ازلی مسافر
کا سفرنامہ یورپ
پہلی جھلک یورپ کی
تبصرہ. محمد اکبر خان اکبر
پبلشر. مثال پبلشرز فیصل آباد
کہتے ہیں کہ مسافر کے تجربات مشاہدات واقعات خیالات جذبات احساسات اور اس پر گزری کیفیات اگر ایک مربوط تحریر کا روپ دھار لیں جن میں توازن اور حسن بیان بھی ہو تو ایک شاہکار سفرنامہ وجود میں آ جاتا ہے پہلی جھلک یورپ کی ایسا ہی ایک شاہکار سفرنامہ ہے جو حسنین نازش کی تخلیقی استعداد اور مہارت کا اعلی نمونہ ہے. حسنین نازش محض ایک سیلانی ہی نہیں بلکہ ایک منفرد قلم کار بھی ہیں ان کے سفرنامے اسلوب کے اعتبار سے دلچسپ اور قاری کو متوجہ کرنے والے ہیں ان کے طبع شدہ سفرنامے کاردیش سفرنامہ ترکیہ، دیوار چین کے سائے تلے اور امریکہ میرے آگے کی مقبولیت اس امر کی شہادت دیتے نظر اتے ہیں.
ایک زمانہ تھا کہ یورپ جانے کے لیے ویزے کا حصول چنداں دشوار نہ تھا پاسپورٹ پر ویزے باسانی لگوائے اور نکل پڑے عصر حاضر میں یورپی یعنی شنجن ویزا نادر الحصول ہے کسی بھی پاکستانی پاسپورٹ پر یہ ویزہ لگوانا جوئے شیر لانے سے ہرگز کم نہیں اگر جذبہ سچا ارادہ پکا اور مسافر اچھا ہو تو ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں کہ مصداق ویزا مل ہی جاتا ہے سفر تو اور بھی لوگ کرتے ہیں مگر سفر کے بعد اپنے تجربات واقعات کو احاطہ تحریر میں لانا اصل کمال ہے. جو حسنین اصغر قریشی صاحب کے قلم میں بدرجہ اتم دکھائی دیتا ہے.
جناب حسنین نازش کے سفرنامے ایسے ادبی فن پارے ہیں جو ان تمام لوازمات سے لبریز ہیں جو آرائش تحریر کے لیے درکار ہوتے ہیں سفرنامے کا مصنف جب شاعر اور افسانہ نگار ہو تو اس کی تحریر میں منفرد ادبی رنگ اور افسانوی فضا لازمی طور پر نظر ائے گی. جیسا کہ اس سفرنامے سے ظاہر ہو رہا ہے ان کی اس خصوصیت سے سفرنامے کی دلاویزی اور حسن میں مزید نکھار پیدا ہو گیا ہے.
اس سفرنامے میں واپسی کا تحریر کردہ تذکرہ اتنا سحر انگیز ہے کہ ادبی ذوق کا حامل کوئی بھی قاری اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.
پہلی جھلک یورپ کی ایک عمدہ تخلیق ہے جو حسنین نازش کے فکر و فن اور ان کے ادبی قدوقامت کا ایک درخشاں حوالہ ہے. حسنین نازش کا سفرنامہ بنیادی طور پر تخلیقی اسلوب کا حامل ہے جس میں افسانوی رنگ اور دیگر ادبی محاسن کا التزام بھی کیا گیا ہے جن سے ان کی تحریر میں مزید دلکشی اور دل پذیری پیدا ہو گئی ہے.
ان کے سفر نامے کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی تصنع بناوٹ اور مبالغے سے پاک ہونا ہے ان کی تحریر ذاتی تجربات محسوسات محرکات اور تخیل کے عناصر سے وجود پاتی ہے اور قاری کے دل پر نقش ہوتی چلی جاتی ہے. حقیقت نگاری و تخیل طرازی کا ایک دلاویز امتزاج ان کی تحریر کا منفرد حسن ہے. ان کا افسانوی اسلوب داستان کی سی فسوں کاری طلسماتی کشش اور منطقی ربط کا حامل ہے. ان کی تحریر تاثراتی انفرادیت سے بھرپور اور مختلف ماحول روشناس کرواتی قوس قزح ہے.
