پاکستانی فنکار، شعرا اور ادبا کی دبئی میں جشنِ ریختہ میں شرکت
نامور پاکستانی فنکاروں، شعراء اور مصنفوں نے دبئی میں ’جشنِ ریختہ‘ فیسٹیول میں شرکت کی۔ اس فیسٹیول کا مقصد ثقافتی امتزاج کے ذریعے اردو زبان کے بھرپور ادبی ورثے کو منانا ہے۔
لندن اور ہندوستان میں دل جیتنے کے بعد اس دو روزہ میلے نے اردو زبان اور اس کے ادب و ثقافت کے جوہر کو 27-28 جنوری کو متحدہ عرب امارات کے کاسموپولیٹن تانے بانے میں سمو دیا۔ اس تقریب میں روح پرور غزلیں، قوالیاں، داستان گوئی، دلکش پینل مباحثے اور ایک عظیم الشان مشاعرہ پیش کیا گیا۔
عابدہ پروین، عارفہ سیدہ زہرہ اور ماہرہ خان سمیت کئی پاکستانی گلوکار، اداکار، ماہرینِ تعلیم اور مصنفین اس تقریب کے دوران سیشنز اور مباحثوں کا حصہ تھے۔
ماہرہ خان نے کہا، “میں بہت خوش ہوں کہ میں نے پہلی بار جشنِ ریختہ میں شرکت کی ہے اور مجھے بار بار یہاں آنے کی امید ہے۔”
“اور ایسے پلیٹ فارم پر بار بار آنے کی امید ہے جہاں ہر جگہ سے فنکار برادری جو اس زبان سے محبت اور اس کی قدر کرتی ہے، وہ ایک ساتھ بیٹھ کر کہانیوں، شاعری پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔”
فیسٹیول میں شفقت علی خان کا ایک صوفی کنسرٹ، زہرہ، عدیل ہاشمی اور ہندوستان کے جاوید اختر کی اردو پر گفتگو کے ساتھ ساتھ ہفتہ کو ثمینہ نذیر کی کتاب ’’سیاہ ہیرے‘‘ کی رونمائی بھی ہوئی۔
بعد ازاں عابدہ پروین نے راگ اور موسیقی کی شب میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
اتوار کو بی گل نے پاکستانی اداکاروں ثمینہ پیرزادہ اور عثمان پیرزادہ کے ساتھ ایک سیشن منعقد کیا جس کا عنوان تھا ’میرا فن میری زندگی‘۔
اس کے بعد ’کہانی سے کردار تک‘ کے عنوان سے ایک مباحثہ ہوا جس میں ماہرہ خان، ثمینہ پیرزادہ اور عدیل ہاشمی شامل تھے اور زرمینہ انصاری کی تدوین کردہ کتاب گلستان سعدی کی رونمائی ہوئی۔
جشنِ ریختہ کو اردو زبان کا دنیا کا سب سے بڑا ادبی میلہ کہا جاتا ہے جس کا اہتمام ہندوستان کی ریختہ فاؤنڈیشن نے کیا ہے جو اردو ادب کے تحفظ اور فروغ کے لیے وقف ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے۔
یہ فیسٹیول اردو زبان سے محبت کرنے والوں کو اپنی شاعری اور کہانیاں مختلف اوپن فورمز پر شیئر کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔
ارباب سخن شکاگو اور ہم شاعر و ادیب انٹرنیشنل کے زیر اہتمام زوم پر 2 مارچ 2024 بروز ہفتہ مزاحیہ مشاعرہ و مذاکرہ (اردو میں طنز و مزاح )
ہندوستان: ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام “جشن ادب 2024”
ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام جشن ادب 2024 کے آخری دن اردو کے ممتاز نقاد، دانشور، محقق اور ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ کی حیات و خدمات پر مبنی یک روزہ قومی سمپوزیم کا انعقاد عمل میں آیا۔
