئی عطارد کوئی زحل اور کوئی زہرہ کے مانند اپنی ضوفشانیوں سے عوام کی راہوں کو منور کرتا ہوا اپنی تابونیوں کو جاوداں کرنے میں منہمک و مستعد ہے۔ انھیں ستاروں کے درمیان سے ایک ستارہ محمد علیم اسماعیل کی صورت میں نمودار ہوکر آسمان ادب کو ضیابار کررہا ہے۔
موصوف ایک فعالی کرادار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں اپنی شناخت قائم کرچکے ہیں۔ اور دائمی صورت اختیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ لعل وگہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ لعل وگہر کہنے میں مجھے نہیں لگتا کہ کوئی مبالغہ آرائی ہے۔ کیوں کہ ان کا افسانہ ’’خوف ارواح‘‘ معاشرتی دنیا کی کثرت سے نکلا ہوا ایک وحدت محسوس ہوتا ہے۔ جو ان کے افسانے کو توانائی، تسلسل، ایک بحر بیکراں اور محویت عطا کرتا ہے۔
افسانہ ’’خوفِ ارواح‘‘ کی پہلی قرات نے مجھے جمیل جالبی کی کہانی، جو انھوں نے بچوں کے لیے تخلیق کی تھی یاد دلادی۔ جمیل جالبی کی دو کہانیوں کا مجموعہ ’’حیرت ناک کہانیاں‘‘ کے نام سے ہے۔ جس میں، چھن چھن چھن چھن اور بید کی کہانی شامل ہیں۔ مذکورہ کہانیوں میں انھوں نے پاکستان ہجرت سے قبل اپنے اوپر پیش آنے والے واقعات کو قلمبند کیا ہے۔ یہی واقعات انھیں پاکستان میں بھی پیش آئے تھے، جو ہندوستان میں پیش آچکے تھے۔ لہٰذا انھوں نے پیش کردہ واقعات کو اپنے بچوں کے لیے صفحہ قرطاس پر محفوظ کرلیا۔
علیم اسماعیل کا افسانہ پڑھنے کے بعد دوبارہ جمیل جالبی کی کہانیوں کو بھی پڑھا جس کا عکس ان کے افسانے میں نظر آتا ہے۔ میری دانست میں یہ بہت بڑی بات ہے کہ کسی اعلی پائے کے ادیب، نقاد، تاریخ داں، صحافی اور انشاپرداز ادیب کی جھلکیاں ایسے افسانہ نگار میں نظر آئیں جو اپنی شناخت کے لیے سرگرداں ہو۔یہ کامیابی کی ضمانت اور ذہانت کی دلیل ہے۔
علیم اسماعیل اپنے ہر افسانہ کے ذریعہ سماج کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیں۔ چاہے ان کا افسانہ، انتظار ہو یا الجھن، ہر افسانہ کسی نہ کسی معاشرتی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس میں مثبت پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور منفی پہلو کے انہدام کی راہیں نکالی گئی ہیں۔ ان کے انہماک اور درس اخلاق و مثبت اقدار سے متعلق اسلم جمشید پوری رقمطراز ہیں:
’’علیم اسماعیل کے زیادہ تر افسانچے اور افسانے سماجی مسائل کا عکس ہیں، جو ان کی امنگیں ہیں، اصلاح کا جذبہ ہے اور کچھ نیا کرنے کی دھن ہے۔ زیادہ تر افسانوں میں اخلاقی درس ہے، سماجی تعمیر تشکیل میں جن مثبت اقدار کی ضرورت ہوتی ہے، اور جو اب ہمارے معاشرے سے ختم ہوتی جارہی ہیں، علیم کے افسانے اور افسانچے اس کے ثبات میں کوشاں ہیں۔‘‘
ان کے افسانوں کے جائزے اور تجزیے سے مذکورہ سطور میں صداقت محسوس ہوتی ہے۔ جو موصوف کی باریک بیں نظر کی غماز اور سوز دروں کی عکاس ہے۔
علیم اسماعیل کتاب ’’الجھن‘‘ کے دیباچے میں فرماتے ہیں:
مزید پڑھیں ⇦ https://mazameen.com/?p=55435
Trackbacks/Pingbacks