انہوں نے منظر نگاری پر اپنی دسترس کا اظہار کئی مقامات پر کیا مثلا شاملی کے قصبے کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ پورا نقشہ نگاہوں کے آگے گھوم جاتا ہے ان کی نثر شستہ رواں اور لاجواب ہے. وہ سادگی سے روداد سفر تحریر کرتے ہیں اور جاندار جملوں سے اسے مزین کرتے چلے جاتے ہیں. حقیقت نگاری ان کے سفرنامے کا خاص وصف ہے پڑھنے والا خود کو ان گلی کوچوں میں موجود پاتا ہے اور خود کو مصنف کا ہمراہی تصور کرتا ہے. حسنین نازش کے سفرنامے کے محاسن میں سے ایک جزئیات نویسی بھی ہے وہ کسی بھی مقام یا شخصیت کی اتنی تفصیل تحریر کرتے ہیں کہ ایک ایک چیز واضح ہو جاتی ہے ان کی تحریر میں اتنا اعتدال ہوتا ہے کہ قاری ذرہ برابر بھی بوجھل پن محسوس نہیں کرتا اور ایک ایک حرف سے لطف کشید کرتا ہے. مصنف کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ قاری کی دلچسپی کو نہ صرف اختتام تک برقرار رکھے بلکہ بتدریج اس میں اضافہ بھی کرتا چلا جائے پہلی جھلک یورپ کی ایسی ہی ایک تخلیق ہے جس کا طرز تحریر قاری کو اپنے حصار میں جکڑ لیتا ہے حسنین نازش کے قلم میں وہ جادوئی اثر موجود ہے جسے میں معاصر سفرنامہ نگاروں کے لیے قابل تقلید خیال کرتا ہوں کیونکہ ان کا سفرنامہ دلچسپی کے جوہر اور جمالیاتی گوہر سے معمور ہے جس میں قاری کو بے باکی مسرت بصیرت اور تفریح تفنن طبع اور طنز و مزاح کی چاشنی بھی محسوس ہوتی ہے. ان کی نثر عمدہ شستہ ، رواں اور بوجھل پن سے پاک ہے جس میں شعری محاسن کو بھی حسب ضرورت برتا گیا ہے. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف سفرنامے کے فنی لوازمات سے نہ صرف اگاہ ہیں بلکہ انہیں برتنا بھی خوب جانتے ہیں.وہ زبان و بیان میں ندرت عمدگی اور جملوں میں طرفگی تخلیق کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں جس کے ثبوت آپ اس سفرنامے میں جا بجا محسوس کریں گے مصنف تو
دل کو نیاز حسرت دیدار کر چکے
مجھے یقین ہے کہ ان کا سفرنامہ پڑھ کر اور بہت سے لوگوں کے دلوں میں سیاحت یورپ کا شوق اسی طرح جنم لے گا جس طرح میرے دل میں پیدا ہوا ہے.
کتاب :آرزوئے وصل
شاعرہ : عروج زیب
تبصرہ : محمد اکبر خان اکبر
پبلشر : طلوع اشک پبلشر
عروج زیب کی شاعری کا عمومی جائزہ
عروج زیب اردو شاعری میں ایک نئی آواز اور نیا اہنگ لے کر وارد ہوئی ہیں ان کی شاعری میں عمومی طور پر جذبہ محبت، وفور عشق، شدت احساس کا غلبہ دکھائی دیتا ہے. وہ فطری طور پر حساس طبیعت کی حامل معلوم ہوتی ہیں. ان کی شاعری میں عصر حاضر کا ادراک موجود ہے ایسا لگتا ہے کہ ان کا معاشرتی استفادہ اور شعور و آگہی اپنی پوری توانائی اور شدت کے ساتھ ان کی شاعری میں منعکس ہورہی ہے.
زندگی ایک سہانا خواب بھی ہے
یہ سکوں بھی ہے اور عذاب بھی ہے
جس کو چاہت ملی ہے بن مانگے
اس کی قسمت میں اس طرح بھی ہے
شاعری کے بارے میں وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ." یہ بات اپنے تئیں بالکل درست ہے کہ شاعری بہت کٹھن اور خارزاروں پر چلنے کا نام ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شعر گوئی ایک خداداد صلاحیت ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مطالعہ اور فنی ریاضت سے دن بدن نکھرتی چلی جاتی ہے جیسے جیسے انسان کے اندر پختگی اور شعوری سطح بلند ہوتی ہے ویسے ویسے شعری ریاضت نکھر جاتی ہے میں نے اپنے جذبات احساسات محسوسات کو لفظوں میں پرونے کی کوشش کی ہے اور ہر دن سیکھنے کی خواہش بڑھتی جاتی ہے"
عروج زیب کی غزل نگاری کا احاطہ کرنا صرف آرزوئے وصل سے تو ممکن نہیں ان کی غزل گوئی کی انفرادیت سمجھنے کے لیے ان کے پورے شعری اثاثے کا بنظر غائر جائزہ لینا پڑے گا.
بہرحال اس مجموعہ کلام سے مترشح ہورہا ہے کہ ان کی غزل میں عمومی طور پر الفاظ کی نشست و برخاست، خیال کی عظمت، تخیل کی کار فرمائی، فکر کی بلندی بڑی مہارت سے برتی گئی ہے.
محبت تمہاری یہ کیا کر گئی کہ رسوائی دامن میں میں بھی بھر گئی
میں بدنام ہوں تیرے کوچے میں یوں
کہ خوشبو محبت کی گھر کر گئی
محبت کے معنی سے واقف ہے کون
ہوس میرے دل میں برابر گئی
خطا ہو گئی جو تمہیں چاہا ہے
وفا جیسے دنیا سے اٹھ کر گئی
عروج زیب کی غزلیات میں کلاسیکی روایت کا احترام اور قدیم رنگ تغزل عام طور پر دکھائی دیتا ہے. انہوں نے کلاسیکی مضامین کو بھی اس قدر جامع الفاظ استعمال کرتے ہوئے پیش کیا ہے کہ وہ جدیدیت کے رنگ میں رنگے دکھائی دیتے ہیں.
چاہت کے افسانے سارے جھوٹے ہیں
دل کے یہ نذرانے سارے جھوٹے ہیں
کون کسی پہ مرتا ہے اے جان جاں
اب یہ حیلے بہانے سارے جھوٹے ہیں
ان کی غزلوں میں وسعت، تنوع، رنگا رنگی، ہمہ گیری واقعیت اور اصلیت جیسے عناصر بھی پائے جاتے ہیں.
ان کی شاعری میں بلندی اور رعنائی موجود ہے جذباتیت کی فراوانی کے بجائے عقل و خرد کی کار فرمائی زیادہ دکھائی دیتی ہے.