سحرنیوز/ ہندوستان: میڈیا رپورٹوں کے مطابق دہلی میں منعقدہ سمپوزیم کے افتتاحی اجلاس میں مہمانِ خصوصی شاعر، نغمہ نگار، ہدایت کار، کہانی کار گلزار نے پروفیسر نارنگ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ابھی یقین نہیں ہورہا کہ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ اردو کی ہر محفل میں ہماری آنکھیں اُن کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔
پروگرام کے آغاز میں اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی۔ ساتھ ہی انھوں نے نارنگ صاحب سے اپنے ذاتی تعلقات کے بارے میں کہا کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں اُس میں پروفیسر نارنگ کا بہت اہم رول ہے۔
تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے ساہتیہ اکادمی کے اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر چندربھان خیال نے پروفیسر نارنگ کی ادبی زندگی، اُن کی کتابوں اور انعامات و اعزازات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر نارنگ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور وہ اردو کے سفیر کہے جاتے تھے۔
اس خصوصی پروگرام میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اہلیہ محترمہ منورما نارنگ نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔
مہمانِ اعزازی اردو کے ممتاز نقاد و دانشور پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ اُن کا نارنگ صاحب سے تعلق پچاس برس سے زائد عرصے پر محیط ہے۔
ممتاز اردو نقاد و دانشور نظام صدیقی نے اپنا پُرمغز کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں جب نارنگ صاحب سے مصافحہ کرتا تو محسوس ہوتا تھا کہ ہندوستان کی روح سے مصافحہ کر رہا ہوں۔
اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ساہتیہ اکادمی کے صدر جناب مادھو کوشک نے کہا کہ جب کوئی ادیب ’اسکول آف تھاٹ‘ بن جائے تو وہ ایک ادارے کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ پروفیسر نارنگ کی حیثیت ہندوستانی ادب میں ایک ادارے کی ہے۔
افتتاحی اجلاس کے بعد پہلے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ پروفیسر نارنگ نے فکشن تنقید پر جو کام کیا ہے اس کا اثر تا دیر قائم رہے گا۔
اس سیشن میں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے اپنے مقالے میں کہا کہ ’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ پروفیسر نارنگ کی سب سے اہم کتاب ہے۔ اجلاس میں پروفیسر اسلم جمشیدپوری اور ڈاکٹر احمد صغیر نے پروفیسر نارنگ کی فکشن تنقید سے متعلق اپنے مقالے پیش کیے جبکہ ڈاکٹر دانش الٰہ آبادی نے پروفیسر نارنگ کی شخصیت پر بھرپور مقالہ پڑھا۔
دوسرے تکنیکی اجلاس کی صدارت شین کاف نظام نے کی اور کہا کہ ادب کا فلسفے کے حوالے سے فن سے رشتہ پہلی بار پروفیسر نارنگ نے تشکیل دیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر خالد محمود، ڈاکٹر اسد رضا، ڈاکٹر شاہینہ تبسم اور پروفیسر طارق چھتاری نے اپنے اپنے مقالے پیش کیے۔
آخری اجلاس کی صدارت شمیم طارق نے کی اور اس اجلاس میں حقانی القاسمی، ف س اعجاز، ڈاکٹر قاسم خورشید اور پروفیسر محمد زماں آزردہ نے اپنے مقالے پیش کیے۔