اپنے لیے تو جینا ہے
موج نہ کوئی اور دریا ہے
سوچنے سے منزل نہیں
ملتی
اپنے بڑوں کا یہ کہنا ہے
دیگر شعرا کی طرح ان کے یہاں رجائیت ضرور موجود ہے جو کئی مقامات پر ان کے شعروں سے چھلکتی دکھائی دیتی ہے ان کی غزلوں میں نغمگی غنائیت اور موسیقیت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے. غزل کسی بھی شاعر کے ذاتی محسوسات، جذبات، خیالات اور ارضی مشاہدات کی عکاسی کرتی ہے ان کی غزل میں اسلوب اور فنی مہارت دکھائی دیتی ہے اس کے ساتھ ساتھ کرب، ہجر و غم رنج و الم جیسی کیفیات بھی سوز و گداز دلاویزی اور رعنائی کے ساتھ جلوہ فگن ہیں.
آرزو وصل میں عروج زیب کی شاعری کا جو رنگ حاوی اور غالب دکھائی دیتا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ منظر نگاری تصویر کاری اور جزئیات نگاری پر دسترس رکھتی ہیں وہ اس طرح ایک ایک شے کو بیان کرتی ہیں کہ منظر نگاہوں میں پھرنے لگتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے الفاظ میں ایسی تاثیر ہے کہ پڑھنے والے پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے گو کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں روایتی انداز اختیار کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں جدت طرازی بھی دکھائی دیتی ہے. آرزوئے وصل میں شامل اشعار انسانی رشتوں کی حرمت احترام اور ان کے مابین تعلق کو بیان کرتے ہیں انہوں نے اپنی شاعری میں تراکیب کا خوب استعمال کیا ہے جن سے ندرت اور تازگی عمومی طور پر واضح ہوتی ہے ان کی شاعری رنگ و آہنگ کے ساتھ ساتھ گہری معنویت بھی رکھتی ہے.
تمہاری راہوں میں سجدے کیے ہیں انکھوں نے
سزا ملی ہمیں کیسی یہ دل لگانے کی
ہمارے انسو ٹپکتے ہیں سوچ کر یہ بات
نہیں ہے کوئی حقیقت کسی فسانے کی
مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عروج زیب کی شاعری میں غم دوراں اور غم جاناں کا ایک انوکھا امتزاج ہے جس سے ان کی فکری بالیدگی اور خیال کی رنگینی کے ساتھ ساتھ سنجیدگی اور پختگی سے اپنی فکر فکر و خیال کا اظہار دکھائی دیتا ہے جو کسی بھی قسم کے ابہام یا الجھاو سے پاک ہے ان کے لہجے کی انفرادیت نے اس مجموعہ کلام کو اور زیادہ دلکش بنا دیا ہے ان کی بیشتر غزلیں شعریت اور رنگ تغزل سے سجی ہوئی ہیں جس سے زندگی کی دل آویزی، دلکشی اور دیگر زاویے قارئین کی فکر کو اگے بڑھاتے نظر اتے ہیں یہ مجموعہ کلام شگفتگی اور سادگی کا ایک خوشنما گلدستہ ہے.
وقت تھم جائے تو قرارآئے اپنے گلشن میں بھی بہار ائے
ہوش رہتا ہے اس کے سامنے کب
عاجزی آئے انکسار آئے
کتاب : چراغ تلے روشنی
مصنف : ظہیر احمد سلہری
تبصرہ : محمد اکبر خان اکبر
اثر انگیز تحریریں. ظہیر احمد سلہری ایک نوجوان تخلیق کار ہے. اس کی اعلی تحریروں پر مبنی کتاب "چراغ تلے روشنی" ایک ایسی کتاب ہے کہ مطالعے کا شوقین قاری اس کی قوس قزح میں کھو جاتا ہے . یہ کتاب 56 مختلف تحاریر کا مجموعہ ہے مصنف نے ایک ماہر صحافی کی طرح مختلف النوع موضوعات پر اپنے منفرد انداز میں اظہار خیال کیا ہے. ان کا اسلوب تحریر سادہ اور پروقار ہے وہ لگی لپٹی کہنے کے بجائے سیدھے سادے انداز میں اپنا نکتہ نظر واضح کرتے چلے جاتے ہیں. ان کے قلم میں روانی اور جولانی اپنے جوبن پر دکھائی دیتی ہے وہ ہمارے معاشرتی و ثقافتی رنگوں کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ توہمات اور ضعیف الاعتقادی کی بھی ہلکے پھلکے انداز میں نشاندہی کرتے چلے جاتے ہیں ان کی تمام تر تحریریں اس بات کا مصدقہ ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ ان کا مشاہدہ گہرا، اظہاریہ جاندار جبکہ حافظ شاندار ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی منکسرالمزاجی جگہ جگہ واضح طور پر محسوس ہوتی ہے حالانکہ کہ وہ ان معدودے چند نوجوانوں میں شامل ہیں جنہوں نے نہایت کم عمری میں بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں اور عظیم کامیابیاں سمیٹ کر اپنے والدین کا نام روشن کیا ہے مگر وہ خود اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں ذرا ملاحظہ فرمائیں "لفظ میرے ہمزاد ہیں ایسا ہمزاد جس کی زیارت کی انوکھی تمنا برسوں سے پنپ رہی ہے جو کبھی بچے کے روپ میں تو کبھی مسیحا بن کر عمر بھر مجھ سے ملتا رہا خوشی میں خوش اور دکھ میں جس کی سانجھ تھی اپنے ہمزاد کو بوڑھا ہونے سے پہلے میں ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا تصور کے بند کواڑ کھولے. انگلی پکڑ کر چلنے سے زمانے کی ریس میں دوڑنے تک ساری باتیں اکٹھی کیں، بہت منتر پھونکے، بڑے جتن کیے، مگر اس پر اسرار ساتھی کو متشکل نہ کر سکا یہ عجوبہ ہی تو ہے کہ کیسے بے جان لکیریں الفاظ کی صورت انسان کی زندگی کے ہر پل کو سمت دیتی ہیں الفاظ کے خمیر سے میں کوئی انسان نما تخلیق کرنا چاہتا تھا تاکہ اس کا شکریہ ادا کروں. عمر بھر تنہائی بانٹنے والے اس پارٹنر کا ماتھا چوم سکوں خدا کا ناب نائب ہونے کے زعم میں "کن" کہہ بیٹھا. مجھ سے محض ایک کتاب تخلیق ہو سکی کاغذ پر بکھرے یہ الفاظ سانس لیتے ہیں ان کے اندر زمانے قرینے سے رکھے ہیں ان کو غور سے دیکھیں تو یہ مسکرا دیتے ہیں ان کو سینے سے لگائیں تو یہ نم ہو سکتے ہیں یہ کوئی کتاب نہیں یہ میرے ہمزاد کی ممکنہ شبیہ ہے". وہ اپنے منفرد مزاحیہ انداز میں معاشرتی توہمات اور خامیوں کو. اجاگر کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں "دیہات میں فیوچر پلاننگ کا ارتقاء" تعلیم کی اہمیت سے بیگانگی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے بجائے ہمارے الل ٹپ رویوں کی عکاسی کرتا ہے."اللہ کے خود ساختہ سفیروں سے ملاقاتیں" اذہان کے بند دریچے کھولنے والی تحریر ہے اس تحریر میں انھوں نے توحید مطلق کو نہاتے ہی سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کر دیا ہے لکھتے ہیں "محلے میں مسجد کے ساتھ دفن بزرگ کے عرس کے لیے چندہ جمع کیا اس کو ہم مقدس رقم سمجھتے تھے مگر جب منتظم نے بابے کے عرس کے پیسوں میں سے سگریٹ کا پیکٹ منگوایا تو سارا طلسم ٹوٹ گیا... خیال آیا کہ جو بزرگ اپنے چندے کی حفاظت نہیں کر سکا اس نے لوگوں کا کیا بھلا کرنا ہے" ہم نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں سے حاجات طلب کرنا وتیرہ بنا لیا ہے جبکہ .
ثابت بنانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک اپنی ضرورت اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ نمک اور اپنے جوتے کا ٹوٹا ہوا تسمہ بھی اسی سے طلب کرے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ روایت قطن کی مذکورہ روایت سے جسے وہ جعفر بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے (یعنی: اس کا مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3604M] افسوسناک امر یہ کہ موجودہ دور میں نبی کریم ص کا فرمان عالیشان کا ذکر کرنا بھی اعتراض کا موجب ہوتا ہے اور لوگ خود ساختہ تاویلات پیش کرکے اپنے غلط طرز عمل کو درست قرار دینے کی سعی لاحاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں. ان کے مضامین "بد اخلاق معاشرے کی تشکیل" اور دقیانوسیوں کے حقوق پڑھ کر ان کی حس مزاح اور فن مزاح نویسی کا قائل ہونا پڑتا ہے ان کی تحریر میں طنز کی کاٹ بھی جان دار ہے.ظہیر احمد سلہری کی اس کتاب کا ہر مضمون پڑھنے کے لائق ہے مصنف نے اپنے منفرد انداز میں اپنی دلچسپ یادوں کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل کی بھی نشاندہی فرمائی ہے. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب میں شامل ان کی تحریریں مختلف اخبارات میں شایع ہوچکی ہیں بہتر ہوتا اگر وہ ہر تحریر کے آخر میں مقام و تاریخ اشاعت لکھ دیتے. ظہیر احمد سلہری کی ہر تحریر جاندار اور اسلوب تحریر خاصا شاندار ہے ان کی مزید اثر انگیز تحاریر کا ہر قاری یقیناً منتظر رہے گا.
رائے فصیح اللہ جرال کی تصنیف
مکتوبات کلیم اللہ
تبصرہ. محمد اکبر خان اکبر
قیمت 200
شوق پبلشرز
مدت ہوئی کہ ایک کتاب " خط انشاء جی کے " شروع میں نامہ نگاری کے حوالے سے چند سطور نظر سے گزریں جو آج تک حافظے میں محفوظ ہیں انھی الفاظ سے اپنی تحریر کا آغاز کرنا چاہوں گا. مولف خط انشاء جی کے لکھتے ہیں کہ
"مکتوب نویسی شخصیات انسانی کی بوقلمونی کیفیات کے اظہار کی ایک محیر العقول اختراع ہے"
ایک بار ماہرین آثار قدیمہ کو تحقیقی کام کرتے ہوئے مصر کے صحرا میں مٹی کے چپٹے چپٹے تعویذ نما ٹکڑے ملے جن پر قدیم مصری خط میں تحریریں تھیں اور جنہیں لکھنے کے بعد آگ میں پکایا گیا تھا محققین نے ان تحاریر کو ڈی سائفر کیا تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ مصر اور شام کے بادشاہوں کے مابین لکھے جانے والے خطوط تھے. جو غالباً اب تک دریافت ہونے والے سب سے قدیم خطوط ہیں ان خطوط کی دریافت سے ہمیں معلوم ہوا کہ آج سے چار ہزار سال قبل بھی دنیا خطوط نویسی سے آشنا تھی اس دور میں دو ممالک کے مابین پائی جانے والے تجارتی اور دیگر تعلقات کا علم ہوا.رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے تحریر کردہ خطوط مبارک آج تک محفوظ چلے آتے ہیں اسی طرح خلفائے راشدین رض کے لکھے ہوئے خطوط بھی تاریخ کا اہم حوالہ ہیں. اردو ادب میں مرزا غالب کی خطوط نویسی بے مثل ہے جس کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا.