واضح رہے کہ ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام منعقدہ 6 روزہ جشن ادب میں، جو 11 سے 16 مارچ تک دہلی میں منعقد کیا گیا، 175 سے زائد زبانوں کے 1100 سے زیادہ ادیبوں نے شرکت کی جو اپنے آپ میں ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
ارباب سخن شکاگو اور ہم شاعر و ادیب انٹرنیشنل کے زیر اہتمام زوم پر ۲ مارچ ۲۰۲۴ بروز ہفتہ کو مزاحیہ مشاعرہ و مذاکرہ (اردو میں طنز و مزاح ) منعقد کیا گیا ۔
مذاکرہ کی صدارت مشہور شاعرا ور ادیب ڈاکٹر توفیق انصاری احمد شکاگو اور نظامت پروفیسر مسرور قریشی مدیر ا علی جذبہ پوسٹ شکاکو نے کی اور مشاعرے کی صدر معروف سینئر شاعرہ انجم عثمان کراچی پاکستان اور نظامت معروف شاعرہ و ناظمہ افروز رضوی کراچی پاکستان نے فرمائی ۔ جناب ریحان آقاق (کراچی ، پاکستان)، محترم مجاہد لالٹین الہ آبادی، (الہ باد، انڈیا )صاحبآن نے مہمانان خصوصی واعزازی کی حیثیت سے مذاکرےاورمشاعرے کو وقار بخشا۔ محبان اردو نے اس تقریب کو ہم شاعر و ادیب انٹرنیشنل کے فیس بک پر براہ راست لائیو دیکھا۔
کامران عثمان کراچی پاکستان اور ڈاکٹر افضال الرحمن افسر شکاگو کی کاوشوں سے اس پہلے مشترکہ طنزیہ و مزا حیہ عالمی پروگرام منعقد ہوا ۔
پروگرام کی شروعات تلاوت قرآن پاک سے کی گئی۔ انتظامیہ سے جناب ڈاکٹر ڈاکٹر افضال الرحمن افسؔرصاحب اور کامران عثمان صاحب نے سبھی مہمانان اور شرکاء کا خیر مقدم کیا۔ جناب ڈاکٹر توفیق انصاری احمد نے بزم کے انعقاد اور اس کے مقصد پر مقصد پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
اردو میں طنز ومزاح ” اس مذاکرے کا موضوع تھا۔
بین الاقوامی ادیب ، دانشور شاعر ڈاکٹر توفیق انصاری احمد نے مذاکرے کی صدارت فرمائی، پروفیسر مسرور قریشی نے نظامت فرمائی اور اردو میں طنز ومزاح پر گفتگو کی۔
محترم ریحان آفاق کراچی پاکستان نے”مرز ا غالب کی واٹس ایپ کال ” مکالہ پیش کیا ۔ ڈاکٹر افضال الرحمن افسر شکاگو نے اردو میں طنز ومزاح کےموضوع پر معلوماتی اور بڑا ہی دلچسپ پرزینڈیشن زوم پر پیش کیا ۔ صدر مذاکرہ ڈاکٹر توفیق انصاری احمد نے طنز و مزاح کے فرق کی وضاحت فرماتے ہوے مذاکرے کے ہر پہلو پر سیر حاصل گفتگو فرمائی۔.
بعد ازاں مشاعرہ منعقد ہوا جسکی صدارت محترمہ انجم عثمان نے اور نظامت محترمہ افروز رضوی نے کراچی پاکستان سے فرمائی۔
مشاعرے میں محترمہ شہاز رضوی، کراچی، پاکستان ، محترمہ ممتاز منور پیر بھائی، پونے، انڈیا، محترم شاداب انجم ، کامٹی، انڈیا، محترم جی ایم ساقی ، لاہور ، پاکستان، محترم ناصر فروز آبادی فروزآباد انڈیا، محترم راز رنگونی ، شکاگو ، یوایس اے، محترم ولی الدین ولی، شکاگو ، یوایس اے ،محترمہ طاہرہ ردا، شکاگو ، یوایس اے،محترم ڈاکٹر افضال الرحمن افسر شکاگو یو ایس اے، محترم عابد رشید شکاگو یو ایس اے،ڈاکٹر توفیق انصاری احمد شکاگو، یو ایس اے، محترم مجاہد لالٹین الہ آبادی، انڈیا، ، محترم کامران عثمان لاہور پاکستان، نے شرکت فرمائی۔