فی زمانہ جدید ترین ذرائع مواصلات کی موجودگی کے سبب خط لکھنے کا رواج تو تقریباً ختم ہو چکا ہے البتہ مکتوب نویسی کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے.
زیر تبصرہ کتاب میں رائے فصیح اللہ جرال صاحب کے خطوط جمع کر کے پیش کیے گئے ہیں. کلیم اللہ صاحب قابل رشک ادیب اور منفرد تخلیق کار تھےجن کا ادبی دنیا میں ایک اپنا مقام ہے. فاضل مولف نے مکاتیب کلیم اللہ خان کا مجموعہ مرتب کر کے نہایت اہم ادبی کارنامہ سر انجام دیا ہے. راجہ کلیم اللہ خان اپنے زمانے کے بے مثال شاعر، سفرنامہ نگار اور افسانہ نویس تھے ان کی کتابوں میں مجموعہ کلام گلدستہ، خود نوشت سوانح حیات، ریت پر قدموں کے نشاں، سفرنامہ حج، تذکرہ بے مثل راجگان راجور اور تذکرہ بے مثل تاریخ راجگان راجور وغیرہ شامل ہیں. فصیح اللہ جرال نے اس کتاب میں ان کے 17 خطوط شامل کر کے انہیں ابدی طور پر محفوظ کر دیا ہے اس مختصر کتاب کی ادبی اہمیت کافی زیادہ ہے. مصنف نے اس کتاب میں صرف راجہ کلیم اللہ خان جیسی اہم ادبی شخصیت کے خطوط ہی جمع نہیں کیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا تعارف ان کی کتابوں کا مختصر تعارف اور تمام خطوط کے حواشی بھی شامل کر دے ہیں جس سے اس کتاب کی معنویت اور اہمیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے. کلیم اللہ خان صاحب نے جس قدر خطوط بھی رائے فصیح اللہ جرال کو لکھے انہوں نے اسے اس کتاب میں شامل کر دیا ہے.
کلیم اللہ صاحب کے اسلوب تحریر میں سادگی اور روانی ہے سادہ پر وقار انداز اور نہایت محبت بھرے الفاظ میں انھوں نے مولف کتاب ہذا کو مخاطب کیا ہے.
کیا ہی اچھا ہو کہ اگر کلیم اللہ خان کے دیگر مشاہیر اور شخصیات کو لکھے گئے خطوط بھی اسی نہج پر جمع اور مدون کر کے شائع کر دیے جائیں. میرے خیال میں رائے فصیح اللہ جرال کو اس بارے میں ضرور کام کرنا چاہیے.خطوط ادب کا حصہ ہیں یا نہیں اس بحث سے قطع نظر یہ کہنا یقینی طور پر درست ہوگا کہ ان خطوط کی اشاعت سے اردو ادب کی ثروت مندی میں مزید اضافہ ہوا ہے.
کتاب: زندگی تمہی سے ہے
تبصرہ : فرحت عباس شاہ
نادیہ سحر ملتان سے تعلق رکھنے والی نئی شاعرہ ہیں جنہوں نے خود کو گھر کی چار دیواری تک محدود رکھ کے مطالعے اور تخلیق کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ نادیہ اگرچہ بنیادی طور پر کرب ذات کی شاعرہ ہیں لیکن سماجی منافقتوں سے پیدا ہونے والا اندوہ ان کی شاعری میں رومانی موضوعات کے بعد دوسرے غالب موضوع کے طور پر نظر آتا ہے ۔ اس کے علاوہ کہیں کہیں سوشو پولیٹیکل صورتحال پر اشعار ان کے شعری امکانات کا کینوس وسیع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نادیہ سحر مصنوعی اور کمرشل نئی شاعرات کے ہجوم میں ایک جینوئین شاعرہ کے طور پر ملتان کے تگڑے ادبی ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا بھی ہیں اور ملتان کی اعلیٰ شعری روایت کا تسلسل بھی ۔ ان کا شعری مجموعہ ، ” زندگی تمہی سے ہے “ علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے ۔
کتاب: نیکی کا پھول
تبصرہ: دانش تسلیم
کتاب “نیکی کا پھول” بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ جو کراچی سے تعلق رکھنے والی صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنفہ حفصہ محمد فیصل کی تصنیف ہے۔
مصنفہ 2002ء سے اسلامی مضامین، کالم، کہانیاں اور افسانے لکھ رہی ہیں۔ تقریبا ابھی تک مصنفہ کی 300 کہانیاں، 150 کالم اور 100 مضامین مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ حفصہ محمد فیصل تین کتب کی مصنفہ ہیں۔ جنت کے راستے، باتیں اعضاء کی اور نیکی کا پھول۔
کتاب کا انتساب مصنفہ نے اپنے بہت پیارے تین بچوں کے نام کیا ہے۔ کتاب پر بچوں کی ایوارڈ یافتہ مصنفہ تسنیم جعفری صاحبہ نے تبصرہ بھی لکھا ہے جو کتاب میں موجود ہے۔ پیش لفظ میں مصنفہ نے اپنے قلمی مقاصد کا بھی ذکر کیا کہ وہ معاشرے کی بھلائی کے لئے لکھ رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں اچھائی عام ہوجائے اور برائی کا خاتمہ ہو جائے۔ کتاب کے آخر میں بچوں کے لئے “سرگرمیاں” کے نام سے مشق بھی دی گئی ہیں جس کا بچے جواب دے سکتے ہیں۔ بچوں کی کتب میں اس طرح کی ذہنی ازمائش کی مشق ہونا بہت ضروری تاکہ جو کچھ بچوں نے پڑھا ہے وہ ایک بار پھر اس پر غور و فکر کریں۔
اس کتاب میں اٹھائیس کہانیاں شامل کی گئی ہیں ہر کہانی پہلی کہانی سے بازی لے جاتی ہے اور بار بار قاری یہی سوچتا رہتا ہے کہ جو کہانی میں اب پڑھ رہا ہوں وہی میری اس کتاب میں پسندیدہ کہانی ہے۔ کتاب کا سرورق بہت خوبصورت ہے اور قیمت صرف پانچ سو روپے ہے۔ سفید رنگ کے بہترین کاغذ سے بنی ایک سو چار صفحات پر مشتمل یہ کتاب بچوں بلکہ بڑوں کے لئے بھی بہت مفید ہے۔ کہانیاں بہت خوب انداز میں بنی گئی ہیں۔ کتاب کا انداز تحریر بہت سادہ اور عام فہم ہے لیکن پھر بھی بچوں کو بہت سے نئے الفاظ سیکھنے کو ملیں گے۔ عنوان کے ساتھ ساتھ کتاب میں شامل کہانیوں کے موضوعات بھی بہت اچھے چنے گئے ہیں جن سے بچے نیکی اور اچھائی کی ترغیب سیکھنے کے ساتھ ساتھ برائی کو برا سمجھنے کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ کتاب میں قارئین کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے بہت سے کردار اور پلاٹس لکھے گئے ہیں۔ “ہادی نے جنگل دیکھا” میں مختلف جانور اپنا اپنا تعارف بہت نرالے انداز میں کراتے ہیں۔ “محسن کو ملی سزا” میں محسن کس طرح سے ایک نابینا آدمی کو دھوکا دیتا ہے اور اس کو کیا سزا ملتی ہے۔ “گندی مچھلی” میں کاسنی مچھلی کس طرح سے سنہری مچھلی اور نیلی مچھلی میں لڑائی کرادیتی ہے۔ “ضدی بھوری” میں بھوری کو کس طرح اتفاق اور محبت سے نہ رہنے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ سب آپ جان پائیں گے اس کتاب کو پڑھ کر۔
یہ کتاب وقت گزارنے کا بہترین ذریعہ ہے اور اگر آپ کسی کو کوئی انمول تحفہ دینا چاہتے ہیں تو یہ کتاب آپ کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے۔
رباب عائشہ کی خودنوشت “لمحوں کی دھول”
تاثرات: نصرت نسیم
بہت پیاری رباب عائشہ کی منفرد خود نوشت لمحوں کی دھول کا مسودہ میرے ہاتھوں میں ہے ۔اور۔مجھے بے پایاں مسرت محسوس ہورہی ہے ۔اس مسرت کی وجہ تو آخر میں بیان کرونگی ۔
فی الوقت لمحوں کی دھول پر بات کرتی ہوں ۔جو لمحوں کی دھول نہیں ۔بلکہ ایک پورے دور پورے عہد کو رباب نے پوری سچائی کے ساتھ محفوظ کردیا ہے ۔
آج سے 50 سال پہلے کا روالپنڈی ،مقامات۔،حالات ،رشتے داریاں ،رسم۔ورواج وضع۔داریاں ،محبتیں ان سب رنگوں سے دمکتی خود نوشت ہے۔
یہ ایک کارکن صحافی اورجرات مند خاتون کی داستان حیات ہے ۔کہ جس نے کارزارِ حیات کی کٹھنایئوں اوررکاوٹوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا ۔دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اخبار کی نوکری کو ئی آسان بات نہ تھی ۔مگر ہمت و حوصلے کے تیشے سے اس نے مشکلات کے کوہ گراں تسخیر کئے ۔
پچاس سالہ صحافتی زندگی کی اس داستان میں عائشہ نے بڑی جرات اورسچائ کے ساتھ ملک کے دو بہت بڑے اورمشہور اخبارات کے اس تلخ اورناروا سلوک کابھی ذکر کیا ہے ۔جنگ کی 25 سالہ خدمات کے باوجود انہیں کنٹریکٹ نہیں دیاگیا۔نواے وقت نے بھی ان سے وعدے ایفا نہیں کئے۔افسوس صد افسوس کہ وہ جو سچ اور نیکی کے پرچار کے دعویدار ہوتے ہیں ۔ان کے مالکان کارویہ بھی سرمایہ داروں سے کم نہیں ہوتا ۔