پاک وہند کے شعرا کا شارجہ میں سال کا پہلے اردو مشاعرہ کا انعقاد
پاک وہند کے شعرا کا شارجہ میں سال کا پہلا اردو مشاعرہ ،شرکا نے اپنے اپنے رنگ میں بہترین اشعار سنائے
نامور شعراء نے اپنا کلام پیش کیامشاعرے کی صدارت ظہیر مشتاق رانا نے جبکہ احیاءبھوجپوری مہمانِ خصوصی تھے-
پاکستان سوشل سینٹر شارجہ میں سال کا پہلا مشاعرہ نجم فیلوز اور شہرِ سخن کی جانب سے منعقد کیا گیا، نجم فیلوز نے چارسالہ ادبی کاوشوں سے ایک منفرد پلیٹ فارم کا آغاز کیا ہے جہاں نہ صرف نامور شعرا نے اپنی شرکت سے اس کو معتبر بنایا بلکہ نئے شعرا کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی، متحدہ عرب امارات میں اپنے اس پہلے مشاعرے کے ساتھ نجم فیلوز نے اپنے ملک کی سرحد سے باہر آکر امارات میں مقیم پاکستانی اور ہندوستانی شعراءکو شامل کر کے اپنی ادبی کاوشوں کے دائرے کو وسیع کیا، جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں، مشاعرے کی صدارت ظہیر مشتاق رانا نے کی جبکہ احیاءبھوجپوری بطور مہمانِ خصوصی اور میگی اسنانی نے مہمان اعزاز کے طور پر شرکت کی، دیگر شعرا میں غلام عباس نجم ، معید مرزا، فیاض اسود، مسکان سید ریاض، عدنان منور، سرفراز سرمد، حسین علی حسنین اور اظہر ریاض شامل تھے، جنہوں نے اپنے اپنے رنگ کے بہترین اشعار سناکر سامعین کو سرشار کیا، ظہیر مشتاق رانا کے صدارتی کلمات اور کلام کے ساتھ مشاعرہ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچا، مشاعرے کے اختتام پرغلام عباس نجم، عدنان منور اور ڈاکٹر نور الصباح نے پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کا شکریہ ادا کیا، ڈاکٹر نور الصباح کی جانب سے عشائیہ کا پر تکلف انتظام کیا گیاتھا۔
غالب اکیڈمی میں اردو ادب کے پچہتر سال کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد
غالب اکیڈمی ،نئی دہلی میں وزارت ثقافت کے تعاون سے امرت مہوتسو کے تحت ایک کل ہند سیمینار’’ اردو ادب کے پچہتر سال‘‘ کے عنوان سے منعقد کیا گیا۔ شمیم طارق نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ غالب کے خطوط کی سلاست اور نفاست رشید احمد صدیقی، شبلی نعمانی،سردار علی جعفری اور ظ۔انساری کے یہاں نظر آتی ہے۔ مگر بعد میں یہ روایت مزاحیہ اور غیر مزاحیہ نثر میں تقسیم ہوگئی۔ بعض مزاحیہ نثر مضحکہ خیز نثر کہے جانے کی مستحق ہے۔پچہتر سال میں اردو میں ویدک ادب پر لکھا گیا۔جاں نثار اختر نے اپنشدوں کو سامنے رکھ ’’آدمی کا گیت‘‘ لکھا ہے۔جینت پرمار نے دلت ادب پر لکھا۔آدی واسی علاقوں تک اردو کی وہ رسائی نہیں ہوئی جو ہونا چاہیے تھی۔ گوپی چند نارنگ نے مطالعہ لسانیات کو اردو تنقید کا جز بنایا۔میر انیس اور علامہ اقبال کے کلام کا لسانیاتی جائزہ پیش کیا۔ شمیم طارق نے بنارس ہندویونیورسٹی کے شعبۂ اردو اور ہندی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سیمینار کا خصوصی ذکر کیا جو اردو اور ہندی کے ساجھی وراثت کے موضوع پر منعقد ہوا تھا۔ نکڑ ناٹک کی روایت قائم ہوئی اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں۔ثقافتی مطالعہ کا رجحان بڑھا۔ترجمہ کے ضمن میں ظ۔انصاری کے روسی زبان سے اردو میں بہترین تراجم سے پچہتر سال میں اردو کا دامن وسیع ہوا۔