رباب کے اندر عجز و انکساری ہے ۔رباب عائشہ کی والدہ علیگڑھ کی گریجویٹ تھیں ۔مشہور ادیبہ الطاف فاطمہ سگی خالہ زاد بہن تھیں ۔علمی وادبی خاندان سے تعلق رکھنے والی رباب عائشہ حددرجہ منکسر المزاج ہیں ۔جب وہ لکھ رہی تھیں تو خاندان کے ان تمام علمی وادبی لوگوں کاتذکرہ نہیں کرنا چاہ رہی تھیں ۔کہ اسے بڑائی پر محمول نہ کیاجاے ۔میں نے کہا نہیں آپ یہ سب ضرور لکھیں ۔پھر کہنے لگیں ۔میں تو سادہ سا لکھتی ہوں ۔تمہاری طرح نہیں لکھ سکتی ۔میں نے کہا ہم نے تو آپ سے لکھنا سیکھا ہے۔تو یہ ان کی انکساری اوربڑا پن ہے ۔ورنہ جس عمدہ اسلوب اورموثر پیراے میں انہوں نے لکھا ہے ۔وہ انتہائی دلکشی ہے ۔سادگی وسلاست کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ ادبی اورتخلیقی جملے کتاب کوحسین تر بناتے ہیں ۔خاص طور پر آخری ابواب جہاں وہ جوانی اور اپنے حسن کاتذکرہ کرتی ہیں ۔ایک حسین وجمیل خاتون کا پورے وقار اور شائستگی کے ساتھ صحافت کے میدان میں رہنا بڑی بات ہے ۔
،نمود ونمائش سے دوربہت باوقار رباب جی آپ اب بھی خوب صورت ہیں ۔سفید بالوں کے ساتھ بہت پاکیزہ اورباوقار دکھائی دیتی ہیں ۔پیرانہ سالی اور نظر کی خرابی کے ساتھ آپ نے جس طرح قلیل عرصے میں تین کتابیں تصنیف کیں ۔یہ سب قابل تعریف بھی ہےاور قابل تقلید بھی ۔
سلامت رہیں لکھتی رہیں ۔
حالیہ عرصے میں ان کی کتب ” سدا بہار چہرے” اور”خاک کے آس پاس “زیور طباعت سے آراستہ ہوکر سامنے آئیں ۔
اوراب” لمحوں کی دھول “آپ کے سامنے ہے ۔
رباب جی کی یہ کتابیں میرے لئے سرمایہء افتخار ہیں ۔میں ان کی ہمت واستقامت کوبھی سلام پیش کرتی ہوں ۔انہیں خوش دیکھ کر ،اپنی خوشی کوبیان کرنے کے لئے میرے پاس لفظ نہیں۔
سلامت رہیں قلم بدست رہیں۔
کتاب : ریاض نامہ
ریاض نامہ میری نظر میں
تاثرات: عارف نقوی (برلن)
یہ شہر شہر علم و ہنر ہے۔ فلسفہ، فنون لطیفہ، علم و ادب اور تہذیب کا مرکز۔ وہ صفات جن سے متاثر ہوکر رابندر ناتھ ٹیگورنے کبھی اسپرے ندی کی فضاؤں میں سانس تھی۔ جواہر لعل نہرو نے اپنے ملک کی آزادی اور عظمت کی کا خواب دیکھا تھا۔ڈاکٹر ذاکر حسین نے یہاں آکر اپنے ملک میں زرعی انقلاب کا خواب دیکھا تھا۔ڈاکٹر کے ایم اشرف نے مغل تاریخ کے قمقمے طلباء میں جگائے تھے۔ میں نے خود جرمن ڈرامے کے ہنر سیکھے اور طلباء کو اردو اور ہندی کے حسن سے آشکار کیا تھا۔ لاتعداد اردو ادیبوں کا ترنم یہاں کی فضاؤں میں گونجا تھا اور گونج رہا ہے، شکیل چغتائی، رخسار انجم، حنیف تمنا، عشرت معین سیما، انور ظہیر، سرور ظہیر، شمیم، حیدرعلی، افشاں احمد،۔کاشف کاظم۔ عارف، عامر عزیز وغیرہ۔ جن کے اشعار، کہانیاں، مضامین اور کتابوں نے جرمنی میں اردو ادب کی نمائندگی کی ہے۔ انہیں میں نئے نئے ستارے اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکتے نظر آرہے ہیں۔
ان ستاروں میں ایک شیخ ریاض بھی ہیں۔ جن کا تعلق لاہور، پاکستان سے ہے لیکن ۵۶ برسوں سے ایران، عراق اور جرمنی میں ہجرت کی زندگی گزارچکے ہیں اور امریکہ، کنیڈا اور یورپ کے بھی بہت سے ملکوں میں بطور سیاح جاچکے ہیں۔
انکساری ملاحظہ کیجئے کہ خود فرماتے ہیں
“میں کوئی سیاست داں، کوئی عالم اور نہ ہی کوئی مشہور شخصیت ہوں۔ میں ایک عام انسان ہوں۔” انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات کو ’’ریاض نامہ‘‘ کی شکل میں تحریر کیا ہے۔
ریاض صاحب نے اپنی زندگی کی داستان کو اسکول اور کالج کی زندگی سے شروع کر کے پاکستان سے ہجرت کے مسائل، ایران اور عراق کے تجربات اور مشکلات، میونخ اور برلن میں قیام۔ تعلیمی سرگرمیاں اور پیشے کے مسائل اور جرمنی کی تہذیب اور بعض اہم وارداتوں اور مشاہدات کا ذکر کیا ہے۔ جو یقیناً کوئی آسان کام نہیں تھا۔
میں اس کاوش کے لئے انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کا قلم اور زیادہ مناظر کامیابی سے پیش کرے گا اور ہم فخرکر سکیں گے کہ یہاں ایک نئے انجم کی کرنیں اردو ادب کی روشنی بکھیر رہی ہیں۔
کتاب :: عکس زاویہ
مصنف :: شہزاد احمد شیخ
تبصرہ : محمد اکبر خان
شہزاد احمد شیخ صاحب سے اس وقت تعلق استوار ہوا جب ان کا پیشہ ورانہ فرائض کے سلسلے میں کوئیٹہ تبادلہ ہوگیا. وہ ریلوے گیسٹ ہاوس میں فروکش رہے اور ان کے حجرہ نے وادی شال کی ایک ادبی بیٹھک کی صورت اختیار کر لی جہاں شعراء کرام اور صاحبان علم و ادب کی محفل جما کرتی.