افتتاحی اجلاس میں ڈاکٹر نفیس بانو نے پچہتر سال میں اردو غزل کے عنوان سے مقالہ پڑھا۔صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ اردو میں فارسی روایات کا گہرا اثر ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر جی آر کنول نے کہا کہ پچہتر سال میں اردو تعلیم کا نظام بدتر ہوا ہے۔ اس دوران لسانی مطالعہ،ادب کا مارکسی مطالعہ،جدیدت کی تحریک کے تحت ادب تخلیق ہوا۔دوسرے اجلاس میں پروفیسر قاضی جمال حسین نے’’ اردو نظم جدیدیت کے بعد‘‘ کے عنوان سے مقالہ پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ غالب کلاسیکل شاعری کا آخری اور جدید شاعری کا پہلا شاعر تھا۔ منشور بنانے سے زندگی کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا۔ترقی پسندی سے طرز احساس اور عصری حسیت بدل گئی۔ پچاس سال میں نظموں میں تبدیلی آئی ،طرز احساس بدل گیا۔ساٹھ ستر سال میں نظر یے بدل جاتے ہیں۔ڈاکٹر نگار عظیم نے اردو افسانے میں تانیثیت میں کہا کہ عورت کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے استحصال کی راہیں بھی ہموار ہوئیں۔نعیمہ جعفری نے اپنے مقالے میں اردو ناول کا ارتقا کا منظر نامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پچہتر سال میں جو اردو ناول لکھے گئے وہ قابل اطمینان اور قابل فخر ہیں۔
ڈاکٹر شاداب تبسم نے جاوید احمد کا مقالہ پچہپتر سال میں اردو صحافت پڑھ کر سنایا۔خالد علوی نے پچہتر سال میں غالب تنقید پر بولتے ہوئے کہا کہ مغلوں کی زندگی بہت مہذب اور شائستہ نہیں تھی۔انھوں نے یاس یگانہ چنگیزی کی کتاب غالب شکن کا ذکر کیا۔غالب پر لکھی گئی دوسری کتابوں نیر مسعود،خورشید الاسلام اور نارنگ صاحب کی غالب سے متعلق کتابوں پر گفتگو کی۔پروفیسر عبدالحق نے اپنی تقریر میں کہا کہ غالب کے فارسی کلام میں بڑی رنگینی ہے اور فارسی میں غالب نے کئی نعت لکھی ہے۔خالد محمود نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ایک وسیع موضوع کو چار گھنٹوں میں مقالہ نگار حضرات نے بیان کیا۔ اس میں غیر افسانوی نثر کا ذکر ہونا چا ہییے۔ پروفیسر قاضی افضال حسین نے اپنی صدارتی تقریر میں مقالہ نگاروں کی ستائش کی اکیڈمی کے صدر ڈاکٹر جی آر کنول نے سامعین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مقالہ طویل لکھے جائیں لیکن اس کی تلخیص بھی تیار کرلی جاے۔
علامہ اقبال کی یاد میں بزم اردو قطر کے زیراہتمام مشاعرہ
قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم ‘بزمِ اردو قطر’ قائم شدہ 1959ء کے زیرِ اہتمام حکیم الامت، شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کی یاد میں پر وقار مشاعرے کا انعقاد 8 مارچ 2024 بروز جمعہ کی شام کو مازا کے وسیع ہال میں ہوا۔ مشاعرے کی صدارت بزم کے سرپرست ڈاکٹر خلیل اللہ شبلی نے فرمائی جب کہ حلقہ ادب اسلامی قطر کے صدر اور معروف شاعر مظفر نایاب نے مہمانِ خصوصی کی مسند کو رونق بخشی۔ مہمانِ اعزازی کے حیثیت سے بزم کے دیرینہ رکن شمس الدین رحیمی شریکِ مشاعرہ ہوئے۔ نظامت کے فرائض بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری افتخار راغب نے ادا کیے۔ حافظ سیف اللہ محمدی کی تلاوتِ کلامِ اللہ سے بابرکت آغاز کے بعد افتخار راغب نے بزم اردو قطر کے مختصر تعارف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ تمام شعرائے کرام اور سامعین کا پرخلوص استقبال کیا۔
مشاعرے کے پہلے حصے میں بزم کے نائب سیکرٹری و خوش فکر شاعر سید فیاض بخاری کمال نے اپنا مضمون بعنوان “فلسفۂ خودی کی معنویت و افادیت” پیش کیا۔ دوسرا مضمون بزم اردو قطر کے چیئرمین اور صاحبِ اسلوب نثر نگار ڈاکٹر فیصل حنیف کا بعنوان “اقبال- شاعر یا مفکر” پیش ہوا۔ دونوں مضامین کو حاضرین نے خوب پسند فرمایا اور داد و تحسین سے نوازا۔
جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈلنگویجز کے زیر اہتمام ابھینو تھیٹر میں آل اِنڈیا اردو مشاعرے کا اِنعقاد
پرنسپل سیکرٹری نے جموں میں آل اِنڈیا اُردو مشاعرے کا اِفتتاح کیا
جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈلنگویجز (جے کے اے اے سی ایل) کے زیر اہتمام ابھینو تھیٹر میں آل اِنڈیا اردو مشاعرے کا اِنعقاد کیا۔ یہ ایونٹ سال 1960 ءمیں شروع کیا گیا تھا اور تب سے یہ جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈلنگویجز (جے کے اے اے سی ایل) ہر برس اِس کا اِنعقاد باقاعدگی سے کر رہی ہے ۔ جے کے اے سی ایل کی طرف سے 75 ویں یوم جمہوریہ کے موقعہ پر منعقدہ تقریب میں جموںوکشمیر یوٹی اور ملک کی ریاستوں اور یوٹیز کے مشہور شعرا ¿ نے شرکت کی۔پرنسپل سیکرٹری ثقافت سریش کمار گپتانے مشاعرے کا اِفتتاح کیا جواِس موقعہ پر مہمان خصوصی تھے۔ اِس موقعہ پر وائس چیئرپرسن جموںوکشمیر وقف بورڈ ڈاکٹر درخشاں اَندرابی، سیکرٹری جے کے اے اے سی ایل بھرت سنگھ اور دیگر مہمانان موجود تھے۔
اِس موقعہ پر سیکرٹری جے کے اے اے سی ایل نے تجربہ کار اور نامور شعرا ¿ اور مہمانوں کا خوش آمدید کہا۔اُنہوں نے نئے خیالات کی تشکیل میں اَدبی شخصیات اور اس مشاعرہ جیسی تقریبات کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی تقریبات نہ صرف اَدبی صلاحیتوں کو اکٹھا کرتی ہیں بلکہ ہمارے لسانی اور ثقافتی ورثے کو بھی اُجاگر کرتی ہیں۔آج کے مشاعرہے میں دہلی سے چندر بھان خیال، بھوپال ایم پی سے جیوتی آزاد کھتری، گونا ایم پی سے اسلم رشید، چندیری سے اسرار چندیری، گوالیار سے مدن موہن دانش، دھرم شالہ ایچ پی سے کرشنا کمار، جالندھر سے رینو نیئر کے علاوہ ڈاکٹر درخشاں اندرابی سری نگر، پرویز مانوس سری نگر، احمد شناس جموں، خورشید بسمل راجوری، غلام نبی غافل مروہ دچن، توصیف تابش بھدرواہ، سہیل صدیقی بھدرواہ، عرفان عارف پونچھ اور پرویز ملک راجوری درہال شامل ہیں۔