اسی ادبی بیھٹک سے ان کی شاعری سے تعارف ہوا. ان کی شخصیت کے کئی در کھلے، انہیں نہایت ملنسار اور منکسرالمزاج اور صاف گو پایا. ان کی شاعری کے مداح تو ہم پہلے ہی تھے اب ان کی نثری کاوش "عکس زاویہ" دیکھ کر ان کی نثر نگاری کے اسیر بھی ہو چلے ہیں. ان کی یہ کتاب دلچسپ یادوں کا ایک دل آویز مرقع ہے، یادوں کا ایک منفرد جہان ہے جس میں ان کی تجربات زیست سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے.انہوں نے خود ہی تحریر کیا ہے کہ وہ محترم اشفاق احمد مرحوم کے پروگرام زاویہ کے ایک مستقل ناظر رہے ہیں اور یہ کتاب لکھنے کا خیال انہیں وہ پروگرام دیکھ کر ہی آیا تھا اسی بنا پر انہوں نے اس کتاب کا نام عکس زاویہ منتخب کیا ہے. شہزاد شیخ جیسے ایک جہاں دیدہ شاعر کا اپنی یادوں کو قرطاس پر منتقل کر کے قارئین تک پہنچانا انتہائی خوش آئند ہے.ان کی تحریر رواں اور سادہ ہے جس میں ادبی چاشنی بھی ہے اور ان کے خیالات کی عکاسی بھی.
کہیں دل گرفتہ کرنے والے واقعات ہیں تو کہیں مزاح کے رنگ میں رنگے قصے، ان کی یادوں کے اس گلدستے میں وطن عزیز کے مختلف علاقوں کے طزر معاشرے کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے وہ کبھی سکھر کا کوئی سبق آموز واقعہ تحریر کرتے ہیں تو کہیں فیصل آباد میں وقوع پذیر کسی واقعے کا تذکرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں. شیخ صاحب نے واقعات زیست زمانی ترتیب کے بغیر لکھے ہیں البتہ اس سے کتاب کی دلچسپی کسی صورت کم نہیں ہوئی ہر واقعہ پڑھنے کے بعد قاری خود کو دوسرا واقعہ پڑھنے پر مجبور پاتا ہے ان کا اسلوب تحریر قاری کو جکڑ لیتا ہے یہی کچھ میرے ساتھ ہوا اور ایک ہی نشست میں ان کا جانب سے مہیا کیا گیا مسودہ پڑھ لیا.یہ ان کی تحریر کا اعجازِ و افتخار ہے کہ قاری کو بوریت کا شائبہ بھی نہیں ہوتا، تحریر کی جاذبیت مطالعہ میں محویت کو اس درجہ تقویت دیتی ہے کہ پڑھنے والا گرد و پیش سے بیگانہ ہو کر اس تحریر کا حصہ بن جاتا ہےاور یوں محسوس کرتا ہے جیسے واقعہ اس کے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہو.
اپنی یادوں کے چراغ جلانا ایک دشوار عمل ہے کیونکہ ہر انسان کی زندگی تلخ و شیریں یادوں سے عبارت ہوتی ہے غمناک اور تلخ ایام کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف جس کرب سے دوچار ہوتا ہے اس کا تصور بھی کرنا بھی مشکل ہےان کے تحریر کردہ واقعات سے ان کی شخصیت کے کئی پہلو بھی سامنے آتے ہیں، ان کی انسان دوستی، اور بے مثال روداری اور جذبہ ہمدردی سے آشنائی ہوتی ہے.
ان کی تحریر کی ایک اور خوبی ایجاز و اختصار ہے وہ وہ اپنے ایام گذشتہ اپنی یادوں سے کشید کرتے ہیں اور اس قدر اختصار سے بیان کر دیتے ہیں کہ کسی قسم کا بوجھل پن محسوس نہیں ہوتا دور حاضر میں جہاں ہر شخص مصروفیات کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے وہاں ان کے تحریر کردہ مختصر واقعات کا مطالعہ کرنا کار دشوار نہیں.
شیخ صاحب کی نثر میں بیان کی دلکشی، خیال کی رعنائی، اور طرز اظہار میں روانی پائی جاتی ہے وہ شاعر ہونے کے باوجود مسجع و مقفع نثر سے گریز کرتے ہوئے ایسے جملے تخلیق کرتے ہیں کہ جو قاری کے دل میں اتر جاتے ہیں اور تادیر اس کا گہرا تاثر قائم رہتا ہے.شیخ صاحب تصنع اور بناوٹ سے پاک صاف و شفاف فقروں میں ایام گزشتہ کی یادوں کو بیان کرنے کے فن سے بہ خوبی آگاہ ہیں جس کی جھلک ان کی کتاب میں جا بجا دکھائی دیتی ہےوہ علم و ادب کے شہسوار ہونے ساتھ ساتھ ہر فن مولا بھی ہیں ان کی یادوں دریچے سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے کس کس طرح مختلف مقامات پر چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرتے رہے ان کی یادداشتوں کا مجموعہ پڑھنے والوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا زندہ رہنے، آگے بڑھنےاور اپنی منزل پا لینے کی ہمت ملےگی.
محترم شہزاد احمد شیخ کو ان کی پہلی نثری کتاب پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اس امید پر کہ ان کے رشحات قلم کا سلسلہ جاری رہے گا.